جامعہ اکل کوا کے مؤقر استاذ مولانا ہارون خانپوری جوار رحمت میں

حذیفہ وستانوی

                کل رات بندہ اکل کوا سے نکلا تو راستے میں بھائی عبدالرحمن نے(جو جامعہ اکل کوا کے پہلے ناظمِ تعمیرات و مکاتب اور والد محترم ”خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی شفاہ اللہ و عافاہ“کے اولین رفقائے کار میں سے ایک حضرت مولانا یعقوب خانپوری رحمہ اللہ کے صاحبزادے ہیں)فون پراطلاع دی کہ ان کے بڑے بھائی اور بندہ کے بچپن کے دوست اور ہر دلعزیز ساتھی جسے لنگوٹیا یار کہ سکتے ہیں ”مولانا ہارون صاحب خانپوری“داغ مفارقت دے گئے،یہ خبر بندہ کے لیے بالکل غیر متوقع تھی۔کچھ درد ایسے ہوتے ہیں،جن میں آنکھیں نہیں، دل رو پڑتے ہیں اور جس تکلیف میں دل روتا ہے، اس میں انسان زندہ رہ کر بھی مردہ سا ہوجاتا ہے۔

                والدِ محترم دارالعلوم کنتھاریہ بھروچ سے ۱۹۸۱ ء یا۱۹۸۲ء میں جامعہ اکل کوا کی تاسیس کے تین سال بعد منتقل ہوئے تھے،اس وقت بندہ دو یا تین سال کا تھا اورمولانا ہارون صاحب مرحوم کی بھی تقریباً بندہ کے برابر ہی عمر رہی ہوگی،بچپن میں احسن القواعد سے لے کر حفظ تک ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کی،کچھ پارے حفظ کرنے کے بعد وہ عا لمیت میں منتقل ہوگئے،بندہ نے حفظ مکمل کیا؛ لہٰذا دو تین سال آگے پیچھے رہے۔بہرحال رفیق مرحوم نیک طبیعت اور لطافت بھری فطرت کے حامل شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے والد صاحب مختصر علالت کے بعد کافی عرصہ قبل۲۰۰۱ء میں، جب بندہ عربی ششم میں تھا رحلت فرما گئے تھے۔ مولانا یعقوب صاحب بڑے ہی محنتی اور فکرمند لوگوں میں سے تھے، والد صاحب کے دست راست بن کر تقریبا ۲۴/سال آپ نے کام کیا، اللہ آپ کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے آمین۔

                مرحوم مولانا ہارون صاحب کے سر والد کا سایہ عین جوانی میں اٹھ چکا تھا، آپ گھر میں نرینہ اولاد میں سب بڑے تھے؛ لہٰذا گھر کی ساری ذمے داریاں آپ کے سر آگئی تھی اور ماشاء اللہ آپ نے بہنوں اور بھائی کی بہترین تعلیم تربیت کی، ان کی شادیاں کروائی،اپنی والدہ کی بھی خوب خدمت کی۔ ایک عرصہ سے آپ مریض قلب تھے، ابھی دو دن قبل بیماری نے شدت اختیار کی تو آپ کو سورت لے جایا گیا، کل ہی ان کے چھوٹے بھائی عبدالرحمن کا فون آیا کہ ڈاکٹر کا یہ کہنا ہے کہ وال کا دوبارہ آپریشن کرنا پڑے گا، میں نے کہا کوئی حرج نہیں میں سورت کے دوستوں کو بولتا ہوں وہ کسی اچھے ہسپتال میں اچھے ڈاکٹر کے پاس آپریشن کروالیں گے۔ شام تک وہ وینٹیلیٹر پر چلے گئے، ماہر ڈاکٹر جب وہاں پہنچے تو ڈاکٹر کے جائزہ لینے سے قبل ہی جواں سال دوست اپنی مستعار گذار کرمالک حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

                موصوف نے۵ ۴/ سال کی عمر پائی اور اپنے پیچھے دو بیٹے،دو بیٹیاں اور ایک اہلیہ کو چھوڑا۔ آپ جامعہ کے شعبہ دینیات کے مقبول ترین استاذ تھے۔اللہ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

                موصوف کے بڑے بیٹے نے سالِ گذشتہ جامعہ سے حفظ اور فضیلت مکمل کیا ہے اور فلاح دارین ترکیسور میں تخصص فی القرأة کر رہے ہیں۔ماشاء اللہ قرآن کی تلاوت بہت عمدہ کرتے ہیں۔ دوسرے بیٹے نے بھی سال گذشتہ حفظ مکمل کیا۔ رمضان سے پہلے مرحوم اسے میرے پاس لے کر آئے کہ اس نے حفظ مکمل کیا ہے آگے کیا کروانا چاہیے، میں نے کہا اپنی لائن علما والی ہے؛لہٰذا عالم ہی بنانا چاہیے تو اس کی طرف دیکھ کر کہا: ”سن لیا مولانا نے کیا کہا، بس ختم! عالمِ دین بننا ہے۔ تو میں نے دریافت کیا کیوں اسے کچھ اور بننا ہے؟ کہا کہ ڈاکٹر بننے کا بول رہا تھا میں نے کہا کہ اگر عصری تعلیم کی بنیاد اچھی ہو تو حرج نہیں، ورنہ وقت ضائع ہوگا، نیٹ کی تیاری اور پھراس میں اچھے نمبرات سب آسان نہیں! بہرحال وہ بچہ بھی عربی اوّل میں زیر تعلیم ہے۔ الحمدللہ یہ اولاد آپ کے لیے صدقہٴ جاریہ ہیں۔آپ کی ایک بیٹی بچپن سے معذور ہے، مگر الحمدللہ اس کی بھی آپ نے بہت فکر کی،ممکن علاج کروایا، خدمت کی گویا حالات اور مشکلات سے پر زندگی گزاری،مگر شکوہ شکایت کے بغیر وقتا فوقتا ملتے رہتے تھے۔ بندہ بھی ان کے والد کی جامعہ میں۲۳/سال بے لوث خدمات کی وجہ کر، اپنے سے جو ہوسکتا تھاکرتا اور اپنے لیے سعادت سمجھتا، ہمیشہ ان کے ساتھ ہر موقعہ پر کھڑے رہنے کی کوشش کرتا تھا، جب بھی ملتے تو یہ جملہ ضروربولتے کہ ماشاء اللہ بھائی آپ کی محنت اور مقبولیت کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے،اللہ مزید ترقیات سے نوازے!اور آپ کی خوب حفاظت فرمائے!

                 ۱۹۹۹ء سے لے کر۴ ۲۰۲ء تک ۲۵ /سالہ خدمات کے عرصہ میں آپ کی کبھی کوئی شکایت نہیں رہی۔ ماشاء اللہ بڑی پابندی سے اور محنت و لگن سے کام کرتے رہے، آپ کی تحریر بہت عمدہ تھی۔ رمضان میں اکل کوا اور اطراف میں جامعہ کے لیے مالی خدمت کی فراہمی بھی بہت لگن کے ساتھ کرتے تھے، طلبہ پر خوش خطی کی لائن سے بہت محنت کرتے تھے۔ اللہ آپ کو ان خدمات کابہترین صلہ عطا فرمائے۔

            بہرحال آپ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ کی رحلت جامعہ برادری کے لیے افسوس ناک ہے،مگر یہ سنت اللہ ہے۔ ہر آنے والے کواپنے مقررہ وقت پر یہاں سے جانا ہے؛ البتہ اگر جانے والا کچھ کر کے جائے تو یہ کامیابی ہے۔ ماشاء اللہ آپ اگرچہ عین جوانی میں دار فانی کو الوداع کہ گئے، مگر اپنی آخرت کے لیے بہت کچھ کرکے گئے یہ ہی اصل ہے۔

بڑی خوبیاں تھی جانے والے میں