حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحیرحمة اللہ علیہ سابق استاذِتفسیروحدیث جامعہ اکل کوا
از:حسین احمد قاسمی معروفی/ استاذجامعہ اکل کوا
جامعہ اکل کوانے اپنی تاسیس کے روز اول سے ہی قرآنِ کریم کو صحت وتجویدکے ساتھ پڑھنے کی شدت سے فکر کی ہے۔ اوراس کے لیے ہرممکن کوشش کرتارہا ہے کہ کون ساایسامفیدترین طریقہ اختیارکیاجائے کہ جس سے عموماًامت ِمسلمہ کاہرفرداورخصوصاًمدارس عربیہ میں پڑھنے والے طلباقرآن کریم کونزول کے مطابق پڑھ سکیں اور اس کی کماحقہ تبلیغ بھی کرسکیں۔اس کے لیے جامعہ نے شعبہٴ تجویدکے قیام کا بیڑااٹھایااوراس کے لیے مستقل اساتذہ رکھے۔چناں چہ فی الحال تجویدکے اس فعال شعبے میں تقریباً۴۰/اساتذہٴ کرام کی خدمات حاصل ہیں اوردینیات سے لے کرشعبہٴ عا لمیت تک کے درجات میں عربی چہارم تک ہر طالب علم کے لیے تجوید کی تعلیم واستحکام کی خاطرایک گھنٹہ لازمی ہے۔
جس طرح یہ مقولہ مشہورہے کہ”عطرآں باشدکہ خودببوید،نہ کہ عطاربگوید“جامعہ کے بانی ورئیس حضرت مولاناغلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے نام ونموداورشہرت سے بے پروا ہوکراپنے کردار،اخلاق اور سادگی سے اپنے ساتھ ماضی کے علمائے ہند،مشائخ ہنداور خدماتِ مدارس ہندکوبھی برصغیر سے آگے بڑھ کر عالم عرب میں متعارف کرایا۔اورجیسے مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی الحسنی الندوی اور حکیم الاسلام حضرت قاری محمدطیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبندجیسی عظیم شخصیات نے اپنے دورمیں یہ فریضہ انجام دیا،خادم القرآن کے لقب سے یاد کیے جانے والے حضرت وستانوی دامت برکاتہم نے مسابقات القرآن کے ذریعہ مستحکم نظام ِتعلیم ِقرآنیہ فی الہندسے بھی عرب علماکوواقف کرانے میں ایک خاموش؛مگربہت زبردست کردار ادا کیاہے۔چناں چہ دیارِعرب کے ممتازاوربااثرقراء اورخدماتِ قرآنیہ کی ایک عالمی تنظیم”الہیئة العالمیة للقرآن الکریم“کے وفودنے قرآنی مسابقات کی مجلسوں میں پہنچ کر متعددبارحضرت وستانوی کی خدمات ِقرآنیہ کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا اوربہت ہی اچھے اوردیرپاتاثرات قائم کیے۔فللّٰہ الحمد علٰی ذالک۔
برسبیل تذکرہ یہاں جامعہ کے ماتحت منعقدہونے والے مسابقاتِ قرآنیہ پرایک طائرانہ نظرڈالتے چلیں۔ذیل کے نقشے میں سن ِ انعقاد،مسابقا ت میں شرکت کرنے والی ریاستیں،مراکزمسابقہ،حصہ لینے والے مدارس کی تعداد،کل ہندمیں منتخب ہونے والے مدارس اوران کے منتخب طلبہ
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ شروع میں تعدادزیادہ اوربعدمیں کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شروع میں فروعات کی تعدادزیادہ تھی، نیزایک فرع میں ایک ادارہ سے ۲/طالب علم لیے جاتے تھے۔پھرایک فرع میں ایک ادارہ سے ایک ہی طالب علم کی شرط لگائی گئی اورفروعات بھی کم کردی گئیں۔ ورنہ پہلے کے مقابلہ میں فی صدکے اعتبارسے حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔فللّٰہ الحمدعلٰی ذالک
خوش قسمتی اوراحساس ذمے داری:
حضرت مولاناعبدالرحیم فلاحی رحمة اللہ علیہ کی خوش قسمتی کہیے کہ حضرت رئیس الجامعہ مدظلہ کی نظرانتخاب آپ پرپڑی اورفلاح و بہبود یٴ مسابقات لیے ہوئے آپ سرخیل ومدیراوررئیس المسابقات مقررکیے گئے ،جسے تادم آخرآپ نے یہ فریضہ بہ حسن وخوبی انجام دیا۔ اولاًجامعہ میں داخلی مسابقات ہوتے رہے پھرحضرت رئیس الجامعہ مدظلہ کی فکروں کے نتیجے میں یہ سلسلہ جامعہ سے باہرریاست ِمہاراشٹرکے علاقوں میں پھررفتہ رفتہ پورے ملک میں پھیلتا گیا،یہاں تک کہ یہ سلسلةالذہب ایک تحریک کی شکل اختیارکرگیااوراس تحریک نے اپناکام کیا اور جوں جوں اس کادائرہٴ کاربڑھتاگیااس کے اصول وضوابط میں بھی ترقی اورتبدیلی ہوتی گئی تاکہ کسی کے ساتھ حق تلفی نہ ہوسکے۔چناں چہ مدیرمسابقات حضرت مرحوم کی نگرانی میں ان حضرات کے لیے جوحکم (جج)کے فرائض کی انجام دہی پرمتعین ہوتے تھے،یہ ہدایات مرتب کی گئیں:
ہدایات برائے فروعاتِ حفظ:
(۱)…پختگی ٴحفظ کے (۴۵)اورروانی کے(۱۰)نمبرات ہوں گے۔اگرطالب علم دورانِ تلاوت کسی مقام پر تھوڑی دیرکے لیے خاموشی اختیار کرے پھرخود ہی تلاوت کرنے لگے تویہ روانی کی غلطی شمارہوگی۔لہٰذاعدم روانی پرہربارایک نمبرحذف کیاجائے گا۔
(۲)…یہ طے کیاگیاکہ اعرابی غلطی پرہربارایک نمبرکم کیا جائے ۔
(۳)…اسی طرح اگرطالب علم تلاوت کرتے ہوئے ایسابھول جائے کہ بغیربتلائے اورلقمہ دیے آگے نہ بڑھ پائے تویہ پختگی کی غلطی شمار ہوگی،ایسی ہر غلطی پر۲/ ۲/نمبرکم کیاجائے۔
(۴)…یہ ہدایت بھی مقررکی گئی کہ تمام اغلاط پرنشان لگاکرنمبرات کم کیے جائیں،بعدہ مقررہ نمبرات میں سے جوبچیں،وہ اس خانہ میں پختہ قلم سے تحریرکردیے جائیں۔
(۵)…اگرطالب علم کسی سوال پربالکل سکوت اختیارکرے اوربتلانے پربھی نہ پڑھ سکے تواس سوال کے مکمل نمبرات حذف کردیے جائیں۔
نیزاس کا خیال رہے کہ لقمہ تین مرتبہ سے زیادہ نہ دیں۔
(۶)…مخارج اورصفات لازمہ کی غلطی پرہربار۲/اورصفات عارضہ کی غلطی پرہربارایک نمبرکم کیاجائے۔
(۷)…رعایت وقف وابتدا کے (۱۰)نمبرہیں حسب غلطی ایک نمبر کم کیاجائے۔
(۸)…جرأت وہمت کے صرف (۵)نمبرات ہیں۔اپنی صواب دید کے مطابق نمبردیں البتہ مقررہ نمبرات سے زیادہ ہرگزنہ دیں۔
مسابقات قرآنی کے ذیل میں جمعہ کے خطبوں اوراذان واقامت کی تصحیح کے لیے بھی مسابقات کی فروعات تشکیل دی گئیں،جن کے لیے کچھ اصول وضوابط ہدایات کی شکل میں بنائے گئے۔
ہدایات واصول برائے خطبات:
(۱)…پختگی وروانی کے(۲۰)نمبرات ہیں اورعدم روانی پرہربارایک ایک نمبرکم کیاجائے۔عدم پختگی پر ۵/ نمبرات کم کیے جائیں،پختگی کی ۳/ سے زائد غلطی پرخطیب کوبیٹھادیاجائے اورپورے نمبرات حذف کردیے جائیں۔
(۲)…اسلوب القاء کے (۲۰)نمبرات ہیں۔اگراسلوب القاء کچھ بھی نہ ہوتوپورے نمبرات حذف کردیے جائیں ورنہ حسب اسلوب استحقاقی نمبرات دیے جائیں۔
(۳)…صحت اعراب کے (۱۰)نمبرات ہیں،عدم صحت پر ہربارایک ایک نمبرکم کیاجائے۔
(۴)…صحت تلفظ کے (۱۰)نمبرات ہیں،ہر غلطی پرایک نمبرکم کیاجائے۔
(۵)…جرأت وہمت کے صرف (۱۰)نمبرات ہیں اس سے زائدنہ دیں۔
ہدایات واصول برائے اذان:
(۱)صحت کلمات کے(۱۰)نمبرات ہیں اورہرغلطی پردونمبرکم کیے جائیں۔
(۲)خوش الحانی کے(۱۰)نمبرات ہیں،حسب استحقاق نمبرات دیے جائیں۔
(۳)کیفیت صوت (یعنی بلندیاپست آواز)کے(۱۰)نمبرات ہیں،حسب استحقاق نمبرات دیے جائیں۔
اصول وضوابط برائے ترجمہ وتفسیر:
مسابقات حفظ قرآنی کے ہمراہ تفسیروترجمہ کی فرع کوبھی شامل ِمسابقہ کیاگیا،جس کے لیے ذیل کی ہدایات مرتب ہوئیں:
(۱)…ترجمہ کی غلطی پرہربارایک ایک نمبرکم کیاجائے۔اسلوب ترجمہ کے صرف(۵)نمبرات ہیں استحقاقی نمبرات حسب اسلوب دیے جائیں۔
(۲)…مرادِآیات اوردیگرتشریحات کی غلطی پرہربار۳/۳/نمبرکم کیے جائیں اوربالکل غلط بتلانے پرپورے نمبرات حذف کردیے جائیں۔
(۳)…لغات کے(۸)وجوہِ اعراب کے (۷)شانِ نزول کے (۵)اورمرادِآیات کے (۱۰)نمبرمقررہیں۔
(۴)…مخارج اورصفاتِ لازمہ کی غلطی پرہربار۲/اورصفات ِعارضہ کی غلطی پرہربارایک نمبرکم کیاجائے۔
(۵)…رعایت وقف وابتداکے (۵)نمبرہیں حسب غلطی ایک نمبر کم کیاجائے۔
(۶)…ترجمہ وتفسیرمیں طالب علم چاہے کتناہی اعلیٰ اورتجویدمیں ادنیٰ یااس کے برعکس ہوتونمبرات سے واضح فرق کریں،ایک کااثردوسری چیزمیں نمایاں نہ ہونے پائے۔
ہدایات برائے حفظ حدیث:
حدیث؛قرآن کریم کی اولین اورراجح تفسیرکہلاتی ہے۔مسابقاتِ قرآنی میں حفظ حدیث کوبھی شامل کیاگیااوراس کی فرع بناکریہ اصول طے پائے:
(۱)…پختگی ٴ حدیث کے (۳۰)نمبرات ہیں،ہرغلطی پرہربار۲/۲/نمبرکم کیے جائیں۔
(۲)…صحت اعراب کے (۱۰)نمبرہیں اورحسب استحقاق نمبرات دیے جائیں۔ہراعرابی غلطی پرہربارایک ایک نمبرکم کیے جائیں۔
(۳)…تشریح مفردات میں اگردوسوال ہوں توہرجواب کے ۱۰/۱۰/نمبرہوں گے لہٰذامکمل سوال غلط بتانے پر پورے نمبرات حذف ہوں گے ۔
(۴)…تعارف روات کے (۲۰)نمبرہیں،حسب سوالات نمبرات کوتقسیم کرکے نمبرات دیے جائیں۔
(۵)…فقہ الحدیث کے (۲۰)نمبرات ہیں۔سوالات کے مطابق نمبرات دیے جائیں۔ہرجزو کانمبر حیثیت عرفی کے مطابق دیاجائے،خلط ملط اورتلبیس ِنمبرات سے گریزاں رہاجائے۔
…ہرحکم اپنی رائے میں مستقل ہوگا،نہ کہ تابع۔ایک حکم دوسرے حکم سے نمبرات دینے کے سلسلے میں ہرگز تبادلہٴ خیال نہ کرے۔نمبرات میں قطع وبریدسے پوری طرح گریزکرے،بل کہ پختہ قلم سے نمبرات لگائے اور کاٹ چھانٹ نجی کاغذ پرکرے۔
حضرت مرحوم کی فکرمندی:
آپ کی فکراورامانت داری دیکھیے کہ اتنے واضح اور صاف اصول مرتب کرنے کے باوجودہر جگہ (پورے ہندوستان میں)مسابقہ شروع ہونے سے پہلے تمام لوگوں کوجمع کرکے ان اصول وضوابط کا استحضار کرواتے اورکچھ نہ کچھ مزیدہدایات ارشادفرماتے ،تاکہ کسی بھی طر ح سے کسی کی حق تلفی نہ ہواورنہ ہی کسی کوانگلی اٹھانے کا موقع ملے اوریہ نیک کام اللہ کی رضا کاسبب بن سکے،جوکہ ان مسابقات کااصل مقصود اورجوہرہے۔
عجیب وغریب واقعہ:
واضح رہے موصوف کابنایاہوامسابقے کایہ الہامی نظام ایساتھاکہ کسی کوبھی معلوم نہیں ہوتاکہ شریک ہونے والاطالب علم اورمساہم کا کس ادراہ سے تعلق ہے۔بل کہ ناانصافی سے بچنے کے لیے بہت سی مرتبہ” آل مہاراشٹر“مسابقات میں حضرت مرحوم کی حکمت عملی کی وجہ سے دیگرصوبہ جات سے حکم بلائے جاتے تھے،تاکہ کسی طرح کی بدمزگی یاناانصافی نہ ہونے پائے۔ایسااس لیے کرتے تھے کہ مہاراشٹرکے مسابقے میں خودہمارے جامعہ اوراس کی شاخوں کے طلباشریک ہوتے ہیں۔اسی طرح جامعہ کے وہ اساتذہ جوحکم کے فرائض انجام دیتے تھے،وہ خود اپنے صوبہ میں حکم نہیں بنائے جاتے تھے،کئی مرتبہ مجھے خودمشرقی یوپی کے مسابقات میں حکم نہیں بنایا گیا۔
بہرحال!یہ تمام نکات محض”انصاف بین المساہمین فی المسابقہ“کی غرض سے تیارکیے گئے ہیں،اس سے حضرت مرحوم کاعدل وانصاف ظاہرہے،بل کہ ایک بہت ہی عجیب واقعہ آل کشمیرکے مسابقے میں پیش آیا۔ہوایوں کہ حدیث یاتفسیرکی فرع کے ایک مساہم نے جواب دیااوروہ جواب غلط تھا۔حضرت مرحوم کے ٹوکنے پراس نے کہاکہ ”مجھے معلوم ہے کہ یہ جواب غلط ہے، لیکن آپ کی طرف سے تیارشدہ مذکرے میں ایساہی لکھاہے۔(کتابت کی غلطی سے ایساہوگیاتھا)اورصحیح جواب یہ ہے․․․․․․․․․․․․․․“
توحضرت مرحوم نے ہم تمام لوگوں سے(جوتحکیم کے فرائض پرمامور تھے)کہاکہ اس جواب پہ نمبرکم نہ کیا جائے،کیوں کہ یہ غلطی ہماری طرف سے ہے۔
مسابقے کی تیاری اورحضرتِ مرحوم:
جیسے ہی حضرت رئیس الجامعہ مدظلہ فرماتے کہ اس سال مسابقہ کرناہے،اسی وقت سے ہمہ جہتی تیاریاں شروع ہوجاتیں۔لیکن اس کے لیے معدودے چندافرادکوہی کام میں لگاتے تاکہ کام کاشوراورکام کرنے والے نمائش کے شکارنہ ہوں۔چناں چہ اس طرح سے کام کرنے کانظام بناتے کہ تعلیم کاکچھ بھی حرج نہ ہو،ورنہ ظاہر سی بات ہے کہ ایک طرف نقصان کرکے دوسری طرف کام کرنا عقل مندی تونہیں۔
قافلہٴ قرآنی کے ہرفردکی خبرگیری:
ابتدامیں توخارج جامعہ مسابقات کے لیے ایک ہی وفدہوتاتھا،لیکن جب اس کادائرہ بہت وسیع ہوگیاتوایک ہی ساتھ کئی کئی وفد بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی اوران وفودکی تشکیل ہوئی توایک ساتھ میں ہندستان کے مختلف علاقوں میں وفودجاتے اورایک وفدخودمولانالے کرچلتے۔اپنے وفدمیں شریک تمام ہی افرادکاجس طرح خیال کرتے اسے توبیان کرنامشکل ہے،لیکن جووفودان کے علاوہ ہوتے ان کابھی اس طرح خیال فرماتے کہ گویا وہاں بھی حاضرہیں۔ذمہ دارِوفدسے ہرفردکی خیریت اوراسی طرح اس وفدمیں کس چیزکی ضرورت ہے معلوم کرتے اوراسے اس طرح فراہم کرتے کہ افرادِوفدحیرت زدہ رہ جاتے۔
بہرحال!مولانامرحوم نے طویل عرصے تک جوتفسیروحدیث سمیت دیگرہمہ جہتی خدمات انجام دی ہیں،خواہ وہ علمی ہوں یادینی،دعوتی ہوں یاملی اورفلاحی،تادیریادرکھی جائیں گی۔اورآپ کے لیے صدقہٴ جاریہ رہیں گی۔ایک اندازے کے مطابق مولانامرحوم کی زیرنگرانی صرف مسابقاتِ قرآنیہ سے مستفیدہونے والے افرادکی تعدادتقریباً30,000ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام خدمات کوآپ کے حق میں باقیات صالحات بنائے اور آخرت میںآ پ کوبہشت بریں میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔آمین
الغرض آپ نے خادم القرآن وعامرالمساجدحضرت مولاناغلام محمدصاحب وستانوی زیدہ مجدہ کے شانہ بہ شانہ رہ کرجامعہ اکل کواکو بام عروج تک پہنچانے کی ہمہ جہت وہمہ تن کوشش کی۔فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔اللّٰہم اغفرلہ وارحمہ وسکنہ فی الجنة