ہندوستان کی آزادی کی ۷۳؍ہویں سالگرہ کے موقع پر جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا میں عید الاضحی کی تعطیلات کے باوجود ہزاروںطلبہ اور اساتذہ ،اسٹاف اور ملازمین نے احاطۂ جامعہ میں پرچم کشائی کی اور مجاہدینِ آزادی کو خراج ِمحبت پیش کیا اور ان کی قربانیوں کورائیگاں نہ جانے کا عزم کرتے ہوئے ہندوستان کوامن وامان کا گہوارہ ،آتنک اور دہشت سے پاک کرکے اس ملکِ عزیز کو ترقی کے بامِ عروج تک پہنچانے کا عہد لیااور ہندوستان کی خصوصیات اور امتیازی شان کو نقصان پہنچانے والی کوششوں کو ناکام کرنے کابھر پورعزم کیا۔
۱۵۰ سالہ شروعاتی جنگ صرف مسلمانوں نے لڑی:
ناظم ِتعلیمات ومدیر تنفیذی مولانا حذیفہ صاحب وستانویؔ نے اس موقع پر خطاب میںتحریکِ آزادی میں مسلمانوںکے۳۰۰؍سالہ جدوجہد اور قربانیوں پر روشنی ڈالی، جس کاآغاز۱۶۸۸ء میںاورنگ زیب عالم گیرؒسے ہوا تھااور پھر ۱۸۰۳ء میں شاہ عبد العزیزؒ کے فتوی کے بعدعلما ئے کرام نے اس تحریک کوآگے بڑھایا ۱۹۱۹ء میں ہندو مسلم اتحاد عمل میں آیا اور انگریزوں کو بالآخر ۱۹۴۷ء میں ہندوستان چھوڑْنا پڑا۔
آپ نے فرمایا : ہمیں اپنی تاریخ کو یاد رکھتے ہوئے یہ جاننا چاہیے کہ اس ملک کو آزاد کرنے میں ہمارا کیا رول رہا ہے ۔ ہمارے اسلاف نے کب ،کیسے اور کس طرح اس ملک کو آزاد کرنے کے لیے کیا کیا کردار اداکیے ہیں ۔
پہلی جنگ آزادی کا آغاز:
عام طورپر ہندستانی مؤرخین جنگ آزادی کا آغاز ۱۸۵۷ء سے شمار کرتے ہیں جب کہ اگر تاریخ پر نظر کی جائے تو جنگ آزادی کا آغاز ۱۸۵۷ء سے نہیں ، بل کہ ۱۶۸۸ء سے ہی ہوتا ہے ۔ وہ اس طور پرکہ ۱۶۰۳ء کو انگریز اس ملک میں آئے ۔تجارت کا بہانہ بناکر انہوں نے اپنی کوٹھیاں بنائی۔ ممبئی اور اس کے مضافات میں انہوں نے اپنے قلعے تعمیر کرنا شروع کردیے۔ہندستان چوں کہ اس وقت دنیا کا سب سے امیر ترین ملک تھا ۔ اس کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ۔اور اس کی طاقت دنیا کی عظیم طاقتوں میں سے ایک تھی، لہٰذا اس بنا پر۱۶۸۸ء میں سب سے پہلے اورنگ زیب عالمگیر ؒ کے زمانے میں انہوں نے بغاوت کرنے کی کوشش کی، تو اورنگ زیب عالمگیرؒ کے ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری نبھائی اورانہیں شکست سے دوچار کیا ۔ پھر اس کے بعد جب انگریزوں نے دیکھا کہ ان کی شکست ہوچکی ہے اورانہیں اس ملک سے نکال دیا جائے گا تو وہ ۱۶۹۰ء میں اورنگ زیب عالمگیرؒ کے قدموں میں آکر گر گئے اورگڑگڑا کر معافی مانگی کہ آج کے بعد ہم ایسا نہیں کریںگے ۔ جس کی تصویر وہاں کے لوگوں نے بنائی جو ابھی بھی موجود ہے ۔
یہ سب سے پہلی جنگ آزادی تھی، جس کو اورنگ زیب عالمگیر ؒ کے زمانے میں مسلمانوں نے کامیابی سے ہم کنار کیا ۔اگر چہ تاریخ میں عام طور پر اس کا تذکرہ نہیں ملتا ہے ۔اس کے بعد انہوں نے بہت کوشش کی مگر اورنگ زیب عالمگیر ؒ کے زمانے میں وہ کچھ نہیں کر سکے ۔
دوسری جنگ آزادی :
البتہ ۱۷۰۳ء میں اورنگ زیب عالمگیرؒ کے انتقال کے بعد یہ ملک منتشر ہوگیا ۔پھرکیا تھا انگریزوں نے اورنگ عالمگیر ؒ کے صاحب زادوں کو آپس میں لڑاکر ڈوائڈ اینڈ رول(divide and rule) کا کردار ادا کیا پھر اس ملک پر حکومت کرنے کی کوشش کی تو دوسری جنگ آزادی کا آغاز۱۷۴۴ء میں وردی علی خان نے کی۔ انہوں نے بھی اس جنگ میں کامیابی حاصل کی ۔
تیسری جنگ آزادی :
پھر اس کے بعد ۱۷۵۷ء میں تیسری جنگ آزادی سراج الدولہ نے لڑی اور وہ کسی طریقے سے غداری کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکے ۔ اس کے بعد حیدر علی اور ٹیپوسلطان نے ۱۷۹۹ء میں اس ملک کے لیے اپنی جان قربان کردی ۔
اس طرح مسلمان حکمران اور بادشاہوں نے ۱۰۰؍ سال تک صرف اپنے بل بوتے پر اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کی انتھک محنت اور کوششیں کیں ۔
۵۰؍سال سے زیادہ عرصہ تک علمائے کرام نے اپنے بل بوتے پر ملک کی آزادی کے لیے جنگ لڑی:
اس کے بعد علمانے دیکھا کہ ہمارے ملک میں سیاسی اعتبار سے مسلمان حکمراں انگریزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو پھروہ میدان میں آئے۔اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اس ملک سے انگریزوں کو نکالنے کے لیے متنبہ کیا ۔پھر جب انگریزوں کا کا تسلط بہت زیادہ بڑھا ،تو ۱۸۰۳ء میں آپ کے صاحبزادے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر کیا اور کہا کہ یہ ملک دار الحرب ہوچکا ہے اور اس سے انگریزوں کو نکالنا مسلمانوں کا دینی ملی اور خلاقی فریضہ ہے ۔ لہٰذا انہیں اس ملک سے نکالا جائے ۔کہا جاتا ہے کہ اسی پاداش میں آپ کی آنکھوں میں زہر ڈالا گیا ،یہاں کہ آپ اپنی آنکھوں کی بینائی سے معذور ہوگئے اور آپ کو دہلی بدر کردیا گیا ۔
پھر اس کے بعد آپؒ کے تلامذہ میں سید احمد شہید ؒ اور سید اسماعیل شہیدؒ نے اس مہم کو آگے بڑھایا ۔ اسی طرح علما ئے صادق آباد،علامہ رحمت اللہ کیرانویؒ اور ۱۸۵۷ء سے پہلے شاملی کے میدان میں حاجی امداد اللہ مہاجر مدنی ؒ، حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ ،حافظ ضامن شہیدؒ(جو شاملی کے میدان میں شہید ہوئے)، حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ اور تمام لوگوں نے مل کر ۵۰؍سال سے زیادہ عرصہ تک اس ملک کی آزادی کے لیے صرف اپنے بل بوتے پر کوشش کی ۔ اس طرح ہمارے مسلم حکمراں ، بادشاہوں اور علمائے کرام نے ڈیڑھ سوسال تک اپنے بل بوتے پر انگریزوں سے جنگ آزادی لڑی۔
اب جسے جنگ آزادی کا آغاز شمار کیا جارہاہے اس سے گویا کہ ہمارا ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو فراموش کردیا جارہا ہے ۔
آپ نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیںاہل وطن یہ بتلانے کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ
٭ اس ملک کی آزادی میں سب سے بڑا رول ہم نے ادا کیا ہے ۔
٭ اس ملک کے ہم حصہ دار ہیں کرایہ دار نہیں !
٭ ہم اس ملک کی مٹی سے پیدا ہوئے ، اسی میں رہیں گے اور اسی ملک میں مرنے والے ہیں۔
٭ ہمیں اس ملک سے کوئی نکال نہیں سکتا !
آپ نے اہل وطن کونہایت اہم پیغام دیاکہ: مسلمانوں کو اس ملک سے نکالنے،ڈرانے دھمکانے اور ماحول خراب کرنے کی جولوگ کوششیں کررہے ہیں ، وہ اپنی کوششوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ ۱۹۵۰ء میںاس ملک کا جو جمہوری قانون بناتھا،وہ اس ملک کے ہر ہر باشندے کی جان اور مال کے تحفظ کا ضامن ہے ۔جس پر آج پوری قوت کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے اور یہ ملک جمہوری ہے اور جمہوریت کی روح ’’عدمِ تشدد‘‘ ہے ،جس روح کی حفاظت ہر ایک ہندوستانی کا فریضہ ہے۔
آپ نے آپسی بھائی چارگی اور ملک کی ترقی کے اسباب کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ۹۰؍سال تک تمام اہلِ وطن نے متحد ہو کرہندوستان کے لیے جنگِ آزادی لڑی اور ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے چھڑایا؛اسی طرح ہندوستان کی ترقی تمام کے اتحادسے ہی ممکن ہے،کوئی خاص قوم اسے ترقی نہیں دلا سکتی ۔ تفرقہ ہندوستان کو تنزلی کے کگار پر تولا کھڑا کر سکتا ہے؛لیکن ترقی کی ادنی سیڑھی بھی طے نہیں کرا سکتا ۔
آخر میں آپ نے وطن عزیز کی حفاظت ، اس کی امن وشانتی اور ہرطرح کی ترقی اوراس کے باشندوں کے پرامن زندگی کے لیے اللہ رب العزت سے التجا کرتے ہوئے اپنی جگہ لی ۔
جامعہ میں منعقد اس عظیم یومِ آزادی کے پروگرام میںسفید کرتا پائجامہ اور ٹوپی میں ملبوس مدرسہ کے ہزاروں بچوں کی حب الوطنی قابل دید تھی جو اپنے زبان حال سے چیخ کر کہہ رہی تھی:
سوبار سوارا ہے اور سواریںگے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
کوئی کیا ہمیں بتائے گا کیا ہم نے دیا ہے بھارت کو
یوم آزادی کے پلیٹ فارم سے باشندگان ہند کو میرقوم حضرت وستانوی کا بے باک پیغام:
رئیس جامعہ حضرت مولانا وستانوی صاحب نے بڑے ہی کھلے دل سے اس موقع پر تمام باشندگان وطن ،مسلمانان ہند اور طلبہ وعلما کو اہم پیغام دیا ۔آپ نے کہا: یہ ملک اس ملک میں رہنے والے ہر ہر فرد کا ہے اور اس ملک کے ہر مذہب کے ماننے والوں کاخون اس ملک کی آزادی کی بنا میں شامل ہے۔اور اس ملک کے مسلمانوں کی تاریخ رہی ہے،کہ جب جب اس ملک کوقربانی کی ضرورت پڑی سب سے پہلے مسلمانوں نے اپنا سر بڑھایا اور یہ روایت آیندہ بھی جاری رہے گی۔آپ نے کہا: کہ نہ ہم اس ملک میں جھگڑ نے والے ہیں اور نہ دبنے والے ہیں۔
آپ نے ملک کے مسلمانوں سے اپیل کی اور اپنے طلبہ کو تلقین کی کہ ہم اس ملک کو تجارت کے لائن سے تعلیم اور ایجوکیشن کے لائن سے مضبوط کریں اور مدارس کے نصاب کی اہمیت بتلائی کہ اس نصاب کا پڑھنے والا صرف بڑھنا جانتا ہے اور ہر میدان کو سر کرنا اس کے لیے آسان ہے ؛اور اس ملک میں اگر اردو پر محنت نہیں کی گئی اور ہمارے علما اردو اسکولوں میں نہیں پہنچے تو آیندہ دس سالوں میں ہندوستانی مسلمان اردو کے حروف تہجی سے بھی آشنا نہ ہوگا۔اسی لیے جامعہ نے یہ اسکول اور کالجوں کا جال بچھایا ہے ؛تاکہ مسلمان بچے اسلامی تشخص کو بر قرار رکھتے ہوئے علوم عصریہ کا میدان ماریں اور مدارس کے طلبہ ڈی اید ،بی ایڈ، ایل ایل بی اور دیگر اعلی تعلیم حاصل کرکے اعلی عہدوں پر پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کی ہر اعتبار سے اعلی ترجمانی کریں۔
اس تقریب کی نظامت کی ذمے داری کوبخوبی استاذِ جامعہ مولانا صادق صاحب تونڈاپوری نے نبھایا اور رئیس جامعہ کی پر سوز دعا پر اس مجلس کا اتمام بالخیر ہوا ۔