تفسیر قرآن کے آداب

شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی

تفسیر وتاویل کا مفہوم:تفسیر کے معنی ہیں: ”کسی چیز کا کھولنا، ظاہر کرنا، بیان کرنا۔“ اور اہل ِعلم کی اصطلاح میں تفسیر قرآن کے معنی ہیں:”قرآن کریم کے معانی کو بیان کرنا اور مرادِ خداوندی کی تعیین کرنا۔“ تاویل کے معنی ہیں: ”پھیرنا، لوٹانا“ اور اہل علم کی اصطلاح میں تاویل سے مراد ہے: ”قرآن کریم کے الفاظ اور جملوں کو ان کی اصل مراد کی طرف لوٹانا۔“ تفسیر وتاویل کے الفاظ عموماً ہم معنی استعمال کیے جاتے ہیں اور بعض اہل علم ان دونوں کے درمیان یہ فرق کرتے ہیں کہ تفسیر کا لفظ زیادہ تر مفرد الفاظ کی تشریح کے لیے استعمال ہوتا ہے اور تاویل کا لفظ جملوں کا مفہوم بیان کرنے کے لیے۔

                بعض حضرات فرماتے ہیں کہ: جس فقرے کا مفہوم قطعی طور پر متعین ہو اور اس میں کسی دوسرے مفہوم کی گنجائش نہ ہو ایسے مفہوم کو بیان کرنا تفسیر کہلاتا ہے اور جہاں متعدد معانی کا احتمال ہو وَہاں غوروفکر کے بعد ایک پہلو کو متعین کرنے کا نام ”تاویل“ ہے اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ: جو مفہوم منقول ہو اس کا نام تفسیر ہے اور جو اجتہاد واستنباط سے تعلق رکھتا ہو اسے تاویل کہا جائے گا۔

 (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: الاتقان، نوع:۷۷)

                 خلاصہ یہ کہ: ”علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں، جس میں قرآن کریم کے معنی بیان کیے جائیں اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔“

(معارف القرآن، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، جلد اول، ص:۴۹)

 ایک نازک ترین ذمہ داری:

                 قرآن ِکریم کی تفسیر و تشریح ایک کٹھن کام اور نہایت نازک ترین ذمہ داری ہے، اس لیے کہ قرآن کریم حق تعالیٰ شانہ کا مقدس کلام ہے اور قرآن ِکریم کی تفسیر در حقیقت حق تعالیٰ شانہ کی ترجمانی کا نام ہے، جب ہم قرآن کریم کے کسی لفظ، کسی جملے یا کسی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہیں تو گویا ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مراد ہے، اس طرح اپنے بیان کیے ہوئے مفہوم کو حق تعالیٰ شانہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس سلسلہ میں ذرا سی لغزش اور سہل انگاری افترا علی اللہ کا موجب ہوسکتی ہے، افتراء علی اللہ نہایت سنگین جرم ہے، حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:

”وَمَنْ اظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلٰی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیَاتِہ، إِنَّہ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُوْنَ۔“

         ترجمہ:”اور اس سے زیادہ کون بے انصاف ہوگا ،جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھوٹا بتلادے، ایسے بے انصافوں کی رستگاری نہ ہوگی۔“

(ترجمہ حکیم الامت تھانوی)

                سربراہانِ مملکت اور شاہانِ عالم کی ترجمانی کے فرائض ادا کرنا سب جانتے ہیں کہ کس قدر نازک ذمہ داری ہے اور جو شخص اس ذمہ داری پر فائز ہو، اس کے لیے کیسی لیاقت ومہارت شرط ہے؟ شاہانہ رسوم وآداب اور زبان ومحاورات سے اس کا کس درجہ باخبر ہونا ضروری ہے، پھر ترجمانی کے فرائض ادا کرتے ہوئے اسے کس قدر حزم واحتیاط اور بیدارمغزی سے کام لینا چاہیے اور پھر دانستہ ونادانستہ غلط ترجمانی پر کس قدر عتاب ِشاہی کا اندیشہ ہے، جب سلاطین دنیا کی ترجمانی اس قدر نازک کام ہے تو اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شہنشاہِ مطلق، احکم الحاکمین کی ترجمانی کا کام کس قدر مشکل اور کتنا نازک ہوگا۔

                 قرآن کریم کی تفسیر اپنے اندر نزاکت کا ایک اور پہلو بھی رکھتی ہے اور وہ یہ کہ قرآن ِکریم ہی سے شاہراہِ انسانیت کی نشاندہی ہوتی ہے، اسی سے عقائد وعبادات کی مشکلیں متعین ہوتی ہیں، اسی سے معاملات ومعاشرت کی تشکیل ہوتی ہے، اسی سے حق تعالیٰ شانہ کی پسند وناپسند، جائز وناجائز اور حلال وحرام کی حد بندی ہوتی ہے، اسی سے اخلاقی قدریں وجود پذیر ہوتی ہیں، اسی سے انسانیت وعبدیت کے پیمانے ڈھلتے ہیں، اسی سے اسلام کا عالم گیر قانون وجود میں آتا ہے؛ الغرض دین ومذہب، عقائد واعمال، اخلاق ومعاشرت، سیاست وتمدن اور عدل وانصاف کے قانونی، اخلاقی اور انسانی پہلووٴں کا مدار قرآن ِکریم ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن ِکریم کی تفسیر وتشریح میں ذرا سی بے احتیاطی بھی کتنے ہولناک مفاسد کا سبب بن سکتی ہے؟ اور ایسے بے احتیاط مفسر اور اس پر اعتماد کرنے والے کے حق میں شدید خطرہ ہے کہ یہ کتابِ ہدایت ”یَہْدِیْ بِہ کَثِیْرًا“ کے بجائے ”یُضِلُّ بِہ کَثِیْرًا“ کا منظر پیش کرے۔

 تفسیر قرآن میں سلف صالحین کی احتیاط وَرزی :

                تفسیر قرآن کی اسی عظمت ونزاکت کے پیش نظر بہت سے سلف صالحین صحابہ وتابعین تفسیر کے باب میں لب کشائی سے گریز کرتے تھے، چناں چہ جماعتِ صحابہ کے گل سرسبد اور انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد انسانیت کے سب سے افضل ترین شخص حضرت ابوبکر صدیق ہیں، ان کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے قرآن کریم کے کسی لفظ کے معنی دریافت کیے گئے تو فرمایا: ”ای ارض تقلّنی وای سماء تظلنی إذا قلتُ فی کتاب اللّہ ما لا اعلم“۔

(تفسیر ابن کثیر،ج:۱، ص:۵)

                 اور سید التابعین حضرت سعید بن مسیّبکے بارے میں منقول ہے کہ جب ان سے قرآن ِکریم کی کسی آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا جاتا تو فرماتے:”إنا لانقول فی القرآن شیئًا۔“

 (تفسیر ابن کثیر،ج:۱،ص:۶)

                یعنی ”ہم قرآن کریم کی تفسیر میں کچھ نہیں کہا کرتے تھے۔“

                 یحییٰ بن سعیدکہتے ہیں کہ حضرت سعید بن مسیّب قرآن کریم کی صرف انہی آیات میں لب کشائی کرتے تھے، جن کا مفہوم قطعی طور پر معلوم ہوتا تھا۔ یزید بن ابی یزیدکہتے ہیں کہ جب سعید بن مسیّبسے حلال وحرام اور جائز وناجائز کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے عالم ہیں، لیکن جب ہم ان سے قرآن ِکریم کی کسی آیت کے بارے میں سوال کرتے تو ایسے خاموش ہوجاتے گویا انہوں نے سنا ہی نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق  ”اعلم الصحابہ “ہیں اور حضرت سعید بن مسیب ”اعلم التابعین“ ہیں، لیکن علم وفضل، دانش وبصیرت، تقویٰ وطہارت اور نورِ قلب میں بلند مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود وہ قرآن کریم میں لب کشائی سے گریز کرتے ہیں؛ کیوں کہ وہ اس کی نزاکت سے باخبر ہیں اور جانتے ہیں کہ تفسیر میں معمولی بے احتیاطی کا وبال کتنا سنگین ہے۔

شرائطِ مفسر :

                قرآن کریم کی تفسیر کے لیے کیسی لیاقت درکار ہے اور ایک مفسر قرآن میں کن اوصاف وشرائط کا پایا جانا ضروری ہے؟ علمائے امت نے اس پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے، حافظ جلال الدین سیوطی(متوفی:۱۹۱۱ھ) نے ”الاتقان“ کی۷۸ویں نوع میں اس کا خلاصہ درج کردیا ہے۔ امام سیوطی فرماتے ہیں کہ: بعض اہل علم تو اس کے قائل ہیں کہ کسی شخص کے لیے خواہ وہ کیسا عالم وفاضل ہو قرآن ِکریم کی تفسیر جائز ہی نہیں، بل کہ جو کچھ آنحضرت ﷺسے منقول ہے اسی پر بس کرنا ضروری ہے۔(مگر یہ قول عام علماء کے نزدیک صحیح نہیں، ناقل)

                 اور علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ جو شخص ان علوم میں مہارت رکھتا ہو، جو تفسیر کے لیے ضروری ہیں اس کے لیے قرآنِ کریم کی تفسیر جائز ہے اور یہ مندرجہ ذیل پندرہ علوم ہیں:

                 ۱:…علم لغت، ۲:…علم صرف، ۳:…علم نحو، ۴:…علم اشتقاق، ۵:…علم معانی، ۶:…علم بیان، ۷:…علم بدیع، ۸:…علم قرآت، ۹:…علم اصول الدین، ۱۰:…علم اصول فقہ، ۱۱:…علم اسباب النزول،۱۲:…علم ناسخ ومنسوخ، ۱۳:…علم فقہ، ۱۴:…علم حدیث، ۱۵:…نورِ بصیرت اور وہبی علم۔

تفسیر کے آداب :

                اول:… تفسیر کے مآخذ میں سب سے پہلا ماخذ قرآن کریم ہے، اس لیے مفسر کا فرض ہے کہ وہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس کے سیاق وسباق کے ساتھ ساتھ اس مضمون کی دوسری آیات کو بھی پیش ِنظر رکھے، کیوں کہ قرآنِ کریم میں ایک ہی مضمون کو مختلف انداز وعنوان سے بیان کیا جاتا ہے، ایک مضمون ایک جگہ مجمل ہوگا تو دوسری جگہ مفصل، ایک جگہ مختصر ہوگا تو دوسری جگہ مطوّل، ایک جگہ مطلق ہوگا تو دوسری جگہ مقیّد، پس قرآن کریم کی کسی آیت سے ایسا مفہوم کشید کرنا جائز نہیں ہوگا، جو خود قرآن کریم کی آیات ِبینات کے خلاف ہو۔   

         دوم:… اسی طرح مفسر قرآن کا یہ بھی فرض ہے کہ کسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے، اس ضمن میں آنحضرت ﷺکے قول وفعل، ہدی وسیرت اور آپ ﷺکی سنت وطریقہ کو پیش نظر رکھے اور تفسیر قرآن میں کوئی ایسی بات نہ کہے جو آنحضرت ﷺکی سنت ِثابتہ کے خلاف ہو، کیونکہ حق تعالیٰ شانہ نے جس طرح قرآن کریم کے الفاظ آپ ﷺپر نازل فرمائے ہیں، اسی طرح اس کی تشریح وتوضیح کا بھی خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ”ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ“ (القیٰمة) ”پھر اس کا بیان کرادینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی) اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی مراد (بیان) بھی حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے بتائی جاتی تھی، اس لیے قرآن کریم کے شارح ومفسر خود حق تعالیٰ شانہ ہیں اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی جلی وخفی اور نورِ نبوت کے ذریعہ قرآن کریم کو سمجھا تھا، اسی لیے آپ قرآن کریم کی تشریح وتفسیر میں بھی تلمیذ الرحمن تھے اور امت کو قرآن کریم کے مفہوم ومقصود سے آگاہ کرنا بھی آپ کے فرائض میں شامل تھا، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:

                 ”وَاَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ“(النحل:۴۴)

                ترجمہ: ”اور آپ پر بھی یہ قرآن اتارا ہے، تاکہ جو جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کو آپ ان پر ظاہر کردیں اور تاکہ وہ فکر کیا کریں۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی)

                 دوسری جگہ ارشاد ہے: ”وَمَااَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ إِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَھُدًی وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّوْمِنُوْنَ۔“(النحل:۶۴)

                 ترجمہ:”اور ہم نے آپ پر یہ کتاب صرف اس واسطے نازل کی ہے کہ جن امور میں لوگ اختلاف کررہے ہیں آپ لوگوں پر اس کو ظاہر فرمادیں اور ایمان والوں کی ہدایت اور رحمت کی غرض سے۔“

(ترجمہ حضرت تھانوی)

                 ایک اور جگہ ارشاد ہے: ”إِنَّا انْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا ارَاکَ اللّہُ“(النساء:۵۰۱)

                ترجمہ:”بے شک ہم نے آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ہے۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی)

                پس امت کے لیے قرآن کریم کے سب سے پہلے شارح ومفسر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال وافعال، احکام وفرامین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسنت قرآن حکیم ہی کی شرح وتفصیل ہے، اسی حقیقت کو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بنت صدیق نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ”کان خلقہ القراٰن۔“ (صحیح مسلم، ج:۱،ص:۲۵۶)

                 ترجمہ:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔“

                مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وعادات، طور وطریق اور سیرت وکردار سب قرآن کریم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی فرماتے یا کرتے تھے وہ سب قرآن کریم ہی کی تعلیم تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم قرآن کریم کا شارح تھا، اسی کو امام شافعینے ذرا کھول کر یوں بیان فرمایا:

                ”کل ماحکم بہ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فھو مما فہمہ من القرآن، قال تعالی: إِنَّا اَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اَرَاکَ اللّہُ، فی آیات اخر“

(الاتقان فی علوم القرآن، ج:۲،ص:۱۷۶)

                 ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلے بھی فرمائے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم ہی سے سمجھے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بے شک ہم آپ کے پاس یہ نوشتہ بھیجا ہے واقع کے موافق، تاکہ آپ ان لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں، جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلادیا ہے۔“

                 ہمارے شیخ حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ نے اپنے شیخ امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ کا ارشاد نقل کیا ہے:

                 ”اگر نورِ نصیرت کے ساتھ احادیث شریفہ پر غور کیا جائے تو نظر آئے گا کہ بہت سی احادیث قرآن کریم کے چشمہ صافی سے نکلی ہیں، یہاں تک کہ بہت سی احادیث شریفہ میں قرآن کریم کی تعبیرات کی طرف لطیف اشارات پائے جاتے ہیں۔“

(یتیمة البیان، ص:۲۸)

                 قرآن کریم کی تشریح وتفسیر کے لیے قرآن کریم کے شارح اول حضرت محمد رسول اللہ a کی تشریح وتبیین کس قدر ناگزیر ہے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل مثالوں سے ہوگا:

                 ۱:… قرآن کریم میں بار بار ”اقامتِ صلوٰة“ کا حکم دیا گیا ہے، کس وقت کی نماز کی کتنی رکعات ہیں؟ نماز کے شرائط وارکان کیا ہیں؟ نماز کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ بیسیوں سوالات ایسے ہیں جن کی تشریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وفعل سے فرمائی ہے اور ان تشریحات نبوی کے بغیر کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم کے حکم ”اقامتِ صلوٰة“ کا مفہوم متعیّن کرسکے۔

                 ۲:… قرآن کریم میں بہت سی جگہ زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن زکوٰة کس مال پر فرض ہے؟ کس پر نہیں؟ زکوٰة کا نصاب کیا ہے؟ زکوٰة کی کتنی مقدار فرض ہے؟ یہ اور اس قسم کے تمام امور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح سے امت کو معلوم ہوئے ہیں، ورنہ کوئی شخص مرادِ خداوندی کو دریافت نہیں کرسکتا تھا۔

                ۳:… قرآن کریم میں حج بیت اللہ کا حکم دیا گیا ہے، لیکن حج کا طریقہ کیا ہے؟ اور اس کے ارکان ولوازمات کیا ہیں؟ ان تمام امور کی تفصیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی وعملی تشریح سے معلوم ہوئی، اس کے بغیر کوئی شخص ”قرآنی حج“ کا طریقہ کار متعیّن نہیں کرسکتا تھا۔

                 یہ چند مثالیں اسلام کے اہم ترین ارکان کی عرض کی گئی ہیں، جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کی مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکے قول وفعل اور ہدی وسیرت میں متشکل ہوکر سامنے آتی ہے۔

                 سوم:… مفسر کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ تفسیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انوار سے روشنی حاصل کرے اور کسی آیت کی ایسی تفسیر نہ کرے جو حضرات صحابہ کی تفسیر کے خلاف ہو، کیونکہ صحابہ کرام مدرسہٴ نبوت کے بلاواسطہ شاگرد ہیں اور حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے معلم انسانیت کو ان کا معلم ومرشد اور ہادی بنایا گیا، جیسا کہ متعدد مقامات پر فرمایا ہے:

                ”وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ“ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کتاب وحکمت کے بعد قرآن فہمی میں صحابہ کرام کا ہمسر کون ہوسکتا ہے؟ پھر صحابہ کرام نزولِ وحی اور اس کی عملی تشکیل کے عینی شاہد ہیں، سیوطی نے الاتقان میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد نقل کیا ہے:

                 ”واللّٰہ مانزلت آیة إلا وقد علمتُ فیمَ انزلت واین انزلت، إن ربی وھب لی قلبا عقولا ولسانا سئولا۔“ (الاتقان، نوع:۸)

                 ترجمہ:”اللہ کی قسم! جو آیت بھی نازل ہوئی اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی؟ میرے رب نے مجھے بہت سمجھنے والا دل اور بہت پوچھنے والی زبان عطا فرمائی ہے۔“

                ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے برسرِمنبر فرمایا:

                 ”سلونی، فواللّٰہ لاتسألون عن شیء إلا اخبرتکم وسلونی عن کتاب اللّٰہ، فواللّٰہ ما من آیة إلا وانا أعلم اَ بِلیلٍ نزلت ام بنہار، ام فی سہل ا م فی جبل۔“ (حوالہ بالا)

                ترجمہ:”مجھ سے سوال کرو، پس اللہ کی قسم! مجھ سے جو بات بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا اور مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں پوچھو، پس اللہ کی قسم! قرآن ِکریم کی کوئی آیت ایسی نہیں، جس کے بارے میں مجھے یہ علم نہ ہو کہ وہ رات کے وقت اتری تھی یا دن کے وقت، میدان میں اتری تھی یا پہاڑ پر۔“

                 اسی طرح فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود کا ارشاد نقل کیا ہے:

                 ”والذی لاإلٰہ غیرہ مانزلت آیة من کتاب اللّٰہ إلا وقد علمت فیمن نزلت واین نزلت ولو اعلم مکان احد اعلم بکتاب اللّٰہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ۔“ (حوالہ بالا)

                 ترجمہ:”اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کتاب اللہ کی جو آیت بھی نازل ہوئی، اس کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ کس کے حق میں نازل ہوئی؟ اور کہاں نازل ہوئی؟ اور اگر مجھے معلوم ہو کہ کوئی شخص کتاب اللہ کا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا ممکن ہو تومیں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ہوتا۔“

                پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسی محنت و جانفشانی سے فہم ِقرآن میں مہارت حاصل کی تھی کہ کوئی دوسرا شخص اس کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا، اس سلسلہ میں صحابہ کرام کے بہت سے عجیب وغریب واقعات نقل کیے گئے ہیں، ان تمام واقعات کو نقل کرنا موجب طوالت ہوگا، یہاں حضرت ابوعبدالرحمن اسلمی کا صرف ایک فقرہ نقل کردینا کافی ہوگا، وہ فرماتے ہیں:

                ”حدثنا الذین کانوا یقرء ون القرآن،کعثمان بن عفان وعبداللّہ بن مسعود وغیرہما انہم کانوا إذ تعلموا عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عشر آیات لم یتجاوزوھا حتّٰی یعلموا ما فیہا من العلم والعمل، قالوا: فتعلمنا القرآن والعلم جمیعا ولہٰذا کانوا یبقسون مدة فی حفظ السورة۔“ (الاتقان، نوع:۸۷)

                 ترجمہ:”جو حضرات ہمیں قرآن پڑھاتے تھے جیسے حضرت عثمان، حضرت عبداللہ بن مسعود اور دیگر حضرات ، انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ جب آنحضرت ﷺسے دس آیتیں سیکھ لیتے تھے تو آگے نہیں پڑھتے تھے، یہاں تک کہ ان آیات میں جو کچھ علم وعمل ہے اس کا علم حاصل نہ کرلیں، وہ فرماتے تھے کہ ہم نے قرآن ِکریم، علم اور عمل تینوں کو اکٹھے سیکھا تھا، اسی بنا پر وہ مدت تک ایک سورت کے حفظ میں مشغول رہتے تھے۔“

                 الغرض تفسیر نبوی کے بعد صحابہ کرام کی تفسیر سب سے مقدم ہے اور حقیقت میں وہ بھی آنحضرتﷺ ہی کی تعلیم کا ثمرہ ہے، اس لیے ایک مفسر کے لیے اسے نظر انداز کرنا کسی طرح ممکن نہیں اور اسی ضمن میں اکابرتابعین کی تفسیر آتی ہے؛ جنہوں نے صحابہ کرام سے قرآن ِکریم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی، اس لیے مفسر پر لازم ہے کہ وہ صحابہ وتابعین کی تفسیر کے خلاف نہ چلے۔

                 چہارم:۔۔۔۔۔ مفسر کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اہل حق کے عقائد واعمال اور اخلاق کا پابند نہ ہو، ”الإتقان“ میں امام ابوطالب طبری

سے نقل کیا ہے:

                 ”إن من شرطہ صحة الاعتقاد اولًا ولزوم سنة الدین، فإن من کان مغمومًا علیہ فی دینہ لایوٴتمن علٰی الدنیا فکیف علٰی الدین، ثم لایوٴتمن فی الدین علٰی الاخبار عن عالم فکیف یوٴتمن فی الأخبار عن اسرار اللّٰہ تعالٰی ولانہ لایوٴمن إن کان متہما بالإلحاد ان یبغی الفتنة ویغر الناس بلیّہ وخداعہ۔“

 (الاتقان، نوع:۷۸)

                ترجمہ:”مفسر کے شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو، دوسرے وہ سنت دین کا پابند ہو، کیونکہ جو شخص دین میں مخدوش ہو کسی دنیوی معاملے میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا، تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا؟ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے اس میں بھی وہ لائق ِاعتماد نہیں، اسرارِ الٰہی کی خبردینے میں تو کیا لائق اعتماد ہوگا۔ نیز ایسے شخص پر اگر الحادکی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر لکھ کر کوئی فتنہ نہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکّاری سے گمراہ کرے۔“

                 پنجم:۔۔۔۔۔ اسی طرح ہر قسم کی بدعت وکج روی سے مفسر کے ذہن کا پاک ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ اس کی تفسیر ناقابل اعتماد ہوگی، کیونکہ وہ قرآن کریم کو اپنی بدعت کے رنگ میں ڈھالنا شروع کردے گا، نام تو ہوگا تفسیر قرآن کا، لیکن جو کچھ وہ لکھے گا وہ قرآن ِکریم کی تفسیر نہیں ہوگی، بلکہ اس کے بدعت آلود ذہن کا بخارہوگا، اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر فہم ِقرآن کو حرام کردیا ہے، جو بدعت وخواہش نفسانی کا چشمہ لگاکر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ”الاتقان“ میں امام زرکشی کی”البرہان“ سے نقل کیا ہے:

                 ”اعلم انہ لا یحصل للناظر فہم معانی الوحی ولایظہر لہ اسرارہ وفی قلبہ بدعة او کبر او ھویً او حب الدنیا او ھو مصرّ علٰی ذنب او غیر متحقق بالإیمان او ضعیف التحقیق او یعتمد علٰی قول مفسر لیس عندہ علم او راجع إلٰی معقولہ وہٰذہ کلہا حجب وموانع بعضہا آکد من بعض۔“

 (الاتقان، ج:۲،نوع:۷۸، ص:۸۱)

                 ترجمہ: ”جاننا چاہیے کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر وحی کے اسرار نہیں کھلتے، جبکہ اس کے دل میں بدعت ہو یا تکبر ہو یا اپنی ذاتی خواہش ہو یا دنیا کی محبت ہو یا وہ گناہ پر اصرار کرنے والا ہو یا اس کا ایمان پختہ نہ ہو یا اس میں تحقیق کا مادہ کمزور ہو، یا وہ کسی ایسے مفسّر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کورا ہو، یا وہ قرآن ِکریم کی تفسیر میں محض عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہو، یہ تمام چیزیں فہم ِقرآن سے حجاب اور مانع ہیں، ان میں بعض دوسری بعض سے زیادہ قوی ہیں۔“

                 ششم:۔۔۔۔۔ تفسیر بالرائے جس طرح مفسّر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے خیالات وافکار سے خالی الذہن ہوکر یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اس آیت میں قرآنِ کریم کی دعوت کیا ہے اور کن کن مسائل پر روشنی ڈالی جارہی ہے، خود اپنے خیالات وافکار قرآن کریم میں ٹھونسنے کی کوشش نہ کرے، اسی طرح اس کا یہ بھی فرض ہے کہ تفسیر بالرائے سے اجتناب کرے، کیونکہ تفسیر بالرائے حرام ہے اور اس پر سخت وعید آئی ہے، آنحضرت ﷺکا ارشاد گرامی ہے:

                 ”من قال فی القرآن برایہ فلیتبوا مقعدہ من النار وفی روایة: من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار۔“

 (رواہ الترمذی، مشکوٰة، ص:۵۳)

                ترجمہ:”جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔“

                 ایک اور حدیث میں ہے:

                 ”من قال فی القرآن برایہ فاصاب فقد اخطا۔“

 (رواہ الترمذی وابوداود)

                 ترجمہ:”جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی اس نے اگر ٹھیک کیا تب بھی غلط کیا۔“

تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے؟

                 امام سیوطی”الاتقان،نوع:۷۸“ میں ابن النقیب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے؟ اس میں اہل علم کے پانچ قول ملتے ہیں:

                 اول:۔۔۔۔۔ یہ کہ تفسیر قرآن کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے کوئی شخص ان کو حاصل کیے بغیر تفسیر کرنے بیٹھ جائے۔

                 دوم:۔۔۔۔۔ کوئی شخص ان متشابہات کی تفسیر کرنے لگے جن کی مراد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔             سوم: غلط مذہب کو ثابت کرنے کے لیے تفسیر کرنا، یعنی کوئی شخص اپنے مذہب ِفاسد کو تو اصل بنائے اور تفسیر کو اس کے تابع کرے اور جس طرح بھی ممکن ہو کھینچ تان کر قرآن کریم کو اپنے مذہب پر چسپاں کرے۔

                 چہارم: بغیر دلیل کے کسی آیت کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قطعی مراد یہ ہے۔

                 پنجم: محض اپنی خواہش وپسند کے مطابق تفسیر کرنا۔

 (الاتقان، جلددوم،ص:۱۸۳)

 تحریفِ معنوی:

                 خلاصہ یہ کہ یہ تمام صورتیں تفسیر بالرائے کے تحت داخل ہیں، ہمارے زمانے میں قادیانی، پرویزی وغیرہ دیگر گمراہ اور کجرو فرقوں کی تفسیروں کا یہی حال ہے، ان کی تفسیر‘ تفسیر بالرائے سے بڑھ کر قرآن ِکریم کی کھلی کھلی تحریف معنوی ہے، چنانچہ قرآن کریم کی آڑ لے کر قطعیاتِ دین کا انکار کیا جاتا ہے، آنحضرت ﷺکی سنت متواترہ کو پسِ پشت ڈالا جاتا ہے، اسلام کے قطعی واجماعی عقیدہ کو جھٹلایا جاتا ہے، چودہ سو سالہ اکابر امت کے اجماع مسلسل سے (جس کو قرآن کریم نے ”سبیل الموٴمنین“ فرمایا ہے)انحراف کیا جاتا ہے اور لغت وزبان کے قواعد سے آزاد ہوکر قرآن کریم کو جاہلانہ تحریفات کا تختہٴ مشق بنایا جاتا ہے، ضروری تھا کہ ایسی تحریفات کی بھی چند مثالیں ذکر کردی جاتیں، لیکن افسوس کہ اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش نہیں۔

 ترجمہٴ قرآن کے آداب:

                 قرآن کریم کا ترجمہ بھی تفسیر وترجمانی ہی کی ایک صورت ہے، اس لیے ترجمہٴ قرآن میں بھی مندرجہ بالا اصول کا لحاظ رکھنا اشد ضروری ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا صحیح ترجمہ کرنا اس کی تفسیر سے بھی مشکل اور نازک کام ہے، اس لیے اس میں حزم واحتیاط کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے، ترجمہ کرتے وقت قرآن ِکریم کے الفاظ واسلوب کی رعایت رکھنا چاہیے اور یہ ایسی مشکل اور دشوار گزار گھاٹی ہے کہ اچھے اچھے لوگ اس میں لڑکھڑا جاتے ہیں، یہاں موٴرخ اسلام سید الملة والدین علامہ سید سلیمان ندویکا اقتباس نقل کرتا ہوں، جو مولانا قاضی محمد زاہد الحسینی مدظلہ نے ”معارف القرآن“ میں ماہنامہ ”العلم“ کراچی کے حوالے سے نقل کیا ہے، سید صاحب لکھتے ہیں:

                 ”اس سلسلے میں مجھے دو باتیں کہنی ہیں: ایک: تویہ کہ قرآن پاک کے ترجمے میں بے احتیاطی کو کام میں نہ لایاجائے، یہ تحریف ہے اور جس کی سزا کا حال معلوم ہے، ترجمہ بالکل لفظی کرنا چاہیے، پھر اس کی تشریح اپنے ضروری مطلب کے ساتھ کرسکتے ہیں، یہ کسی طرح درست نہیں کہ ترجمہ میں الفاظ کی رعایت کیے بغیر اپنے مطلوب کے مطابق کوشش کی جائے، یہ شدید تحریف ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ پھر کسی دوسری ضرورت کے وقت آپ کو اس آیت کا دوسرا ترجمہ دوسرے ڈھنگ سے کرنا پڑے گا، اس وقت آپ پر یہ ثابت ہوجائے گا کہ ہم نے اتباعِ ہویٰ کا دانستہ ارتکاب کیا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جمہور اسلام جس مسئلہ پر اعتقادی وعملی طور پر متفق ہوں ان کو چھوڑ کر تحقیق کی نئی راہ اختیار نہ کی جائے، یہ طریق تواتر وتوارث کی بیخ کنی کے مترادف ہے، اس گناہ کا مرتکب کبھی میں خود ہوچکا ہوں اور اس کی اعتقادی وعملی سزا بھگت چکا ہوں، اس لیے دل سے چاہتا ہوں کہ اب میرے عزیزوں اور دوستوں میں سے کوئی اس راہ سے نہ نکلے، تاکہ وہ اس سزا سے محفوظ رہے، جو ان سے پہلوں کو مل چکی۔“ (معارف القرآن، ص:۲۶ از مولانا قاضی محمد زاہد

الحسینی، بحوالہ ماہنامہ العلم کراچی، جنوری تا مارچ ۱۹۵۹ء)

چند مفید تفاسیر:

                 تفسیرکے موضوع پر ان مختصر اشارات کو ختم کرتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند مفید اور آسان تفاسیر کی طرف راہنمائی کردی جائے:

                 ۱:۔۔۔۔۔ معارف القرآن(آٹھ جلدوں میں) از مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، اس میں قرآنِ کریم کے متن کے ساتھ حضرت شیخ الہندکا ترجمہ ہے اور خلاصہٴ تفسیر حضرت حکیم الامت تھانوی کی بیان القرآن سے مأخوذ ہے اور پھر ”معارف ومسائل“ کے عنوان سے ضروری تشریحات ونکات اور مسائل ذکر کیے جاتے ہیں، ہمارے دور کی یہ مفید ترین تفسیر ہے۔

                 ۲: معارف القرآن از مولانا محمد ادریس کاندھلوی، محدثانہ انداز کی یہ بہترین تفسیر ہے، متن قرآن کے ساتھ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کا ترجمہ ہے، تفسیر میں بیان القرآن کی پیروی کی گئی ہے اور حدیثی، کلامی، فقہی اور تاریخی فوائد کا گراں قدر اضافہ کیا گیا ہے، حضرت مولانا اس کی تکمیل نہیں فرماسکے تھے، ان کے صاحبزادہ گرامی حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور نے اس کی تکمیل فرمائی ہے۔

                 ۳: فوائد عثمانی برترجمہ شیخ الہند، حضرت شیخ الہند مولانا محمد حسن دیوبندی قدس سرہ نے حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمہ کو جدید قالب میں ڈھالا تھا اور سورہٴ بقرہ اور سورة النساء کے فوائد بھی تحریر فرمائے تھے، بقیہ فوائد حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی نے تحریر فرمائے، یہ تفسیر ایک ادبی شاہکار ہے اور قرآن ِفہمی کے لیے کلید کا حکم رکھتی ہے۔

                 ۴: تفسیر کشف الرحمن، از سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، اس تفسیر میں بھی ترجمہ اور تفسیر کے لیے حضرت شاہ عبدالقادرکی تفسیر موضح القرآن کو بنیاد بنادیا گیا ہے اور قرآنی مفاہیم کو دہلی کی ٹکسالی زبان میں کیا گیا ہے۔   

              واٰخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین۔