اداریــہ: دوسری قسط:
مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد(صاحب)وستانویؔ
علامہ بدیع الزماں النورسیؒ کاخاندانی پس منظر، ولادت اور نام :
علامہ سعید نورسیؒ کے آباؤ اجداد کو دنیوی پیمانوںپر رکھ کر دیکھا جائے تو؛ وہ نہ تو قابل ذکر ہیں اور نہ قابلِ فخر ،مگر اُن کی دین داری ، خاندانی شرافت اور روحانیت سے گہرا تعلق ایسے معیار ہیں کہ انہیں بجا طور پر غیر معمولی کہا جاسکتا ہے ۔ ان کے والد ’’ صوفی مرزا‘‘ (جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے ) ایک درویش منش شخص تھے، جو اپنے دور کے معروف بزرگ ’’ غوث خزان‘‘ سے روحانی نسبت رکھتے تھے۔ جب کہ آپ کی والدہ ماجدہ بھی علاقے کے علمی اور روحانی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔
مشرقی ترکی کے قصبے تبلس کے نواح میں ’’نورس‘‘ نامی گاؤں میں اِس خاندان کے ہاں ۱۸۷۸ء میں ایک بچہ پیدا ہوا ، جس کا نام انہوں نے سعید رکھا۔ اسی گاؤں کی نسبت سے آگے چل کر یہی بچہ سعید نورسی کہلایا ۔ سعید نورسی چوں کہ خداداد غیر معمولی ذہانت وفطانت کا مالک تھا ، اس لیے اس نے وہ علوم وفنون ؛جو عام لوگ دس بارہ سالوں میں مکمل کرتے ہیں صرف چند سال میں نہ صرف پڑھ لیے، بل کہ ان سے متعلقہ علوم کے بارے میں بھی قدرت کی طرف سے انہیں شرحِ صدر بھی حاصل ہوگیا ۔ وہ ۱۳؍ سال کی عمر میں متبحر عالم کی حیثیت سے ہردینی مسئلے پر بحث کرسکتے تھے ۔ ان کی اِس ذہانت اور فہمِ علوم کا چرچا علاقے بھرمیں پھیل گیا ۔
علما ومشائخ نے حیرت واستعجاب کی حالت میں ان سے امتحانات لیے ، ادق مسائل پر گفتگو کی اورکم عمر سعید نے جب اُن کی توقع کے برعکس تسلی بخش جوابات دئیے تو انہیں ’’ بدیع الزماں ‘‘ ( یعنی ایسا فرد جو اپنے عہد میں اپنی کوئی مثال نہ رکھتا ہو ) کہا جانے لگا ۔ بعد میں یہ لقب ان کے نام کااٹوٹ حصہ بن گیا ۔ تبحرِعلمی کی وجہ سے انہیں لڑکپن میں ہی ’’ ملا سعید نورسی ‘‘ بھی کہا جاتا تھا ۔ ’’ ملا‘‘ بڑے عالم دین کو کہا جاتا تھا ، جو آج کل ہمارے ہاں معنویت کھو کر کلمۂ تحقیر بن چکا ہے ۔
علامہ سعید نورسیؒ کادور:
آپ نے اُس دور میں شعور کی آنکھیں کھولیں، جب مغربی تہذیب سر پٹ گھوڑوں پر سوار شعائرِ اسلام کو روندتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ۔ عثمانی خلافت کے خلاف استعماری سازشیں کامیاب ہورہی تھیں اور سلطنت روز بہ روز سمٹ رہی تھی ؛یہی وجہ ہے کہ مختصر عرصے میں مروجہ دینی کتب پڑھ لینے کے بعد بھی نو رسی اسلامی علوم وفنون پر اکابرین کی کتب پڑھتے رہے اور ۸۰؍ کے قریب کتب انہوں نے زبانی بھی یاد کرلیں، مگر ان کا اضطراب ہل من مزید کا تقاضا کرتا رہا ۔
وہ آغاز شباب سے ہی ہنگامہ آرا زندگی میں قدم رکھ چکے تھے ۔ فطرت انہیں نوا پر مجبور کرتی تھی اور حاسدین انہیںنئے سے نئے چیلنجز سے دو چار رکھتے تھے ۔ انہو ں نے حصولِ تعلیم کے لیے زیادہ ادارے اس لیے بھی تبدیل کیے کہ وہ کہیں سے بھی مطمئن نہیں ہو پارہے تھے ۔ عزتِ نفس ، تعمیرِ اخلاق ، تزکیۂ باطن اور اخلاصِ عمل ان کی اپنی شخصیت کا لازمی حصہ تھے ،مگرانہیں مدار س اور خانقاہوں پر یہ چیزیں کما حقہ نظر نہیں آتی تھیں۔
اور دوسری طرف وہ سائنس اور ٹیکنا لوجی کی صدی میں زندگی گزار رہے تھے۔ اور جس طوفان کا وہ مقابلہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے وہ طوفان عقلی دلائل اور سائنسی تحقیقات کے بل بوتے پرآگے بڑھ رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے مختلف اوقات میں تمام مروجہ سائنسی علوم بھی یعنی نصابی کتب پڑھ لیں۔
یہ تمام مذہبی اور سائنسی علوم بعد ازاں انہیں فہم قرآن کے لیے سیڑھی کے طور پر کام آئے ۔ شہر شہر اور بستی بستی گھوم پھر کر ان علوم کو آپ نے حاصل کیا،ان کے حصول سے فراغت کے وقت سعید نورسیؒ صرف ۳۰؍ سال کے ہوئے تھے ۔
خدمت قرآن کو مقصدِ حیات بنانے کا عزم :
سعید نورسیؒ کی روحانی رہ نمائی ساتھ ساتھ ہورہی تھی ۔ وہ اس دوران دعوت ، اصلاح اور بیداریٔ شعور کا کام بھی کررہے تھے ، مگرابھی تک کسی واضح مشن اور راستے کا تعین نہیں ہوسکا تھا ۔ اس دوران وہ دو واقعات کو قرآن کی طرف متوجہ ہونے اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اس کے علوم کو پھیلانے میں صرف کردینے کا سبب قراردیتے ہیں۔ اول سے قبل کے ایک خواب کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں :
’’ وہ ایک مشہور پہاڑی کے دامن میں کھڑے ہیں کہ اچانک وہ پہاڑ ایک زور دار دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا ہے اور اس کے ٹکڑے پوری دنیا میں پھیل رہے ہیں ۔ ایک اہم شخصیت نے مجھے مخاطب کرکے حکم دیا ’’قرآن کے معجزہ ہونے کا بیان کرو‘‘ ۔ میں سمجھ گیا کہ دنیا ایک بڑے حادثے سے دو چار ہونے والی ہے ۔ اس کے بعد قرآ ن کی حرمت اور صداقت پر حملے ہوںگے اور ان حملوں کا علاج خو د قرآنی معجزات کے بیان سے ہی ممکن ہوگا ؛ چناںچہ میں سمجھ گیا کہ قدرت اس سلسلے میں مجھ سے خدمت لینا چاہتی ہے، لہٰذا میں نے خود کو اِس محاذ پر مسلح کرنا شروع کردیا ۔ ‘‘
اسی دوران ان کی ترجیحات میں انقلاب بر پا کرنے کا باعث ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں وزیر نو آبادیات ’’ ولیم گالیڈسٹون‘‘ نے اپنی ایک تقریر میں قرآن دکھاتے ہوئے کہا تھا:
’’ جب تک یہ قرآن مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ، ہم ان پرحاوی نہیں ہوسکتے ۔ ہمیں چاہیے کہ جس طرح بھی ہو قرآن ان کے ہاتھوں سے چھین لیں یا پھر مسلمانوں کو اِس قرآن سے لا تعلق بنادیں ۔‘‘
اخبارات میں شائع ہونے والی اِس خبر نے سعید نورسی کی حساس طبیعت پر گہرا اثر کیا اور اسی لمحے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ میں قرآن ِکریم کے اُن دشمنوں کے منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دوںگا۔ اور جس قرآن کو وہ مسلمانوں سے چھین لینا چاہتے ہیں اسے ایک لافانی قوت بناکر مسلمانوں کے امراض کا علاج تلاش کروںگا ۔ میں دنیا پر ثابت کردوںگا کہ قرآن ایک معنوی سورج ہے ، جو نہ بجھ سکتا ہے اور نہ بجھایا جاسکتا ہے ۔ اس عہد کے بعد انہوں نے اپنے سارے افکار ، خیالات ، قابلیتیں ، حافظہ اور ذکاوت کو قرآن کی خدمت پر نثار کردی۔ ان کی زندگی کا واحد ہدف اور حصول علم کا مقصد؛ علوم قرآن کی ترویج ٹھہرا ۔ ان کی علمی کاوشیں نئی نسل کے ذہنوں میں پائے جانے والے تمام تر اشکالات کو دور کرنے پر منحصر ہوگئیں ۔ وہ دروسِ قرآن دینے لگے اور تصانیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔
یونی ور سٹی کے قیام کا منصوبہ :
بدیع الزماں نے جب اپنے مقصد کا تعین کرلیا تو ضروری تھا کہ وہ اس کی ٹھوس منصوبہ بندی کرتے ۔ چناں چہ انہوں نے اپنے قریبی دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ مشرقی ترکی میں ایک عالمی تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لائیں گے، جہاں جامعہ ازہر سے بڑھ کر جدید وقدیم علوم وفنون کی تعلیم ممکن ہوسکے گی ۔ اس مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اُن کو مالی وسائل اور وسیع خطۂ اراضی کی ضرورت تھی ۔ اس لیے وہ سلطان عبد الحمید (جو علم دوستی کی اچھی شہرت رکھتے تھے )کو ملنے کے قصد سے استنبول آئے ۔
یہ ۱۹۰۷ء کا واقعہ ہے اور اس وقت سعید نورسی ۳۹؍ سال کے ہوچکے تھے ۔ انہوں نے متوقع یونی ورسٹی کا نام ’’جامعہ فاطمۃ الزہرا‘‘ رکھا تھا ۔ بدیع الزماں اس یونی ورسٹی کے ساتھ ساتھ پورے ترکی اور بالخصوص مشرقی علاقے میں جدید وقدیم تعلیمی اداروں میں نئے نصاب تعلیم کے خواہاں تھے ۔ انہوںنے سلطان کے وزیر اعظم کے نام لکھے گئے ایک مراسلے میں مسلمانوں کو لاحق امراض کا واحد علا ج علمی برتری اورترقی کو قرار دیا اورکہا کہ اِس وقت ایک طرف مسلمانوں کے ہاں روایتی مذہبی ادارے کام کررہے ہیںاور دوسری طرف کچھ خانقاہیں ہیں ،جہاں روحانی تربیت دی جاتی ہے اوراب تیسرا شعبہ جدید تعلیمی اداروں کی صورت میں سامنے آرہا ہے ،جہاںجدید علوم کی تدریس ہورہی ہے ۔
حقیقت میں یہ تینوں شعبے تعلیم و تربیت کی الگ الگ ضرورتیں پوری کررہے ہیں ۔ مستقبل قریب میں یہ نظام اچھی خاصی قباحتیں لائے گا، ہر شخص دوسرے کو جاہل اور گمراہ کہے گا ۔ اس لیے ضروری ہے کہ تینوں اداروں کے درمیان کوئی فعال مرکزیت قائم کی جائے ، جدید مکاتب میں دینی تعلیم کا بندو بست ہو اوردینی اداروں اور خانقاہوں میں جدید تعلیم کا معقول اہتمام کیا جائے۔ ورنہ حکومتی کاوشیں الگ ضائع ہوںگی اورقوم کو آنے والے سخت ترین حالات کے لیے تیاری میں کما حقہ مددبھی نہیں مل سکے گی ۔
اگر بغور دیکھا جائے تویہ نہایت قیمتی تجاویز تھیں۔ مگر شاہی اور بد نیت جرنیل سعید نورسی اورسلطان کے درمیان حائل ہوگئے ۔ جو شخص امت میں تعلیمی انقلاب کی امنگ لے کرخلیفہ کے پاس گیاتھا ، اسے شاہی دقیانوسوں نے پاگل قرار دے کر استنبول کے پاگل خانے پہنچادیا ۔
یہ ہوتے ہیں پرویزی حیلے اور اقتدار کی اندھی راہ داریوں میں پروان چڑھنے والی خطرناک سازشیں ؛جن کی موجودگی میں اگر حکمران خود آگاہ اور ماحول کو اچھی طرح نہ سمجھتا ہو تو درباری کیا سے کیا بنادیتے ہیں ؟ دنیائے اسلام کا یہ بطلِ جلیل جو تڑپ ، اداراک اور فہم وبصیرت رکھتا تھا اسے محدود مفادات کے پجا ریوں نے پاگل قرا ر دے دیا؛ چناں چہ پاگل خانے والے ڈاکٹر نے جب نورسی صاحب سے حقیقت حال پوچھی تو ان کی گفتگو سننے کے بعد اُس نے لکھا :
’’استنبول میں آنے والوں میں یہ شخص نہایت ذہین ، وطن دوست اور مسلمانوں کا خیر خواہ ہے ۔ اِسے پاگل قراردیا جائے تو دنیا میں کوئی شخص بھی عقل مند نہیں کہلائے گا ۔ ‘‘
بو کھلائے ہوئے شاہی مشیروں نے اس سازش کی ناکامی پر ایک اور حربہ کھیلا ۔ انہو ں نے سلطان کی طرف سے نورسی کے لیے ماہانہ وظیفہ ، کچھ انعامات اور ملازمت کا لالچ دے دیا ، جس کو سعید نورسی نے پائے حقارت کے ساتھ رد کردیا۔ انہیں استنبول آکر شاہی خزانے سے یونی ورسٹی کے لیے مالی امداد تو نہ ملی، مگر قدرت نے انہیں مرکزِ خلافت کی صورتِ حال سے مکمل اور قریب سے آگہی کا بندو بست کردیا ۔ وہ استنبول آتے ہوئے کئی مقامات پر رکے اوروہاں کے تعلیمی اداروں میں جاکر صورتِ حال کا قریب سے جائزہ لیا۔ انہوں نے استنبول کے اہلِ علم کو متوجہ کرنے کے لیے اپنے قیام گاہ کے باہر یہ لکھ کر لگا دیا ۔
’’ یہاں ہر شخص کے ہر سوال کا ہر وقت جواب دیاجاتا ہے ۔‘‘
چناں چہ علما اور طلبا کا ایک ہجوم امڈ آیا اور سب لوگ اپنا اپنا سوال کرکے مطمئن ہوکر جارہے تھے ۔شاہ پرستوں کو نورسی کی شہرت اور عزت کا باعث بننے والی یہ چیز بھی گوارہ نہ ہوئی اور انہیں جیل بھجوادیا ۔
غالباً نورسی کی زندگی میں یہ پہلی سزائے قید تھی ، جوانہیں سرکاری مراعات (جو انہیں رشوت کے طور پر دی جارہی تھیں ) قبول نہ کرنے پر بھگتنا پڑی ۔اسی دوران آزادی کی تحریک نے استنبول سمیت پورے ترکی میں سراٹھالیا ۔ نورسی صاحب قید سے رہا ہوگئے ،مگر انہو ں نے حالات کا بہت سنجیدگی سے جائزہ لینا شروع کردیا ۔ ایک طرف انگریز سلطان کے گرد گھیرا تنگ کرچکے تھے ، دوسری طرف ترک عوام کے اندر بغاوت کے جراثیم دن بہ دن بڑھ رہے تھے اور تیسری طرف نورسی جیسے زیرک لوگوں کو یہ احساس بھی ہورہا تھا کہ کہیں اِس انقلاب میں اسلام کا نقصان نہ ہوجائے اورلوگ اسلامی شعارسے منہ نہ موڑنے لگیں۔
نورسی کا یہ اندازہ آئندہ دنوں میں سو فیصد سچا ثابت ہوگیا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دوسال تک استنبول میں ہی ٹھہرے رہے ۔ وہ ایک دانش ور ، حریت پسند اور بے مثال عالم کی حیثیت سے خواص و عوام میں مقبول ہورہے تھے ۔ انہوں نے خصوصی اجلاسوں اور عوامی اجتماعات میں لوگوں کے اندر انقلاب کی روح پھونک دی اور انہیں اسلام اور امت مسلمہ سے اخلاص کی راہ پر گامزن رکھنے کی بھر پو ر کاوش کی ۔
دعوتِ اعتدال وانقلاب :
سعید نورسی اِس اضطراب کے دوران اپنا نقطۂ نظراخبارات اور مجالس کے ذریعے لوگوں تک پہنچاتے رہے ۔ وہ اس بیداری اور اضطراب کو اسلام سے برگشتہ نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ اس دوران کی گئی تقاریر میں سے ایک کا خلاصہ ملاحظہ ہو:
’’ اے مظلوم اہالیانِ وطن ! آؤ ہم شرعی قوانین کی چھتری کے نیچے آجائیں،جو ہمیں پکار پکار کردعوت دے رہے ہیں ۔ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے انقلاب کی راہ ہموار کریں۔ اس منزل کی طرف جانے کا پہلا دروازہ دلوںکا اتحاد ہے ۔ دوسرا دروازہ قومی غیرت و محبت ہے۔ تیسرا دروازہ تعلیم اور شعور ہے ۔ چوتھا دروازہ انتھک محنت اور جدو جہد ہے اور پانچواں دروازہ گناہوں کو خیر باد کہہ کر اپنے خالق سے رجوع ہے۔
خبر دار اے اہالیان وطن! حریت کے غلط معنی نہ نکال لینا۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے ہاتھوں سے حریت بھی جاتی رہے اور شریعت بھی ۔ یاد رکھو آزادی ، قوانین کی پاسداری ، شریعت پر عمل کرنے اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ کردار کو سنوارنے سے زندہ رہتی اور پھلتی پھولتی ہے۔ ‘‘
صاف ظاہر ہے کہ عثمانی خلافت کے گرد جس سازشی ماحول نے گھیرے ڈال رکھے تھے اس میں یہود ونصاریٰ کی سازشیں زوروں پر تھیں۔ ایسے میں ایک شخص کی آواز کا کتنا اثر ہوسکتا تھا؟ لیکن اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی سعید نورسی نے اِحقاقِ حق کے مشن سے ایک دن بھی قدم پیچھے نہیں ہٹایا ۔
نورسی صاحب کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہوتا رہا کہ اُن کو اکثر و بیشتر نا کردہ گناہوں کی سزا بھی دی جاتی رہی ۔ اسی قیام استنبول کے آخری دنوں میں ان پر باغیوں کو حکومت کے خلاف اکسانے کا مقدمہ قائم کیاگیااور انہیں پھانسی کی سزاکے لیے قید کرلیا گیا؛ حالا ں کہ مسلح بغاوت پر آمادہ لوگوں کو نورسی صاحب نے سختی سے خون خرابے سے منع کیااور ایسی تحریک میں شامل ہونے سے صاف انکارکردیا ،جس کے نتیجے میں کسی سازش کے تحت یہ بغاوت پنپ گئی اور جب جانی نقصان ہوا تو اس کا سب سے بڑا مجرم نورسی صاحب کو ٹھہرا یا گیا ۔ جب فوجی عدالتی بنچ کے سامنے نورسی دلائل دے رہے تھے تو دوسری طرف باغ میں ۱۵؍ ایسے علما کی لاشیں تختۂ دار سے لٹکی ہوئی تھیں، جو نفاذِ شریعت کے نعرے کے لیے مسلح جدوجہد منظم کررہے تھے ۔ حالاں کہ نورسی ایسی مزاحمتی تحریک کے مخالف تھے، لیکن جب عدالت نے ان سے سوال کیا کہ کیا تم بھی نفاذ شریعت کے علمبردار ہو ؟ جواب میں سعید نورسی نے عدالتی بنچ کو مخاطب کرکے فرمایا :
’’ جہاں تک نفاذِ شریعت کی خواہش کا تعلق ہے وہ تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ اس کی خاطر ایک جان تو کیا میری ہزار جانیں بھی ہوں تو انہیں قربان کرنے کو تیار ہوں؛ کیوں کہ شریعت ہی سعادت ِابدی اور حقیقی انصاف کا ذریعہ ہے ،مگریہ قربانی اس طرح جائز نہیں جس طرح باغیوں نے دی ۔ ‘‘
نورسی صاحب پر ایک مذہبی تنظیم ’’ اتحادِمحمدی ‘‘ کو منظم کرنے کا بھی الزام تھا ۔ عدالت نے ان سے دوسرا سوال یہ کیا کہ تم’’ اتحاد محمدی ‘‘ میں شامل ہو ۔ آپ نے کہا :
’’ ہاں ! یہ میرے لیے فخر کی بات ہے ۔کیوںکہ اتحادِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آفاقی سلسلہ ہے، جس کے افرا د کی تعداد ۳؍ سو ملین ہے ۔ سلسلۂ نورسی کایہ سلسلہ مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا ہے، اس اتحاد کا نقطۂ ارتباط توحید الٰہی ہے، اس کا عہد وپیمان ایمان ہے، اِس کے ممبران کا رجسٹریشن لوح محفوظ میں ہوچکا ہے ، اِ س اتحاد کا لٹریچر اسلامی ذخیرۂ کتب ہیں، جن کا منبع ومصدر قرآن ہے ، اس اتحاد کے دفاتر فخر جمعیت کے سرپرست اور رئیس ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ، اس کا منشور یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اخلاق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع کردے اور پوری انسانیت کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل کردے۔ ‘‘
سعید نورسی نے عدالت میں بے باکانہ طریقے سے حقائق سے نقاب کشائی کی ۔ آپ نے کہا :
’’ یہ حکومت د ورِ استبداد میں عقل کی دشمن بھی تھی اور اب یہ زندگی کی دشمن ہوگئی ہے ۔ اگریہ حکومت یہی کچھ کرتی رہی تو ہمارے لیے موت زندہ باد اور تمہارے لیے جہنم زندہ باد ۔‘‘
بدیع الزماں یہ دلائل دیتے ہوئے خیال کررہے تھے کہ ابھی مجھے پھانسی کی سزا سنادی جائے گی۔ مگر جب انہوں نے دلائل ختم کیے تو عدالتی بنچ نے انہیں حیران کن طریقے سے بری کردیا ۔ صرف یہی موقع نہیں ان کی زندگی میں قدم قدم پر موت ان سے آنکھ مچولی کھیلتی رہی اور وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی کا فلسفہ سمجھاتے رہے۔
شیخ الازہر کا اعتراف :
قیام استنبول کی دوسالہ ہنگامہ آرا زندگی میں استاد نورسی نے عثمانی حکومت کے شیخ الاسلام کے فتوؤں کو چیلنج کیا ،جو مصلحت پر مبنی ہوتے تھے اور ان میںاسلام کی حقیقی روح کار فرمانہیں ہوتی تھی۔ سعید نورسی نے عالم شباب میں خواص وعوام کے دلوں میں اتنا مقام ومرتبہ بنالیا تھاکہ ان کا چیلنج کیا ہوا فتویٰ خود بہ خود بے وقعت ہوجاتا تھا۔ یہ صورتِ حال خلافتِ عثمانیہ کے لیے کافی مشکل ہوگئی تھی ۔ انہوں نے بالآخر ایک مرتبہ شیخ الازہرمحمد بخیت بن حسین المطیعی(جومصر کے مفتی اعظم بھی رہ چکے تھے)کو دعوت دی کہ وہ اس جوان عالم دین سے آکر بات کریں۔ حسب ِپروگرام ایا صوفیہ کی مسجد میں نماز کے بعد مناظر ے کا وقت طے کیا گیا ۔ استاد نورسی حسبِ معمول اطمینان وسکون کے ساتھ خالی ہاتھ شیخ الازہر کو ملے۔ اس موقع پر استنبول کے درجنوں علما بھی موجود تھے ۔ شیخ نے نورسی صاحب سے شیخ الاسلام کی مخالفت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے مختصر الفاظ میں یوں وضاحت کردی۔
’’ حکومتِ عثمانیہ اس وقت مغربی اثرو نفوذ سے حاملہ ہوچکی ہے اور کسی بھی وقت اس کے پیٹ سے یورپی طرز کی حکومت جنم لے سکتی ہے ۔ اسی طرح یورپ کے پیٹ میں بھی اسلام پر ورش پارہا ہے اور کچھ دیر کے بعد وہاں بھی اسلامی طرز کی حکومت کا جنم ہوگا ۔ ‘‘
یہ اتنا جامع اورحال ومستقبل کی حقیقتوں سے قریب تر جواب تھا کہ شیخ الازہر نے اعلان کردیا:
’’ میں اِس نوجوان کے ساتھ کوئی مناظرہ اورسوال و جواب نہیں کروںگا؛ کیوں کہ یہ اپنے فکر وخیال میں واضح اورحق پر ہے ۔‘‘
استاذ نورسی کا تجزیہ سوفیصد صحیح تھا ؛کیوں کہ اس واقعہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کرکے سیکولر حکومت کا اعلان کردیا ؛جہاں تک یورپ میں اسلامی حکومت کی پیشین گوئی کا تعلق ہے تو اس کے آثار کئی مقامات پرظاہر ہورہے ہیں۔ خو د یورپی ادارے اور حکومتیں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اورر اثرو نفوذ سے گھبرائے ہوئے ہیں ۔
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کا رواں ہمارا
اس دوسالہ ہنگامہ خیز قیام استنبول نے استاد نورسی کی آئندہ کوششوں کو نئی زندگی اورنئی سمت دی۔ وہ جس تعلیمی انقلاب کی امنگ لے کر یہاں آئے تھے۔ اس کی طرف اب انہو ں خودہی توجہ دینی تھی، کیوں کہ قصر خلافت میں موجودہ خلیفہ اور اس کے کارندے روایتی سیاست میں مگن تھے اور محلاتی سازشیں زوروں پر تھیں۔ نورسی صاحب نے ان دوسالوں میںیہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ حکومت خود چراغِ آخرِ سحر ہے ۔ اب جو کرنا ہے ہمیں خود ہی کرنا ہے، اس لیے انہوں نے استنبول سے مشرقی ترکی کے علاقے ’’ وان‘‘ میں جانے کا قصد کرلیا ۔ انہوں نے استنبول سے جاتے ہوئے ایک خوب صورت بیان قلمبند کروایا جس کے الفاظ یہ تھے :
’’ اے معظم استنبول ! میں نے تجھ میں مساوات اور عظمت بھی دیکھی اور استبداد بھی ۔میں یہاں تعلیمی درس گاہ کی خواہش لے کرآیا، مگر مجھے پاگل خانے میں بھیج دیاگیا ، میں نے یہا ںکے ادیب بھی دیکھے جہاں تک میں ادیب کا مطلب سمجھتا ہوں وہ با ادب لوگ ہوتے ہیں ،اخبار و افکار کی تربیت کرتے ہیں، مگر یہاں یہ سارا معاملہ الٹ ہے ۔ اخبارات سنسنی خیزی اور بد نیتی کے فروغ میں لگے ہوئے ہیں ،جب کہ ادیب بے ادب ہوچکے ہیں ،اگر صحافت اور ادب یہی کچھ ہے تو گواہ رہنا میں اس سے باز آیا ۔ اب میں ان اخبارات کی بجائے مشرقی پہاڑ وں پر بیٹھ کر کائنات اور انسان کا مطالعہ کروں گا ۔ ہمارے فیض کی فضا تمناؤں کی لعنت سے پاک ہے ،ہمیں ہر طرف سے استغنا کا سبق پڑھایا گیا ہے ، ہم ایسے مجنوںہیں جو وصالِ لیلیٰ سے بھی مستغنی ہیں ۔‘‘
ان یاد گار کلمات کے ساتھ انہوںنے شہروں کے سردا رِ استنبول سے واپسی کا ارادہ کیااور ’’ وان‘‘ جاتے ہوئے ایک جگہ ’’ طفلس ‘‘ رک کر ’’جامعہ فاطمۃ الزہرا ‘‘ کے لیے مناسب جگہ کی تلاش شروع کردی ۔ ’’وان ‘‘ میں ان کے عقیدت مند کثیر تعداد میں موجود تھے ۔ آپ نے وہاں دوبارہ عوام کی اصلاح اور تعلیم وتربیت کا کام زور وشور سے شروع کردیا۔ اس دوران علما سے بحث و مباحثے ، مذاکرے ، دروس اور سوال وجواب کی بھر پور مجالس سجتی رہیں ۔ ان دروس اور جوابات میں بیان کی گئی تعلیمات پر مشتمل ان کی دو کتب بھی مرتب کرلی گئیں۔ جن میں سے ایک کانام ’’صیقلِ اسلام‘‘ اور دوسری کا نام ’’ نسخۂ اکراد ‘‘ ہے ۔ (کلمات : ۴۷-۵۶)
درس گاہ کے قیام کی ایک اورکاوش:
اسی سال ۱۹۱۱ء میں استادنورسی دمشق سے بیروت کے راستے استنبول روانہ ہوئے ۔استنبول میں اب تختِ خلافت پرسلطان رشادمتمکن تھا۔نورسی اپنے قریبی دوستوںکے ذریعے سلطان سے ملے،سلطان نے نہ صرف قدرافزائی کی،بل کہ مملکت ِعثمانیہ کے یورپی علاقوںکے دورے پراپنے ساتھ رکھا۔سلطان نے کسوومیں ایک یونی ورسٹی کی منظوری دی تھی ،مگروہاں جنگِ عظیم سے قبل ہونے والی بلقان کی جنگ شروع ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ التوامیں پڑگیا؛چناںچہ سعیدنورسی نے سلطان سے وہی بجٹ مشرقی ترکی میں زیرغوریونی ورسٹی کے لیے مختص کروالیا۔سعیدنورسی نے اپنی پسندیدہ جگہ’’ وان ‘‘میںاپنی خوابوںکی تعبیرکے طورپریونی ورسٹی کاسنگِ بنیادرکھ دیاتھاکہ پہلی جنگِ عظیم کاآغازہوگیااوریہ تعلیمی پروگرام بھی لاکھوں انسانوںکی طرح جنگی شعلوںکی نذرہوگیا۔
جہادمیں عملی شمولیت مگربغاوت سے پرہیز:
یہ بڑی دل چسپ اورایمان افروز بات ہے کہ سعیدنورسی جیساعملی شخص ایک طرف دشمنانِ اسلام کے خلاف عملی جہادمیں محاذِ جنگ پرنظرآتاہے ،لیکن جب عثمانی حکومت کی بعض بے اعتدالیوںاورخلافِ شریعت امورکی سرپرستی کرنے والے اُمرائے سلطنت کے برگزیدہ مشائخ وعلمانے انہیں آمادہ ٔ بغاوت کرناچاہاتو انہوںنے صاف انکارکردیا۔اِس انکارسے اُس وقت کی مذہبی قیادت نورسی صاحب سے ناراض بھی رہی ،لیکن انہوںنے کہامیںایسے مسلمان لشکریوںکے خلاف کیسے صف آراہوسکتاہوں،جن میں لاکھوںلوگوںکانصیب شہادت کی موت ہے ۔ بعدازاںجب جنگِ عظیم اول بپاہوئی تووہی مسلمان فوج دشمنوںکے خلاف صف آراہوئی اورکئی لاکھ فوجی شہیدہوئے ۔یوں نورسی صاحب کاقول سچ ثابت ہوا،جن لوگوںنے ناراض ہوکر بغاوت کاراستہ اپنایاوہ خودبھی اوران کے ہاتھوںکئی مسلمان اِس بے نتیجہ جنگ میں ہلاک ہوئے ۔
ایک طرف تونورسی اسلام کی علمی،روحانی اورتربیتی خدمت میں مصروفِ عمل تھے،مگرجب روس نے مشرقی ترکی پر تینوں اطراف سے حملہ کردیااورمسلمان علاقوں میں شدید بے چینی اوراضطراب پھیل گیاتونورسی درس وتدریس اورقلم وقرطاس کی دنیاسے نکل کرمیدان ِجہادمیں آکھڑے ہوگئے۔انہیں عثمانی سلطنت کے کمانڈران چیف انورپاشانے مشرقی ترکی میں خصوصی فوج ملیشیاتیارکرنے کی درخواست کی ؛چناںچہ نورسی نے حسبِ عادت پوری جانفشانی اورمحنت کے ساتھ ہزاروں رضاکارمجاہدوںکے دستے تیارکیے ۔ان کوخصوصی تربیت دی اورتھوڑے ہی عرصے میں یہ جہادی دستے مسلمان علاقوںکی دفاع کے لیے محاذجنگ پرسرکاری فوجوںکے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوگئے ۔ان کی خصوصی وردی تھی اوردشمن کی فوجوں پراُس ملیشیاکااس قدررعب تھاکہ اس وردی میںکسی کوبھی دیکھتے ،توان کی دوڑیںلگ جاتیں؛چناںچہ محاذجنگ پردشمنوںکوروک کر ایک طرف ان فوجی دستوں نے مسلمان لوگوںکواطمینان کے ساتھ نقلِ مکانی کاموقع دیااوردوسری طرف دشمن کو شدید مزاحمت کااحساس ہوااورمسلمان قتل عام سے حتی الامکان بچ گئے ۔ (کلمات : ۵۸-۶۰)
نئی منزلوںکاسراغ:
سیاسی سطح پرشکست خوردہ دین اسلام کی روحانی برکات اورایمانی کیفیات کوآئندہ نسلوںتک صاف ستھری حالت میں باقی رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سعیدنورسی کی باطنی دنیاکووسعت ِآفاقیت اوریقینِ محکم جیسی روحانی خوبیوںسے نوازدیاتھا۔وہ اس روحانی انقلاب سے گزرکراپنی منزل کاتعین کرچکے تھے،اب انہوںنے خودکو’’سعیدِنو‘‘کہناشروع کردیاتھا۔گویانیاسعید،خالصۃً ایک روحانی شخصیت تھی،جس طرح قدرت نے کسی دورمیں امام غزالیؒ کواسی نوعیت کے باطنی انقلاب سے ہمکنارکرکے ’’احیائے علوم الدین‘‘لکھوائی،جورہتی دنیاتک اسلام کے فلسفۂ اخلاق پر ایک علمی شاہ کارہے ۔یایونانی فکرِ فلسفہ کی اثرانگیزی سے اسلامی تعلیمات کومحفوظ کرنے کے لیے مولاناروم سے مثنوی لکھوائی ،جس نے عشق اورمحبت کی معنویت کواجاگرکیا،اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے سعیدنورسیؒ کوبیسویں صدی کے چیلنجز کامقابلہ کرنے کے لیے ان سے ’’رسائل نور‘‘مرتب کروائے ۔رسائلِ نوران کی تصنیفات کاایسامجموعہ ہے ،جوانہوںنے قیدِتنہائی ،جیل اورانتہائی دردوآلام سے زخمی قلب وجگرکوتھام کرلکھے ہیں۔
تاریخِ اسلام میں یہ عجوبہ بھی بدیع الزماںکے حصے میںآیاہے کہ ان کے ذمے لگنے والاکام جس قدرعظیم اورحساس تھااُسی قدرقیدوبند،مشکلات ومصائب ،مسافرت ،تنہائی اوراسی طرح کے حالات سے دوچارتھا،جن کاتصورکرکے ہی ایک عام انسان کانپ جاتاہے ۔مگرآفرین ہے اس مردِباصفاپر،جوہرقدم پرمسکراتے رہے اورغموںکے سارے موسم انہوںنے اسلام کی بہارکے سہارے گزاردیے ۔
انہوںنے اِن ناموافق ترین حالات میں دنیاکابہترین تفسیری ادب تحریر کیا۔رسائلِ نوردراصل بیسویں صدی کاوہ مؤثرترین اسلامی لٹریچرہے ،جس میں نئے زمانوںکے نئے تقاضوںکوسامنے رکھ کرقرآن کی عقلی،سائنسی اورروحانی تفسیرپیش کی گئی ہے ۔یہ رسائل جس دورمیں لکھے گئے وہ اسلام پرالحاداوربے یقینی کے حملوں کادورتھا۔کمیونسٹ انقلاب نے معاشی حقوق کے نام سے لوگوں کومذہب اورعقیدے سے دورکردیاتھا،اسی طرح یورپ کی صنعتی ترقی میںانسان نے اخلاقیات کو غیرضروری قراردے دیاتھا۔سائنس اورمنطق ہربات پر دلیل طلب کررہی تھی ،جب کہ علماروایت پرستی سے باہرنکلنے کوتیارنہ تھے۔اللہ تعالیٰ نے یہ خدمت سعیدنورسی کے فکر ِرسا اورمضبوط ایمانی شخصیت اوران کے غیرمعمولی حافظے سے لی،جس دورمیں انہوںنے رسائل ِنورلکھناشروع کیاوہ نورسی صاحب کاسب سے مشکل دورتھا۔انہیںکوئی کتب خانہ اس لیے میسرنہ آسکاکہ وہ کسی جگہ چندماہ سے زیادہ ٹھہرہی نہ سکے تھے۔کوئی مرکزِتسکین نہیں تھااورنہ کوئی گوشۂ تحقیق۔ایک تھانے سے دوسرے تھانے میں ،ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ،ایک شہرسے دوسرے شہرمیں اورایک بستی سے دوسری بستی میں گھمایاجاتا رہا۔ استعماری ایجنٹوںکواُن کی شخصیت سے خطرات محسوس ہوئے تھے ،وہ یہی تھے کہ یہ شخص جہاں جاتاہے اس کے ساتھ تلامذہ کی اچھی خاصی تعدادجمع ہوجاتی ہے ۔یہ جنگل میں جائے یاتھانے میں،اپنے ہم نواپیداکرہی لیتاہے ۔ اس لیے حکومت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ اذیت ناک ماحول میںاورزیادہ سے زیادہ قیدِ تنہائی میں رکھاجائے ۔مگرفطرت جس پرمہربان ہووہ فضاؤںکوبھی ہم نوابنالیتاہے ۔یہی سعیدنورسی کے ساتھ ہوتارہا،وہ جہاں جاتے رہے ان کی متاثرکن شخصیت نئے نئے گلستان آبادکرتی گئی۔
یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
ان کے حالاتِ زندگی پر لکھی جانے والی کتب میں ان مقامات کی دل چسپ تفصیلات موجودہیں۔اُن رفقائے کارکے اسمائے گرامی آج بھی اس دعوت وعزیمت کی داستان میں موتیوںکی طرح جڑے ہوئے ہیں ،جوراتوںکی تاریکی میں حکومتی گماشتوںکی نظروںسے چھپ چھپ کر اپنے ہاتھوں سے استادنورسی کے ان رسائل کونقل کرتے تھے اورپھر انہیں ملک کے کونے کونے میں پھیلانے میں جٹے رہتے تھے۔ایسے تلامذہ نورکووہ قدرت کاخصوصی عطیہ سمجھتے تھے،جواس نورانی مشن کو ان سے لے کرمخلوق تک پہنچانے میں جان کی بازی لگاتے تھے،اس سفرعزیمت میں بہت سے طلبائے نورکوسزائیں ہوئیں ،جرمانے ہوئے، جیلوںمیں رہے اوران کے بیوی بچوںکوبھی زمانے کی تلخیاں جھیلنی پڑیں۔اُن سب کاجرم وہی تھاجونورسی کاجرم تھا،اپنے ایمان کی حفاظت اوردوسروںکے ایمانوںکی فکر۔
۱۹۵۰ء میں جاکرحکومتی رویوںمیں تھوڑی تبدیلی آئی ۔بعض حلقوںکی برف پگھلناشروع ہوئی اورعدالتوںمیں جاری بے شمارمقدمات ختم ہوئے ،جس کے بعدرسائل باقاعدہ مطبع خانوںسے چھپناشروع ہوئے ۔یہ ناموردانش ور،صوفی ،مجدداورحکیم الامت ۱۹۶۰ء میں تقریباً ۸۳؍ سال کی عمرمیں واصل بحق ہوگئے ۔ جس طرح ان کی زندگی عجائبات سے بھری پڑی ہے ،اسی طرح ان کی موت اورقبرکے احوال بھی حیران کن ہیں۔ ہزاروںتلامذۂ نورنے ان کودفن کیامگرآج ان کی قبرگمنام ہے ۔ان کی خواہش کے عینِ مطابق اب ان سے محبت کرنے والے ان کی قبرتلاش کرنے کے بجائے ان کے رسائلِ نورکی خدمت میں سرگرداں ہیں۔زندگی میں جس طرح بے ریااورمستغنی رہے وصال کے بعدبھی ریاکے کسی نشان کاشائبہ نہیں رہنے دیا۔اس وقت ان کے رسائل نورکادنیاکی بڑی زبانوںمیں ترجمہ ہوچکاہے ۔عربی میں ان رسائل کے ۶۰۰۰؍صفحات ۹؍جلدوںمیںچھپ رہے ہیں ۔جب کہ انگریزی زبان میں ان کاترجمہ بڑی ضخیم جلدوںمیں موجودہے ۔اِس وقت دنیاکی بڑی بڑی جامعات میں ان کے نام کی ’’چیئرز‘‘قائم ہورہی ہیں۔تیس سے زائدممالک کی جامعات میںPH.Dکی سطح پر ان رسائل پر تحقیقی اورتجزیاتی کام ہورہاہے ۔ترکی اوردنیاکے دوسرے ممالک میں ان کے ہزاروںمراکزِ تربیت بہت خوش اسلوبی اورنہایت اخلاص سے اسلام کے اس ابدی پیغام کوپھیلارہے ہیں۔
ان لوگوںمیں کوئی عہدوںکی تقسیم نہیں،کوئی مرکزی تنظیمی ڈھانچہ نہیںاوروہ کسی کے سامنے اپنی کارکردگی کے جواب دہ بھی نہیں ۔ان کے درمیان چنددن گزارنے کے بعدجب اس خودکارنظام دعوت وتربیت کے تسلسل میں مضمررازکوتلاش کیاگیاتومعلوم ہوایہ لوگ اپنے عظیم قائدومربی کے اخلاص کواپنارہ نمابناتے ہیں اورصرف اللہ اوراس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نودی کے لیے حتی المقدورکاوشیں برلاتے ہیں۔ان لوگوں کی جماعت ’’جماعت النور‘‘کہلاتی ہے ۔ان کے مراکزمیں فرشتہ صفت نوجوان ’’طلبائے نور‘‘کے نام سے جانے جاتے ہیں،جن کاشعارصرف خدمتِ دین ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ شیخ نورسی کی مثال اس خاموش ندی کی صورت میں پوری دنیامیں جاری وساری ہے، جس کی خصوصی سماجی،تعلیمی اوردعوتی کاوشوںسے اب ترکی میں سیاسی اورمعاشی انقلاب آرہاہے ۔اورترکی اپنی اصل منزل کی طرف لوٹ کرواپس آرہاہے ۔ان شاء اللہ وہ منزل دورنہیںجب:
آملیںگے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
اورظلمت رات کی سیماب پاہوجائے گی
(کلمات : ۷۰-۷۴)
بہر حال شیخ نورسی نے ترکیوں کے ایمان کو بچانے کے لیے جو بھی جدوجہد اور بے مثال قربانیاں دیں آج ان کی وفا ت کے پچاس سال بعد اس کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں ، جس کو آج جدید ترکی دیکھ سکتے ہیں ۔
ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین
(مذکورہ تفصیلات معمولی حذف و اضافہ اور ترمیم کے ساتھ ’’کلمات سہ ماہی ‘‘ ڈاکٹر علی اکبر الازہری کے طویل مضمون ’’ استاذ بدیع الزماں نورسی اورترکی میں تحریک احیائے اسلام ‘‘سے شکریہ کے ساتھ ماخوذ ہے ۔ )
جب احقر نے ترکی کے سفر نامے کو قلمبند کرنے کا ارادہ کیا،تو ترکی کی تاریخ اور پھر شیخ بدیع الزماں النورسی رحمہ اللہ کے حالات کو ذکر کرنے کا ارادہ کیا، اور پھر مطالعہ شروع کیا ، اسی مطالعہ کے دوران کلمات سہ ماہی کتابی سلسلہ (۱) مطبوعہ از دفتر نورسی انسی ٹیوٹ جو ہر ٹاؤن میری نظر سے گزری، تو میں نے وہ سب کچھ اسی طویل مقالہ میں پایا جو میں لکھنا چاہتا تھا ، لہٰذ اسی مقالہ میں قدرے حذف واضافہ اور تبدیلی کے ساتھ اب تک کی تفصیلات نقل کی گئی ، اب باقاعدہ سفر کی تفصیلات قلمبند کررہا ہوں :
کانفرنس کی افتتاحی مجلس میں شرکت :
ہم نے ۱؍۲؍۳؍اکتوبر ۲۰۱۷ء کے تین دن ’’ الحرکۃ الایجابی البناء ‘‘(مثبت اور پائیدار سوچ ) کے عنوان سے منعقد بدیع الزماں عالمی کانفرنس میں شرکت کی۔ واقعتا وہ بڑی عجیب کانفرنس تھی، جس سے علامہ بدیع الزماں النورسی کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ ہوا۔
اورمیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے دل میں اپنے دین اور انسانیت کی تڑپ اور اخلاص کو دیکھتا ہے تو اس سے اپنے دین کا بڑا کام لیتا ہے ،جس کے لیے اسلامی تاریخ سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر آج تک شاہد ہے ۔ اللہ ایسے اپنے محبوب بندوں کے کام کو عام کرنے اور لوگوں میں پھیلانے کے لیے افراد اور ادارے کھڑا کرتے ہیں، جس کو ہندوستان کی آخری تین صدیوں کی تاریخ میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں اور عمومی اسلامی تاریخ میں بھی۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ،شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ، آپ کی آل و اولاد اس کے بعد شاہ اسماعیلؒ اور سید احمدشہیدؒ اس کے بعد مولانا قاسم نانوتویؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا علی میاں ندویؒ ، حضرت شیخ زکریاؒ ، حضرت مدنیؒ، شیخ الہندؒ، قاری طیب صاحب ؒ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ ، علامہ یوسف بنوری ؒ وغیرہم ؛جن کے افکار کی نشرو اشاعت کے لیے لوگ اپنی پوری پوری زندگیا ں وقف کررہے ہیں۔ بالکل اسی طرح کی صورتِ حال شیخ بدیع الزماں النورسی کے ساتھ ہوئی ’’ طلاب النور ‘‘ کے نام آپ کے عاشقوں کی بڑی جماعت وجود میں آئی اور شیخ کے افکار کو پوری دنیا میں عام کرنے لگی ۔
’’ مؤ سسۃ استنبول للثقافۃ والعلوم ‘‘ نے خاص طور پر بڑی حکمت اور محنت سے کام لیتے ہوئے دسیوں نہیں ،بل کہ سیکڑوں کانفرنسیںدنیا کے مختلف خطوںمیں منعقد کی ۔
آپ کے رسائل کے تراجم تقریباً ۴۰؍ زبانوں میںکرواکر اُسے شائع کیا اور مسلسل آپ کے افکار کی نشرو اشاعت بڑی منظم انداز میں مشغول ہے۔
میںنے رمضان سے قبل مؤسسہ کے ورک شاپ میں شرکت کی ،جس پر تفصیلی احوال لکھنے کا ارادہ کیا ، مگر مشاغل کی کثرت مانع رہی ، لیکن اب ان شاء اللہ عنقریب لکھوں گا ۔
سقوطِ خلافت کے بعد شیخ نورسی کے علاوہ مندرجہ ذیل علما نے بھی احیائے دین کی قابلِ ذکر کوشش کی ہے ۔
(۱) سلیمان حلبی طوتان (۱۹۸۸-۱۹۵۹ء)ان کا بھی ترکی کے احیائے اسلام کی تاریخ میںبڑا رول رہا ۔
(۲) شیخ نجم الدین اربکان (ولادت: ۱۹۴۳ء وفات : ۲۰۱۱ء) موصوف نے بھی احیائے اسلام کے لیے اہم رول ادا کیا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لیے ترکی میں بھر پور کوششیں کی گئیں مگر الحمدللہ ! اسلام زندہ ہی نہیں، بل کہ اسلامی بیداری کی لہر ایوانِ سلطنت تک پہنچ چکی ہے۔ اور عالمِ اسلام کے لیے امید کی کرن اس وقت ترکی اوراس کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردغان ہیں، جو بڑی حکمت اورجرأت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور الحمدللہ ! انہو ںنے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ عالمِ اسلام کی ترقی مغرب کی اندھی تقلید میں مضمرنہیں؛ بل کہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ وابستہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دیگر مسلم حکمرانوں کو بھی یہ سمجھ عطا فرمائے آمین!
ترکی کی تاریخ اور دینی تحریکات خاص طور پر تحریکِ نورسی پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم ترکی سفر کی بقیہ روداد بیان کرتے ہیں:
جامع ابی ایوب انصاری کی زیارت :
جیسا کہ اوپر گزرا کہ میں اور والد بزرگوار ’’خادمِ قرآن ،مفکر ِملت حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی دامت برکاتہم‘‘ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے استنبول پہنچے تھے ۔ہم ـلوگ پہلی اکتوبر سنیچرکے دن دوپہرمیںاتا ترک ہوائی اڈے پہنچے۔ مولانا ارشد صاحب نے چند احباب کو مطلع کیا جن کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا ، ایک ساتھی گجرات کے تھے اور مؤسسہ استنبول سے برادر نور الدین استقبال کے لیے پہنچے تھے۔
ان کے ہمراہ ہوٹل پہنچے جہاں بھائی خاقان صاحب نے استقبال کیا ، کمرے میں رات کو آرام کیا اور ۲؍ اکتوبر بروز اتوار ہمارے دوست جناب عمر فاروق قور قماز صاحب نے احقر سے کہا کہ جامع سلطان ابی ایوب انصاری میں ہر اتوار کو سلسلہ نقشبندیہ کا اجتماع ہوتا ہے اور نہایت دل کش منظر ہوتا ہے ، تو اتوار کے روز صبح ہم لوگ ہوٹل سے نکلے اور ٹیکسی کے ذریعہ وہاں پہنچے ،’’ہوٹل ایر سون ٹوپ کوپی‘‘ سے ’’جامع ابی ایوب انصاری‘‘ قریب ہی واقع ہے ۔ دس منٹ میں ہم وہاں پہنچ گئے ، صبح کا بڑا سہانا موسم تھا والد صاحب نے جب گاڑی سے اتر کر مسجد ابی ایوب انصاری کو دیکھا توکہنے لگے ماشا ء اللہ بہت خوب صورت مسجد ہے ۔ مسجد کے صحن کوـپار کرکے ہم اندر داخل ہوئے تومسجد مصلیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ، برآمدے میں ہمیں جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گئے ، فجر کی سنت ادا کی، دس منٹ میں نماز کھڑی ہوئی ،نماز کھڑی ہونے تک مسجد کے اطراف واکناف کا حصہ بھی مصلیوں سے بھر چکا تھا ، نماز کے بعد ذکرکا سلسلہ شروع ہوا اور لاؤڈ اسپیکر میں بآواز بلند ذکرہونے لگا، سارے لوگ جم کر بیٹھے رہے ، ذکر کے بعد ہم نے مسجد کے اندر سے زیارت کی اور مسجد کے سامنے دروازے کی جانب حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک ہے ہم دروازے سے باہر نکل کر اس طرف جانے لگے ،تو دروازے کے پاس ایک کتبہ لگا ہوا تھا ، والد صاحب نے کہا اس پر کیا لکھا ہے ؟تو میں نے اسے پڑھا جس پر عربی میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا مختصر تذکرہ اور ان کی وفات کا واقعہ کندہ تھا۔
ترکی مسلمانوں میں عقیدت اورمحبت خاص طورپرنیک لوگوں کے ساتھ کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے ۔ حضرت ابو ایوب انصاری کی مسجد کولوگوںنے جامع ابی ایوب اورعلاقہ کا نام بھی سلطان ایوب دیا ہے ۔ اگر صرف مسجد ابی ایوب بو لو تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں ۔ یہ عقیدت کی بات ہے کہ صحابی کی عزت اتنی کہ ان کو بادشاہ کے برابر تصور کرتے ہیں ۔
یہ ترکی کی سب سے پہلی مسجد ہے، جو قسطنطنیہ کی فتح کے بعد تعمیر کی گئی ۔ ۱۴۵۳ء – ۸۵۷ھ میںتعمیرکی گئی یہ مسجد استنبول کے یورپی حصہ میں واقع ہے، جو میزبانِ رسول حضرت خالد بن زید انصاری جو حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مشہور ہیں،ان کی قبر کے پاس واقع ہے ۔
دراصل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت ۴۹ھ میںآپ مسلمانوں کے پہلے لشکر کشی کے وقت آئے تھے اور انتقال کرگئے تھے۔
آپ نے وصیت کی تھی کہ جب میری وفات ہوجائے تو قسطنطنیہ کے جتنے اندر جاسکو جاکر وہیں مجھے دفن کردینا ۔ تو یزید ابنِ معاویہ نے وصیت پر عمل کیا اور قسطنطنیہ کی فصیل تک آئے اور آپ کو وہیں سپر دِ خاک کردیاگیا ۔ فتح کے بعد تاریخی روایات کے مطابق سلطان محمد الفاتح کے استاذ آغا شمس الدین کو خواب میں آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی نشاندہی کی گئی تو وہاں مزار ، مسجد اور تعلیم گاہ تعمیر کی گئی اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کی ترمیم ہوتی رہی ۔
نماز کے بعد جب ہم حضرت کے مزار میں داخل ہوئے تو قلب کی عجیب کیفیت ہونے لگی۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی اسلام کی خاطر قربانیاں آنکھوں کے سامنے آگئیں ، آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دل کہنے لگا اے میزبان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قسطنطنیہ کی فتح کی بنیاد تو آپ ہی کی برکت سے ہوئی۔
اس طرح ترکی کے قیام کا آغاز بڑا بابرکت رہا ۔ صبح وہاںسے ہوٹل لوٹنے کے بعد ہم کانفرنس کی افتتاحی مجلس کے لیے روانہ ہوئے جو ایک عظیم الشان ہال میں منعقد کی گئی تھی ، جس میں جناب بلال طیب اردغان بھی تشریف لائے تھے ۔
تقریباً پانچ ہزار افراد سے ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا ، مختلف ممالک سے آئے ہوئے اسکالر س نے شیخ بدیع الزماں النورسی کو بہت جذباتی انداز میں خراج تحسین پیش کیا ۔