جامعہ کے شب و روز:
حفظ مکمل کرنے والے 31 خوش نصیب طلبا کے اعزاز میں تکمیل ِحفظ قران کی مجلس کا انعقاد:
25 اگست 2024 مطابق 19 صفر المظفر 1446 ہجری بروز اتوار بعد نماز ظہر جامعہ محمدیہ احمد نگر کی وسیع و عریض مسجد گلشن ِفاطمہ میں امثال زمرہ ٴحفاظ میں شامل ہونے والے 31 حفاظ ِکرام کے اعزاز میں ایک بابرکت جلسے کا انعقاد عمل میں آیا، جس کی سرپرستی خادم القران والمساجد حضرت مولانا غلام وستانوی صاحب نے اپنی روحانی توجہات سے فرمائی؛جب کہ اس کی قیادت و سیادت حضرت وستانوی کے حقیقی جانشین خلف رشید مدیرِ تنفیذی جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکلکوا نے فرمائی اور مہمانان خصوصی کے طور پر مولانا خالد صاحب دیسائی لندن یو کے اور ناظمِ مکاتب جامعہ اکل کوا مولانا جاوید پٹیل صاحب اشاعتی تشریف فرمارہے۔ نیز عمائدین شہر اور معزز شخصیات نے اس بابرکت مجلس میں شرکت فرما کر حفاظِ کرام کی تشجیع فرمائی۔
نظامت اور طلبہ کا پروگرام:
جامعہ ہذا کے موٴقر استاذ قاری انصار صاحب نے اس جلسے کی نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے تمہیدی گفتگو فرمائی بعدہ جلسہ کا آغاز انتخاب بن محمد قاسم پور نیہ شعبہٴ حفظ کی خوش الحان تلاوت سے ہوا اور علی بن افسر عبید بن حیدر کی سریلی آواز میں حمد و نعت پڑھی گئی۔اس موقع پر حفاظ کے حق میں منظوم تہنیتی کلام بھی پیش کیا گیا، جس میں انہیں مبارک بادی کے کلمات کے ساتھ زندگی بھر قران کی تلاوت کا معمول رکھنے اور قران سے تعلق رکھنے کی ترغیب دی گئی، اس کے بعد مدارس کی اہمیت،قرآن اور انسان، فضیلت قران؛ جیسے اہم موضوع پر طلبا نے مافی ضمیر کو ادا کیا، نیز شعبہٴ عا لمیت کے طلبہٴ عظام نے سوال و جواب کے انداز میں سامعین کرام کوقرانِ کریم کے اوامرو نواہی سے روشناس فرمایا اور اس طرح طلبہ کا پروگرام اختتام پذیر ہوا۔
مہمانوں کا استقبال اور کلام پاک کی آخری صورت کی تکمیل:
اس کے بعد ناظمِ مدرسہ قاری شاداب صاحب اور جامعہ ہذا کے موٴقر اساتذہ نے صدر محترم حضرت مولانا حذیفہ صاحب اور مہمانان خصوصی مولانا خالد صاحب دیسائی اور ناظمِ مکاتب جامعہ اکل کوا مولانا جاوید صاحب کا تمغات کے ذریعے استقبال فرمایا،اس کے بعد جامعہ ہذا کے ناظم قاری محمد شاداب صاحب اشاعتی(شرڈی) نے 31 حفاظ کرام کو آخری سورت پڑھا کر زمرہ حفاظ میں شامل کیا اور حفاظ کرام کو گر اں قدر انعامات سے نوازا۔
مہمانوں کا خطاب:
نیز اس بابرکت مجلس میں جامعہ ہذا میں پڑھنے والے تمام طلبا کے والدین اور سرپرستان کو بھی مدعو کیا گیا تھا، جن سے احمد نگر کے معروف عالم دین حضرت مولانا ابتہاج الدین صاحب نیواسہ نے خطاب کرتے ہوئے اپنے بچوں سے مربوط رہنے اور ان کی تعلیم و تربیت کی فکر کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد مہمانِ خصوصی حضرت مولانا خالد صاحب دیسائی لندن یو کے نے آیتِ کریمہ” ربنا وابعث فیہم رسولا منہم یتلو علیہم اٰیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمہ“ کی روشنی میں علمااور طلبا کو اپنا فرض ِمنصبی یاد دلاتے ہوئے بڑی جامع نصیحت فرمائی۔
صدارتی خطاب:
اخیر میں صدارتی خطاب فرماتے ہوئے حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی سامعین کو قران ِکریم سے مربوط رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے اہل فلسطین کی مثال پیش فرمائی، جہاں ایسے سنگین حالات میں بھی قرانِ ِکریم کے حفظ کرنے کا ایسا ماحول ہے کہ 90 فیصد فلسطینی حافظ قران ہوتے ہیں،جس میں بچوں سے لے کر بوڑھوں اور بچیوں سے لے کر بوڑھی خواتین تک شامل ہیں؛ نیز فرمایا کہ یہ کتاب اللہ کی برکت ہے کہ وہ لوگ بے سر و سامانی کے باوجود قریباًایک سال ہونے کو آئے،وہ ثابت قدمی کے ساتھ دنیوی سپر پاور سے نبرد آزما اور ڈٹے ہوئے ہیں (اللہ ان کی نصرت و مدد فرمائے اور فتح یابی سے ہمکنار فرمائے) نیز حضرت والا نے (اہل القران اہل اللہ وخاصتہ)کی پانچ نکاتی تشریح بیان کرتے ہوئے قران کریم سے والہانہ شغف پیدا کرنے کی پرزورترغیب دلائی اور فرمایا کہ 40 دن میں قران ِکریم کو مکمل کرنا ایک مسلمان پر قرآن کا حق ہے۔ نیز آپ نے بڑی قوت سے یہ بات کہی کہ ہندو پاک میں دین و ایمان کی بقا مدارس اسلامیہ اور علمائے ہند کے مرہونِ منت ہیں۔حال میں ہوئے ازبکستان کے سفر کی مختصر روداد سنائی کہ ہمارے درس نظامی کی کئی کتابیں ازبکستان کی سرزمین پر لکھی گئی اور ایک ایک قبرستان میں تین تین سو محمد نامی محدثین مدفون ہیں،مگر مدارس و مکاتب کی طرف سے غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری آنکھیں ایک اچھے متشرح مسلمان کو دیکھنے کے لیے ترس گئیں، چہ جائے کہ ایک اچھا عالمِ دین نظر آئے۔ اور بتایا کہ ہمارے اسلاف نے ان کی کتابوں سے استفادہ کیا اور اب حال یہ ہے کہ وہ خود ہمارے اسلاف کی کتابوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔
نیز دور حاضر میں لڑکیوں کی بے راہ روی کو دیکھتے ہوئے، جس طرح حضرت نے ہندوستان کی طول و عرض میں 25 سے زائد لڑکیوں کے مدارس قائم کیے ہیں؛ اسی طرح جامعہ محمدیہ بارہ ببول احمد نگر میں بھی آئندہ سال بعد رمضان المبارک لڑکیوں کے لیے مدرسة البنات (3سالہ مومنہ کورس) کے آغاز کرنے کا اعلان فرمایا: (فجزاہ اللہ احسن الجزاء) نیز اس مبارک مجلس میں مدرسہ ہذاکے تشریف لائے ہوئے ابنائے قدیم(جنہوں نے گذشتہ سالوں میں ادارہ ہذا سے سند حفظ و فراغت حاصل کی ہے) انہیں اپنے مادر علمی سے ہر اعتبار سے مربوط رہ کر عوام الناس کی صحیح رہبری کرنے پر رہنمائی فرمائی۔
دعا:
حضرت والانے زمر ہٴ حفاظ میں شامل ہونے والے طلبہ اور ان کے والدین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکبادی دیتے ہوئے اس بابرکت مجلس میں شرکت کرنے والے تمام ہی مہمانان ِعظام،نیز اس جلسے کو اپنے جان، مال، وقت لگا کر کامیاب بنانے والوں کا شکریہ ادا کیا اور والد محترم حضرتِ وستانوی کی صحت و عافیت کے لیے دعا کی درخواست فرماتے ہوئے رب ذوالجلال کے سامنے دست ِدعا دراز کیا اور آہ و زاری کے ساتھ پوری امتِ مسلمہ کے لیے دعا فرمائی اور اس طرح حضرت والا کی دعا پر یہ بابرکت مجلس بحسن خوبی اپنے اختتام کو پہنچی۔
مدرسہ مفتاح العلوم والوج:
احمدنگر سے اکل کوا کی واپسی کے دوران مغرب کا وقت ہوا، توراستےمیں پڑ رہی جامعہ کی ایک مشہور شاخ مدرسہ مفتاح العلوم والوج میں تشریف لے گئے اورمغرب و عشا کی نماز ادا کی۔
ادارے میں مسجد کی توسیع کا کام چل رہا ہے، اس کا معائنہ کیا؛ تب تک ناظم ِمدرسہ مولانا سرور صاحب اور مولانا محمد ذاکر نے یہ سوچ کر کہ کھانے کا وقت ہوچکا ہے اورآگے منزل بھی کافی طویل ہے، دسترخوان لگا دیا اور ماحضر پیش کیا۔ کھانا مکمل ہونے کو تھا کہ والوج میں ایک مسجد کا تعمیری کام چل رہا ہے، ان لوگوں کومولانا حذیفہ صاحب کی تشریف آوری کی خبر ہوئی، تویہ لوگ ملاقات کےلیے پہنچ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے عوام کا جم غفیرآ پہنچا۔ آپ نے لوگوں سے ملاقات کی ،ان کے مسائل سنے اور اس کا ضروری حل پیش فرمایا۔ مولانا نے اساتذہ اور ناظم مدرسہ کو تعلیم اور تربیت پر خصوصی توجہ دلائی اور مدرسہ کے لیے ایک اسکول قائم کرنے کی ہدا یت دی۔