ترقی یا تنزلی ؟

مولانا عبد الوہاب ندوی مدنی

            ترقی کے اس دور میں سائنس اورٹیکنالوجی کے میدان میں انسانوں نے جو ترقی کی وہ حیرت انگیز ہے ۔ انسانوںنے وہ کام کرنے کے لیے جو پچھلے لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے ۔ طرح طرح کی مشنریاں اور ایسے اسباب تیارکرلیے گئے ہیں جن سے زندگی کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکے ۔ آنے والے خطرات کو پہلے سے معلوم کیا جاسکے ۔ لیکن ان سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کی حالت پچھلے دور کے انسانوں سے کہیں زیادہ بدتر ہے ۔راحت و آرام اور چین وسکون کے تمام اسباب مہیا کرلینے کے بعد بھی انسان اپنے آپ کو مضطرب وبے چین ہی محسوس کرتا ہے۔ مال و دولت کی ریل پیل کے باوجود انسان اپنے دل سے چین و سکون کو مفقود پاتا ہے ۔ کل لوگ زبوں حالی اور غریبی میں بھی چین کی نیند سوتے اور مطمئن رہتے تھے ۔ اور آج بڑی بڑی کوٹھریوں اور حویلیوں میں رہنے والے بھی سکون کے لیے ترس رہے ہیں ۔ نگہداشت اور سیکوریٹی میں رہنے کے باوجود دل مطمئن نہیں ؛ قدیم دور میں انسان پر امن زندگی گزارتا تھا اس کو اپنی ذات اہل و عیال اور جائیداد کے بارے میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا ۔ خواہ وہ کسی جنگل میں جھونپڑی بناکر رہتا ہو۔

            زمانہ ترقی کی راہیں ہموار کرتے ہوئے آج اس اسیٹیج تک پہنچا۔لیکن سوال یہ ہے کہ مہذب انسان نے کیا ترقی کی ؟ علم و دانش نے زندگی کو کیا دیا؟ کیا آج محرومی وشقات کی عجیب عجیب شکلیں نہیں دیکھی جارہی ہیں ؟ زمانہ کی ترقی کے ساتھ انسانوں میں حرص وہوس کی بھی زیادتی ہوئی، جس کا نتیجہ ہے کہ آج کا انسان صرف اپنے ذاتی مفاد اور مصلحت کو مقدم رکھتا ہے۔ اپنے عیش وآرام اورگھر والوں کے راحت وسکون کی خاطر اگر کسی کے منہ سے نوالہ چھیننا ہوتو اس سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ غریبوں اور کمزوروں کا مال رشوت ، سود اور دیگر بہانوں سے اس لیے لوٹتا ہے تاکہ اس کے کتوں کو غذا فراہم ہوسکے ، مفلسوں کی مفلسی اور ناداروں کی ناداری بھی اس کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا نہیں کرتی ۔

            تعجب خیز امر تو یہ ہے کہ جو میدان خالص خدمت خلق اور جذبہ رحمدلی کے لیے خاص سمجھے جاتے تھے ، جہاں انسان دوسروں کی جان بچانے کو ثو اب اور اس کی مدد کو آخرت میں اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا تھا ، لیکن بد قسمتی کہئے یا انسانوں کی بے حسی ؛کہ آج وہی میدان سب سے زیادہ لوٹ کھسوٹ کا بازار بن گیا ہے ۔ طب کا میدان انسانوں کی خدمت اور بیماروں ومحتاجوں کی مدد کا ذریعہ تھا جو کہ آج ڈاکٹروں ، طبیبوں اور پیتھالوجی کی کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ جہاں رحمدل مفقود نظر آتی ہے ۔ بڑے بڑے ملٹی اسپیشلٹی ہاسپیٹل ہوں یا پرائیوٹ کلینک اکثرو بیشتر صرف کمائی کے اڈے بن گئے ہیں ۔ جہاں ہمدردی ، رحمدلی اور انسانیت کا کوئی گزر نہیں ، بسااوقات ایک ڈاکٹر پچاس روپئے کمیشن کی خاطر مریض سے ۵۰۰؍ روپے کی خون وغیرہ کی جانچ (ٹیسٹ)کرواتا ہے ۔ میڈیکل سے معمولی کمیشن حاصل کرنے کے لیے ۲۰۰؍ روپے کی دوائی لکھ دیتا ہے۔اور یہ سب صرف اس لیے کہ ہمیں مالدار بننا ہے ، چاہے دوسروں کے منہ سے نوالہ چھن جائے ۔ غریب کے تن سے کپڑے اتر جائیں ۔اگر کوئی غریب اپنی مفلسی ومحتاجگی کا اظہار کرے تو اس کا علاج نہیں کیا جاتا، بل کہ اسے کسی سرکاری اسپتال سے رجوع کا مشورہ دیا جاتاہے ۔ یہ و ہ طبقہ ہے کہ جو معاشرہ میں سب سے اعلیٰ ڈگری کا حامل اور سوسائٹی میںسب سے زیادہ مہذب سمجھا جاتاہے ۔ اس بد عنوانی اور بد اخلاقی میں مسلم وغیرہ مسلم یکساں طور پر شریک ہیں۔

            حرص وہوس نے انسانوں کو اس حد تک پہنچادیا ہے کہ معاشرہ کے مختلف طبقات کے لوگ بھی امانت داری اور دیانت داری کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر جہاں اور جب بھی کسی خیانت کا موقع ملے ، اسے فراموش نہیں کرنا چاہتے ۔ گویا کہ ہر دل کی صدا صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے مال ۔ مال اور صرف مال ۔ یہی ہے اُن کاکمال! اس کے حصول کے لیے شرعی حدوں کو پار کرنا پڑے تو کوئی پرواہ نہیں ۔ دولت مند بننے کے لیے اخلاق وکردار سے عاری ہونا پڑے تو حرج نہیں ، اپنے عیش وعشرت کی خاطر غریب کا سب کچھ چھن جائے تب بھی کوئی دکھ نہیں ۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے انسانوں سے چین و سکون چھین لیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک انسان ہی دوسرے انسان کو بھیڑیے کی کھاجانے والی نظر سے دیکھتا ہے ۔ مال کی ہوس اتنی بڑھی کہ شکار کی نظر سے دیکھنے لگا ۔

            کل تک ایک مال دار ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنے کو باعث ثواب سمجھا جاتا تھا۔ ایک طبیب مریض کے شفا یاب ہونے کی تمنا اور اچھا ہونے کے جتن کرتا تھا۔ سرکاری دفاتر کے لوگ کسی کے کام آجانے کو اپنے لیے باعث خیر سمجھتے تھے ۔ آج ڈاکٹر چاہتا ہے کہ مریض کو ڈسچارج نہ کرے تاکہ بل بڑھ جائے ۔ ایک افسر چاہتاہے کہ فائل روک کر اس سے رشوت لی جائے اور یہ سب کے سب اپنے مقاصد میں کام یاب ہوتے جارہے ہیں ۔ بہت جلد ان کی حویلیاں تعمیر ہوتی ہیں ۔ جائیداد میں اضافہ ہوتا ہے اوربہت کچھ انہیں حاصل ہوجاتاہے ، لیکن دل کے چین و سکون سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ بڑی بڑی جائیداد اور خوش رنگ حویلیاں ایک دن چین کی نیند میسر نہیں کرسکتی ۔دل کو اطمینان نہیں دلاسکتی ، کیوں کہ یادرہے اصل دل کا سکون دوسروں کی مدد کرنے اوردوسروں کے کام آنے میں ہے ۔ دوسروں سے لوٹا ہوا مال ، غریبوں سے چھینا ہوا پیسہ اور ناحق جمع کی ہوئی دولت انسان کے چین و سکون کے لیے ہمیشہ رکاوٹ بنتی ہے ۔

            قدیم دورمیں ہر ایک دوسرے کے غم میں شریک رہتاتھا۔ ضرورت پڑنے پر ہر ممکن اپنی خدمات پیش کرتا اور اس کے لیے سہارا بنتا ۔ آج یہ سہارے مفقود ہورہے ہیں ۔ لوگوں نے مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے، جس کی وجہ سے ہر کوئی پریشان نظر آتا ہے ۔اگراس مزاج کے اصلاح کی طرف فوری توجہ نہیںکی گئی تویہ معاشرے کے لیے ایک ناسورثابت ہوگا۔

            آج ضر ورت اس بات کی ہے کہ رحم دل اور انسانیت کے جذبہ کو فروغ دیا جائے ۔حرص وہوس اور مادیت کے مقابلہ میں ایثارو قربانی کا سبق دیا جائے ۔ یہی انسانیت کی پہچان ہے اور اسی میں انسانیت کی نجات بھی ہے ۔ انسان ہی دوسرے انسانوں کے لیے درندے بن جائیںگے ۔ انسانوں کی شکل میں حیوان رہیں گے اور جنگل راج نافذ ہوجائے گا ۔

            علم و دانش اور تہذیب وثقافت کے ساتھ اگر ہمدردی اور دوسروں کی مدد کا جذبہ نہ ہو تو انسان انسانیت سے دور ہوتا چلاجاتا ہے ۔دنیامیںترقی کرتے ہوئے وہ انسانیت سے تنزلی اختیارکرتاہے اورپھر اس کی زندگی سے چین سکون اور اطمینان ختم ہوجاتا ہے ۔ یاد رکھیے اللہ نے دلوں کا چین اور سکون مال ودولت میں نہیں ،بل کہ اپنی یاد اور مخلوق کی امداد میں رکھا ہے ۔ اسلامی تعلیمات ان ہی اخلاقی پہلوؤں پر خصوصی زور دیتی ہیں ۔ تا کہ معاشرہ سے بے رحمی اور سنگدلی کا خاتمہ ہو۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عملی طور پر بھی دوسروں کی مدد کو اپنی موت پر ترجیح دی ۔ کیوں کہ وہ اپنے نبی کے اس فرمان کو خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے اللہ کی مدد ملتی ہے۔ ارشاد نبوی ہے : ’’ واللہ فی عون العبد ماکان العبد فی عون اخیہ ‘‘ اللہ اس بندے کی مدد میں ہوتے ہیں، جو اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتاہے۔