تنگ دستی اور ہمارا ایمان

مرشد احمد قاسمی(استاذ جامعہ اکل کوا)

            عن خباب بن الارت قال شکونا الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو متوسد بردة لہ فی ظل الکعبة فقلنا الا تستغفر لنا،الا تدعو اللہ لنا ؟ قال کان الرجل فیمن قبلکم یحفر لہ فی الارض فیجعل فیہاء بالمنشار فیو ضع علی راسہ فیشق باثنین وما یصدہ عن دینہ ویمشط بامشاط الحدید مادون لحمہ من عظم او عصب وما یصدہ ذالک عن دینہ ،واللہ لیتمن ھذاالامرحتی یسیر الرکب من صنعاء الیٰ حضر موت لا یخاف الااللہ والذئب علی غنمہ ولکنکم تستعجلون۔

(البخاری)

            حضرت خباب بن الارت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ علیہ وسلم کی خد مت مبارکہ میں(کفار کی طرف سے پہنچنے والی مسلسل تکا لیف اور شدائدکی)شکایت کی جب کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے تشریف فرماتھے۔

            ہم نے عرض کیا کہ آپ ہمارے لیے اللہ تعا لیٰ سے استغفار اور دعا کیوں نہیں فرمادیتے (تاکہ ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل ہو )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ تم ابھی سے گھبرا گئے جب کہ تم سے پہلے والی امّتوں میں مو من آدمی کو(اس قدرستا یا جاتاتھاکہ اس کے لیے زمین میں ایک گڑھا کھودا جاتاتھا،پھر اس شخص کو اس گڑھے میں گاڑ دیا جاتاتھا،پھر ایک آرا لیکر اس کے سر پر رکھ کر چلایاجاتاتھا،جس سے اس کے دو ٹکرے ہو جا تے تھے ،لیکن مجال ہے کہ (یہ تکا لیف بھی)اس کودین سے پھیر دے ۔اور کبھی لو ہے کی کنگھیوں کے سا تھ اس کے گوشت کو ہڈیوں اورپھٹوں سے ادھیڑ دیاجا تا تھا ،لیکن یہ تکا لیف بھی اس کو دین سے نہیں پھیر سکتی تھیں۔ خدا کی قسم! یہ امر (اسلام ) ضرورپورا ہو کر رہے گا؛ یہاں تک کہ (عنقریب )ایک سوار صنعاء(شہرکا نام)کا سفر شروع کر ے گا اس کے دل میں سوائے اللہ کے خوف اور اپنی بکریوں کے بارے میں بھیڑیے کے خوف کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہوگا؛ لیکن تم تو بہت جلدی مچارہے ہو۔

 تنگ دست اہل ایمان کے لیے سامان ِتسلی:

            ان احادیث ِمبارکہ میں ان مسلمانوں کے لیے کافی سامان ِتسلی موجود ہے، جن کوبھوک و افلاس اور بے سروسامانی نے پریشان حال اور تنگ کر رکھا ہے، ایسے ہی سادہ لوح غریب مسلمان کفار کی ظاہری شان و شوکت اورزرق برق سے متاثر ہو جاتے ہیں اور شیطان بھی تنگ حالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو طرح طرح کے وساوس میں مبتلا کرتا ہے، جس سے (معاذ اللہ!) اللہ کی تقدیر پر دل میں شکایت کا بیج اگناشروع ہو جاتا ہے اور پھر دوسری طرف صرف کفار مشنریاں اور مبلغین ایسے مفلوک الحال مسلمانوں کو مال ودولت، ملازمت غیر ملکی ویزا اور شہرت کا جھانسہ دے کر ان کے عقائد اور ایمان کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں اور بعض اوقات روٹی کے چند لقموں کو ترسا ہوا یہ مسلمان(معاذاللہ!)اپنے مذہب سے بیزاری ظاہری کرکے عیسائیت،یہودیت اور قادیانیت وغیرہ کی طرف مائل ہوجاتاہے۔

             خدا کے لئے!کبھی بھی دولت کی طمع میں اور پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے ایمان کی دولت ِعظمیٰ سے ہاتھ مت جھاڑنا! خدارا! زیادہ سے زیادہ تکلیف آپ کو یہ ہوسکتی ہے کہ شاید بھوک کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے، بھائی اگر ایمان سلامت رہا تو پھر بھوک کی حالت میں مر جانے کا بھی کوئی غم نہیں،اس ایمان اور فقر و فاقہ پر صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسی ایسی ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں سے نواز دیں گے کہ دنیا کی تمام تکالیف کا احساس مٹ جائے گا۔

 دنیا میں تنگ حالی اورخوش حالی کی حقیقت:

             چناچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: قیامت کے دن ان لوگوں میں سے جن کے لیے دوزخ کا فیصلہ ہو چکا ہوگا، ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا ،جو دنیا میں سب سے زیادہ عیاش اور مزے میں تھا اور اس کو دوزخ کی آگ میں غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے کہا جائے گا کہ اے ابن آدم!کیا تونے کبھی بھلائی دیکھی ہے؟کوئی نعمت تیرے قریب سے گزری ہے؟وہ نفی میں جواب دے گااور کہے گا کہ نہ میں نے کوئی بھلائی دیکھی اورنہ میں نے کوئی نعمت چکھی۔

            پھر اسی طرح ایک جنتی سے سوال ہوگا کہ کیا تو نے کبھی کوئی تنگی اور پریشانی دیکھی ہے؟وہ کہے گااے میرے رب!نہ میں نے تنگی دیکھی اور نہ میرے پاس کوئی پریشانی آئی ہے۔خلاصہ یہ کہ جہنمی جہنم میں جاکر دنیا کی ساری عیش وعشرت کو بھول جائے گا اور جنتی جنت میں جاکر دنیا کی ساری تکالیف، پریشانیوں کو بھول جائے گا۔تو چند دن کی تکلیف برداشت کرکے ہمیں ہمیشہ کا سکون حاصل کرنا چاہیے اور دنیا کی تکلیف بھی ظاہری ہے۔

ایک عبرتناک واقعہ :

            اما م احمد رحمتہ اللہ علیہ نے نو ف بکا لی سے ایک عجیب حکا یت نقل فر مائی ہے۔فر مایاکہ: ایک مرتبہ دو شخص مچھلیوں کے شکار کی غرض سے نکلے ، ان میں ایک کافر تھا اور ایک مسلمان۔ کافر اپنا جال ڈالتے وقت اپنے معبودوں کا نام لیتا، جس کی وجہ سے اس کا جال مچھلیوں سے بھر جاتا۔

             مسلمان اپنا جال ڈالتے وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام لیتا، لیکن کوئی مچھلی اس کے ہاتھ نہیں آتی، اس کا جال خالی رہتا، اسی طرح غروب آفتاب تک دونوں شکار کرتے رہے، آخر کار ایک مچھلی مسلمان کے ہاتھ لگ گئی، لیکن وائے ناکامی ! وہ مچھلی بھی اس کے ہاتھ سے اچھل کر پانی میں گر گئی،یہاں تک کہ یہ بیچارہ غریب مسلمان شکار گاہ سے ایسا خائب وخاسر لوٹا کہ اس کہ ہاتھ کوئی شکار نا تھا۔ اور کافر ایسا کامیاب لوٹا کہ اس کا کشکول مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا۔

             اس عجیب وغریب حیرت ناک واقعہ سے فرشتہ موٴمن کو سخت افسوس ہوا اور بارگاہ ِخداوندی میں عرض کیا کہ اے میرے رب! یہ کیا بات ہے کہ تیرا ایک موٴمن بندہ جو تیرا نام لیتا ہے ایسی حالت میں لوٹتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی شکار نہیں ہوتا، اور تیرا کافربندہ ایسا کامیاب واپس آتا ہے کہ اس کا کشکول مچھلیوں سے لبریز ہو تا ہے۔

            اللہ تعالیٰ نے اس مرد موٴمن کا عالیشان محل دکھا کر جو اس کے لیے جنت میں تیار کر رکھا ہے فرشتہ موٴمن سے خطاب فرمایا: اے فرشتہ! کیا اس مقام کو حاصل کرنے کہ بعد میرے اس بندہ موٴمن کو جو رنج وتعب دنیا میں مچھلیوں کہ شکار میں ناکامی کہ باعث ہو ا تھا ، باقی رہیگا؟ اور کافر کے اس بدترین مقام کو دکھلا کر جو اس کے لیے جہنم میں تیار کر رکھا ہے ارشاد فرمایا کہ کافر کی وہ چیزیں جو اس کو دنیامیں عطا کی گئی، اس کو جہنم کے دائمی عذاب سے نجات دلا سکتی ہیں؟

             فرشتے نے جواب دیا کہ اے میرے پروردگار! آپ کی ذات کی قسم!بالکل ایسا نہیں ہوسکتا۔

 اہل اسلام کی تنگ حا لی اور کفار کی عیش ومستی کی حقیقت:

            دنیاوی زندگی میں عام طور پرمسلمان فقروفاقہ اور تنگیوں میں مبتلا ہیں اورکفارخوب عیش و عشرت اور مزے کی زندگی میں نظرآرہے ہیں،لیکن خوب یاد رکھئے!یہ سلسلہ صرف چند روزہ زندگی تک محدودہے، پھر دیکھنا! اہل ایمان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کامیاب وکامران ہوں گے اور کفار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خائب وخاسر۔

            اللہ تعالیٰ حضرت مجدد تھانوی قدس سرہ کی قبر کو نور سے بھردے ،ا نہوں نے اس حقیقت کو ایک مثال سے خوب سمجھایا ہے: کہ اگر گلاب کی شاخیں کسی گملے میں لگا دی جائیں اس کے بالمقابل ویسے ہی کاغذ کے پھول بنا کر رکھ دئے جائے تو اس وقت اگر چہ اصل گلاب کے پھولوں کی بہ نسبت کاغذ کے مصنوعی پھولوں میں رونق وشادابی زیادہ ہوگی مگر ایک چھینٹا بارش کا پڑ جائے پھر دیکھئے کہ گلاب کا رنگ کیسے نکھر کر سامنے آتا ہے اور کاغذ کے پھول کیسے بد رنگ ہو جاتے ہیں۔

            اسی طرح مسلمان دنیا میں خواہ کسی حالت میں ہو ں، لیکن قیامت کے دن ابر ِرحمت برسے گا، تو دیکھنامسلمان کا اصلی رنگ کیسے نکھرتا ہے اور کا فر کی زرق برق حالت پر کیساپا نی پڑتا ہے۔(وعظ تفاضل ایمان)

            شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

فَسَوْفَ تَرَیٰ اِذَا انْکَشَفَ الْغُبَارُ

اَفَرَسٌ تَحْتَ رِجْلِکَ اَمْ حِمَارُ

            جب غبار چھٹ جائے گا تو بہت جلد ہی تجھے معلوم ہوجائے گا کہ گھوڑے پر سوار تھا یا گدھے پر ) یعنی مرنے کے فوراً بعد معلوم ہوجائے گا کہ تو نے اچھا کیا یا برا کیا۔

ایک سبق آموز مثال:

            دوسری مثال سے یوں سمجھئے !جیسے ایک مجرم قید خانہ میں پڑایہ خوا ب دیکھ رہا ہے کہ طرح طرح کے باغات کھا نے پینے کے لئے انواع و اقسام کے ماکولات و مشروبات ہیں، دل بہلانے کو غلام اور لونڈیوں کا مجمع ہے۔غرض بڑے مزے ہی مزے ہیں لیکن اچانک جو اس خواب سے آنکھ کھلی تو دیکھتا ہے کہ وہی تنگ و تاریک قید خانہ ہے،ہاتھ پاوٴں بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں، قید خانہ کے سپاہی لوہے کے گرز لئے پیٹنے کو ہر وقت سر پر مسلط ہیں تو اب بتلائیے اس قیدی کے اس سہانے خواب کی کیا حقیقت نکلی ؟کیا بیدار ہوکر یہ خواب اسکو کچھ بھی بھلا معلوم ہوگا․؟

            یہی حال کافروں کا ہے جو دنیوی حیات بڑی عیش و مستی سے گزارتے ہوئے نظر آرہے ہیں،لیکن اس دنیوی خواب سے بیدار ہوکر ہمیشہ کی زندگی کے لئے جب آنکھ کھلے گی تو دنیوی حیات کے عیش و مستی میں ڈوب کر وہ ایام جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی میں گزارے کچھ بھلے معلوم نہیں ہونگے۔

            دوسری طرف ایک شخص خواب میں دیکھ رہا ہے کہ سخت مصائب اور تکالیف سے دو چار ہے، فقر و فاقہ،افلاس و تنگدستی نے پریشان کر رکھا ہے، لیکن جوں ہی وہ خواب سے بیدار ہوا تو دیکھتاہے کہ عالی شان باغات و محلات اس کا مسکن ہیں،اور ہر نوع کے ماکولات و مشروبات میسر ہیں، غلام اور باندیاں ،نوکر چاکر ہیں۔آپ خود اندازہ فرمائیں کہ کیا ایسے شخص کو خواب میں پیش آنے والی مصیبتوں اور تکالیف کا کچھ احساس ہوگا؟کیا اب بھی یہ پرشان ہی رہے گا؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہے۔

            بالکل اسی طرح وہ مسلمان جس نے دنیوی زندگی سخت کٹھن حالات میں بسر کی،کوئی ایسی مصیبت نہ تھی ،جس میں گرفتار نہ تھا مگر جوں ہی پیغام اجل آئے گا اور اس دنیا سے آنکھ بند ہوکر آخرت کی زندگی کے لئے آنکھ کھلے گی اور وہ اپنے ایمان اور اعمال کی برکت سے جنت اور جنت کی نعمتیں دیکھے گا، تو دنیوی زندگی کی تکالیف ایک خواب کی طرح محسوس ہوگی، جس کی کلفت کا کچھ بھی احساس باقی نہیں ر ہے گا۔

تنگ دست مسلمانو ں کے لیے سامان تسلی:

            ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالاخا نہ میں تشریف فرماتھے،وہاں صرف ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہو ئے تھے، جسمِ اطہر پر چٹائی کے نشانات بن گئے تھے اور سر ہا نے کی جانب کچھ چمڑے لٹک رہے تھے، پا ئنتی کی جانب ببول کی کچھ پتیاں پڑی تھیں؛ تا کہ ان چمڑوں کو ان سے دباغت دیا جا سکے۔

            حضرت عمر رضی اللہ عنہ  بارگا ہ ِرسالت مآب صلی للہ علیہ وسلم کی حالت کو دیکھ کر رونے لگے، آنکھوں سے بے اختیار آنسو ں جاری ہو گئے اور عرض کرنے لگے،اے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم!قیصر وکسریٰ وغیرہ جو شر ک وکفر میں مبتلا ہیں،خدا کی عبادت نہیں کر تے وہ تو چین وآرام سے زندگی بسر کریں اورآپ اس تنگی کی حالت میں۔ آپ دعا فر ما ئیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کو وسعت عطافرمادیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا یہ کما ل ِادب تھا کہ امت کی وسعت کے لیے دعا کی درخواست کی۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ۔

            اَفی ِ شَک اَنْتَ یاَاِبْنَ الْخطّابِ․․․․․․․؟

            أولٰئک عُجِّلَتْ لَھُمْ طَیِّبَا تُھُمْ فِی الدُّنْیَا

            اے عمر بن خطاب ! کیاتم ابھی تک شک میں پڑے ہوئے ہو ؟

            ان لوگوں کو ان کی لذیذ چیزیں دنیا ہی میں دے دی گئی۔

            مطلب یہ ہے کہ تمام آسائش وآرام کفار کو دنیا ہی میں مل گئی ہے، آخرت میں وہ محروم رہیں گے اور ہم لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت میں ذخیرہ کررکھاہے۔ (اخرجہ البخاری ومسلم کما فی المشکاة،باب فضل الفقراء)