اسفار حضرت رئیس الجامعہ
مؤرخہ یکم ستمبر ۲۰۱۸ء حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم اکل کوا سے بڑودہ کے لیے روانہ ہوئے ۔ جامعہ کے خاص محسن سلیم بھائی سورتی کے یہاں کھانے سے فراغت کے بعد احمد آباد کا رخ کیا۔احمد آباد پہنچ کر جامعہ کے معاونِ خاص الحاج ایوب بھائی بھٹا والا کے یہاں رات قیام فرمایا۔اور صبح احمد آباد سے بذریعہ فلائٹ وجے واڑہ کے لیے رواں دواں ہوئے ۔وہاں پہنچ کر جامعہ کی شاخ جامعہ منبع الہٰدی ایلور ، ومدرسۃ البنات ایلور کے سالانہ جلسے میں شرکت فرمائی ۔
جلسے سے قبل حضرت دامت برکاتہم نے مدرسۃ البنین و بنات کی فلائنگ وزٹ فرمائی ۔اس اجلاس میں حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم نے تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے والدین کو یہ تلقین فرمائی کہ وہ اپنے اولاد کی دینی و عصر ی تعلیم پر زور دیں ۔
مدرسہ کے ناظم تعلیمات مولانا سیف اللہ صاحب ندوی کے رپورٹ کے مطابق مدرسۃ البنین میں ۱۶۰؍ طلبہ اور مدرسۃ البنات میں ۳۲۰؍ طالبات زیر تعلیم ہیں ۔
دینیات اور حفظ ِقرآن کے علاوہ عصری تعلیم کا بھی معقول نظام ہے ۔
طلبہ وطالبات کے لیے کمپیوٹر اور ٹیلرنگ کی بھی تعلیم دی جاتی ہے ۔
حضرت رئیس الجامعہ وشاکھا پٹنم میں :
۲؍ ستمبر۲۰۱۸ء کو حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم ایلور کے پروگرام سے فراغت کے بعد وجے واڑہ سے روانہ ہوکرجامعہ کی شاخ مدرسہ جامعہ اشرف العلوم پدا نروا ، اور جامعہ عائشہ صدیقہ ؓ للبنات پدا نروا ، وشاکھاپٹنم، (اے پی) تشریف لے گئے ۔یہاں پہنچتے ہی طلبہ نے پرزور استقبال کیا ۔
مدرسہ کی مسجد میں اجلاس ہوا جس میں حضرت نے دینی و دنیوی تعلیم کی اہمیت پر مختصر اور جامع خطاب فرمایا ۔
واضح رہے کہ ۱۹۹۹ء میں حضرت رئیس الجامعہ یہاں تشریف لائے تھے اور یہاں کی جہالت اور تعلیمی پسماندگی کو دیکھ کر حضرت نے مدرسۃ البنین اور مدرسۃ البنات کا قیام عمل میں لا یا تھا ۔
فی الحال مدرسۃ البنین میں ۱۵۳؍ طلبہ اور مدرسۃ البنات میں ۱۶۶؍ طالبات زیر تعلیم ہیں ۔
اب تک ۱۲۵؍ حفاظ ، مدرسہ ہذا سے تعلیم پاکر’’ اکل کوا‘‘ و دیگر مدارس کارخ کیا اوراب تک اس ادارے کے تعلیم یافتہ ۴۸؍طلبہ عالم اور۱۰؍ طلبہ افتا ء کی اسناد حاصل کرچکے ہیں ۔
دینی و عصری تعلیم کے علاوہ طلبہ کو کمپیوٹر اورطالبات کو ٹیلرنگ اور ڈیزائننگ وغیرہ جیسے ہنرسے بھی آراستہ کیا جاتا ہے ۔
جامعہ ہذا کے اندر اسکولی نظام انگلش میڈیم SSC تک ہے ۔ اب تک۳۰؍ طلبہ SSC پاس کرچکے ہیں۔ امسال اسکول کا رزلٹ ۱۰۰؍ فیصد رہا ۔
مدرسہ کے زیر نگرانی ۲۵؍ مکاتب بھی چل رہے ہیں ۔مدرسہ کے ناظم مولانا مطیع الرحمن صاحب مدظلہ العالی اور ان کے اساتذہ کی ٹیم کی محنت رنگ لارہی ہے ۔
یاد رہے کہ حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم نے مدرسہ ہذا کے مجلس شوریٰ کے رکن جناب سہیل خان بھائی کی دخترِ نیک اختر کی تقریب ِعقد مسعود میں شرکت فرمائی اور نکاح بھی پڑھایا ۔
اور ۳؍ ستمبر ۲۰۱۸ء بروز پیر بوقت صبح حیدرآباد سے بدنا پور کے لیے روانہ ہوگئے ۔
حضرت مولانا وستانوی صاحب ایم بی بی ایس میڈیکل کالج بدنا پور میں :
حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم نے بدنا پور پہنچ کرا یم بی بی ایس میڈیکل کالج بدناپورکے چھٹی بیچ کے استقبالیہ پروگرام میں شرکت فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اور قارئین ِشاہراہ علم کی دعاؤں سے ایم بی بی ایس میڈیکل کالج بدناپور کی چھٹی بیچ کے لیے سرکاری رول کے مطابق ایڈمیشن شروع ہوچکا ہے ۔ فللہ الحمد علی ذالک !
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔ میڈیکل کالج کے ڈین ڈاکٹر اے بی شولاپورے صاحب نے کالج کے تمام اسٹودنٹس کو کالج میں ریگولر حاضری اور اپنے منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے محنت کو ضروری قرار دیا ۔
اخیر میں حضرت رئیس الجامعہ دامت برکاتہم ایم بی بی ایس میڈیکل کالج کے اسٹوڈنس کا فائنل رزلٹ 97.97% آنے کی وجہ سے بہت خوش ہوئے اور انہیں مبارک بادی پیش کی ۔نیز گلدستہ پیش کرکے ان کا استقبال کیا اور طلبہ کو ماہر ڈاکٹر بننے کے لیے محنت اورکوشش کی تلقین کرتے ہوئے ان کے روشن مستقبل کے لیے دعا فرمائی اور مجلس کا اختتام عمل میں آیا ۔
تعلیمی بیداری کی طرف جامعہ اکل کواکا لائقِ تقلید اقدام :
۲۰؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء جامعہ اکل کوا میں جامعہ اور جامعہ کے ماتحت چلنے والے ہائی اسکول اور جونیر کالجز کے پرنسپل اور ہیڈ ماسٹرز کا یک روزہ تعلیمی بیداری کیمپ منعقد کیا گیا ۔
جامعہ اکل کوا کے پریسیڈنٹ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی نے جہاں ملک بھر میں مدارس اور مکاتب کے ساتھ ساتھ ضرورت کے پیشِ نظر علومِ عصریہ کے اسکول اور کالجز کا جال بچھا رکھا ہے ،وہیں ان اداروںکو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے مستحکم اور ٹھوس بنانے کے لیے وقتاً فوقتاً مفید اقدام کرتے رہتے ہیں ۔
یہ پروگرام بھی تعلیم میں ’’کوالیٹی مینٹن‘‘ کرنے کی ایک اہم فکری اور تربیتی کڑی تھی ۔ اس کیمپ کا افتتاح مولانا وستانوی صاحب نے اپنے گراں قدر تجرباتی اور حکمتی کلمات سے کیا ۔ آپ نے ان پرنسپل صاحبان کو ڈھیر ساری گر کی باتیں بتاتے ہوئے کہا :
(۱)… پرائمری اسکول پر خاص توجہ دینی چاہیے؛ کیوں کہ یہی آگے کی تعلیم کے لیے کلید ، جڑ اور بنیاد ہے ۔
(۲)…پرنسپل کو ہمیشہ بیدار مغز ہونا چاہیے ، وہ تعلیمی ، تربیتی ہر اعتبارسے اساتذہ ، طلبہ ، ملازمین ؛ کی ذمے داریوں پر ہمیشہ نگاہ رکھے اورکسی بھی اعتبار سے کوئی لچک نہ آنے دے ۔
(۳)…بچوں کی پرسنالٹی ڈولپمینٹ پر خاص توجہ رکھنی چاہیے ۔ جس بچے میں جو خوبی نمایاں ہو، وہ جس فیلڈمیں ماہر ہو اسے اس میںبڑھنے کا پورا موقع دینا چاہیے ۔ بچے بہترین بولنے والے ہوں، عمدہ لکھنے والے ہوں، ان کی سوچ بلند ہو ، اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ۔
(۴) …بچپن ہی سے بچے اچھے عادات واطوار کے مالک بنیں ۔ اس بات کی پوری فکرہوکہ بری صحبتوں ، نشے اور دوسری برائیوں سے دور رہیں ۔
(۵) …کوئی بچہ اگر اسکول نہ آئے یا اس کی غیر حاضری ہوتو فوراً وجہ معلوم کرنی چاہیے ۔ اور اس کے لیے فکر مند ہونا چاہیے۔ ہر ایک بچہ قیمتی ہے ، کوئی بچہ ضائع نہ ہو اس کی ہمیشہ فکر ہونی چاہیے ۔
جو بچے ذہین اور ٹائلینٹیڈ ہوں، وہ ہمارے سامنے ہونے چاہییں، ان کی آگے کی بہتر تعلیم کے لیے جامعہ پورا تعاون کرے گا ۔مدارس و مکاتب کے ساتھ ہمارا اسکول کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ ہمارے بچوں کے ایک ہاتھ میں حفظ کی سند ہو اور دوسرے ہاتھ میں scc کا سرٹیفکیٹ ۔
یہ طلبہ قوم کی امانت ہیں ،ان امانتوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے ۔ان کی تعلیم اور تربیت میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے اور اس طرح کی بہت ساری قیمتی باتوں کی سوغات سے رئیس الجامعہ نے پرنسپل حضرات کو مسرور کیا ۔
اس تربیتی مجلس میں۳۱؍ پرائمری اسکول ، ۳۶؍ ہائی اسکول اور ۱۳؍ جونیر کالجزیعنی کل ۸۰؍ کالجز کے پرنسپل اور ہیڈ ماسٹرز حضرات تشریف لائے تھے ۔ الحمد للہ ان اسکولوں میں کل۶۴۹؍ ٹیچرز ہیں اور ان اسکولوں میں ۱۳۴۱۶؍ طلبہ تعلیم پارہے ہیں ۔
آپ کے خطاب کے بعد درمیان میں کامیاب اور تجربہ کار پرنسپل اور نظما حضرات کی بھی قیمتی اورتجرباتی باتیں ہوئیں جو بڑی مفید رہیں ۔ ہر ایک نے تعلیمی معیار کی بہتری اور تربیتی واخلاقی کردار کی تعمیر سے متعلق گراں قدر کلمات کا تحفہ سامعین کی نذر کیا ۔
اخیرمیں جامعہ کے C.E.O مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے پیش کردہ تجاویز کو جلد از جلد عمل میں لانے کی حامی بھری اور سال میں ۱؍ مرتبہ ایجوکیشن ، ڈولپمینٹ کے اس کیمپ کے انعقاد کرنے کی تجویزکو منظوری دی اور ساتھ ساتھ ’’Train to trainer ‘‘ کے تحت تمام ٹیچروں کی بھی ۱؍ تربیتی کیمپ رکھنے کے مشورے کو سراہا اور ایک نہایت عمدہ تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا: کہ ہم اپنی اس اہم مہم کو اپنے اداروں تک محدود نہ رکھتے ہوئے اپنے علاقوں میں بھی پھیلائیں۔ہر پرائمری اسکول اور جونیر کالج کے پرنسپل حضرات اپنے اپنے علاقے کے تمام اسکولوں، کم ازکم مسلم اسکولوں کے اساتذہ اور ٹیچرز کو جمع کرکے یہ کیمپ رکھیں اور ان کے اندر یہ فکر پیدا کریں اور یہ دھن سوار کریں کہ یہ بچے امانت ہیں ، ان کا وقت امانت ہے ، یہ ضائع نہیں ہونے چاہئیں ۔ اورہرایک مسلمان اپنی تنخواہ کو حلال کیے بغیر اپنے پیٹ میں نہیں ڈال سکتا ،اس لیے ہم ان بچوں پرخوب محنت کریں ۔ ان ٹیچروں کو بتائیں کہ ایک معلم کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے ، اور ان کی لاپرواہی سے کتنا بڑا نقصان ہوتا ہے ۔اور اپنے والد مولانا غلام محمد صاحب وستانوی کے جملے کودہراتے ہوئے کہا کہ ہمیں تعلیم میں’’ کوئیلیٹی مینٹن‘‘ کرنا ہے۔ نیز فرمایا: کہ ہم زمانے سے اچھی طرح باخبر ہیں اور اس کے لیے ہر اعتبار سے تیار ہیں NIT اور C.E.T کے امتحانات کی وجہ سے اب دسویں اور بارہویں کی قدر پہلے کی طرح نہیں رہی ؛ اس سلسلے میں جامعہ ایم فارمیسی کالجز کے پرنسپل ڈاکٹر جاوید کو ذمے داری سونپی گئی ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو ایک سال قبل ہی سے ان امتحانات کی مکمل تیاری کروادیں ۔
اسی طرح تعلیمی معیار میں برتری کے لیے ہم ’’سرپرائز وزٹ‘‘ کا نظام بھی بناچکے ہیں ، اور اس کے لیے کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے ، جو کبھی بھی کسی بھی اسکول میں پہنچ کر تعلیمی کیفیت کا جائزہ لے سکتی ہے اور کہا کہ ہم تعلیم وتربیت کو بہتر بنانے کے لیے ہرمفید اور ممکن کوشش کرتے ہیں اور کرتے رہیںگے ۔
آپ ہی کی بات اور دعا پر اس کیمپ کا اختتام ہوا ۔
تمام آئے ہوئے پرنسپل حضرات نے اسے مفید قرار دیا اور اظہار ِمسرت کرتے ہوئے مستقبل کے لیے عمدہ پیش رفت باور کیا ۔