مسلمان تاجروں کی چند خیانتیں اور اُن کو نصیحتیں
مفتی عبد المتین اشاعتی کانڑ گانوی
آج کل جہاں ایک طرف مہنگائی کا دور دورہ ہے، ہندوستان کے اکثر باشندے یومیہ ایک ڈالر سے بھی کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، سماج میں اور تجارت کے میدان میں پچھڑے طبقے طبی سہولتوں سے بالکل یا کم وبیش محروم ہیں، وہیں دوسری طرف تاجر ودکان دار، خاص کر ”دوائی کمپنیاں“ اور ”میڈیکل اسٹور“ والے ہر کس وناکس سے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، فقیر ہو یا ملنگ، اخلاق ومروت کے خلاف، حد سے زیادہ نفع حاصل کر رہے ہیں، حتی کا بسا اوقات ایک غریب وپچھڑا آدمی محض چند روپئے نہ ہونے کی وجہ سے دکان، دواخانہ یا میڈیکل اسٹور سے اشیائے خورد ونوش، علاج اور دوائی لیے بغیر واپس لوٹنے پر مجبور ہوجاتا ہے، لہٰذا مسلمان تاجر وکاروباری حضرات یاد رکھیں! کہ اگرچہ شریعت نے زیادہ سے زیادہ نفع کی کوئی حد مقرر نہیں کی، لیکن حد سے زیادہ وخلافِ مروت نفع خوری کی یہ عادت خود ہماری ذات اور ہمارے سماج ومعاشرہ کے لیے نقصان دہ ہے، اور کارِ نبوت یعنی دعوت وتبلیغِ دین میں ایک طرح کی رکاوٹ بھی ہے، اس لیے خود کو اس طرح کی نفع خوری سے بچائیں، اور غریب ولاچار، یتیم وغریب، مسکینوں اور بیواوٴں کی خبرگیری ورہنمائی کریں، اور اُن کی کھلے ہاتھوں مدد کریں۔
یہ تحریر اس لیے سپرد قرطاس کی گئی کہ :
کچھ ماہ پہلے غالباً ریاست بھر میں احتجاجی طور پر، دواخانوں پر تالے پڑے تھے، میڈیکل اسٹورس بند تھے، لوگ اپنے مریضوں (بوڑھوں، نوجوانوں ،عورتوں اور بچوں)کی صحت کو لے کر فکر مند تھے، دواخانوں اور میڈیکل اسٹوروں کی پوری ریاست میں بندی کی وجہ جب معلوم ہوئی تو حیرت کی انتہا نہ رہی، یہ لوگ اس لیے احتجاج کر رہے تھے کہ آج کل بعض لوگ آن لائن کمپنیوں سے براہِ راست دوائیں خرید لیتے ہیں، جو انہیں سستے داموں میں مل جاتی ہیں، اور اس کا اثر ہمارے کاروبار پر پڑ رہا ہے، کہ وہ لوگ دوائی ہم سے نہیں خریدتے، حالانکہ آن لائن خریدنے والا طبقہ زیادہ سے زیادہ دس فی صد ہوگا، بقیہ نوے فی صد لوگ تو وہ ہیں جو انہی دواخانوں اور میڈیکل اسٹوروں سے رجوع کرتے ہیں، اور اگر کوئی دوائی منگواتا بھی ہے، تو پہلے ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے پھر منگواتا ہے۔
اور ”جنرک میڈیسن“ (Generic medicine)کمپنیوں کی طرف سے یہ رپورٹ ماضی میں آچکی ہے کہ اکثر وبیشتر روز مرہ استعمال میں آنے والی دوائیاں ایسی ہیں، جو ۵/ سے ۱۰/، یا زیادہ سے زیادہ ۱۵/ یا ۲۰/ روپئے میں تیار ہوجاتی ہیں، اور اُس کی قیمت کم نفع کے ساتھ اتنی ہوتی ہے کہ ہر طبقے کا مریض اُس کو بہ سہولت خرید سکتا ہے، لیکن وہیں دوائیں میڈیکل اسٹوروں پر دوگنا بلکہ چار گنا نفع کے ساتھ فروخت کی جاتی ہیں، جس پر میڈیکل اسٹور یا دواخانہ والوں کو اسکیمیں اور سہولیات دی جاتی ہیں، مخصوص مدت کے بعد اُنہیں سیر وسیاحت اور تفریح کا ویزا دیا جاتا ہے،اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک بھیجا جاتا ہے، یہ سب سہولتیں اور اسکیمیں جو انہیں ملیں، یہ سب کمپنیوں کی طرف سے بظاہر تو تبرًّع اور انعام ہوتا ہے، مگر اُس کا بار اُن صارفین پر آتا ہے، جو یہ دوائیں مہنگے داموں میں خریدتے ہیں ۔
ایک شہر کے بارے میں یہ خبر معلوم ہوئی کہ وہاں پر ”جنرک میڈیسن“ اپنا میڈیکل کھولا جارہا تھا، تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سستے داموں میں دوائی دی جاسکے، لیکن اُس شہر کے میڈیکل اسٹور والوں نے اُس کے خلاف احتجاج کیا، اور شہر میں اس طرح کے عوام کے لیے سہولت والے میڈیسن اسٹور کھولنے سے انکار کردیا، کیوں کہ اس میں انہیں اپنی دکانیں بند ہوتی نظر آرہی تھیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ میڈیکل اسٹور سے کوئی دوائی یا دکان سے کوئی سامان خریدا گیا، خریدار کے پاس دکان دار کو دینے کے لیے چند روپئے کم پڑ رہے تھے، تو اُس میڈیکل اسٹور یا دکان والے نے اُس سے کہا کہ پورے پیسے لے کر آئیں، اور پھر دوائی یا سامان لے جائیں، جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اُسے دوائی یا سامان دے دیا جاتا، اور کہہ دیا جاتا کہ بقیہ پیسے بعد میں ادا کردینا، اس طرح کے واقعات عام طور پر ہمارے مسلم تاجروں، دکان داروں کے یہاں اور میڈیکل اسٹوروں پر پیش آتے ہیں، غیر مسلموں کو دیکھا گیا کہ وہ سہولت کی بات کرتے ہیں یعنی بعد میں دے دیناوغیرہ۔
کئی بار ذہن میں یہ بات آئی کہ آخر کار مسلمانوں کو صرف اور صرف ہمارے مسلم بھائیوں کی دکانوں سے سامان کی خریداری کرنی چاہیے، تاکہ مسلمانوں کی معیشت واقتصادیت مضبوط ومستحکم ہو، اُس کے باوجود ہمارے مسلمان بھائی غیروں کی دکانوں سے سامان لیتے ہیں، تکلیف تو ہوتی تھی، لیکن چند واقعات جب سامنے آئے، تب بات سمجھ میں آئی کہ آخر کیوں مسلم گاہک وخریدار مسلمانوں کی دکانوں کے بجائے غیر مسلموں اور مارواڑیوں کی دکانوں کا رُخ کرتے ہیں؛ اس لیے کہ غیر مسلم اخلاق سے پیش آتا ہے، اگرچہ بھاوٴ کم نہ کرے لیکن بات سلیقے سے کرتا ہے، ایک سے زائد سامان کھول کر بتاتا ہے، نہ خریدنے پر چیں بہ جبیں نہیں ہوتا، کچھ نہ لو تب بھی دوبارہ آنے کو کہتا ہے، اس کے برعکس بعضے مسلم دکان دار ترش رُو ہوتے ہیں، غیر سنجیدگی اور غیر سلیقہ مندی کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔
بعض مسلم دکان دار ایسے بھی ہیں کہ اگر کوئی شخص دوسری دکان سے کوئی سامان خرید کر اُن کی دکان پر کوئی اور سامان لینے کی غرض سے جاتا ہے، یا کسی سامان کی تفصیل یا قیمت معلوم کرنے کے لیے جاتا ہے، تو اُن کے چہرے پر ۱۲/ بج رہے ہوتے ہیں، اور اُن کی نظر گاہک کے بجائے اُس کی تھیلی یا اُس سامان پر ہوتی ہے کہ اس نے یہ سامان دوسرے کی دکان سے کیوں خریدا، وہ اُس گاہک کے ساتھ سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے، اور مطلوبہ سامان ہوتے ہوئے بھی انکار کردیتے ہیں کہ یہ سامان ہمارے یہاں نہیں ہے، جاوٴ اُسی دکان سے خریدو جہاں سے یہ سب سامان لائے ہو۔
درج ذیل کے چند واقعات سے آپ کو بھی اس کا احساس ہوگا، اور ممکن ہے اس طرح کا کوئی واقعہ آپ کے ساتھ بھی پیش آیا ہو۔
ایک واقعہ جو ایک صاحب کے ساتھ پیش آیا ، وہ یوں ہے کہ:
ایک دن دواخانہ میں اہلِ خانہ کو لے کر جانا ہوا، وہاں دیہات سے بہت سارے مریض (مرد وخواتین) آئے ہوئے تھے، ایک غریب شخص اپنے معصوم پھول سے بچے کو شفا خانہ لے کر آیا، جب ڈاکٹر نے دوائی لکھ کر دیا، تو وہ شخص اُسی شفا خانے کے میڈیکل اسٹور پر گیا، اور کاغذ دکھاکر مطلوبہ دوائیں دینے کو کہا، اسٹور والے نے دوائیں نکال کر اُن کا حساب کیا، تو وہ حساب کردہ رقم اُس غریب شخص کے جیب کا مزاق اُڑا رہی تھی، وہ کبھی اپنے جیب کو ہاتھ لگاتا، پیسوں کونکال کر اُنہیں گنتا، دواوٴں پر نظر ڈالتا، اُس کے دل میں معصوم بیمار بچے کا خیال آتا، پھر میڈیکل اسٹور والے کی طرف دیکھتا، اور زبانِ حال سے یہ کہنے کی کوشش کرتا کہ ” میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں جتنے کی آپ دوائیں دے رہے ہیں“ ، لیکن اسٹور والا اُس بے چارے کی زبانِ حال سمجھنے کی کوشش نہیں کررہاتھا، وہ تو اس کے جیب پر نظریں گاڑے ہوئے تھا کہ جلد از جلد قیمت ادا کرے اور روانہ ہوجائے، آخر کار اُس بے چارے نے اسٹور والے سے بڑی ہمت جٹاکر کہا کہ : صاحب! مجھے صرف یہ دوائی (ٹیبلیٹ) دے دو، یہ سیرپ (سیال دوا) مجھے نہیں چاہیے، حالانکہ سیرپ والی دوا ہی اُس کے لیے اشد ضروری تھی، اسٹور والے نے ایسا ہی کیا، ٹیبلیٹ گولی اُس کے حوالے کی اور سیرپ کی بوتل واپس رکھ لیا، وہ بے چارہ ، غریب، مفلوک الحال، پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والا، پژمردہ سا ہوگیا تھا، وہ سوچ رہا تھا اب اپنی بیوی اور معصوم کو کیا جواب دوں گا کہ کیوں پوری دوائی نہیں لایا۔آخر کار ایک بندہٴ خدا جودوائی خریدنے کے لیے وہاں کھڑا تھا، اُس نے اسٹور والے سے کہا: بھائی صاحب! آپ سیرپ والی مہنگی دوا اُسے دے دو، اور اُس کا پیسہ مجھ سے لے لو، تو اُس بندے نے دام کچھ کم کیے بغیر، یا بعد میں رقم ادا کرنے کا کہے بغیر، فوراً وہ دوا اُسے دے دی، اور اس بندے سے اس کا بِل وصول کرلیا۔
ایک مرتبہ ایک دکان پر جانا ہوا، وہاں ”ماکھنیا“ (ایک خاص قسم کا بسکٹ جو چائے کے ساتھ کھایا جاتا ہے) مانگا، اور ۶۰/ روپئے ادا کیے، یہی اس کی بازاری قیمت بھی تھی، جو پہلے بھی دیا کرتے تھے، وہ بے چارہ مسلمان (بیکری کا مالک) کہنے لگا: مولانااور ۲۰/ روپئے دیجئے، یعنی کل ۸۰/ روپئے،پوچھا: اتنی زیادہ قیمت؟ کہا: ہاں دو ماہ کی چھٹی کے بعد سے قیمت بڑھ گئی ہے،بہر حال خرید وفروخت ابھی تام نہیں ہوئی تھی، چاہتے تو واپس کرکے دوسری دکان سے لے سکتے تھے، لیکن یہ سوچ کر کہ مسلمان جھوٹا نہیں ہوسکتا، اُس کی مطلوبہ قیمت دے کر خرید لیا، اُس کے بعد ایک دوسری دکان پر جانا ہوا، وہاں پر یہ بسکٹ ۶۰/ روپئے میں ہی ملا، جو پرانی قیمت تھی، اس کے بعد اگلی دکان سے یہ بسکٹ خریدا گیا،تو وہاں ۵۵/ میں ملا، اور اُس کے بعد اُس کی اگلی دکان سے لیا، تو ۵۰/ روپئے میں وہی بسکٹ ملا۔اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صرف چند قدم کے فاصلوں پر ہی یہ سب دکانیں موجود ہیں، اور قیمت میں آسمان وزمین کا فرق ہے، اور غبنِ فاحش کے ساتھ سامان فروخت کیا جارہا ہے، اللہ ہی رحم کرے۔
قارئین! آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں اسلام پھیلنے کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ تاجروں کا اپنے گاہکوں اور خریداروں سے حسنِ اخلاق سے پیش آنا بھی ہے، نیز مذہبِ اسلام نے تجارت، خرید وفروخت ہر میدان میں ہماری ہر طرح سے رہنمائی کی ہے،اور اسلام میں جو مقام تجارت کو حاصل ہے وہ کسی اور پیشے کو حاصل نہیں، یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام، صحابہٴ کرام، اولیاء اللہ اور ائمہٴ فن نے اسے ذریعہٴ معاش بنایا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے قبل ۲۱/ برس تک تجارت کرتے رہے، آپ کا ارشاد ہے: ” اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الأَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاءِ “– یعنی؛ سچاامانت دار تاجرقیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔
اس سے بڑھ کو اور خوش قسمت کون ہوسکتا ہے کہ جو روپیہ کمانے کے ساتھ ساتھ یہ بلند وبالا مقام بھی پائے، اور اس سے زیادہ بد بخت کون ہوگا کہ جو حلال کو حرام اور جائز کو ناجائز بناکر اپنی دنیا وآخرت تباہ کرلے، اس لیے ہر تاجر کا فرض ہے کہ وہ:
دنیا کے نفع کے ساتھ آخرت کا نفع کمانے کے لیے نبیوں اور صدیقوں جیسے اخلاق اور کردار پیدا کرے، اپنی تجارت کی بنیاد، امانت، دیانت اور راستی پر رکھے، وزن پورا دے، چیزیں خالص رکھے، پیمانے ٹھیک ہوں، حلال اور جائز مال بیچے، احکامِ شرعیہ کی پوری پوری پابندی کرے، خواہ اس سے بظاہر خسارہ ہی کیوں نہ ہو، قلیل منافع کو لوٹ کھسوٹ پر ترجیح دے کہ اس سے تجارت وبرکت میں زیادتی ہوتی ہے۔
لین دین میں ہیر پھیر نہ کرے، چالاکی اور عیاری سے کام نہ لے، مال میں ملاوٹ نہ کرے، اگر سامان میں عیب یا نقص ہو، تو اُسے پوشیدہ ہرگز نہ رکھے، بلکہ خریدار کو اس سے آگاہ کردے، ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی سے باز رہے، قحط سالی میں گرانی (مہنگائی) پیدا نہ کرے، خریدار کو پھنسانے کے لیے جھوٹی قسمیں نہ کھائیں کہ وہ تمہارا رزاق نہیں ہے، اس سے عارضی طور پر فروغ ضرور ہوتا ہے، مگر بالآخر انسان خسارے میں رہتا ہے۔
حرام چیزوں کی تجارت نہ کرے، جیسے شراب، خنزیر اور سود وغیرہ، ایسی چیزیں بھی نہ بیچے جو گناہوں کا آلہ ہوں، جسے گانے بجانے کے آلات، لہو ولعب کا سامان اور تصاویر وغیرہ، حلا ل مال کو حرام نہ بنائے، جیسے بردہ فروشی، عصمت فروشی وغیرہ، اور ناجائز وغیر شرعی طریقے بھی اختیار نہ کرے، کہ برکت سے محروم اور گناہ کا مرتکب ہو۔
خریدار سے تنگی اور ترشی نہ کرے، نرمی، خوش اخلاقی اور حسنِ سلوک سے پیش آئے، مہربانی کے چند الفاظ، محبت آمیز خطاب اور ادنیٰ سی رعایت مستقل گاہک بنادیتی ہے اور بے رخی وبدمزاجی گاہک سے ہمیشہ کے لیے دکان چھڑا دیتی ہے۔
مذہبِ اسلام میں ایک طرف جہاں تاجروفروخت کنندہ کے لیے رہنما اصول بیان کیے، وہیں دوسری طرف خریدار کے لیے بھی چند باتوں کا پاس ولحاظ کرنا ضروری ہے کہ:
جب ایک آدمی سودا کررہا ہے، اور ابھی قیمت طے نہ ہوئی ہو اور احتمال غالب یہ ہو کہ بائع اس کی پیش کش قبول کرلے گا، تو سودا خراب کرکے خود لینے کی کوشش نہ کرے، جب اُن کا سودا نہ بنے تب خرید لے۔
کسی کو دھوکہ دینے کے لیے بولی نہ بڑھائے، تاکہ دوسرا آدمی زیادہ بولی دے اور وہ چیز مہنگے داموں اس کے گلے پڑجائے۔
جب گائے بھینس بکری وغیرہ کا سودا کرنا ہو، تو خریدار کو دھوکا دینے کے لیے ایسا نہ کرے کہ اس کا کئی وقت کا دودھ نہ نکالے، یا مصنوعی یا معمول سے زیادہ خوراک دے، تاکہ اس کا دودھ اصل سے زائد ہوجائے اور خریدار زیادہ دودھ کے دھوکے میں آکر گراں قیمت ادا کردے اور بعد میں اسے پچھتانا پڑے۔
کھانے پینے کی چیزوں میں دیدہ دانستہ کم قیمت یا مضر صحت چیزیں ملاکر فروخت نہ کرے، تاکہ جھوٹ، فریب اورملاوٹ سے خریدار سے زائد دام بٹور سکے، اور نہ ہی سبزی کو بھاری کرنے کے لیے لمحہ بہ لمحہ پانی سے بھگوتا رہے تاکہ کم وزن سبزی زیادہ وزن پر بِک سکے۔
دکان دار کو اس بات کا حق ہے کہ وہ ارزاں (سستی) چیز خرید کر گراں (مہنگی) قیمت پر بیچے، مگر جب مخلوقِ خدا کو اس چیز کی اشد ضرورت ہو اور وہ تکلیف میں مبتلا ہو، تو اس وقت محض روپیہ کمانے کی غرض سے ذخیرہ اندوزی کے ذریعے گرانی پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے، کہ یہ حرام اور موجبِ لعنت ہے۔
اسی طرح اگر کوئی مصیبت زدہ ضرورتاً اپنی کوئی چیز بیچنا چاہے، تو اس کو صاحبِ غرض سمجھ کر نہ دبائے، اور اس کی چیز کی قیمت جان بوجھ کر نہ گھٹائے، بلکہ اسے پوری پوری بازاری قیمت ادا کرے، اور اس کی ہر طرح کی اِعانت کرے۔
جب کوئی مال منڈی کی طرف لا رہا ہو، تو شہر کے باہر جاکر اس سے راستے میں کوئی شخص سودا نہ کرے، بلکہ اُسے منڈی میں لانے دے، کیوں کہ اس میں بائع یعنی فروخت کرنے والے کو دھوکا دینا مقصود ہوتا ہے، کہ تمہارا مال شہر میں اس سے اچھے نرخ وقیمت پر فروخت نہ ہوگا، نیز شہر والوں کے لیے محتاجی بھی ہوگی، اس لیے کہ جب ایک شخص کے قبضے میں ایسی چیز آجائے، تو پھر وہ مَن مانی قیمت وصول کرنے کی کوشش کرے گا۔
جب کوئی دیہاتی شہر میں بیچنے کے لیے کوئی چیز لا رہا ہو، تو از راہِ خیر خواہی اسے اس کے بیچنے سے نہ روکے، کہ یہ ہمارے پاس رکھ جاوٴ، جب قیمت گراں ہوگی تو بیچ دیں گے، کیوں کہ اس طرح شہر والوں کو ایک حقِ کفایت سے محروم کرنا ہے، البتہ اگر اس کا نقصان ہوتا ہو تو پھر مضائقہ نہیں۔
اسی طرح جو لوگ دودھ کا کاروبار کرتے ہیں، انہیں بھی چاہیے کہ پانی ملا ہوا دودھ خالص بول کر نہ دے، دودھ میں پانی کی ملاوٹ نہ کرے، آج کل بعضے بد نصیب دودھ بڑھانے اور گاڑھا کرنے کے لیے زہریلا کیمیکل پاوٴڈر، یا دودھ پاوٴڈر وغیرہ ڈالتے ہیں، اور گاہکوں کے ساتھ دھوکہ دہی کرتے ہیں، بعض لوگ ” ڈیری“ سے دودھ خرید کرانہیں تھیلیوں میں پیک کرکے گاہکوں کو ”بھینس“ یا ”گائے“ کا خالص دودھ بول کر دیتے ہیں، ان لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، جب آنکھیں بند ہوجائیں گی، تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
اللہ پاک تمام مسلمانوں کو سچا اور امانت دار تاجر بنائے، اور نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ حشر فرمائے ۔
آمین یارب العالمین!