تربیتِ اولاد کا انوکھا انداز

مولانا عبدالغفار نانیگاوٴں (شعبہ ٴ دینیات جامعہ اکل کوا)

            ہم اللہ کا شکر اداکرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ہمیں ایمان جیسی عظیم نعمت سے نوازا،مزید نعمت ِخداوندی یہ ہوئی کہ اس نے ہمیں دیندارانہ ماحول عطا کیا ،تعلیم و تعلم سے جوڑے رکھا۔ اور جامعہ جیسی عظیم درسگاہ میں خدمت کا موقع فراہم کیا،مزید ذمہ داریاں ہم پر عائد فرمائی،انہیں میں سے سب سے اہم ذمہ داری اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت اور اچھی پرورش ہے ۔

            ہم غور تو کریں کہ ہماری بھی کافی مشغولیاں ہیں،مگر مدیرِ جامعہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کی طرح نہیں ہوگی۔حضرت ایک طرف جامعہ کے نگراں بھی ہے ،حضرت کے اسفار اپنی جگہ،تدریس کی ذمہ داری اپنی جگہ، مہمانوں کی آمد ورفت برابر لگی ہیں،ان سے ملاقات وان کے مسائل کا حل اپنی جگہ،مگر ان تمام ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی سنبھالتے ہوئے، حضرتِ والا نے اپنی اولاد کی تربیت کے لے جو فکر یں کی ہیں اور ان کو جو وقت دیتے ہیں یہ حضرت کا خاص وصف ہے،کہ وہ ہر ملنے والے کو بھی وقت دیتے ہیں،مگر کچھ وقت اگر مل گیا تو اپنی اولاد کو دیتے ہیں۔

            دوپہر میں حقیقی معنوں میں بیس سے تیس منٹ کا قیلولہ فرماتے اور حضرت خود فرماتے کہ مسلمان سونے کے لئے نہیں آیا۔ابھی ۱۱ دسمبر کی رات تقریبا ۹/ بج رہے تھے ،بندے نے موبائل دیکھا نیٹ چالوکیا تو میسیجز آنے شروع ہوگئے ،انہیں میں ایک میسج شعبہ ٴ دینیات کے گروپ میں آیا، جس میں یہ نوشتہ ملاکہ آئندہ کل یعنی ۱۲/دسمبر ۲۰۲۲ءء کو مدیر ِجامعہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کے چھوٹے فرزند حافظ حنظلہ سلمہ اور حضرت والا کی صاحبزادی سلمہا کے حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کرنے کی خوشی اور اللہ کے شکر کے طور پر اساتذہٴ جامعہ وطلبہٴ جامعہ کے لیے دعوت کا نظم کیا گیا ہے۔اور ۱۲ /دسمبر بروز پیر صبح ۳۰:۱۱ بجے بہترین بریانی کی دعوت ہوئی۔فجزاہم اللہ خیرا واحسن الجزاء

            محمد حمزہ سلمہ وحنظلہ جب دینیات میں زیر تعلیم تھے، اس وقت بھی حضرت خود دونوں وقت ان کو چھوڑجاتے تھے ،حالاں کہ یہ کام اور کوئی بھی کرسکتا تھا،مگر حضرت ِوالا نے خود ہی یہ ذمے داری نبھائی اور یہ زحمت نہ گوارا کیا،کہ کسی کو کہہ دیتے ۔

            اب دونوں بیٹے حافظِ قرآن ہوگئے ہیں،فللہ الحمد علی ذلک۔ حضرت نے اپنی بچیوں کے تعلیم کے لیے شعبہٴ دینیات کے دواساتذہ متعین کیا ہے،وہ فجر وعصر بعد حضرت کے دولت کدہ پر تشرف لے جاتے ہیں،اور بچیوں کو تعلیم دیتے ہیں نیز اسکے علاوہ بھی آپ کی بیٹیاں سلیم بھائی (خادم دفتر محاسبی)کی اہلیہ کے پاس گھر پر علم دین حاصل کرتی تھیں،اس کی علاوہ مولانا رضی الرحمن صاحب قاسمی کی بڑی اور ہونہار بیٹی نے حضرت کے دولت کدہ پر جاکر اس حافظہ بیٹی کا حفظ مکمل کیا ہے ۔اللہ تعالی دونوں کو اپنی شایانِ شان بدلہ نصیب کریں۔

            لڑکے عام طور پر حافظ ہوتے ہیں ،مگر لڑکی کا حافظ ہونا بڑے کمال کی بات ہے ،حضرت مولانا حذیفہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اولاد کی فکر کے متعلق بڑی عمدہ گفتگوکی تھی ،جب ہمارے رفقاءِ درس۲۰۰۲ءء جامعہ میں جمع ہوئے تھے۔اور آج بھی وہ فضلاء جامعہ اور امت کے نوجوانوں کے ذہن سازی کو لیکر بڑے فکر مند نظر آتے ہیں۔

            یہی چیز ہمیں بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی اولاد کی دینی ودنیوی لائن سے اچھی تربیت کریں۔ماشاء اللہ اساتذہ ٴ جامعہ کی اپنی نسل کو لیکر بڑی ہی کوشش اور محنتیں دیکھنے کو ملتی ہیں،کہ وہ ہر لائن سے اپنے بچوں کو بنانے کی کافی حد تک فکر بھی کرتے ہیں،اور کرنی بھی چاہیے ،کیوں کہ ہم سب کی اصل کمائی وکامیابی اپنی اولاد کی تربیت ہی ہے۔

            کل حضرت مفتی عثمان کا مختصر ویڈیو دیکھا کہ لوگ اپنی اولاد کو پڑھانے کے لئے کبھی لندن،کینڈا اور امریکہ وغیرہ بھیجتے ہیں ،اور اس پرفخر بھی کیا جاتا ہے ،کہ میرا بیٹا فلاں ملک گیا ہے ۔پھر بعد میں وہی خون کے آنسوں روتا ہے کہ میری اولا د مجھ سے بات نہیں کرتی ہے،کیونکہ وہ ماحول سے دور رہی،نہ تربیت ہوئی نہ اپنوں کی صحبت ملی، تو ہمیں چاہئے کہ ہم ان واقعات سے عبرت لیں۔

            حضرت مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم فرماتے ہیں ،آج کے زمانے میں اپنی اولاد پر اس طرح نظر رکھے، جس طرح ایک ڈرائیور گاڑی چلاتے وقت روڈپر نظر رکھتا ہے،ایسے ہی نظر رکھنے کا دور ہے ،کہ بچہ کہاں جاتا ہے ،کس کے ساتھ بیٹھتا ہے اٹھتا ہے ،کیا کررہا ہے۔

            یہ آج فکر کرنے کی ضرورت ہے ،کیوں کہ آج کاماحول کس قدر پر خطر ہے اس سے ہم اچھی طر ح آشنا ہیں۔

            تو ہم بھی عہد کریں کہ مولانا حذیفہ صاحب مدیر جامعہ کے اس تربیتی انداز سے سبق لیں ۔اسی طرح حضرت رئیس الجامعہ کے چھوٹے فرزند مولانا اویس کے فرزند عبداللہ نے صرف ۴۰ /دن میں احسن القواعد ختم کیا ،مولانا اسرار صاحب بابل گاوٴں کے پاس ۔اساتذہ وطلباء شعبہ ٴ دینیات کو جلیبی کی ذریعہ منھ میٹھا کرایا گیا،اب عبداللہ بن مولانا اویس وستانوی نے صرف ۵۰/دن میں پارہٴ عم مکمل کرکے پہلا پارہ بھی شروع کردیا ہے۔

            ہم ان کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کو جلدی حافظ قرآن بنائے ۔

            ہم قارئیں سے درخواست ِدعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے حضرت وستانوی صاحب کو عمرِ نوح عطا فرمائے ،جامعہ کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے ،اور جامعہ کی تمام ضرورتوں کو اپنے خزانے غیب سے پورا فرمائے،اور حضرت رئیس جامعہ کی نسل میں دین کے خدام پیدا فرمائے ،جو دین ِ حنیف کی پوری دینا میں مثالی خدمت انجام دیں،اللہ حضرت کی بیٹی اور بیٹوں کی سینوں میں قرآن کریم تا حیات محفوظ فرمائے ،دنیا جہاں کی بہتری عطا فرمائے۔