جامعہ اکل کوا کی آل انڈیا قرآنی و تعلیمی بیداری مہم

جامعہ کے شب و روز:

جامعہ اکل کوا کی آل انڈیا قرآنی و تعلیمی بیداری مہم

 حضرت مولانا حذیفہ و ستانوی صاحب دامت برکاتہم اور جناب منور زماں صاحب حفظہ اللہ کی سربراہی میں پورے ملک کے دورے اور”کل ہند مسابقة القرآن“ کا پس منظر اور اس کی تاریخ:

            اللہ پاک کی توفیق اور اپنے اخلاص کی برکت سے خادم القرآن، سلطان المدارس اورمفکرِ قوم و ملت حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم نے آج سے تقریباً ۳۰ /سال قبل مکہٴ مکرمہ (زادہا اللہ شرفاً و کرماً)کے عالمی مسابقة القرآن میں شرکت فرمائی اور وہاں سے واپسی کے بعد اپنے رفقائے کار کے سامنے یہ فکر رکھی کہ امتِ مسلمہ کو قرآنِ کریم سے منسلک ومربوط کرنے میں مسابقاتِ قرآنیہ کا انعقاد بڑا مؤثر طریقہ معلوم ہوتا ہے۔اسی فکر کو عملی جامہ پہناتے ہوئے آپ دامت برکاتہم نے جامعہ کے انتہائی اورمؤقر استاذِ فقہ و حدیث و تفسیر حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ کو اس کا ذمہ دار بنایا۔

            بعدہ جامعہ کے طلبہ میں مسابقہ کا انعقاد عمل میں آیا۔ پھر اس کے بعد پہلا کل ہند مسابقہ۹۹۴ ۱ ء میں منعقد ہوا، جو سات ریاستوں پر مشتمل تھا۔ اس کے بعد دوسرے مسابقے میں کل۴ ۱/ریاستیں،تیسرے میں ۲۱/ ریاستیں، چوتھے میں ۲۴/ ریاستیں، پانچویں میں ۲۵/ ریاستیں اور چھٹے میں کل۲۸ /ریاستیں شریکِ مسابقہ رہیں۔اس کے بعد مسلسل دو تین چھوٹی ریاستوں کو چھوڑ کر ملک کی تمام ریاستیں الحمدللہ! جوق در جوق شرکت کرتی رہیں۔مگر اس بار اس بات پر افسوس ہے کہ اب تک نو ریاستی و تمام کل ہند مسابقات کے روحِ رواں مرحوم حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی ہمارے درمیان نہیں ہیں۔

            مولانا مرحوم نے گزشتہ تمام ریاستی و کل ہند مسابقات کے لیے متعدد بار ملک کا چپہ چپہ گھوم گھوم کر امت کو تجوید کے ساتھ کتاب اللہ کے پڑھنے اور اس کی تفسیر کے ساتھ منسلک کرنے میں نا قابل ِفراموش کردار ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی ان خدماتِ جلیلہ کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور درجات کو بلندکرے۔(آمین)

 آپ رحمة اللہ علیہ کے بعد مسابقات قرآنیہ کی ذمے داری:

            آپ رحمة اللہ علیہ کے بعدمسابقاتِ قرآنیہ کی یہ ذمہ داری حضرت مولانا حذیفہ صاحب دامت برکاتہم کے سپرد ہوئی، توآپ نے اس امرِ عظیم کی زمام ِکار مرحوم مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ کے ان رفقائے کار کو سونپ دی،جو گزشتہ تمام مسابقات میں آپ کے ہم فکر و ہم رکاب رہے۔

مثلاً:قاری ساجد صاحب سیندھوا، قاری عبداللہ صاحب سارودی اور مزید چند نوخیز و باصلاحیت حضراتِ اساتذہٴ ٴجامعہ کو بھی ان حضرات کے ساتھ شامل کردیا ۔مثلاً مولانا جاوید پٹیل بوڑکھااورمفتی مجاہد پھلمبری صاحبان۔

 مذکرات تیار کرنے کی ذمہ داری:

            مفتی افضل ممبئی،مفتی عبدالمتین کانڑگاؤں، مفتی مجاہد پھلمبری،مولانا صادق تونڈاپوری اور مولانا عبد العظیم امراوتی کو دی؛ تاکہ ان تجربہ کاروں کی صحبت میں ایک نوجوان اور مضبوط جماعت تیار ہوجائے اور یہ مسابقتی مشن یوں ہی پروان چڑھتا رہے۔

 حکم حضرات کا تدریبی دورہ وانتخاب ریاستی مساہمین:

            اس بار ریاستی مسابقات کے لیے یہ نظام بنایاگیا کہ عالمی معیار کے مطابق حکم حضرات کا تدریبی دورہ رکھاگیا۔پہلے ہر ریاست کے مساہمینِ مسابقہ کا آن لائن جائزہ لیا گیا،جو تجوید اور پختگی کے اعتبار سے معیاری تھے، ان کوہی منتخب کیا گیا۔

            ہم بے پناہ مشکور ہیں اپنے ان تمام اساتذہٴ جامعہ کے؛ جنہوں نے شب و روز سفر کی صعوبتیں برداشت فرماکر اس خدمت کو انجام دیا۔فجزاہم اللہ خیرا فی الدارین۔

 قافلہٴ قرآنی:

             وہ حضراتِ اساتذہٴ کرام یہ ہیں:

فرعِ اوّل مکمل حفظ قرآن کریم میں:

            1-مولانا عبد العلیم صاحب سلوڑ۔2-قاری الیاس صاحب ڈیلی۔3-قاری عبدالصمد صاحب۔

            4-مفتی جلال صاحب ایم پی۔5-قاری عبد اللہ صاحب سارودی.6-قاری جابراحمد صاحب۔

7-قاری ابراہیم صاحب۔8-قاری حسین صاحب۔ 9-مولانا محمد علی صاحب۔10- قاری سید عمر صاحب۔11-قاری محبوب صاحب۔ 12-مولانا عیاض صاحب۔

فرع ثانی وثالث میں:

            1-مفتی محمد مجاہد اشاعتی صاحب پھلمبری۔2-مولانا عبد الحسیب صاحب بمبئی۔3-مفتی عبدالمتین صاحب کانڑگاوں۔4-مفتی محمد ہلال الدین صاحب ابراہیمی۔5-مولانا صادق صاحب۔6-مولانا یحیی صاحب۔7-مولانا عبد الغفور صاحب۔8-مفتی افضل صاحب۔9- مولانا عبد العظیم صاحب۔10-مولانا محمد صاحب۔

ماہ نومبر ماہِ ریاستی مسابقہ :

            اس بار بھی دسواں ریاستی مسابقہ نومبر کی پہلی تاریخ سے شروع ہوا اور الحمدللہ جھارکھنڈ، اڑیسہ، دہلی،پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، جموں کشمیر اور بہار کے مسابقات ماہِ نومبر کے پہلے ہفتے میں کام یابی کے ساتھ منقعد ہوئے۔

            دوسرے ہفتے میں ایم پی، چھتیس گڑھ، راجستھان، آسام،منی پور، آندھرا پردیش،تلنگانا،تملناڈو اور بنگال کے مسابقات کے عمدہ نتائج رہے۔

            تیسرے ہفتے میں یوپی، اتراکھنڈ،کرناٹک اور کیرلا کے ریاستی مسابقات کا انعقاد ہوا۔

             اور آخری ہفتے میں مہاراشٹرا، گوا اور گجرات کے مسابقات کے کامیاب انعقاد پر اس ریاستی مسبقات کا اختتام ہوا۔ اور اب ۲۲تا ۲۴/ دسمبر تمام ریاستوں کے ممتاز فائزین کے مابین کل ہند مسابقہ احاطہٴ جامعہ میں منعقد ہو گا ۔ ان شاء اللہ! جس کے نتائج ان شاء اللہ آئندہ شمارے میں شامل ہوں گے۔

             قارئین سے کل ہند مسابقہ کی کام یابی کے لیے دعاؤں کی درخواست ہے ۔

 فروعات ِمسابقہ:

            اس بارکا مسابقہ تین فروعات پر مشتمل ہے:

            (1) مکمل حفظ قرآن کریم۔

            (2) تفسیر سورة النحل۔

            (3) ۴۰ / احادیث نبویہ عن الفتن (علی صاحبہا الصلوة والتسلیم)

تفسیر سورہٴ نحل واحادیث فتن کا انتخاب :

            ”سورہٴ نحل“ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ اللہ کی قدرت اور کائنات میں ،اس کی حیرت انگیز نشانیوں کی نشاندہی اور ان پر غور و فکر کی دعوت، سب سے زیادہ اسی سورہٴ مبارکہ میں ہے۔اسی طرح فتنوں اور خاص طور پر الحاد و دہریت کے اس دور میں امت کے سامنے اسے بیان کرنے کی سخت ضرورت ہے۔گویا اس کے ذریعہ پیغام ہے کہ طلبہ ہر اعتبار سے تیار ہوجائیں اورامت کی پیاس کو بجھائیں!

 احادیث ِفتن:

            فتنوں اور قیامت کی نشانیوں سے متعلق ۴۰/احادیث اور اس کی تفصیلات کو اس لیے منتخب کیا گیا کہ امت کو فقہ الفتن اور قیامت کی نشانیوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور اس میں ہورہی افراط و تفریط سے متنبہ کیا جائے،تاکہ اس دور میں امت کے ایمان کی حفاظت ہو سکے۔

 اسکول کے طلبہ میں قرآنی کوئز :

            اسی طرح جامعہ نے اسکول کے طلبہ میں بھی قرآن سے متعلق بیداری کا پروگرام بنایا ہے، جو سر دست مہاراشٹرا کے چند بڑے شہروں میں قرآنی کوئز کے عنوان سے ذیل میں دی گئی تاریخوں پربحمداللہ نہایت کامیابی اور بڑے عمدہ نتائج کے ساتھ منعقد ہوا۔

            2 دسمبر: مالیگاؤں۔

            3 دسمبر: دھولیہ۔

            4 دسمبر : جلگاؤں۔

            7 دسمبر : ممبئی۔

            9 دسمبر: تھانہ (بھیونڈی) ۔

            اس سے متعلق جناب امتیاز خلیل صاحب نے بڑی محنت کی ہے اور اساتذہٴ جامعہ مولانا ہلال الدین، مولانا عبدالحسیب اورمولانا محمد ممبئی صاحبان نے۱۲۰۰ سوالات و جوابات پر مشتمل قرآنی کوئز تیار کی۔ جسے اسکول کے طلبہ نے سوالات کے ساتھ یاد کرلیا الحمد للہ ۔اور یہ کوئز بھی اسکول کے طلبہ کے درمیان بڑی دلچسپ رہی ۔ اس قرآنی کوئز کا کامیاب انعقاد جناب امتیاز خلیل صاحب اور مولانا عبد الحسیب صاحب کی نگرانی میں ہوا۔مفتی محمد ہلال الدین اورمفتی عبد المتین صاحبان نے فریضہٴ حکم کی ذمے داری بخوبی انجام دی اور مولانا محمد صاحب ممبئی اور مولانا حسان صاحبان نے بحسن وخوبی نظامت کی ذمے داری ادا کی۔ اللہ ان سب کو دارین میں بہترین اجر سے نوازے۔ آمین!

انعامات :اول پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیم کو۹۰۰۰،دوسری کو۷۵۰۰،تیسری کو ۶۰۰۰ اور چوتھی کو۳۰۰۰ ہزار کا نقد انعام دیا گیا۔اسی طرح تمام شریک طلبہ کو ایک قیمتی قلم اور سند شرکت سے حوصلہ افزائی کی گئی اور مرکزی اسکول کی طرف سے بھی خاطر خواہ انعامات سے تشجیع کی گئی۔

            ۲۴/ دسمبر کو ان پانچ اضلاع کے طلبہ کے مابین جامعہ اکل کوا میں قرآنی کوئز کا انعقاد عمل میں آئے گا۔

نوعیت ِمسابقہ:

            ہر ریاست و صوبہ میں ایک دینی ادارے کو ذمہ دار بنایا گیا، جس نے اس صوبہ کے تمام اداروں سے رابطہ کرکے انہیں اس ریاستی مسابقہ کے لیے دعوت دی۔اب ان ریاستی مسابقات میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے مساہمین کو ۲۲ /تا ۲۴/ دسمبر ۲۰۲۳بروزجمعہ، سنیچر، اتوار کے درمیان” کل ہند مسابقہ “اکل کوامیں شرکت کی دعوت دی گیٴ ہے۔ان شاء اللہ !

 ریاستی مسابقات میں دیے جانے والے انعامات:

            پہلے نمبر پر کام یاب ہونے والے مساہم کو ۱۰۰۰۰۔ دوسرے نمبر سے کام یاب ہونے والے مساہم کو ۷۰۰۰۔ تیسرے نمبر پر کام یاب ہونے والے مساہم کو ۵۰۰۰۔ چوتھے نمبر پر کام یاب ہونے والے مساہم کو ۴۰۰۰۔پانچویں نمبر پر کام یاب ہونے والے مساہم کو ۳۰۰۰۔ اور مسابقہ میں شریک ہر مساہم کو عمومی انعام ۱۰۰۰/۱۰۰۰۔ روپئے جامعہ اکل کوا کی جانب سے دیے گئے۔

            اس کے علاوہ ہر صوبے کے مرکزی مدارس کی جانب سے بھی گراں قدر انعامات و تحائف سے اکرام کیا گیاہے۔ میوات میں ایک محترم ٹور آرگینزرنے مکمل قرآن کریم میں پہلے نمبر سے کام یاب ہونے والے مساہم، اس کے والد اور استاذکے لیے عمرہ کا اعلان کیا ہے۔ فجزا ہ اللہ خیر ا فی الدارین۔

            نندوربار سے تعلق رکھنے والے مخیر محترم حاجی قسمت صاحب نے کل ہند مسابقہ کی فرع اوّل کے پہلے نمبر پر کام یاب ہونے والے مساہم کو ”کار“ انعام دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح فرع ِثانی کے لیے احمد بھائی تمبی سورت نے ”اسکوٹر“ (بائک) کا وعدہ کیا ہے۔ ماشاء اللہ! اللہ انہیں دارین میں اجر عظیم سے نوازے آمین۔

 مسابقات کی رپورٹ:

            ریاستی مسابقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدارسِ اسلامیہ” کورونا “کے بعد ہر اعتبار سے کافی مشکلات سے دوچار ہیں۔طلبہ کی تعداد متأثر ہوئی ہے۔ اکثر مدارس طلبہ کی کمی کا دکھڑا سنا رہے ہیں۔ اسی طرح تنظیمی،تربیتی اور مالی اعتبار سے بھی کافی دشواریوں کاسامنا ہے،جس کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنے کی سخت ضرورت ہے۔

            حضرت مولانا حذیفہ صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ مدارس میں طلبہ کی گھٹتی ہوئی تعداد کو روکنا اسی وقت ممکن ہے، جب دینی مدارس اپنے تعلیمی نظام میں ہر مرحلے پر طلبہٴ مدارس کے لیے بنیادی عصری تعلیم کا انتظام کرے، جس کے لیے مستقبل قریب میں جامعہ اکل کوا اپنے کام یاب تجربات و حقائق اربابِ مدارس کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرے گا، جو ۴۵/ سال سے دینی و عصری تعلیم کا کام یاب نظام چلا رہا ہے، تا کہ اس سلسلے میں صحیح رہبری ورہنمائی مل سکے۔ ان شاء اللہ!

            عصری تعلیم کے میدان میں بھی امت کی حالت ہر صوبہ و علاقے میں بڑی ناگفتہ بہ ہے۔ ہندوستان کے مشہور موٹیویشنل اسپیکر جناب منور زماں صاحب نے بھی ہر جگہ تعلیم، تربیت، اخلاق اور والدین کی خدمت کے عناوین پرخطاب کیا۔ ماشاء اللہ ہر جگہ دسیوں ہزار کا مجمع رہا اور ان لوگوں کی بھی کافی بڑی تعداد رہی جو خالص دینی اجلاس میں شرکت نہیں کرتے،اس طرح یہ لوگ بھی دین سے اور دینی ماحول سے قریب ہوئے۔ جناب منور زماں صاحب نے کہا کہ خادم القرآن حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب ”دینی ماحول میں عصری تعلیم“کے باب میں آئیڈیل اور نمونہ ہیں، مسلمانوں کو آپ کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔(آپ اس وقت بیمار چل رہے ہیں، ان کے لیے شفاکی دعا کریں) اور حضراتِ علمائے کرام کو چاہیے کہ مولانا کے سچے جانشین حضرت مولانا حذیفہ صاحب کی سرکردگی میں تعلیمی بیداری مہم میں بے لوث ہو کر آگے آئیں!

جاری مسابقات پر علمائے کبار کے تاثرات:

            اکثر ریاستوں میں علماکے تاثرات ان الفاظ پر مشتمل تھے کہ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے خادم القرآن و المساجد حضرت مولانا غلام محمد وستانوی شفاہ اللہ وعافاہ و ادام اللہ ظلہ علینا بالعافیة و الخیر و السلامة کو؛ کہ آپ نے تیس سال قبل قرآن کو کماحقہ تجوید کے ساتھ پڑھنے کے لیے مسابقات قرآنیہ کی یہ کام یاب تحریک شروع کی؛ ورنہ قرآن ہمارے یہاں مجہول پڑھنا پڑھانا عام تھا۔ مفتی ابوالکلام صاحب قاضی ومفتی ریاست بھوپال نے کہا کہ”الف،بے، تے، ثے، پڑھایا جاتا تھا،جب پہلی بار الف، با، تا، ثا، پڑھانے کا آغاز ہوا تو قدیم حفاظ نے ہنگامہ کھڑاکیا،مجھے بلایا کہ کیا صحیح ہے؟

            میں نے کہا الف، با،تا صحیح!!! تو کہا کہ تم نے بھی تو الف بے تے پڑھا ہے؟! کیا وہ غلط تھا؟!تو میں نے کہا ہاں بالکل وہ غلط تھا!! اور یہی صحیح ہے۔

            الحمدللہ مولانا وستانوی دامت برکاتہم کا یہ تجدیدی کارنامہ ہے، جس کے لیے اللہ نے آپ کو منتخب کیا اور اب آپ کے خلف الرشیدحضرت مولانا حذیفہ صاحب اس کو مزید معیاری انداز میں آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ، بلکہ فہم قرآن اور تعلیمی بیداری کے لیے بڑے فکر مند ہیں۔ اللہ ان کی کوششوں کو کام یابی سے ہمکنار فرمائے۔آمین یارب العالمین!

 مسابقہ کے اسٹیج سے جانشینِ وستانوی کا پیغام:

            مولانا حذیفہ صاحب نے ہر جگہ یہ پیغام دیا کہ قرآن کریم سے وابستگی اور تعلیمی بیداری یہ دونوں چیزیں انتہائی اہم ہیں، اگر امت نے ان دونوں چیزوں کو تھام لیا تو کام یابی یقینی ہے۔

            آپ نے پر زور انداز میں یہ بھی کہا کہ اگر کسی کام میں نیت صحیح ہو، نہج و طریقہ درست ہو اور اسے تسلسل کے ساتھ کیا جائے، تو کام یابی ضرور ملتی ہے۔

            کام کرنے والوں میں امانت داری، امت کا درد اور کڑھن بھی ضروری ہے۔ مال دار مسلمان متحد و متفق ہوکر ہر علاقے میں وہاں کے علما اور دانشوروں کے ساتھ مل کر آگے بڑھیں گے تو ترقی کی راہ آسان ہو گی۔ہر علاقے میں کچھ نہ کچھ متمول اور تجار مسلمان تو ہوتے ہی ہیں، اگر وہ اپنے اپنے علاقے کی فکر اوڑھ لیں تو اللہ پاک ترقی کی نعمت سے ان شاء اللہ ضرورمالا مال فرمائیں گے۔

            مولانا حذیفہ صاحب اپنے خطابات میں مو جودہ ارتداد کی آندھی اور اخلاقی بے راہ روی کو روکنے کا صحیح حل بھی پیش فرمارہے ہیں کہ ہم اپنے مکاتب، مدارس،مساجد، دعوت و تبلیغ اور خانقاہی نظام کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم دینی ماحول میں مہیا کرنے کے لیے اپنی اسکولیں، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم کرنے کی بھرپور کوشش کریں، ورنہ ہماری اگلی نسل کا ایمان خطرے میں ہے۔

            کیوں کہ ماحول انسانی زندگی پر اثر انداز ہونے والا سب سے مؤثر ہتھیار ہے اور ملحدانہ و مشرکانہ ماحول نے ہی یہ تباہی مچا رکھی ہے۔ جیسے لوہا لوہے سے کٹتا ہے، ایسے ہی ملحدانہ و مشرکانہ ماحول کا مقابلہ روحانی،ربانی اور اسلامی ماحول سے ہی کرنا ہوگا۔

            ہر خطاب کے آخر میں مولانا حذیفہ صاحب نے فلسطین کے مظلومین کے لیے خاص طور پر اور پوری دنیا کے مسلمانوں اورعام انسانوں کے لیے عمومی طور پر رو روکر دعائیں کیں، اللہ قبول فرمائے۔ آمیں یارب العالمین۔

            مولانا مسئلہ فلسطین پرماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں اور زبان وقلم اوردعا وغیرہ کے ذریعہ بساط بھر کوشش کر رہے ہیں۔اللہ مظلومین غزہ وفلسطین کی خصوصی نصرت فرمادیں!

             رفقائے سفر اور ان کی ذمے داری :

            اس سفر میں احمد بھائی تمبی سورت اور مولانا جاوید صاحب پٹیل بوڑکھا ناظم مکاتب جامعہ مولانا حذیفہ صاحب کے ہمراہ رہے، جنہوں نے پورے سفر کی تنظیم وترتیب اور ملنے جلنے والے ضرورت مندوں کی جانب سے پیش کی جانے والی درخواستوں کو جمع فرمایا؛ تاکہ حتی المقدور ملتِ اسلامیہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔

            قارئین سے درخواست ہے کہ وہ دعا کریں کہ اللہ جامعہ اور منتظمین جامعہ کواپنے کاموں میں اخلاص وثبات عطا فرمائے۔ قدم قدم پر مدد ونصرت فرمائے، تمام عزائم و منصوبوں کو عافیت،نافعیت اور افادیت کے ساتھ پایہٴ تکمیل تک پہنچائے اور ہر قسم کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے۔ حاسدین کے حسد، شریروں کی شرارت، دشمنوں کی عداوت، اپنوں اور اپنے نفس کے شر سے ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے اور قرآن کریم کے ان مسابقات کی خیرو برکت سے پورے ملک کو بہرہ ور فرمائے۔

نوٹ:خادم الخیر والامة حضرت مولانا حذیفہ صاحب دامت برکاتہم کے ہورہے تمام بیانات آپ مندرجہ ذیل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے سن سکتے ہیں:

اشاعة العلوم آن لائن             ISHAATUL ULOOM ONLINE حذیفہ وستانوی آفیشیل HUZAIFA VASTANVI OFFICIAL