مفتی نعمان اشاعتی دھرم پوری/استاذ جامعہ اکل کوا
تربیت کا مفہوم :
لغت میں تربیت کے معنی ہیں: پالنا ، پرورش کرنا ، پروان چڑھانااورکسی کو تدریجاً نکھارکر حد کمال تک پہنچانا۔
امام راغب اصفہانی نے اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
” التربیة ہو انشاء الشئ حالًا فحالًا الی حد التمام “۔
کسی چیز کو لمحہ بہ لمحہ اس کی مختلف صلاحیتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو ونما دینا کہ وہ حدِ کمال تک پہنچ جائے۔
تربیت کی ضرورت :
انسان کے اندر مختلف اور متضاد صفات پرپروان چڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ، مثبت اور منفی دونوں طرح کے اوصاف اس کے اندر پیدا ہوسکتے ہیں۔
خیر وشر ، تعمیر و تخریب ، نرمی و سختی ، محبت ونفرت ، دوستی وعداوت اور صلح و جنگ وغیرہ۔ انسان کی اگر تربیت نہ کی جائے، اسے اچھے کاموں کی ترغیب اور برے کاموں سے نفرت نہ دلائی جائے، تو سماج میں امن و سکون ختم ہوجائے گا؛ کیوں کہ انسان عموماً خواہشات ِنفس کے ہاتھوں مجبور ہوجاتا ہے ، اگر انسان کی تربیت نہ کی جائے تو پھر وہ بے لگام جانور کی طرح خواہشات ِنفس کے پیچھے بھاگتا رہے گا ، ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرتا رہے گا۔اوراس کی شخصیت اعتدال و توازن سے محروم رہے گی۔ نتیجتاً سماج و معاشرہ ظلم وفساد سے بھر جائے گا ، اس لیے انسان کو عدل و قسط کی راہ پر قائم رکھنے اور سماج کے اندر عدل و انصاف اور امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تربیت وتزکیہ کا اہتمام کیا جائے ؛ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا اور پیغمبروں کو بھیجا ، انہیں یہ ذمہ داری دی کہ انسانی نفوس کا تزکیہ اوران کی تربیت کرکے انسان کو عدل و قسط کی راہ پر لاکھڑا کریں۔
والدین کی ذمہ داری :
قوموں اور ملتوں کی تربیت وتزکیہ کی ذمہ داری جہاں انبیا ورسل کے سپرد کی گئی ؛و ہیں اہل ِخاندا ن اور خاص طور پر بچوں کی تربیت کی ذمہ داری والدین پر ڈالی گئی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے :
﴿یٰا یہا الذین آمنوا قوا انفسکم واہلیکم نارا ﴾۔
” اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاوٴ۔ “
مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: مومن اپنے اہل اورگھر والوں کی اصلاح و تربیت کے لیے اسی طرح جواب دہ ہے، جس طرح وہ خود اپنے نفس کی اصلاح اور دل کی پاکیزگی کے لیے کوشش کرنے کا جواب دہ ہے۔ علامہ ابن القیم لکھتے ہیں : اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن باپ سے بیٹے کی تعلیم و تربیت اور اس کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں پہلے سوال کرے گا ، بیٹے سے باپ کی حقوق کی ادائیگی کا سوال بعد میں کرے گا۔ مربی ٴاعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہر مومن کو ہمہ وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے ۔
” کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ “۔
ہرشخص ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (بخاری)
ماں کا تربیتی کردار :
ایک بچہ کی پرورش کا آغاز ماں کے پیٹ میں قرار پانے والے نطفہ سے پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے ، نکاح کے وقت حسن ِکردار ، اخلاقی قدروں اور دین کو معیار بنانے کی تعلیم دراصل صالح اولا د کی مضبوط بنیاد اور سیڑھی ہے۔ حدیث میں اس بات کی تربیت اور تعلیم دی گئی ہے کہ باکردار عورت سے شادی کی جائے۔
حدیث میں ہے : ” تنکح المرأة لاربع ، لمالہا ولحسبہا ولجمالہا ولدینہا فاظفر بذات الدین تربت یداک ۔“ ”عورت کی شادی میں چارامور کا خیال کیا جاتا ہے ۔ مال ، خوب صورتی ، حسب ونسب اوردین داری ، تم دین داری کو ترجیح دو۔ “(بخاری)
اخلاق و کردار اور دین پسندی کو عورت کے انتخاب کا معیار بنانا، آنے والے بچے کی زندگی پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتا ہے ؛یہی وجہ ہے کہ نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باکردار وصالح عورت کو دنیا کی سب سے بڑی متاع بتایا ہے:
” الدنیا متاع وخیرمتاع الدنیا المرأ ة الصالحة “۔
دنیا متاع ہے اوردنیا کی سب سے بہترین متاع صالح عورت ہے ۔ (مسلم)
جدید تحقیقات اور ماہرین ِنفسیات کا خیال ہے کہ بچہ جب رحم ِمادر میں پل رہا ہوتا ہے، اس وقت سے اس کی تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے؛ چناں چہ دورانِ حمل جہاں ماں کی غذا کے اثرات بچہ کے جسمانی نشو ونما پر پڑتے ہیں، وہیں ماں کے احساسات و خیالات اورانفعالات کے اثرات بچے کی زندگی اور اس کے نفسیات پر مرتب ہوتے ہیں۔ اسی لیے دوران حمل عورت کو خوش طبعی کی زندگی گزارنے اور الجھنوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔اور کئی عورتوں کا تجربہ ہے کہ جب وہ حمل کے دوران اور دودھ پلاتے وقت تلاوت اور ذکر و تسبیح کا اہتمام کرتی ہے ، تو اکثر ایسے بچے بڑے ہوکر نیک بنتے ہیں۔ خود بھی ہدایت پاتے ہیں اور ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اوروں کو بھی ہدایت عطا فرماتا ہے ۔ شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب” حکایات ِصحابہ“ میں لکھتے ہیں: کہ میں نے والد صاحب سے بارہا سنا اور گھر کی بوڑھیوں سے بھی سنا ہے کہ میرے والد صاحب رحمة اللہ علیہ کا جب دودھ چھڑایا گیا تو پاوٴ پارہ حفظ ہوچکا تھااور ساتویں برس کی عمر میں قرآن شریف پورا حفظ ہوچکا تھا۔
(ماخوذ از حکایات ِصحابہ)
ماں کا اثر بچوں پر :
در حقیقت بچہ سب سے زیادہ جس چیز سے اثر لیتا ہے وہ ماں ہے؛ لہٰذا ماں اپنے اندر اخلاق ِحمیدہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے،ماں اگر نیک ہوگی تو بچہ بھی نیک ہوگا ۔ اور ماں اگر بری عادات واخلاق کی مالکہ ہوگی تو یہ چیزیں بچے کے اندر منتقل ہوں گی ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
ولیس النبت ینبت فی جنان
کمثل النبت ینبت فی الفلاة
وہل یرجی للاطفال کمال
اذا ارتضعوا ثدی الناقصات
ترجمہ: وہ گھاس جو کہ باغوں میں پیدا ہوتی ہے ، وہ اس گھاس کی طرح نہیں ہوسکتی ، جو جنگلات میں پیدا ہوتی ہے۔ اور کیا ایسے بچوں سے کوئی کمال کی توقع کی جاسکتی ہے، جو ناقص عورتوں کے سینے سے دودھ پئے۔
خواتین کے نیکی کا اثرواقعات کی روشنی میں :
ایک واقعہ کتابوں میں آتا ہے : حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ رات کو گشت فرمارہے تھے ، کسی مکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے ان کے کانوں میں یوں آواز آئی ۔ بیٹی دودھ میں پانی ملادو، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے ؛پھر غور کرنے پر معلوم ہوا کہ ماں بیٹی آپس میں دودھ میں پانی ملانے پر بات کررہی ہیں۔ جب ماں نے بیٹی سے یہ کہا پانی ملالو، بیٹی نے جواب دیا کہ یہ تو گناہ ہے، خلیفہ نے اس سے منع کیا ہے ۔ ماں نے کہا بیٹی کون سا خلیفہ ہمیں دیکھ رہا ہے ؟ تو بیٹی نے کہا : ” فَاَیْنَ اللّٰہ “ ؟ اللہ کہاں ہے ؟ یعنی اللہ تو دیکھ رہا ہے ۔ یہ باتیں سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے اوراپنے بیٹے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم اس لڑکی سے نکاح کرلو ۔ حضرت عاصم نے اس سے نکاح کرلیا اور بعد میں اسی نسل سے عمر ِثانی حضرت عمر بن عبد العزیز پیدا ہوئے، جن کے کار نامے دنیائے اسلام کبھی نہیں بھول سکتی ۔
دوسرا واقعہ :
ایک مہاجر خاندان مکہ مکرمہ گیا، مہاجر خاندان بہت دین دار تھا، بچے بڑے ہوگئے ، بچے کہنے لگے کہ ٹی وی لائیں، گھر کی اسمبلی میں اس پر بحث ہوئی ؛بہر حال قرار داد یہ منظور ہوئی کہ امام سے پوچھ لیا جائے ، اگر وہ اجازت دے تو لے آوٴ۔ ان کے لڑکے امام کی خدمت میں گئے تو امام نے فرمایا کہ تمہارے یہاں ابھی تک ٹی وی نہیں ہے ، میرے یہاں تو دو ہے ۔
”چوں کفر از کعبہ برخیزد کجاماندمسلمانی “
اسی موقع کے لیے کہا گیاتھا۔ اب کیا تھا ؟ابا اور بیٹا ٹی وی خرید کے گھر لے آئے؛ لیکن خاتون ِخانہ بہت نیک تھی ، رات میں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم لوگوں نے بھی لعنت گھر میں ڈال لی ،تم اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف ہجرت کرکے آئے تھے ، صبح ہوئی فجرکی نماز کے بعد اس خاتون نے اپنے شوہر اور اپنے لڑکوں کو اپنا خواب بتایا اور کہنے لگی کہ میں تم لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتی ، لیکن تم بھی مجھے مجبور نہ کرو ۔ مجھے کوئی کمرہ کسی جگہ کرایہ پر لے کر دے دو یا تو ٹی وی گھر میں رہے گی یا میں رہوں گی، وہ لڑکے ابھی تک اس نوبت کو نہیں پہنچے تھے کہ ماں کو گھر سے نکال دے اور ٹی وی کو گھر رکھ لے؛ انہوں نے فوراً گھر سے ٹی وی نکال دی۔
اگر گھر کی خواتین نیک ہوں اور یہ کہیں کہ ہم بھوکی تو مر سکتی ہیں، مگر ہمیں غیر شرعی چیزوں کی ضرورت نہیں۔ اور حرام و مشکوک آمدنی گھر میں نہیں آنے دے ، تو گھروں کا نقشہ کچھ اور ہی ہوجائے گا۔
ایک واقعہ بہ طور مثال :
ایک نیک خاتون کے یہاں بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے ایک بکری منگواکر گھر میں رکھ لی۔ ان کے شوہر کے لیے یہ امر تعجب انگیز تھا، اس لیے شوہر نے اپنے بیوی سے پوچھا بکری منگوانے کا کیا مقصد ؟ اس پر بیوی نے جو جواب دیا وہ آب ِزر سے لکھنے کے قابل ہے۔ بولی آپ کی آمدنی مجھے مشکوک نظر آتی ہے ، اس لیے میں اپنے دودھ سے اپنے بچے کی پرورش نہیں کروں گی ، بل کہ اسے بکری کا دودھ پلایا کروں گی ۔ میں نہیں چاہتی کہ میرے بیٹے کے جسم میں ذرا سی بھی حرام اور مشکوک غذا شامل ہو۔ یہ جواب سن کر ان کے شوہر نے وہ پیشہ فوراً ترک کردیا۔
دراصل یہ بھی سمجھانے کا ایک انداز تھا، جہاں تک ان کے شوہر کے پیشے کا تعلق تھا ، تو وہ صریحاً حرام اور ناجائز نہیں تھا، بل کہ زیادہ سے زیادہ وہ پیشہ مشکوک تھا ، لیکن نیک نہاد بیوی نے یہ بھی گوارا نہیں کیا۔
ان واقعات کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نیک خاتون اور ماں کی شخصیت بھی بڑی عجیب ہے۔ اسے ایک انمول موتی کا نام دینا نامناسب نہ ہوگا، حقیقت میں نیک ماں ہی معاشرہ کو نیک افراد مہیا کرسکتی ہے اور وہی صحت مند تبدیلی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ نیپولین نے بھی یہی حقیقت کو واضح کیا تھا ۔
” تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا۔“
ہر عظیم آدمی کے پیچھے عظیم خاتون کا ہاتھ ہوا کرتا ہے:
یہ جملہ آپ نے ضرور سنا ہوگا ، لہٰذا اس پر عمل بھی کیجیے ۔ آپ اپنے شوہر ، اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو ایک عظیم انسان اور علم و حکمت کی بلند چوٹیوں تک پہنچنے والا بنا سکتی ہیں۔ اپنے شوہر اوربچوں کو ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال کریں۔ صبر ، ثابت قدمی ، بہادری اور اونچے اخلاق کوٹ کوٹ کر ان میں بھردیں؛ اگر آپ خود ہی اخلاق نہیں اپنائیں گی تو نئی نسل کا کیا ہوگا؟ بچے کی کسی غلطی پر آپ نے اس سے کہہ دیا : او جنگلی ! ہزار مرتبہ سمجھاوٴں سمجھ میں نہیں آتا، خبردار آئندہ جو کیا، وغیرہ وغیرہ ۔ توآپ نے ہمیشہ کے لیے اس معصوم سے کھلونے کے دل میں نرمی و شفقت کے بجائے سختی اور ڈھیٹ پن پیدا کردیا۔
اسی طرح شوہر کے ساتھ پیارو محبت ، نرمی وخندہ پیشانی ، صبر ثابت قدمی ، نظم و نسق ، خوش اسلوبی اور مسرت و خوشی کے ساتھ نباہ کریں۔ اسے ہمت دلائیں ، مشکل اوقات میں اس کے لیے آسانی فراہم کرنے کا سبب بنیں۔ مشکلات اورپریشانیوں کے عالم میں صبر وثبات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے ؛اپنے شوہر اور بیٹوں کو اصلاحی اور تجددی کاموں میں امت وملت کی قیادت اورامامت کے لیے تیار کریں۔ دنیا کی عیش و عشرت اور چیزوں کی محبت والفت ان کے دلوں سے نکالنے کی کوشش کریں ، ایسی ہی عورتیں قائد اور رہ نما خواتین بنتی ہیں ۔ اور قائدین اور زعما کی بیویاں اور مائیں ایسی ہی عظیم اور اعلیٰ واشرف ہوتی ہیں۔
اگر ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات دیکھیں، توضرور اس میں سیدتنا خدیجہ رضی اللہ عنہا اور باقی ازواج ِمطہرات رضی اللہ عنہن شریک ملیں گی۔ انصار صحابہ کے دین پھیلانے کی نصرت میں انصاری صحابیات پوری شریک ہیں۔ مہاجرین صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ہجرت میں صحابیات رضی اللہ عنہن پوری شریک ہیں۔عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ کے انقلاب میں فاطمہ بنت عبدالملک پوری شریک ہیں ۔
اسی طرح ملت ِاسلامیہ کے بعض جلیل القدر اہل اللہ کی تعلیم وتربیت اور ان کی شخصیت کے نشو ونما میں ان کی ماوٴں کا بڑا دخل رہا ہے۔ ان صالحہ ، عابدہ ، زاہدہ، عالمہ اورفاضلہ بیبیوں نے اپنے فرزندوں کی ایسی تربیت فرمائی کہ ایک عالَم نے ان صالح فرزندوں سے استفادہ کیا ۔
حضرت سفیان ثوری کی والدہ ماجدہ اوصاف ِحمیدہ سے متصف خاتون تھیں،گھر کے ابتر معاشی حالات حضرت سفیان ثوری کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے، لیکن آپ کی والدہ نے فرمایا: ” اے میرے بیٹے! تم حصول ِعلم میں مشغول رہو، میں چرخہ کات کر تمہارے اخراجات پورا کروں گی۔ اور اپنے فرزند کو نصیحت فرمائی کہ علم کا حصول اخلاق و کردار کو سنوارنے کا سبب ہو نہ کہ ان کے بگاڑ کا باعث ہو، عبادت ہو ، تجارت نہ ہو۔“
حضرت خواجہ رضی الدین باقی باللہ نقشبندی کی والدہ ماجدہ ، عابدہ ، زاہدہ اور عارفہ خاتون تھیں۔ اپنے لخت جگر کے لیے بہت سی خادماوٴں کی موجود گی کے باجود آپ خود تنور میں روٹیاں پکاتیں اور سالن بھی خود پکاتی تھیں۔ حضرت خواجہ باقی باللہ فرماتے ہیں کہ پکانے والا باوضو ہو اور کھانا پکنے کے وقت حضوری اور جمعیت میں مشغول رہے ، اس وقت کلامِ دنیاوی میں مصروف نہ ہو، تو اس سے جو دھواں اٹھتا ہے ، وہ فیض کے راستوں کو کھول دیتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کی گودوں میں پلنے والے بچوں میں نورالدین زنگی ، شیخ عبد القادر جیلانی ، مولانا محمد الیاس کاندھلوی اور مولاناا شرف علی تھانوی جیسی صفات پیدا ہوں تو خود کو اور اپنے شوہر کو دین دار اوراچھے اخلاق ومعاملات والا بنانے کی بھر پور کوشش کریں۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی تدبیر کے ساتھ خوب دل لگاکر دعائیں بھی مانگیں۔
بچوں کی تربیت کے متعلق کچھ عمومی باتیں:
۱- بچوں کو زیادہ وقت تنہا نہ رہنے دیں: آج کل بچوں کو ہم الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان سے غافل ہوجاتے ہیں، یہ قطعاً غلط ہے۔ بچوں پر غیر محسوس طور پر نظر رکھیں اور خاص طور پر انہیں اپنے کمرہ کا دروازہ بند کرکے بیٹھنے مت دیں؛کیوں کہ تنہائی شیطانی خیالات کو جنم دیتی ہے ، جس سے بچوں میں منفی خیالات جنم لیتے ہیں اور وہ غلط سرگرمیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ بچوں کے دوستوں اوربچیوں کی سہیلیوں پر خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپ کا بچہ یا بچی کا میل جول کس قسم کے لوگوں سے ہے؛اگر آپ کا بچہ اپنے کمرہ میں ہی بیٹھنے پر اصرار کرے تو کسی نہ کسی بہانے سے گاہے بہ گاہے چیک بھی کرتے رہیں۔
۲- بچوں کو فارغ نہ رکھیں:
فارغ ذہن شیطان کی دکان ہوتا ہے اور بچوں کا ذہن سلیٹ کی مانند صاف ہوتا ہے۔ بچپن ہی سے وہ عمر کے اس دور میں ہوتے ہیں ، جب ان کا ذہن اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کافوراً اثر قبول کرتا ہے؛ اس لیے ان کی دل چسپی دیکھتے ہوئے انہیں کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں۔
ٹی وی اور موبائل وقت گزاری کا بہترین مشغلہ نہیں ، بل کہ سفلی خیالات جنم دینے کی مشین ہے۔ اور ویڈیو گیمز بچوں کو بے حس اور متشدد بناتی ہیں۔ ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیں ؛تاکہ بچہ کھیل کود میں خوب تھکے اور اچھی گہری نیند سوئے۔
۳- والدین؛ بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے جسمانی بے تکلفی سے پرہیز کریں:
ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق باشعور ہوجائیں گے، جن سے ایک مناسب عمر میں جاکر ہی آگاہی حاصل ہونی چاہیے۔ نیزوالدین بچوں کو ان کی غلطیوں پرسرزنش کرتے ہوئے بھی باحیا اورمہذب الفاظ کا استعمال کریں، ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آجاتی ہے، جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ تیرہ چودہ سال کے بیٹوں اور بیٹیوں کو سورہٴ یوسف اور سورہٴ نور کی تفسیر سمجھائیں یا کسی عالم ، عالمہ سے پڑھوائیں کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام بے حد خوب صورت اور نوجوان ہوتے ہوئے ایک بے مثال حسن کی ملکہ عورت کی ترغیب پر بھٹکے نہیں۔بدلے میں اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں شمار ہوئے، اس طرح بچے ، بچیاں ان شاء اللہ اپنی پاک دامنی کو معمولی چیز نہیں سمجھیں گے اور اپنی عفت وپاکدامنی کی خوب حفاظت کریں گے۔
آخر میں گزارش یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بٹھادیں کہ اس دنیامیں حرام سے پرہیز کا روزہ رکھیں گے، تو ان شاء اللہ آخرت میں اللہ کے عرش کے سائے تلے حلال سے افطاری کریں گے۔
اللہ امت مسلمہ کے تمام بچوں کی عصمت کی حفاظت فرمائے اور ان کو شیطان اور ان کے چیلوں سے اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ آمین یارب العالمین!