تاثیر قرآن کی حیرت انگیزی

مفتی عبد القیوم صاحب مالیگانوی/ استاذجامعہ اکل کوا

استفادہ جائز اور نفع بخش ہو:

                اللہ رب العزت نے سارے انسان کو ایک با مقصد زندگی دے کر پیدا کیا۔ وہ مقصدِ حیات نام ہے دو ذمہ داریوں کا۔ ایک تو یہ ہے کہ انسان اس وسیع وعریض کائنات اور اس کی متنوع الاقسام اشیا اور مخلوقات سے استفادہ کرے ۔ دوسرے اس استفادہ میں منشائے مولیٰ، مرضیات خدا اور اصول شریعت کو پیش نظر رکھے تاکہ استفادہ صحیح، جائز اور نفع بخش ثابت ہو۔ اس کے لیے رب کائنات نے انبیاعلیہم السلام کو کتب سماویہ اور صحف مطہرہ کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ اسی ضابطہ کے مطابق امام الانبیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن جیسی کتابِ ہدایت کے ساتھ نبوت سے سرفرازفرمایا۔ قرآن جہاں تمام، کتب سماوی وغیر سماوی میں محبوب ترین اور محفوظ ترین ہے، وہیںپرمؤثرترین بھی ہے ۔بل کہ اثرانگیزی  اورانقلاب آفرین ہونے میں دنیائے انسانیت کے لیے حیرت انگیز بھی ہے۔ ایک ایسا انقلاب اور ایک ایسی محیر العقول تاثیر؛ جس نے پتھر دل کو موم سے بھی زیادہ نرم بناکر اجہل ترین افراد کو علم و دانش کا آفتاب ومہتاب، نادانوں کو عقل ودانائی کا مجسم اور انسانوں کو ہی نہیں ،بل کہ اپنی کوکھ سے جنم لینے والی معصوم جان کو زیرِ زمین گاڑ نے والے سنگ دل اور سنگ بازوں کو اپنی جانیں دے کر دوسروں کی جانوں کو بچانے والا، خود پیا سے جان دے کر اور وں کو پانی دینے والا اور جان لینے کے بجائے جان قربان کرنے والا بنا دیا۔ کیاہی سچ کہا ہے   ؎

خودنہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی

عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

                حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پراٹھائے جانے کے بعد سے تقریباً چھ صدی تک دنیائے انسانیت ضلالت وسفاکیت سے دوچار ہوئی ۔ہوتے ہوتے جہالت وتاریکی کے بام عروج پر، گمراہی اور ظلم و ستم معراج کر چکی تھی، انسانوں کی اس نگری میں انسانیت بالکل جاں بلب تھی ، ہر خیر سے محروم اورہر شرسے معمور اس بھٹکتی، سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کو بچانے ،لباس انسانیت پہنانے اور سارے امراض جسمانیہ وقلبیہ کے علاج کے لیے انسانوں کے رحیم وکریم پرور دگار نے جس نسخۂ مؤثر کا انتخاب کیا وہ قرآن کریم ہے۔تاریخ گواہ ہے ، زمانہ شاہد اور گردش دوراں بتلاتی ہے کہ صرف ۲۳؍ سال کی قلیل مدت میں چھ صدیوں پر مشتمل طویل ترین خرابیوں کا جڑ سے خاتمہ کردیا اور ایک ایسی جماعت تیار کردی کہ اُس جیسے انسان اِس دھرتی پر نہ اُن سے پہلے آئے تھے اور نہ بعدمیں  اب تک آئے اورنہ صبحِ قیامت تک آئیںگے ۔

                صحابہ جیسی تربیت یافتہ جماعت ،جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوز دروںاور جہد مسلسل کا نتیجہ ہے، تو وہیں قرآن کریم جیسی پرتاثیر کتاب کی اثر انگیزی کی جیتی جاگتی تصویر بھی ہے ۔ چوںکہ قرآن عزیز کے اولین مخاطب اہل عرب تھے، جو زبان دانی اور فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ وممتاز مقام کے حامل تھے ۔ اس لیے قرآن کریم کو سمجھنا عربی زبان کی لطافت و نزاکت اوراس کے موقع و محل کی انفرادیت کو محسوس کرنا اُن کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں تھا ۔اُن کے لیے توایساہی تھا،جیسے کہ

 ’’جولوگ سمجھتے ہیں مشکل،مشکل اُس کے لیے ہے مشکل‘‘

حضرت عمردامنِ اسلام میں:

                 اس لیے قرآن کی زبان اور اس کے ادب عالی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے ۔ چناںچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ لے کر دار الندوہ سے چلے اور اپنی دھن کے پکے، فولادی قوت کے مالک، اپنے ارادہ اور منزل کو پانے میں مستغرق حضرت عمرؓ راستہ میں حضرت نعیم رضی اللہ عنہ کے کہنے پر اپنے بہنوئی کے گھر کا رخ کرتے ہیں اور ان کے کانوں میں دروازے پر قرآن عزیز کے حلاوت بھر ے کلمات اورالفاظ پڑچکے تھے۔بہن بہنوئی کی پٹائی اورسرزنش کے بعد جب غصے کالاواسردہوا،دل نے سماعت قرآن کے لیے انگڑائیاں لیں اور شوق سماع تیز ہوگیا، تو دست بستہ اورعاجزی کے ساتھ التماس کرنے لگے کہ مجھے بھی وہ کلام سناؤ جو اِس وقت تم تلاوت کررہے تھے ۔ چنا ں چہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ جو بہن بہنوئی کے معلم تھے ،انھوں نے سورہ طہٰ کی ابتدائی آیات اِدھر پڑھنا شروع کی اور اُدھر دل کی دنیازیروزبر ہوناشروع ہوگئی اوراختتام تلاوت پر قرآن کی برکت سے قلب کا سارا زنگ اور میل ایسا ختم ہوا کہ آستانۂ حضور میں لے جانے کی درخواست کی ،دربار رسالت میں پہنچ کر کلمہ ایمان پڑھا اور نبی کی مانگی ہوئی دعا عمررضی اللہ عنہ کے حق میں پوری ہوگئی ۔ یہ تاثیر قرآن کا عظیم واقعہ زبان دزوخاص وعام ہے ۔

                تاثیر قرآن کے واقعات اتنے کثیر ہیں کہ جن کے احاطہ کے لیے مکمل کتاب درکار ہے ۔پھر بھی مضمون کی مناسبت اورمطابقت کے لیے دور نبوت کے ابتدائی واقعات پڑھتے چلیں ۔

ابوذرغفاریؓ کاواقعہ:

                حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا بھائی انیس ایک مرتبہ مکہ معظمہ گیا ۔ اس نے واپس آکر مجھے بتلایا کہ مکہ میں ایک ایسا شخص ہے ،جو یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔ میں نے پوچھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ بھائی نے کہا کوئی ان کو شاعر کہتا ہے ، کوئی کاہن بتلاتا ہے اورکوئی جادوگر کہتا ہے ۔ میرا بھائی انیس خودبھی بڑا شاعر اور کہانت وغیرہ سے واقف تھا ، اس نے مجھ سے کہا کہ جہاں تک میں نے غور کیاتوسمجھ میںیہی آیاکہ لوگوں کی یہ سب باتیں غلط ہیں ۔

                ان کا کلام نہ شعر ہے ، نہ کہانت ہے ، نہ مجنونانہ کلمات ہیں ، بل کہ مجھے وہ کلام صادق نظر آتا ہے ۔

                ابوذر غفاری ؓ فرماتے ہیں کہ بھائی سے یہ کلمات سن کر میں نے مکہ کا سفر کیا اور مسجد حرام میں آکر پڑگیا۔ اُس روز میں نے اِس طرح گزارے کہ سوائے زمزم کے پانی کے میرے پیٹ میں کچھ نہیںگیا ۔اس تمام عرصے میں نہ مجھے بھوک کی تکلیف معلوم ہوئی نہ میںنے کوئی ضعف محسوس کیا۔ واپس گئے تو لوگوں نے کہا کہ میں نے روم اورفارس کے ُفصحاو بُلغا کے کلام بہت سنے ہیں اور کاہنوں کے کلمات اورحمیر کے مقالات بھی بہت سنے ہیں ،لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی مثال میں نے آج تک کہیں نہیں سنی ۔ تم سب میری بات مانو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرلو، چنا ں چہ فتح مکہ کے سال میں ان کی پوری قوم کے تقریباً ایک ہزار آدمی مکہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے ۔

ہرگز جھوٹے نہیں:

                اسی سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ عرب کے سردار سعد بن زرارہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے اقرار کیا کہ ہم نے خواہ مخواہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرکے رشتہ ناطہ توڑے اور تعلقات خراب کیے ۔میں توپورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ بلا شبہ اللہ کے رسول ہیں ، ہرگز جھوٹے نہیں اور جو کلام وہ سناتے ہیں بشر کا کلام ہوہی نہیںسکتا ۔

ٰ قیس بن نسیبہ کاقبولِ اسلام:

                قبیلہ سلیم کا ایک شخص مسمیٰ قیس بن نسیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا اورچند سوالات کیے ،جن کا جواب آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے اورپھر اپنی قوم میں واپس گئے۔ تو لوگو ں سے کہا کہ میں نے روم وفارس کے فصحا وبلغا کے کلام توبہت سنے ہیں ، بہت سے کاہنوں کے کلمات سنے ہیں اور حمیر کے مقالات سنتا رہتا ہوں، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا ۔ تم سب میری بات مانواور ان کا اتباع کرو ، انہیں کی تلقین پر ان کی قوم کے ایک ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پرآںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرمشرف بہ اسلام ہوگئے ۔

                یہ اقرار و تسلیم صرف ایسے ہی لوگوں سے منقول نہیں، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات سے یکسو اور غیر جانبدار تھے، بل کہ وہ لوگ بھی ؛جو ہر وقت،ہرقدم پر اور ہر طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں میں لگے ہوئے تھے قرآن کے متعلق ان کا بھی یہی حال تھا ۔مگر اپنی موروثی ضد ،ہٹ دھرمی،بغض اور حسد کی وجہ سے اس کا اظہار لوگوں پرنہ کرتے تھے ۔

 ساری را ت کیسے گزر گئی کچھ پتاہی نہیںچلا:

                علامہ سیوطی ؒ نے’’ خصائص کبریٰ‘‘ میں بہ حوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل ، ابو سفیان اوراخنس بن شریق رات کو اپنے اپنے گھروں سے اس لیے نکلے کہ چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنیں ۔ ان میں ہرایک علاحدہ علاحدہ نکلا ایک کی دوسرے کوبالکل خبر نہ تھی اور علاحدہ علاحدہ گوشوں میں چھپ کر قرآن سننے لگے تو اس میں ایسے محو ہوگئے کہ ساری را ت کیسے گزر گئی کہ کچھ پتاہی نہیںچلا۔ جب صبح ہوئی تو سب اپنے گھروںکو واپس ہوئے، اتفاقاً راستہ میں مل گئے اورہر ایک نے دوسرے کا قصہ سناتو سب آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے یہ بری حرکت کی اور کسی نے یہ بھی کہا کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے ۔ کیوں کہ اگرعرب کے عوام کو اس کی خبر ہوگئی تو وہ سب مسلمان ہوجائیںگے ۔ یہ کہہ سن کر سب اپنے اپنے گھر کو چلے گئے ، اگلی رات پھریہی کہانی لے کرسامنے آئی۔ ان میں سے ہر ایک کے دل میں یہی ٹیس اٹھی کہ قرآن سنیں اور پھر اسی طرح چھپ چھپ کر ہرایک نے قرآن سنا۔ یہاں تک کہ رات گزر گئی اور صبح ہوتے ہی یہ لوگ واپس ہوئے تو پھرسرِ راہ ملاقات ہوگئی۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کولعن طعن کرنے لگے اور اس کے ترک پر سب نے اتفاق کی سِیل بند مہرلگادی۔ مگر تیسری رات آئی تو پھر اُسی قرآن کی لذت وحلاوت نے انہیں چلنے اور سننے پرمجبور کردیا ۔پھر پہنچے اوررات بھر قرآن سن کر لوٹنے لگے ، تو پھر راہ میں کسی موڑپر اجتماع ہوگیا ۔سب نے ایک دوسرے پرلعنت کے بادل برسائے اور پھر سب نے کہا کہ آؤ! آپس میں مل کریہ پکا معاہدہ کرلیں کہ آئندہ ہرگز ایسی غلطی نہیں کریںگے ۔چناں چہ اِس معاہدہ کی تکمیل کی گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ صبح کو اخنس بن شریق نے اپنی لاٹھی اٹھائی اورپہلے ابو سفیان کے پاس پہنچا کہ بتاؤ اس کلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے دبے لفظوں میں قرآن کی حقانیت کا اعتراف کیا، تو اخنس نے کہا کہ بخدا میری بھی رائے یہی ہے ۔ اس کے بعد وہ ابو جہل کے پاس پہنچا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو کیسا پایا ؟ ابو جہل نے کہا کہ صاف اورسچی بات تو یہی ہے کہ ہمارے خاندان اور بنوعبد مناف کے خاندان میں ہمیشہ سے چشمک چلی آتی ہے ، قوم کی سیادت وقیادت میں وہ جس محاذ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں،ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ انہو ں نے سخاوت وبخشش کے ذریعہ قوم پر اپنا اثر جمانا چاہا تو ہم نے ان سے بڑھ کر یہ کام کردکھایا ، انہوں نے لوگوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں ، تو ہم اس میدان میں بھی ان سے پیچھے نہیں رہے ۔ یہاں تک کہ پورا عرب جانتا ہے کہ ہم دونوں خاندان برابر حیثیت کے مالک ہیں ۔ اِن حالات میں ان کے خاندان سے یہ آواز اٹھی کہ ہمارے خاندان میں ایک نبی پیدا ہوا ہے، جس پر آسمان سے وحی آتی ہے ، اب ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ اِس لیے کہ ہم نے تو یہ طے کرلیا ہے کہ ہم زور اور طاقت سے ان کا مقابلہ کریںگے اورکچھ بھی ہوجائے ،ہم ہرگز ان پر ایمان نہ لائیںگے ۔

                یہی قرآن کا وہ کھلا ہوا معجزہ ہے،جس کا دشمنوں کو بھی اعتراف کرنا پڑا ہے ۔ یہ تمام واقعات علامہ جلال الدین سیوطی ؒ نے خصائص کبریٰ میں نقل کیے ہیں ۔

اب عبد اللہ بن مبارک ؒ سے ملیں:

                یہ توچند نمونے تھے۔ دور نبوت کے بعد کے زمانوں میں بھی قرآن کی یہی تاثیر نمایاں رہی ہیں ۔چناں چہ بہت ہی مشہور واقعہ حضرت عبد اللہ بن مبارک ؒکا ہے ۔ جو وقت کے محدث عظیم ہونے کے ساتھ عظیم فقیہ بھی ہے، جن کی جلالت علمی دنیائے علم میں بہت مستند ہے۔ ایک موسیقی نگار اور گانے بجانے کے عادی تھے ، ایک مرتبہ اپنی مخصوص طبیعت کے اقتضا سے محفل سماع و موسیقی سجائی اورجوشِ ترنم میں سَتاربجاناچاہتے تھے ۔لیکن وہ بندرہی اور بجی نہیں،اس ستارکوبنانے اورسنوارنے کی پوری کوشش کی گئی ۔کافی دیربعداس میںسے قرآن کی آیت{الم یان للذین آمنواان تخشع قلوبہم لذکراللہ ومانزل من الحق }کی صدائے حق سنائی دینے لگی۔دل پر ایک چوٹ لگی اورحلاوتِ قرآنی اپنی مخصوص رفتارسے دل کی گہرائیوںمیںسمانے لگی۔فوراً ہی تمام آلات لہوولعب توڑڈالے اورصدائے قرآن پرلبیک کہتے ہوئے طلبِ علم ،تلاش ہدایت اورمنزل جاناںکی جستجومیںنکل پڑے۔ ایک دن ایسابھی آیاکہ آپ بے مثال محدث اوربے نظیرفقیہ کی صورت میںامت کی بیش بہاخدمات کے لیے اپنے آپ کوپیش کیااورساری امت کواپنی خدمات سے ممنون بنادیا۔

ادیبِ کامل مولاناعبدالماجددریابادیؒ سے ملاقات:

                اِس سے زیادہ براحال مفسرقرآن اورادیب کامل علامہ عبدالماجددریابادیؒ کاتھا،جودہریت کے درجہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ذہانت وفطانت اعلیٰ درجہ کی تھی۔خداورسول اورقرآن کے تصورِ حق سے کوسوںدورتھے۔ایک مرتبہ جج سیداکبرحسین الٰہ آبادی نے اُن سے کہاکہ قرآن پڑھاکروتوجواب دیاکہ اُس میںتوپرانے واقعات،من گھڑت قصے اورغیرمستندباتیںہیں۔ درخواست گزارسیداکبرحسین جج نے کہاکہ ادبی حیثیت ہی سے پڑھ ـلو۔ تمھیںادبی قوت معلوم ہوگی۔چوںکہ یہ مولاناکاموضوع تھا،اس لیے یہ بات سمجھ میں آگئی۔خودکہتے ہیںکہ میںنے ایک دن اس طرح سے قرآن شریف پڑھاکہ سوٹ بوٹ چڑھااورآرام دِہ کرسی پرپیرپھیلاکرحمائل شریف ،مثل ناولوںکے مطالعہ کررہاتھا۔وضووغیرہ کاکوئی سوال ہی نہیں۔پوری سورہ فاتحہ دیکھ لی،اس کے بعدسورہ بقرہ پڑھنی شروع کی تودوتین رکوع کے بعدپیرکوسکوڑلیااورسنجیدہ ہوکردیکھناشروع کیا۔کہ اس میںتوبڑی حکمت کی باتیںہیںاورنفسیات کے پہلوکھولے گئے ہیں۔یہاںتک کہ انھوںنے پوراپارہ پڑھ لیاپھردوسری مرتبہ باوضو پڑھااورچندپارے پڑھنے کے بعددل میںیہ بات جم گئی کہ یہ حکیمانہ کلام ہے ۔لیکن کچھ اشکالات تھے ،جو سید اکبر حسین صاحب کے مشورے سے حضرت تھانویؒ کے پاس حاضری کے بعدحل ہوگئے ۔اورتاثیرِ قرآن سے ضلالت ودہریت کی تمام تاریکیاں کافورہوگئیں۔

ہرجملے میںاللہ کانام:

                اسی طرح حضرت حکیم الاسلام نے اپنے ایک وعظ میں فرمایاکہ میرٹھ میںایک نوجوان ہندولڑکاملا۔مگر اس کی بات مسلمانوںجیسی تھی ۔میںنے معلوم کیاکہ تم ہندوہو،مگرباتیںمسلمانوںجیسی کرتے ہو۔اس نے کہاکہ میںہندوتھا،مگراب مسلمان ہوگیاہوں۔ابھی تک ہم نے اپنے اسلام کوظاہرنہیںکیاہے ۔میں نے پوچھاکہ تم مسلمان کیسے ہوگئے ؟اسلام کی کون سی خوبی تم نے دیکھی؟اس نے کہاکہ میری نظراِس پرگئی کہ قرآن شریف میں کوئی لفظ اورجملہ ایسانہیں،جس میںاللہ کانام نہ ہو۔یہ وہی دین کرسکتاہے ،جوصحیح توحیدپھیلائے ۔ اورایک ہی طرف رجو ع کرائے۔کہیں{ان اللّٰہ بکل شئی علیم}کہیں{واتقوا اللّٰہ }کہیں{یعلمکم اللّٰہ } جگہ جگہ پراللہ کانام ہے ،جوکسی مذہبی کتاب میںنہیںدیکھا۔اس کثرت سے اللہ کانام استعمال کیاگیاہو،یہ بات میرے دل کوچھوگئی۔ کہ قرآن کاہرجملہ خداہی کی طرف متوجہ کرتاہے ۔

                حقیقت بھی یہی ہے کہ قرآن جیسی پُرتاثیرکتاب دنیامیںکوئی نہیں۔اسی لیے سردارانِ مکہ اپنے حلقۂ یاراںکوکہتے تھے{لاتسمعوالہذاالقرآن والغوافیہ لعلکم تغلبون}کہ اس قرآن کوسنوہی مت!بل کہ جب یہ قرآن پڑھے تواس میںشوروغل مچادیاکرو،تاکہ غلبہ تمھاراہی ہو۔کیوںکہ وہ جانتے تھے کہ جوقرآن سنے گاوہ متاثرہوئے بغیرنہیںرہے گا۔اوررفتہ رفتہ ہماارزورختم ہوکرمسلمانوںکی طاقت مضبوط ہوجائے گی۔سیدناابوبکر صدیق کومکہ چھوڑ کراِسی لیے جاناپڑاتھاکہ اُن کی تلاوتِ قرآن اورگریہ وخشیت سے زنانِ قریش متاثرہوتی تھیں۔

ہماری ہی نیتوںکابگاڑہے:

                قسم بہ خدا! قرآن آج بھی اپنی تاثیرمیںآپ ہے ۔فسادہمارے قلوب کاہے ،غفلت ہماری ہے ، بگاڑ ہماری نیتوںکاہے۔اگراب بھی ہم قرآن کولفظاً ومعناً اس کے حقوق کے ساتھ اپنی زندگیوںمیںبسائیںاور زندگی کے ہرشعبے میںقرآن کوحاکم اورفیصل بنالیںتوضرورکایاپلٹے گی اورتاریکی کاراج ختم ہوگا۔اورصبحِ نوکی کرنوںسے ایک بارپھرعالَم جگمگائے گا۔

زمانہ آج بھی قرآن ہی سے فیض پائے گا

مٹے گی ظلمتِ شب اورعالم جگمگائے گا

                اللہ پاک ہم تمام امت مسلمہ کوقرآن کریم سے حقیقی محبت ،اس کی تلاوت کااہتمام اوراس کے پیغامِ جاوداں کوعام وتام کرنے کی توفیق اورہمت عطافرمائے ۔آمین!