تنظیمی و اجتماعی زندگی میں انتشار و زوال کے اسباب

دوسری قسط:

مفتی محمد فاروق صاحب فلاحی مدنی 

(استاذ حدیث و تفسیر جامعہ اکل کوا، وشیخ الحدیث جامعہ فلاح دارین ترکیسر)

اجتماعیت میں انتشار کے اسباب:

            اسباب انتشار کو ذکر کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وحدیث اور حیات ِصحابہ کی روشنی میں اجتماع اور انتشار سے متعلق چندبنیادی اصو ل کو بیان کیا جائے ؛تاکہ واضح ہوکہ ہر اجتماع محمود نہیں اور ہر انتشار مذموم نہیں اور صحیح موقع پر صحیح موقف اختیار کرنا اور اس پر ثابت قدم رہنا ہی ایمانی فراست کا نام ہے۔

            اس عنوان کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

(۱)حق پرستی:

            اس عنوان کا پہلا حصہ حق پرستی ہے: حقیقت یہ ہے کہ یہ امت حق پرست امت ہے اور قیامت تک حق پر باقی رہنے والی امت ہے، نیز اس امت کو حق کے سلسلہ میں انتہائی درجہ امانت دار اور حساس بنایا گیا ہے، اسی وجہ سے یہ اس امت کی خاصیت ہے کہ یہ کبھی بھی اجتماعی طور پر غیر ِحق پر راضی نہیں ہوگی اور اس پر مجتمع نہیں ہوگی، حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لا تَزالُ طائِفَةٌ مِن اُمَّتی ظاہرِینَ علی الحَقِّ، لا یَضُرُّہمْ مَن خَذَلَہمْ، حتّی یَاْتِیَ امْرُ اللّہ“ (صحیح مسلم:۱۹۲۰)

            ہمیشہ اور ہر زمانے میں امت کا ایک طبقہ لازمةً حق پر قائم رہے گا۔ تو معلوم ہوا کہ حق کی تلاش بھی ضروری ہے اور حق پر مضبوطی سے قائم رہنا بھی ضروری ہے۔

            نظریاتی طور پر حق سمجھنے میں اور حق تک پہنچنے میں صواب و خطا کے امکانات موجود ہیں، اسی کی وجہ سے اس امت میں، دینی مسائل ہوں یا معاشرتی مسائل، قومی مسائل ہوں، یا ملکی مسائل ان میں اختلاف کا پیدا ہونااس امت کے حق شناسی اور حق پر باقی رہنے کے جذبے کا حصہ ہے اور یہ اختلافات ہوتے رہیں گے، نبیٴ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے امت کے اختلاف کے سلسلہ میں دعافرمائی تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا، یہ اختلاف باقی رہے گا، یہ ختم نہیں ہوگا۔

اختلافات کی تاریکوں میں صحابہ کرام نجوم ہداہت ہیں:

             اور چوں کہ آپﷺ کے صحابہ نجوم ہدایت ہیں، کوئی زیادہ چمکتا ہے، کوئی اس کے مقابلہ میں کم چمکتا ہے، لیکن جس کا بھی اتباع کیا جائے گا، ہدایت مل جائے گی،ہدایت سب کے ساتھ ہے۔

            ”أصحابی کالنجوم فبإیہم اقتدیتم اہتدیتم۔“

            ان روایات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے اور پھر مشاجرات ِصحابہ کو سامنے رکھا جائے، مشاجرات کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدایات و ارشادات کو ذہن میں رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اختلافات اس امت کی تلاشِ حق کا اصولی نتیجہ ہے، جو اس امت میں برآمد ہوتا ہے، اس میں اختلاف کرنے والوں کو امانت دار قرار دیا جائے گا۔ المجتھد یخطی و یصیب۔ مجتہد سے اگر خطا بھی ہو تب بھی وہ ثواب کا حق دار ہے، یہ اس امت کی خصوصیت ہے۔ اس شق کو ہمیشہ بر قرار رکھا جائے گا کہ حق کی تلاش میں اختلاف کی بنیاد امت کا حق پرست ہونا ہے۔

(۲) غلو فی الدین:

فرقہ واریت کس طرح جنم لیتی ہے:

             اس عنوان کا دوسرا حصہ غلو فی الدین اور اپنی پر اصرار کرنا ہے: اسلام نے مسلمانوں کو باوقار رہنے کا حکم دیا ہے، یہی باوقار رہنا جب آگے بڑھتا ہے تو تکبر اور جب مزید آگے بڑھتا ہے تو نخوت تک پہنچ جاتا ہے، بالکل اسی طرح اپنے آپ کو حق پر باقی رکھنے کی فکر اور کوشش جب حدود سے تجاوز کرجاتی ہے، تو پھر اپنی رائے پر اصرار، اور اپنے آپ کو حق پر اور باقی سب کو نا حق سمجھنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے، اور صرف اپنی رائے کے دلائل نہیں بلکہ مقابل کی بات غلط ہے اس کو ثابت کرنے کے لیے اپنی ساری صلاحیت اور قوت ِفکر استعمال کرلینا، مزید برآں مقابل کی کردار کشی پر اتر آنااور پھر بعد میں آنے والے متوسلین و مریدین اور منتسبین کا اسی مزاج کو اپنانا،فرقہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور اس میں پھر امت کی بقا ، اسلام کی بقا اور راجح و مرجوح، افضل و مفضول کا فرق یا حلال و حرام کا فرق، ان سب کی تمیز اٹھ جاتی ہے، کس درجہ کی بات ہے اور اس کو کس قوت سے بیان کیا جارہا ہے یا کس قوت سے اس کا رد کیا جارہا ہے، منصوص اور غیر منصوص کا فرق، اپنے قیاس اور نصوص کے درمیان جو اصولی فرق ہوتا ہے،یہ سب اس وقت فراموش کردیا جاتا ہے، جب اپنی رائے کو غالب اور مسلط کرنے کا جذبہ ہوتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر ہر آدمی اپنا ایک گروپ بنا لیتا ہے اور اپنی ہی رائے کو حق، صواب اور اسلام قرار دیاجاتا ہے اور اس میں امت کبھی اسلامی عقائد میں نقصانات برداشت کرتی ہے، کبھی ملی یا قومی اعتبار سے بڑے نقصانات کا شکار ہوجاتی ہے؛ بلکہ خلفشار اور انتشار کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہ پہلو امت کے لیے دردناک اور خطرناک ہے، یہیں سے اصحابِ تخریب نے امت میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیں، اسی مزاج کو پروان چڑھانے کی کوشش یہود نے ابن سبا کے زمانے سے شروع کی، اور اسی نے امت میں مختلف گمراہ فرقوں کو جنم دیا، جو آدمی بھی اپنے علم کی روشنی میں کچھ اصولی باتوں کو حق سمجھ بیٹھا اور پھر اس نے سارے دلائل اپنے حق پر ہونے کو ثابت کرنے کے مقابلہ میں دوسروں کے باطل اور ناحق ہونے پر دینے شروع کیے اور اس طرح وہ امت کے ایک طبقہ کو دور لے کر چلا گیا، اس طرح فرقوں نے جنم پایا ہے۔

(۳) مداہنت:

            اس عنوان کا تیسرا اور اہم حصہ ”مداہنت“ ہے: قومی مسائل کو، حالات اور ان کی سنگینی کو سامنے رکھ کر لوگوں کو جمع رکھنے کے لیے، ہر مزاج کے لوگوں کو اکٹھا رکھنے کے لیے، سب کی بات مان لی جائے تاکہ انتشار نہ ہو، یہ”مداہنت“ ہے۔

            قرآنِ کریم نے اس پر نکیر کی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السّلام جب بنی اسرائیل کو حضرت ہارون علیہ السّلام کے سپرد کرکے بارگاہِ الٰہی میں مناجات کے لیے تشریف لے گئے پیچھے بنی اسرائیل گوسالہ پرستی کا شکار ہوگئی، جب موسیٰ علیہ السّلام واپس تشریف لائے تو غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بھائی ہارون علیہ السّلام کی ڈاڑھی پکڑ لی تھی، جس پر حضرت ہارون علیہ السّلام نے فرمایا:

            ﴿ یَا ابْنَ اُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَلَا بِرَأسِیْ إنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتُ بَیْنَ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ﴾(طہ)

            آپ نے مجھے بنی اسرائیل کو متحد و متفق رکھنے کا کام دیا تھا، اس غرض سے کہ کہیں انتشار نہ ہوجائے میں زیادہ سخت موقف اختیار نہ کر سکا، قرآن ِمجید نے اس واقعہ کے ذریعہ یہ اشارہ دیاکہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام، ہارون علیہ السّلام کے اس موقف کو درست نہیں سمجھتے تھے۔

            اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ احد کے موقع پر ایک فیصلہ فرما لیا اور ایک طرف نوجوان صحابہ نے پرجوش اور جذبہٴ شہادت سے سرشار ہو کر شہر سے باہر نکل کر لڑنے کا موقف اختیار کر لیا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے موقف پر جمے رہے، قرآن مجیدمیں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ﴿ وَإِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیلِ اللّہ﴾(الانعام)

            یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اجتماعیت کے پیش نظر، جماعت کو باقی رکھنے کے لیے نصوصِ شرعیہ اور اصولِ شرعیہ سے تصادم برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ صرف اجتماعیت کی خاطر اسلام کے بنیادی موقف سے انحراف گوارا نہیں کیا جاسکتا، ہمیں اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہنا ہوگا، اس کے لیے چاہے ہمیں تفریق اور انتشارپیدا کرنے کا الزام دیا جائے؛ جیسا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزامات لگائے گئے کہ آپ نے اپنے دین کے ذریعہ ماں اور بچوں کے درمیان، بھائی بھائی کے درمیان، میاں بیوی کے درمیان تفریق کردی، لیکن اس کے مقابلہ میں اسلامی اصولوں سے سمجھوتا کرجانا اور اجتماعیت کے نام پر مداہنت کو برداشت کرلینا اسلام اس کو گوارا نہیں کرتا۔ ہاں! جہاں اپنی ذات کا مسئلہ ہو وہاں قربانی دی جائے گی؛ جیسے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا موقف رہا۔

            خلاصہ یہ کہ نہ تو ہم مداہنت کی طرف جائیں گے اور نہ اپنی رائے پر اصرار اور اس پر تصلب اختیار کریں گے، یہ دیکھے بغیر کہ ہم سے متقدمین کا موقف کیا ہے، کیا متقدمین میں سے ایک بڑی جماعت اس کی حامی رہی ہے جس کی ہم مخالفت کررہے ہیں، یا یہ کہ جس رائے پر ہم اصرار کر رہے ہیں وہ مسئلہ افضل و مفضول، راجح و مرجوح کا ہے یا حلال و حرام کا، یا عقیدہ کا ہے۔         

             نصوصِ شرعیہ اور اصول شرعیہ کی روشنی میں اعتدال کے ساتھ درست موقف پر قائم رہنا چاہیے، چاہے اس سے اختلاف و انتشار پیدا ہو، اور اپنے اکابر کی زندگی اور ان کے واقعات سے سبق لینا چاہیے کہ کہاں کیا موقف اختیار کیا جائے، بسا اوقات یہ ممکن ہے کہ ہمارے موقف سے ظاہری طور پر انتشار کا خطرہ نظر آتا ہو؛ لیکن یاد رکھیں کہ وہ انتشار مضر نہیں ہے، جو اسلام کی صحیح اور سچی تصویر کو باقی رکھنے کے لیے برپا کیا جائے، جیسے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے خلق قرآن کے مسئلہ میں موقف اختیار کیا، حالاں کہ پوری امت کو طاقت اور حکومت کے زور پر ایک طرف لے جایا جارہا تھا، مگر دوسری جانب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جو صحیح اور سچا موقف ہے اس پر جمے رہے، ظلم و ستم کو گواراکیا، معلوم ہوا کہ جہاں اسلامی اصول اور اسلامی عقائد کی بات ہو، وہاں باطل کے مقابلے میں سینہ سپر ہوکر کھڑا ہونا اور انتشار و خلفشار کی پرواہ کیے بغیر امت کے سامنے درست موقف کو بیان کرنا اور اس کا نعرہٴ مستانہ لگانا یہ مومنانہ فرض ہوتا ہے، یہ سمجھنا ہی اصل فراستِ مومن ہے کہ کس وقت میں کیا موقف اختیار کیا جائے گا۔اجتماعیات میں انتشار کے سلسلہ میں بنیادی اصول ذکر کرنے کے بعد اختلاف و انتشار کے چند اسباب کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے:

حب ِجاہ اور حب ِمال:

            سیاست سے وابستہ تنظیموں میں زیادہ تر سیاسی مفادات اختلافات کی بنیاد بنتے ہیں، جو ادارے تجارتی نوعیت کے ہیں، ان میں معاشی مفادات کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے؛ مذہبی اداروں، تنظیموں اور جماعتوں میں بھی یہ بیماری کافی حد تک پائی جاتی ہے،کتنی ہی دینی درسگاہیں ہیں، جہاں صدر، سکریٹری یہاں تک کہ شیخ الحدیث کے لیے بھی جھگڑے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے اصحاب ِعلم و فضل کھلے طورپر مطالبہ کرتے ہیں کہ مجھے بخاری شریف پڑھانے کا موقع دیا جائے؛ حالاں کہ ایسا نہیں ہے کہ بخاری شریف پڑھانے ہی سے نجات متعلق ہو، اگر کوئی شخص نورانی قاعدہ اور قاعدہ بغدادی اخلاص کے ساتھ پڑھائے تو عجب نہیں کہ قیامت کے دن جنت میں جانے والے خوش نصیب قافلہ میں وہ آگے آگے ہو اور بخاری پڑھانے والے اضطراب و بے چینی کے ساتھ اپنی باری کے منتظر ہوں۔

            یہی بات دینی تنظیموں کی قیادت کے بارے میں کہی جاسکتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ کسی تنظیم یا جماعت کے سربراہ بننے یا اس کی منتظمہ کے رکن بننے میں خصوصی اجر و ثواب ہو، اجر و ثواب کے زیادہ مستحق تو وہ گمنام لوگ ہیں، جو گرد کارواں کی طرح پیچھے پیچھے رہتے ہیں؛ لیکن اللہ کی رضا کے جذبہ سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، نہ شہرت و نام وری کے طلب گار ہیں اور نہ کسی صلہ کے خواستگار، دینی کاموں سے وابستہ لوگوں میں اس جذبہ کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے، انہیں سمجھنا چاہئے کہ عمارت کی اساس ان گنبدوں اور میناروں پر نہیں ہوتی، جو دُور سے نظر آتے ہیں؛ بلکہ ان بنیادوں پر ہوتی ہے، جو زمین میں دفن ہوتی ہیں اور جن کو کوئی دیکھ نہیں پاتا، دینی کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو بنیاد کا پتھر بنانے کی کوشش کریں۔

امت ِمسلمہ کی ذلت کا ایک سبب حب جاہ بھی ہے:

            اس جذبہ پر قابو پانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہدہ کی طلب سے منع فرمایا، یہاں تک کہ ارشاد ہوا کہ جو شخص کسی عہدہ کا طالب ہو، اسے وہ عہدہ نہ دیا جائے، خلفائے راشدین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ ان میں سے کسی نے بھی عہدہ طلب نہیں کیا؛ بلکہ مسلمانوں نے ان کو اپنا سربراہ منتخب کیا؛ اسی لئے اللہ کی نصرت ان کے ہم رکاب رہی، بعد کو پوری اُمت میں فتنہ کا دور شروع ہوا، خاندانی بادشاہتیں قائم ہوئیں، لوگ عہدے طلب کرنے لگے، یہاں تک کہ اس کے لئے قتل و قتال تک کی نوبت آنے لگی، تو پھر مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کی مدد روٹھ گئی اور آہستہ آہستہ وہ عزت و سربلندی کی چوٹی سے ذلت و نکبت کی پستی میں جاگرے۔

عہدہ و منصب اعزاز نہیں بلکہ ذمہ داری ہے:

            اسلام کا تصور یہ ہے کہ عہدہ و منصب اعزاز کی چیز نہیں ہے؛ بلکہ یہ ذمہ داری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اپنے دائرہ میں ذمہ دار ہے، اور اپنی ذمہ داری میں آنے والے لوگوں کے بارے میں جواب دہ بھی ہے: ”کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ“۔

 (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۸۵۳)

            یہ احساس ذمہ داری جتنا بڑھے گا، عہدوں کی طلب کم ہوگی، اور اگر اسے اعزاز سمجھا جائے گا تو عہدوں کی پیاس بڑھے گی اور چوں کہ عہدے محدود ہیں؛ اس لئے ٹکراوٴ پیدا ہوگا، اور اگر نظر کام پر رہے گی تو چوں کہ کام کا میدان وسیع ہے؛ اس لئے اس میں شامل ہونے والوں کی کثرت تقویت کا باعث ہوگی نہ کہ ٹکراوٴ کا۔

 اپنی رائے پر اصرار:

            تنظیمی و اجتماعی زندگی میں انتشار کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اپنی رائے پر اصرار کیا جائے، گویا کہ وہ منزل من اللہ ہے اور دوسروں کی آراء کا احترام نہ کیا جائے اور ان کو لائق ِالتفات بھی نہ سمجھا جائے۔

رائے کی قربانی بھی اہم ترین قربانی ہے:

             عام طورپر لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ قربانی کے دو ہی محل ہیں، ایک: جان، دوسرے: مال؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قربانی کی ایک اور قسم ہے، اور وہ ہے رائے کی قربانی، اکثر ملی اختلافات کو حل کرنے میں اس قربانی کا بہت اہم رول ہوتا ہے، بعض لوگ اپنے نقطہٴ نظر پر اس درجہ اصرار کرنے لگتے ہیں کہ دوسرے نقطہٴ نظر کو سننا ہی نہیں چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ فیصلہ ہماری ہی رائے پر ہونا چاہئے، یہ انداز ِفکر دین کے مزاج کے خلاف ہے، رسول اللہ ﷺنے بعض مواقع پر اپنی رائے کے مقابلہ اپنے رفقا کے مشورہ کو ترجیح دی ہے، اس سلسلہ میں غزوہٴ اُحد کا واقعہ مشہور ہے، آپ کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے، کچھ نوجوان صحابہ جو جذبہٴ جہاد سے سرشار تھے انہوں نے اس کو بزدلی خیال کرتے ہوئے رائے دی کہ باہر نکل کر دشمنوں کے حملہ کا جواب دیا جائے، انہوں نے کسی حد تک اس پر اصرار بھی کیا؛ چنانچہ آپ ﷺنے ان کی رائے قبول کرلی، بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور اکابر صحابہ کی رائے ہی درست تھی؛ لیکن آپ ﷺ کبھی اس بات کو اپنی زبان پر نہیں لائے اور نہیں فرمایا کہ فلاں حضرات کی رائے پر عمل کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو اس قدر جانی نقصان اُٹھانا پڑا، خلفائے راشدین اوربالخصوص حضرت عمر نے کئی مواقع پر اپنے رفقاء کی رائے سن کر ان فیصلوں کو بدل دیا، جو وہ کرچکے تھے؛ اس لئے کبھی بھی اپنی رائے پر ایسا اصرار کہ گویا اسی میں خیر و بہتری ہے، نہ گھریلو معاملات میں درست ہے اور نہ اجتماعی معاملات میں، اکثر و بیشتر اپنی رائے پر اصرار ہی کی وجہ سے اجتماعی کاموں میں ٹوٹ پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہی انتشار کا سبب بنتا ہے۔

دشمنوں کا آلہٴ کار بننا:

             اُمت محمدیہ کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو اُمت کے کھلے ہوئے دشمنوں سے اس درجہ نقصان نہیں پہنچا، جتنا نقصان ان دشمنوں سے پہنچا، جو حقیقت میں بھیڑیئے تھے؛ لیکن انہوں نے بکریوں کی کھال پہن رکھی تھی، یہ ایک سازش پر مبنی عمل ہوتا ہے، کچھ لوگ تو واقعی اپنے مفادات کے لئے سوچ سمجھ کر دشمن کے آلہٴ کار بنتے ہیں اور بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے، جو سادہ لوحی اور بے شعوری میں اس سازش کے آلہٴ کار بن جاتے ہیں؛ حالاں کہ وہ مخلص ہوتے ہیں، ان کو غلط راستہ پر ڈالنے کے لئے ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے، انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ تم جو کچھ کررہے ہو، وہ حق کو نافذ کرنے اور باطل کو ختم کرنے کی کوشش ہے؛ لیکن حقیقت میں ان کا یہ عمل باطل کو تقویت پہنچاتا ہے اور حق و سچائی کو کمزور کر دیتا ہے، اس کی ایک واضح مثال ’داعش‘ ہے، جن کا خون بہایا جارہا ہے، وہ بھی مسلمان ہیں اور جو لوگ خون بہارہے ہیں یا بہانے میں شامل ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور بمقابلہ دوسرے مسلمانوں کے بہ ظاہر اسلام پر زیادہ کاربند نظر آتے ہیں؛ لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ وہ ان دشمنانِ اسلام کے آلہ کار ہیں، جو چاہتے ہیں کہ مسلمان برادرکشی میں مبتلا ہوجائیں؛ تاکہ اختلاف وانتشار ان کو کمزور سے کمزور تر کردے اور اسلام کی شبیہ کو خراب کرنا آسان ہوجائے۔

            غور کیا جائے تو یہ سلسلہ محمد رسول اللہ ﷺکی حیات ِطیبہ سے ہی شروع ہوچکا تھا، مدینہ منورہ میں ایک عمارت مسجد کے نام سے بنائی گئی؛ تاکہ وہاں بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کی جائیں، اگر قرآن مجید نے اس سازش سے پردہ نہ اُٹھادیا ہوتا تو یقینا سیدھے سادھے مسلمان اس کو دین کی ایک خدمت ہی تصور کرتے اور وہاں ان کی آمد و رفت شروع ہوجاتی؛ لیکن قرآن نے اس کو ’مسجد ضرار‘ قرار دے کر منہدم کرنے کا حکم دیا۔

 (تفسیر ابن کثیر: ۴/۲۱۲)

             اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ پر منافقین نے بے بنیاد تہمت لگائی اور انہوں نے اس جھوٹ کو ٹھیک اسی طرح پھیلایا جیسے آج کل میڈیا جھوٹ کو سچ بنانے کی فکر کرتا ہے، آخر کچھ سادہ لوح سیدھے سادے مسلمان بھی اس سازش کا شکار ہوگئے، یہاں تک کہ جب بعض مخلص مسلمانوں نے اس فتنہ کے سرچشمہ عبد اللہ بن اُبی کو قتل کردینے کا ارادہ کیا تو اندیشہ پیدا ہوگیا کہ کہیں اوس و خزرج کی لڑائی نہ بھڑک اُٹھے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۲۶۶۱) اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عائشہ کی برأت کا صاف صاف اعلان نہ ہوجاتا تو یہ اسلام کی دعوتی کوششوں کے لئے ایک زبردست دھکا ثابت ہوتا۔

            پھر عہد ِصحابہ میں دیکھئے! سیدنا حضرت عثمان غنی نے اسلام کے لئے جو قربانیاں دیں، خود رسول اللہ ﷺنے اس کی مدح فرمائی ہے، آپ ﷺ کی دو دو صاحبزادیاں ان کے نکاح میں رہیں، حضرت عثمان کے قبیلہ کی غالب اکثریت فتح مکہ تک اسلام کی مخالفت میں پیش پیش رہی اور غزوہٴ اُحد اورغزوہٴ خندق کی قیادت کی؛ لیکن حضرت عثمان نے اپنے قبیلہ کے فکری رجحان اور عملی رویہ کے برخلاف بالکل ابتدا میں اسلام قبول کرلیا اوراسلام کے راستہ میں مشقتیں اُٹھائیں، اپنے عہد خلافت میں جمع ِقرآن مجید کی خدمت انجام دی، ان سب کے باوجود ایک یہودی ’عبد اللہ ابن سبا‘ نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ایسی سازش رچی، جو خلیفہٴ مظلوم کی شہادت کا باعث بن گئی، اور بہت سے سیدھے سادے مسلمان اور اکابر صحابہ کی اولاد بھی اس سازش کا شکار ہوگئے، اور سب کچھ یہ سمجھ کر کیا کہ نعوذ باللہ یہ ظالم حکمراں کے خلاف جدوجہد ہے، حضرت عثمان غنی نے اس وقت ایک تاریخی بات ارشاد فرمائی:

            فواللہ لئن قتلتمونی لا تتحابون بعدی أبدا، ولا تصلون بعدی جمیعا أبدا، ولا تقاتلون بعدی عدوا جمیعا أبدا (الطبقات الکبری: ۳/۷۱)

            خدا کی قسم! اگر تم نے مجھے قتل کیا تو میرے بعد کبھی تم میں محبت باقی نہیں رہے گی، میرے بعد ایک ساتھ نماز نہیں پڑھوگے، میرے بعد ایک ساتھ دشمن سے جنگ نہیں کروگے۔

            آہ، اور سوبار آہ! کہ آج حضرت عثمان غنی کی اس بددُعا کو سر کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، مسلمانوں کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ جو لوگ اسٹیج پر اتحاد و اتفاق کی باتیں کرتے ہیں، وہی اسٹیج سے نیچے اُترنے کے بعد اپنے متبعین کو نفرت پر اُکساتے ہیں، ہماری نمازیں ایک مسجد میں نہیں ہوتیں، ہر فرقہ کی الگ الگ مسجدیں ہیں، جن میں ان کے سوادوسرے لوگ نماز نہیں پڑسکتے، دشمن سامنے کھڑا ہے، لیکن ہمارا اختلاف ہے کہ کم ہی نہیں ہوتا؛ چہ جائیکہ ہم مل جل کر ان کا مقابلہ کریں۔

خلافت ِراشدہ کے خاتمہ کا سبب بھی دشمنوں کا آلہٴ کار بنناہے:

            دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو آلہٴ کار بنا کر ایسی سازش کا دروازہ کھولا ،جس نے مستقبل کی تاریخ پر نہایت افسوس ناک اثر ڈالا، مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہوگئے اور نہ صرف یہ واقعہ بالآخر خلافت راشدہ کے ختم ہونے کا سبب بنا؛ بلکہ مستقبل میں مذہبی قیادت اور سیاسی قیادت بھی الگ الگ ہوگئی اور صدیوں ایک ایسا بادشاہی نظام پروان چڑھتا رہا، جو زیادہ تر دینی اقدار سے خالی ہی رہتا تھا، پھر عہد صحابہ میں ہی ایک وقت ایسا آیا کہ توقع قائم ہوگئی تھی کہ خلیفہ راشد حضرت علی اور شام کے فرمانروا حضرت معاویہ کے درمیان صلح ہوجائے گی؛ لیکن کچھ عجمی نزاد لوگوں کی سازشوں سے یہ صلح بکھر کر رہ گئی اور ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا، جو ایک مستقل اعتقادی مکتب ِفکر بن گیا اور ہمیشہ کے لئے اُمت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، دشمنانِ اسلام نے ہمیشہ اس تقسیم سے فائدہ اُٹھایا، اور آج بھی اُٹھارہے ہیں۔

مسلم حکومتوں کے زوال کا سبب بھی یہی سازش ہے:

            پھر تاریخ کے ہر موڑ پر مسلمانوں کے زوال اور ہزیمت کا بنیادی سبب یہی بنا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ دشمنوں کا آلہ ٴکار بن گیا، تاتاریوں کے ہاتھ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور خلافت عباسی کا محل زمین بوس ہوگیا، پھر عثمانی ترکوں نے پانچ سو سال سے زیادہ اسلامی مقدسات اور عالم اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کی؛ لیکن بعض عرب اور ترک ضمیر فروشوں نے وطنی تعصب کے جھنڈے بلند کئے اور سادہ لوح عرب اورترک مسلمانوں کا جم غفیر ان کے ساتھ ہوگیا، آخر خلافت عثمانیہ کا چراغ بجھ گیا اور مسلمانوں کی وحدت کی ایک علامت جو اعدائے اسلام کی آنکھوں میں چبھتی تھی ختم ہوگئی، خود ہمارے ملک ہندوستان کی تاریخ بھی یہی رہی ہے کہ قریب قریب ساری مسلم حکومتیں مسلمانوں میں پائے جانے واے ایک منافق گروہ اور عام مسلمانوں کے ان کے جھنڈے نیچے جمع ہوجانے کی وجہ سے ختم ہوئیں اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے اشارہ پر ہوا، جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن تھے، اس لئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس اُمت کو نقصان پہنچانے کی سازش ہمیشہ دشمنانِ اسلام کی طرف سے ہوتی رہی ہے، انہوں نے ہمیشہ اس کے لئے مسلمانوں ہی کی صفوں میں گھسے ہوئے لوگوں کا استعمال کیا ہے اور اس صفائی سے کیا ہے کہ کچھ لوگوں نے ایک کارِثواب اور دینی خدمت سمجھ کر وہ حرکتیں کیں، جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی اور اسلام کو کمزور کرنے والی تھیں۔

دینی تنظیمیں مطمئن نہ رہیں:

            جو لوگ دینی کاموں کو انجام دیتے ہیں اور اچھے جذبہ سے انجام دیتے ہیں، انہیں مطمئن نہ ہوجانا چاہئے کہ انہیں ان کی دین داری کی وجہ سے کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا؛ کیوں کہ ڈاکو اسی گھر میں ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے، جس میں دولت ہو، اسی طرح دشمنانِ اسلام کی طرف سے ہمیشہ اسی گروہ کو شکار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو اسلام سے گہری وابستگی رکھتا ہو، دوسرے لوگوں کے بارے میں شیطان سوچتا ہے کہ یہ تو پہلے ہی سے ہمارا کام کررہا ہے؛ اس لئے ان کے کام میں خلل ڈالنے کی ضرورت نہیں، دینی اداروں، درسگاہوں اور جماعتوں کو ہمیشہ اس پہلو سے اپنا جائزہ لیتے رہنا اور چوکنا رہنا چاہئے۔

بر صغیر کے ماضی سے سبق حاصل کریں:

             برصغیر میں اگر پچھلے تین دہائیوں کی تاریخ دیکھی جائے تو بعض بڑی بڑی درسگاہوں کے ٹکڑے ہوگئے، بعض بہت ہی فعال تنظیمیں تقسیم درتقسیم کا شکار ہوگئیں، اس کے نتیجہ میں ان کا وقار و اعتبار متاثر ہوا، مسلمانوں کی معتبر ترین شخصیتیں جن کو مسلمانوں کی وحدت کی علامت سمجھا جاتا تھا، بے وزن ہوگئیں، اس بکھراوٴ نے کام کو متاثر کیا، مسلمانوں کی آپسی محبت نفرت میں تبدیل ہوگئی، مسلم مخالف طاقتوں پر جو بھرم قائم تھا، وہ ختم ہوگیا اور انہیں اس اختلاف سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا، اس لئے ہمیں ضرور اپنے زوال و نقصان کی اس تاریخ سے سبق لینا چاہئے، جو مریض اپنی بیماری کو جاننے اور اس کا علاج کرنے کے لئے تیار نہ ہو، وہ کبھی صحت یاب نہیں ہوسکتا، اس بیمار سے بڑھ کر کوئی کم نصیب نہیں، جو خود اپنی بیماری کا احساس نہ کرسکے۔

(جاری……)