بینک سے جاری ہونے والے مختلف کارڈز (Cards)کا تعارف

مفتی محمد سلمان صاحب مظاہری

ناظم دار الافتاء برائے تجارتی و مالیاتی امور (الہند)

مرکزی عناوین

 (۱) تعارف و ضرورت۔

 (۲) بینک سے جاری ہونے والے کارڈز کے اقسام۔

 (۳) ان کارڈز کے استعمال کی فقہی تکییف اور شرعی حیثیت۔

 (۴) اکاوٴنٹ ہولڈر اور تاجر سے فیس وصول کرنے کی شرعی حیثیت۔

 (۵) ان کارڈز کے استعمال کا شرعی حکم۔

(۱) تعارف و ضرورت

 تعارف و ضرورت کے سلسلہ میں یہ مختصر سی بات ذہن نشین رکھنی ضروری ہے کہ آج کے دور میں دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے، فاصلے حد سے زیادہ کم ہوگئے ہیں اور انسان مختصر اوقات کے اندر دنیا کے کونے کونے تک سفر کرسکتا ہے بل کہ ذرائع مواصلات نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ انسان دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے میں تجارت کرسکتا ہے۔

 اصل میں اس تیز رفتار ترقی سے جہاں ایک جانب دنیا کو بہت زیادہ فائدہ حاصل ہوا، وہیں دوسری جانب اس کا نقصان یہ ہوا کہ چوری اور ڈکیٹی کے و اردات میں بھی حد سے زیادہ اضافہ ہوگیا۔

 اس طرح کی صورت ِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسا طریقہ ایجاد ہوکہ جس کے ذریعہ رقوم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی آسان ہو، محفوظ ہو، تیز رفتار ہو،اور اس میں کسی قسم کی چوری اور ڈکیٹی وغیرہ کا کوئی خوف بھی نہ ہوتو اس ضرورت کے پیش ِنظر مختلف بینکوں نے بہت طرح کے کارڈز جاری کرنا شروع کردئے، جس کے ذریعہ یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔

 اب جب کوئی آدمی اس طرح کے کارڈز استعمال کرنے لگتا ہے، توان کارڈز کی وجہ سے کسی دوسرے ملک جاتے وقت اس ملک کی کرنسی اپنے ساتھ لے جانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی،بلکہ اپنے پاس موجود اس کارڈ کے ذریعہ اس دوسرے ملک کے ”اے ٹی ایم“(ATM) سے اس ملک کی کرنسی نکالی جاسکتی ہے ۔

 اسی طرح آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر بذریعہ انٹرنٹ ان کارڈز کے ذریعہ خرید وفروخت کا معاملہ کرسکتے ہیں، اوراس میں چوری کا امکان اوراندیشہ بھی کم ہوتا ہے؛ کیوں کہ اس کا ایک سیکریٹ(Secret) پاسورڈ ہوتا ہے، جو صرف اور صرف حامل ِکارڈ کو معلوم ہوتا ہے اگر کوئی چور اس کارڈ کو چوری بھی کرلے تو اس کا کیا کرے گا؛ کیوں کہ اس کو تو اس کا پاسورڈ معلوم ہی نہیں ہے،تو یہ چند مختصر فوائد ہیں ان کارڈز کے ۔

کارڈ کے استعمال کا طریقہ ٴکار

 اس طرح کے کارڈز کے استعمال کا مختصراً طریقہٴ کاریہ ہے کہ کارڈ ہولڈر جب کسی تاجر کے پاس جاتا ہے مثلاً: کسی پٹرول پمپ سے پٹرول بھرواتا ہے یا اس کارڈ کے ذریعہ کوئی ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدتا ہے، تو اس تاجر کو کارڈ سونپتا ہے ، تو تاجر اس کارڈ کو پہلے چیک کرتا ہے کہ یہ کارڈ حقیقت میں قابل ِاستعمال ہے یا نہیں، تو اس کے لئے اس کے پاس ایک مشین رکھی ہوتی ہے، جس سے اس کارڈ کو گذارا جاتا ہے، اس مشین سے تاجر کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ بینک نے اس کارڈ کے ذریعہ خریداری کی اجازت دی ہے یا نہیں، یا ادارے نے اس کی ممبری ختم تو نہیں کی وغیرہ وغیرہ، پھر جب تاجر کو اس کا اطمینان ہوجاتا ہے تو پھر اس کارڈکے ذریعہ خریدوفروخت کا معاملہ انجام پاتا ہے، یہ اس کا ایک مختصر سا طریقہٴ کار ہے۔

 آج کل عالمی سطح پرایسے بہت سارے ادارے ہیں، جو اس طرح کے کارڈز جاری کرتے ہیں ان میں سب سے زیادہ مقبولیت اور شہرت جن اداروں کوحاصل ہوئی ان میں سے تین ادارے یہ ہیں:

 ویزا(VISA)، ماسٹر کارڈ(Master Card) اور امیریکن اکسپرس(American Express)۔

(۲)کارڈز(Cards) کے اقسام

 بینک یا کوئی بھی مالیاتی ادارہ اس طرح کے کارڈ زجو جاری کرتا ہے، ان کی عموماً تین قسمین ہوتی ہیں، ڈیبٹ کارڈ(Debit Card)، کریڈٹ کارڈ(Credit card) اور چارج کارڈ(Charge Card)، اگر اے ٹی ایم کارڈ(ATM Card)کو بھی ایک مستقل قسم کے طور پر شامل کریں تو کل چار قسمیں ہوتی ہیں۔

 ڈیبٹ کارڈ(Debit Card) کو عربی میں” بطاقة الخصم الفوری“ کہتے ہیں، اور چارج کارڈ(Charge Card) کو عربی میں”بطاقة الإتمان الفوری “کہتے ہیں، اورکریڈٹ کارڈ(Credit card) کو عربی میں”بطاقة الإتمان المتجدد“کہتے ہیں، ، اب ہم آگے ہر ایک کارڈ کی مختصر تعریف دیکھتے ہیں ؛تاکہ آگے اس کی فقہی تکییف بیان کرنے میں سہولت ہو۔

 ڈیبٹ کارڈ(Debit Card):

 ڈیبٹ کارڈ(Debit Card)کی خصوصیات کیا ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی سہولتیں کیا ہیں، تو اس کی مختصر سی وضاحت یہ ہے کہ ڈیبٹ کارڈ یہ صرف ایسے شخص کے لئے جاری کیا جاتا ہے، جس کا ادارے میں پہلے سے اکاوٴنٹ بھی موجود ہو اور اس اکاوٴنٹ میں رقم بھی موجود ہو یعنی حامل ِ کارڈکا اکاوٴنٹ بھی ہو اوراس کارڈ میں رقم بھی موجود ہو تو ایسے شخص کے لئے یہ کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔

 اس میں ادھار کی سہولت نہیں ہوتی؛ بل کہ اکاوٴنٹ میں جتنی رقم ہوتی ہے اس حد تک ہی حامل ِ کارڈخریداری کرسکتا ہے اور اس کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے کسی خدمات کی فیس ادا کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

 چوں کہ بینک ڈیبٹ کارڈ ہولڈر کو ادھار کی سہولت فراہم نہیں کرتا، تو اس لئے حامل ِ کارڈ اس کو استعمال کرنے کی وجہ سے کسی طرح کے سود وغیرہ ادا کرنے کا بھی پابند نہیں ہوتا ،اس لئے کہ جب بھی حامل ِ کارڈ اس کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے کوئی چیز خریدتا ہے تو ایسی صورت میں ضروری ہے کہ کارڈ ہولڈر جتنی قیمت کی چیز خریدرہا ہے، اس وقت کم از کم اتنی رقم کا اس کے اکاوٴنٹ میں موجود ہونا ضروری ہے، ورنہ عملاً وہ چیز نہیں خریدسکتا۔

 لہذا اگر کارڈ ہولڈر کے اکاوٴنٹ میں اتنی رقم موجود ہو تو اس کا آرڈر کنفارم ہوجاتا ہے اورفروخت کرنے والا(Seller)اس خریدی ہوئی چیز کی قیمت اس کارڈ سے منسلک ادارے بینک وغیرہ سے وصول کرلیتا ہے۔

 یعنی خلاصہ یہ کہ کارڈ ہولڈر اس کارڈ کے ذریعہ اس میں موجود رقم کی حد تک ہی اشیاء کی خریداری کرسکتا ہے،اور اگر نقد پیسوں کی ضرورت پیش آجائے تو اس کارڈ کے ذریعہ رقم بھی نکال سکتا ہے اور اس کے ذریعہ خدمات(Services) کی اجرت بھی ادا کرسکتا ہے جیسے ہوائی جہاز کے ٹکٹ وغیرہ کی قیمت بھی اد اکرسکتا ہے، یہ مختصر سی وضاحت ہے ڈیبٹ کارڈ کی۔

چارج کارڈ(Charge Card):

 چارج کارڈ یہ ایسے شخص کے لئے جاری کیا جاتا ہے، جس کا پہلے سے اس ادارے میں اکاوٴنٹ کاہونا ضروری نہیں،اور اگر اکاوٴنٹ ہو بھی تو اس میں رقم کا ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا ،اور اس کارڈ کی سہولیات بھی تقریباً وہی ہیں جو ڈ یبٹ کارڈ میں ہیں،یعنی اشیاء کی خریداری اور خدمات کی اجرت وغیرہ کی ادائیگی اس کارڈ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے، باوجود اس کے کہ چارج کارڈ ہولڈر کا اس جاری کردہ بینک میں اکاوٴنٹ ہو یا نہ ہو، اس لئے کہ اس کارڈ کے جاری کردہ ادارے کی جانب سے ادھار (Loan)کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ایک مدت متعینہ کے لئے۔

 اب اگر یہ کارڈ ہولڈر اپنے کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے کسی چیز کی خریداری کرتا ہے یا کوئی خدمات حاصل کرتا ہے تو وہ تاجر یا خدمات فراہم کرنے والا ادارہ اس کی رسید اس کارڈ کے جاری کرنے والے ادارے یا بینک سے اس رسید کے بقدرقیمت وصول کرلیتا ہے۔

 جیسا کہ اس کارڈ کی تعریف میں یہ پہلے ہی ذکر کیا گیا کہ اس طرح کے کارڈ کی حصولی کے لئے اس شخص کا اُس بینک میں اکاوٴنٹ ہونا ضروری نہیں اور اگر اکاوٴنٹ ہو بھی تو اس میں رقم کا موجود ہونا ضروری نہیں، تو اب اگر ایسی صورت میں کارڈ ہولڈر اس چارج کارڈکو استعمال کرتے ہوئے کوئی چیز خریدتا ہے، تواب بینک وغیرہ جو حامل ِکارڈ کی خرچ کردہ قیمت کے بقدر رقم ادا کرے گا تو یہ اصل میں اس کارڈ ہولڈر کے ذمے اس بینک کا قرض ہوتا ہے، جس کا حامل ِ کارڈکو متعینہ مدت کے اندر اندر واپس لوٹانا ضروری ہے ،اگر مدت کے اندر اندر ادائیگی نہ کی تو اس صورت میں اس کارڈ ہولڈر کے ذمہ سود کے ساتھ قرض واپس کرنا ضروری ہے۔

 اور اس میں جو مدت متعین کی جاتی ہے اس کو انگریزی میں گریس پیریڈ(Grace Period) کہتے ہیں اور عربی میں فطرة السماح کہتے ہیں، اوراس میں ری شیڈیولنگ (Re-scheduling) کی گنجائش نہیں ہوتی یعنی یہ کہ سابقہ واجبات جو حامل ِ کارڈ کے ذمہ ہیں اس کو ادا کرنے سے پہلے اس کارڈ کووہ رینیو(Renew) نہیں کرسکتا، اور اس میں مزید مہلت بھی فراہم نہیں کی جاتی؛ جب تک کہ وہ سابقہ واجبات ادا نہ کردے، تو یہ ہے چارج کارڈ کی مختصر تعریف۔

کریڈٹ کارڈ(Credit card):

 کریڈٹ کارڈ(Credit card)اور چارج کارڈ تقریباً ایک جیسے ہی ہیں ،کہ اس میں بھی حامل ِ کارڈ کا اس بینک میں اکاوٴنٹ ہونایا اکاوٴنٹ ہو بھی تو اس میں رقم کا ہونا ضروری نہیں ہے ، اس میں بھی حامل ِکارڈ کوادھار(قرض) کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔

 لیکن اس میں اصل معاہدہ ہی سود کی بنیاد پر ہوتا ہے اگرچہ کہ اس میں بھی حامل ِکارڈ کے لئے مدت متعین کردی جاتی ہے کہ اس مدت کے اندر اندر اگر حاصل شدہ قرض کی رقم واپس بینک کو لوٹادی جائے تو سود نہیں لگے گا،مگر چوں کہ اس میں معاہدہ ہی سود کی بنیاد پر ہوتا ہے اس لئے مقررہ مدت کے اندر اندر رقم واپس نہ لوٹانے کی صورت میں سود لگنا شروع ہوجاتا ہے، مزید یہ کہ کریڈٹ کارڈ ہولڈر کے لئے اس میں ”ری شیڈیولنگ“ (Re-scheduling) کی بھی گنجائش ہوتی ہے کہ سابقہ واجبات کو ادا کئے بغیر مزید مہلت بھی اس کو دے دی جاتی ہے۔

 یعنی آپ کو دو مہینہ تک پچاس ہزار روپئے استعمال کرنے کی گنجائش دیدی گئی، اور آپ نے دو مہینہ میں وہ پچاس ہزار روپئے استعمال بھی کرلیا لیکن آپ نے اس مدت ِ متعینہ (دو مہینے ) کے گزرنے کے باوجود پچاس ہزار روپئے واپس نہیں لوٹائے تو ایسی صورت میں اس کو مزید مہلت دے دی جاتی کہ اگلے مہینے تک مزید پچاس ہزار روپئے کی خریداری کرسکتے ہو، مگر اس صورت میں سود میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا، حتیٰ کہ بہت سارے لوگ اس کریڈٹ کارڈ کے سود کے چکر میں کنگال ہوجاتے ہیں۔

کریڈٹ کارڈ(Credit card) اورچارج کارڈ(Charge Card) میں فرق

 کریڈٹ کارڈاور چارج کارڈ دیکھنے میں اور استعمال میں تو ایک جیسے ہی ہیں ، مگر بنیادی طور پر ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ چارج کارڈ میں بنیادی معاہدہ سود کا نہیں ہوتا اور کریڈٹ کارڈ میں بنیادی معاہدہ ہی سود کا ہوتا ہے۔

 اسی طرح چارج کارڈ میں ری شیڈیولنگ کی سہولت حاصل نہیں ہوتی؛ جب کہ کریڈٹ کارڈ میں ری شیڈیولنگ کی سہولت ہوتی ہے باقی سہولیات میں دونوں یکساں ہیں کہ اشیاء کی خریداری اور خدمات کی اجرت وغیرہ کے ادا کرنے میں دونوں ایک جیسے ہی ہیں ۔

 کریڈٹ کارڈاور چارج کارڈ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ کریڈٹ کارڈ میں اگر ڈیو ڈیٹ(Due Date)میں سارے پیسے واپس نہیں کئے گئے تو اس کے باوجود اس میں جو لمٹ ہے وہ اگلے مہینے کے لئے سود سمیت رینیو ہوجائے گی، اس کے بالمقابل چارج کارڈ میں جو لمٹ دی گئی تھی اس کے واپس نہ لوٹانے کی صورت میں اس میں جو لمٹ ہے وہ رینیو نہیں ہوگی، اور وقت پر پیسے واپس نہ لوٹانے کی وجہ سے اس پرسنٹیج(Persentage) کے حساب سے سود تونہیں لگے گا، البتہ اس تاخیر کی وجہ سے کارڈ ہولڈر پر بہت زیادہ پینیلٹی (Penalty)لگتی ہے۔

 کریڈٹ کارڈاور چارج کارڈ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والا اپنے پیسوں کو واپس لوٹانے کے لئے ”ای،ایم،آئی“ بنواسکتا ہے؛ جب کہ چارج کارڈ میں یہ سہولت نہیں ہوتی۔

 ہندوستان میں چارج کارڈ ”امیرکن ایکسپرس“ جاری کرتا ہے۔

اے ٹی ایم کارڈ(ATM Card):

 اے ٹی ایم کارڈ(ATM Card) یہ مخفف ہے ”Automated Teller Machine“کا ، عموماً ادارے جو ہیں وہ اپنے کھاتے دار(Account Holder) کو یہ کارڈاس غرض سے جاری کرتے ہیں؛ تاکہ وہ ضرورت کے بقدر کسی بھی ”اے ٹی ایم “مشین سے رقم نکال سکیں ۔

 یعنی” اے ٹی ایم“ کارڈ ایک ایسا کارڈ ہے جس کے ذریعہ ہم صرف اور صرف” اے ٹی ایم“ مشین سے پیسے نکال یا جمع کرسکتے ہیں، اس کارڈ کے ذریعہ آن لائن پیمنٹ بھی نہیں کرسکتے، اور نہ ہی اس کارڈ کے ذریعہ بوقت ِ ضرورت بینک سے پیسے ادھار لے سکتے ہیں، بلکہ یہ کارڈ صرف اور صرف ”اے ٹی ایم“ مشین سے پیسے نکالنے اور جمع کرنے میں کام آتا ہے۔

(۳)کارڈز (Cards) کی فقہی تکییف اور شرعی حیثیت

 یہ جو کارڈز جن کا ذکر اوپر کیا گیا ان میں کل تین فریق ہوتے ہیں:

 (۱) حامل ِکارڈ (۲) کارڈ جاری کرنے والا ادارہ (۳) ان کارڈز کے ذریعہ جن سے معاملہ کیا جاتا ہے یعنی تاجر وغیرہ۔

 اب سوال یہ ہے کہ ان تینوں فریق کو مد ِنظر رکھتے ہوئے ان کارڈز کی فقہی حیثیت کیا ہے کہ آیا یہ بیع(خریدوفروخت) کا معاملہ ہے، وکالہ ہے، کفالہ ہے، یا حوالہ ہے یہ آخرکس قسم کے عقد میں داخل ہے۔

 اس سلسلہ میں علماء ِکرام کی مختلف آراء ہیں، لیکن مشہور رائے جو ہے وہ یہ ہے کہ یہ حوالہ کا عقد ہے۔

 عقد ِحوالہ کے اندر کیا ہوتا ہے کہ”نقل الدین من ذمة المدیون الی ذمة المطالع“اس میں ہوتا یہ ہے کہ اصل مقروض کے ذمہ سے دین منتقل ہوکر شخص ثالث یعنی ضمانت دینے والے شخص کے ذمہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے،اور یہی صورتِ حال آج کل کارڈ میں ہوتی ہے کہ کارڈ ہولڈر کارڈ استعمال کرکے بری ہوجاتا ہے، اور یہی حوالہ کا حکم بھی ہے کہ حوالہ جب منعقد ہوجائے تو اصل جو محیل ہوتا ہے یعنی مقروض وہ بری ہوجاتا ہے اور جو دین ہے وہ”محتال علیہ“کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، جو کہ یہاں ادارہ ہے، تو لہذا کارڈ ہولڈر محیل ہوجائے گا اور ادارہ”محتال علیہ“ ہوجائے گا،اوروہ جو تاجر ہے ”محتال لہ“ ہوجائے گا،یہی اس کی فقہی تکییف ہے۔

(۴)کارڈ ہولڈر اور تاجر سے فیس وصول کرنے کی شرعی حیثیت

 آج کل جو بھی ادارہ چاہے بینک ہو یاکوئی اور ادارہ اگر وہ کارڈ جاری کرتا ہے، تو وہ حامل ِ کارڈ یعنی کارڈ لینے والے سے بھی کچھ فیس وصول کرتا ہے اور جو تاجر اس کارڈ کو قبول کرتے ہوئے کوئی سامان فروخت کرتا ہے تو رقم کی ادائیگی کے وقت بھی اس سے کچھ رقم بنامِ فیس وصول کرتا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ کارڈ جاری کرنے والے ادارے کا اس طرح سے فیس وصول کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

 اس بارے میں پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ بینک یا جو بھی ادارہ کارڈ ہولڈر سے جو فیس وصول کرتا ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے، عام طور پر ایسے ادارے کارڈ ہولڈر سے دوقسم کے فیس وصول کرتے ہیں ایک کو کہتے ہیں” رسوم عضویہ“(Initial Fees) اور دوسری ”رسوم ِ سنویہ“(Annual Fees)رسوم کے معنی ہیں فیس، ” رسوم عضویہ“ یہ ایک لم سم اور متعین رقم کی فیس ہوتی ہے، جوکارڈ جاری کرتے وقت بالکل ابتداء ً لی جاتی ہے اس کے بعد نہیں لی جاتی، اور ”رسوم ِ سنویہ“ یہ بھی لم سم اور متعین رقم ہوتی ہے؛ لیکن یہ کارڈ کے رینیو(Renew) کے وقت لی جاتی ہے یعنی تجدیدِ کارڈ کے وقت وہاں لی جاتی ہے؛ اگرچہ یہ رسوم ِعضویہ سے تھوڑی سی کم ہوتی ہے؛ کیوں کہ کارڈ کے تجدید کے وقت اتنی زیادہ خدمات انجام نہیں دینے پڑتے اس لئے اُس وقت فیس کم لی جاتی ہے، یہ ہے دو قسم کے فیس اس قسم کی فیس لینا شرعاً جائز ہے یا نہیں اس میں علماء ِعصرکی دو رائے ہے:

 پہلی رائے یہ ہے کہ بینک کے لئے حامل ِ کارڈ سے اس طرح کی فیس لینا شرعاً جائز نہیں ہے اور اس کی وجہ وہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ بینک یا وہ ادارہ جو کارڈ جاری کرنے والا ہے، وہ کارڈ ہولڈر کو قرض بھی فراہم کرتا ہے ، اور اس صورت میں جو یہ بینک فیس وصول کرتا ہے یہ حقیقت میں اس قرض پر اضافی نفع لے رہا ہے ،جو کہ سود ہونے کی بنا پر ناجائز ہے۔

 لیکن یہ رائے چند وجوہات کی بنا پر درست معلوم نہیں ہوتی ،اس لئے کہ یہ کہنا کہ فیس قرض کے وجہ سے ہی وصول کی جاتی ہے یہ درست نہیں، بلکہ یہ جو فیس ہے رسومِ عضویہ اور رسوم سنویہ یہ قرض کے ساتھ متعلق نہیں ہوتی کہ اگر ادارہ حامل ِکارڈ کو زیادہ قرض فراہم کرے گا تو فیس زیادہ لگے گی،اور اگر ادارہ نے حاملِ کارڈ کو کم قرض فراہم کیا تو کم فیس ہوگی ،ایسا نہیں ہے بلکہ فیس ایک متعین اور لم سم رقم ہوتی ہے، اب چاہے قرض زیادہ لو یا کم لو یا نہ لو۔

 دوسری بات یہ کہ ڈیبٹ کارڈ میں ادارہ کسی قسم کا قرض فراہم ہی نہیں کرتا،مگر اس میں بھی فیس لگائی جاتی ہے تو ہم وہاں کیا کہیں گے۔

 تیسری بات کہ اگر حاملِ کارڈ(Card Holder) اپنے کارڈ کومدت کے اندر بالکل استعمال ہی نہ کرے تو اس کے ذمہ ادارے کا کوئی قرض ہی نہیں آئے گا،مگر اس کے باوجودادارہ اس سے فیس وصول کرتا ہے، لہذا ان باتوں سے معلوم یہ ہوا کہ فیس یہ قرض پر نفع نہیں ہے، تو اب سوال یہ ہے کہ پھر فیس کیوں لی جاتی ہے؟ اس کا جواب دوسری رائے میں معلوم ہوجائے گا۔

 دوسری رائے یہ ہے کہ ادارہ جوحاملِ کارڈ سے فیس وصول کرتا ہے یہ اصل میں خدمات کا معاوضہ ہے؛ لہذا یہ جائز ہے، وہ خدمات کیا ہیں جن کی وجہ سے ادارہ فیس وصول کرسکتا ہے، تو اس سلسلہ میں ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ جیسے ہر ایک شخص کا الگ الگ مخصوص کارڈبنوانا،اس کے لئے اکاوٴنٹ اور حساب وکتاب رکھنا،اور بذریعہ ڈاک وقتاً فوقتاً معلومات فراہم کرنا کہ آپ نے اتنی خریداری کی ہے، اس کی ادائیگی کی یاد دہانی وغیرہ وغیرہ، اسی طرح اس سلسلہ میں جو عملہ اور مشینیں استعمال ہوتی ہیں، ان سب کی یہ فیس اجرت ہوجائے گی۔

 دوسری بات کہ بینک جو ہر تاجر کو ایک مشین فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعہ وہ تاجر کارڈ کی جانچ(Check) کرتا ہے کہ یہ کارڈ صحیح بھی ہے یا نہیں تو اس فیس کو ہم اس مشین کی اجرت بھی قرار دے سکتے ہیں وہ مشین بینک کی یا ادارہ کی مملوک ہوتی ہے دو بات ہوگئی ۔

 تیسری بات یہ کہ اس طرح جو بینک ہوتا ہے یہ تاجر کو اوراق اور فاطورہ فراہم کرتا ہے، جس پر وہ تاجر حاملِ ِکارڈ سے دستخط لیتا ہے تو اس کا بھی معاوضہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

 اسی طرح چوتھی بات یہ بھی ہے کہ یہ جو بینک ہے یا ادارہ ہے جو کارڈ جاری کرتا ہے یہ اس تاجرمثلا ً(Flipkart, Amazon) کے لئے گاہک فراہم کرتا ہے یہ سمسرہ یعنی دلال کے مشابہ ہوگیا، اوردلال کی اجرت لینا جائز ہے تو یہ چند وجوہات ایسی ہیں کہ جس کی وجہ سے فیس کو اجرت کے طورپر لینا جائز قرار دی جاسکتی ہے۔

(۵) کارڈز کے استعمال کا شرعی حکم

 ان کارڈز کے استعمال کا شرعی حکم کیا ہے تو اس سلسلہ میں علماء ِکرام کا قول یہ ہے کہ دو کارڈز ایسے ہیں جن کے استعمال کی شرعاً گنجائش ہے، پہلا”اے ٹی ایم“(ATM Card) کارڈ ، دوسرا ڈیبٹ کارڈ(Debit Card)،البتہ چارج کارڈ(Charge Card)اور کریڈٹ کارڈ( Credit Card)کے سلسلہ میں کچھ تفصیل ہے ۔

 پہلا”اے ٹی ایم“(ATM Card) کارڈاس کے استعمال کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس میں نہ تو سود دینے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ حامل ِکارڈ کو قرض دیا جاتا ہے، ہاں البتہ اس کی فیس ادا کرنا ضروری ہے جو کہ ان مشینوں اور دیگر خدمات کا معاوضہ ہے۔

 دوسری قسم ڈیبٹ کارڈ(Debit Card) ہے اس کے استعمال کی بھی شرعاً گنجائش ہے،بشرط یہ کہ کارڈ ہولڈر اس کو کسی غیر شرعی کاموں میں استعمال نہ کرے ،کیونکہ اس میں بھی کسی قسم کے سود دینے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی کسی قسم کا سودی معاہدہ ہوتا ہے،اور جو فیس دیا جاتا ہے اس کے بارے میں اوپر تفصیل گذری جس سے فیس دینے کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے ؛لہذا ڈیبٹ کارڈ کے استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

 تیسری قسم چارج کارڈ(Charge Card) اس کے استعمال کے سلسلہ میں ”معاییر شرعیہ “میں تین شرائط مذکور ہیں ان تین شرائط کی پابندی کے ساتھ اس کے استعمال کی گنجائش دی ہے:

 پہلی شرط یہ کہ ڈیبٹ کارڈ میسر نہ ہو یا ڈیبٹ کارڈ تو ہو مگر اس سے ضرورت پوری نہ ہوتی ہو ۔

 دوسری شرط یہ ہے کہ اس چارج کارڈ کوکسی غیر شرعی کام میں استعمال نہ کرے۔

 تیسری شرط یہ ہے کہ مدت کے اندر اندرہی ادائیگی کردی جائے،تاکہ مدت کے بعد کہیں سود نہ دینا پڑے؛ کیوں کہ چارج کارڈ کے اندر ایک مدت متعین کردی جاتی ہے کہ اس مدت کے اندر ادائیگی نہ ہوئی تو سود دینا پڑے گا۔

 تو اب اگر اس شخص کو جو چارج کارڈ استعمال کررہا ہے، اس کو بالکل یقین ہو کہ میں مدت کے اندر ادائیگی کرسکتا ہوں، لہذا ضروری ہے کہ اس مدت کے اندر ادائیگی کردے؛ تاکہ سود دینا نہ پڑے، تو یہ تین شرائط ہیں جس کی وجہ سے گنجائش دی جاسکتی ہے۔

 کریڈٹ کارڈ (Credit Card)کے استعمال کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس کے استعمال کی شرعاً گنجائش نہیں دی گئی، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں اصل معاہدہ ہی سود کی بنیاد پر ہوتا ہے ؛یہی بات معاییر شرعیہ وغیرہ میں ذکرکی ہے کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہے۔  لیکن بعض علماء ِکرام نے اس شرط کے ساتھ اس کے استعمال کی گنجائش دی ہے کہ ڈیبٹ کارڈ و چارج کارڈ دونوں میسر نہ ہوں،یا میسر تو ہوں مگر اس سے ضرورتیں پوری نہ ہوتی ہوں تو ایسی صورت ِحال میں جو چارج کارڈ کے استعمال کی تین شرائط ہیں، انہی تین شرائط کے ساتھ کریڈٹ کارڈ کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔