آٹھویں قسط:
دکتور علی الحمادی ترجمانی : مفتی عمیر امراوتی
عمر اور تجربہ :
زندگی میں قائدانہ رول ادا کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ، عظمتوں کے حصول کے لیے بلند حوصلہ اور پیہم عمل کی ضرورت ہوتی ہے ، کم عمری کوئی مانع نہیںاور کوئی بہانہ بھی نہیں ،کتنے ہی کم عمر نوخیز جوانوں نے اپنے کارناموں کے ذریعہ بڑی عمروالوں کی آنکھوں کو خیرہ کردیا ۔
کتنے ہی غیر معمولی انسان ہیں، جنہوں نے لڑکپن ہی کے ناپختہ مرحلہ میں اپنی خداداد صلاحیت اورذہانت کے ذریعہ غیر معمولی کارنامے انجام دیے ، بل کہ عمر میں بڑے لوگوں کی کام یاب قیادت کی اور ان سے دادِ تحسین وصول کیا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے پہلے آدمی ہیں، جوصرف دس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے ۔
فرعونِ امتِ محمد، غرور مجسم اور ملعون ابوجہل کو جہنم رسید کرنے والے انصار کے دو نوجوان ہی تھے ۔ معاذ اورمعوذ ۔
ابو جہل پر حملہ آور ہونے کا واقعہ بھی بڑا دلیرانہ ہے ، بل کہ شجاعت وعزیمت کا آئینہ دار ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضرت معاذ بن عمروبن جموح ؓسے روایت کرتے ہیں کہ میں ابو جہل کی تاک میں بیٹھا تھا، جب موقع پڑا تو اس زور سے تلوار کا وار کیا کہ ابو جہل کی ٹانگ کٹ گئی ۔ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ ؓنے(جو فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے )باپ کی حمایت میں معاذ کے شانہ پر اس زور سے تلوار ماری کہ ہاتھ کٹ گیا، لیکن چمڑی سے لٹکا رہا ؛ مگر سبحان اللہ ! معاذ شام تک اسی حالت میں لڑتے رہے ۔ جب ہاتھ کے لٹکنے سے تکلیف زیادہ ہونے لگی تو ہاتھ کو قدم کے نیچے دباکر اس زور سے کھینچا کہ وہ جِلد سے علاحدہ ہوگیااورمعوذ بن عفرا ابوجہل سے فارغ ہوکر لڑائی میں مشغول ہوگئے، یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرمایا ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
اسی طرح وہ کار نامہ بھی پڑھنے جیسا ہے جو قبیلہ بنو سلمہ کے نوجوانوں نے انجام دیا۔ حضرت عمرو بن جموح ؓ کا شمار دور جاہلیت میں یثرب کے زعما میں ہوتا تھا ۔وہ قبیلہ بنو سلمہ کے ہر دلعزیز سردار ، مدینہ کے مشہورصاحب جود و سخا اور ارباب ثروت میں سے تھے ۔
قبیلہ بنو سلمہ کے نوجوان مبشر اول حضرت معصب بن عمیر کی محنت سے مسلمان ہوگئے تھے ، لیکن عمرو بن جموح ؓاب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
زمانۂ جاہلیت میں اشراف کی یہ امتیازی شان سمجھی جاتی تھی کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لیے خاص طور پر الگ الگ بت اپنے گھر میں رکھتا تھا؛ تاکہ ہر صبح وشام اس سے برکت حاصل کرے ۔اس وقت کے رواج کے مطابق عمروبن جموح کے پاس بھی ایک بت تھا ، جس کا نام ’’ منات‘‘ تھا ، عمرو بن جموح اس سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے۔
عمر بن جموح ؓکے لڑکے ’’ منات‘‘ کے ساتھ اپنے باپ کے غیر معمولی تعلق خاطر کو اچھی طرح جانتے تھے ، ان کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے لیے ایک جز ء لازم بن چکاہے اور لڑکے اس تعلق خاطراور نیاز مندی کو ان کے دل سے مکمل نکالنا چاہتے تھے ، ان کو ایمان کی طرف لانے کی یہی ایک شکل تھی ۔
عمرو بن جموح کے لڑکے رات کی تاریکی میں اپنے دوست معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ساتھ ’’ منات‘‘ کے پاس پہنچے اور اس کو اس کی جگہ سے اٹھاکر بنو سلمہ کے اس گڑھے پر لے گئے ،جس میں وہ کوڑا کرکٹ اورگندگی ڈالتے تھے ۔ لڑکے اس کو گڑھے میں پھینک کر گھر لوٹ آئے اور اس کارروائی کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔
صبح کو جب عمرو نے بت کو اپنی جگہ نہ پایا تو شدتِ غضب میں چیخ چیخ کر گھر والوں کو دھمکی دینے لگے ،آخر کافی تلاش بعد وہ گڑھے میں منہ کے بل اوندھا پڑا ہوا ملا ۔ اسے دھوکر صاف کیا اور خوش بو لگاکر دوبارہ اس کی جگہ پر رکھ دیا ،پھر لوگوں نے دوسری اور تیسری رات بھی یہی حرکت کی ؛ بل کہ تیسری رات اس کے ساتھ ایک مردہ کتابھی باندھ دیا ۔
جب معمول کے مطابق اس کو اسی گڑھے میں اس حال میں منہ کے بل پڑاہوا پایا ۔اب کی بار انہوں نے اس کو گڑ ھے سے نہیں نکالا ،بل کہ جہاں لڑکوں نے اس کو پھینکا تھا وہیں چھوڑ دیا اور بولے :
واللّٰہ لوکنت الٰہا لم تکن انت وکلب وسط بئر في قر ن
خدا کی قسم! اگر تو واقعی معبود ہوتا تو کتے کے ساتھ بندھا ہوا گڑھے میں نہ پڑا ہوتا ۔
پھر اس کے بعد انہیں خدا کے دین میں داخل ہونے میں دیر نہ لگی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں جب بھی کوئی وفد اسلام قبول کرنے کی غرض سے آتا ، تو آپ ان کی امامت کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کرتے جس کو سب سے زیادہ قرآن کا حصہ یاد ہو۔ ان ہی خوش نصیبوں میں سے عمرو بن سلمہ جرمی بھی ہیں، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلہ والوں کی امامت کے لیے مقرر کیا تھا ؛ حالاں کہ آپ بہت کم سن تھے اور تاحین حیات یہ ذمہ داری آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ہی رہی ۔ آپ خود فرماتے ہیں :
فما شہدت مجمعا الا کنت امامہم واُصلی علی جنائزہم الی یومی ہذا ۔
ہر مجلس میں امامت میں ہی کرتا ہوں اور آج تک جنازے کی نماز میں ہی پڑھاتا ہوں ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عتاب بن اسید کو مکہ کا امیر اسی وقت بنایا تھا، جب کہ آپ کی عمر اکیس یا بائیس سال ہوگی ۔ قبیلہ ثقیف کا ایک وفد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آیا تو آپ نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر مقرر کیا اور امامت کی ذمہ داری سونپی جب کہ آپ کم سن تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے ، اس وقت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ۱۳؍ سال کے ایک کم سن لڑکے تھے ، مگر علم وفن کے شیدائی وشوقین، خداداد ذہانت وفطانت اور نجابت وشرافت کی وجہ سے تمام ہم عصر میں فائق اور ممتاز تھے ۔
خارجہ بن زید اپنے والد زید بن ثابتؓ کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا : مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے ، قبیلہ والوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بنی نجار کا لڑکا ہے ، اس کو کتاب اللہ کی ۱۷؍ سورتیں بالکل اسی طرح صحت کے ساتھ یاد ہیں، جس طرح آپ کے قلب ِمبارک پر اتری ۔ اس کے علاوہ یہ لکھنے پڑھنے میں بھی کافی ہوشیار ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زید تم میرے لیے یہود یوں کی زبان (عبرانی ) سیکھ لو ، کیوں کہ مجھے ان پر اعتماد نہیں ہے کہ جو کچھ میں کہتاہوں وہ وہی لکھتے ہیں ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں فوراً عبرانی زبان سیکھنے میں ہمہ تن مشغول ہوگیا اور پندرہ راتیں نہ گزری تھیں کہ میں نے اس میں مہارت پیدا کرلی ،اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودیوں کو کچھ لکھوانا چاہتے یا ان کی طرف سے کوئی تحریر آتی تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس کو لکھتے یا پڑھنے کی خدمت انجام دیتے ۔
راز دارانہ امور کی یہ بہت ہی بڑی اور حساس ذمہ داری تھی ، جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا تھا ۔ کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے ؎
بقدر لغات المرء یکثر نفعہ
فتلک لہ عند الشدائد اعوان
آدمی کو جتنی زبانوں پر عبور ہوگا ، اتناہی اس کا فائدہ ہوگا اور یہ زبانیں مشکل اوقات میں معاون ثابت ہوںگی ۔
فبادر الی حفظ اللغات مسارعا
فکل لسان فی الحقیقۃ انسان
لہٰذا آپ بھی بہت سے اہم زبانیں سیکھنے میں دیری مت کیجیے کہ ہر زبان بذات خود ایک(معاون) انسان ہوتی ہے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی دانائی ، امانت داری ، باریک بینی اور فہم و فراست سے پورے طور پر مطمئن ہوگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانی پیغام کی امانت ان کے سپرد کرتے ہوئے ان کو کتابت وحی کے منصب پر فائز کردیا ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں جب جمع قرآن کا مصمم ارادہ کرلیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ ذمہ داری بھی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو ہی سونپی ؛چناں چہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم سمجھ دار نوجوان ہو ، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وحی کی کتابت کرتے رہے ہو ، لہٰذا تم قرآن کریم کو تلاش کرکے جمع کرو ۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم اگریہ حضرات مجھے پہاڑ ڈھونے کا حکم دیتے تو مجھے اتنا مشکل نہ ہوتا جتنا قرآن جمع کرنے کا حکم مشکل معلوم ہو ا ۔