تلاوت قرآن کا نبوی انداز

مولانا عبد الوہاب  ندوی ؔمدنی/استاذجامعہ اکل کوا

                قرآن پاک وہ عظیم کتاب ہے ،جو لوگوں کی ہدایت کے لیے اتاری گئی جوکہ در اصل کلام الہٰی ہے جسے بندوں کے سمجھنے کے لیے انسانوں کی زبان میں نازل کیا گیا ہے، جو بھٹکے ہوؤں کو ہدایت اور مردہ دلوں کو زندگی عطا کرتی ہے، جس کے پڑھنے سے ثواب ،سمجھنے اوراس میں غوروفکر کرنے سے درجات کی بلندی اور اس پر عمل پیرا ہونے سے رضائے الٰہی کا پروانہ ملتاہے ۔حتی کہ بغیر سمجھے اِس کی تلاوت بھی ثواب سے خالی نہیں ،بل کہ ایک ایک حرف پردس دس نیکیاں ملتی ہیں۔ قیامت کے دن صاحبِ قرآن (حافظ)کو حکم ہوگا پڑھتا جا او ر درجات کی بلندی کو حاصل کرتاجا۔ اس کی تلاوت روح میں بالیدگی، قلوب میں رقت اور زندگی میں خشیت پیدا کرتی ہے، دلوں کے زنگ دور ہوکر قلوب صاف ومنور ہوجاتے ہیں ، ایسا کلام؛ جس کی اثر انگیزی کو پہاڑ بھی برداشت نہ کر سکے ،آسمان وزمین جس سے کانپ اٹھے ،لیکن جب حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے قلب محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر اِس کا نزول ہوا تو ساری انسانیت باسعادت ہوگئی۔دکھے دلوں کی شفا اور مریض قلوب کا علاج نازل ہوگیا، اسلاف جب اس کی تلاوت کرتے تو باری تعالیٰ سے ہم کلامی کے تصور سے وہ کانپ جاتے، دلوں میں رقت طاری ہوجاتی، ان کی تلاوت قرآن کو سن کر فرشتے جمع ہوجاتے، جانور بھی اس کے اثر کو محسوس کرتے ،خود مشرکین مکہ اس کی تلاوت کو سننے کے لیے ترس جاتے، چھپ چھپ کر صحابہ کی تلاوت کو سنتے اوراس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے،لیکن اُن کے عناد نے انھیں ہدایت کے راستے سے محروم رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس کلام الہٰی کو پڑھ کر مسلمان ہوئے، حضرت طفیل رضی اللہ عنہ نے نبی کریم اکی زبانی اس کلام کوسن کر گواہی دی کہ بخدا !یہ کسی بشر کاکلام نہیں ہوسکتا۔

                در اصل خود نبی کریمﷺکے قرآن پڑھنے کا انداز اوراُس میں غوروفکر کرنے کا طریقہ ہی کچھ ایسا تھا کہ ہر سننے والے پر اثر اندازہوجاتا۔ دل کی دنیاہی بدل جاتی، آپ علیہ الصلاۃ والسلام محض تبرکاً تلاوت نہیں فرماتے اور نہ ہی آپ صر ف زبا ن سے اِس کے الفاظ کو دہراتے، بل کہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں آپ ایک خاص اندازسے قرآن کی تلاوت فرماتے ۔حتی کہ جب آپ پر وحی نازل ہوتی اور بھول جانے کے خدشے سے آپ جلدی جلدی اسے دہرانے لگتے تو حکم ہوتاہے{لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ إن علینا جمعہ وقرآنہ}

                ترجمہ:اے نبی ! اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو،بے شک اس کو جمع کرنا اور آپ سے پڑھاناہمارے ذمہ ہے۔

                اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس ذات کوجس کا یہ کلام ہے قرآن کا جلدی جلدی پڑھنا پسند نہیں۔ بل کہ نبی کو یہ حکم دیا جاتاہے کہ جیسا آپ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے سنا ،ویسے ہی پڑھا کیجیے{فإذا قرأنٰہ فاتبع قرآنہ}حضرت ابن عباسؓفرماتے ہیں کہ اِس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ علیہ السلام وحی کو خاموشی سے سنتے رہتے تھے، پھر آپ کو حکم ہوتاہے کہ قرآن کو خوب ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کرپڑھیں{ورتل القرآن ترتیلا}یہی وجہ تھی کہ آپ علیہ السلام خوب اطمینا ن کے ساتھ واضح انداز میں تلاوت فرماتے اور آپ کی تلاوت اثر انگیز ہوتی۔ہر سننے والا سر دھنتا، اسلاف کے بھی بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں کہ قرآن پڑھتے وقت ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔

                آج ہم بھی قرآن پڑھتے ہیں، لیکن دلوں کی سختی دور نہیں ہوتی۔ سننے والے تو دور خود پڑھنے والوں پر اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ تلاوت کے مطلوبہ اوصاف اور نبوی طرز کو چھوڑ کر ہم صرف الفاظ گردانی کرتے ہیں، آیات کو دہراتے اور زبان سے صرف حروف کو اداکرتے ہیں، تلاوت قرآن کے مؤثر ہونے کے لیے ہمیں سب سے پہلے جس پر قرآن نازل ہوا، ان کے پڑھنے کا انداز معلوم کرناہوگا، اُس طرز کو سیکھنا ہو گا، جو اللہ کا حکم اور نبی کا طریقہ ہے ،نبی کریم ﷺکے قرآن پڑھنے کا انداز حضرت ام سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ آپ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، الحمد للّٰہ رب العٰلمین الگ الگ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے اور ترتیل کی رعایت فرماتے جس سے ہرہر کلمہ واضح اور صاف سنائی دیتا۔ نیز آپ علیہ السلام اطمینان اور دل جمعی کی خاطر آیت کے اخیر کو ذرا کھینچ کر تلاوت فرماتے، جیسا کہ حضرت انس ابن مالک ؓ سے دریافت کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کی تلاوت کا انداز کیاتھا؟ تو آپ ؓ نے فرمایا :کہ نبی کریم ﷺقرأ ت میں تمدید فرماتے(کھینچ کر پڑھتے ) پھربہ طورِ تطبیق خود حضرت انس ؓ نے پڑھ کر سنایا،جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو کھینچ کر پڑھا(بخاری)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت عموماً یہی تھی کہ قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے اور کیوں نہ ہو، جب کہ یہ فرمانِ الہٰی ہے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے سے تدبر آسان ہوجاتاہے اور سمجھ کر پڑھنے سے دل  پر اثر بھی ہوتاہے۔نیز نبی کریم ﷺقرآن کو خوش الحانی کے ساتھ بلند آوازمیں پڑھتے، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی کلام کو اِس طرح متوجہ ہوکر نہیں سنتا جتنا کہ نبی کی خوش آوازی کے ساتھ بآواز بلند قرأ تِ قرآن کو سنتاہے۔(بخاری)

                قرآن پاک کو اچھی آواز اور بہترین انداز میں پڑھنا بھی رسول اکرم ﷺکی سنت ہے ۔مزید خوش الحانی کے ساتھ آواز میں اتار چڑھاؤ پیدا کرنا اور اچھے لحن میں پڑھنا بھی خشوع میں اضافہ کا باعث ہے، حضرت عبد اللہ ابن مُغفلؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے فتح مکہ کے دن نبی کریم ﷺکو اونٹنی پر سوار دیکھا کہ آپ سورہ فتح کی تلاوت فرمارہے تھے ،جس میں آواز کو اونچا اور کھینچ کر پڑھ رہے تھے(بخاری) مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتاہے کہ آپ علیہ السلام سے تلاوت کلام پاک میں کھینچ کر آواز میں اتار چڑھاؤ اور خوش الحانی کے ساتھ واضح اور مرتل انداز میں پڑھنا ثابت ہے یہ تلاوت کا نبوی انداز اور مسنون طریقہ ہے۔

                در اصل کتاب اللہ کی تلاوت کا اصل مقصد کلام الٰہی میں تدبر اور غورو خوض کرناہے، جس سے شرح صدر اور دل میں رقت پیدا ہو، آنکھو ں سے بے اختیار آنسو جاری ہونے لگیں، اعضا وجوارح پر لرزہ طاری ہوجائے، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خود ان لوگوں کی تعریف کی، جن پر یہ اثر ظاہر ہو۔ ارشاد باری ہے {الذین إذا ذکر اللّٰہ وجلت قلوبہم}وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے سامنے جب اللہ کا ذکر کیاجائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں،نیز ارشاد ہے {إذا یتلی علیہم آیٰت الرحمن خروا سجدا وبکیا}(جب ان کے سامنے رحمٰن کی آیات (قرآن)تلاوت کی جاتی تو وہ بے اختیار روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں)۔

                یہی نبی کریم ﷺ کی کیفیت تھی کہ تلاوت قرآن کے وقت آپ کے آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے۔حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ تلاوت قرآن کی اثر انگیزی کا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان فرماتے ہیں’’مجھ سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:قرآن پاک پڑھ کر سنائو!میں نے عرض کیا یارسول اللہ !میں آپ کو پڑھ کر سناؤں جب کہ قرآن کا نزول آپ ہی پر ہواہے؟تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں! میں کسی اور سے سننا چاہتا ہوں‘‘ چناں چہ میں نے سورئہ نساء کی تلاوت شروع کی اور آیت {فکیف إذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنا بک علی ہؤلاء شہیدا} پر پہنچا تو آپ ﷺنے فرمایا: بس!میں نے نگاہ اٹھاکر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ یہی حال آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تھا کہ وہ نہایت ہی سوز سے تلاوت فرماتے خود اس سے متاثر ہوتے اور دیگر سامعین کو مسحور کر دیتے تھے۔

                اسی طرح نبی کریم ﷺ کبھی کبھی کسی آیت کو بار بار دہراتے، تاکہ اس میں مزید تامل وتدبر ہو اور دل پر اس کا اثر ہو۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابوذر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺایک رات صرف ایک آیت کو دہراتے اور بار بارپڑھتے رہے اور وہ سورۃ مائدہ کی آیت {إن تعذبہم فإنہم عبادک }ہے۔اسی پر بس نہیں بل کہ نبی کریم ﷺتلاوت قرآن کے دوران جب کسی آیت رحمت سے گذرتے تو خوش ہوتے اور اللہ سے رحمت کا سوال کرتے اور جب کوئی عذاب کی آیت آتی تو ڈر جاتے اور اللہ کی پناہ چاہتے۔ جب تسبیح و تنزیہ سے متعلق آیت ہوتی تو اللہ کی تسبیح فرماتے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبیٔ اکرمﷺ جب بھی{ سبح اسم ربک الاعلی} پڑھتے تو سبحان ربی الاعلی کہتے، اِن آثار و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم ﷺکی تلاوت محض طوطے کی طرح الفاظ دہرانے کے مماثل نہیں تھی، بل کہ آپ خوش الحانی کے ساتھ ساتھ غور و فکر اور تدبر سے تلاوت فرماتے اور آپ پر خشیتِ الٰہی اور رقت نفس طاری ہوجاتی، جس سے آنکھیں اشک بار، دل موم اور پیشانی رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی۔

                کلام ربانی کی تلاوت کا شغف رب العالمین سے محبت کی ایک عظیم علامت ہے۔ اسی لیے محبوب اپنے محب کے کلام کو حرز جاں بناتا ہے کیوںکہ وہ امت کو سبق دینا چاہتا ہے کہ اسی کلام کومضبوطی سے تھامے رہنے میں نجات ہے۔ اس سے تعلق بلندیوں تک پہنچاتا اور اس سے بے اعتنائی قعر مذلت میں دھکیل دے گی، اسی لیے خود آپ کثرت سے تلاوت فرماتے ،حتی کہ سفر میں سواری پراور حضر میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے قرآن کی تلاوت آپ کا معمول تھا۔ روزانہ قیام اللیل میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتے، تہجد اور دیگر نوافل میں آپ کا قرآن پڑھنا متعدد روایات سے ثابت ہے،پھر رمضان المبارک ؛جو کہ قرآن کا مہینہ ہے اس میں آپ ﷺ کا اہتمام مزید بڑھ جاتا۔ خود حضرت جبرئیل علیہ السلام سے قرآن سنتے اور انھیں سناتے۔یہ تھا رسول اکرم ﷺ کا قرآن سے تعلق اور تلاوت کا نبوی طریقہ ،جو قرآن پاک سے صحیح استفادہ کرنے اور اس کا حق ادا کرنے میں ہماری رہ نمائی فرماتا ہے۔

                بلا شبہ قرآن کریم کی شکل میں ہمارے پاس اللہ کی وہ عظیم نعمت اور نور ہدایت ہے، جس سے ہر دور کی گھٹا ٹوپ تاریکیاں دور کی جا سکتی ہیں، مشکلات ومسائل کا ازالہ کیا جاسکتا ہے، اس کی رہ نمائی میں ترقی کی منزلیں طے کی جا سکتی ہیں، بشرطیکہ نبوی طریقے پر اِس کی تلاوت بھی ہو، اس میں تدبر بھی ہو، اس سے اظہارِ عقیدت بھی ہو اور عملی زندگی میں اس کے احکام کی بجاآوری بھی ہو۔ہم غور کریں کہ قرآن کریم سے ہمارا تعلق کتنا رہ گیا؟ روزانہ ہم تلاوت قرآن کے لیے کتنا وقت نکالتے ہیں؟ ہماری تلاوت کا انداز کیا ہے؟ ہماری تلاوت بے دلی کے ساتھ ہو رہی ہے، صرف زبان سے الفاظ دہرائے جا رہے ہیںاور دلوں پر کوئی اثر نہیں، قرآن جو تبدیلی ہماری عملی زندگی میں چاہتا ہے، ہم اُس سے ابھی کوسوں دور ہیں۔ آج ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہم قرآن کریم سے اپنی گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ، اسے اپنی مقدس کتاب سمجھتے ہیں اور اس کی ادنیٰ سی توہین برداشت نہیں کر تے، اگر کوئی شخص قرآن کے خلاف بدگوئی کرے یا عملًا اُس کی توہین کا ارتکاب کرے تو ہمارا جوش انتقام دیدنی ہوتا  ہے ،ہم بے چین ہو جاتے ہیں ، اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے ہیں ،اسے سزا دینے یا دلانے کی ہر ممکن جد و جہد کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے اورنذرانہ پیش کرنے کوتیاررہتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا عملی رویہ قرآن سے بے اعتنائی کا ہے، ہم اس پر مطلق غور نہیں کرتے کہ قرآن کا پیغام کیا ہے، قرآن ہماری زندگیوں میں کیسی تبدیلی چاہتا ہے، اس تضاد کو ایک جملہ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’مسلمان قرآن پر مرناتوخوب جانتے ہیں ، لیکن اس پر جینا نہیں جانتے‘‘ ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نہجِ نبوی کے مطابق قرآن سے اپنا رشتہ جوڑیں ، اسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے روزانہ کچھ وقت متعین کریں اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ اسی کتاب ہدایت سے تعلق و قرب ہمیں دنیا میں کام یابی و کامرانی کی چوٹی تک پہنچا سکتا ہے۔ اور اس سے دوری و بے اعتنائی ہمیں قعر مذلت میں دھکیل دے گی جیسا کہ فرمان نبوی ہے ’’إن اللّٰہ یرفع بہذا الکتاب اقوامًا  و یضع بہ آخرین ‘‘ اللہ اسی کتاب کی وجہ سے کچھ قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کچھ قوموں کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔