بیت المقدس و مسجد اقصیٰ،نئے تصورات و اصطلاحات:

فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں۔از:مولانا نورعالم خلیل امینیؔ

                ۱۳۳۵ھ/۱۹۱۷ء میں بھی جب سلطنت عثمانیہ کی جنگ عظیم میں شکست کے بعد فلسطین پر عارضی برطانوی اقتدار قائم ہونے کو تھا ،شہر قدس ایک ہی شہر ،جو دسویں سلطان عثمانی شاہ سلیمان قانونی ( ۹۰۰ھ/۱۴۹۵ء۔۹۷۳ھ/۱۵۶۶ء)کی دسویں صدی ہجری کے وسط میں تعمیر کردہ فصیل سے گھر ا ہوا تھا،جس میں شہر پناہ سے باہر کے چند محلے بھی شامل تھے ،جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں شمالی ،مشرقی اور جنوبی سمتوں میں معرض وجود میں آئے تھے،لیکن برطانوی قبضے کے دوران یہودی نمایندوں نے بلدیاتی حدود سے چھیڑ چھاڑ کی ،چناں چہ سمت مغرب میں جدھر یہودیوں کی گھنیری آبادیاں تھیں ،کئی کلو میٹر تک شہر کی حدیں بڑھا دی گئیں ،جب کہ سمت جنوب و مشرق میں جدھر عربوں کی آبادیاں تھیں ،صرف چند میٹروں تک ہی بلد یاتی خط کھینچا جا سکا ،چناں چہ کئی بڑے بڑے عربی گائوں شہر کی حدود میں شمول کے استحقاق کے باوجود سہولتوں سے محروم کرنے کے لیے بلد یاتی دائرے میں نہیں آنے دیے گئے ان مواضعات میں طور،دیر یا سین ،سلوان ،عیسویہ، مالحہ ،بیت صفا،شعفاط،لفتا اور عین کا رم شامل ہیں۔اس ظالمانہ امتیازی عمل کی وجہ سے شہر قدس ،ایک متحدہ عربی اور مسلمان شہر کی بہ جائے کئی شہر نظر آنے لگا۔

                قدس قدیم :یا قدس عتیق ،جو سلیمان قانونی کی تعمیر کردہ شہر پناہ کے اندر ہے اور جس کا رقبہ ۴۲۰مربع کلو میٹر ہے اور جو چار پہاڑوں پہ واقع ہے ،جبل موریا،جبل صہیون،جبل آکرا اور جبل بزیتا۔مسجد اقصیٰ قدیم شہر قدس کے جنوب مشرق حصے میں جبل مور یا پہ واقع ہے۔

                قدس مشرقی:یہ قدس قدیم ہی ہے ،جس میں بیرون فصیل مسلمانوں کے بسائے ہوے محلے شامل ہیں ،جیسے حی الشیخ جراح،حی باب الساہرۃ ،حی وادی الجوز۔مشرقی قدس کی اصطلاح ،صہیونی ریاست کے قیام سے پہلے مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین کشیدگی میں اضافے کے بعد،سامنے آئی تھی ،کیوں کہ مسلمان بڑی اکثریت کے ساتھ شہر کے مشرق میں اور یہودی غالب اکثریت کے ساتھ شہر کے مغربی حصے میں مرتکز ہو گئے تھے،لہٰذا مشرقی حصے کو، قدس شرقی اور مغربی حصے کو قدس غربی کہا جانے لگا۔

                قدس غربی:یہ نیا قدس شہر،برطانوی اقتدار کے دور میں معرض وجود میں آیا ،یہاں دنیا کے مختلف خطوں سے آنے والے یہودی آکر بستے رہے ،یہ بری طرح پھیلتا گیا۔۱۳۶۵ھ /۱۹۴۶ء میں اس کو برطانوی استعمار نے قدس کی بلدیاتی حدود میں شامل کر لیا تھا ،چناں چہ قدس کا کل رقبہ ۱۹۰۰۰مربع کلو میٹر ہو گیا تھا یعنی پرانے قدس سے ۲۰گنا زیادہ ۔

                متحدہ قدس:یہ یہودیوں کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے، جس کو وہ دونوں حصوں مشرقی اور مغربی پر اطلاق کرنے کے لیے بولا کرتے ہیں۔۱۳۶۷ھ/۱۹۴۸ء میں جیسا کہ بار بار کہا گیا شہر قدس عملی طور پر دو حصوں مشرقی عربی اور مغربی یہودی میں تقسیم ہو گیا تھا ۲۸ربیع الاول ۱۳۸۷ھ/۷جون ۱۹۶۷ء کو اسرائیل نے سارے قدس پر قبضہ کر لیا اس کے بعد سے ان کا اصرار رہا اور ہے کہ متحدہ قدس اسرائیل کا ابدی دار الحکومت ہے ۔

                گریٹر قدس:یہ وہ وسیع تر قدس کا تصور ہے، جس کو برپا کرکے صہیونی شہر کو یہودی شناخت دے کر اس کی اسلامی عربی پہچان کو ختم کرنے کے در پے ہیں ،ان کا ارادہ ہے کہ عظیم تر قدس میں یہودی کی ایسی بھاری اکثریت ہو جائے کہ مسلمان انتہائی چھوٹی سی اقلیت بن جائیں۔ ان کا مقصد یہ بھی ہے کہ مسلم عربی محلوں کو یہودی آبادیوں سے اس طرح گھیر دیا جائے اور بیرون فصیل واقع عربی محلوں سے علاحدہ کر دیا جائے کہ عربوں کے لیے شہر کے اندر زندگی دشوار تر ؛بل کہ خارج از امکان ہو جائیں اور بالآخر ان کی اسلامی عربی شناخت تحلیل ہو جائیں یا وہ از خود یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں۔

مسجد اقصیٰ:

                شہر قدس کے فصیل کے علاوہ شہر کے اندر اور ایک فصیل ہے ،جو مسجد اقصیٰ کے گرد جبل موریا پے واقع ہے اس فصیل کا مغربی گوشہ ۴۹۰میٹر مشرقی گوشہ ۴۷۴میٹر ،شمالی گوشہ ۳۲۱میٹر اور جنوبی حصہ ۲۸۳میٹر ہے، حرم قدس کے فصیل بند دائرے میں کئی ایک اسلامی عمارتیں اور مقدسات ہیں جن میں مشہور قبۃ الصخرۃ ہے۔ جب مسجد اقصیٰ کا لفظ بولا جاتا تھا تو سلف کے نزدیک فصیل بند سارا حرم مراد ہوتا تھا لہٰذا مسجد قبۃ الصخرۃ حرم اقصیٰ کا حصہ ہے۔ اسی طرح مسجد عمر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتح کے وقت تعمیر کی تھی اور جس کی تعمیر نو عبدالملک بن مروان نے کی تھی مسجد اقصیٰ ہی کا حصہ ہے۔

مسجد اقصیٰ کے نقشے پر ایک نظر:

                مسجد اقصیٰ:یہ وہ سارا حرم ہے جو فصیل بند دائرے میں واقع ہے۔ اسی میں مسجد قبۃ الصخرۃ بھی آتی ہے، جس کا گنبد سنہرا ہے اور جو حرم اقصیٰ کے گویا قلب میں آتی ہے اسی طرح سیاہ مائل بہ سرمئی گنبد والا مصلائے قبلہ ہے ،جو جانب قبلہ مسجد اقصیٰ کے بالکل جنوب میں واقع ہے ۔اس کے علاوہ تقریباً ۲۰۰اسلامی مقدسات و نقوش اسی کے اندر آتے ہیں ،جن میں مسجدیں، عمارتیں، گنبد، پانی کی سبیلیں ،پانی کے پرنالے، گیلریاں، مدرسے، درخت، محرابیں، منبر، منارے ،دروازے ،کنوئیں اور لائبریریاں داخل ہیں ۔

                رقبہ:  مسجد اقصیٰ کا کل رقبہ ۱۴۴۰۰۰مربع میٹر ہے ،اس طرح یہ رقبہ فصیل بند شہر قدس کا چھٹا حصہ ہے ۔یہ رقبہ غیر مربوط گوشوں پر مشتمل ہے چناں چہ مغربی گوشے کی لمبائی ۴۹۱میٹر مشرقی گوشے کی لمبائی ۴۶۲میٹر شمالی گوشے کی لمبائی ۳۱۰میٹر اور جنوبی گوشے کی لمبائی ۲۸۱میٹر ہے۔ اس رقبے میں جب سے مسجد بنی ہے ،کوئی کمی زیادتی واقع نہیں ہوئی جب کہ مسجد حرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ میں بار بار ترمیم و توسیع ہوتی رہی ہے ۔

                موجودہ صورت حال:  با وجود ے کہ مسجد اقصیٰ کا انتظام و انصرام اردنی وزارت اوقاف و امور مقدسات اسلامیہ کے ماتحت انجام پذیر ہوتا ہے، لیکن مسجد اقصیٰ جیسا کہ معلوم ہے، اس وقت اسیر قبضۂ یہود ہے، اس کی آمدو رفت کی راہیں صہیونی قبضے کے دائرے میں آتی ہیں یہ قبضہ ۱۹۶۷ء سے قائم ہے۔ صہیونی حکومت غیر اعلانیہ طور پر یہودیوں کے دعوں کی مو ید اور برپا ہونے کی راہ کے کانٹوں کو ایک ایک کر کے چننے میں لگی ہوئی ہے ،یہودیوں کا بے بنیاد عقیدہ ہے کہ مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کے ملبے پہ واقع ہے، شہر قدس کے بغیر ریاست اسرائیل بے معنی ہے اور ہیکل کے بغیر شہر قدس بے معنی ہے (بن گوریون وزیر اعظم اول ریاست یہود )

                مسجد اقصیٰ کا انہدام یہودیوں کا بڑا ہدف ہے۔ اس سلسلے میں یہودیوں نے کئی طرح کی خطرناک کارروائیاں کر لی ہیں اور باقی ماندہ پروگراموں کو بر پا کرنے کے لیے سنجیدگی سے در پے ہیں انہوں نے مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار کے ایک حصے کو علاحدہ کر کے’’ دیوار گریہ‘‘ نام دے کر مسلمانوں کو اس کے نزدیک جانے سے بھی روک دیا ہے، مسجد اقصیٰ کو جلانے ،گرانے اس کو دھماکے سے اڑا دینے کی کئی کارروائیاں وہ کھلے عام کرچکے ہیں، اس کے علاوہ انہوںنے مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود ڈالی ہیں؛ اورکسی نہ کسی بہانے سے کھدائی کا کام وہ کرتے ہی رہتے ہیں ،جس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کے بہت سے حصوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں، نمازکے لیے مسجدمیں مسلمانوں کی آمدو رفت بھی آزادانہ نہیں ہو پاتی ہیں، مسجد کی دیکھ ریکھ، اصلاح و مرمت پر بھی طرح طرح کی پابندیاں عائد ہیں ،بار بار مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی فوجوں اور صیہونی دہشت گردوں کے ذریعہ دھاوا بولنے اور مسلم نو جوانوں کو زد و کوب کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کی کارروائی ہوتی رہتی ہے ۔

مسجد اقصیٰ کے عناصر:

                بہت سے مسلمان گول سنہرے گنبد والی عمارت کو ہی مسجد اقصیٰ سمجھ بیٹھتے ہیں، مسجد اقصیٰ در حقیقت ایک احاطہ ہے، جس کے اندر عمارتیں ،مدرسے، مسجدیں ، پرنالے، گنبد، گیلریاں اور محرابیں وغیرہ ہیں،اور یہ سارا کچھ مسجد اقصیٰ ہی سے عبارت ہے ۔

                مسجد اقصیٰ کی عمارت :یہ مسجد اقصیٰ نہیں؛ بل کہ اس کو مجازاً مسجد اقصیٰ کہا جاتا ہے۔ پہلے اس کو جامع مسجد اور مسجد رجال (مسجد مرداں )کہا جاتا تھا،یہ موجودہ عمارت خلیفہ اموی عبدالملک بن مروان کے دور میں بنی تھی۔ اسی طرح قبۃ الصخرۃ کے عمارت بھی مسجد اقصیٰ نہیں؛ بل کہ مسجد اقصیٰ مذکورہ ساری چیزوں سے عبارت ہے اور سب کی جامع ہے ،نہ صرف مذکورہ دونوں عمارتیں بل کہ دیگر سیکڑوں تاریخی اسلامی آثار و نقوش پر بھی مسجد اقصیٰ ہی کا اطلاق ہوتا ہے، مسجد اقصیٰ کی بیچ والی گیلری کے نیچے قدیم مسجد اقصیٰ واقع ہے، جس کی تحریک اسلامی نے اصلاح و مرمت کرائی تھی بل کہ یہ دسیوں سالوں سے بند پڑی تھی۔

                مسجد اقصیٰ جنوب مشرقی گوشہ:مسجد کے احاطہ میں یہ سب سے بلند حصہ ہے، یہ مسجد اقصیٰ کے جنوب مشرقی حصے کی آخری حد ہے ۔

                مروانی مصلیٰ :شیخ رائد صلاح : (مقبوضہ فلسطینی تحریک اسلامی کے سربراہ )کی صدارت میں اسلامی تحریک میں اس کی اصلاح ومرمت کرائی تھی اور اس میں ٹائلس لگوائے تھے۱۴۱۹ھ/۱۹۹۸ء میں نماز کے لیے اس کا افتتاح ہوا تھا، سیکڑوں سال بعد مسجد اقصیٰ میں رو بہ عمل آنے والا ،یہ سب سے بڑا تعمیری منصوبہ تھا یہودیوں نے مصلیٰ مروانی کو اپنے زیر قبضہ لینے کی کوشش کی تھی، یہاں اپنا ہیکل بنا کر اس کو اپنے مزعومہ ہیکل سلیمانی کے لیے دروازہ بنا ڈالنے کا ان کا ارادہ رہا ہے، مسلمانوں کی طرف سے اس کی صفائی ستھرائی اور ترمیم و اصلاح کے بعد وہاں نماز کی ادائیگی کی ابتدا سے ان کامنصوبہ سر دست کھٹائی میں پڑ گیا ہے، ایریل شیرون نے (۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء جمعرات۲۷جمادی الاخریٰ۱۴۲۱ھ)کو جو مسجد اقصیٰ کو اپنے قدموں سے ناپاک کرنے کی اشتعال انگیزانہ کارروائی کی تھی، اس کا مقصد در حقیقت مصلیٰ مروانی کا درشن کرنا تھا۔

                مصلیٰ مروانی کا راستہ:اس جگہ اسلامی تحریک نے کھود کر مصلیٰ مروانی کی سات گیلریاں دریافت کی تھیں۔یہاں سے ہزاروں ٹن مٹی صاف کی گئی اور اس بڑے مصلیٰ کے شایان شان،ایک بڑی راہ تعمیر کی گئی۔

                قبۂ صخرۃ:بہت سے مسلمان اس کو مسجد اقصیٰ باور کر لیتے ہیں۔حال آں کہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا۔واقع ساری چیزیں مسجد اقصیٰ ہیں، یہ اس کا ایک جزو ضرور ہے،قبۂ صخرۃ ان چیزوں ۔آثار و عمارت میں سے ایک ہے،جن کے مجموعے کا نام مسجد اقصیٰ ہے ۔قبہ صخرہ ،خلیفہ اموی عبدالملک بن مروان کے زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا،جنھوں نے مصر کے خراج کی پوری رقم کو سات سال تک صرف اسی پر خرچ کیا۔یہ عمارت اس صخرئہ مشرفہ کو محیط ہے،جس پرسے شب معراج میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے آسمانوں کی طرف صعود ہوا تھا۔

                اموی محلات:یہ اموی محلات کے آثار ہیں،یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کی طرف ان کے نیچے کھدائی کی ہے ۔۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء میں صہیونی وزیر اعظم یہود باراک کی حکومت نے مصلیٰ مروانی کی دیوار تک ایک راہ داری تعمیر کرائی۔یہی دیوار مسجد اقصیٰ کی جنوبی حد ہے۔باراک نے بہ ذات خود اس کا افتتاح کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہمارے ہیکل سلیمانی کایہی دروازہ ہے۔

                گوشہ ٔخنثنیہ:یہ مسجد اقصیٰ کا آخری جنوبی حصہ ہے ۔یہیں سے خلفا و امر ا اپنے محلات سے مسجد اقصیٰ آیا کرتے تھے۔

                گوشۂ جنوب مغربی:یہ مسجد اقصیٰ کی آخری جنوب مغربی حد ہے۔

                دعوت و اصول دین کالج:یہ جنوبی سمت میں مسجد اقصیٰ کی ایک عمارت ہے۔یہ ماضی میں بھی ایک مدرسے کے طور پر مستعمل رہی تھی۔۱۴۱۴ھ/۱۹۹۳ء تک یہ دعوت و اصول دین کالج رہا تھا۔اب یہ مسجد اقصیٰ کی لائبریری کے بہ طور مستعمل ہے۔صہیونی حکام نے انتفاضئہ اولیٰ(۸/۱۲/۱۹۸۷ء ۷/۴/۱۹۸۸ء)کے وقت اس عمارت کو بند کر دیا تھا۔

                اسلامی میوزیم:یہ بہت پرانی عمارت ہے،اس وقت اس میں اسلامی میوزیم ہے ۔بیت المقدس پر اسلامی حکم رانی کے مختلف ادوار کے بہت سے آثار یہاں محفوظ ہیں۔یہیں نورالدین زنگی(متوفی۵۷۰ھ/۱۱۷۴ء)کے منبر کی باقیات بھی ہیں۔جس کو اگست ۱۹۶۹ء میں اآسٹریلیائی صہیونی دہشت گرد’’مایکل روہان‘‘نے جلا دیا تھا۔

                بوابہ مغاربہ:یہ دروازہ ،مسجد اقصیٰ کی مغربی سمت میں دیوار براق کے بالمقابل واقع ہے ،اسی دیوار کو یہودی بے بنیاد طور پر ’’دیوار گریہ‘‘کہتے ہیں۔یہ دروازہ ہی مغاربہ محلے سے مسجد اقصیٰ میں آنے کی واحد راہ تھا ۔مغاربہ محلے کو یہودیوں نے قبضے کے بعد نیست و نابود کر دیا،مسلمانوں کو قتل کر دیا اور باقی ماندہ کو در بہ در کر دیا اسی کے ملبے پر آج یہاں حارئہ یہود(محلہ یہود)قائم ہے ۱۶/ربیع الآخر ۱۴۱۱ھ۔۸/۱۰/۱۹۹۰ء کو مسجد اقصیٰ میں یہودیوں نے جو قتل عام کیا تھا ،اس کے بعد مسلمانوں کے لیے اس دروازے کو یہ کہہ کر بند کر دیا کہ دیوار گریہ کے پاس جو یہودی عبادت کو آتے ہیں،ان کے لیے مسلمانوں کے اس دروازے سے مسجد میں آنے جانے کی شکل میں بڑا خطرہ رہے گا۔قابل ذکر ہے کہ مسجد اقصیٰ میں یہودی پولیس، اسی راہ سے بار بار ہلہ بولتی رہتی ہے۔

                دیوار براق:اسی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شب اسراو معراج میں اپنی براق سواری کو باندھا تھا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے تھے،اسی کو صہیونی بلا دلیل ’’دیوار گریہ‘‘کہتے ہیں، کہ یہ ان کے مزعومہ ہیکل سلیمانی کی آخری نشانی اور باقیات ہے۔اس کے میدان میں ان کی میزیں وغیرہ پڑی رہتی ہیں۔

                دروازئہ سلسلہ:بازار کی طرف کو جانے والا یہ مسجد اقصیٰ کا ایک بڑا دروازہ ہے، اسی کے نیچے سے یہودیوں کی کھودی ہوئی’’حشمونائیم‘‘نام کی سرنگ دیوار براق کی جنوبی سمت سے مسجد اقصیٰ کی شمال مغربی سمت تک جاتی ہے۔

                مدرسہ عمریہ:یہ مدرسہ ،مسجد اقصیٰ میں شمالی جانب ہے،یہ مسجد اقصیٰ کا جزو لا ینفک ہے۔یہودی اس پر بھی قبضہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔وہ یہاں اپنی عبادت گاہ بنانا چاہتے ہیں۔

                شمال مغربی حد:یہ مسلمانوں کے محلے میں واقع ہے۔

                شمالی مشرقی حد:یہ اسباط دروازے کے پہلو میں ہے۔

                دروازئہ اسباط:یہ مسجد اقصیٰ کی شمالی سمت میں واقع ہے۔اس وقت یہ مسلمانوں کی آمدو رفت کا بنیادی دروازہ ہے،بالخصوص باب مغاربہ کے بند کردیے جانے کے بعد ،نمازی یہیں سے آتے جاتے ہیں۔بسیں اوردیگرگاڑیاں بھی یہیں سے آتی جاتی ہیں۔

                باب رحمت:یہ مسجد اقصیٰ کے دروازوں میں سے ایک ہے ۔ صلاح الدین ایوبی ؒنے اس کو بند کر دیا تھا،کیوں کہ اس وقت اس دروازے سے صلیبیوں کے دھاوا بول دینے کا خطرہ تھا،اسی دروازے کے باہر مقبرئہ رحمت واقع ہے۔

                مقبرئہ رحمت:اس قبر ستان میں صحابہ کرام میں سے حضرت شدادبن اوس،حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما وغیرہ مدفون ہیں۔یہ قبرستان تدفین کے لیے ہنوز مستعمل ہے۔اقصیٰ کی یہودی قتل گاہ کے شہدا بھی یہیں مدفون ہیں۔

                اسلامی مقبرے:جہاں پرانے زمانے سے بھی لوگ دفن ہوتے آئے ہیں۔

                مغربی اور شمالی مسلمان محلے:ان کی بعض عمارتوں پر بہ زور بازو ،یہودیوں نے قبضہ کر کے انھیں عبادت خانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

مسجد اقصی کے خلاف کی گئی صہیونیوں کی ظالمانہ کارروائیاں :

                ۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء کے بعد سے ہی یہودیوں نے مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کے لیے اسلامی وضع کو بدلنے کی بہتیری کوششیں کی ہیں۔جن میں کچھ اس طرح ہیں۔

                ۱۔جون ۱۹۶۷ء کو مغاربہ محلے کی مسلمان باشندوں کو یہاں سے چلے جانے اور اپنے مکانات خالی کر دینے کی صرف ۲۴گھنٹے کی مہلت کے بعد،یہودیوں کی ریاست نے مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار کے پڑوس کے اس محلے کا نام و نشان مٹا دیا ۔۶۵۰/عربوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بھگاکر انھیں زمین بوس کر دیا گیا ،اس محلے کی زمین صلاح الدینؒنے ان عربوں کے آبا و اجداد کو دے کر انھیں یہاں بسایا تھا، اس طرح شرف محلے سے بھی ۳ہزار عربوں کو در بہ در کر دیا گیا اور اس کا نام حارۃ الیہود کر دیا گیا۔ مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار پر جو حائط براق کے نام سے جانی جاتی ہے ،اس کے بعد ہی قبضہ کر کے زبر دستی اس کا نام حائط المبکیٰ (دیوار گریہ)کر دیا اس کے سامنے کے میدان کو بھی انھو ں نے خوب کشادہ کر لیا اور اب و ہاں پوجا پاٹ کرتے رہتے ہیں۔

                ۲۔اسی زمانے میں صہیونی ریاست نے مسجد اقصیٰ کے مغربی گوشے کو ڈھایا جو زاویۂ فخر یہ کے نام سے معروف تھا، اس کے قریب عربوں کے ۱۴گھر بھی ڈھا دیے ۔             

                ۳۔۲۴جمادی الاخریٰ ۱۳۸۷ھ ۔۳۱/۸/۱۹۶۷ء کو صہیونی پولس نے باب مغاربہ کی چابی مسلمانوں سے چھین لی ،یہ مسجد اقصیٰ کے دروازوں میں سے مشہور دروازہ تھا ۔

                ۴۔۱۳۸۹ھ/۱۹۶۹ء میں صہیونیوں نے مسجد اقصیٰ کے صحن کے سامنے کے مدرسۂ تنکزیہ پر قبضہ کر لیا، بہانہ یہ تھا کہ دیوار گریہ تک آنے جانے والے یہودیوں کی حفاظت اس کے بغیر ممکن نہیں۔اسی مدرسے کے بغل کے ۱۰گھروں کے ۱۰۵مکینوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال دیا ۔یہ مدرسہ اب صہیونی بارڈر سیکورٹی فورسز کا مرکز ہے ۔

                ۵۔۱۳۸۹ھ/۱۹۶۹ء میں ایک آسٹر یلوی یہودی نے مسجد اقصیٰ کے جنوبی حصے کو جلا دیا تھا، جس کے دوران صلاح الدین ایوبیؒکا منبر اور جنوبی دیوار بھی جل گئی تھی، جس میں عہد اموی و عہد عباسی کے مایہ ناز نقش و نگار بنے ہوے تھے، لیکن صہیونی پولس والوں نے اس کو بائو لا شمار کر کے گرفتاری کے بعد فورًا چھوڑ دیا تھا یہ واقعہ جمعرات۸/۶/۱۳۸۹ھ۔۲۱/۸/۱۹۶۹ء کو پیش آیا، دوسرے روز جمعہ کی نماز نہ ہو سکی اس کے بعدوالی نماز جمعہ منبر کے بغیر ہوئی۔

                ۶۔اسرائیلی سپریم کورٹ نے ۲۳/۹/۱۹۹۳ء(۵/جمادی الاولی۱۴۱۴ھ)کو ایسا فیصلہ سنایا ،جس کی رو سے حرم قدسی (مسجد اقصیٰ )کی حرمت کو ہر طرح سے پامال کرنے کی صہیونیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ۔اس فیصلے کے اہم مندر جات اس طرح تھے ۔

                (الف)حرم مسجد اقصیٰ ریاست اسرائیل ہی کا رقبہ ہے، لہٰذا اس پر اسرائیلی ریاست کے ہی قوانین و احکام برپا ہوں گے۔ جن میں تعمیری منصوبہ سازی اور آثار قدیمہ کے قوانین بھی داخل ہیں ،نیز مقامات مقدسہ تک آزادی کے ساتھ اور بلا روک ٹوک ہر عقیدے کے، حامل کو آنے جانے کی اجازت ہوگی اور کسی کو بھی اس آزادی سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔عدالت کا مقصد یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے حرم میں یہودیوں کو بھی عبادت کی اجازت ہونی چاہیے ،اور مسلم وزارت اوقاف کو یہاں اصلاح و مرمت اور تعمیر نو کی کوئی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔

                (ب)اس قرار داد کی رو سے ’’جبل ہیکل‘‘کی صہیونی سکریٹریوں کو حرم قدسی پر سرپرستی کا اختیار دیا گیا ۔

                (ج)جبل ہیکل یہ بہ قول عدالت ’’جبل بیت‘‘کو یہویوں کے نزدیک ۳/ہزار سال سے بڑی دینی اہمیت کاحامل اورمقدس رہا ہے،یہ تقدس ابدی ہے،یہ کسی متعین اقتدار سے ہم رشتہ نہیں،یہ تقدس کسی بھی قانونی بالادستی سے فزوں تر اور برتر ہے ۔حال آں کہ عدالت نے اپنے مذکورہ فیصلے میں یہ بات بھی تسلیم کی ہے ،کہ ۱۳سو برس سے یہ جگہ مسلمانوں کے لیے بھی مقدس ہے،نہ صرف یہ بل کہ مسلمانوں کے نزدیک تقدس میں اس کا رتبہ مکہ اور مدینہ کے معاً بعد ہے۔بہ ہر کیف اسرائیل کی عدالت عظمیٰ کا عند یہ یہ ہے کہ اس جگہ کی فضیلت مسلمانوں کے نزدیک اتنی نہیں ،جتنی یہودیوں کے نزدیک ہے۔

                (د)عدالت نے اپنے فیصلے میں اسرائیلی اداروں کو اس بات کا پابند کیا ہے، کہ انھیں اس وقت سے آیندہ ہمیشہ سارے آثار قدیمہ کی زبردست نگرانی کرنی چاہیے،تا کہ اسلامی اوقاف کا ادارہ یہاں کسی طرح کی اصلاح و مرمت اور صورت حال میں من مانی تبدیلی نہ کر سکے۔

                ۷۔۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵ء میں ایک صہیونی عدالت نے مسجد اقصیٰ کے صحن میں یہودیوں کے ’’نماز‘‘پڑھنے کی بھی اجازت دے دی تھی اور صہیونی ریاست کو بہ ذریعہ پولس اس کا انتظار کرنے کا پابند بنا یا تھا۔

                ۸۔مسجد اقصیٰ کے تمام دروازوں پر یہودی پولس کا قبضہ رہتا ہے اور مسجد کی سیکو رٹی کی حفاظت کے بہانے ،سارے نمازیوں بالخصوص ؛جوانوں کی جامہ تلاشی اور ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔

                ۹۔مسجد اقصیٰ کے اندر کئی بار صہیونیوں نے خون خرابہ کیا ہے ،مشہور قتل عام ۱۶/ربیع الآخر۱۴۱۱ھ۔۸/۱۰/۱۹۹۰ء کو کیا تھا ،جس میں ۱۸نمازی شہیداور سیکڑوں زخمی ہو گئے تھے ۔۱۳۸۷ھ/۱۹۶۷ء سے ہی صہیونی مسجد اقصیٰ کی اصلاح و مرمت اور وہاں کے گنبدوں ،سبیلوں اور دیگر آثار کی مرمت و اصلاح کرنے نہیں دیتے ،تا کہ یہ علیٰ حالہ رہ کر گر جا ئیں ،جو اُن کے اہداف کے عین مطابق ہے۔

شہر قدس کی دیگر آباد مسجدیں:

                مسجد مرابطین،مسجد انصار ،مسجد دعوت،مسجد مہاجرین،مسجد شیخ محمود،مسجد البلد،مسجد عمری،مسجد کرافان ،مسجد ابرار،مسجد حی بشیر،مسجد اموی،مسجد زاویۂ قدیمہ، مسجد احمد ساحوری،مسجد بیر ایوب،مسجد عین اللوزہ ،مسجد العین،مسجد ابو ہریرہ،مسجد شیخ عبداللہ،مسجد فاروق،مسجد محمد الفاتح،مسجد بلال ابن رباح،مسجد امام شافعی، مسجد شیخ جراح،مسجد عابدین،مسجد حجازی،مسجد ساہرہ،مسجد سلیمان فا رسی،مسجد علمی ،مسجد عمر بن الخطاب،مسجد خالد ابن ولید،مسجد شہدائے فلسطین،مسجد زاویۂ منصورہ،مسجد ثوری، مسجد نور ،مسجد ارقم،مسجد بدر الدین لو لو ،مسجد مصعب بن عمیر،مسجد مولویہ ،مسجد شیخ مکی،مسجد شیخ ریحان،مسجد مئذنہ خمراء،مسجد زاویۂ نقشبندیہ،مسجد زاویۂ افغانیہ،مسجد درغث،مسجد شور بجی ،مسجد مصطفی،مسجد ابو بکر صدیق،مسجد عمر بن الخطاب،مسجد محمد قدمی ،مسجد مثبت، مسجد رزاق،مسجد خانقاہ صالحیہ،مسجد قلاوون ،مسجد قمری، مسجد حمزۃ بن عبدالمطلب،مسجد عمری صغیر،مسجد عثمان بن عفان ،مسجد عمری کبیر،مسجد دیسی،مسجد القلعہ،مسجد محارب،مسجد سلطان ظاہر برقوق،مسجد شرفاء،مسجد بسیوفی،مسجد یعقوبی،مسجد سعدو سعید ،مسجد ادہمی ،مسجد سیدہ بدریہ،مسجد علی بن ابی طالب،مسجد سلطان ابراہیم ادہمی،مسجد بدر،مسجد عبدالحمیدشومان،مسجد کلیۃ الدعوۃ،مسجد احباب اللہ، مسجد نور،مسجد اتقیاء ،مسجد بشیر ،مسجد عبدبن رواحہ،مسجد فاروق،مسجد عیسویۃ،مسجد احد،مسجد ابو عبیدہ بن جراح،مسجد خلافۂ اسلامیہ۔

شہر قدس میں مدفون بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم:٭عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ(۳۸ق ھ/۶۴۴ء۔۳۴ھ/۵۸۶ء)٭ابور یحان٭ابراہیم بن ابی عبلہ عقیلی مقدسی رضی اللہ عنہ متوفی ۵۲ھ/ ۶۷۲ء ٭ فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ ،متوفی ۵۳ھ/۶۷۳ء بہ عہد سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ٭شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ،متوفی ۵۸ھ/۶۷۷ء بہ عہد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ٭ذوالاصابع تمیمی رضی اللہ عنہ٭مسعود بن اوس بن زید رضی اللہ عنہ٭وائلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ٭ابو ابی بن ام حرام رضی اللہ عنہ٭یزید بن سلام رضی اللہ عنہ ٭ عبداللہ بن ححیر یز خجمی رضی اللہ عنہ متوفی ۹۹ھ/۷۱۷ء٭زیاد بن ابی سودہ رضی اللہ عنہ

شہر قدس کے اہم مقبرے:مقبرئہ رحمت ،مقبرئہ یوسفیہ،مقبرئہ باب الساہرہ،مقبرئہ مامن اللہ،مقبرئہ صور باہر،مقبرئہ بیت صفافا،مقبرئہ ام طوبا،مقبرئہ جبل المبکر،مقبرئہ طور،مقبرئہ شرفات،مقبرئہ شعفاط،مقبرئہ کفر عقب، مقبرئہ مالحہ،مقبرئہ عین کارم،مقبرئہ دیر یاسین۔

شہر قدس کے اہم بازار:سوق علون،سوق بازار،سوق حصر،سوق لحّامین،سوق نحاسین،سوق عطارین،سوق باشورہ،سوق صیاغ/تاجر،سوق یہود،سوق باب سلسلہ،سوق قطانین، سوق باب الزیت،سوق باب عامود،سوق باب حطہ،سوق حارئہ نصاریٰ۔