تذکرہ ان کا…کلام اللہ ترجمان جن کا

مولانا فاروق مدنی /استاذ تفسیر وحدیث جامعہ اکل کوا

            صحابہ کرام ؓافضل المسلمین ، قرآن حکیم کے مخاطبین اولین ، خیر امم اورروح کائنات تھے ۔ جنہیں اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ونصرت کے لیے چن لیا تھا ۔ یہ وہ قدسی صفات نفوس ہیں،جن کے توکل وطہارت ، صلاح وخیر ، پاکبازی وراست گوئی اور حق شناسی کی تعریف خود اللہ تعالیٰ نے کی اور جن کی تربیت خود دست قدرت نے فرمائی ہے ۔ وہ جہاں آپس میں اخوت وبھائی چارگی ، مواساۃ وغمگساری ،محبت و مودت ، ایثار وقربانی میں رحماء بینہم کی شاندار تفسیر تھے ۔ اور جہاں محامد و مکارم ، اخلاق وعادات ، اوصاف و کمالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثل وبے مثال نمونہ تھے ۔ وہیں اسلام کے خلاف چلنے والی باد سموم کے لیے آہنی دیوار ، باطل کے مقابلہ کے لیے شمشیر بے نیام اور اشداء علی الکفار کی عظیم الشان اور نرالی تفسیر تھے ۔ اورکیوں نہ ہوتے؛ انہیں’’ معلم ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملے ، درس گاہ’’ بیت اللہ‘‘ اور نصاب ’’کتاب اللہ‘‘ ملی،ممتحن خود اللہ ملا اور ان کو سند رضی اللہ عنہ ملی ،اولئک حزب اللہ ملی۔

            اللہ نے صحابہ کرام کو مختلف طریقوں سے جانچا تھا ۔ کبھی انہیں آگ کے دہکتے انگاروں پر لٹاکے جانچا ، کبھی انہیں سخت دھوپ، زبر دست گرمی میں تپتی ہوئے ریت پرلٹاکر سینے پر بھاری بھاری چٹان رکھواکے پرکھا ، کبھی سولی پر لٹکاکے امتحان لیا ، کبھی بدر میںتو کبھی احد میں ، کبھی خندق میں تو کبھی خیبر میں ، کبھی کسی میدان میں کبھی کسی میں،چمکتی ہوئی تلواروں کی چھاؤں میں پرکھا اور جب اس میں اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی تو قرآن کریم نے انہیں اولئک ہم المفلحون، اولئک ہم المہتدون، اولئک ہم الفائزون ، اولئک ہم الراشدون، اولئک حزب اللہ  اور اولئک ہم خیر البریہ جیسے القاب سے پکارا۔

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبھی صحابہ کے ستودہ صفات ہونے کو بیان کیا ہے اورسبھی کے خصوصی فضائل وارد ہوئے ہیں۔ اور بلا ریب جملہ حضرات صحابہ اس قابل ہیں کہ ان کے شمائل، اخلاق واطوار اور ان کے اعمال صالحہ واوصافِ حمیدہ کو امت اپنے لیے مشعل ِراہ بنائے اوران کی صحیح اتباع کرکے رضائے باری کی حقیقی دولت سے بہرہ ورہو ۔ اصحابی کالنجوم ۔

            یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تہذیب اور اخلاق فاضلہ کی بات تھی کہ بدوی اوراجڑ مزاج عرب کو اپنے قول وعمل سے ایسا بنادیا کہ اللہ نے خود ان کی صلاح وتقویٰ میں تصدیق فر مادی ۔

            صحابہ کرام کے تقویٰ و طہارت ، خشیت الٰہی ، حسن عمل اور ثبات علی الدین اور دیگر خصائص ہی کی وجہ سے ان کے اقوال و افعال کو دلائل احکام شرعیہ کے باب میں ایک خاص مقام دیا گیا ،جس کو اصول واصطلاح کی زبان میں تعامل صحابہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

            پھر صحابہ میں بھی استعداد اور صلاحیت کے اختلاف کی وجہ سے مقام و مناقب میں فرق ہے۔صحابہ نے  اپنی اپنی فطری صلاحیت واستعداد کے مطابق فیضانِ نبوت سے استفادہ کیا ، اسی فرقِ مراتب کی بنیاد پر خلفائے راشدین کی اتباع کا بہ کثرت حکم دیا گیا ۔

            بہر حال صحابہ وہ جماعت ہیں،جن کی تعریف ہماری اور تمہاری تحریر کی محتاج نہیں،جن کا مقام ومرتبہ ہمارے زبان وقلم کا ضرورت مند نہیں،جن کی ثقاہت وشجاعت،اخلاص وللہیت ،مقبولیت و محبوبیت ہماری ثناخوانی سے بے نیاز ہیں،کیوں کہ جن کا تذکرہ ،خود خالق کون مکان کرے ،وہ بھی اپنے کلام کتاب اللہ میں،اور ایک جگہ اور ایک مرتبہ نہیں،ایک موقع اور ایک خصوصیت پرنہیں،جابجا موقع بہ موقع مختلف انداز میں۔کلام اللہ کی دسیوں آیات صحابہ کے تذکرے سے ان کے محامد ومحاسن سے بھری پڑی ہیں، مشتے نمونہ ازخروارے کہ چند ایک پیشِ خدمت ہیں۔

تذکرہ ٔ صحابہ فرمانِ رحمان میں:

            ۱- {وَاعْلَمُوْٓا  اَنَّ  فِیْکُمْ  رَسُوْلَ اللّٰہِ  لَوْ  یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ  قُلُوْبِکُمْ   وَکَرَّہَ   اِلَیْکُمُ  الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ  وَالْعِصْیَانَ ط اُولٰٓئِکَ  ھُمُ  الرَّاشِدُوْنَ } ۔  (الحجرات: ۷)

            ۱- آیت کریمہ میں  الکفر و الفسوق و العصیان تینوں چیزوں کی صحابہ کرام کے لیے کراہت ثابت کی گئی،جس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام کسی بھی قسم کے معصیت سے کوسوں دور رہتے تھے۔ اور اگر کبھی ان سے بشری تقاضے کے ناتے اجتہادی طور پر تشریعی حکمت کے پیشِ نظر کوئی خطا سرزدکروائی جاتی تھی تو بھی دست ِحق پرست فوری طور پر اس کی صفائی کرلیا کرتا تھا ۔

            ۲-{وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗط وَمَنْ یَّعْتَصِمْ  بِاللّٰہِ  فَقَدْ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم} (آل عمران: ۱۰۱)

            ۲- آیتِ کریمہ میں تلاوت قرآن کی برکت اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کو کفرکے منافی قرار دیا گیا ہے ، اور یہ دونوں چیزیں صحابہ کرام کوبدرجۂ اتم حاصل تھیں۔اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ کا سہارا مضبوطی سے تھامنے والا صراط مستقیم تک پہنچا دیا جاتا ہے ۔اور ان سے بڑہ کر اللہ کے سہارے کو تھامنے والا کون ہو سکتاہے۔

            ۳-{ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا  وَجٰھَدُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ اللّٰہِ  وَالَّذِیْنَ  اٰوَوْا  وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ھُمُ  الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَھُمْ  مَّغْفِرَۃ’‘  وَّرِزْق’‘ کَرِیْم’‘ }۔(الانفال: ۷۴)

            ۳- آیت کریمہ میں مجاہدین ، مہاجرین اور انصار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو’’ مومن حقا‘‘ کا خطاب دیا اور مغفرت اور باعزت رزق کا مژدہ سنایا گیا ہے۔

            ۴-{ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ }(الانفال: ۶۲)

            ۴- آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمت دلائی ہے اور اپنی اورصحابۂ کرامؓ کی مددسے آپ کو تقویت پہنچا نے کا ذکر کیا ہے ۔

            ۵-{کُنْتُمْ  خَیْرَ اُمَّۃٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ  وَتَنْھَوْنَ  عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ }(آل عمران: ۱۱۰)

            ۵-آیتِ کریمہ میں صحابہ کرام کو خیر امت کا مصداق ِ اولین بتلایاگیا ہے، اور ان کا مشغلۂ خاص نیکی کی تلقین اور برائی پرنکیر بتایا گیا ہے۔

            ۶-{ لِلْفُقَرَآئِ  الْمُھٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَاَمْوَالِہِمْ  یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ  اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَo وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ  وَلَوْ کَانَ  بِھِمْ  خَصَاصَۃ’‘ ، وَمَنْ  یُّوْقَ  شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o وَالَّذِیْنَ جَآئُوْ مِنْ م بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ  رَبَّنَا  اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا  لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآاِنَّکَ رَئُ وْف’‘ رَّحِیْم’‘}(الحشر: ۸-۱۰)

            ۶- آیتِ کریمہمیں مہاجر صحابہ کے ایمانِ خالص او طلب رضاء الٰہی کو ذکر کیا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ اور رسول کا مدد گار بتایا گیا ہے ۔انہیں صادقین اور مفلحین کے لقب سے نوازا گیا ہے ، اور انصارِ صحابہ کی صفت خاص ایثار کو ذکر کیا گیا ہے ۔اور متاخرین کے متقدمین کے لیے دعا ء مغفرت کا ذکر ہے اور دلوں کو بغض سے پاک رکھنے کی التجا ہے۔ نیز آیت کریمہ میں( بعد میں آنے والے ) کو خاص ہدایت ہے کہ: کہ اپنے دلوں میں صحابۂ کرام کے باب میں رتی برابر بھی کسی قسم کا کینہ تو کیا کوئی غلط فہمی یا خام خیالی کا تصوربھی قریب نہ ہونے دیں۔ اور جب ان کے دلوں میںیہ عقیدہ ہوگا اور صحابہ کرام کے باب میں صفائی ٔ قلب ہوگا، تب ہی جاکر وہ مفلحون و مومنون اورصادقون کی صفت سے متصف ہوںگے ۔

            ۷-{  اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ  بِثَلٰثَۃِ  اٰلٰفٍ  مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ o بَلٰٓی لا اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْ تُوْکُمْ  مِّنْ  فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ  اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ  مُسَوِّمِیْنَ}(آل عمران: ۱۲۴-۱۲۵)

            ۷-آیتِ کریمہ میں ان ستودہ صفات شخصیات کی مدد کے لیے جنگِ بدر کے موقع پر فرشتوں کی جماعت کے اتارنے کا تذکرہ ہے ۔

            ۸- { اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ  مِّنَ السَّمَآئِ  مَآئً  لِّیُطَھِّرَکُمْ بِہٖ وَیُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ o اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ  الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ  فَاضْرِبُوْا فَوْقَ  الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْھُمْ کُلَّ بَنَان}(الانفال: ۱۱-۱۲)

            ۸- آیت کریمہ میں اللہ نے صحابہؓ سے شیطانی گندگی یعنی وساوس کو دور کرنے کا ذکر کیا ہے ۔

            ۹-{وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْہُ بَلَآئً حَسَنًا ط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْع’‘ عَلِیْم’‘۔(الانفال: ۱۷)

            ۹- آیت کریمہ میں صحابہ کو بہتر اجر عطا کرنے کا ذکر کیا ہے ۔

            ۱۰-{ قَدْ کَانَ لَکُمْ اٰیَۃ’‘ فِیْ  فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا ط فِئَۃ’‘  تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃ’‘ یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْھِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ط وَاللّٰہُ  یُؤَیِّدُ  بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ط اِنَّ  فِیْ ذٰلِکَ  لَعِبْرَۃً   لِّاُولِی  الْاَبْصَارِ}(آل عمران: ۱۳)

            ۱۰-اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں صحابہ کی نصرت کو بطور نشانی بیان کیا ہے اور عبرت کا سامان قرار دیا ہے ۔

            ۱۱-{وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ  اللّٰہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِہٖ ج حَتّیٰٓ  اِذَا  فَشِلْتُمْ  وَتَنَازَعْتُمْ  فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ م بَعْدِ مَآ اَرٰئکُمْ مَّا  تُحِبُّوْنَ ط مِنْکُمْ مَّنْ  یُّرِیْدُ  الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ  الْاٰخِرَۃَ ج  ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ ج  وَلَقَدْ  عَفَا  عَنْکُمْ ط وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ }(آل عمران: ۱۵۲)

            ۱۱- اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی معافی کا اعلان اور ان کے ساتھ اپنے فضل خاص کو بیان کیا ہے ۔

            ۱۲-{اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ م بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ ، لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْہُمْ  وَاتَّقَوْا اَجْر’‘ عَظِیْم’‘ o اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ  جَمَعُوْا  لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ  فَزَادَھُمْ اِیْمَانًاصلے ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ o فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ لَّمْ  یَمْسَسْہُمْ  سُوْٓء’‘ لا وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ  اللّٰہِ ط وَاللّٰہُ ذُوْفَضْلٍ عَظِیْمٍ}(آل عمران: ۲۱-۱۲۳)

            ۱۲- آیت کریمہ میں صحابہ ؓ کی جاں نثاری اور فرمانبرداری کو بیان کیا کہ زخم سے چور ہونے کے بعد بھی یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبردار رہے ، اس بے مثال خوبی پر اجر اعظیم کا وعدہ کیا ہے ۔

            ۱۳-{ھُوَالَّذِیْ ٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِھِمْ ط وَلِلّٰہِ  جُنُوْدُ  السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا}(الفتح: ۵-۴)

            ۱۳- آیت کریمہ میں صحابہ کرامؓ پر ازدیاد ایمان کے لیے نزولِ سکینت کا ذکر آیا ہے ۔ ۵- میں صحابہ وصحابیات کے لیے جنت اور اس کی نعمت کی خوشخبری ہے اور ان سے برائیوں کو دور کرنے کا کا تذکرہ ہے اور اسے فوز عظیم بتایا گیا ہے ۔

            ۱۴-{ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ  یُبَایِعُوْنَکَ  تَحْتَ الشَّجَرَۃِ  فَعَلِمَ  مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ وَاَثَابَھُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا o وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَہَا ط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا}(الفتح: ۹۱-۱۸)

            ۱۴-آیتِ کریمہ میں بیعت رضوان کا ذکر ہے ، جس کا نام ہی رضوان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھلے الفاظ میں ان صحابہ کو اپنی رضا مندی کا پروانہ دے دیا ۔

            ۱۵-{اِذْ  جَعَلَ  الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ  قُلُوْبِھِمُ  الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ  فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ  عَلٰی رَسُوْلِہٖ  وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ  وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ  التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ  بِھَا  وَاَھْلَھَا ط وَکَانَ  اللّٰہُ  بِکُلِّ شَیْئٍ  عَلِیْمًا}(الفتح: ۲۶)

            ۱۵- آیت کریمہ  میں وَاَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوَیٰ کالفظ ’’ اَلْزَمَ ‘‘ اہلِ علم کی خصوصی توجہ کا طالب ہے ۔ جس میں صحابہ کرام کا کلمۂ تقویٰ اور صفتِ تقویٰ کا احق اور اہل ہونا بھی بیان کیا گیا ۔نیز تقویٰ کو ان کی لازمی صفت قرار دیا گیا پھر یہ کیسے متصور ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام میں رتی برابر مخالفتِ رسول یا بغاوت یا ظلم کی کوئی بھی چیز یا بو کاادنیٰ شائبہ تک پایا جائے ۔

اوصافِ صحابہ ؓ  قرآن کی روشنی میں:

            ۱- الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۔صحابہ وہ جنہیں قرآن نے مومن برحق کہا۔

            { وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا  وَجٰھَدُوْا  فِیْ  سَبِیْلِ اللّٰہِ  وَالَّذِیْنَ  اٰوَوْا  وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ھُمُ  الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَھُمْ  مَّغْفِرَۃ’‘  وَّرِزْق’‘ کَرِیْم’‘ }۔(الانفال: ۷۴)

            ۲-الراشدون۔صحابہ وہ جنہیں رحمان نے رشدو ہدایت کا پیکر کہا۔

            {حبب الیکم الایمان}(الحجرات: ۸)

            ۳-الفائزون۔صحابہ وہ جنہیں ذوالجلال والاکرام نے دونوں جہاں میں فائزالمرام کہا ہے۔

            {اعظم درجۃ عند اللہ}(التوبۃ:۲۰)

            ۴-الصادقون:صحابہ وہ جنہیں خالق جہان نے صدق وصفا کا پیکر کہا۔

            {یبتغون فضلا من اللہ }(حشر:۸)

            ۵-رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ:صحابہ وہ جنہیں عالم الغیب ،ملک الملک نے اپنی رضا ورضوان کا پروانہ عطا کیا۔

            {السابقون الاولون}(التوبۃ:۱۰۰)

            ۶-اہل التوبہ:صحابہ وہ جن کی قبولیتِ توبہ کی گواہی خودسبحان ذی الملک والملکوت نے دی۔

            {لقد تاب اللہ }(التوبہ:۱۱۷)

            ۷-المبشرون:صحابہ وہ جنہیںخالق زمین وآسمان نے رحمت ورضوان کی بشارت سنائی

            {یبشرہم ربہم }(التوبہ:۲۱-۲۰)

            ۸-خیر امۃ :صحابہ وہ جنہیںمالک جن وانسان نے خیر امت کے خطاب سے نوازا۔

            {کنتم خیر امۃ اخرجت للناس}(آل عمران:۱۱۰)

            ۹-اہل التقویٰ :صحابہ وہ جن کو رب ذو المنان نے کلمۂ تقوی کاپاسدار وپاسبان بنایا۔

            {وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ  التَّقْوٰی}(فتح:۲۶)

            ۱۰-غیظ الکفار:صحابہ وہ جن کے ایمان کے چنگاری سے کفار کے دل جلتے ہیں۔

            {مثلہم فی الانجیل}(فتح:۲۹)

            ۱۱-مبرء ون:صحابہ وہ جن کی پاکبازی کی شہادت عالم الغیب والشہادۃ نے دیا۔

            {اولٰئک مبرء ون مما یقولون }(نور:۲۶)