تفسیر میں گمراہی کے اسباب

شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب

                علم تفسیر جہاں ایک انتہائی شرف و سعادت کی چیز ہے ،وہیں اس نازک وادی میں قدم رکھنا بے حد خطرناک بھی ہے ۔ کیو ں کہ اگر انسان کسی آیت کی غلط تشریح کر بیٹھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایک ایسی بات منسوب کررہا ہے ،جو اللہ تعالیٰ نے نہیںکہی ۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑی گمراہی اورکیا ہوسکتی ہے ؟ جن لوگوں نے ضروری شرائط پوری کیے بغیر قرآن کریم کی تفسیر میںدخل اندازی کی ہے ، وہ کافی محنت خرچ کرنے کے باوجود اس بدترین گمراہی میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ اس لیے یہاں ایک نظر ان اسباب پر بھی ڈال لینی ضروری ہے جو انسان کو تفسیر قرآن کے معاملے میں گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔

پہلا سبب ، نااہلیت :

                تفسیر قرآن میں گمراہی کا سب سے پہلا اور خطرناک سبب یہ ہے کہ انسان اپنی اہلیت وصلاحیت کودیکھے بغیرقرآن کریم کے معاملے میںرائے زنی شروع کردے۔خاص طورسے ہمارے زمانے میںگمراہی کے اِس سبب نے بڑی قیامت ڈھائی ہے ۔یہ غلط فہمی عام ہوتی جارہی ہے کہ صرف عربی زبان پڑھ لینے کے بعد انسان قرآن مجیدکاعالم ہوجاتاہے ۔اوراس کے بعدجس طرح سمجھ میںآئے قرآن کریم کی تفسیرکرسکتاہے ۔حالاں کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیاکاکوئی بھی علم وفن ایسانہیںہے ،جس میںمحض زبان دانی کے بَل پرمہارت پیداہو سکتی ہو۔آج تک کبھی کسی ذی ہوش نے انگریزی زبان پرمکمل عبوررکھنے کے باوجودیہ دعویٰ نہیںکیاہوگاکہ وہ ڈاکٹرہوگیاہے اوروہ میڈیکل سائنس کی کتابیں پڑھ کردنیاپرمشقِ ستم کرسکتاہے ۔اسی طرح کوئی شخص محض انجینئرنگ کی کتابوںکامطالعہ کرکے انجینئربننے کادعویٰ نہیںکرسکتااورنہ قانون کی اعلیٰ کتابیں دیکھ کرماہرقانون کہلا سکتاہے ۔اوراگرکوئی شخص ایسادعویٰ کرے تویقینا ساری دنیااُسے احمق اوربے وقوف کہے گی۔اس لیے کہ ہرشخص جانتاہے کہ یہ تمام علوم وفنون محض زبان دانی اورنجی مطالعہ سے حاصل نہیںہوتے ۔بل کہ ان کے لیے بڑی بڑی درس گاہوں میںکئی کئی امتحانات سے گزرناہوتاہے ،پھرکسی ماہرفن کے پاس رہ کران کاعملی تجربہ کرناپڑتاہے ۔تب کہیںانسان اُن علوم کامبتدی کہلانے کامستحق ہوتاہے ۔

                جب ان علوم وفنون کاحال یہ ہے توتفسیرقرآن جیساعلم محض عربی زبان سیکھ لینے کی بناپرآخرکیسے حاصل ہوجائے گا؟آپ گزشتہ صفحات میںدیکھ چکے ہیںکہ علم تفسیرمیںدرک حاصل کرنے کے لیے کتنی وسیع معلومات درکارہوتی ہیں۔قرآن کریم عام کتابوںکی طرح کوئی ایسی مسلسل کتاب نہیںہے،جس میںایک موضوع کی تمام باتیںایک ہی جگہ لکھی ہوئی ہوں۔بل کہ وہ دنیاکی تمام کتابوںکے برخلاف اپناایک جداگانہ اورممتازاسلوب رکھتاہے۔لہٰذاکسی آیت کوقرارواقعی طورپرسمجھنے کے ـلیے اول تویہ ضروری ہے کہ اس آیت کی مختلف قرأتوں،اس موضوع کی تمام دوسری آیات اوران کے متعلقات پرپوری نگاہ ہو،پھرآپ پیچھے دیکھ چکے ہیںکہ بہت سی آیتیںکسی خاص واقعاتی پس منظرسے وابستہ ہوتی ہیں،جسے سببِ نزول کہاجاتاہے ۔اورجب تک سبب نزول کی مکمل تحقیق نہ ہواس کاپورامفہوم نہیںسمجھاجاسکتا۔نیزیہ حقیقت بھی آپ کے سامنے آچکی ہے کہ قرآن کریم بہت سی مجمل باتوں کی تشریح وتفسیرسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پرچھوڑدیتاہے ۔لہٰذاہرآیت میںیہ دیکھناضروری ہوتا ہے کہ اس کی تفسیرمیںآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قولی یاعملی تعلیم موجودہے یانہیں؟اگرموجودہے توتنقیدروایات کے مسلّم اصولوںپرپوری اترتی ہے یانہیں؟نیزصحابہ کرام نے جونزول قرآن کے عینی شاہدتھے، اس آیت کاکیامطلب سمجھاتھا؟اگراس بارے میںروایات کے درمیان کوئی تعارض واختلاف ہے ،تواسے کیوںکررفع کیاجاسکتاہے ؟پھرعربی زبان ایک وسیع زبان ہے،جس میںایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی اورایک ایک معنی کے لیے کئی کئی لفظ ہوتے ہیں،لہٰذاجب تک اس زمانے کے اہل عرب کے محاورات پرعبورنہ ہوکسی معنی کی تعیین بہت مشکل ہوتی ہے ۔اس کے علاوہ صرف الفاظ کے لغوی معنی جاننے سے کام نہیںچلتا۔کیوںکہ عربی میں نحوی ترکیبوںکے اختلاف سے معانی میںتبدیلی پیداہوجاتی ہے ۔اوریہ بات عربی لغت وادب پرمکمل عبورکے بغیرطے نہیںکی جاسکتی کہ اس مقام پرکون سی ترکیب محاوراتِ عرب کے زیادہ قریب ہے ؟اورسب سے آخرمیں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کاکلام ہے اوراللہ تعالیٰ اپنے کلام کے اسرارومعارف ایسے شخص پرنہیںکھولتا،جواس کی نافرمانیوںپرکمربستہ ہو۔لہٰذاتفسیرقرآن کے لیے اللہ کی بندگی اس کے ساتھ تعلقِ خاص ،طاعت وتقویٰ اورحق پرستی کے بے لاگ جذبے کی ضرورت ہے ۔اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تفسیرقرآن کے لیے صرف عربی زبان کی معمولی واقفیت کام نہیںدے سکتی۔بل کہ اس کے لیے علم اصول تفسیر،علم حدیث،اصول حدیث، اصول ففہ،علم فقہ،علم نحو،علم صرف،علم لغت،علم ادب اورعلم بلاغت میں ماہرانہ بصیرت اوراس کے ساتھ طہارت وتقویٰ ضروری ہے ۔اِن ضروری شرائط کے بغیرتفسیرکی وادی میںقدم رکھنااپنے آپ کوگمراہی کے راستے پرڈال دینے کے مرادف ہے ۔ اوراسی طرزعمل کے بارے میںسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتھاکہ’’من قال فی القرآن بغیرعلم فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘یعنی جوشخص قرآن میںبغیرعلم کے گفتگوکرے وہ اپناٹھکانا جہنم میں بنالے۔

چندغلط فہمیاں:

                اس سلسلے میںچندغلط فہمیوںکاازالہ ضروری ہے ۔

                (۱)بعض لوگ کہتے ہیںکہ قرآن کریم نے خوداپنے بارے میںارشادفرمایاہے کہ:{و لقد یسرنا القرآن للذکرفہل من مدکر}اوربلاشبہ ہم نے قرآن کریم کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کردیاہے ۔

                اورجب قرآن کریم ایک آسان کتاب ہے،تواس کی تشریح کے لیے کسی لمبے چوڑے علم وفن کی ضرورت نہیں۔بل کہ ہرشخص قرآن کریم کامتن پڑھ کراس کوسمجھ سکتاہے ۔لیکن یہ استدلال ایک شدید مغالطہ ہے ، جوخودکم فہمی اورسطحیت پرمبنی ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات دوقسم کی ہیں۔ایک تووہ آیتیںہیں،جن میں عام نصیحت کی باتیں،سبق آموزواقعات اورعبرت وموعظت کے مضامین بیان کیے گئے ہیں ۔مثلاً دنیاکی ناپائداری،جنت ودوزخ کے حالات،خوف خدااورفکرآخرت پیداکرنے والی باتیںاورزندگی کے دوسرے سیدھے سادے حقائق۔اس قسم کی آیتیںبلاشبہ آسان ہیں اورجوشخص بھی عربی زبان سے واقف ہووہ انھیںسمجھ کرنصیحت حاصل کرسکتاہے۔بل کہ یہ مقصدقرآن کریم کے مستندتراجم دیکھ کربھی ایک حدتک حاصل ہوجاتاہے ۔ مذکورہ آیت میںاسی مقصدکے لیے کہاگیاہے کہ ہم نے قرآن کوآسان کردیاہے ۔چناںچہ قرآن کریم نے یہ بات مجمل نہیںچھوڑی ’’للذکر‘‘(یعنی نصیحت کے واسطے)کالفظ بڑھاکراس حقیقت کوروزِ روشن کی طرح واضح کردیاہے ۔ 

                اس کے برخلاف دوسری قسم کی آیتیںوہ ہیں،جواحکام وقوانین ،عقائداورعلمی مضامین پرمشتمل ہیں۔ اس قسم کی آیتوںکاکماحقہ سمجھنااوران سے احکام ومسائل مستنبط کرناہرشخص کاکام نہیںہے ،جب تک اسلامی علوم میں بصیرت اورپختگی حاصل نہ ہو،اس وقت تک قرآن کریم سے یہ مقصدحاصل نہیںہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی مادری زبان اگرچہ عربی تھی اورعربی سمجھنے کے لیے انھیں کہیںتعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی،لیکن وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے میںطویل مدتیںصرف کرتے تھے۔علامہ سیوطیؒ وغیرہ نے امام عبدالرحمن سلمیؒ سے نقل کیاہے کہ جن حضرات صحابہ نے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے،مثلاً:حضرت عثمان بن عفانؒ اورعبداللہ بن مسعودؒ وغیرہ؛انھوںنے ہمیں بتایاکہ جب وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کی دس آیتیں سیکھتے،تواس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے،جب تک اُن آیتوںکے متعلق تمام علمی اورعملی باتوںکاحاطہ نہ کرلیں۔وہ فرماتے تھے کہ’’فتعلمناالقرآن والعلم و العمل جمیعا‘‘ہم نے قرآن اورعلم وعمل ساتھ ساتھ سیکھاہے ۔

                چناںچہ مؤطاامام مالکؒ میںروایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے صرف سورۂ بقرہ یادکرنے میںپورے آٹھ سال صرف کیے ۔اورمسنداحمدؒمیںحضرت انسؓ فرماتے ہیںکہ ہم میں سے جوشخص سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھ لیتا،ہماری نگاہوںمیںاس کامرتبہ بہت بلندہوجاتاتھا۔

                غورکرنے کی بات ہے کہ یہ حضراتِ صحابہؓ؛ جن کی مادری زبان عربی تھی۔جوعربی شعروادب میں مہارت تامہ رکھتے تھے اورجن کولمبے لمبے قصیدے معمولی توجہ سے ازبرہوجایاکرتے تھے،انھیںقرآن کریم حفظ کرنے اوراس کے معانی کوسمجھنے کے لیے اتنی طویل مدت کی کیاضرورت تھی؟کہ آٹھ آٹھ سال صرف ایک سورت پڑھنے میںخرچ ہوجائیں؟اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ قرآن کریم اوراس کے علو م کوسیکھنے کے لیے صرف عربی زبان کی مہارت کافی نہیںتھی،بل کہ اس کے لیے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اورتعلیم سے فائدہ اٹھاناضروری تھا۔ظاہرہے کہ جب صحابہ کرام کوعربی زبان کی مہارت اورنزولِ وحی کابراہ راست مشاہدہ کرنے کے باوجود’’عالم قرآن‘‘بننے کے لیے باقاعدہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت تھی،تونزول قرآن کے سیکڑوںسال بعدعربی کی معمولی شدبدپیداکرکے یاصرف ترجمے دیکھ کرمفسرقرآن بننے کادعویٰ کتنی بڑ ی جسارت اورعلم ودین کے ساتھ کیساافسوس ناک مذاق ہے؟ایسے لوگوںکو،جواِس جسارت کاارتکاب کرتے ہیںسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاداچھی طرح یادرکھناچاہیے کہ: ’’من قال فی القرآن بغیرعلم فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ جوشخص قرآن کے معاملے میںبغیرعلم کے گفتگوکرے وہ اپناٹھکانا جہنم میں بنالے۔

 علمااوراجارہ داری:(۲)

                بعض لوگ یہ اعتراض اٹھاتے ہیںکہ قرآن کریم تمام انسانوںکے لیے ایک ہدایت کی کتاب ہے۔لہٰذا ہرشخض کواِس سے اپنی سمجھ کے موافق فائدہ اٹھانے کاحق حاصل ہے اوراس کی تشریح وتفسیرپر صرف علماکی’’اجارہ داری‘‘قائم نہیںکی جاسکتی۔

                یہ بھی انتہائی سطحی اورجذباتی اعتراض ہے ،جسے حقیقت پسندی اورمعاملہ فہمی سے دورکابھی واسطہ نہیں۔ قرآن کریم بلاشبہ تمام انسانوںکے لیے سرمایۂ ہدایت ہے،لیکن اس سے یہ کیسے لازم آگیاکہ ہراَن پڑھ اورجاہل بھی اس سے دقیق قانونی اورکلامی مسائل کااستنباط کرسکتاہے اوراس مقصدکے لیے کسی قسم کی صفات اہلیت درکارنہیںہیں۔اس کی مثال یوںسمجھیے کہ کوئی ماہرقانون،فلسفی یاڈاکٹراگراپنے فن پرکوئی کتاب لکھتاہے توظاہرہے کہ اس کامنشا،پوری انسانیت کو فائدہ پہنچانا ہی ہوتا ہے ۔

                 اب اگر کوئی ایسا شخص جوان علوم وفنون کے مبادی سے واقف نہیں ہے کھڑا ہوکر یہ اعتراض کرنے لگے کہ یہ کتابیں تو پوری انسانیت کے فائدے کے لیے لکھی گئی تھیں، ان پر ماہرین قانون ، فلسفیوں اور ڈاکٹروں نے اپنی اجارہ داری کیوں قائم کرلی ہے ؟ تو اس کی عقل پرماتم کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے ؟ اگر کسی کتاب سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کے لیے اہلیت کی کچھ صفات مقرر کرنا ’’ اجارہ داری ‘‘ قائم کرنے کی تعریف میں آتا ہے تو پھر دنیا کے کسی علم و ہنر کو جاہلوں اور اناڑیوں کی دستبرد سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا ، دراصل علم و فن کی ہر کتاب انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوتی ہے ، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے دو ہی طریقے ہیں ، یا تو انسان اس علم وفن کو باقاعدہ ماہر اساتذہ سے حاصل کرے ، اور اس کے لیے جو محنت اور جتنا وقت درکار ہے ، اسے خرچ کرے ،اور اگروہ ایسا نہیں کرسکتا تو جن لوگوں نے اس علم وفن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عمریں کھپائی ہیں ان میں سے جس پر زیادہ اعتماد ہو ، اس کی تشریح وتفسیر پر بھروسہ کرلے ، ان دوراستوں کے علاوہ جو شخص کوئی تیسرا راستہ اختیار کرے گا وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا اور متعلقہ علم وفن پر بھی ،بالکل یہی معاملہ قرآن و سنت کا بھی ہے، کہ وہ بلا شبہ پوری انسانیت کے لیے دستور ہدایت ہیں ، لیکن ان سے ہدایت حاصل کرنے کے بھی دوہی طریقے ہیں ، یا تو انسان ان علوم کو ماہر اساتذہ سے باقاعدہ حاصل کرکے ان میں پوری بصیرت پیدا کرے ، یا پھر ان لوگوں کی تشریح و تفسیر پر اعتماد کرے جنہوں نے اپنی زندگیاں ان علوم کے لیے وقف کی ہیں اس سوفی صد معقول اصول کو جس پر دنیا کے ہرعلم وفن کے معاملے میں عمل کیا جاتا ہے ، ’’ اجارہ داری ‘‘ کا طعنہ دینا سوائے سطحی جذباتیت کے اور کیا ہے ؟ کیا ساری دنیا صرف قرآن وسنت ہی (معاذا للہ ) لاوارث رہ گئے ہیں کہ ان سے مسائل مستنبط کرنے کے لیے اہلیت کی کوئی شرط درکار نہیں ہے ؟ اور ان پر ہر کس وناکس مشق ستم کرسکتا ہے ؟

علما اورپاپائیت :

                (۳) مذکورہ اعتراض ہی کو قدرے مختلف عنوان سے بعض لوگ اس طرح تعبیر کرتے ہیں کہ اسلام میں ’’پایائیت ‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ بات عیسائی مذہب کا خاصہ ہے کہ اس میں بائبل کی تشریح وتفسیر کا حق صرف پوپ کو حاصل ہوتا رہا ہے اور کسی دوسرے شخص کو اس سے مجال اختلاف نہیں ہوتی ۔ اسلام نے پاپائیت کی جڑ کاٹی ہے ، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس دین فطرت میں بھی قرآن کریم کی تفسیر کا سارا حق علما کے ایک مخصوص طبقہ کے حوالے کردیا جائے ؟

                لیکن یہ اعتراض بھی پاپائیت اورعلمائے اسلام دونوں کی بات کو غلط سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔’’ علما‘‘ کسی ایسے مخصوص طبقے یا گروہ کا نام نہیں ہے، جس کی بنیاد رنگ و نسل ، ذات پات ، مال و دولت یا جاہ ومنصب کی خاص شرائط پر ہو۔

                نہ’’علما ‘‘ کسی ایسی لگی بندھی تنظیم کا نام ہے، جس کا رکن بنے بغیر انسان ’’ عالم‘‘ کہلانے کا مستحق نہ ہو ، بل کہ علم وفضل اور سیرت وکردار کی کچھ مخصوص صفات کا حامل ہر شخص عالم دین ہے ۔خواہ وہ کسی خطے سے تعلق رکھتا ہو، کوئی زبان بولتاہو اورنسب کے اعتبار سے کسی بھی خاندان سے وابستہ ہو۔اِس لحاظ سے اسلام کے علمااورعیسائیت کے پاپاؤں میں مندر جہ ذیل واضح فرق موجود ہیں ۔

                ۱- ’’ پاپائیت ‘‘ ایک ایسے پیچیدہ مذہبی نظام کا نام ہے ،جو ایک لگی بندھی عالمگیر تنظیم میں جکڑا ہوا ہے ۔ اس میں بے شمار عہدے اور منصب ہیں۔ ان عہدوں اورمناصب پرفائز ہونے والوں کی تعداد مقرر ہے ۔ہرعہدہ ومنصب پر کسی شخص کا تقرر کچھ معین انسان کرتے ہیں اور وہی اس کو فرائض واختیارات تفویض کرتے ہیں ، کوئی شخص محض اپنی ذاتی اہلیت ، علم وفضل یاسیرت وکردار کی بنیاد پر لازماً اس تنظیم میں کوئی عہدہ حاصل نہیں کرسکتا ، جب تک کہ اس تنظیم کے ارباب اقتدار اسے نامزد نہ کریں اور جب تک وہ اس تنظیم میں کوئی عہدہ حاصل نہ کرے مذہبی معاملات میں اس کی ہر رائے قطعی طور پر غیر مؤثر ہے ، خواہ وہ علم وفضل کے کتنے ہی بلندمقام پرفائز ہو۔اس کانتیجہ یہ ہے کہ اگرکوئی شخص مذہبی علوم میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل کرلے تب بھی وہ دلائل کے زور سے چرچ کے مضبوط حصار کو نہیں توڑ سکتا ۔ اور اگر یہ معین تنظیم اپنی کتب مقدسہ ، اپنے پیغمبروں اوراپنے اسلاف سے بغاوت پر کمر باندھ لے تب بھی تنظیم سے باہر کسی عالم کو اس کے خلاف دم مارنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

                اس کے برخلاف ’’علمائے اسلام ‘‘ کی کسی بھی زمانے میں اس نوعیت کی کوئی عالمگیر تنظیم نہیں رہی ، جس میں داخلے کے بغیر مذہبی معاملات میں لب کشائی ممنوع ہو، جس کے عہدوں کا دائرہ اختیار خاص ہو اور جن میں تقرر کا فیصلہ کچھ مخصوص افراد کرتے ہوں۔اس کے بجائے ہروہ شخص جس نے ماہر اساتذہ کے زیر نگرانی قرآن و سنت اورمتعلقہ علوم میں بصیرت اور صلاح و تقویٰ پیدا کرلیا ہو وہ ’’ عالم دین ‘‘ کہلانے کا مستحق ہوجاتا ہے ۔ مذہبی معاملات میں اس کے فرائض واختیارات کا تعین معدودے چند انسانوں کا کوئی گروہ نہیں کرتا، بل کہ اس کے علم و تقویٰ کی بنیاد پر عام مقبولیت اس کا فیصلہ کرتی ہے ۔ چرچ کے ارباب بست و کشاد اپنے عہدہ و منصب کے زور پر اپنی بات منواتے ہیں اور ایک مسلمان عالم اپنے علم وفضل اور عزت و کردار کی قوت سے یہ مقام حاصل کرتا ہے۔ وہاںچرچ کے متشدد قوانین کسی شخص کو واجب الاتباع اور قابل تقلید قرار دیتے ہیں اور یہاں اس معاملے میں اصل فیصلہ کن قوت امت کا اجتماعی ضمیر ہے ۔ کلیسا کے عہدہ داروں کی ایک تعداد مقرر ہے اور اس تعداد کے پورا ہوجانے کے بعد کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم ہو، اپنے زمانے کے کلیسا کے کسی فیصلے سے اختلاف نہیں کرسکتا ۔ اس کے برعکس علمائے دین کی کوئی تعداد مقرر نہیں ہے ، علم دین کی ضروری شرائط پوری کرنے کے بعد ہر شخص عالم دین کے حقوق حاصل کرسکتا ہے ۔

                ۲- پھر کلیسائی نظام میں مذہب اورعقائد کی تشریح وتفسیر کے تمام اختیارات فرد واحد پرمرکوز ہوجاتے ہیں، جسے ’’ پوپ‘‘ کہتے ہیں۔اس پوپ کو مذہب کے کروڑوں پیروؤں میں سے کل ستر کارڈینل (Cardinals) منتخب کرتے ہیں، اس پوپ کے اختیارات یہ ہیں کہ وہ رئیس الحواریین (جناب پطرس) کا تنہا خلیفہ ہے ۔تمام ہی مذہبی معاملات میں آخری اتھارٹی ہے ، مذہب کی تشریح کے معاملے میں ہر مسیحی کے لیے واجب الاتباع ہے ۔ اس کی زبان قانون کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی بڑے سے بڑے عالم کو اس سے اختلاف کا حق نہیں پہنچتا ۔ ’’ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ‘‘ میں اس کے اختیار کی تشریح اِن الفاظ میں کی گئی ہے :

                ’’ لہٰذا پوپ عقائد ونظریات کے معاملہ میں مقتدر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے اسی استناد (Authority) اور اسی معصومیت (Infallibility)کا حامل ہے ، جس طرح پورا کلیسا ۔ وہ قانون ساز اور حج کی حیثیت سے وہ تمام اختیارات رکھتا ہے جو پوری کلیسا کو حاصل ہیں …‘‘

 (انسائیکلو پیڈیا برٹا ٹیکا مقالہ ’’ پوپ : ۲۲-۲۲۳، ج ۱۸)

                غور فرمائیے کہ پوری تاریخ اسلام میں آج تک کسی عالم دین نے کبھی اس مطلق العنانی کا دعویٰ کیا ہے ؟

                ۳-پھر عیسائی عقائد کے مطابق ’’ پوپ ‘‘ نظر یاتی مسائل کا اعلان کرتے ہوئے معصوم اور خطاؤں سے پاک ہوتا ہے ، چناں چہ برٹا نیکا میں ہے :

                ’’ لہٰذا پوپ کے دو خصوصی امتیازات ہیں۔ ایک یہ کہ جب وہ مقتدر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے عقائد کے بارے میں کوئی اعلان کرے تو وہ معصوم اور غلطیوں سے پاک ہوتا ہے اوردوسرے یہ کہ وہ مذہب کے تمام پیروؤں پر حاکمانہ اختیار کا مل (Sovereign jurisdiction ) رکھتا ہے ۔ یہ دونوں استحقاقات جن کا دعویٰ اور استعمال صدیوں سے پوپ کرتے آئے ہیں ان کو جولائی ۱۸۷۰ء کی ویٹی کن کونسل میں واضح دستوری شکل بھی دے دی گئی ہے ۔‘‘  (انسائیکلو پیڈیا برٹا ٹیکا مقالہ ’’ پوپ : ۲۲-۲۲۳، ج ۱۸، مزید دیکھئے مقالہ ’’ معصومیت‘‘)

                اس کے برخلاف یہ تمام علمائے اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کے بعد کوئی فرد معصوم نہیں ہے اور ہر ایک سے غلطی ہوسکتی ہے ۔ چناں چہ علمائے اسلام پوری آزادی سے ایک دوسرے پر تنقید کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ عہدِ صحابہؓ سے اب تک جاری ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کوئی مشہور سے مشہور عالم اگر قرآن وسنت کی تشریح میں کوئی غلطی کرے تو دوسرے تمام علما اس کی گرفت کر کے امت کو اس کے نتائج بد سے محفوظ کرسکتے ہیں ۔

                ۴- پھر کلیسا میں جو ستر کارڈ نیل پوپ کا انتخاب کرتے اور اس کو مشورے دیتے ہیں ان کی نامزدگی خود پوپ صاحب تن تنہا کرتے ہیں ۔چناںچہ’’ برٹانیکا ‘‘ میں ہے :

                ’’ کارڈ نیلوں کی نامزدگی آج کل تن تنہا پوپ کا کام ہے ۔ پوپ جن افراد کو خفیہ طور پرچنتا ہے ان کے ناموں کی اشاعت سے یہ کام مکمل ہوجاتا ہے ۔ اس کے لیے کسی اور ضابطے کی پابندی ضروری نہیں ، اسی طرح سیکرڈ کالج کی ووٹنگ یا منظوری کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔‘‘(انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ، ص ۸۵۵ج ۴ ، مقالہ ’’کارڈنیل‘‘)

                اس کے علاوہ کلیسا کے یہ ارباب اقتدار؛ جو مذہب کے سیاہ وسفید کے مالک ہوتے ہیں ، ان کا تقرر محض اہلیت کی بنیاد پر نہیں ہوتا ، بل کہ مختلف خطوں میں مختلف علاقائی تعصبات کار فرماہوتے ہیں ۔ ’’بر ٹا نیکا ‘‘ ہی کا ایک اوربیان ملاحظہ ہو :

                ’’ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کلیسا دنیا کی ہر قوم کے مختلف گروپوں سے مرکب ہوتا ہے ، لیکن انگریزی بولنے والی اقوام اکثریت میں ہوتی ہیں۔ انیسویں صدی کے وسط تک آئرش اورجرمن اقوام کوسب سے زیادہ کوٹا حاصل تھا ۔ …ان کے علاوہ مشرقی کیتھولک اقوام مثلاً: (یونانی، شامی اور آر مینی ) ایک قابل لحاظ تناسب سے موجود ہیں ‘‘۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ، ص ۸۵۵ج ۴ ، مقالہ ’’رومن کیتھولک‘‘ ص ۴۲۱ ج ۱۹)

                اس مختصر سے تعارف کے بعد پاپائی نظام کا موازنہ علمائے اسلام سے کیجیے تو دونوں میں زمین وآسمان کا تفاوت ہے ۔ علمائے اسلام کی نہ کوئی لگی بندھی تنظیم ہے ، نہ کوئی فرد واحد مذہبی معاملات میں حاکم اعلیٰ ہے ، نہ کوئی شخص معصومیت اورغلطیوںسے پاک ہونے کادعویٰ دارہے،نہ علماکی کوئی مخصوص تعداد مقرر ہے ،جس پراضافہ نہ ہوسکتا ہو، نہ کوئی شخص دوسرے علما کی تنقید سے بالا تر ہے ، نہ عالم کے منصب پر فائز ہونے کے لیے کسی فرد واحد کی اجازت اور منظوری درکار ہے ، نہ اس منصب کے لیے کسی رنگ و نسل یا زبان و وطن کی کوئی قید ہے۔بل کہ تاریخ اسلام میں اکثر سیاست عربوں کے پاس رہی ، لیکن علما عجمیوں، بل کہ غلاموں کے خاندان سے پیدا ہوتے رہے  اورپورا عالم اسلام ان کے علم و فضل اورتقدس وتقویٰ کا لو ہا مانتا رہا ۔ لہٰذا جب یہ بات کہی جاتی ہے کہ قرآن وسنت کے علوم میں دخل اندازی کے لیے ان علوم میں بصیرت و مہارت درکار ہے تو اس پر ’’ پاپائیت ‘‘ کا الزام عائد کرنا حقیقت اور انصاف کے ساتھ ایک سنگین مذاق کے سوا کچھ نہیں ، اس کے بجائے در حقیقت دینی علوم کی مثال دوسرے علوم کی سی ہے ، جس طرح دنیا کے تمام علوفنون کے بارے میں کسی شخص کی بات اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوسکتی جب تک اس نے اس متعلقہ علم کو ماہر اساتذہ سے حاصل کرکے ان کا عملی تجربہ حاصل نہ کیا ہو۔ اسی طرح قرآن و سنت کی تشریح و تفسیرمیں کسی کی بات اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگی، جب تک اس نے متعلقہ علوم کو باقاعدہ حاصل کرکے ماہراساتذہ کے زیر نگرانی ان کا عملی تجربہ نہ کیا ہو، اگراس بات کو کوئی شخص ’’پاپائیت ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے تو دنیا کا کوئی علم وفن اس ’’ پاپائیت ‘‘ سے خالی نہیں ہوسکتا ۔

۲- قرآن کریم کو اپنے نظریات کے تابع بنا نا :

                تفسیر قرآن کے سلسلے میں دوسری عظیم گمراہی یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن میں پہلے سے کچھ نظریات متعین کرلے ۔ اورپھر قرآن کریم کو ان نظریات کے تابع بنانے کی فکر کرے ، جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے نشان دہی فرمائی ہے ۔ (اصول التفسیر لابن تیمیہ ؒ ص ۲۳، مطبوعہ: مکتبہ علمیہ لاہور)

                قدیم زمانے سے باطل فرقوں ، ظاہر پرستوں اوراپنے وقت کے فلسفے سے مرعوب لوگوں نے تفسیر قرآن میں یہی گمراہ کن طریقہ اختیار کیا ہے اور الفاظ قرآنی کو توڑ موڑ کر اپنے نظریات کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے ۔ حالاں کہ یہ طرزِ عمل دنیا کے کسی بھی معاملہ میں حق وانصاف کے مطابق نہیں ہے ۔ خاص طور سے قرآن کریم کے بارے میں یہ طریق کار اختیار کرنا اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس کے برابر کوئی ظلم نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم نے جگہ جگہ اپنے آپ کو ’’ ہدایت‘‘ کی کتاب قرار دیا ہے ۔ ’’ ہدایت‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ ’’ جس شخص کو منزل کا راستہ معلوم نہ ہو اسے راستہ دکھلانا ‘‘ لہٰذا قرآن کریم سے ’’ ہدایت‘‘ حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس شخص کی طرح خالی الذہن رکھے ،جسے اپنی منزل کا پتہ معلوم نہ ہو۔ اس کے بعد دل میں یہ اعتقاد پیدا کرے کہ قرآن کریم جو راستہ بتائے گا وہی میرے لیے صلاح وفلاح کا موجب ہوگا ، خواہ اسے میری محدود عقل قبول کرے یا نہ کرے ۔ اگر میری عقل ایسی ہی قابل اعتماد تھی کہ میں اس کے زور پر سب کچھ معلوم کرسکتا تھا تو پھر قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اس اعتقاد کے ساتھ جب انسان قرآن کریم کی طرف رجوع کرے گا اور ان آداب وشرائط کو ملحوظ رکھے گا، جو قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہیں تو اسے بلاشبہ ہدایت حاصل ہوگی اور وہ منزل مراد کو پالے گا ۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص نے محض اپنی عقل کی بنیاد پر کچھ مخصوص نظریات اپنے ذہن میں پہلے سے بٹھالیے اورپھر قرآن کریم کو ان مخصوص نظریات کی عینک سے پڑھنا شروع کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی اس مقدس کتاب کو ہدایت حاصل کرنے کے لیے نہیں ،بل کہ محض اپنے عقلی نظریات کی تائید حاصل کرنے کے لیے پڑھ رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی عقل پر اتنا بھروسہ کرتاہو اور اپنی عقل کو قرآن کا خادم نہیں ، بل کہ (معاذ اللہ) قرآن کو اپنی عقل اورخواہشات کا خادم بنانا چاہتا ہو، قرآن کریم اسے ہدایت کی روشنی عطا کرنے سے بے نیاز ہے ۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی صحیح مراد تک پہنچنے کے بجائے اپنی گمراہی کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے اور اسے ہدایت کی توفیق نہیں ہوتی ، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے : {یضل بہ کثیرا و یہدی بہ کثیرا }

                 ’’ اللہ تعالیٰ اس (قرآن) کے ذریعے بہت سوں کو گمراہ کرتا ہے اوربہت سوںکو ہدایت بخشتا ہے ۔‘‘

                لہٰذا قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنے ذہن کو دوسرے نظریات سے خالی کرکے ایک طالبِ حق کی طرح قرآن کریم کی طرف رجوع کیا جائے اور اس کی مراد سمجھنے کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے، ان کو حاصل کرکے اس کی تفسیر معلوم کی جائے ۔ اس طرح جو کچھ ثابت ہو اس پر ایک سچے مؤمن کی طرح ایمان رکھا جائے اور جو شخص اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو یا اسے اپنے ذہن پر یہ اعتماد نہ ہو، اس کے لیے سیدھا راستہ یہی ہے کہ وہ خود ’’ تفسیر قرآن ‘‘ کی وادی میں قدم رکھنے کے بجائے ان لوگوں کی تفسیر پر بھروسہ کرے ، جنہوں نے اپنی عمریں اِسی کام میں صرف کی ہیں اورجن کی علمی بصیرت اور للہیت وخدا ترسی پراسے زیادہ اعتماد ہو۔

۳- زمانے کے افکارسے مرعوبیت :

                تفسیر قرآن کے سلسلے میں تیسری گمراہی یہ ہے کہ انسان اپنے وقت کے فلسفیانہ اور عقلی نظریات سے ذہنی طور پر مرعوب ہوکر قرآن کریم کی طرف رجوع کرے اور تفسیر کے معاملے میں ان نظریات کو حق وباطل کا معیار قرار دے دے ۔ یہ گمراہی در اصل دوسری گمراہی کے ذیل میں خود بہ خود آتی ہے ، لیکن چوں کہ ہمارے زمانے میں مغربی افکار سے مرعوبیت نے خاص طور سے بڑی قیامت ڈھائی ہے اس لیے یہاں اس گمراہی کو مستقل طور سے ذکر کیا جارہا ہے ۔

                تاریخ اسلام کے ہر دور میں ایسے افراد کی ایک جماعت موجود رہی ہے، جو قرآن و سنت کے علوم میں پختگی پید اکیے بغیر اپنے زمانے کے فلسفے کی طرف متوجہ ہوئے ۔ وہ فلسفہ ان کے ذہنوں پر اس بری طرح مسلط ہوگیا کہ وہ اس کے بنائے ہوئے فکرو نظر کے دائروں سے باہر نکلنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوگئے ۔ اس کے بعد جب انہوں نے قرآن کریم کی طرف رجوع کیا اور اس کی بہت سی باتیں انہیں اپنے آئیڈیل فلسفے کے خلاف محسوس ہوئیں تو انہو ں نے اس فلسفے کو جھٹلانے کے بجائے قرآن کریم میں تحریف وترمیم شروع کردی اور اس کے الفاظ کو کھینچ تان کر اپنے فلسفیانہ افکار کے مطابق بنانا شروع کردیا۔

                جب مسلمانوں میں یونانی فلسفے کا چرچا ہوا اور لوگوں نے قرآن وسنت کے علوم میں پختگی پید اکیے بغیر اس فلسفے کو حاصل کرنا شروع کیا ، تو یہی فتنہ پیش آیا۔ اور بعض لوگ جو یونانی فلسفے سے بری طرح مرعوب ہوگئے تھے، قرآن کریم کو توڑ مروڑ کر اس فلسفے کے مطابق بنانے کی کوشش میں لگ گئے ۔ ان میں بہت سے لوگ مخلص بھی تھے اور سچے دل سے یہ سمجھتے تھے کہ یونانی فلسفہ نا قابل تردید ہے ۔

                اور قرآن وسنت کی متوارث تفسیر اس کے لائے ہوئے فکری سیلاب کا مقابلہ نہیں کرسکے گی ۔ اس لیے اس تفسیر کو بدل کر قرآن وسنت کی ایسی تشریح کرنی چاہیے ،جو یونانی فلسفے کے مطابق ہو، لیکن حقیقت یہ قرآن وسنت اور اسلام کے ساتھ ایک نادان دوستی تھی، جس نے اسلام کی کوئی خدمت کرنے کے بجائے مسلمانوں میں نظریاتی انتشار برپا کیا ۔ پھر معتزلہ اور جہمیہ نے بہت سے نئے فرقے پیدا کردیے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پختہ کار علمائے دین جنہیں قرآن و سنت کے علوم میں رسوخ حاصل تھا اور جو قرآن و سنت کے مقابلے میں وقت کے کسی چلے ہوئے نظام فکر سے مرعوب نہیں تھے ، ان کی ایک بڑی جماعت کو دوسرے کام چھوڑ کر ایسے لوگوں کی تردید میں مصروف ہوجانا پڑا۔ انہوں نے یونانی فلسفے کی فکری غلطیوں کی نشان دہی کرکے ایسے لوگوں کی مدلل اور مفصل تردید کی، جو اس فلسفے کے اثر سے قرآن وسنت میں معنوی تحریف کے مرتکب ہوئے تھے ۔ غرض ایک عرصے تک فکری مباحث اور تصنیف ومناظرہ کا بازار گرم رہا اور فریقین کی طرف سے اپنے اپنے موقف کی تائید میں پورے کتب خانے تیار ہوگئے ۔

                پختہ کار علمائے دین کا موقف یہ تھا کہ قرآن کریم کسی انسان کی نہیں، اس خالق کائنات کی کتاب ہے ،جو اس دنیا اور اس میں ہونے والے واقعات کی رتی رتی سے باخبر ہے ۔ اور اس دنیا کے بدلتے ہوئے حالات سے اس سے زیادہ کوئی باخبر نہیں ہوسکتا ہے؟ لہٰذا قرآن کریم کی تعلیمات اور اس کے بیان کردہ حقائق سدا بہار اور ناقابل ترمیم ہیں ۔ جن احکام و قوانین اورنظریات پر زمانے کی تبدیلی اثر انداز ہوسکتی تھی، ان کے بارے میں قرآن کریم نے خود کو معین بات کہنے کے بجائے ایسے جامع اصول بیان فرمادیے ہیں جو ہر تبدیلی کے موقع پر کام آسکیں ۔ اور ان کی روشنی میںہر بدلے ہوئے ماحول میں رہ نمائی حاصل کی جاسکے ، لیکن جو باتیں قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمادی ہیں یاجن کی واضح تفسیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ، وہ زمانے کی تبدیلی سے بدلنے والی باتیں نہیں ہیں۔

                فلسفہ اور سائنس کی تاریخ اِس بات گی گواہ ہے کہ اس کے وہ بیشتر نظریات؛ جو قطعی مشاہدہ پر مبنی نہیں ہیں، مختلف زمانوں میں بدلتے رہے ہیں ۔ اور جس زمانے میں جو نظریہ رائج رہا وہ لوگوں کے ذہن وفکر پر اس بری طرح چھاگیا کہ لوگ اس کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہ رہے ، لیکن جب زمانے کے کسی انقلاب نے اس نظریے کی کایا پلٹی تو وہی نظریہ اتنا بدنام ہوا کہ اس کو منہ سے نکالنا بھی دقیانوسیت کی علامت بن گیا ۔ اب اس کی جگہ کسی نئے نظریے نے ذہنوں پر اپنا سکہ بٹھایا اور اس کی گھن گرج نے ہر مخالف رائے کاگلا گھونٹ دیا، پھر ایک عرصہ گزرنے پر یہ نیا نظریہ بھی اپنی آن بان کھو بیٹھا اورکسی تیسرے نظریے نے اس کی جگہ لے لی ۔

                 فکر انسانی کی تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے اور جب تک حقیقت کی پیاس انسان کو قطعی مشاہدے تک نہیں پہنچادیتی ،اس وقت تک یہی ہوتا رہے گا۔ اس کے برخلاف قرآن کریم نے جن حقائق کی طرف واضح رہ نمائی عطا کی ہے ، وہ چوں کہ ایک ایسی ذات کے بیان کیے ہوئے ہیں جس کے سامنے یہ پوری کائنات اور اس میں ہونے والے حوادث ہاتھ کی ہتھیلی سے زیادہ واضح اوربے غبار ہیں۔اس لیے فکر اور فلسفے کی اس آنکھ مچولی کو اس کے مقابلہ میں پیش نہیںکیا جاسکتا ۔آپ زمانے کے جس نظریہ سے مرعوب ہوکر قرآن کریم کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریںگے ، ہوسکتا ہے کہ وہی نظریہ عہد جہالت کی یاد گار ثابت ہو اورآپ اسے زبان پر لاتے ہوئے بھی شرمانے لگیں۔

                راسخ العقیدہ اہل علم کا یہ طرز فکر تجربے سے بالکل سچا ثابت ہوا۔ آج فلسفہ اورسائنس کی ترقیات نے یونانی فلسفے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں اوراس کے نہ صرف بہت سے طبعی ، عنصری اور فلکیاتی نظریات غلط قرار پاگئے ، بل کہ ان کی بنیاد پر مابعد الطبیعی (Metaphysical) نظریات کی جو عمارت اٹھائی گئی تھی ، وہ بھی زمین بوس ہوچکی ہے ۔ جن لوگوں نے یونانی فلسفے کی چمک دمک سے خیرہ ہوکر قرآن وسنت کو موم کی ناک بنایا تھا، آج اگر وہ زندہ ہوتے تو یقینا ان کی ندامت وشرمندگی کی کوئی انتہانہ رہتی ۔

                لیکن حیرت ہے کی سطح پر ستوں کا ایک گروہ تاریخ سے کوئی سبق لینے کے بجائے مغربی افکار سے متاثر ومرعوب ہوکر قرآن وسنت کی ایسی تفسیر گھڑنے کی فکر میں ہے، جو مغرب کے چلے ہوئے نظریات پر فٹ ہوسکے ۔ یہ گروہ تفسیر کے تمام معقول اورمعروف اصولوں کو توڑ کر صرف ایک اصول کی بنیادپرقرآن کریم کے ساتھ مشقِ ستم میںمصروف ہے ۔اوروہ اصول یہ ہے کہ اللہ کے اس کلام کو کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر مغربی افکار کے مطابق بنا دیا جائے ۔ یہ لوگ کبھی سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ جس کلام پر وہ تاویل وتحریف کی مشق کررہے ہیں، وہ کس کا کلام ہے ؟ جن نظریات کی خاطر وہ خدا کے کلام میں کھینچ تان کررہے ہیں وہ کتنے پائیدار ہیں ؟ اورجب فکر انسانی کا قافلہ ان نظریات کو روند کر اور آگے بڑھے گا تو اس قسم کی تفسیروں اور تشریحات کا حشر کیا ہوگا؟

معجزات کا مسئلہ :

                یہ بات ایک مثال سے واضح ہوگی ۔ جب مغرب کے مشہور فلسفی نیوٹن نے سترہویں صدی میں قانون تجاذب کا انکشاف کیا تو اس کائنات اوراس میں پائی جانے والی ہر چیز کے بارے میں ایک نظریہ مقبول عام ہوگیا ، جسے ’’ میکانکی نظریہ حیات‘‘ کہتے ہیں ۔ اور سادہ لفظوں میں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ پوری کائنات علت و معلول کے نظام میں اس طرح جکڑی ہوئی ہے کہ اس سے سر موتجاوز نہیں کرسکتی ۔

                 یہاں پائی جانے والی ہر چیز کی ایک فطرت یا نیچر ہے ، جو اس کے لیے لازم ذات ہے اور کبھی اس سے الگ نہیں ہوسکتی ۔ مثلاً آگ کی فطرت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جلائے گی ۔اس طرح فطرت کا اس سے الگ ہونا ممکن نہیں ، چناںچہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ آگ موجود ہو اور اس سے جلانے کی خاصیت ختم ہوجائے ۔

                جب پوری دنیا میںاس نظریہ کا ڈنکا بجنا شروع ہوا تو مغرب کے مفکرین نے ایسے تمام واقعات کا مذاق اڑانا شروع کیا، جنہیں وہ مافوق الفطرت (Super Natural ) سمجھتے اورجو اُن کے دریافت کیے ہوئے علت و معلول کے نظریہ کے خلاف تھے ۔ چناں چہ انہو ںنے ہر اس چیز کو توہم پرستی قرار دے دیا ،جو عادی اسباب کے ماتحت واقع نہ ہوئی ہو ۔ اس نظریے کی گھن گرج اور اس سے زیادہ ’’ مافوق الفطرت ‘‘ اشیا کے استہزا نے عالم اسلام کے بعض متجددین کو بھی انتہائی مرعوب ومتأثر کردیا اورجب انہوں نے دیکھا کہ قرآن کریم میں انبیا علیہم السلام کے بہت سے معجزات مذکور ہیں ،جو اس نظریہ سے میل نہیں کھاتے ، تو انہو ں نے قرآن کریم کے الفاظ میں ایسی کھینچ تان شروع کردی، جس سے یہ سارے معجزات اہل مغرب کی اصطلاح میں ’’ مافوق الفطرت ‘‘ یا ’’ سپر نیچرل‘‘ ہونے کے بجائے عادی اسباب کے ماتحت آجائیں ۔مثلاً علت ومعلول کے مذکورہ بالا نظریہ کے مطابق جلانا آگ کی لازمی خاصیت تھی ،جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوسکتی ، لیکن قرآن کریم نے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو ان کے لیے آگ کو ٹھنڈا کردیاگیا تھا ۔ چناں چہ عالم اسلام کے بعض تجدد پسند لوگوں نے اس واقعے ہی سے سرے سے انکار کردیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تھا ۔ اور اس غرض  کے لیے قرآن کریم کی واضح آیتوں میں ایسی کھینچ تان شروع کردی ،جو قرآن کی معنوی تحریف کی حد تک پہنچ گئی ۔ جو تیرہ سوسال کے عرصے میں قرآن وسنت کے کسی عالم کے وہم وگمان میں بھی نہیںآئی تھی اور پوری امت کے برخلاف آیات قرآنی کی اس تحریف معنوی کا جواز پیدا کرتے ہوئے سرسید احمد خان صاحب نے لکھا:

                ’’ ان کے (قدیم علمائے اسلام کے ) زمانے میں نیچرل سینز نے ترقی نہیں کی تھی اور کوئی چیز ان کو قانون فطرت کی طرف رجوع کرنے والی اوران کی غلطیوں سے متنبہ کرنے والی نہ تھی ۔ پس یہ اسباب اورمثل ان کے اور بہت سے اسباب ایسے تھے کہ ان کی کافی توجہ قرآن مجید کے ان الفاظ کی طرف نہیں ہوئی ۔ مثلاً …حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں کوئی نص صریح اس بات پر نہیں ہے کہ در حقیقت ان کو آگ میں ڈال دیا گیا تھا، مگرانہو ں نے اس بات کا خیال نہیں کیا ۔

(مقدمۂ تفسیر قرآن از سرسید احمد خان ، ص ۱۷ج ۱)

                حالاں کہ احادیث وروایات سے قطع نظر خود قرآن کریم کے الفاظ اس واقعہ سے متعلق یہ ہیں :

                {قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ ہ قُلْنَا ٰینَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ ہ وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ }۔(انبیا ء:۶۸-۷۰ )

                ’’ ان سب (کافروں )نے کہا کہ اس (ابراہیم ) کو جلا ڈالو اور اپنے دیوتاؤں کی مدد کرو ا گر تم کر نا چاہتے ہو ۔ہم نے حکم دیا اے آگ! تو ابراہیم کے حق میں سرد ادر سلا متی بن جا اور انھو ں نے ابراہیم کے سا تھ مکر کا ارادہ کیا ،پس ہم نے ان کوان کے ارادہ میں نا کا م بنا د یا ‘‘۔

                {قالوا ابنوا لہ بنیا نا فالقوہ فی الجحیم، فارادوا بہ کیدا  فجعلنہم الاسفلین}۔(صافات)

                ’’انھو ں نے کہا اس کے لیے ایک عما رت بنا ؤ اور اس کو دہکتی آگ میںڈال دو ،پس انھو ں نے اس کے سا تھ ارادئہ بد کیا  تو ہم نے ان کو پست اور ذلیل کر دیا ‘‘۔

                ان واضح اور صریح الفا ظ پر تحریف وتا ویل کی مشق ستم صرف اس بناپر کی گئی کہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے آگ سے زندہ  سلا مت نکل آنے کا یہ واقعہ مغر ب کے را ئج الو قت ’’نیچر ل سینس ‘‘ کے خلا ف تھا ۔ چناںچہ سر سید احمد خا ن صا حب اور ان کے ہم نو ادو سرے تجد دپسند وں نے مغر ب کی اس ’’نیچر ل سینس‘‘ کی خاطر نہ صر ف تفسیر قرآن کے تمام اصولو ں کو پاما ل کیا اور قر آن کر یم کے الفا ظ میں کھینچ تا ن شر وع کی؛ بل کہ اسلام کے بنیا د ی عقا ئد میں سے معا دِ جسما نی جیسے عقا ئد پر بھی خط نسخ پھیر دیا ۔ ملا ئکہ ،شیا طین اور جنا ت کو بھی تو ہم پر ستی قر اردے دیا، انبیا علیہم السلا م کے تما م معجزا ت کو ما فو ق الفطر ت کہہ کر ان کے منکر ہو گئے اور اس غر ض کے لیے پورے قرآن کو شا عر انہ تمثیلا ت کا مجمو عہ بنا کر رکھ دیا ۔ ایسے لو گو ں کی تفسیر یں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ جیسے قر آن کریم نے انبیا علیہم السلا م کے تما م واقعا ت اپنے سید ھے ساد ے اسلو ب کے بجا ئے تمثیلا ت کے معمو ں میں بیا ن کیے ہیں، جن کا انکشا ف تیر ہ سو سا ل بعد پہلی با راِ ن فدا یا ن مغر ب پر ہو ا ہے۔ قر آن کر یم  کے وا ضح اورصر یح لفظ کو من مانے مجا زی معنی پہنا دینا ان حضرات کا ایک معمو لی کھیل ہے ،جس کی بے شما ر مثا لیں ان کی تفسیر وں میں ملتی ہیں ، اور اس تما م کد وکا وش کا منشا سر سید احمد خان صا حب کے الفا ظ میں یہ ہے کہ :

                ’’جب معجزات کو ما فو ق الفطر ت قر ردیا جا وے ،جس کو انگر یزی میں ’’سپر نیچر ل‘‘کہتے اوراس سے انکارکرتے ہیںاوران کا وقوع ایسا ہی نا ممکن قرار دیتے ہیں،جیسے کہ قولی وعدے کاایفانہ ہونا۔اور علا نیہ کہتے ہیںکہ کسی ایسے امر کے وا قع ہو نے کا ثبو ت نہیں ہے،جو ما فو ق الفطر ت ہواور جس کو تم معجز ہ قرار دیتے ہو ۔اور اگر بفرض محا ل خدا کی قدرت کے حوالے پر اس کوتسلیم بھی کرلیں تو وہ ایک بے فا ئد ہ امر ہوگا ۔‘‘(تفسیر القرآن از سرسید احمد خان صاحب :۱/۱۰)

                اس کے بر خلا ف علما ئے اسلا م کا  موقف یہ تھا کہ معجز ات کا وقو ع عقلی طو ر پر کوئی محا ل نہیں ہے ۔ ہاںیہ واقعا ت خلا ف عا دت ضرورہو تے ہیں،لیکن اللہ تعا لیٰ جب اپنے کسی پیغمبرکی حقا نیت ہر عامی اور اَن پڑھ کے سامنے واشگا ف کر نا چاہتا ہے، توان کے ہا تھ پرایسے حیرت انگیز حلا ف عا دت کاکا م ظا ہر کر دیتا ہے،جنھیں دیکھ کر ہر شخص یہ سمجھ جا ئے کہ اللہ کے اس پیغمبر کو تائید ِخدا وند ی حا صل ہے۔مگر چوںکہ مغرب میں نیچر ل سینس کا سکہ چلا ہوا تھا اس لیے سر سید صا حب وغیرہ یہ با ت کہتے ہوئے شر ما تے تھے۔

                لیکن قد ر ت خدا وندی کا یہ کر شمہ ملا حظہ فر ما ئیے کہ جس وقت سر سید احمد خا ن صا حب اور ان کے دوسرے متجد دین’’نیچرل سینس ‘‘کی خا طر تمام انبیا کے معجز ات کا انکا ر کررہے تھے اور اس غر ض سے قر آن کریم کی آ یا ت پر تحر یف وتاو یل کی مشق کی جا رہی تھی،ٹھیک اسی ز ما نے میں سا ئنس کی دنیا میں ایک عجیب انقلا ب رونما ہو رہاتھا ۔نیو ٹن کے نظر یا ت نئی تحقیقا ت کی روشنی میں غلط ثا بت ہورہے تھے اور آئن اسٹا ئن اپنی انقلا بی نظریۂ اضافت کی دا غ بیل ڈال رہا تھا،جس نے سا ئنس کے گز شتہ مفر و ضا ت کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔اور اس کی بنیاد پربیسو یں صد ی میں جس ایٹمی سا ئنس کا ڈنکا بجا ،اس نے قا نو نِ کشش اور قا نو نِ علت و معلو ل کوردکر کے نیچرل سُپر نیچرل کی تفر یق ہی ختم کر ڈا لی۔چنا ںچہ عہد حاضر کا ایک عظیم اور مسلم سا ئنس داںسر آرتھر ایڈ نگٹن (Eddington)لکھتا ہے:

                ’’سائنس کی تحقیقات سے اشیا کی کسی اندرونی ذاتی ولاینفک خاصیات یا ماہیات و نوعیت (نیچر) کا پتہ نہیں چلتا‘‘اور اس طرح:

                ’’ایک اہم نتیجہ خارجی دنیا میں قانون ِ علت کے ختم ہوجانے کا یہ نکلتا ہے کہ فطرت اور فوق الفطرت کے در میانی کوئی واضح فر ق باقی نہیں رہتا۔‘‘

                سائنس کے مسلمات میں یہ زبردست انقلاب کس طرح رونما ہوا؟اس کی مختصر سر گذشت ہمارے دور کے مشہور سائنٹسٹ سر جیمس جینز(sir James Jeans)کی زبانی سنئے:

                ’’گلیلیواور نیوٹن کی عظیم ستر ہویں صدی کی یہ بڑی عظیم کام یابی اور فتح مان لی گئی تھی کہ کائنات میں ہر مابعد کا تغیر ورتبدل یا تخلیق اپنے ماقبل کاناگزیر نتیجہ ولازمہ ہوتا ہے۔حتی کہ ساری کائنات فطرت (نیچر)کی پوری تاریخ آخر تک لازمی اور ناگزیر نتیجہ اس ابتدا کا ہے، جس میں وہ پہلے دن تھے۔اس تصور ہی کا لازمہ وہ تحریک تھی جس نے ساری مادی کائنات کو ،بس ایک مشین بنا اور سمجھا لیا تھا۔یہ صورت ِ حال انیسویں صدی کے آخر تک مسلم اور جاری رہی اور ساری نیچر سائنس کا واحد مقصداس کائنات کو مشینی ساخت(میکانکس) میں تبدیل و تحویل کر دینا بن گیا۔

                پھر اسی انیسویں صدی کے آخر مہینوں میں برلن کے ماکس پلانک(Max Plank)نے کوائٹم نظریہ کی بنیاد ڈالی ،جو بالآخرترقی کرکے جدید طبعیات(فزکس)کا ایک ہمہ گیر اصول قرار پاگیا جس نے آگے چل کر سائنس کے میکانکی عہد کا خاتمہ کر کے ایک نئے دور کا آغاز کردیا ۔ابتدا میں پلانک کے نظر یہ سے صرف یہ معلوم ہوا تھا کہ کائناتِ فطرت میں تسلسل کا عمل کا ر فر ما نہیں ،لیکن سن ۱۹۱۷ء میں آئن اسٹالن نے بتا یا کہ پلانک کا نظر یہ در اصل بہت زیادہ انقلاب انگیزنتائج کا حامل ہے۔ اور بقول جیمس جینز:

                ’’ یہ نظریہ اس قانون علت ومعلول ہی کو اپنی فرما ںبرداری کے تحت سے اتار دینے والا ہے ،جس کو اب تک کائنا ت کے ایک ہمہ گیر رہ نما اصول کا مقام حاصل تھا ۔پرانی سائنس کایہ قطعی اعلان اور دعویٰ تھا کہ فطرت (نیچر)سلسلۂ علل ومعلولات کے بند ھے ہوئے قوانین سے باہر ایک قدم نہیں نکال سکتی ۔علت ’’الف‘‘کے بعد ناگزیر طور پر ’’ب‘‘ کے معلول ہی کو پیدا یا ظاہر ہو نا چاہیے ،لیکن نئی سائنس اب صرف اتنا دعویٰ کرسکتی ہے کہ ’’الف‘‘کے بعد ’’ب‘‘ ،’’ج‘‘وغیرہ کے یوں تو بے شمار امکانات ہیں ۔البتہ اتنا صحیح ہے کہ ان میں ’’الف‘‘ کے بعد ’’ب‘‘ کا نمودار ہو نا ’’ج‘‘ کے مقابلہ میں اور ’’ج‘‘ کا ’’د‘‘ کے مقابلے میں اغلب ہے ‘‘۔

                جیمس جینز نے بتا یا ہے کہ اس اغلبیت یا ظن غالب کے سوا کسی نا م نہاد علت کے بعد کسی خاص نام نہاد معلول ہی کے پیدا ہو نے کا حکم نہ تو قطعیت کے ساتھ لگایا جاسکتا ہے نہ ہی اس کی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے بل کہ :

                (This is matter which lies on the kness)

of gods whatever gods there be.

                ’’ یہ معاملہ کلیۃً خدا ہی کے ہاتھ میں ہے جس کو بھی خدا کہا جائے ‘‘

(جیمس جینز کی کتاب ’’ پر اسرار کائنات ‘‘ (Mysterious Universe ) ص ۲۷-۳۲ ماخوذ از مذہب وسائنس ‘‘ مولانا عبد الباری ندوی ، ص ۸۳- ۸۵)

                غرض بیسویں صدی میں ایٹمی تجربات کی روشنی میں جو سائنس پروان چڑھی ہے، اس نے ان پرانے تصورات کو جڑ سے ہی ختم کردیاہے کہ کائنات اشیاکی خاصیتیں ان اشیاسے جدانہیں ہو سکتیں ۔ اور آگ سے جلانے کی صفت کو کبھی الگ نہیں کیا جاسکتا ، اب سائنس کا کہنا یہ ہے آگ اکثر وبیشتر جلاتی ضرورہے اورغالب گمان یہی ہے کہ جہاں آگ ہوگی وہاں تپش او ر جلن پائی جائے گی ،لیکن اگر کبھی اس کے خلاف ہوجائے تویہ نہ عقل کے خلاف ہے اورنہ سائنسی مسلمات اس کی تردیدکر سکتے ہیں ۔ لہٰذا آج کا سا ئنس داں معجزات انکار کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لاعلمی کا اظہار کرسکتاہے ،ان کو نا ممکن کہہ کر ان کا اصولی انکار نہیں کرسکتا ۔شاید یہی وجہ ہو کہ بیسویں صدی میں مغرب کے عوام پھر ان چیزوں کی طرف لوٹ ر ہے ہیں،جنھیں وہ پہلے مافوق الفطرت سمجھ کر توہم پرستی قراردیا کرتے تھے۔ انتہا یہ ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق مغرب کی بعض یونی ور سٹیوں میں جادو سکھانے کے لیے باقاعدہ شعبے قائم ہونے لگے ہیں۔

                پھر تجددپسندوں کی ذہنیت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ زمانے کے عام شوروشغب سے متأثر ومرعوب ہو کر بڑی جلدی سے ایک رائے قائم کر لیتے ہیں اور معاملے پوری تحقیق کیے بغیر ہی اس رائے پر فکر ونظر کی پوری عمارت کھڑی کرلیتے ہیں ۔ معجزات کے معاملے میں بھی یہی ہواہے کہ جس وقت سر سیداحمدخان صاحب اور ان کے ہم نوادوسر ے متجددین معجزات کو نا ممکن قرار دے رہے تھے ،اُس وقت مغرب میں عام شورتو بے شک ان کے انکار ہی کا تھا ، لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ فلسفہ اور سائنس کی دنیا کے تمام لوگ ہیوم اورھکسلے کی طرح معجزات کے منکر ہوں ،بل کہ بہت سے ممتاز سائنس دان اس وقت بھی معجزات کے قائل تھے ،جن میں نیوٹن ،فرائڈ ، سمپسن ،کیلون اورلسڑبہ طور خاص قابل ذکرہیں ۔اور جرمنی کے مشہور سائنس دان لوٹزنے تومعجزات کی تائید میں بڑے معرکے کے مضامین لکھے ہیں اورثابت کیا ہے کہ معجزات کسی بھی طرح عقل یا سائنس کے خلاف نہیں ہیں۔

 (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، ص ۵۸۷-۵۸۸ ، مطبوعہ ۱۹۵۰ء مقالہ ’’ معجزہ ‘‘ )

                اوپر حا ضر کے سا ئنس دانو ں کے جوا قو ال پیش کئے گئے ہیں ہم نے ان کو قر آ ن کر یم کی صدا قت اور حقانیت کی دلیل کے طورپر پیش نہیں کیا ،کیوںکہ قرآن کریم کی سچا ئی ان اقوال کی تائید سے بے نیا ز ہے ۔وہ اس وقت بھی سچا تھا ، جب سا ئنس داں ما فو ق الفطر ت اشیا کا مذا ق اڑا تے تھے اور آج بھی سچا ہے ، جب سا ئنس خود ما فوق الفطر ت اشیا کے امکان کو تسلیم کر ر ہی ہے ۔اور گر با لفر ض کل سا ئنس کے نظر یا ت دوبا رہ بدل جا ئیں تو اس کی سچا ئی میں ا س وقت بھی ذرہ برابراکمی نہیں آے گی۔ لیکن یہ اقوال ہم نے صرف یہ بتا نے کے لیے پیش کیے ہیں  کہ جن لو گو ں نے مر و جہ نظریا ت سے مر عو ب ہو کرقر آن کر یم کی تفسیر میں کتر بیو ت کر نے کی کو سش کی تھی، ان کی بنیا د کس قدر کم ز ور اور نا پا ئیدا رتھی ؟ انھو ں نے ایک ایسے کلا م کو وقتی نظر یا ت کے پیما نے سے نا پنے کی کو سش کی تھی ، جس کا علم ما ضی و مستقبل کی تما م وسعتو ں کو محیط ہے ۔ اورجس کے آگے فکر انسا نی کی تما م کا وشیں بچو ں کے کھیل سے زیا دہ وقعت نہیں رکھتیں ،لہٰذا اگر قر آن کر یم کو اپنے نظر یا ت کا تا بع بنا نے کے بجا ئے اس سے وا قعتا رہ نما ئی حاصل کر نی ہے ،تو اسے رائج الو قت نظر یا ت کی عینک سے پڑ ھنے کے بجا ئے اس طرح پڑ ھئے ،جس طر ح سر کا ر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ ؑ کے اصحا ب رضی اللہ عنہم نے پڑ ھا تھا ۔اوراس کی تشر یح وتفسیر کے وقت مر وجہ افکا ر کے شو روغل سے متا ثر ہو نے کے بجا ئے وہ اصول استعمال کیجیے، جو تفسیر کے فطری معقول اورواقعی اصول ہیں۔ان اصولو ں کے ذریعہ جو بات قرآن کریم سے واضح طور پر ثابت ہوجائے اُسے جھینپ جھینپ کر اور شرما شرما کر نہیں، بل کہ پورے یقین وایمان اور خود اعتمادی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیجیے اور زمانے کے مروّجہ نظر یات ہزاراس کے خلاف ہوں،یہ یقین رکھیے کہ حق وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کردیا۔اگر انسانیت کی قسمت میں کو ئی فلاح لِکھی ہے تو وہ ہزار ٹھوکر یں کھانے کے بعد اس کے بیان کیے ہوئے حقائق تک پہنچ کر رہے گی۔

خلافِ عقل اور ماورائے عقل:

                 یہاںذہنوںمیں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر تفسیر کے معروف اصول وقواعد کے مطابق کوئی ایسی بات قرآن کریم کی طرف منسُوب ہوتی ہوجس، کے بارے میں ہم جدید تحقیقات کی روشنی میں کھلی آنکھوںدیکھ رہے ہوں کہ وہ عقل یا مشاہدے کے خلاف ہے ،تو پھر قرآن کریم کی اسی قدیم تفسیر پر اصرار کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم قرآن کریم کی باتوںکو قطعی مشاہدات کے خلاف قراردیںاور اللہ تعالیٰ کی طرف وہ بات منسوب کریں، جو یقینی مشاہدے سے غلط ثابت ہوچکی ہے۔

                اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی جو تفسیرقطعی طور پر آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرامؓ کے اجماع واتفاق سے ثابت ہو،وہ آج تک کبھی عقل یا قطعی مشاہدے کے خلاف ثابت ہی نہیں ہوئی۔چودہ سو سال کے عرصے میں علمی تحقیقات وانکشاف میں سیکڑوں انقلاب آئے،لیکن آج تک کبھی ایسا نہیں ہواکہ قرآن کریم کی کوئی قطعی ُ الثبوت تفسیر مشاہدے کے خلاف پڑی ہو۔اور چوںکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی قولی اور عملی تفسیرہی کے لیے مبعوث کیا گیا تھا،لہٰذا آپؐ کی بیان کردہ ہر تفسیر بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ہدایت کے مطابق ہے اور آپؐ کی کوئی تفسیر آئندہ بھی عقل یا مشاہدے کے خلاف نہیں ہوسکتی،البتہ اس معاملے میں غلطی دو طرح لگتی ہے:

                (۱)جو لوگ زمانے کے مروّجہ نظر یات سے بہت جلد مر عوب ہوجانے کے عادی ہیں،وہ کسی چیز کے ’’خلافِ عقل‘‘ ہونے کا فیصلہ بہت جلد کر ڈالتے ہیں۔یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے کہ حیرت انگیز چیز خلافِ عقل نہیں ہوتی اور نہ ہر اُس چیز کو ناممکن کہا جاسکتا ہے، جس کے اسباب سمجھ میں نہ آئے ہوں۔ایسی چیزکو مستبعد (improbable)غیر معمولی(Extra ordinary)یاحیر ت انگیز(astonishing)تو کہہ سکتے ہیں، لیکن اس کو ناممکن(impossible)کہنا خو د خلافِ عقل ہے۔جوشخص متعلِقہ فن سے واقف نہ ہو اس کے لیے یہ بات قطعی نا قابِل فہم ہے کہ وائر لیس سَیٹ میں ہزاروںمیل دور بیٹھے ہوئے انسان کی آواز کس طرح سُنا ئی دے رہی ہے؟اور اگر کسی دیہاتی کے سامنے یہ بات کہی جائے تو عجب نہیں کہ وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار ہی کردے،لیکن اس سے یہ لازم نہیںآتا کہ وائر لیس سیٹ میں دور دراز کے کسی آدمی کی آواز سنائی دینا’’خلافِ عقل ‘‘یا ’’ناممکن‘‘ہے۔بعض حضرات قرآن کریم کی تفسیر کے معاملے میں اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے ،بل کہ ہر اُس چیز کو ’’خلافِ عقل‘‘ یا ’’ناممکن ‘‘قراردے دیتے ہیں،جومحض حیر ت انگیز یازیادہ سے زیادہ خلافِ عادت اور مستبعد (impossible)معلوم ہوتی ہے ۔

                حالاںکہ قرآن کریم اور احادیث وغیرہ میں اس قسم کی باتوںکا پایاجانا ہرگز محلِ تعجب نہیں۔ ہم کتاب کے شروع میں عرض کر چکے ہیں کہ وحی ِنبوت کا آغاز ہی اُس مقام سے ہوتاہے، جہاں عقل کی پر واز ختم ہوتی ہے۔وحی ورسالت کے سلسلے کاتو مقصد ِ اصلی ہی یہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان کو ان باتوں سے باخبر کیا جائے، جنہیں وہ محض عقل کے ذریعے نہیں جان سکتا ۔چناںچہ اگر وحی ورسالت کاسلسلہ نہ ہوتا تو عقل معادوآخرت،حساب وکتاب،جنت وجہنم اور ملائکہ وغیرہ کا ادراک از خود نہیں کر سکتی تھی ۔ورنہ اگر یہ ساری باتیں نری عقل سے معلوم ہوسکتی تھیں تو انبیا علیہم السلام کو مبعوث فرمانے ،ان پر وحی نازل کرنے اور انہیں آسمانی کتابیں دینے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔لہٰذا اگر وحی اور رسالت پر ایمان ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ علم کے اس ذریعے سے ہمیں بہت سی باتیں ایسی معلوم ہوںگی ،جومحض عقل سے معلوم نہ ہوسکتی تھیں۔اور جن کا ادراک وتصور عقل کے لیے مشکل تھا۔

                اور جب یہ بات طے ہوگئی کہ قرآن وحدیث میں ایسی حیرت انگیز چیزوں کا وجود ان کے مو ضوع کے لحاظ سے بالکل مناسب؛ بل کہ ضروری ہے توقرآن کریم کی کسی ظاہر ومتبادر اور اجماعی تفسیر کو محض اس بنیاد پر رَد نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے ایک حیرت انگیز بات ثابت ہوتی ہے۔تا وفتیکہ وہ بات واقعتا خلافِ عقل ؛یعنی ناممکن اور مُحال نہ ہو۔ لیکن قرآن کریم کی قطعی تفسیروں میں آج تک کوئی بات ایسی ناممکن اور خلافِ عقل ثابت نہیں ہوسکی اور نہ قیامت تک ہوسکتی ہے۔اس مسئلے کی مزید تفصیل وتشریح ہم انشاء اللہ اگلے باب میں اصولِ تفسیر کے تحت کریںگے۔

                (۲)دوسری غلطی بعض اوقات یہ ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی تفسیر قطعی او ر یقینی نہیں ہوتی ۔نہ قرآن کریم کے سیاق وسباق سے،نہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی قطعی تفسیر سے، نہ اُمّتِ مسلمہ کے اجماع سے ۔ اس کے باوجود وہ تفسیر عام لوگوںمیں اتنی مشہور ہوجاتی ہے کہ لوگ اسے یقینی اور قطعی تفسیر سمجھنے لگتے ہیں۔اور جب وہ عقل کی کسی قطعی دلیل یا مشاہدے کی بنا پر غلط ثابت ہوتی ہے، تو بعض ناواقف لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں اوربعض قرآن کریم یا اس کی یقینی اور قطعی تفسیروںکے بارے میں یہ سمجھنے لگتے ہیںکہ وہ اسی طرح خلاف ِ عقل ہو سکتی ہیں۔لہٰذا ایسے موقع پر یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کی جو تفسیر عقل کی کسی دلیل قطعی یا مشاہدے کے خلاف معلوم ہورہی ہے وہ کس درجہ کی ہے ؟ محض عام شہرت کی بنا پراسے یقینی تفسیرسمجھ لینا غلط ہے۔

                یہ بحث ’’اصول تفسیر ‘‘کے تحت قدرے تفصیل کے ساتھ آگے آرہی ہے کہ جب عقلی اور نقلی دلائل میں تضادمعلوم ہو تو صحیح راہِ عمل کیا ہے؟اُس موقع پر اس بحث کو ضرور دیکھ لینا چاہئے۔

۴-قرآن کریم کے موضوع کو غلط سمجھنا:

                تفسیر قرآن کے بارے میں چوتھی گمراہی یہ ہے کہ بعض لوگ قرآن کریم کے موضوع کو ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھتے اور اس میں وہ باتیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جواس کے موضوع سے خارج ہیں۔مثلاً بعض حضرات اِس جستجو میںرہتے ہیں کہ قرآن کریم سے کائنات کے تمام سائنسی اور طبعی حقائق مستنبط کیے جائیں اور سائنس کے مسلمات کو قرآن سے ثابت کیا جائے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر قرآن سے سائنس کے یہ مسائل ثابت نہ ہو سکے تو معاذاللہ یہ قرآن کریم کا نقص ہو گا ۔چناںچہ وہ پورے خلوص کے ساتھ قرآنی آیات سے سائنسی مسلمات ثابت کرنے کی فکر میں رہتے ہیںاور بعض اوقات اس غرض کے لیے قرآنی الفاظ کو غلط معنی پہنا دیتے ہیں ۔ حالاںکہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا اصل موضوع سائنس نہیں ہے ۔اس میں اگر کہیںکا ئناتی حقائق کا ذکر آیا ہے تو ضمنی طور سے آیا ہے ۔لہٰذا اگر اس میںکہیں کوئی سائنٹفک حقیقت واضح طور سے مل جائے تو اس پر تو بلاشبہ ایمان رکھنا چاہیے ،لیکن سائنس کا کوئی مسئلہ پہلے سے ذہین میںرکھ کر قرآن کریم سے اسے زبر دستی نکالنے کی کوشش ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص طب کی کتاب میں قانون کے مسائل تلاش کرنے لگے ۔

                قرآن کریم نے اپنا موضوع اورمقصد نزول مبہم نہیں چھوڑ ا ۔بل کہ بیسیوں آیات میں یہ واضح کردیا ہے کہ اسے کیوں نازل کیا گیا ہے ؟مثال کے طور پر مندرجہ ذیل آیات پر غور فرمائیں:

                {قَدْ جَآئَ کُمْ  مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ہ یَّھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ  سُبُلَ  السَّلٰمِ  وَیُخْرِجُھُمْ  مِّنَ  الظُّلُمٰتِ  اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم}(مائدہ ؍۵؍۱۶)

                تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے اور کتاب وضح کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کوجو رضائے حق کے طالب ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں اور ان کو اپنی تو فیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتے ہیں ۔

                { ٰٓیاَھْلَ  الْکِتٰبِ  قَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآئَ نَا مِنْ م بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ ز فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَشِیْر’‘ وَّ نَذِیْر’‘ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ قَدِیْر’‘ } (مائدہ:۱۹)

                اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے یہ رسول آ پہنچے ہیں، جو تم کو صاف صاف بتلاتے ہیں ،ایسے وقت میں کہ رسولوں کاسلسلہ (عرصہ سے) موقوف تھا۔تاکہ تم یوںنہ کہنے لگو کہ ہمارے پاس کوئی خوش خبری دینے والا نہ آیا،نہ ڈرانے والا ،تو (اب)تمہارے پاس خوش خبری دینے والا ڈرانے والا آگیا۔

                { وَاَنْزَلْنَآ  اِلَیْکَ الْکِتٰبَ  بِالْحَقِّ  مُصَدِّقًا  لِّمَا  بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ  فَاحْکُمْ  بَیْنَھُمْ  بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ  وَلَا  تَتَّبِعْ اَھْوَآئَھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ  مِنَ  الْحَقِّ ط لِکُلٍّ جَعَلْنَا  مِنْکُمْ  شِرْعَۃً  وَّمِنْھَاجًا ط وَلَوْشَآئَ  اللّٰہُ  لَجَعَلَکُمْ  اُمَّۃً  وَّاحِدَۃً  وَّلٰکِنْ  لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰئکُمْ   فَاسْتَبِقُوا  الْخَیْرٰتِ ط  اِلَی  اللّٰہِ   مَرْجِعُکُمْ   جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ  بِمَا کُنْتُمْ  فِیْہِ  تَخْتَلِفُوْنَ}۔(مائدہ:۴۸)

                ہم نے یہ کتاب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجی ہے ،جو خود بھی صدق کے ساتھ موصوف ہے اور اس سے پہلے جو (آسمانی)کتابیںہیں،ان کو بھی تصدیق کرتی ہے ۔اور ان کتابوں کی محافظ ہے،تو ان کے باہمی معاملات میں اسی بھیجی ہوئی کتاب کے موافق فیصلہ فرمایا کیجیے۔تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقہ تجویز کیاتھااور اگر اللہ کو منظور ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت میں کر دیتے ،لیکن ایسا نہیں کیا۔تاکہ جو دین تم کو دیا ہے ،اس میں تم سب کا امتحان فرمادیں،تونیکیوںکی طرف دوڑو،تم سب کو خدا ہی کے پاس جانا ہے ، پھر وہ تم سب کو جتلادے گا ،جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔‘‘

                {وَکَذٰلِکَ  نُفَصِّلُ  الْاٰیٰتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْن}۔(انعام :۵۵)

                ’’اور اسی طرح ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں آیتوں کو تاکہ کھل جاوے طریقہ گنہ گاروں کا‘‘

                {کِتٰب’‘  اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ  یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَج’‘ مِّنْہُ  لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ}۔(اعراف:۱)’’یہ(قرآن )ایک کتاب ہے ،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لیے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ (لوگوں کو نافرمانی سے)ڈرائیں۔سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں (کسی کے نہ ماننے سے )بالکل تنگی نہ ہونی چاہئے اور یہ نصیحت ہر ایمان والوں کے لیے ہیں‘‘

                {اَوَ عَجِبْتُمْ  اَنْ جَآئَ کُمْ  ذِکْر’‘ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ}(اعراف):۶۳)’’کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا (بشر)ہے ،کوئی نصیحت کی بات آگئی ،تاکہ وہ شخص تم کو ڈراوے اور تاکہ تم ڈر جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘‘

                {تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ہ ھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَہ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ  ھُمْ   یُوْقِنُوْن}۔(لقمان:  ا- ۴)

                ’’یہ آیتیں ہیں ایک پُر حکمت کتاب کی ،جو کہ ہدایت اور رحمت ہے نیکوکاروں کے لیے۔ جو نماز کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں‘‘۔

                { تَنْزِیْلُ  الْکِتٰبِ  لَا رَیْبَ   فِیْہِ  مِنْ  رَّبِّ  الْعٰلَمِیْنَ ہط اَمْ یَقُوْلُوْنَ  افْتَرٰئہُ ج  بَلْ ھُوَ الْحَقُّ  مِنْ  رَّبِّکَ  لِتُنْذِرَ  قَوْمًا  مَّآ اَتٰئھُمْ مِّنْ  نَّذِیْرٍ مِّنْ  قَبْلِکَ  لَعَلَّھُمْ   یَھْتَدُوْنَ}۔(سجدہ:۲-۳)

                ’’ نازل کی ہوئی کتاب ہے،اس میں کچھ شبہ نہیں ،یہ ربّ العالمین کی طرف سے ہے۔کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ اپنے دل سے بنا لیا ہے ۔بل کہ یہ سچی کتاب ہے ،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رب کی طرف سے ، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسے لوگو ں کو ڈرائیں، جن کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کوئ ڈرانے والا نہیں آیا تھا تاکہ وہ لوگ راہ پر آجائیں۔‘‘

                { تَنْزِیْلَ  الْعَزِیْزِ  الرَّحِیْمِ ہ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُھُمْ  فَھُمْ غٰفِلُوْن}(یٰس :۵-۶)

                ’’یہ قرآن خدائے زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسے لوگوں کو ڈرائیں، جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے تھے،سواسی سے یہ بے خبر ہیں‘‘

                {اِنَّآ اَنْزَلْنَآ  اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ  مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْن}۔(زمر:۲)

                ’’ہم نے اس کتاب کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ، سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم خالص اعتقاد کرکی اللہ کی عبادت کیجیے‘‘

                { وَکَذٰلِکَ  اَوْحَیْنَآ  اِلَیْکَ  قُرْاٰنًا  عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَھَا وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ ط فَرِیْق’‘ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْق’‘ فِی السَّعِیْر}۔(شوریٰ:۷)

                ’’ ہم نے اسی طرح  آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر عربی وحی کے ذریعہ نازل کیا ہے ، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے رہنے والوں اور جو اس کے ارد گرد ہیں ، ان کو ڈرائیں۔ اور جمع ہونے کے دن (یعنی قیامت)سے ڈرائیں،جس میں ذرا شک نہیں ،ایک گروہ جنت میں ہوگااورایک گروہ دوزخ میں۔‘‘

                { ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی  شَرِیْعَۃٍ   مِّنَ  الْاَمْرِ  فَاتَّبِعْھَا  وَلَا تَتَّبِعْ  اَھْوَآئَ  الَّذِیْنَ  لَا یَعْلَمُوْنَہ اِنَّھُمْ   لَنْ  یُّغْنُوْا  عَنْکَ  مِنَ اللّٰہِ  شَیْئًاط وَاِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضُھُمْ  اَوْلِیَآئُ بَعْضٍج وَاللّٰہُ  وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ ہ ھٰذَا بَصَآئِرُ  لِلنَّاسِ وَھُدًی  وَّرَحْمَۃ’‘  لِّقَوْمٍ  یُّوْقِنُوْنَ }۔(الجاثیۃ:۱۸-۲۰)

                ’’پھر ہم نے آپؐ کو (دین کے) ایک خاص طریقے پر کر دیا۔سو آپؐ اسی طریقہ پر چلتے جائیے اور اُن جہلا کی خواہشوں پر نہ چلئے ۔یہ لوگ خدا کے مقابلے میں آپؐ کے ذرا کام نہیں آسکتے ۔اور ظالم لوگ ایک دوسرے کے درست ہوتے ہیں۔اور اللہ دوست ہے اہل تقویٰ کا ،یہ قرآن عام لوگوں کے لیے بصیرتوںاور ہدایت (پرمشتمل ہے )اور یقین لانے والوں کے لیے بڑی رحمت کا (سب )ہے‘‘۔

                { اَللّٰہُ  نَزَّلَ  اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِھًا مَّثَانِیَ صلے ق  تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ ج ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُھُمْ وَقُلُوْبُھُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ  یَّشَآئُ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ}۔(زمر:۲۳)

                ’’اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام (قرآن )نازل فرمایاہے،جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جُلتی ہے۔(اور جس میںضروری باتیں )باربار دُہرائی گئی ہیں ،جس سے اُن لوگو ں کے دل کانپ اُٹھتے ہیں، جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ یہ (قرآن) اللہ کی ہدایت ہے ،جس کو وہ چاہتا ہے اس کے لیے ذریعۂ ہدایت کرتا ہے اور خدا جس کو گمراہ کرتا ہے اُس کا کوئی ہادی نہیں‘‘۔

                یہ محض چند مثالیںہیں۔اور اگر صرف انہی پر غور کرلیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے قرآن کریم کا اصل مقصد انسان کو آخرت کی تیاری پر آمادہ کرنا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی تعلیم وتر غیب ہے ۔ اور جتنی باتیں اس میں تاریخی واقعات یا کائنات وآ فاق سے متعلق آئی ہیں، وہ سب اسی بنیادی موضوع کی تائید وقربت کے لیے آئی ہیں۔لہٰذا اگر اس میں سائنس کا کوئی مشہور مسئلہ موجود نہ ہو تو نہ یہ کو ئی عیب کی بات ہے نہ تعجب کی۔کیوںکہ یہ اس کا موضوع ہی نہیں ہے،اسی طرح اگرماضی یا مستقبل کا کو ئی واقعہ قرآن مجیدمیں نہ ملے تویہ بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے کیوںکہ وہ تاریخ کی کتاب نہیں،بل کہ اس میں جستہ جستہ واقعات عبرت اور موعظت کے لیے بیان کیے گئے ہیں ۔اس سے بعض ان غیر مسلموںکا اعتراض بھی دور ہوجاتاہے ،جویہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک نے جن علوم وفنون کے ذریعے مادی ترقی کی ہے ، ان کے بارے میں قرآن کریم نے کچھ کیوں نہیں بتایا ؟اور ان لوگوں کی غلط فہمی بھی دور ہوجاتی ہے جواُن اعتراضات سے متأثر ہوکر اس فکر میں رہتے ہیں کہ قرآن کریم سے سائنس وغیر ہ کا کوئی نہ کوئی مسئلہ کسی نہ کسی طرح ثابت کیا جائے ۔کیوںکہ اس کو شش کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قانون کی کسی کتاب پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ اس میں ایٹم بم بنانے کا طریقہ کیوںمذکورنہیں ؟ تو اس کے جواب میں کوئی دوسرا شخص قانونی الفاظ کو تو ڑموڑ کر اس سے ایٹم کی تھیوری نکا لنے کی کوشش کرنے لگے ، ظاہر ہے کہ یہ اس اعتراض کا جواب نہیں ، بل کہ ایک مذاق ہوگا ۔ اسی طرح جو شخص قرآن کریم میںسائنس اور انجینئر نگ کے مسائل نہ ہونے پر معترض ہو ۔ اس کا صحیح جوا ب یہ نہیں ہے کہ قرآنی الفاظ کو توڑموڑ کر اس سے سائنس کے مسائل زبر دستی نکا لے جائیں ، بل کہ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نہ سائنس یا انجینئر نگ کی کتاب ہے او ر نہ مادی ترقی حاصل کرنے کے طریقے اس کاموضوع ہیں ۔چوںکہ یہ ساری باتیں انسان اپنی عقل وفکر اور تجربات ومشاہدات کے ذریعے معلوم کرسکتا تھا ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو انسان کی اپنی محنت وکا وش اورتحقیق وجستجوپر چھوڑدیا اور ان باتوں کوقرآن کریم کا موضوع بنایا، جومحض انسانی عقل سے معلوم نہیںہو سکتیں ،بل کہ ان کواد راک کے لیے وحی الٰہی کی رہ نمائی ناگزیرہے۔

                 یہی وجہ ہے کہ انسانی سائنس اورٹیکنالوجی کے میدان میں عقل وفکر اور تجربات ومشاہدات کے ذریعے موجو دہ مقام تک پہنچ گیا ،لیکن ایمان ویقین کی دولت ،قلب وروح کی پاکیز گی ، اعمال واخلاق کی تطہیر ،اللہ کے ساتھ بندگی کا تعلق اور اخروی زندگی سنوارنے کاجذبہ جو وحی الٰہی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا تھا اور جسے قرآن کریم نے اپنا موضوع بنایاہے وہ عقل وفکر کی اس حیر ت انگیزی کے بعد بھی انسان کو نہ حاصل ہوسکا ہے۔اور نہ اس وقت تک حاصل ہوسکتا ہے جب تک اس معاملے میں سچے دل سے قرآن کی رہ نمائی حاصل نہ کی جائے۔

                ہماری اس گزارش کا منشا یہ ہر گز نہیں ہے کہ قرآن کریم سے سائنس کا کوئی مسئلہ اخذ کرنا علی لاطلاق کوئی جرم ہے۔ہمیںیہ تسلیم ہے کہ قرآن کریم میں ضمنی طور سے سائنس کے بہت سے حقائق کا بیان آیا ہے،چناںچہ جہاں اس کی کسی آیت سے کوئی واضح سائنٹفک بات معلوم ہورہی ہو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں،لیکن اس معاملے مندرجہ ذیل غلطیوں سے پر ہیز لازمی ہے:

                (۱)سائنس کی جوبات قرآن کریم میں مذکو ر ہے وہ ضمنًا مذکور ہے،اس کا اصل مقصد ان حقائق کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا استحضار اور اس کے ذریعے ایمان میں پختگی پیداکرنا ہے ۔لہٰذا اس بنیاد پر قرآن کریم کو سائنس کی کتاب سمجھنا یا باور کرنا بالکل غلط ہے۔

                (۲)جہاں سائنس کے کسی مسئلے کی مکمل وضاحت موجود نہ ہو ،وہاں خواہ مخواہ الفاظ اور سیاق وسباق کو توڑ موڑ کر سائنس کی کسی دریافت پر چسپاں کرنے کی کوشش کسی طرح درست نہیں۔یہ بات ایک مثال سے واضح ہوگیـ:

                جس وقت سائنس کی دنیا میںیہ نظر یہ مشہور ہواکہ زمین اپنی جگہ ساکن ہے اور دوسرے سیارے اس کے گرد حرکت کرتے ہیں، تو بعض لوگوں نے اس نظر یہ کو قرآن کریم سے ثابت کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی اس آیت سے استدلال کیا گیا:

                {اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا}

                ’’یا(وہ ذات لائق عبادت ہے)جس نے زمین کو جائے قراربنایا‘‘۔

                ان لوگوںکاکہنا تھا کہ ’’جائے قرار‘‘کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ زمین اپنی جگہ ساکن ہے۔،حالاںکہ قرآن کریم کا مقصد تویہ بیان کرناتھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کابڑا انعام ہے کہ تم زمین پر ڈانواڈول رہنے کے بجائے اطمینان کے ساتھ رہتے ہو۔اور اس میںلیٹنے،بیٹھنے اور قرار حاصل کرنے کے لیے تمہیں تکلیف برداشت کرنی نہیں پڑتی ۔اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام کازمین کی حرکت وسکون سے کوئی تعلق نہیں،بل کہ زمین متحرک ہویاساکن ،یہ نعمت ہر صورت میں (انسان کوحاصل ہے اس لیے اس آیت سے زمین کو ساکن ثابت کرنا ایک خواہ مخواہ کی زبر دستی ہے۔

                پھر جب سائنس نے زمین کے ساکن ہونے کے بجائے متحرک ہونے کانظریہ پیش کیا،تو بعض حضرات کو یہ نظریہ بھی قرآن سے ثابت کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔اور مندرجہ ذیل آیت کو حرکت ِزمین کی تائید میں پیش کردیا:

                {وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ}

                ’’اور تم پہاڑوںکو دیکھ کر یہ گمان کرتے ہو کہ یہ جامد ہیں اور یہ بادل کی طرح چل رہے ہوںگے‘‘۔

                ان حضرات نے یہاں’’ تَمُرُّ‘‘ کا ترجمہ ’’چل رہے ہوںگے‘‘ کے بجائے’’چل رہے ہیں‘‘ کرکے یہ دعویٰ کیا کہ اس آیت میںزمین کی حرکت کا بیان ہے۔کیوںکہ پہاڑوںکے چلنے کامطلب یہ ہے کہ زمین چل رہی ہے ۔حالاںکہ آیت کا سیاق وسباق (Context)صاف بتا رہا ہے کہ یہ قیامت کے حالات کابیان ہے اور آیت کا مقصد یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ سارے پہاڑ جنہیں تم اپنی جگہ اٹل سمجھتے ہوفضا؛ میں بادلوں کی طرح اُڑتے پھریں گے۔لیکن قرآن کریم سے سائنس کے مسائل مستنبط کرنے کے شوق نے سیاق وسباق پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔واقعہ یہ ہے کہ زمین کی حرکت اور سکون کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے اور پورے قرآن میں کہیں اس مسئلے کا بیان نہیں ہے ۔اس لیے کہ یہ بات اس کے موضوع سے خارج ہے ،نہ قرآن سے زمین کی حرکت ثابت ہوتی ہے نہ سکون ،لہٰذا سائنس کے دلائل کے لحاظ سے اس میں سے جونظر یہ بھی اختیار کیا جائے قرآن اس میں مزاحم نہیں ہوتا اور نہ اُس سے دین وایمان کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

                یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگاکہ قرآن سے سائنٹفک مسائل مستنبط کرنے کی کوششیں بسا اوقات بڑے خلوص کے ساتھ کی جاتی ہیں اور اس کا منشا غیر مسلموں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو !جوبات تم نے صدیوں کی محنت کے بعد معلوم کی ہے وہ ہمارے قرآن میں پہلے سے موجو د ہے۔لیکن درحقیقت اگر یہ استنباط اصول تفسیر کو توڑ کرکیا گیا ہے تو یہ قرآن کے ساتھ نادان دوستی کے سوا کچھ نہیں،جس وقت لوگ قرآن سے زمین کا ساکن ہونا ثابت کرنا چاہ رہے تھے،وہ بزعمِ خود اسے قرآن کی خدمت تصور کرتے تھے۔لیکن اگر ان کی یہ کوشش کام یاب ہوجاتی او ر عالمگیر طور پر یہ مان لیا جاتا کہ قرآن زمین کے ساکن ہونے کا قائل ہے،تو آج جب کہ زمین کو ساکن سمجھناسائنس کے نقطۂ نظر سے کلمۂ کفر کے مرادف ہوگیا ہے ،قرآن کے ساتھ یہ نادان دوستی کیا نتائج پیدا کرتی؟ لہٰذاسائنس کے بارے میں جو باتیں قطعی طور سے قرآن کریم میںمو جودہیں، انہیں تو قرآن کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے،لیکن جن باتوںکی قطعی وضاحت قرآن نے نہیں کی،ان کو خواہ مخواہ اس کی طرف منسوب کرنا کل بھی غلط تھا اور آج بھی غلط ہے۔

(علوم القرآن : ۳۵۹- ۳۹۵)