تلاوتِ کلام پاک میں ہونے والی عام غلطیاں

مضمون نگار:شیخ خالدخضمی یمنی

مترجم:مولانا الطاف حسین کشمیری

                اللہ تبارک و تعالیٰ نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن کریم نازل فرمایا ۔ اس کی عظمت و رفعت کو اس کے اتارنے والے کی عظمت ورفعت سے جانا اور اس کے مقام و مرتبہ کو اس ذات بابرکات کے مقام ومرتبہ سے سمجھا جا سکتا ہے ، جس پر قرآن کریم نازل کیاگیا ۔ قرآن کریم کی اس عظمت ورفعت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے تجوید کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ، اس کی ادائیگی میں کسی کجی اور کوتاہی کے بغیر صحیح صحیح پڑھا جائے ۔

                حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : {وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلًا} اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ۔

                 حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ إنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ أنْ یَّقْرَأ الْقُرْآنَ کَمَا اُنْزِلَ ‘‘ ۔ (ابن خزیمہ)

                اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند ہے کہ قرآن اسی طرح پڑھا جائے جیسے وہ نازل ہوا ۔

                اس لیے قرآن کریم پڑھنے والوں کو ان غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیے جو بہت سے طلبہ کی زبانوں پر عام چڑھی ہوئی ہیں۔ جنھیں حسب ذیل غلطیوں میں سمیٹا جا سکتا ہے ۔

   ۱-  اتنی جلدی سے قرآن کریم کواتناجلدی پڑھنا جو قواعد تجوید میں خلل کا باعث بنے ۔

                یہ غلطی خواہ دورانِ حفظ قرآن سیکھتے ہوئے پیش آئے یا دور کرتے وقت۔بہر صورت قرآن پڑھنے والے کے لیے از حد ضروری کہ اس کی تلاوت اطمینان وسکون کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کرتمام حرکات کو پورا پورا ادا کرنے کے ساتھ ہو۔ اور اس کی تلاوت میںسکون ، تشدید، مد و غنہ کی پوری پوری رعایت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم فرمایا ہے۔ اور امت کو اس باب میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا اور پیروی کرنے پر ابھارا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : { وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً } قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر صاف پڑھا کرو ۔

                اور ہرہر حروف کو اس کے بعد والے حرف سے جدا کرکے پڑھو ، اتنی جلدی نہ کرو کہ حروف ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوجائے ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کس کس انداز سے ہوتی تھی فرمایا: ’’ کانت مداً ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھینچ کر سکون سے پڑھتے تھے ۔ پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کھینچ کر پڑھا اور فرمایا آپ سکون سے کھینچ کر بسم اللہ پڑھتے پھر اطمینان سے الر حمن ادا کر تے پھر اسی سکون سے الر حیم ادافرما تے ۔

                حضرت ابو عمرودانیؒ’’ کتاب التحدید‘‘ میں فرماتے ہیں کہ :

                یہ حدیث قرأت کے ثبوت ،الفاظ کے عمدہ وحسین کرنے ،حروف کو ان کے مخارج سے اداکرنے ،ان کی صفات کے مراتب کی رعایت کر کے پڑھنے ، ان کی شکلوںکو اپنی اصل پر باقی رکھنے اور اس کے تمام حقوق ؛تلخیص وتبیین ،مدوتمکین ،صفیروغنہ ،تکریر واستطالت ،وغیرہ میں اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ایک آدمی امام نافع ؒ کے پاس آ یا اور کہا کیا آپ حذر پرگرفت کر تے ہیں ؟ اما م نافع نے کہا حدر کیاہے ؟ میں نہیں جانتا !پھر امام نافع ؒ اس آدمی سے کہا ہمیں قرآن سناؤ تو اس آدمی نے قرآن پڑ ھ کر سنا یا ،امام نا فع ؒ نے فرما یا ہمارے نزدیک حدر یہ ہے کہ :ہم نہ اعراب ساقط کر تے ہیں نہ حروف ساقط کر تے ہیں ، نہ مشدد میں تخفیف کر تے ہیں اور نہ مخفف کو مشددپڑھتے ہیں ۔ اور ہما رے مشائخ کی یہ قرأت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ ؓؓکی قرأت ہے ۔

   ۲ –        حرکات (فتحہ ،ضمہ،کسرہ)میں اتمام نہ کر نا :یہ بھی قرآن پڑھنے والوںکی زبان زد عام غلطیوں میں سے ہے کہ وہ حرکات کو اچک کرنا تمام پڑھتے ہیں ،جبکہ یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ علمائے تجوید کے نزدیک تینوں حرکات تینوںحروف مدہ کے اجزاء ہیں ،فتحہ الف کا نصف ہے ضمہ واؤ کا نصف ہے اورکسرہ یاء کا نصف ہے،اما م ابو عمر ودانیؒ نے’’ کتاب التحدید‘‘ میں اس قاعدہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان حرکات کی ادائیگی کے وقت انھیں کامل اور درست اداکرنے کی ضرورت پرزور دیاہے،لہذا حروف پرحرکات ثلاثہ پڑھتے وقت ان کے حق کی رعایت کرتے ہوئے انھیں بھرپور اداکریں۔اور انھیں اچکنے اور کمزور کرنے سے احترازکریں ،تاکہ ان کی آواز میں ضعف پیدانہ ہو،اور نہ اتنا زیادہ کھینچیںاور دراز کریں کہ مکمل ادا ہونے بجائے کے ان کے بعد الف ،یاء اور واؤ ، پیدا ہوجائیں۔

   ۳-         ساکن حرف کوحرکت دینا :خواہ حالت وقف میں ہو یاوصل میں؛ قرآن پڑھنے والوں کی من جملہ غلطیوںمیں سے ، ساکن حرف کو حرکت دینا  یا ایسے حروف میں قلقلہ کرنا جوحروف قلقلہ میں سے نہ ہو یا کسی حرف پر ایسی جگہ ،جگہ سکتہ کرنا جہاںامام حفص ؒکی روایت میں سکتہ نہ ہوں ، لہٰذا قاریٔ قرآن پر لازم ہے کہ ساکن حرف کو اتنا وقت دے ،جس میں اس کی ادائیگی اپنے مخرج سے صفات کی کمی اور زیادتی کے بغیر صحیح ادا ہوسکے ، ابن جزریؒ  ؒنے اسی قاعدہ کی طرف اس شعر میں اشارہ کیا ہے۔

                وَاحْرِصْ علی السّکونِ فی جَعَلْنا ٭          اَنْعَمْتَ وَالمغْضوْبِ مَعَ ضَلَلْنَا

                  ترجمہ : جعلنا،انعمت ، المغضوب اور ضللنا میں سکون کی صحیح ادائیگی پر خوب دھیان دو ۔

                اور یہ قاعدہ عام ہے اِن کلمات میں بھی اور ان کے علاوہ دوسرے حرو ف ساکنہ میں بھی خواہ وقف کی حالت میں ہو یا وصل کی اس ـلیے حروف ساکنہ میں مخرج اور صفت کی درست ادائیگی کے لیے وقت کی رعایت لازمی ہے امام ابو عمر دانی’’ کتاب التحدید‘‘میں فرماتے ہیں کہ حروف میں سے جو ساکن ہو اس کا حق یہ ہے کہ اسے تینوں کی حرکات سے خالی رکھا جائے ،نہ ان پرشدت کے ساتھ وقف کیا جائے او رنہ کوتاہی کرکے کا ٹا جائے، صرف زبان کو اس کے مخرج میں وصل کی حالت میںتھوڑ اسا اچکا جا سکتا ہے ۔

   ۴-  غنہ کی جگہ میں غنہ کی مقدار کوادانہ کرنا :   یہ بھی ان غلطیوں میں سے ہے ،جن میں بعض طلبہ مبتلاہو جاتے ہیں اور غنہ کی مقدار میں کمی کوتاھی کرتے ہیں ، علما ئے تجوید کے یہا ں یہ بات معروف وہ مشہور ہے کہ غنہ دوحرکتوں یا مد طبعی کے بقدرادا کیا جاتاہے ۔

حسب ذیل جگہوں میں ان کی رعایت کرناچاہیے۔

                ۱- نون مشدد اور میم مشدد میں حالت وقف وصل ہر دوشکلوں میں ۔

                ۲- جب نون ساکن وتنوین کاحروف  یومن  میں ادغام تاقص ہو ۔

                ۳- جب نون ساکن اور تنوین کے بعد باء آئے او ران دونوں کا میم میں اقلاب ہو ۔

                ۴- جب نون ساکن اور تنوین کے بعدپندرہ حرفوں میں اخفاء ہو ، وہ پندرہ حروف یہ ہیں:

                 ( ص۔ د ۔ ث۔ ک۔ج۔ ش۔ق۔س۔ ذ۔ط۔ز۔ف۔ت۔ظ۔ض۔)

                ۵- میم ساکن کے بعد باء آئے تو اخفا ء کے وقت ۔

                 ۶- میم ساکن کے بعد میم آئے توادغا م کے وقت ۔

                ۷-دو متجانس حرفوں کے ادغام کے وقت ۔ اور یہ اس وقت ہوتاہے جب باء کے بعد میم ایک ہی جگہ واقع ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :  {ارکب معنا }

   ۵-         جب حروف مرققہ حروف مفخمہ کے پڑوس میں توحرفِ مرقق مفخم پڑھنا ۔ طلبہ کی قرأت میں یہ غلطی بکثرت پائی جاتی ہے کہ جب حروف مرققہ کے ساتھ حروف مفخمہ آجاتے ہیں تو طلبہ باریک کو بھی پرپڑھتے ہیں ۔ حالاں کہ علمائے تجوید نے اپنی کتابوں میں اس غلطی پر تنبیہ فرمائی ہے ۔ اس لیے حروف مرققہ کے مفخمہ کے پہلو میں واقع ہونے کی صورت میں حروف مرققہ کو باریک پڑھنے پر خوب توجہ دینا چاہیے ۔ بعض علما نے اس کو ’’ تخلیص الحروف المرققۃ من الحروف المفخمۃ ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ چناںچہ امام جزری رحمۃ اللہ علیہ اپنے منظومہ میں بیان فرماتے ہیں :

فَرَقِّقَنْ مُسْتَفِلًا مِنْ اَحْرُفٍ

وَحَاذِرَنْ تَفْخِیْمَ لَفْظَ الْاَلِف

وَہَمْزَۃ الْحَمْدِ اَعُوْذُ اِہْدِنَا

اللّٰہُ ثُمَّ لَامُ لِلّٰہِ لَنَا

وَلْیَتَلَطَّفْ وَعَلَی اللّٰہِ وَلَا الضَّ

وَالْمِیْمَ مِنْ مَخْمَصَۃٍ وَمِنْ مَرَضٍ

وَبَاء بَرْقٍ بَاطِل

                حروف مستفلہ کو خوب باریک پڑھو اور لفظ الف کو پر پڑھنے سے بچو ۔ اور الحمد ، اعوذ ، اہدنا اور اللہ میں ہمزہ کو خوب باریک پڑھو۔

                اور لِلّٰہِ ، لَنَا، لِیَتَلَطَّفْ، عَلَی اللّٰہِ ، وَلَالضّ میں لام کو باریک پڑھو ۔ اور مخمصہ اور مرض میں میم کو باریک پڑھو ۔ اوربرق اور باطل کی باء کو بھی خوب باریک ادا کرو ۔

   ۶-         مد کی مقدار پوری ادا نہ کرنا وقف اوروصل ہر دوحالت میں ، مدوں کی مقداروں میں برابری نہ کرنا ، یہ غلطی طلبہ کی قرأت میں بہت عام واقع ہوتی ہے ۔ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ امام حفص کے نزدیک بطریق شاطبیہ مدوں کی مقداریں معین ہیں ، جن کی بطریق شاطبیہ قرأت کرتے ہوئے رعایت کرنا واجب ہے اور وہ مقداریں حسب ذیل ہیں :

مد وںکی قسمیں

مدوں کی مقدار

مد متصل

چار پانچ حرکات کے برابر

مد منفصل اور اس کے ملحقات

چار پانچ حرکات کے برابر

مد عارض ، سکون اور اس کے ملحقات

دو چار چھ حرکات کے برابر

مد لاز م کلمی اورحرفی

چھ حرکات کے برابر

مد اصلی اور اس کے ملحقات

دو حرکات کے برابر

   ۷-         وقف او رآغاز کرنے میں ان کے مقامات کی صحیح رعایت نہ کرنا یہ بھی ان غلطیوں میں سے ہے جن میں طلبہ کا ابتلا ہے ،جب کہ علمائے تجوید نے وقف اور ابتد ا کی رعایت کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے تاکہ کلمہ اور آیت قرآنی کے معنی مرادی متغیر ہونے سے محفوظ رہیں ۔ امام ابو عمرودانی ؒ ’’ کتاب التحدید ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ یہ بات اچھی طرح جان لو کہ قرآن پڑھنے والوں کو اس وقت تک صحیح تجوید حاصل نہیں ہوسکتی جب تک وہ کلمات پر وقف اور عدمِ وقف کی خوب معرفت نہ حاصل کرلیں اور اس کی عدم رعایت سے معنی میں جو خرابی اور قباحت پیدا ہوتی ہے اس سے اجتناب نہ کرلیں۔ اور ابن جزری ؒ اپنے منظومہ میں فرماتے ہیں :

وَبَعْدَ تَجْوِیْدٍ لِلْحُرُوْفِ

وَلَا بُدَّ مِنْ مَعْرِفَۃِ الْوُقُوْفِ

وَالْاِ بْتِدَائُ وَہِیَ تَقسَّمُ اِذَنْ

تَلٰثَۃٌ تَامٌّ وَکَافٍ وَحَسَنٌ

                اور حروف کو عمدہ کرنے کے بعد وقف اورابتدا کی معرفت نہایت ضروری ہے ۔ اور اس کی تین قسمیں ہیں: تام ،کافی اور حسن ۔

                اور علمائے تجوید نے آسانی کے لیے علامت وقف کی اصطلاحات مقرر فرمائی ہیں اور وہ حسب ذیل ہیں:

وقف کی علامتیں :

م

وقف لاز م کی علامت ہے ۔

ط

وقف مطلق کی علامت ہے ۔

ج

وقف جائز  کی علامت ہے ۔

ز

وقف مجوزلہ کی علامت ہے ۔

ص

وقف مرخص کی علامت ہے ۔

   ۸-         مخارج کی بعض غلطیاں :

                ٭  ’’ض‘‘ کا اس کے مخرج سے ادا نہ کرنا جو صفت استطالت کی عدم تحقیق کا باعث ہے جب کہ علمائے تجوید نے اس بات کی تحدید فرمائی ہے کہ ’’ ض‘‘ حافہ لسان یعنی زبان کی کروٹ دائیں یا بائیں اس کے پاس والے ڈاڑھوں کے ساتھ مل جانے سے ادا ہوتا ہے ، لہٰذا حافہ لسان کو ڈاڑھوں کے ساتھ چپکانے سے بچنا ضروری ہے ۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ اوپر کی ڈاڑھوں کی جڑوں سے ٹکرا دیں ۔

                ٭  واؤ مشدد کی ادائیگی میں ثنایا علیا کو شریک کرنا یہ صحیح نہیں ہے ، کیوں کہ واؤ دونوں ہونٹوں کے ملنے سے ادا ہوتا ہے ۔

                ٭  عین کے مخر ج اور صفت کی عدم تحقیق

                ٭  حروف مدہ پر وقت کرتے وقت ہمزہ کی آواز پیدا کرنا ۔

                ٭  حروف مدہ میں غنہ پیدا کرنا ، خاص طور پر جب ان سے پہلے حروف نون اور میم آئے ، خواہ وصل کی حالت میں ہو یا وقف کی ۔

                ٭  صاد کو سین کی طرح ادا کرنا جب کہ صاد حروف مستعلیہ میں سے ہے اور سین حروف مستفلہ میں سے ہے ۔

وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ بِنِعْمَتِہِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتِ