تیسری اور آخری قسط:
مفتی محمد فاروق صاحب فلاحی مدنی
(استاذ حدیث و تفسیر جامعہ اکل کوا، وشیخ الحدیث جامعہ فلاح دارین ترکیسر)
تنظیموں اور جماعتوں کے اختلافات کا حل
مذہبی گروہوں اور جماعتوں کے اختلافات کو حل کرنے کی چند صورتیں ہیں:
(۱) صلح: اور یہ سب سے بہتر راستہ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”الصلح خیر“ (نساء: ۸۲۱) صلح میں تین پہلو اختیار کیے جاسکتے ہیں:
(الف)ایثار:
ایک پہلو ایثار کا، کہ کوئی ایک فریق اپنے دعویٰ سے دستبردار ہوجائے۔ صلح نام ہی اسی کا ہے کہ نزاع کو ختم کرنے اور اختلاف کو دُور کرنے کے لیے کوئی فریق اپنا حق چھوڑنے یا اپنے حق کا کچھ حصہ چھوڑنے پر آمادہ ہوجائے، اس کی بہترین مثال حضرت حسن بن علی کا عمل ہے کہ رسول اللہ کی پیشین گوئی کے اشارہ کے مطابق ان کی خلافت جائز تھی، ان کو اکابر صحابہ کی تائید حاصل تھی، اس کے باوجود انہوں نے خلافت سے دستبرداری کو قبول کرلیا اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کو ختم کردیا، رسول اللہ ﷺنے بطور پیشین گوئی حضرت حسن کے اس اعلیٰ کردار کی تعریف فرمائی تھی اور ان کی تحسین کی تھی، حقیقت یہ ہے کہ ایثار سے آدمی چھوٹا نہیں ہوتا؛ بلکہ بڑا بن جاتا ہے، وہ عہدہ و منصب کو ہار جاتا ہے؛ لیکن دلوں کو جیت لیتا ہے۔
(ب) انتظامی ڈھانچہ کی توسیع:
دوسرا پہلو انتظامی ڈھانچہ کی توسیع ہے، عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگ انتظامی ڈھانچہ سے الگ کردیئے گئے اور نظم و نسق میں شامل نہیں رکھے گئے تو ان کو ناگواری ہوتی ہے، اسی سے انتشار پیدا ہوتا ہے، اگر ایسے لوگوں کو نظم کا حصہ بنا دیا جائے، تو ان کی زبان بند ہوجاتی ہے اوراتفاق و اتحاد کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔
(ج) اختیارات کی تحدید:
تیسرا پہلواختیارات کی تحدیدہے۔ شریعت میں واضح طورپر امیر و شوریٰ کے دائرہ کار کی تحدید نہیں کی گئی ہے، صحابہ کے دور میں اس کی بالکل حاجت نہیں تھی؛ کیوں کہ ورع و تقویٰ کا غلبہ تھا، مشورہ دینے والے اخلاص کے ساتھ اور خیر خواہی کے جذبہ سے مشورہ دیتے تھے، انہیں اپنے مشورہ پر اصرار نہیں تھا اور امیر بھی فراخ دلی سے مشورہ کو قبول کرتا تھا، اس کے سامنے اُمت کی بھلائی اور اللہ کی رضا جوئی کے سوا کوئی اورجذبہ نہیں ہوتا تھا، اختلاف کو دُور کرنے کے لئے یہ ہوسکتا ہے کہ امیر کو کچھ حدود کا پابند بنا دیا جائے، مثلاً یہ کہ فیصلہ میں کچھ لوگ اس کے ساتھ شامل کر دیئے جائیں، یا فیصلہ کو تنہا اس پر چھوڑنے کے بجائے غلبہٴ آراء کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے، جیساکہ بڑے بڑے دینی اداروں اور مذہبی تنظیموں کا عرف ہے۔ پڑوسی ملک میں اکابر علما نے سربراہ ملک کے لئے اس اُصول کو قبول کیا تھا کہ ان کی مدت محدود ہوگی اور وہ پارلیمنٹ کی اکثریتی رائے کو قبول کرنے کے پابند ہوں گے، اس کی نظیر حضرت عمر کی وفات کے بعد خلیفہ کے انتخاب کی ہے۔ حضرت عمر نے چھ آدمیوں کے بارے میں وصیت فرمادی تھی کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنادیا جائے اور اگر ایک نام پر اتفاق نہ ہوپائے تو غلبہٴ آراء پر فیصلہ کیا جائے، اسی بنیاد پر حضرت عثمان غنی کا انتخاب ہوا؛ البتہ غلبہٴ آراء پر اتفاق کا فیصلہ ایسے انتظامی اُمور میں کیا جائے گا، جن میں دونوں پہلو مباح ہوں، جو بات شرعاً واجب یا ممنوع ہو، اس میں غلبہٴ آراء کا اعتبار نہیں ہوگا، ان کے سلسلے میں تو قرآن وحدیث اور فقہا کے اجتہاد کے مطابق ہی فیصلہ ہوگا، خواہ اس رائے کے حاملین کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو؛ غرض کہ صلح کی یہ تین بنیادیں ہوسکتی ہیں:
ایک:… یہ کہ کوئی ایک فریق پیچھے ہٹ جائے اور ایثار سے کام لے۔
دوسرے:… انتظامی ڈھانچہ جیسے شوریٰ میں ایسی توسیع کردی جائے کہ ہر فریق مطمئن ہوجائے۔
تیسرے: …امیر و سربراہ کے اختیارات کو محدود کردیا جائے اور وہ شوریٰ کی رائے کا پابند ہوکر کام کرے۔
(۲)تحکیم:
اور جماعتوں کے اختلافات کو حل کرنے کا دوسرا راستہ”تحکیم“ ہے۔ قرآن مجید نے نزاعات کو حَکَم کے ذریعہ حل کرنے کی تلقین کی ہے۔ (نساء: ۳۵)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کے باوجود غزوہٴ بنو قریظہ کے موقع پر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان حضرت سعد ابن معاذ کو حکم بنایا، اسی طرح حضرت علی اورحضرت معاویہ نے اختلافات کو حل کرنے کے لیے حضرت ابوموسیٰ اشعری اور حضرت عمر وبن عاص کو اپنا حکم تسلیم کیا، نیز فقہا نے نزاعات کے حل کے سلسلہ میں تحکیم کو ایک مستقل طریقہ مانتے ہوئے اس کے اُصول و ضوابط اور حدود و شرائط مقرر کیے، اس لئے اختلاف کو دُور کرنے کا یہ ایک بہترین حل ہے کہ چند معتبر، معروف، احکام ِشریعت سے واقف اور غیر جانبدار اہل علم کی کمیٹی تشکیل دی جائے، جو مختلف حضرات کے نقطہٴ نظر کو سنیں، اس ادارہ یا تنظیم یا جماعت کی مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں اور فریقین اس فیصلہ کو تسلیم کرلیں۔
بہر حال جو لوگ ملت کے اجتماعی کاموں سے مربوط ہوں، ان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ فرد سے زیادہ اہمیت اس ادارہ، تنظیم اورجماعت کی ہے، جس سے وہ وابستہ ہیں، اگر افراد کے مفادات مجروح ہوں تو اس کا نقصان انفرادی ہوگا، اور اگر کسی ادارہ یا جماعت کا نقصان ہو تو اس کا نقصان ملی اور اجتماعی ہوگا۔
اجتماعیت کے استحکام کے سلسلہ میں ایک اہم آیت:
سورة الصف کی ایک اہم ترین آیت ہے، جس میں چند اہم امور کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، جو کسی بھی تنظیم یا جماعت کے استحکام کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ارشاد ِخداوندی ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ﴾
(الصف:۴)
”اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کو (خاص طور پر) پسند کرتا ہے ،جو اس کے رستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک عمارت ہے کہ جس میں سیسہ پلایا گیا ہے۔“
یہ بہت جامع آیت ہے، جس میں کئی سبق مضمر ہیں:
(۱) ”یُقَاتِلُوْنَ“: اللہ کو اپنے بندوں میں سے وہ بندے محبوب ہیں، جو اس کی خاطر اس کی راہ میں جان کی بازی لگانے اور خطرات مول لینے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔
(۲) ”فِیْ سَبِیْلِہ“: وہ بندے شعوری طور پر سوچ سمجھ کر اس کی راہ (فی سبیل اللہ) میں قتال کریں، نہ کہ کسی اور راہ یا کسی اور مقصد کے لیے۔
(۳) ”صَفًّا“: یعنی وہ بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ ہوں، بلکہ صف بستہ ہو کر لڑیں،اور وہ منظم اجتماعیت میں پروئے ہوئے ہوں، صرف بھیڑ یا رش نہ ہو۔
(۴)”بُنْیَانٌ مّرَْصُوْصٌ“: اجتماعیت بھی ایسی ہو جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار، اور اس درجہ کی پختگی اسی وقت حاصل ہوگی جب تک کہ اس اجتماعیت میں چار صفات پیدا نہ ہوں:
۱-: عقیدے اور نصب العین میں مکمل اتفاق: اگر اس میں اختلاف ہوگا تو مضبوطی قائم نہیں رہ سکتی، لہٰذا ایک عقیدے پر جمع ہونا اور ایک مقصد پر فوکس کرنا ضروری ہے۔
۲: ایک دوسرے پر اعتماد: ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد کرنا، نہ کہ شک کرنا۔ اگر اعتماد نہیں ہوگا تو یہ اجتماعیت سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بن سکتی۔
۳:اخلاق اور احترام کا اعلیٰ معیار: اگر یہ نہیں ہوگا تو نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہوگی اور نہ عزت و احترام، نتیجتاً آپس میں ہی تصادم کا خطرہ ہے۔
۴: اپنے مقصد اور نصب العین کے ساتھ عشق اور ایسا جذباتی لگاوٴ، جو سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ کردے۔
یہ وہ اوصاف ہیں جو اجتماعیت کو مضبوط بناتے ہیں، جب یہ صفات صحابہ کرام کی جماعت میں پیدا ہوئے، تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئیں۔
تلخیص محاضرہ:
مذکورہ بالا سطورکاخلاصہ یہ ہے کہ دینی اداروں، تنظیموں اورجماعتوں کو انتشار اور زوال سے محفوظ رکھنے کے لیے ان امورپرتوجہ دینی چاہئے:
(۱) ذمہ داروں کواپنے گردوپیش کاجائزہ لینا چاہئے،کہیں ان کی صف میں ایسے لوگ توشامل نہیں ہیں،جودانستہ یانادانستہ دین سے یااس ادارہ یاجماعت سے بغض رکھنے والوں کے آلہٴ کارہوں اوران کے لئے کام کررہے ہوں،ایسے لوگوں کوجلدسے جلدوہاں سے ہٹادیناچاہئے۔
(۲) ذمہ داروں کوخوداپنا احتساب کرنا چاہئے کہ عہدہ کوانہوں نے ایک اعزاز سمجھ رکھاہے یاذمہ داری؟اوران کواپنے دل کوٹٹولنا چاہئے کہ ان کے کام میں اخلاص کی قوت موجود ہے یانہیں؟اگرظاہری وسائل مہیاہوں؛لیکن جذبہٴ اخلاص مفقود ہوتواس کی مثال اس گاڑی کی ہے جودیکھنے میں توبہت عمدہ اورسجی سجائی ہو؛لیکن اس کاانجن کام نہ کرتاہو،یہ دینی کاموں میں کامیابی اورفتنوں سے حفاظت کی کلیدہے۔
(۳) اجتماعی نظام کے قیام کی بنیادامارت پرہے،یعنی سب لوگ مل کرکسی کوامیرتسلیم کرلیں،خواہ وہ صلاحیت کے اعتبارسے،عمرکے اعتبارسے اورمطلوبہ اوصاف کے اعتبارسے کم ہی درجہ کے ہوں؛کیوں کہ امیرکے لئے سب سے افضل ہونا ضروی نہیں۔
(۴) انفرادی کمیوں کواجتماعی عمل کے ذریعہ دورکیاجاسکتاہے؛اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ امیرکے ساتھ ایک دوحضرات کومعاون کے طورپرشامل کرلیاجائے،کہ امیران کواعتمادمیں لے کر ہی فیصلہ کیاکرے،تنہافیصلہ نہ کرے۔
(۵) جوامورشوریٰ سے متعلق ہیں،ان میں امیرکوپابندکیاجائے کہ اختلاف رائے کی صورت میں وہ اس رائے پرفیصلہ اورعمل کرنے کاپابندہوگا،جواکثریت کی ہوگی۔
(۶) کام سے جڑے ہوئے مختلف حلقوں کی تشفی کے لئے شوریٰ میں ایسی توسیع کردی جائے کہ مختلف حلقوں اورعلاقوں کی نمانئدگی ہوجائے۔
(۷) اگرادارہ اورجماعت کے دائرہ میں موجودلوگوں کے ذریعہ اتفاق رائے نہ ہوسکے توتین ایسے بزرگ علماء کوحکم بنایاجائے، جوموٴقراداروں اورتنظیموں کی نسبت سے امت میں معتمدسمجھے جاتے ہوں۔
یہ چند وہ اصولی باتیں اور مشورے ہیں ، جن پر عمل پیرا ہوکر تنظیمی و اجتماعی زندگی سے انتشار کو دور کیا جا سکتا ہے اور کسی بھی نظام کو مضبوط اور اجتماعیت کو قوت بخشی جاسکتی ہے ۔اور اس کے مفید نتائج سے قومی وملی ترقی کاخواب شرمندہٴ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
اللہ ہماری جماعتوں وتنظیموں سے انتشار کو دور فرمائے اور ہمیں ان سنہرے اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔