تہذیب کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

پہلی قسط:   

مولانا ناظم ملی(استاذ جامعہ اکل کو)

                عرصہ دراز سے ہندستان قدیم مشرقی تہذیب و روایات کا حامل وامین رہا ہے اور دنیا میں یہاں کے اعلیٰ اقدار، یہاں کی رواداری، باہم محبت والفت اور عفت وپاکیزگی ضرب المثل رہی ہے ۔ یہاں کی گنگا جمنی تہذیب میںسب کچھ ہیں اور وہ ہیں ،جس سے اور ممالک کی تہذیبیں محروم ہیں ۔ یہاں پیار ہے ، محبت ہے ، دلوں میں الف ویگانگت ہے ۔ مان سمان اور ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی وملنساری یہاں کا طرۂ امتیاز ہے ۔ مغلوں کی رواداری اور ان کی عدل گستری کا تو پوچھنا ہی کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اور صنفِ نازک کے سلسلہ میں ان کی قدیم روایات انتہائی حساس ہیں ۔اور ناری (عورت) اس ملک میں ہمیشہ باعزت اور اہمیت کی حامل رہی ہیں ۔ تاہم قابل افسوس پہلو اب یہ سامنے آرہا ہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کی عدالت عالیہ نے دو اہم فیصلے کیے، جس میں ہندستانی تہذیب کو ہی نشانہ بنایا گیاہے ۔ جس سے ملک کا وقار داؤ پر لگتا نظر آرہا ہے ۔یا یوںکہہ لیجیے کہ اس سے مغربی تہذیب کی بالادستی اور مشرقی اقدار کی زبوں حالی نظر آتی رہی ہیں۔اور اپنے مغربی افکار کی بالادستی کے خاطر مشرقی تہذیب کا جنازہ نکالا جارہاہے ۔ماہرین قانون کے مطابق بھارتی آئین کی دفعہ’’ 497‘‘کو کالعدم قرار دے کر میاں اور بیوی کے مقدس رشتہ کی دھجیاں اڑادی گئ۔گویا اس قاعدے کی رو سے میاں تو شتر بے مہار ہوہی گئے۔ بیوی بھی درجنوں بستروں کی زینت بن جائے گی۔اوراب نائٹ کلبوں اور ہوٹلوں سے نکل کر کھلے عام حیوانوں کی طرح اپنی تسکین کرے گی۔جو مشرقی تہذیب وتمدن کے سراسر خلاف ہے ۔اور میاں بیوی کے محترم رشتہ کے پیٹ میں چھرا گھوپننے کے مترادف ہے۔ ہم جنس پرستی کے قانون کو سندِ جواز پیش کرکے سپریم کورٹ نے کیا کم غضب ڈھایا تھا۔اور اب آزادانہ جنسی تعلقات کی بحالی کے قانون نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ۔ہماری اپنی دانست میںیہ دونوں ہی فیصلے انسانیت کے نام پرکلنک (داغ)ہیں۔اور دونوں ہی فیصلوںسے انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے گا ۔اور زنا اور حرام کا ری کے راستے ہموار ہو جائیںگے۔

                بقول شخصے: ’’جنسیت کا پہلو انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے دونوں پہلوئوںپرحاوی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کی حدود اخلاق وتہذیب وثقافت سے ملی ہوئی ہے اور معاشرتی آداب وطورطریقہ سے بھی ۔یہ مانا کہ جنسیت ایک جبلّت اور فطری ہیجان ہے ،مگرپیدا کرنے والے نے اس کو ایک قانون کے تحت (جس کو ہم نکاح سے تعبیر کرتے ہیں )انتہائی آسان اور سہل کر دیا ہے ‘‘۔اوراس فطری تقاضہ کو نکاح کی لگام لگاکر اس سے وجود میں آنے والی نسل کی ساخت وپرداخت کے قوانین بھی مقرر فرما دیئے۔اب اگر عورت کہیں بھی آئے جائے اور کسی سے محبت کی داستانیں رقم کریں۔اپنی ہیجانی قوّت کی تسکین کـے ــلیے کسی سے بھی پینگیں بڑھائیں تو یقینا نسل انسانی کی ترقی عدم ارتقاکا شکار ہوگی۔ اور جنسیت کا یہ بے قابو عفریت معاشرہ اور سماج پر ایسا ستم ڈھائے گاجس کی قباحت وشناعت کا قلم کو یارا نہیں کہ وہ سہر کر سکیں۔

                قرآن مجید کی بلیغ تعبیر کا سہارا لوں تو کہہ سکتا ہوں:{ ظھرالفساد فی البروالبحر }کہ خشکی وتری ہر جگہ بگاڑ ہی بگاڑ ہوگا۔تاریخ بناتی ہے اور موجودہ عہد میںتوہر جگہ اس کے مظاہر مل جائیںگے ۔آج مغرب اور اس کے ہمنوا ممالک کہاں کھڑے ہیں ؟اور تباہی کی کس گلی میںوہ سر پھٹول کر رہے ہیں ۔یہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔جن ممالک میں جنسی بے راہ روی عام ہیںوہاں ماں، بیٹی، بیوی اور بہن کا تقدس مآب رشتہ اپنے تقدس کو پائمال کرچکا ہے ۔وہاں خاندانی نظام چوپٹ  اور عدم استحکام کا شکار ہوگیا ہے ۔مغرب کی اس آندھی تقلید سے الحذر سو بارالحذر!

اندھی تقلید کے مضرات!

                یہ بات محقق ہے کہ جس سماج ومعاشرہ اور سوسائٹی میں اندھی تقلید اوربے سوچے سمجھے ہرکس ونا کس کے پیچھے چل دینا اپنے راہبر سے نا آشنا ہو کر اسی کے فکر و فلسفہ کاراہی اور پیغامبر بن جانا ،بغیر غور و فکر اور تامل کے کسی کے بھی خیالات سے ہم آہنگ ہو جانا ،اس کے فکر و فلسفہ اور تفکرات سے اتفاق کر لینا ،نادانی در نادانی ہے ۔بل کہ ایسی وبا بلا اور مصیبت ہے ،جس کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں آتا ۔یہی نہیں بل کہ پورا گھر، خاندان، سماج اور ملک غلامی کے بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔اور جب یہی اندھی تقلید اپنے خالق و مالک سے بغاوت پر مبنی ہو تو پھر اللہ ہی حافظ ۔کون ہے ؟ جو اِس تباہی سے بچا سکتا ہے؟ قرآن مجید نے ایسے ہی لوگوں کی داستان سنائی ہے ۔{ وکم من قریٖۃ اھلکنھا فجاء ھا بأسنا بیاتا اوھم قائلون} (اعراف){ وکم اھلکنا قبلھم من قرن ھم اشد}(ق){ الم یرواکم اھلکنا من قبلھم من قرن} اور اسی طرح کئی آیات بینات ہیں، جس میں اللہ سے باغی اور فطرت سے تجاوز کرنے والی قوموں کے تذکرے بھرے پڑے ہیں۔ انہیں میں ایک قوم قوم لوط ہیں ۔

فطرت سے باغی قوم لوط کا انجام !

                دنیا میں جن قوموں کو اللہ پاک نے صفحہ ہستی سے مٹاکر اوروں کے لیے سامان عبرت بنادیا ان میں قوم لوط بڑی شہرت کی حامل ہے ۔جو ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا تھی ۔تاریخ میںکبھی ان سے پہلے کسی قوم نے اس گندگی کا ارتکاب نہیں کیا اور اس نازیبا حرکت کو انجام نہیں دیا ۔وہ فطرت سے باغی ایک عجیب سرکش قوم تھی ۔ حضرت سیدنا لوط علیہ السلام نے اپنی پوری توانائی ان کے سمجھانے میں صرف کی ؛مگر پھر بھی وہ اپنی ان نازیبا حرکات سے باز نہیںآئے۔ قرآن کریم نے بالتفصیل ان کی فطری قباحتوں اور دسیسہ کاریوں کو طشتِ ازبام کیا ہے۔ ان کا کریہہ کردار یہی تھا کہ وہ ہم جنس پرستی کی وبا میں مبتلا تھے :

                { ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشہ ما سبقکم بہا من احد من العالمین۔ انکم لتاتون الرجال شہوۃ من دون النساء بل انتم قوم مسرفون}۔(الاعراف )

                 اللہ کے پیغمبر سیدنا لوط علیہ السلام نے بہتیرے افہام وتفہیم کی کوششیں کیں،خدائی عتاب سے ڈرایا،مگر ان بد قماش وبد کردار اور مردہ ضمیر قوم پر شرارت ہی غالب رہی۔ اورانہوں نے خیانت اور بے حیائی کے طوق کو اپنے گلے سے نہ اتار پھینکا ، تو خدائی مواخذہ اور پکڑ آئی اور ان پر پتھروں کی برسات برسی۔ نیز عند ذی العرش مکین جبرئیل امین نے اس بستی کو آسمان تک اٹھا کر اس زورسے پٹخا کہ وہ حصۂ زمین ہزاروں گز زمین میںدھنس گیا اور اس زمین سے پانی کا چشمہ ابل پڑا ۔ اور اس کو زمین کا سب سے پست حصہ بنادیاگیا ۔ جوآج بھی بحر میت dead-seaکے نام سے موسوم ہے۔ جو پچاس ۵۰؍میل لمبا او ر گیارہ ۱۱؍میل چوڑا بتلایا جاتاہے ۔ کتابوں میں مرقوم ہے کہ عام سمندروں کے مقابلہ میں بحر میت کی گہرائی اور عمق تیرہ سو۱۳۰۰؍فٹ زیادہ ہیں ۔اور چوںکہ اس بحر مردار کا وجود عذاب خداوندی کی شکل میں ہوا تھا ۔ اس لیے اس میں زندگی کے آثار نہیں اور کوئی جاندار اس میں پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اور اگر اس میں چلاجائے تو زندہ نہیں رہتا ۔ ناہی کوئی پودا اور گھاس سطح آب پر نظر آتی ہے:

                {فلما جاء امرنا جعلنا عالیہا سافلہا وامطرنا علیہا حجارۃ من سجیل منضود مسومۃ عند ربک وما ہی من الظالمین ببعید }(سورہ ہود)

لمحۂ فکریہ!

                آج مغربی دنیا ،جس بے لگام گھوڑے پر سوارہو کر سفر پرگامزن ہے، وہ تباہی کا راستہ ہے ۔ اور بلا سے اسی فکر کی اسیر آج بیشتر دنیا نظر آتی ہے ۔ چاہے وہ اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی ممالک ؛ہر ایک اسی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ مغربی عیاروں اور اسرائیلی شاطربازوں کی ہربات بلانقدوتبصرہ اور بلاچوں وچرا اختیارکی جا رہی ہے۔جودنیاکے لیے اور خصوصاًہمارے اس ملک کے حق میں کبھی بھی سودمندنہیں ہوسکتی۔کیوںکہ

فسادِقلب ونظرہے فرنگ کی تہذیب 

کہ روح اس مَدَنِیَتْ کی رہ سکی نہ عفیف

رہے نہ روح میں پاکیزگی توہے ناپید

ضمیرپاک وخیالِ بلندوذوقِ لطیف

(اقبال )   

                ہم جنس پرستی کی تائید اورشادی شدہ عورت کا اپنی مرضی سے غیرمردسے تعلق قائم کرلینا۔یہ دونوں ہی باتیںمغرب کی دین ہیں،جوانتہائی غلاظت پھیلانے والی ہیں۔آج ان دونوں فیصلوںسے آفاق جواور حساس طبیعت عناصر پریشان ہیں۔اور مستقبل کے تئیں فکرمند ہیں۔جنھیں اپنے ملک کا وقار اوراپنے ملک کی قدیم تہذیب و روایات اپنی تمامتر چیزوں سے عزیز تراورپیاری ہیںاور جو مغربی افکاروخیالات کو اپنے ملک کے لیے خطرے کا سائرن اور تباہی کا آلارم سمجھتے ہیں ۔یہ دونوں ہی فیصلے شیطنت پر مبنی ہیں۔اس سے مزید فحاشی وعریانیت، حیوانیت ودرندگی اور فساد وبدامنی کے دروازے کھل جائیںگے۔دونوں ہی فیصلے غیر فطری ، غیر انسانی اور غیر معاشرتی ہیں،جس سے انسانیت کی تذلیل ہوگی ۔شرافت وحیا کا شجرِسایہ دار مرجھا جائے گا۔اور لباس بشریت میںخبث وخباثت اور شیاطین کا ڈیرہ ہوگا۔اس لیے ملک کے ہرحساس دل اور فکرمندطبیعت کو ان دونوںفیصلوںپر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔کہیں ایسانہ ہو کہ ملک ان ناپاک ذہن عناصرکی دریدہ ذہنی کاشکار ہو جائے۔اس ضمن میںمغربی ممالک کی تومت ماری گئی ہے۔جہاںشرم چیختی اور حیا سرپیٹتی نظر آتی ہے۔

کائنات کاحسن:

                بے شک مرد اور عورت اس کائنات کا حسن ہے اور سچ پوچھو تودونوںہی کی موجودگی سے کائنات میں نکھاروجمال آیاہے ۔پھر ان ہی کے خالق ومالک نے یہ قانون بھی بنا یا ہے کہ دونوں کے ربط وارتباط اور تعلق باہمی سے ایک نسل کی افزائش ہو۔ایک خاندان وجودپائے ؛مگر ان دونوں فیصلوں کی رُوسے یہ کیوںکر ممکن ہو سکتا ہے۔بل کہ اس قانون کی رُوسے تو خاندانی منصوبہ بندی کا نظام ہی چوپٹ ہوجا ئے گا۔ مگر ہمارے ملک میں کچھ عناصرہیں جو عقل سے پیدل، معطل افکار رومختل مزاج ہیں، جومغرب کی اندھی تقلید پر راضی ہیں اور بغیر چپل کے ہی مغرب کے پیچھے دوڑ نا چاہتے ہیں ۔

                پھر طبی نقطہ نظر سے بھی اس پرغائرانہ نظر ڈالی جائے تو افسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیاکو حفظان صحت کی تلقین کرنے والے انکل سام(امریکہ)اور پورا مغربی معاشرہ ؛بالخصوص اقوام متحدہ اور اس کا محکمۂ صحت کیوں ان مفاسد پر آنکھ بند کئے ہوئے ہیں ۔ساری دنیامیں ایڈز،ابیولااورہاگ جیسی مہلک بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے ایڈزڈے منایا جارہا ہے۔مگرافسوس کہ دوسری طرف اس کے راستے مسدودکرنے کے بجائے واکئے جارہے ہیں۔فیاللعجب!

مردوزن میں تفاوت :              قدرت کی اپنی صنّاعی ہے اور اس نے اپنی ہر چیز میں کچھ نہ کچھ فرق وتفاوت ضرور رکھا ہے۔اور کائنات کا پورا نظام اسی اصول پر قائم ہے۔کیا گدھے، گھوڑے، بیل اور ہاتھی میں نمایاں فرق نہیں ہیں؟یہ نہ ہوتا توپھر شناخت کیسے ہوتی؟یہاں پر بھی یہ امر قابل غور ہے کہ مرد وزن میںتضادہے ۔تفاوت ہے اور ان دونوں میں خدائے بزرگ وبرترنے نمایاں فرق اور واضح شناخت کررکھی ہے۔ان کی شکل وصورت میں فرق وتفاوت کے معاً ساتھ ا ن کی جسمانی ساخت وبناوٹ میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے۔ دونوںکی صلاحیتیں Abaletees  جداگانہ، نیز دونوں کے دائرئہ کار بھی الگ الگ ہیں ۔جہاں مرد عورت کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔وہیں عورت مرد کی ہر معاملہ میں مطیع ومنقادہے اور انسانی توالد و تناسل کا سلسلہ اسی سے مربوط ہے۔پھر قدرت نے ہر ایک جاندار کے اندر ایک فطری خواہش رکھی ہے۔اسی فطری خواہش کو مرد عورت بھی ایک دوسرے سے پوری کرتے ہیں۔اب یہ بے غیرت سماج کے نا اہل ٹھیکیدار چاہتے ہیں کہ مرد عورت اپنے مخصوص انداز کو ترک کرکے ایک غیر فطری وغیر انسانی طریقہ پر پوری کریں۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کیا انسان شرافت ،حیااور انسانیت سب کو بالائے طاق رکھ کر حیوانوںکی طرح اپنی فطری خواہش کی تکمیل کرے؟ایسے لوگوں کے لیے قرآن کی وہی بلیغ تعبیر صحیح ہے۔{اولئک کالانعام بل ہم اضل}یہ ذلیل و خسیس انسان اپنی عاقبت نا اندیشی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے خدائی قہر وجلال کو دعوت دے رہے ہیں۔ ہم جنس پرستی اور زنا کو سندِجواز پیش کرنا خدائی قہر وجلال کو دعوت دینا ہے۔کیا ہندستان جیسے حساس ملک میں اس قدر بے حیائی پر مبنی رویہ کو فروغ دیا جائے گا؟ کیا ملک کا ہندو،مسلم ،سکھ، عیسائی اوردیگرباشندگان اور سماج خصوصاً ہندستان کی (ناری ) عورت؛ جس کا طرۂ امتیازہی اپنے شوہر کے ساتھ وفاداری ہے اورجس کی حیا و وفا ضرب المثل ہے وہ اس قباحت پر مطمئن ہوںگی ؟

عورت کا اصل سر مایہ:صنف نازک کا اصل سرمایہ اس کی عفت و عصمت اور اس کی حیا ووفا ہے اور اس کی دانست میں یہ اتنی اہم شئ ہے جس کا بدل ہوہی نہیں سکتا ۔ اس کی عفت وعصمت کی حفاظت پردنیا کی ہزاروں دولتیں ثروتیں اور سلطنتیں نثار کی جاسکتی ہیں ۔

                تاج محل جس کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔ وہ سماج کتنا خسیس دیوث اور کم ظرف اور بے غیرت ہے جو ایک ماں بیٹی ، بیوی وبہن کے رشتہ کو اتنا ذلیل کر دے کہ بازاری عورت بنانے پر وہ راضی اور خوش ہوجائے ۔ یہ تو اپنی غیرت و فطرت اور انسانی حمیت کا دیوالیہ نکالنا ہوگا ۔ اوریہ وہیں ممکن ہیں جہاں شرم و حیاء کے جراثیم سقم کاشکارہو۔آج مغرب کی بے خدا تہذیب اسی دور سے گزررہی ہے،بل کہ اس جال میں پھنس چکی ہے اور اسکو اس دلدل سے باہر آنے کا کو ئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔