جامعہ کے ایک مثالی استاذ کی رحلت

مفتی محمد مجاہدپھلمبری /استاذ جامعہ اکل کوا

            جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے قدیم و مقبول ترین اولین بزرگ استاذ، صاحبِ فضل وکمال، استاذ الاساتذہ،استا ذِ تفسیر وحدیث،فقہ واصول فقہ، مشفق ومربی حضرت مولانا حسن ابراہیم صاحب ستپونی# رحمہ اللہ کی رحلت ہم اہلیان جامعہ کے لیے نہایت ہی جاں گداز ہے ۔

حلیہ :

            حضرت مولانا حسن ابراہیم صاحب مناسب قدوقامت،نورانی چہرہ،سفیدمگرچمکتی دمکتی داڑھی، سفیدپوشاک، کندھے پر لال رومال،سر پر پانچ کلی ٹوپی،دورسے بارعب،لیکن قریب آنے پر ہنس مکھ،خوش مزاج ومذاق،صاحب جلال وجمال اور بہت پیارے بزرگ استاذ تھے۔

تعلیم:

            موصوف مرحوم نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے وطن” ستپون“ ضلع بھروچ میں حاصل کی اور پھر دارالعلوم حسینیہ راندیر میں شعبہٴ عا لمیت کی تکمیل کی اور ہمیشہ اول نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے۔ آپ کی محنت، کامیابی اور حسن ِاخلاق کودیکھ کر صوبہٴ گجرات کے مشہورومعروف عالم ِدین اور مدرسہ حسینیہ کے شیخ الحدیث وناظم تعلیمات حضرت مولانا مفتی اسماعیل صاحب واڈی والا رحمہ اللہ نے اپنی لخت ِجگرکے لیے شریک حیات کے طور پر آپ کو منتخب کیا۔

آمد جامعہ:

            موصوف مرحوم کا ۲۷/ شوال ۱۴۰۳ھ کوجامعہ اکل کوا میں تقررہوا۔ محلہ مکرانی پھلی سے ہی آپ جامعہ اکل کوا کے استاذ رہے۔ آپ جامعہ کے شعبہٴ عا لمیت کے پہلے استاذ تھے۔ عربی اول کی نحو وصرف کی کتابوں سے لے کر دورہٴ حدیث شریف کی معرکة الآراء کتاب” شرح معانی الآثار“(طحاوی شریف)تک کی سبھی کتابیں آپ نے بحسن و خوبی پڑھائی۔ خصوصاً آپ کا طحاوی شریف کا سبق مشہور ومقبول تھا۔ برسوں سے آپ عربی پنجم میں ترجمہٴ قرآن، ہدایہ اولین،عربی ششم میں ہدایہ اخیرین،مشکوٰة شریف اوردورہٴ حدیث شریف میں شرح معانی الآثار کی تدریس فرماتے رہے۔ آپ کا درس نہایت جامع ،غیر مطول اور مرتب ہوتاتھا۔حل عبارت اور افہام مسائل ودلائل پر خاص توجہ مبذول فرماتے تھے۔ درس میں غیر ضروری بات کبھی نہیں فرماتے،ہدایہ، مشکوة یاطحاوی کی عبارتیں گویا حفظ تھیں،یہی وجہ تھی کہ کوئی طالب علم عبارت کے دوران ذرا سی بھی غلطی کرتا تو فوراً گرفت فرماتے۔

درس کا اہتمام :

            حضرت استاذِ مرحوم کے یہاں سبق کا بہت اہتمام تھا۔ سردی،گرمی یابارش کاموسم ہو صبح گھنٹی سے دس پندرہ منٹ پہلے پہنچنا لازم تھا۔

            آپ کی چالیس سالہ تدریسی خدمات کے دوران بہ مشکل چند ایام ہی رخصت ہوگی۔ آپ کبھی غیرحاضری یاسبق کاناغہ نہ فرماتے۔ تعطیلات کے بعد پہلے دن حاضرہوجاتے عید الاضحٰی اور ششماہی کی تعطیلات کے بعدپہلے ہی دن سے سبق شروع فرماتے۔ طلبہ کی غیر حاضری پر سخت ناراضگی کا اظہار فرماتے۔ ہردن کے سبق کی مقدار کا خاص خیال فرماتے۔ آپ کا نصاب ہمیشہ ایک معتدبہ مقدار کے ساتھ جاری رہتااور کبھی نصاب کم یا زیادہ نہیں ہوتاتھا۔

طلبہ کی تعلیم وتربیت کی فکر:

            کہاجاتا ہے کہ انسانی زندگی کانقشہ بدلنے میں قول سے زیادہ عمل کادخل ہوتا ہے۔ اس لیے آپ خود پابند ِشریعت اورسنت ِرسول صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کے متبع تھے اور اپنے طلبا کو بھی پابندشریعت اورمتبع سنت رہنے کی ہمیشہ تلقین فرماتے۔ صاف صفائی ناخن بال،کپڑوں پرخصوصی توجہ دیتے۔ آپ محنتی معلم،ایک مخلص مربی اورجامعہ کے بے لوث خادم تھے اور طلبہ کی تعلیم وتربیت کے تئیں بہت فکرمندرہتے تھے۔

طلبہ کو تحریض، ترغیب اور ترہیب:

            آپ طلبہ کو تعلیم حاصل کرنے پر خوب ابھارتے،جامعہ آنے کامقصد یاددلاتے اور مستقبل کے برے انجام سے ڈراتے تھے۔ آپ اس انداز میں نصیحت فرماتے کہ طلبہ بھی دل وجان سے اپنی صلاحیت وصالحیت کی فکر میں لگ جاتے تھے۔

آپ بے ضرر تھے :

            اپنی زبان وبیان سے کبھی کسی کو کسی طرح کی تکلیف نہیں پہنچائی۔ ہم نے حضرت رئیس الجامعہ اور استاذمحترم حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی مد ظلہما کی زبانی کئی مرتبہ سنا کہ ہمارے پڑوسی حضرت مولانا حسن صاحب ہیں، لیکن ہمارے درمیان کبھی کسی طرح کاکوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ آپ نے کبھی کسی کو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہیں پہنچائی۔ آپ کبھی کسی سے انتقام نہیں لیتے تھے،بل کہ صبر وشکر والی زندگی گزارتے تھے۔

            پوری زندگی قناعت پسندی اور کفایت شعاری کے ساتھ گذاری،کبھی کسی کے سامنے دست ِسوال دراز نہیں فرمایا۔ آپ ”الید العلیاخیر من الید السفلی“ کے سچے مصداق تھے۔

والدین سے تعلق:

            حضرت مرحوم اپنے والدین سے والہانہ محبت کرتے، ان کی ہر ممکن خدمت کرتے۔ تعطیلات کے موقع پر فرماتے کہ میں چھٹی ہوتے ہی فوراً والدین سے ملاقات کے لیے گھر چلاجاوٴں گا۔ والدین کی ملاقات کے بڑے مشتاق تھے اور وہ ہمیشہ فرماتے کہ میں بس سے سفر کرتا ہوں، پرائیویٹ گاڑی اس لیے نہیں کرتا کہ اس میں زیادہ پیسے لگ جاتے ہیں اور جو پیسے بچ جاتے ہیں وہ اپنے والدین کو دے دیتا ہوں۔ جب تک حضرت مرحوم کے والدین حیات رہے آپ تعطیلات کے بعد فوراً گھر ہی جاتے تھے اور عموماً بس سے ہی سفر کرتے تھے۔

طلبہ سے محبت :

            آپ طلبہ سے حددرجہ محبت کرتے اور غریب طلبہ کی کفالت فرماتے تھے۔ بعض طلبہ کے لیے یومیہ اپنے گھر سے کھانے کا انتظام فرماتے تھے، کئی بچوں کو اپنے جیبِ خاص سے وظیفہ اور گھرآنے جانے کاکرایہ دیاکرتے تھے،بل کہ برسوں سے آپ کایہ معمول تھا کہ کچھ بچوں کی مکمل تعلیم حاصل کرنے اور شادی بیاہ تک کا خرچ اپنے ذمہ لے لیتے اور ایک مشفق استاذ ہونے کے ساتھ ایک مہربان باپ کے فرائض انجام دیتے رہے اور تادم ِحیات یہ سلسلہ جاری رہا۔

             حضرت مرحوم کے گھر کاماحول بھی بہت دیندارانہ بل کہ تعلیمی وتربیتی تھا۔ جامعہ اکل کوا کے کوارٹر اور اکل کوا گاؤں کی کئی بچیوں نے حضرت مرحوم کے گھر پر خالہ جان (حضرت مرحوم کی اہلیہ محترمہ)کے پاس ناظرہ ٴقرآن مجید اور ضروری دینی مسائل، گھریلوکام کاج اورسلائی مشین جیسے ہنرسیکھیں۔ اور پھر کئی بچیوں کو آپ نے رشتہٴ ازدواج سے بھی منسلک کرادیا۔

حضرت مرحوم حسن اخلاق کے پیکر تھے:

            حضرت ہمیشہ بڑوں کا احترام اورچھوٹوں پرشفقت فرماتے۔ اپنے خوردوں کا بھی اکرام فرماتے تھے، مجھے یاد نہیں ہے کہ کبھی آپ نے اپنے فضلا میں سے کسی کو نام لے کر پکارا ہو۔ ہر ایک کو مولانا،مفتی صاحب اور قاری صاحب کہہ کرہی پکاراکرتے تھے۔ آپ ہرایک سے خندہ پیشانی سے ملتے، خیر خیریت معلوم کرتے، یقینا آپ حسن اخلاق کے پیکر تھے۔ اور بقول حضرت رئیس الجامعہ مرحوم نے چالیس سالہ تدریسی خدمات کے دوران انتظامیہ تک کوئی شکایت پہنچنے کا موقع نہیں دیا اور نہ ہی انتظامیہ سے کبھی کسی چیز کا مطالبہ کیا، جو ذمہ داری دی جاتی اسے قبول فرماتے اور بحسن و خوبی اسے انجام دیتے۔

            ساڑھے تین دہائی سے زائد آپ نے مسجد ِمیمنی میں شعبہٴ عا لمیت کے حفاظ طلبہ کی بعدِنمازمغرب صلاةالاوابین کی مسلسل نگرانی فرمائی۔ آپ کو جامعہ سے حددرجہ لگاؤ تھا؛ یہی وجہ تھی کہ تعلیم وتدریس سے علاحدگی کے بعد بھی باوجود ضعف ِبصارت اوربیماریوں کے آپ روزانہ اہتمام کے ساتھ جامعہ میں تشریف لاتے اور چندگھنٹے احاطہ میں ہی گذارتے۔

            مدرسہ تعلیم القرآن بیجاپور کی آپ کو نگرانی سپرد کی گئی تو آپ نے حضرت رئیس الجامعہ کے منشا کے مطابق تعلیم وتربیت اور تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کیا اور مدرسہ تعلیم القرآن بیجاپور کو چار چاند لگادیے۔ آپ تعطیلات ِششماہی اور ہرسال رمضان المبارک میں بیجاپور ہی میں قیام فرماتے اورتراویح وتفسیر اور وعظ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھتے۔ اپنے ساتھ کئی حفاظ طلبہ کو ساتھ لے جاتے اور بیجاپور کے دیہاتوں میں تروایح کاانتظام فرماتے۔ تعلیم القرآن بیجاپور سے سیکڑوں بچے حافظ بن کر اور چالیس پچاس طلبہ آپ ہی کی محنت سے جامعہ اکل کوا سے علما بن کر نکلے اور الحمدللہ اپنے اپنے مقام پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اساتذہٴ جامعہ سے تعلق :

            اساتذہٴ جامعہ میں سے ہرایک سے آپ کے مراسم بڑے اچھے تھے۔ ہرایک سے سلام کلام اور خیر خیریت معلوم کرتے۔ بیماری کی اطلاع ملتی تو تیمارداری فرماتے۔ اساتذہٴ جامعہ میں سے کسی کے یہاں ولادت ہوتی تو مع ضروری سازو سامان مبارکبادی پیش فرماتے۔ شادی بیاہ کے موقع پر تعاون فرماتے اور موت ومیت کے موقع پر غم میں برابرکے شریک ہوتے۔ اگر کسی استاذ کو کوئی سامان خریدنا ہوتا تو حضرت مرحوم ساتھ جاتے، بھاوٴ تاوٴ کرتے اور تجربہ کار ہونے کی وجہ سے عمدہ اشیا خرید کر دیتے۔ ایسے کئی لوگوں کے گھر حضرت مرحوم نے بسائے ہیں۔

استاذ محترم صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے :

            آپ تجربہ کار،باصلاحیت،دوراندیش،صاحب الرائے اور صائب الرائے تھے، بل کہ یوں کہاجائے کہ آپ صاحب ِکشف و کرامات بزرگ تھے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے،بس اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور جامعہ کو نعم البدل عطافرمائے۔

حضرت مرحوم کی صحت:

            حضرت مرحوم پیرانہ سالی میں بھی بڑے صحت مند نظر آتے تھے۔ دارالحدیث کی سیڑھیاں تیز رفتاری کے ساتھ نوجوانوں سے بھی آگے چڑھ جاتے۔ آپ کی صحت کی مثال دی جاتی تھی۔ کھانے پینے میں حد درجہ احتیاط کیا کرتے تھے۔ بہت مرتب اور باوقار زندگی گزارتے تھے۔ شگر اور بلڈ پریشر کی بیماری ہونے کے باوجود کبھی بیماری کے اثرات چہرہ پر عیاں نہیں ہوتے تھے۔

آخری دو تین سال:

            اخیر کے دوتین سال سے حضرت آنکھوں کے آپریشن کے بعد سے ضعف ِبصارت کے شکار ہوگئے تھے، لیکن قوت ِبصیرت پوری طرح باقی تھی، پھر کچھ کمزوری بڑھتی گئی اور اندرونی امراض، پیٹ میں تکلیف، سرچکرانا اور نظام ِہضم میں کچھ خرابیاں پیدا ہوگئی۔ دوائی علاج کرتے رہے، کچھ افاقہ بھی ہوا، لیکن مکمل صحت یابی حاصل نہ ہوئی، پھر بھی آپ صبر وشکر کے ساتھ شکوہ شکایت کے بغیر زندگی گزارتے رہے۔

آخری دو مہینے:

            آپ ہر سال کی طرح امسال بھی مدرسہ تعلیم القرآن بیجاپور بذریعہ کار تشریف لے گئے۔ اپنے ساتھ مدرسہ کے کتب خانہ کے لیے کچھ کتابیں بھی ساتھ لے گئے۔ اچانک رمضان المبارک میں آپ کی طبیعت کچھ زیادہ بگڑ گئی، علاج ومعالجہ کے بعد آپ اپنے وطن ستپون تشریف لے آئے، یہاں پہنچنے کے بعد بھی علاج ومعالجہ کیا گیا، لیکن پھر افاقہ نہ ہو سکا اور آپ بستر مرگ سے لگ گئے اوروہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔

            بیماری کی اطلاع ملنے پر حضرت سے رابطہ کیاگیا تو حضرت نے بجائے اپنی بیماری بتانے کے خیر خیریت ہی بتلائی۔ رمضان کے اخیر عشرہ میں بات ہوئی تو بھی اطمینان دلایا کہ بہت اچھا ہوں۔ عید کے بعد بھی غالباً بات ہوئی، لیکن جب جامعہ کے موٴقر استاذ شیخ یحیٰ صاحب عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو پتہ چلا کہ حضرت کی طبیعت بہت زیادہ ناساز ہے۔

            جامعہ سے رئیس جامعہ محترم اور مولانا حذیفہ صاحب وستانوی# برابر رابطے میں رہے اور عیادت فرماتے رہے۔ استاذ محترم حضرت مولانا فاروق صاحب مدنی بھی بار بار حضرت کی خیر خیریت اور عیادت فرماتے رہے، راقم بھی اساتذہٴ جامعہ کے ساتھ حضرت کی عیادت کے لیے پہنچا، لیکن حضرت مرحوم سے بات نہیں ہوپائی،یہی پہلاموقع تھاکہ حضرت کے پاس ایک دیڑھ گھنٹہ بیٹھنے کے باوجودحضرت سے کوئ بات نہیں ہوپائ، شوال المکرم کا مہینہ تھا اس لیے باربار جامعہ پہنچنے کا حضرت کو بہت اشتیاق تھا اور خواہش فرمارہے تھے کہ مجھے جامعہ جانا ہے مدرسہ شروع ہوچکا ہے۔

قضائے الٰہی:

            بسیار علاج ومعالجہ کے بعد ڈاکٹروں کے مشورے سے حضرت کو گھر پر ہی آرام کرایا گیا اور آخرکار اس عظیم بے مثال استاذ نے بروز منگل بتاریخ ۲۲/ شوال المکرم ۱۴۴۳ھ مطابق۲۴/مئ ۲۰۲۲ء شب ۳/ بجے کے قریب اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرلیا۔

نماز جنازہ وتدفین:

            حضرت کی وفات کی اطلاع ملتے ہی حضرت کے رشتہ دار، دوست واحباب اور خصوصاً شاگرد فوراً ستپون کے لیے نکل گئے اور حضرت مرحوم کی آخری زیارت کی۔

            جامعہ سے حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی، مولانا فاروق صاحب مدنی، بہت سے رفقائے تدریس اور آپ کے شاگردوں نے شرکت کی۔

            نمازجنازہ آپ کے چچا زاد بھائی قاری مشتاق صاحب نے پڑھائی، ستپون ضلع بھروچ میں تدفین عمل میں آئی ۔بعدہ مولانا فاروق صاحب مدنی دامت برکاتہم نے بڑی رقت آمیز دعا فرمائی آپ کا حضرت مرحوم سے بڑا گہرا اور پرانا تعلق تھا،آپ مولانا مرحوم کے صفات حمیدہ اور اخلاق کریمانہ سے خوب واقف تھے ، جس کا آپ کی طبیعت پر بڑا گہرا اثر تھا، جو دعاء کی کیفیت اور الفاظ میں صاف صاف اور بار بار جھلک رہا تھا۔

            اللہ حضرت کی اہلیہ محترمہ جو ہم شاگردوں کے لیے حضرت ہی کی طرح مشفق ومربی ہیں،اور آپ کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔