تدریس عربی زبان کے اصول

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تدریس عربی زبان کے اصول

مفتی ابو بکر جابر قاسمی   

(ناظم کہف الایمان ٹرسٹ ،بورا بنڈہ ،حیدآباد)

کتاب اور نصاب بدلنے سے پہلے:

            جب بھی عربی ادب اور عربی زبان پر (ابتدائی جماعتوں میں بھی) محنت کرنے کی بات آتی ہے تو بے چاری کتاب اور مظلوم نصاب کے بدلنے کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں؛ حالاں کہ اس سے زیادہ مدرس بدلنے اور اس کی صلاحیت سازی کی ضرورت ہوتی ہے، بعض مرتبہ ہم ایسے مطالبے (عربی میں بات کرنے اور مضمون لکھنے کے) طلبہ سے کرتے ہیں ،جو ہم خود نہیں کرپاتے ہیں۔ بقول مفتی سعید صاحب پالنپوری رحمة اللہ علیہ کہ ہم پڑھاتے تو ہیں؛ لیکن پڑھتے نہیں ہیں۔ حکیم الامت کے مدرسہ میں ایک رشتہ دار طالب علم نے ابتدائی جماعت میں ہی منظوم لکھنا شروع کردیا تھا، کیا ہمیں اپنے اکابر کی طرح عربی کے اشعار کی بڑی مقدار یاد ہے؟

             مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمة اللہ علیہ عربی اخبارات کی ردی سے، قوامیس اور معاجم ترتیب دے رہے ہیں، کتنے لوگ لسان العرب اور تاج العروس کا مطالعہ کرتے ہیں، استاذ خود پڑھائی جانے والی کتابوں کی تمرین اپنی کاپی میں اچھی طرح حل کرکے آرہا ہو، ایک ایک لفظ کا مکمل شجرہٴ نسب اور اس کا فقہ اللغہ اہتمام سے بتلایا جارہا ہو،منتخب تعبیرات اور مناسب محاورے اور امثال پر اچھی اچھی کتابیں اردو زبان میں بھی الحمد للہ آچکی ہیں، اس سے استفادہ کیا جارہا ہو، شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمة اللہ نے فضائل اللغة العربیہ میں ان احادیث کو نقل کردیا، جو عربی زبان کی فضیلت بتلاتی ہیں، عربی زبان کی امتیازی خصوصیات بتلاکر اس کاشوق طلبہ میں پیدا کرنا چاہئے، عالمی زبان عربی زبان ہی ہے، یہ پہلو اچھی طرح سمجھنے کا ہے کہ انگریزی صرف خاص بلاک میں ذہنی غلامی کے ساتھ بولی جاتی ہے۔

             رشیا، ترکیا، پرتگال، چین، فرانس، جرمنی وغیرہ، اس زبانی گلوبلائزیشن کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، بہت ساری وجوہات سے انہیں انگریزی زبان سے انتہائی دشمنی ہے، اس کے سمجھنے والے تمام دنیا میں مل جاتے ہیں، اس کے ترجمان بھی موجود ہیں، ابدی اور قیامت تک رہنے والی زبان عربی ہے، قرآنی عربی اسلوب وانداز آج تک قابل ِفہم ہیں۔ شکسپیر وغیرہ کی طرح نہیں کہ ان کی انگریزی کو انگریزی زبان میں تشریح کرواکر پڑھوایا جارہا ہے، پڑھانے والے استاذ کو خود عربی زبان سے عشق ہونا چاہیے، اس کے پڑھانے کا ولولہ ہونا چاہیے، ذوق اور ذائقہ پایا ہوا ہونا چاہیے، اس کی گہرائی اور گیرائی کا، مختلف ادباء شعراء کے کلام سے وہ لطف لے سکتا ہو۔

عدم دلچسپی کے نقصانات:

            عربی زبان میں دلچسپی نہ لینے کے نتائج یہ ہیں:

            قرآن وحدیث تدبر اور شوق کے ساتھ پڑھنا نصیب نہیں۔

            عربی کتب خانہ سے کما حقہ استفادہ نہیں کر پارہے ہیں۔

            عربی زبان کے عالمی زبان ہونے کے باوجود اس زبا ن میں مخاطب کرنے اور تصنیف لکھنے کے عزائم مردہ ہوگئے۔

            عرب ملکوں میں رہنے ،وہاں جماعتوں میں جانے کے باوجود کتابی عربی کی استعداد نہیں ہے۔

            عصری لب ولہجہ میں آنے والی عربی کتابوں سے تو غیر معمولی توحش ہے۔

            ہم اپنے طلبہ کے لیے مثالی استاذ نہیں بن سکے اس لیے انہیں بھی عربی بول چال نہیں آتی ہے۔

            سلفیت زدہ تجدد پسند طبقہ عربی سکھانے کے نام پر اور قرآنی ترجمہ پڑھانے کے نام پر امت مسلمہ کے تعلیم یافتہ طبقہ کو متاثر کررہا ہے۔

            امت ِمسلمہ کا عربی داں طبقہ ہماری محنت کا میدان نہیں بن سکا۔

            اپنے اکابر کے بے مثال علوم کو ہم عربی میں ترجمہ کرکے عرب حضرات تک پہنچانے سے قاصر رہے۔

            اکابر کی نامکمل چھوڑی ہوئی کتابیں (التعلیق الصبیح علی مشکاة المصابیح) وغیرہ ہم مکمل نہیں کرپائے ہیں۔

عربی بول چال کی کمی:

            کسی بھی زبان کو سیکھنے سکھانے کے چار ذرائع ہیں: (۱) محادثہ (۲) استماع (۳) قرائة (۴) کتابت۔ ماہرین نے بولنے اور سننے کو پڑھنے اور لکھنے پر ترجیح دی ہے، لفظ اور آواز سے اپنی معلومات پہنچائی جاتی ہیں، لکھنا تو بعد کا کام ہے، عربی زبان تو ابتداء میں شفوی اور زبانی رہی، اسی لیے”لغة“ کو ”لسان“ کہا جاتا ہے۔ اسلام سے پہلے دوسوسال اسلام کے بعد سو سال تک بہت کم لکھا جاتاتھا، وحی بھی ابتداء میں سماع اور حفظ پر زیادہ اکتفا کیا گیا۔”صدور“ اور”نفوس“ سے تلقّی کا رواج زیادہ رہا،”سطور“ اور”نقوش“ کے مقابلہ میں ”حدثنا فلان“،”سمعت فلانا“، ”قرأت علی فلان“ کے الفاظ بتلارہے ہیں کہ علم حدیث کی اُٹھان بھی بنیادی طور پر زبانی سطح سے ہوئی ہے، تاریخ ِاشعار کو بھی ایسے ہی نقل کیا گیا، تجوید ولغت کے ماہرین اسی لیے مخارج، صفات، روم، اشمام، امالہ وغیرہ پر محنت کرتے ہیں۔

            ماہرین سے استفادہ کا آن لائن یا آف لائن کا رواج ہونا چاہیے، غلط سلط ہی سہی طالب علم اور ان سے پہلے استاذ بے موقع بہ موقع عربی بولتا رہے، انگریزی ادارے ہمارے لیے غیرت کو مہمیز کرنے کے لیے کافی ہیں؛ جہاں طالب علم نرسری سے ہی انگریزی پر فخر کرتا ہے، روز مرہ کے بول انگریزی میں بولنے لگ جاتاہے، ہمارے نظام ِتعلیم میں خو ش خطی کے نمبرات متعین ہیں؛ لیکن اچھا بولنے(خوش کلامی) کے نمبرات متعین نہیں ہیں، بلاتاخیر اس قدیم مرض کا علاج کیا جائے، جو بھی ٹوٹی پھوٹی بولی جاسکتی ہے بولی جائے۔ ایک سعودی ریٹرن عام آدمی عربی بول سکتا ہے، آٹھ سال عربی کتابیں پڑھنے والا مولوی کیوں نہیں بول سکتا؟ صرف انور شاہ کشمیری اور علی میاں ندوی رحمہمااللہ کی لَے پدرم سلطان بود کو چھوڑ دیجیے، مثال دے کر مثال بن کر بتائیے، آپ بن کر بتائیے، بقول علی میاں کے ندوہ اور ازہر عربی نہیں سکھاتے ،انسان کی محنت اسے عربی سکھاتی ہے۔

             حکیم عبد الحئی لکھنوی رحمة اللہ علیہ رائے بریلی میں رہ کر فاقوں کے ساتھ ”گل رعنا“ اور”نزھة الخواطر“ جیسی اردو عربی ادب لکھ رہے ہیں، ہم فون کے دور میں ایسا کام کیوں نہیں کرپاتے ہیں، ہزار نحو وصرف اور فلسفہٴ نحو وصرف پڑھ لیجئے، گفتگو کے بغیر عادت ڈالے بغیر صحیح اسلوب میں بزبان عربی ترجمانی نہیں کرپائیں گے، مختلف عناوین پر مناقشے کروائیے،(ٹرین اور ہوائی جہازوغیرہ کے مناقشے) طالب علم جوش ِمناظرہ میں زبان پر قادر ہوجاتا ہے، منافست اور تقابل میں صلاحیت کھل جاتی ہیں۔

            عربی خطباء کی تقریریں سنائیں، بعض اہل مدارس نے آن لائن عرب اساتذہ کی تدریس کا بھی انتظام کرلیا ہے، خود پہلے مدرس کو بولنا ہے، خوب بولنا ہے، طالب علم کے جواب کے بغیر بھی بولنا ہے، مدارس کے اعلانات وغیرہ مکمل ماحو ل عربی زبان میں ڈھال دیا جائے، ریاکاری کے ساتھ ہی آگے بڑھیے، تکبر کے ساتھ ہی بولئے، بعد میں اخلاص آجائے گا۔ کنا تعلمنا العلم لغیراللہ مما رضی إلا ان یکون للہ (اھمیة المشافھة فی اللغة العربیة، مجلة مجمع اللغة العربیة، بدمشق، مجلد ۲۸، ذی الحجة ۷۲۴۱، ینایر ۷۰۰۲)

            بچہ ماں باپ سے سن کر ہی تو سیکھتا ہے، چھوٹے بڑوں کو دیکھ کر ہی نقالی کرتے ہیں، غلطیوں کے بغیر کون سیکھ سکا ہے، ناکامیوں کی سیڑھیاں ہی کامیابی کی منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔

عربی دیواری پرچہ اور عربی انجمن:

            بہ پابندی استاذ محترم کی نظر ثانی کے بعد نقّالی کاپی پیسٹ کے بغیر نکالے جانے والے دیواری پرچوں نے مولانا نور عالم خلیل امینی رحمة اللہ علیہ تیار کیے۔ مہینہ کی ایک تاریخ سے پہلی رات میں مولانا وحید الزماں کیرانوی طلبہ کے کمروں میں پہنچ جاتے، بہر صورت مضامین لکھواکر آویزاں کرواتے۔ عربی کتابوں کی معتدبہ کتابیں ہونی چاہیے، عربی رسائل ومجلات مہیا کیے جانے چاہئیں، ہوسکے تو پرنٹ آوٹ نکال کر دیجیے، دوم سوم سے کم از کم عربی انجمن کا اہتمام ہو، مکمل نظام العمل تیاری کے بعد مناسب عربی حمد اور نعت کے ساتھ عربی زبان میں نظامت چل رہی ہو۔ انتظامیہ اساتذہ اور طلبہ پر دباوٴ ڈالے، اس میں غیرحاضری پر سرزنش کی جائے، قضا کروائی جائے، پورے سال کی عربی اردو تقاریر اور مضامین کی تعداد متعین ہوں، اس کے رجسٹر محفوظ رکھے جائیں، اس کا اعلیٰ انعام طے ہو، نگراں اساتذہ کو باقاعدہ اس کی اجرت علیحدہ دی جائے، مختلف مدارس اور جامعات کے اس سلسلہ میں تجربات سے استفادہ کیا جائے، اسکولوں کی طرح عربی کے ماہرین کو بلاکر ہفت روزہ ورک شاپ اور تربیتی اجتماع (دورہٴ تدریبیة) رکھا جاسکتا ہے، رسمیت ہر عمل کی روح کو ختم کردیتی ہے، فکر وعمل کا جمود وتعطل قربانیوں کو بے اثر کردیتا ہے، عمر بڑھتی چلی جاتی ہے، تجربہ وعلم نہیں بڑھتا، عربی انجمن کی ایک ایک تقریر کی حرف بحرف اصلاح کی جائے،نوک پلک درست کیے جائیں، طالب علم کی معذرت خواہی بھی عربی میں ہو، مزید انتظار مت کیجئے، اس نسل کو بربادی سے بچائیے، فورا ًدیواری پرچوں اور عربی انجمن کو موٴثر منظم بنانے کے اقدامات شروع کردیجیے۔

 محفوظات کا اہتمام:

            ابن جوزی کی ”الحدائق“، ”تذکرة الحفاظ“اور”الحثّ علی حفظ العلم“ جیسی کتابوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ تیس ہزار حدیثوں تک یاد کرلیا کرتے تھے، پچاس پچاس ہزار اشعار انہیں محفوظ تھے۔ ابوبکر انباری کو ایک سوبیس تفسیریں مع اسناد یاد تھیں، امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایک مہینہ بغیر تکرار کے اشعار سنا سکتا ہوں، آج حافظے کمزور ہوگئے، فون نمبر بھی یاد نہیں رہتے۔ عربی ملکوں میں شام، افریقہ میں حفظ متون کا بڑا رواج ہے، صحیحین کے حافظ بھی کافی مل جاتے ہیں، قرآن کے حفظ کے ساتھ احادیث شریفہ کے حفظ کا نظام مفتی سعید صاحب پالنوری رحمة اللہ علیہ نے سلسلہٴ محفوظات کے ذریعہ شروع فرمایا، کس جماعت میں کتنی حدیثیں طلبہ کو یاد کرلینی چاہیے۔ جامعہ اکل کوا نے ”مُذکّرة“ ترتیب دی، ”مختارات من ادب العرب“ میں ابو الحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ نے منتخب ادبی شہ پارے نقل کیے ہیں، حیاة الصحابہ کی دوسری جلد میں صحابہ کرام کے جامع اور مختصر خطبات کی خاصی تعداد موجود ہے، لوگوں نے ماذا خسر العالم کے اقتباسات حفظ کرلیے، آج کل ہدایة النحو وغیرہ میں بطور استشہاد کے ذکر کیے گئے اشعار بھی یاد نہیں۔ ہمارے اکابر مفتی شفیع صاحب، مولانا اسعد اللہ صاحب اور مولانا زکریا صاحب رحمہم اللہ کو کافی اشعار بروقت پڑھتے ہوئے دیکھا گیا ہے، اردو میں بیت بازی کے ساتھ عربی میں بھی مساجلہ شعریہ ہونا چاہیے، پورے سال مدرسہ کی مناسب دیوار پر یہ عربی زبان میں کوئی قول حکمت یا شعر لکھا جانا چاہیے، چلتے پھرتے طلبہ دیکھ کر یاد کرلیں گے، حفظ احادیث، حفظ متون کے مسابقے رکھوائے جاسکتے ہیں، اس کا عرب ملکوں میں بڑا رواج ہے، ان کے محفوظ ویڈیوز سے یوٹیوب پر استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

کام کہاں سے شروع ہو؟

            دو حرفی، سہ حرفی جملے بے تکلف بولے جائیں، صبح سے شام تک روز مرہ کی عربی استعمال میں لائی جائے (اس کے لیے جدید عربی ایسے بولئے سے استفادہ کرسکتے ہیں) القصص العربیة، القصص الادبیة جیسی کتابوں کو پڑھیں، چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنائی جائیں اور لکھی جائیں، اردو بولنے پر سخت پابندی عائد کی جائے، مالی جرمانہ طے کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں (چاہے اسے جمع کرکے اُسی طالب علم ہی کو کوئی کتاب دلادی جائے) کسی استاذ کو اس شعبہ کا ذمہ دار طے کرکے اس پر عربی ادب کی فکر کو غالب کیا جانا چاہیے، المعجم الوسیط، اقرأ تتحسن لغتک العربیة، الرائد جیسی لغتیں اور رسائل ایک سے زائد رکھنا چاہیے، طلبہ کو پورے کھلے پن اور حفاظت کے ساتھ استفادہ کا موقع فراہم کیا جائے، چھوٹے پیمانے پر مَعْرض (کتابوں کی نمائش) لگاکر پڑھنے اور خریدنے کے جذبہ کو تحریک دی جاسکتی ہے، عربی زبان پر محنت سے متعلق ہر عذر” عذرِ گناہ بد تر از گناہ“ کے قبیل سے ہے۔

             ہم عالم الکل یا کامل العلم تو نہیں ہیں؛ لیکن حقیقی طالب بن کر سیکھتے ہوئے سکھانا چاہیے، قواعد نحو وصرف کو تکلُّم میں پھانسا نہیں بننے دینا چاہیے، چیزوں کو ہاتھ میں لے کر بار بار بولنے اور کہلوانے سے طالب علم جلدی سیکھتا ہے، چاہے تو پورے مدرسہ کے لیے الصف العربی نامی مستقل خارجی ہم نصابی نظام کا بھی تجربہ کرسکتے ہیں۔

            مزید تفصیلات کے لیے ”منظم مدارس“ جلد سوم اور”درس نظامی کی کتابیں کیسے پڑھائیں“ کا مطالعہ مجموعی طور پر بہت مفید ہوگا۔

خو ش خطی بھی اہم ہے:

            خط نسخ اور خط رقعہ تو ہر طالب علم کو آنا ہی چاہیے، مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب رحمة اللہ علیہ کی ”خط رقعہ“ اور”حرف شیریں“ بازار میں دستیاب ہے۔ عربستان میں بہت سی ہوم ورک والی ورک بک ترتیب دی جاچکی ہیں، علامات ترقیم واملاء پر مستقل کتابیں موجود ہیں، صلات اور کتابت ِہمزہ کے اصول کو اہمیت سے سکھایا جائے، بقول مولانا عبد القوی صاحب دامت برکاتہم کے کہ اردو تو اب مدارس میں بھی محفوظ نہیں رہی(عربی کے کیا کہنے) فضلاء کی درخواست ِتدریس میں بھی کتابتی اغلاط رہتے ہیں، دلچسپی بڑھانے کے لیے نحوی، صرفی، لغوی پہیلیوں کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے، ادباء کے واقعات اور اہل دل کے ادب پر مولانا واضح رشید ندوی رحمة اللہ علیہ اور سعید الرحمٰن اعظمی دامت برکاتہم کی تحریریں ادب پڑھانے میں تنوع وتبدیلی ذائقہ کا کام کرسکتی ہیں، روحانی تشنگی کا سامان بھی ہوجائے گا۔

            ھذا ما تیسر لی واللہ اعلم، وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی آلہ وا?صحابہ ا?جمعین والحمد للہ رب العالمین۔

جزاکم اللہ احسن الجزاء