تعلیمی وتعمیری اسفارناظم جامعہ اکل کوا حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی (ماہ اکتوبر تا دسمبر2024)

مدرسہ اسلامیہ فیضِ عام موٹا وراچھاسورت:

             ۹/ اکتوبر۲۰۲۴ء بروز بدھ مدرسہ اسلامیہ فیضِ عام موٹا وراچھاسورت میں ناظمِ جامعہ اکل کوا حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ بعنوان ”مکاتب“ وقت کی اہم ضرورت منعقد ہوا۔اس جلسے میں تقریبا 550 علمائے کرام نے شرکت کی اور حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی# دامت برکاتہم العالیہ کے پر مغز اور پرسوز خطاب سے مستفید ہوئے۔آپ نے تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ بیان فرمایا، جس میں دین اور علم دین کی اہمیت، علم اور علما کا مقام اور اس پرفتن دور میں علما کی ذمہ داریوں پر علم و حکمت سے بھرپور قیمتی باتیں پیش فرمائیں،اور نہایت زور دیتےہوئے کہا کہ میں دنیا کے۳۰/ ملکوں کے سفر کے بعد اس فیصلہ پر پہنچا ہوں کہ اگر ہمارے اکابرین نے یہ مکاتب، مدارس خانقاہی نظام اور یہ دعوت کی مبارک محنت نہ چلائی ہوتی تو ”میں اور آپ اس ملک میں مسلمان نہ ہوتے“۔

            آپ کا بیان نہایت پر مغز اور قیمتی تھا افادیت کے پیش نظر خلاصہٴ بیان مع نکات‘ قارئین کے پیش خدمت ہے:

بیان کے اہم نکات اور خلاصہ:

1-ایمان کی حفاظت : مولانا نے بیان کے آغاز میں فتنوں کے زمانے کا ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فتنوں سے خبردار کیا ہے، جو انسان کو غیر محسوس طریقے پر ایمان سے محروم کر سکتے ہیں۔

2- کامل دین : دین اسلام کی جامعیت بتاتےہوئے کہا کہ دین ِاسلام ایک کامل و مکمل دین ہے، جو ہر زمانے کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کو کسی دوسری تہذیب یا تمدن سے متاثر ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں، کیوں کہ اسلام میں تمام ضروری رہنمائیاں موجود ہیں۔

3- مرعوبیت سے بچاوٴ : آپ نے کہا:مرعوبیت، یعنی دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے متاثر ہو کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جانا، امت کے لیے سب سے بڑا فتنہ ہے۔ اس سے بچ کر اور اسلامی تہذیب وتمدن کے دلداہ ہوکر ہی ہم دین پر مضبوطی سے قائم رہ سکتے ہیں،اور اسلام کی عالم گیریت وحقانیت ثابت کرسکتےہیں۔

4- علم نافع: آپ نےفرمایا:علم کو انسان کے لیے اس وقت تک مفید ونافع قرار نہیں دیا جاسکتا؛ جب تک وہ کسی بزرگ کی صحبت میں رہ کر اپنے کردار اور اخلاق کو بہتر نہ کر لے۔ علم کے ساتھ ساتھ عملی تربیت ضروری ہے۔

5- دنیا کی محبت : دنیا کی محبت کو ہر گناہ کی جڑ قرار دیا گیا ہے، اور اس پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے ایمان کو دنیا کی محبت سے محفوظ رکھیں۔

6-اخلاص : آپ نے اپنے بیان میں بار بار اخلاص کی ضرورت پر زور دیا۔ اعمال کو اللہ کی رضا کے لیے انجام دینے کی ہدایت دی، اور دنیاوی مقاصد سے بچنے کی تلقین کی۔

7-بچوں میں تعلیم کی اہمیت : آپ نے بچوں میں دینی اور دنیاوی تعلیم میں توازن برقرار رکھنے کی نصیحت کی۔ اور مکتب کے معلمین کو یہ ہدایت دی کہ بچوں کو نہ صرف دینی علوم سکھائیں؛ بلکہ ان کی ذہنیت اور فکرکو بھی اسلامی اصولوں کے مطابق پروان چڑھائیں۔

8-اخلاقی تربیت : آپ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کوبھی ضروری قرار دیا۔ اچھے کردار کو زندگی کی کامیابی کا اہم جزو بتایا اور طلبا کو ادب و احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کی نصیحت کی۔

9-فتنوں سے بچاوٴکا طریقہ : امت کو فتنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کرام کی زندگیوں کو اپنانے کی ہدایت کی اور ان کی زندگیوں کو ہر شعبے میں مشعلِ راہ بنانے پرزور دیا۔

10- دعاوٴں کا اہتمام : آپ نے بیان میں دعاوٴں کی اہمیت پر بہت زور دیا اور بچوں کو دعائیں سکھانے اور ان کے معانی سمجھانے کی تلقین فرمائی۔

11-قرآن سے وابستگی : اسی طرح آپ نے قرآن کریم کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے پر زور دیااور قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔

12-اساتذہ کی ذمہ داری : مکتب کے اساتذہ کو بچوں کے ایمان کی حفاظت اور ان کی اخلاقی تربیت پر مکمل توجہ دینے کی تلقین فرمائی۔ اور بچوں کے والدین کے ساتھ بھی رابطے میں رہنے کی ہدایت فرمائی۔

13-معاشرتی فتنوں کا مقابلہ : نیز آپ نے موجودہ دور کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امت کو متحد ہونے اور علماکی رہنمائی میں معاشرتی اصلاح کی کوشش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

14-اولیائے کرام کی صحبت : آپ نے بزرگوں کی صحبت کو لازمی قرار دیتےہوئے فرمایا کہ ایک بزرگ کی صحبت میں بیٹھنا ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے، کیوں کہ اس سے انسان کے دل کی بیماریاں دور ہوتی ہیں، عجب اور تکبر پیدا نہیں ہوتا۔

15- اخلاص کی پہچان : آپ نے اخلاص کی نشانی یہ بتائی کہ اگر کوئی دوسرا بھی ہمارے جیسا کام کر رہا ہو اور ہمیں اس پر خوشی ہو، تو ہم مخلص ہیں۔

16- اولیائے کرام کی برکتیں : اخیر میں آپ نے اولیاء اللہ کی برکتوں اور ان کی زندگی سے رہنمائی لینے کی ضرورت کو اجاگر کیا اور ان کے نقش ِقدم پر چلنے کی تلقین فرمائی۔

            مجلس کے اخیر میں شرکا کی جانب سے سوالات کی پرچیاں بھیجی گئیں،مولانا نے جن کے اطمینان بخش جوابات بنہایت خوش اسلوبی سے دیے، جس سے سامعین کو خوب فائدہ ہوا۔ اس مجلس کے بعد خواتین میں حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ نے”خواتین ِاسلام کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں“ اس عنوان سے پُر مغز وپر سوزوعظ فرمایا۔آپ نے خاص طور سے خواتین اسلام کے ایمانی واقعات کی روشنی میں مستورات کو تربیت ِاولاد کی تلقین کی اور نوجوان بچیوں پر توجہ دینے کی فکر دلائی۔ اس مجلس میں تقریبا 300 خواتین نے شرکت کی۔