تکفیر کے ضروری اصول

            کفر و ایمان کا مسئلہ نہایت نازک اور اہم ہے اور ممکن حد تک اہلِ قبلہ کی تکفیر سے بچنا ضروری ہے، راہِ اعتدال قائم کرنی چاہیے، افراط و تفریط سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے، عوام کو بذاتِ خود کسی کے کفر و ایمان کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے،بل کہ محتاط اور مستند علما اور مفتیانِ کرام سے رجوع کرنا چاہیے، چوں کہ مسئلہ نازک ہے اس لیے اس کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں پر کفر کے سلسلہ میں کچھ ضروری اصول درج کیے جاتے ہیں۔

            (۱) کوئی بھی ایسا عمل جس کے ذریعہ دین کا استہزا یا استخفاف ہوتا ہو، کفر کا باعث ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتا اللہ نے قرآن میں یہ بات کیوں لکھ دی؟ تو یہ باعثِ کفر ہے۔

(شرح فقہ اکبر،ص: ۲۴۹- رد المحتار :۳/۲۸۴)

             (۲) کسی جبر و اکراہ کے بغیر زبان پر کلمہٴ کفر کا اجرا خواہ دل ایمان پر مطمئن ہو کفر ہے۔ (در المختار علی ہامش: ۳/ ۲۸۳)اس لیے کہ صرف جبر و اکراہ کی حالت میں جان بچانے ہی کے لیے کراہتِ خاطر کے ساتھ کفریہ کلمات کا تکلم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

            (۳) اللہ تعالی کی ایسی صفت جو آپ ہی کے ساتھ مخصوص ہے غیر اللہ کے لیے اس کو ثابت کرنا بھی کفر کا باعث ہے، مثلاً علمِ غیب کا مسئلہ ہے، عالم الغیب ہونا اللہ ہی کا وصف خاص ہے، اگر کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی عالم الغیب سمجھے تو سلف نے اس کو کافر قرار دیا ہے۔

            ملا علی قاری کا بیان ہے: ” وذکر الحنفیة تصریحاً بالتکفیر بإعتقاد ان النبی یعلم الغیب لمعارضة قولہ تعالی: ﴿قل لا یعلم من فی السموت والارض الغیب الا اللّٰہ

(شرح فقہ ا کبر،ص:۲۲۵)

            ترجمہ: حنفیہ نے اس عقیدہ کو صراحتاًباعثِ کفر قرار دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمِ غیب رکھتے تھے، اس لیے کہ یہ آیت : ﴿قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللّٰہ﴾ کے خلاف ہے۔

            اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی تاویل کرتا ہو اور علمِ ذاتی اور علم عطائی کا فرق کرتا ہو تو بھی یہ قرآن کی اطلاعِ صریح کے خلاف ہونے کی وجہ سے ضلالت و گمراہی ہی ہے اور اگر ہم ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو کافر نہ بھی کہیں تو اتنا کہنا ہی ہوگا کہ اندیشہٴ کفر ضرور ہے۔ اعاذنا اللّٰہ منہ!

            (۴) اسی طرح کوئی معصیت خواہ کبیرا ہو یا صغیرہ ان کو معمولی سمجھنا اور جائزو حلال قرار دینا باعثِ کفر ہے۔ (شرح فقہ اکبر،ص:۲۲۵)

            کیوں کہ وہ ایک ایسی بات کا انکار کر رہا ہے جو دین میں قوی اور بے ریب دلیلوں سے ثابت ہے، امام سرخسی نے لکھا ہے کوئی شخص حائضہ عورت سے وطی کو جائز قرار دے تو یہ بھی کفر ہے۔

(شرح فقہ اکبر،ص: ۲۲۷)

            (۵) کوئی شخص ضروریاتِ دین کا منکر ہو یعنی ایسے کسی حکم کا منکر ہو جو اجماع یا دلیلِ قطعی سے ثابت ہو تو کافر سمجھا جائے گا، علامہ ابن ہمام نے موجباتِ کفر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ” و کذا مخالفة ما اجمع علیہ و انکارہ بعد العلم۔“

(شرح فقہ اکبر،ص:۲۲۶)

            اسی طرح ملا علی قاری کا بیان ہے: ”وفی جواہر الفقہ من جہد فرضا مجمعا علیہ کالصوم والصلوة والزکوة والغسل من الجنابة کفر قلت معناہ من انکر حرمة محرم مجمع علیہ“

            جواہر الفقہ میں ہے کہ جو کسی اجماعی فرض جیسے روزہ، نماز، زکوة، غسل جنابت کا انکار کر جائے وہ کافر ہے، میں کہتا ہوں جو کسی اجماعی حرام کی حرمت کا انکار کر جائے اس کا بھی یہی حکم ہے۔

(حلال و حرام:۶۱ تا۳ ۶- شرح فقہ اکبر،ص:۲۵۷)

            یہاں تک چند اصولِ تکفیر بیان کر دیئے گئے، ان کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کونسی چیز کفر ہے اور کونسی نہیں۔

(بحوالہ اپنے ایمان و اعمال کی حفاظت کیجیے:۵۳-۵۵)