باسمہ تعالیٰ
مولانا مفتی رضوان صاحب اشاعتی(ہردہ ،ایم۔ پی)
انسان کا مطلب ہوتا ہے انس و محبت کرنے والی شخصیت۔ انسان کے اندر یہ صفت اتنی نمایاں ہے کہ جس شئ کے ساتھ بھی انسان وقت گذارتا ہے، اسے اس کے ساتھ ایک انس اور محبت ہو جاتی ہے، ایک قلبی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ بالخصوص وہ افراد، ادارے اور مقامات انسان کے لیے انتہائی محبوب ہوتے ہیں، جن کی صحبت میں انسان نے اپنی زندگی کا بہترین ابتدائی دور گذارا ہو، جن اساتذہ اور اداروں سے اس نے علم سیکھا ہو، بول چال رہن سہن کا سلیقہ سیکھا ہو، خیر و شر، نیک و بد کی پہچان سیکھی ہو۔اسی طرح جن ساتھیوں کے ساتھ اس کی کھٹی میٹھی یادیں وابستہ ہوں، ان سے انس و محبت، قلبی تعلق اور ملاقات کا انتہائی اشتیاق ایک فطری تقاضہ ہے۔
شریعت مطہرہ نے بھی محسنین کو یاد رکھنے، حتی الوسع احسان کا بدل پیش کرنے اور پرانی جان پہچان کی رعایت کا حکم دیا ہے۔
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا (مہاراشٹر) ایک ایسا ہی مردم خیز اور بافیض ادارہ ہے، جس کے آغوش میں ہزارہا طالبان علوم نبوت نے اپنی زندگی کے انتہائی قیمتی اور یادگار اوقات گزارے ہیں، جس کی وجہ سے جامعہ سے وابستہ ہر طالب علم چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو، چاہے کسی بھی عہدے پر ہو، جامعہ کا ذکر آتے ہی اپنے لئے جامعہ کے لازوال مادرانہ رحمدلی اور پدری شفقت کے جذبات کو محسوس کرتا ہے۔طالب علم ساتھیوں کے ساتھ گزارے ہوئے یادگار لمحات میں ڈوب جاتا ہے۔
اس لیے جامعہ سے رسمی فراغت کے بعد اس طویل عرصے کے دوران ساتھیوں کے کیسے حالات رہے، کیا کارگذاری رہی، ہمارے اساتذہ نے جو سبق دیا تھا اس پر کس حد تک عمل ہوا، اس بارے میں مذاکرہ اور اپنے اساتذہ سے موجودہ دور میں درپیش چلنجز کا موجودہ اور ممکنہ وسائل کے ساتھ حل کو سمجھنے کے لیے، آئندہ کا سبق لینے کے لیے جمع ہونے کی ایک عرصہ سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔
اسی تقاضے کے پیش نظر جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا(مہاراشٹر) کے شعبہ عا لمیت سے 2006ء میں فارغ ہونے والی سترہویں جماعت کے طلبہ کا ایک اجتماع، اساتذہ اور طلبہ کے مشورے سے 10 اکتوبر 2021ء کو اورنگ آباد میں ہونا طے پایا۔
یہ اجتماع طلبہ کے اپنے اساتذہ سے رخصت ہونے اور ساتھیوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے کے 15 سالوں بعد منعقد ہونے جا رہا تھا۔طلبہ میں اساتذہ کی خدمت میں حاضری کا، ایک دوسرے سے ملاقات کا، جامعہ کے شب و روز کو تازہ کرنے کا بے انتہاء اشتیاق تھا۔ گویا ہر ساتھی بزبان حال یوں کہہ رہا تھا:
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
ساتھیوں کی آمد 9 اکتوبر سے شروع ہو چکی تھی۔ اسی دن بعد مغرب اس اجتماع کی پہلی نشست ہوئی، جس میں جامعہ اکل کوا کے معتمد تعلیم، تعلیمی و انتظامی امور کے ماہر حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی حفظہ اللہ نے انتہائی اہم خطاب فرمایا۔
حضرت نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اپنی اور آئندہ نسل کے ایمان کی حفاظت اس وقت کا سب سے بڑامسئلہ ہے اور یہ آخری دور فتنوں اور آزمانش کی کثرت اور شدت کا دور ہے، جس میں ہم ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی آزمائشوں سے دوچار ہیں۔ ہمیں ان کے مقابلہ کے لیے تاریخ کا بالخصوص ”فقیہ التاریخ“ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ تعالی کی بیان کردہ تجزیاتی تاریخ اور حضرت مولانا واضح رشید ندوی کے فکری مضامین کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
اس وقت بچوں کو مکتب جانے کی عمر سے ایمانیات پلادینے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کے کسی مرحلہ میں ان کے قدم نہ ڈگمگائیں، ساتھ ہی نوجوانوں کی روحانی تربیت کی ضرورت ہے، اس لیے کہ خالص مادی بنیادی پر قائم، روحانیت سے خالی، مغرب زدہ معاشرہ اس جنگل کی طرح ہو جاتا ہے جہاں صرف نفع اندوزی اور طاقت کا قانون چلتا ہے، جو انسانی معاشرہ کے بالکل موافق نہیں ہے۔
اس لیے اس وقت علماء کو دینی علوم میں پختگی اور مکمل دینی تشخص پر قائم رہتے ہوئے، اسلامی اخلاق و اعمال کی پابندی کرتے ہوئے عصری علوم حاصل کرکے عصری درس گاہوں کی رہبری کا فریضہ انجام دینا چاہیے (اس باب میں جامعہ نے شعبہ عالمیت میں روزانہ تقریباً ڈھائی گھنٹہ بڑھا کر علوم عصریہ کی تعلیم دینا شروع کیا ہے کہ جب تک طالب علم عالمیت سے فارغ ہوگا تب تک وہ ڈی ایڈ یا بی ایڈ بھی کر چکا ہوگا، جو نئے تعلیمی نظام کے مطابق تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے ناگزیر ہوگا) تاکہ عصری علوم سیکھنے کی ابتداء ہی سے عقائد صحیحہ ہماری نسل نو کے قلب و دماغ میں بیٹھ جائیں اور نظریہ ارتقاء وغیرہ غلط نظریات کا بطلان ان کے سامنے واضح ہو جائے۔
اسی طرح عقائد اسلامی کو سامنے رکھ کر جمعہ کے خطبات کا نظام (جس کے بارے میں جامعہ کی جانب سے پانچ زبانوں میں قابل قدر پیش رفت ہوئی ہے) بنانا ضروری ہے تاکہ جمعہ کے خطبات میں حاضر ہونے والا مجمع بھی اسلام کے بنیادی عقائد و اعمال سے واقف ہو جائے۔
حضرت نے اردو کے بقاء پر بھی توجہ دلائی کہ اس دور میں اردو کا بقا صرف علماء کے ذریعہ ممکن ہے۔ موجودہ اسکولی نظام سے متعلق افرادکی اردو کے باب میں کوتاہیاں اور کمزوریاں اتنی شدید ہیں کہ ان سے اردو کے بقا کی امید بے معنی ہے۔
اخیر میں حضرت نے ایک صحافی کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے ذریعہ یہ حقیقت بالکل واضح کر دی کہ جب تک ہماری نسلیں خالص مغرب زدہ نظام تعلیم سے استفادہ کرتی رہیں گی اس وقت تک ان کی دینی و دنیوی ترقی کی راہیں مسدود رہیں گی۔
10 اکتوبر کو صبح کی پہلی نشست میں تلاوت کلام پاک اور نعت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی ادام اللہ فیوضہم نے آن لائن خطاب فرمایا۔
حضرت نے فضلائے جامعہ کے تاریخی شہر اورنگ آباد میں جمع ہونے پر خوشی کا اظہار فرمایا اور دعاؤں سے نوازا۔ حضرت نے اس موقعہ پر قرآن مجید کی تلاوت کی اہمیت قرآنی آیات کی روشنی میں بیان فرمائی اور خود تلاوت کرنے، ہر گھر اور محلہ اور بستی میں تلاوت کا اہتمام کرانے اور اس کا ماحول بنانے کی تاکید فرمائی اور قرآن کریم کے الفاظ و معانی کی اشاعت پر زور دیا۔ درس تفسیر دینے اور تحفہ تراویح کے ذریعہ قرآنی مضامین کو عام کرنے کی تاکید فرمائی۔ ساتھ ہی اردو کی حفاظت اور موجودہ دور کے تقاضوں کی لحاظ سے اپنی اسناد کی بنیادوں پر ڈی ایڈ، بی ایڈ کرنے اور نئے دور کے لحاظ سے تیار ہونے کا حکم فرمایا اور اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ تعلیمی رہبری کے لیے جامعہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوئے ہیں۔
ظہر کی نماز کے بعد ساتھیوں کی ایک تعارفی نشست ہوئی۔ جس میں ساتھیوں نے مختصر لفظوں میں اپنی 15 سالہ کارگذاری اور اپنی مصروفیات بتائیں۔
یہ انتہائی منفرد اور دلچسپ مجلس تھی جس نے اساتذہ کی وہ بات یاد دلا دی کہ ان معصوم طلبہ میں نہ معلوم کون محدث ہوگا، کون مفسر ہوگا، کون خطیب ہوگا کون اپنے علاقہ کا قاضی اور پیشوا ہوگا وغیرہ…اس مجلس نے اس قول کی عملی شکل دکھا دی اور اساتذہ کی باتوں کا مشاہدہ کرا دیا۔
15 سال پہلے جو طالب علم تھا، اپنے اساتذہ اور رئیس الجامعہ سے پرخلوص دعاؤں اور ہدایات کی سوغات لے کر چلا تھا،دین اسلام اور امت مسلمہ کی خدمت کا جو سبق سیکھ کر چلا تھا آج اورنگ آباد کی تاریخی سرزمین پر کھڑے ہو کر اپنی 15 سالہ خدمات کا خلاصہ سنا رہا تھا، اپنی زندگی کی روداد سنا رہا تھا۔چند لمحوں میں سالوں اور صدیوں کا سفر ہو رہا تھا۔
چند لمحوں میں سمٹ آیا، صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز، چلی ہو جیسے
کوئی کھڑے ہو کر کہہ رہا تھا میں بخاری پڑھاتا ہوں، کوئی کہہ رہا تھا میں جلالین پڑھاتا ہوں، کوئی بتا رہا تھا میں فلاں مدرسہ کا مہتمم ہوں، کسی نے بتایا میں مکاتب کا ذمہ دار ہوں، کسی نے سنایا کہ میں رفاہ عامہ کی تنظیم کا ذمہ دار ہوں، کوئی جمیعت کا ذمہ دار ہے، کوئی پرسنل لاء کا کام سمہالے ہوئے ہے، کوئی امامت اور مکتب کی تعلیم کا ذمہ دار ہے۔ غرضیکہ ساتھیوں نے اپنی اپنی کارگذاری سنائی اور ان کے تجربات کی روشنی میں ان سے سوالات بھی کیے گئے، مثلاً اتنے طویل عرصہ تک ایک ہی جگہ خوش اسلوبی کے ساتھ امامت کا راز کیا ہے؟ اس بہترین نظامت کا راز کیا ہے؟ فرق باطلہ کا کس حکمت سے مقابلہ کیا جائے وغیرہ وغیرہ…اس کارگذاری سے ساتھیوں کے تجربات کی روشنی میں بہت سی قیمتی باتیں سامنے آئیں اور تمام ساتھیوں نے ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھایا۔
یہ کارگذاری رئیس الجامعہ کی اس فکر کا مظہر تھی کہ ہمارا ہر فاضل دین کے کام سے جڑا رہے۔اس جماعت میں تقریباً 238 طلبہ تھے جن میں 140 طلبہ اس اجتماع میں شریک ہوئے۔ ان ساتھیوں کے تحریری تعارف ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ شریک ہونے والے ساتھیوں میں سے تقریباً 55 ساتھی تدریس، تقریباً 40 ساتھی امامت و مکتب، 3 ساتھی مدرسہ کے اہتمام اور بقیہ ساتھ تجارت یا زراعت کے ساتھ دینی و رفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس کے بعد ایک انتہائی اہم مجلس ہوئی جس میں ساتھیوں نے اپنے ان اساتذہ (مولانا عبد الرحیم صاحب، مولانا سعید صاحب وستانوی، مولانا طاہر صاحب، مولانا عبد المنان صاحب وغیرہم رحمہم اللہ) اور طالب علم ساتھیوں (مولوی عمران نواپوری، مولوی امتیاز سیتامڑھی، مولوی شفیق اورنگ آباد وغیرہم رحمہم اللہ) کو یاد کیا جو رحمت خداوندی میں پہونچ چکے ہیں، ان کو یاد کرتے وقت تمام ساتھی آبدیدہ ہو گئے:
دل میں کسی کی یاد کے نشتر اتر گئے
کتنے ستارے آنکھ سے ٹوٹے بکھر گئے
ان تمام مرحومین کے لیے ایصال ثواب اور اجتماعی طور پر دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا۔
اس اجتماع کو مفید تر بنانے کے لیے ساتھیوں کی جانب سے قاضی شریعت، حضرت الاستاذ حضرت مولانا مفتی جعفر صاحب ملی رحمانی دامت برکاتہم سے اورنگ آباد تشریف آوری اور نصیحت کی درخواست کی گئی تھی۔ حضرت نے انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ اس درخواست کو قبول فرمایا تھا۔
نظام کے مطابق مغرب سے پہلے اجتماع گاہ میں حضرت کی تشریف آوری ہوئی۔ نماز ِ مغرب، تلاوتِ قرآن اور نعتِ رسول کے بعد حضرت نے اپنے خصوصی خطاب کا آغاز علم اور قرآن و سنت کی فضیلت پر مشتمل آیات و احادیث سے فرمایا۔ پھر اس اجتماع کے پس منظر کو بیان فرماتے ہوئے اور اپنے شاگردوں کو فائز و کامران دیکھ کر حضرت آبدیدہ ہو گئے اور طلبہ سے اپنے والہانہ تعلق اور خصوصی دعاؤں کا ذکر فرمایا۔
پھر حضرت نے قرآنی آیات اور واقعات کی روشنی میں علم کی اہمیت بیان فرمائی اور ہر وقت علم حاصل کرتے رہنے کی تاکید فرمائی نیز علمی پختگی کے ساتھ صالحیت اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے، کسی نہ کسی شکل میں دینی خدمات سے جڑے رہنیکی ترغیب دی کیوں کہ علم کا شکر اس پر عمل اور اس کی تبلیغ ہے۔
حضرت کے خطاب کے بعد اس خصوصی موقعہ کے لیے تیار کی گئی یاد گار ٹرافی حضرت ہی کے دست اقدس سے تمام ساتھیوں کو تقسیم کی گئی۔ اور حضرت کی دعاء پر اس مجلس کا اختتام ہوا۔
11 اکتوبر کی صبح کو اس خصوصی اجتماع کی آخری اور الوداعی نشست منعقد ہوئی، جس میں سب سے پہلے ہر تین سال میں اس طرح کے اجتماع کو منعقد کرنے، آئندہ اجتماع کو (حالات حاضرہ پر مقالات و محاضرات کی تیاری اور اساتذہ و ماہرین کی موجودگی کے ذریعہ) مزید مفید بنانے، مرحومین ساتھیوں کے پسماندگان کے تعاون اور ہمارے ساتھیوں کی ہنگامی ضروریات کے لیے ایک فنڈ بنانے کی تجاویز ساتھیوں کے مشورے سے پاس کی گئیں۔
سب سے اخیر میں تمام ساتھیوں کی طرف سے تعلیم اور تدریس میں معاون بننے والے تمام سرپرستان، حروف شناسی سے لے کر بخاری و تخصصات تک تعلیم دینے والے اور رسمی فراغت کے بعد بھی موقعہ بہ موقعہ رہبری کرنے والے اساتذہ کرام اور حضرت رئیس الجامعہ کے لیے احسان مندی کے جذبات کے ساتھ کلمات تشکر کہے گئے اور دعا پر اس مجلس کا اختتام ہوا۔
تمام ساتھی ایک دوسرے سے الوداعی معانقہ کرتے ہوئے، آئندہ ملنے کے وعدے کے ساتھ، دعاؤں کی گذارش کرتے ہوئے، اشک بار آنکھوں سے وداع ہوئے۔
آتی رہیں گی یاد ہمیشہ یہ صحبتیں
ڈھوندا کریں گے ہم تمہیں فصلِ بہار میں
الحمدللہ! یہ اجتماع اساتذہ کی دعاؤں کی برکت سے اپنے حسن انتظام اور حصول مقاصد کے لحاظ سے انتہائی کامیاب رہا۔
ہم نے لمحوں میں گزاری ہیں ہزاروں صدیاں
وقت کی دھوپ میں پگھلا ہوا دریا دیکھا
صبح روشن نے اتاری ہیں ستاری آنکھیں
شاخ شمشاد نے گلشن کا دریچہ دیکھا
پروردگاراس یاد گار خصوصی اجتماع کے لیے کوشش کرنے والے اور اسے کامیاب بنانے والے ساتھیوں کو دارین میں بہترین اجر عطا فرمائے۔ ہمارے اساتذہ اور بزرگوں کا سایہ تادیر عافیت کے ساتھ ہم پر اور پوری امت پر قائم و دائم رکھے، اساتذہ کی امیدوں اور حسن ظن سے بڑھ کر ساتھیوں کو عافیت کے ساتھ دینی خدمات انجام دینے کی توفیق عنایت فرمائے اور جنت الفردوس میں آقا مدنی صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں ہم سب کا جمع ہونا مقدر فرمائے۔(آمین)