مولانا عبد الرحمن ملی ندوی /ایڈیٹر مجلہ ”النور“ جامعہ اکل کوا
تربیت کا لفظ بولنے اور سننے میں بہت آسان اور پر لطف ہے ، لیکن حقیقتاً دیکھا جائے تو یہ تعلیم سے زیادہ مشکل اور صبر آزما نظر آتا ہے ، اس لئے کہ تعلیم کے میدان میں بہت سے افراد ترقی کرکے خوش حال اور خوش کن زندگی گزارتے ہوئے صاحب منصب وجاہ بن جاتے ہیں ، لیکن اگر ان کی اخلاقی ومعاشرتی زندگی دیکھی جائے تو کردار کی تعمیر اور تربیت ِذات میں بہت دور نظر آتے ہیں ، جب کہ تہذیب ِنفس اور تزکیہء قلب ایک مربی اور اتالیق کے لئے بہت ضروری ہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم معلم بھی تھے کہ آپنے فرمایا: ( بعثت معلما ) اور مربی حقیقی بھی تھے کہ قرآن کا ارشاد ہے: (اِنَّکَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیْمٍ )آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نظام ِتربیت پیغامبرانہ نظام تربیت تھا ، اس لئے کہ تعلیم وتربیت کے ذریعہ ہی شخصیات ڈھلتی ہیں ، عقل ِسلیم اور فکر ِمستقیم صحیح تربیتی نظام کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تربیت کے حکیمانہ مقام پر فائز تھے ، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (ادبنی ربی فاحسن تأدیبی )میرے رب نے میری تربیت کی اور بہت خوب تربیت کی ۔ قرآن کریم نے سورہٴ عبس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ بیان کرکے تربیت کا خدائی طریقہ بتلایا کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی حکیمانہ شان کے ساتھ تربیت فرمائی ، اس سورت میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی ایک اجتہادی چوک کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ روساء مکہ آئے تو آپ علیہ السلام انہیں دین کی باتیں سمجھانے لگے ،اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور آپ سے ایک سوال کیا ، اللہ کے رسول کو ان صحابی کا درمیان میں سوال کرنا نا گوار گزرا تو آپ کے چہرہٴ انور پر ناراضگی کے آثار ظاہر ہوئے ۔ اللہ کو آپ کا یہ طرز مناسب نہیں لگا، تو اس موقع پر اس آیت کا نزول ہوا عبس وتولی ، گرچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت اور ارادہ یہ تھا کہ اگر روساء مکہ ایمان لا تے ہیں تو ان کا ایمان دیکھ کر دوسرے لوگ بھی ایمان لائیں گے اور پھر اس کے بعد لوگ ایمان میں داخل ہوتے ہی جائیں گے ،یقینا اسلام کا بہت بڑا فائدہ ہوگا ،لیکن اللہ تعالی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز مناسب معلو م نہیں ہوااور پھر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا (عبس وتولی ) وہ چیں بہ جبیں ہوئے اور منہ موڑا ، یہاں دونوں صیغے غائب کے استعمال ہوئے ہیں عبس اور تولی یہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکرام مقصود ہے گویا یہ کام آپ نے نہیں کسی اور نے کیا ہے؛ یہاں پر اللہ تعالی نے تربیت میں بھی تعظیم وتکریم کا معاملہ کیا ہے ۔اسی طرح قرآنِ کریم نے صحابی کا نام نہیں لیا؛ بلکہ صفت استعمال کی” الاعمی“ حضرت مفتی محمد سعید صاحب پالنپوری نے یہاں لفظ اعمی استعمال کرنے کی دو وجہ بتلائی ہیں ۱۔ نابینا ہونے کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں سکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کن لوگوں کے ساتھ مشغول ہیں ۲ ۔ نابینا ہونے کی وجہ سے وہ توجہ کے زیادہ مستحق تھے ۔ اور معذور آدمی توجہ کا زیادہ مستحق ہوتاہی ہے قرآن کریم کے اسلوب پر غور کیجئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اجتہادی چوک ہوتی ہے، گرچہ وہ بھی حسن نیت کی وجہ سے ہوتی ہے کہ یہ روساء مکہ ایمان لائیں گے تو دوسروں کے لئے ایمان کی راہ کھل جائے گی اور لوگ ایمان میں داخل ہوتے جائیں گے، جس میں اسلام کا فائدہ ہے ، لیکن اللہ کو یہ بھی پسند نہیں آیا فوراًاللہ نے آپ صلی اللہ وعلیہ سلم کی تربیت فرمائی اور لفظ بھی ایسا استعمال کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بہت زیادہ ناگواری پر دلالت کرتا ہے ؛لیکن قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکرام وتعظیم میں غائب کا صیغہ استعمال کیا عبس وتولی بعد میں دلجوئی اور دلداری کے لئے مخاطب کا صیغہ استعمال کیا ۔اس واقعہ کے بعد جب بھی حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو پیغمبر علیہ السلام فرماتے: مرحبا بمن عاتبنی ربی
تربیت اور نصیحت خیرخواہانہ جذبہ اور مخلصانہ اسلوب میں کی جائے اور موقع محل اور مد مقابل کی عرفی حیثیت اور معاشرتی شناخت کا لحاظ رکھتے ہوئے کی جائے تو یقینا تربیت اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں ۔ غزوہٴ حنین کے موقع پر مال ِغنیمت کی تقسیم میں انصاری صحابہٴ کرام میں کچھ نا راضگی پائی گئی، اس لئے کہ اس موقع پر انہیں کچھ نہیں دیا گیا تھا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز اور اسلوب میں تربیتی ونصیحتی تقریر انصاری صحابہ کرام کے درمیان فرمائی اس تقریر کی اثر اندازی اور دلپذیری سے انصاری صحابہ بے اختیار رو پڑے اور یہ کہنے لگے کہ رضینا برسول اللہ قسما وحظا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم سے راضی برضا ہیں ،یہ ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکیمانہ نصیحت وتربیت جس سے انصاری صحابہ نہ صرف یہ کہ تقسیم پر راضی ہوئے؛ بل کہ آپ علیہ السلام کے اسلوب ِتربیت سے حد درجہ متاثر بھی ہوئے ۔
آج کے اس پر فتن دور اور سنگین حالات میں ہم اصحاب ِدعوت وعزیمت اور تعلیم وتربیت سے منسوب افراد کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ما تحت افراد کی تربیت میں قرآنی اور نبوی طریقہء کار کو پیش ِنظر رکھیں اور نفسیاتی طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے تربیت کریں کہ ہمارے ملازم اور ماتحت کی عزت ِنفس اور عرفی شناخت کو ٹھیس نہ پہونچے، اس طور پر کہ اس کا مقام ومرتبہ باقی رہتے ہوئے اس کی تربیت ہوجائے؛ اس لئے کہ اگر آپ کسی سے عزت چاہیں گے تو آپ کو بھی کسی کو عزت دینی ہوگی أکرم تُکرم عزت کرنا سیکھو تو عزت ملے گی ۔