اسلام اورہم مسلمانوں کی نظر میں-حد درجہ معزز انسان کا آغاز و انجام اوراس کامقام یہ ہے جو قرآن وحدیث کی روشنی میں پیش کیا گیا ،لیکن نیچری (Netural) دہریہ بے دین کفارومشرکین کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ انسان بذات خود اس طرح پیدا نہیں ہوا، جس طرح آج دنیا میں نظر آرہا ہے؛ بلکہ وہ بالکل ابتداء میں ”خلیہ “ (Cell) کی شکل میں کسی سیارے سے زمین پرآپڑا تھا؛ چوں کہ ہماری زمین اس خلیے کو رأس آگئی ،اس لئے وہ پھیلنا اوربڑھنا شروع ہوا۔ نشو و نما کی ابتداء میں اس کی حیثیت بے حد معمولی اور بھدّے جاندار کی سی تھی، پھر قدرتی طور پر رفتہ رفتہ اس نے رد و بدل کو قبول کیا، جینے اور زندہ رہنے کے لئے ضروری چیزیں اس کے اندر آپ سے آپ بنتی اوربگڑتی گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی ساخت اوراس کی حالت بھی بدلتی گئی، پھر امتداد ِزمانہ اورفطری حالات کے شدید رد و بدل نے خلیہ کی ساخت کو بدل کردیگر انواع سے ترقی دیتے دیتے اسے ارتقاء کے پہلے زینہ پر ڈال دیا اوراس کی شکل بندر کی سی بن گئی! اس شکل پر آنے کے بعد بھی تبدیلی کا عمل جاری رہا، چناں چہ ُدم اور دوسری غیر ضروری چیزیں غائب ہو گئیں، اوربندر سے اس نے بندراورانسان کی درمیانی شکل اختیارکرلی۔ پھر وہ وقت آیا کہ یہ صنف بھی نا پید ہونے لگی، اوران کا ڈھانچہ بھی روئے زمین پرباقی نہ رہا۔ اس لئے کہ رد و بدل کے شدید عمل نے اس درمیانی شکل کو بھی باقی نہ رکھا؛ چنانچہ اس شکل نے بھی اپنے اندر تبدیلی قبول کی اورموجودہ انسانی ہیئت اختیارکرلی!
انسانی پیدائش کے اس عجیب وغریب نظریے کو ثابت کرنے کیلئے علم الحیوانات (Zoology) کے ماہرین ان اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اتفاقات‘ فطری تغیرات‘ نظریہ ارتقاء (Theory of Evolution) بقاء اور صلح (Survival of the Fittest) اور موروثی اثرات وغیرہ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں‘ یہ نظریئے (Theories) بذات خود بر خود غلط اور بے بنیاد نہیں، اس لئے کہ ہمارا وجدان بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ باری تعالی ان گنت خلائق اور کائنات کی تخلیق میں اپنے دیگر اصولوں کی طرح ان اصولوں کو بھی گا ہے بگاہے استعمال کرتا ہے، جبکہ اس کے بے شمار اصولوں اورضابطوں تک رسائی بھی حضرت انسان کیلئے محال ہے۔ بہر کیف ہم دیکھتے ہیں کہ ابتداء آفرینش میں انسان کا وجود مرد کے نطفے اورعورت کی رطوبت کے اندر ایک خلیہ کی شکل میں ہوتا ہے، پھر مادہ منویہ میں جان پڑتی ہے۔ اوراس کے اندر مذکر یا مونث ہونے کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ پھرمرد عورت کے ملاپ سے عورت کے رحم میں نطفہ قرارپاتا ہے، جو مختلف حالتوں سے گزرکرجنین کی شکل اختیار کرتا ہے؛ تا آں کہ ماں کے رحم میں اس کی خلقت تمام ہوتی ہے، اور نوزائیدہ بچہ کی شکل میں ایک ننھے منے مکمل انسان کا دنیا میں ظہور ہوتا ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْلَقَةً َفخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ انْشَأْنَاہُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخالقین۔(المؤمنون:۱۳ تا ۱۴)
پھرہم نے اس کو ایک محفوظ جگہ (یعنی ماں کے رحم میں نطفہ بنا کر رکھا، پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا، پھر لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنایا، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنایا، پھر ہڈیوں پرگوشت (پوست) چڑھایا،پھر ہم نے اس کو ایک اور ہی صورت میں بنایا۔ پس برکت و عظمت والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔
نیز حضور ﷺ کا ارشاد ہے:ہربنی نوع انسان اپنی پیدائش کے چالیس دن ماں کے رحم میں نطفہ کی شکل میں گذارتا ہے، پھر وہ جمے ہوئے خون اور گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے، اس حالت میں فرشتہ اس کے پاس آکر اس کے اندر روح پھونکتا ہے اور اس کے بارے میں چار چیزوں کا اندراج کرتا ہے۔ روزی، موت، اس کی جملہ کار کردگی اور یہ کہ اس کا شمار خوش نصیبوں میں ہو گا یا بدبختوں میں۔(بخاری، مسلم، اللوٴلوٴوالمرجان ۳/۲۰۷،۲۰۸)
حضور ﷺسے سوال کیا گیا:یا رسول اللہ! بچہ ماں یا باپ کی مشابہت کیوں کراختیار کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: مرد و عورت کے ملاپ کی صورت میں جس کی منی غالب آتی ہے، بچہ اس کی شکل اختیار کرتا ہے؛ چنانچہ مرد کی منی غالب آنے کی صورت میں بچہ باپ اور اس کے عزیزوں کی صورت پرجاتا ہے۔ اورعورت کی منی غالب آنے کی صورت میں بچہ اپنے ننھیال کی صورت پر جاتا ہے۔(بخاری۵/ ۸۸، ۱۰۴- مسلم ۱/۱۷۲)
یہ بھی گویا موروثی اثرات کی طرف ایک قسم کا اشارہ ہے۔ نباتات کے اندر تدریجی ارتقاء کا روز مرہ مشاہدہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ کھجور کا درخت ایک گٹھلی کی شکل میں ادھر اُدھر پڑا گرا ملتا ہے، لیکن یہی بیج جب زمین کے اندر دب جاتا ہے اور مناسب آب و ہوا اور ماحول اسے نصیب ہوتا ہے، تو یہی گٹھلی ترو تازہ شاخ کی شکل میں زمین سے اپنا سر ابھارتی ہے اور رفتہ رفتہ لمبے لمبے کھجور کے درختوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے، جن کے اوپر تہہ بہ تہہ خوشے لگے ہوتے ہیں۔ یہ سب انتظام اس لئے ہے کہ لوگوں کو اچھی اچھی چیزیں کھانے کو مل سکیں۔
یہ اور قدرت کی کاریگری کے بے شمار نمونے اس کا ثبوت ہیں کہ انسان و حیوان ہوں‘ یا پودے اور نباتات‘ سب کی افزائش اورپرورش قدرت کے تدریجی نظام کے تحت عمل میں آتی ہے؛ اسی طرح باپ دادا کی عادات و اطواراور ان کے خاندانی اثرات کا بیٹے میں منتقل ہونا بھی قدرت ِخداوندی کا ادنیٰ کرشمہ ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا،نیز ازل سے دستورِ الٰہی یہ بھی رہا ہے کہ صرف وہی چیزیں یا قسمیں باقی رہ جاتی ہیں، جو دوسری انواع و اقسام سے زیادہ لائق اورمفید ہوتی ہیں، گویا آج سے نہیں ازل سے بقائے اصلح کے دستورپرعملدرآمد جاری ہے، لیکن یہ نہ بھولنا چاہئے کہ ہم آنکھ بند کر کے یہ سب مانتے جارہے ہیں۔ ہم ان نظریوں کی تائید اس شرط کے ساتھ کرتے ہیں کہ کائنات اور اس کے ذرے ذرے میں جوردو بدل ازل سے ہوتا آرہا ہے اورابد تک ہوتا رہے گا یہ تغیران کا ذاتی نہیں اورنہ ہی یہ کسی خوشنما اتفاق یا وقتی حادثے کا نتیجہ ہے، بلکہ یہ تمام تراثراورتاثیراللہ رب العزت اوراس کی زبر دست قدرت کا ادنیٰ نمونہ ہے۔
خلق و تکوین کا قدرتی نظام حق تعالیٰ کی مشیت اور ارادے کا پابند ہے:
نیز خلق و تکوین کا یہ قدرتی نظام آزاد اور بے اصول نہیں، بلکہ حق تعالیٰ کی مشیت اوراس کے ارادے کا پابند ہے۔ اوراسی ضابطے کے تحت کائنات کا یہ سارا نظام سارے عالم میں جاری و ساری ہے، لیکن چوں کہ باری تعالی خود مالک و مختار ہیں، وہ محض اپنے فضل اوراپنی مہربانی سے اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کی پابندی کرتا ہے، ورنہ اس پرکسی کا جبر اوردباؤ نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس نظام ِتکوینی میں ازخود کبھی کوئی تبدیلی کردیتا ہے اورانبیاء ورسل جیسے اپنے نیک بندوں کے ذریعہ ایسے معجزات دنیا والوں کے سامنے پیش کرتا ہے ،جس سے ان کی نبوت اوررسالت کی تصدیق ہوتی ہے اوران معجزات کو دیکھ کرایک دنیا حیران اور ششدر رہ جاتی ہے۔
چنانچہ دنیا بھرکے انسانوں کی تخلیق کا ایک قدرتی نظام ہے اورتوالد و تناسل کا سلسلہ اس کے مطابق چل رہا ہے، لیکن جب خدا کو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش منظور ہوئی تواس نے عام قاعدہ سے ہٹ کربغیر باپ کے انہیں پیدا کر کے دکھا دیا۔ چنانچہ ارشاد ہے: إِنَّ مَثَلَ عِیسَی عِنْدَ اللَّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَه مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَه کُنْ فَیَکُونُ (آل عمران :۵۹)
بے شک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی طرح ہے کہ اللہ نے پہلے مٹی سے اس (آدم) کا قالب بنایا، پھراس کو حکم دیا کہ (انسان) ہوجا۔ پس وہ انسان ہوگیا۔
عام انسان اپنی پیدائش کے ایک عرصے کے بعد بولنا شروع کرتا ہے۔ اور رفتہ رفتہ یہ صلاحیت اس کے اندر ترقی کرتی ہے، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ دولت اسی وقت مل گئی، جب آپ گہوارے میں تھے اورآپ کی پیدائش کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا۔
آگ کی خاصیت حق تعالیٰ نے یہ بنائی ہے کہ جو اس میں پڑتا ہے، آگ اسے فوراً جلا کرخاک کردیتی ہے، لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اس آگ میں ڈالے گئے تو قدرت نے آگ کی اس تاثیرکو معدوم کردیا اوروہی آگ آپ کے لئے گلزار بن گئی۔اس طرح حق تعالی قادر مطلق ہے، وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ کائنات کو ایک نظام کے مطابق بھی چلاتا ہے، اوراپنی مرضی اورمنشاء سے جب چاہتا ہے، اس کے اندر تبدیلی فرما دیتا ہے۔
خلق اور تکوین خدائی نظام ہے یااتفاقی حادثہ :
خلق اورتکوین کے جس نظام کو ہم خدائی نظام کہتے ہیں، حیرت کا مقام ہے کہ یہ نیچری اور بے دین اسکو اتفاقی حادثہ یا خود کارنظام جیسے کھوکھلے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اوریہ تمام ترکھینچ تان اورہیرپھیر وہ صرف اس لئے کرتے ہیں ؛تاکہ ذات باری تعالیٰ کا اقرار نہ کرنا پڑے اور وہ ہر قسم کی مذہبی پابندیوں سے اپنی گردن چھڑا لیں اورخود کو آزاد اور بے مہار تصور کریں!
لیکن انہیں خوب سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ذات باری کا، جس قدرانکارکریں، خلق وتکوین کے اس نظام کو جو چاہیں نام دیں، اس کی قدرت ِکاملہ میں بال برابر فرق نہ آئے گا؛ چناں چہ اس کا ارشاد ہے:
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّہِ تَبْدِیلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّہِ تَحْوِیلاً. (فاطر: ۴۳)
تم اللہ کے دستورمیں ہرگز تبدیلی نہ پاؤ گے اورتم اللہ کے دستورکو ہرگز ٹلتا ہوا نہ دیکھو گے۔
ہاں اس کی مشیت ہوگی تو وہ اپنے بنائے ہوئے نظام کو نہ صرف موقوف کر سکتا ہے، بلکہ اس کو درہم برہم اورنیست ونابود بھی کر سکتا ہے، اس لئے کہ وہ بڑا زبردست بڑی حکمت والا ہے۔
اور اگر باری تعالی چاہتا تو حضرت آدم اورحوا کو رفتہ رفتہ وجود میں لاتا، جیسا کہ اس بھری پُری دنیا کے اس پورے نظام کو وہ تدریجی طورپرچلا رہا ہے، لیکن اس کی مشیت یہ ٹھہری کہ دنیا کے اولین انسانی جوڑے کو اس نے یک لخت پیدا فرما دیا۔ دہریوں کی طرح آدم و حواء نے ارتقاء کی سیڑھیوں کو زینہ بہ زینہ طے نہیں کیا اور ہم اس قدر باعتماد اور یقین سے یہ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ خبریں ہمیں وہی دے رہا ہے جس کے دست ِقدرت نے اس عجوبہ روزگارکو وجود بخشا۔ اور جب صاحب واقعہ خود خبر دیتا ہے تو اس کے اندر صداقت ہوتی ہے اور جھوٹ کا شائبہ تک پایا نہیں جاتا۔بحمد اللہ! علماء اسلام نے ڈارون کے فاسد نظریوں کا سختی سے تعاقب کیا ہے اوران کے اپنے نظریات اور تھیوری سے ان فاسد عقائد اورنظریات کا منہ توڑجواب دیا ہے۔
