تعمیر شخصیت

ساتویں قسط:

(Personality Development)

دکتور علی الحمادی                                                                                                                                                                                                                                                                                                       ترجمانی : مفتی عمیر امراوتی

اس قسط وار مضمون کی چھٹی قسط،اکتوبر۲۰۱۶ء میں آئی تھی،اس کے بعد مضمون نگار کی کسی مصروفیت کی وجہ کر اگلی قسط موصول نہ ہو سکی تھی ؛تاہم اب یہ سلسلہ ان شاء اللہ مسلسل چلنے کی قوی امید کے ساتھ قارئین کے پیش خدمت ہے :

کیا اعلیٰ سند یافتہ شخص ہی کام یاب اوربا اثر شخص بن سکتا ہے ؟

            علمی قابلیت ، تعلیمی لیاقت اور اعلیٰ سند کا حامل ہونا یہ چیزیں بھی یقینا ایک کامیاب شخص کی تعمیر وتشکیل میں بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتی ہیں جس سے قطعاً انکار اور صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔

            عالم اسلام اور عالم عرب اس طرح کے ہزاروں افراد سے بھر ے پڑے ہیں ۔ بد قسمتی سے ان افراد کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑ کر مغربی ممالک کا رخ کرتی ہے ، جہاں انہیں ہر طرح کی سہولیات بہم فراہم کی جاتی ہیں اور اس طرح وہ افراد وہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں ۔

            مصر کی مرکزی نگراں کمیٹی’’ برائے امور عامہ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۵۴؍ ہزار مصری سائنس داں اور مختلف تخصص شعبہ جات کے ماہر ین فن یورپ اور امریکہ میں جاب کرتے ہیں ۔ جن میں سے ۱۱؍ ہزار انتہائی حساس نادر تحقیقات پر کام کررہے ہیں۔ ۱۵؍ سو بڑے ڈاکٹرس اور اطبا میڈیکل ڈپارٹمنٹ کے مختلف PHD شعبہ جات میں کام کرتے ہیں ۔ ۹۴؍ نیو کلیر انجینئرنگ شعبہ میں کام کرتے ہیں ۔ ۳۶؍ نیو کلیر علم طبیعات میں Netural Nuclear Fission reator ۔

            ۹۸؍ حیاتیات پر (Microbiology ) ۔۸۲؍ لیزر کے مختلف طریقہ ہائے استعمال پر ۔ ۱۹۳؍ الیکٹرونک اور کمپیوٹر سائنس پر (Computer Scince ) ۔۱۱۸؍ علم خلیات پر (Genetic ) ۔۶۸؍ روڈ اور ڈیم انجینئرنگ پر۔ ۱۱۳؍ جیولیوجی Geology  اور زلزلوں کے زمینی اسباب پر تحقیقات کررہے ہیں ۔

            اسی طرح مذکورہ کمیشن کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مختلف علوم وفنون کے پانچ سو اسپیشلسٹ ماہرین کو امریکہ نے گزشتہ صدی کے اخیر ایک چوتھائی سالوں میں اپنے ملک کی نیشنلٹی (قومیت) دی ، جنہوں نے امریکی تحقیقی اداروں میں ایسی کام یاب سائنسی تحقیقات پیش کیںجن کی قیمت اربوں ڈالر مالیات سے زیادہ کی ہیں ۔ خیر یہ تو ڈگریوں کے حاملین کی ایک جھلک تھی ۔ اس کے برخلاف جب ہم ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جنہوں نے اس دنیا پر کام یابی کے انمٹ نقوش چھوڑے اور لوح دماغ سے لوح وقت پر کام یابی رقم کی تو ان میں سے اکثر کو غیر سند یافتہ پاتے ہیں یا پھر اعلیٰ اسناد کا حامل نہیں پاتے ۔

            میں چند ایسے تخلیقی صلاحیت اور اختراعی دماغ کے حامل لوگوں کو جانتا ہوں، جن کے پاس ابتدائی کلاس کی بھی سند نہیں تھی ، لیکن وہ لوگ ذاتی قابلیت کی بنیاد پر دنیا کو کچھ جدید نافع دے کر اپنے وقت کے بے تاج بادشاہ بن گئے ۔

تری فطرت امین ہے ممکنات زندگی کی

جہاں کے جوہر مضمر کا ، گویا امتحان تو ہے

۱- تھامس ایڈیسن Thams Edison:

            تھامس ایڈیسن مختلف جدید اختراعات وٹیکنالوجی جیسے: لائٹ، بلب، میگافون، سنیما مشین ، ٹائپ رائٹر اور فونوں گراف (جس نے آگے چل کر گرامو فون کی شکل اختیار کی ) وغیرہ جیسی سیکڑوں ایجادات کا موجد تسلیم کیا جاتا ہے، بعد میں یہ چیزیں اپنی مختلف شکلوں میں انسانی ضروریات کا حصہ بن گئیں ۔   ۱ ؎   (  ۱ ؎  پیٹنٹ ،موجدوں کے تصورات اور کام کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں تحقیق اور ترقیاتی کاموں کی ترغیب ملتی ہے ۔ پیٹنٹ ان وسیع قانونی تحفظات کا ایک حصہ ہیں جنہیں املاک دانش کے حقوق (آئی پی آر) کہا جاتا ہے )

            تھامس ایڈیسن نے اپنی پوری زندگی میں اپنی ایجاد کردہ ۱۱۹۳؍ اشیا کا پیٹنٹ حاصل کیا، جو کہ کسی واحد شخص کے نام پر اتنی تعداد میں پیٹنٹ حاصل کرنے کا ابھی تک کا ریکارڈ ہے ، لیکن ان سب کے باوجود اس کے پاس ابتدائی کلاس کی بھی سند نہیں تھی ۔

            یعنی کسی اسکول میں اس کی باقاعدہ تعلیم تین مہینے سے زیادہ نہ رہی ، اس کی والدہ نے اساتذہ کی طرف سے کند ذہن ، کور مغز ہونے کی مسلسل شکایات کی وجہ سے اسے اسکول سے نکال دیا تھا، ایڈیسن بچپن سے ہی بہرے پن کا مریض تھا ، حالاں کہ اس مرض کا سرجری کے ذریعہ علاج ممکن تھا ، لیکن ایڈیسن نے اس مرض کا علاج نہ کرکے اسے یکسوئی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بنایاتھا ۔

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی

۲- اوساہرجاپانی :

            اوساہر کو جاپان حکومت نے جرمنی بھیجا تھا میکینک انجینئرنگ میں PHD کے لیے ، لیکن یہ شخص لیکچر چھوڑ کر شوروم اور نمائش گاہوں میں جاکر کار انجن(e Car Engin )کے مختلف پرزے خریدتا اور جمع کرتا ۔

             اس کا سب سے بڑا ہدف اور دیرینہ تمنایہ تھی کہ وہ کسی طرح کار انجن بنانے میں کام یاب ہوجائے بالآخر وہ ایک چھوٹی سائز کا انجن بنانے میں کام یاب ہوگیا اور پھر یونی ور سٹی کی متذکرہ تعلیم چھوڑ کر ایک اسٹیل مل میں جوئنٹ ہوگیا ، اس دوران اس نے ان تمام مہارتوں کے حصول پر توجہ دی جو ایک مضبوط انجن بنانے کے لیے ناگزیر ہوا کرتی ہے ۔

            اس فن میں کامل مہارت حاصل کرنے کے بعد وہ جاپان لوٹا اور چند ہی سالوں میں اس نے کار انجن کا ایک بڑا کارخانہ کھولا ، جو کار سازی میں موجودہ جاپان ٹیکنالوجی کا سنگ میل ثابت ہوا ، لیکن قابل تعجب بات یہ ہے کہ جاپان صنعتی ترقی کے گھوڑے کو  مہمیز دینے والا یہ شخص کوئی بڑی سند کا حامل نہیں تھا ۔

            آج بھی جاپان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تجربات اور پریکٹیکل پرزیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔

خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زبان تو یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گمان توہے

            ۳-۱۹۹۵ء میں مجھے اسکندریہ (مصر) اسٹیل مل دیکھنے کا موقع ملا ۔ مل کے اسٹاف نے مجھے ایک لیبر کی ذہانت کا واقعہ سنایا ، جو بڑی سند کا حامل نہیں تھا، لیکن وہ اسٹیل مل کی ایک بڑی مشکل حل کرنے میں کام یاب رہا، جس کے لیے مل کو سالانہ دو ملین خرچ کا بار برداشت کرنا پڑتا تھا ۔

            کارخانہ میں خام لوہا باہر سے لایا جاتا تھا ۔ لوہے کی پٹریوں پر ڈبوں کو چلاکر جو فاضل خام لوہا گرتا وہ آتے جاتے پٹریوں پر جم جاتا ، اس پر گردو غبار مستزاد ، یہ چیز جم جم کر بہت بڑی رکاوٹ کا سبب بنتی، جس کے لیے مل کو بند کرکے پٹریوں کو مستقل طور پر صاف کرنا پڑتا ۔ ڈبوں پرنگراں لیبر اس مشکل کو دور کرنے پر غور وفکر کرنے لگا ، چناں چہ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی، جس نے اسٹیل مل کو سالانہ دو ملین مصری پونڈ خرچ سے نجات دلائی ۔

            اس نے مضبوط جھاڑؤں کو ہر ڈبے کے پیچھے اس طرح باندھ دیا کہ پٹری پر گرنے والا فاضل لوہا اور گردو غبار بالکل صاف ہوجاتا ۔ اس طرح پٹری صاف کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔

خلاصہ :کام یابی امنگ ، بلند ہمتی اور پیہم عمل کے ذریعہ حاصل کی جاتی ہے۔ شہادات اور تعلیم اسناد تو محض معاون وسائل ہیں ۔ کام یابی کے حتمی اور یقینی وسائل نہیں ۔

لوگ چن لیں جس کی تحریریں حوالوں کے لیے

زندگی کی وہ کتاب معتبر ہوجائیے

(ابو المجاہد زاہد ؒ)

(جاری…)