بیان القرآن کا مطالعہ

تیسری قسط:۵ ذی الحجہ ۱۴۴۰=۶/اگست ۲۰۱۹تیسری قسط:(حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تفسیر)

      مولانا حکیم فخرالاسلام  

۳:سائنس کی رعایت میں:

            الف: دل تنگ ہو کر ماننا:

            آیت ’’وحفظا‘‘(حم سجدہ:ع۲)۔ تفسیر نذیر (ف۱ )’’یہ معاملہ (یعنی شہاب سے شیاطین کا مارنا )داخل اَسرار الٰہی ہے جن کو خدانے کسی مصلحت سے ہم پر ظاہر نہیں فرمایا۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:- ’’اگر اِس میں کوئی اِشکال عقلی یا نقلی باقی رہتا ،تو بیشک اِس اعتبار سے داخلِ اَسرار ہوتا اور جب اللہ تعالی نے اپنے کلام میں اظہار فرما دیا اور کوئی اِشکال بھی اس پر وارد نہیں، پھر اسرار میںکہاں رہا؟ اوراگر باعتبار تفصیلی کیفیت کے اسرار میں داخل کیا جائے تو اس کی کیا تخصیص ہے معمولی معلومات بھی اِس حیثیت سے اَسرار ہی ہیں ۔سورئہ حجر کے رکوع ۲؍ (جس کا ذکر آگے آ رہا ہے)میں جوعرض کیا گیا ہے اُس کوملاحظہ فرمایا جائے یہ کیا ضروری ہے کہ جس امر تک ظاہر پرستوں کی نظر نہ پہونچتی ہو اس کو دل تنگ ہو کر مانیں۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۹)

            ب :عاجزانہ دب کر ماننا:

             آیت’’ فاتبعہ شھاب مبین ‘‘(سورئہ حجر:ع۲)۔ تفسیر نذیر( ف۱):’’جب کوئی شیطان فرشتوں کی گفتگو سننے لگتا ہے شہاب پھینک کر اُس کو ہٹا دیتے ہیں ۔یہ معاملات ہم لوگوں کی فہم سے باہر ہیں اور ہم کو اِن میں زیادہ کاوش کرنے کی ضرورت نہیں جو بات قرآن کے الفاظ سے سمجھ میں آتی ہے اُس کو کان دبا کر سن لینا اور دل سے یقین کر لینا مسلمان کا کام ہے۔ ‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’ فہم سے باہر ہونے کا اگر یہ مطلب ہے کہ اُس کی مفصل کیفیت اور علم معلوم نہیں ،تو مسلم ہے ؛مگر (اِس باب میں)اس( شہاب پھینک کر مارنے ہی) کی کیا تخصیص ہے ؟جو اشیاء کہ ہر وقت ہمارے استعمال میں ہیں اُن کے حقائق کا اِحاطہ ہم کو کب حاصل ہے؟ ہم کو قوتِ مقناطیسی اور اُس کے عجیب و غریب آ ثار کی حقیقت کب معلوم ہے؟مگر اِن چیزوں کے وجود کے تسلیم کرنے میں یہ نہیں کہا جاتا کہ’’ کان دبا کر سن لینا اور دل سے یقین کر لینا عاقل کا کام ہے ‘‘۔حالاں کہ یہ سب امور اور شہاب اور اَمثال اس کے(شہاب جیسی چیزیں) اِس معنی (تفصیلی کیفیت نہ معلوم ہونے کے باب میں)متساوی الاقدام(سب برابر) ہیں۔ اور اگر یہ مطلب ہے کہ اس کے بننے میں کوئی عقلی یا نقلی اشکال ہے تو اس اشکال کی تعیین اور محققین سے اس کا رفع کرنا چاہئے تھا۔ ورنہ اس طرح عاجزانہ دب کر ماننے میں مخالفین کواعتراض اور موافقین کو تردد و خلجان پیدا ہونے کا موقع ملے گا ۔البتہ تشابہات قرآنی جن کا ظاہر پر عمل کرنا بدلائل عقلی و نقلی مشکل ہے اُن کواجمالاً مان لینا فرض ہے۔ اور جب یہاں کوئی اشکال نہیں پھر ایسی مجبور ی کی بات کیوں کہی جائے اس میں تو اپنے اوپر الزام لینا ہے ۔ع

 ہم الزام اُن کو دیتے تھے مگر خود ہو گئے ملزم(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۰)

            ج:کسی بشر کا اتنی بلندی پر جا نا جہاں ہوا نہ ہو:

             آیت ’’سبحان الذی‘‘ الخ (سورئہ بنی اسرائیل:ع۱)۔تفسیر نذیر( ف۱):مکہ سے راتوں رات بیت المقدس پہنچنا تو متفق علیہ ہے مگر مفسرین نے بڑے بڑے اختلاف کئے ہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ روحانی جیسے خواب، کوئی کہتا ہے جسمانی، کوئی کہتا ہے کہ صرف ایک بار، کوئی کہتا ہے کئی بار، کوئی کہتا ہے صرف بیت المقدس تک ،اکثر کہتے ہیں پہلے بیت المقدس تک پھرآسمان تک۔ ‘‘(سورئہ بنی اسرائیل)

             استدراکِ حکیم الامت:- جس امر میں اختلاف ہو اس میں اختلاف کا نقل کرنا مضائقہ نہیں لیکن اگر ان اختلافات میں سے کسی خاص قول کوترجیح ہوتو اس کا اظہار بھی توضروری ہے تا کہ ناواقف کو شبہ تساوی اقوال کا واقع نہ ہو ۔جیساکہ اس مقام پر دوسرے مفسرین نے کیا ہے کہ تصریحاً لکھ دیا ہے کہ معراج جسمانی تھی۔ اور اس کودلائل سے ثابت بھی کر دیا۔ اسی طرح بیت المقدس تک پہونچنے کومتفق علیہ کہنے سے یہ شبہ پڑتا ہے کہ معراج آسمانی کا مضمون بھی اختلاف کی گنجائش رکھتا ہے حالاں کہ احادیث صریحہ و صحیحہ بروایات متعددہ اس میں وارد ہیں ایسی حالت میںاختلاف کب قبول ہو سکتا ہے؟ غرض ایسے عنوان سے اختلاف نقل کیا گیا ہے کہ ہر شخص جس احتمال کو قبول کر لے اُس کی اجازت نکلتی ہے جن میںبعض احتمالات سے حدیث کی تکذیب بھی لازم آتی ہے۔‘‘(اصلاح ترجمہ دہلویہ:ص ۲۱)

            ۴:ظاہر معنی سے عدول کی راہ تلاشنا:

            الف:آیت’’ فی کتاب مبین‘‘(نمل:ع۶) ۔ تفسیر نذیر( ف۲):’’لوح محفوظ سے مراد علم الٰہی ہے اور لفظوں پر جائو تو وہ ایک تختی ہے۔ الخ۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’ اِس سے معلوم ہوا کہ معنی راجح تو علم الٰہی کے ہیں اور تختی مراد ہونا مرجوح اورلفظ پرستی ہے۔ حالاں کہ بحسب قاعدہ مذکورہ چند بار (اُس قاعدہ کی رو سے جس کااِعادہ کئی بار ہو چکا ہے)-کہ جب تک حقیقی معنی بن سکیں مجاز کی طرف رجوع جائز نہیں -ترجیح اِسی تختی کے معنی کو ہے اور روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔اور علم الٰہی پر لوح کا اِطلاق بلااذنِ شرعی جائز بھی نہیں۔ اس لیے یہ تفسیر صحیح نہیں۔سورئہ حجر رکوع ۲؍آیت’’ فاتبعہ شہاب مبین‘‘ کے متعلق جو عرض کیا ہے اس کو یہاں بھی ملاحظہ فرما لیا جائے۔(اصلاح ترجمۂ دہلویہ :ص۲۵)

             ب:آیت’’ عند سدرۃ المنتھیٰ ‘‘(نجم:ع۱)۔تفسیر نذیر( ف۱):’’سدرۃ المنتھیٰ وہ بیری کا درخت ہے جو ساتویں آسمان پر ہے۔ الخ۔ ‘‘:’’یہ ساری باتیں داخل اسرار الٰہی ہیں فہم بشر سے خارج۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:- جب قرآن مجید میں ایک چیز کی خبر صاف صاف لفظوں میں دی جائے اور اُس میں کسی قسم کا اِشکال نہ ہونے کی وجہ سے کسی تاویل کی ضر ورت نہیں ،پھر اس کو داخل اسرار کہنا کس وجہ سے صحیح ہوگا؟شہاب کی بحث میں دو جگہ جو کچھ عرض کیا گیا وہ یہاں بھی معروض ہے اس عبارت سے خوا ہ مخواہ شبہ پڑتا ہے کہ غالبا ًیہ امور محتاجِ تاویل ہیں۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ :ص۳۰،۳۱)

            ج:منصوص واقعہ کا اِظہارموہمِ شک عنوان سے:

            آیت ’’اخرجنالھم دابۃ من الارض‘‘(نمل:ع۶) تفسیر نذیر (ف۲):’’یہ ایک پیشین گوئی ہے کہ اِس کی تصدیق اس کے وقوع ہی سے ہوسکتی ہے اور خدا کی قدرت کے سامنے توکوئی چیز عجیب نہیں ۔خدا کی باتیں خدا ہی جانے، مسلمانوں کا کام یہ ہے کہ جو فرمایا بے چون و چرا تسلیم کر لیا۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:- جن چیزوں کے وقوع کی خبروحی سے دی گئی ہے قبل وقوع کے بھی اُس کی تصدیق فرض ہے۔ پس یہ کہنا صحیح نہیں کہ’’ اس کی تصدیق اس کے وقوع ہی سے ہو سکتی ہے۔‘‘ وقوع کے وقت تصدیق کر لینا تو کچھ بھی کمال نہیں ،اُس وقت توموافق و مخالف سب مان ہی لیںگے ۔اور اُس کے وقوع میں کوئی اِشکال عقلی بھی نہیں جس کو عقل نہ قبول کرتی ہو، ور نہ اُس اِستحالے کا بیان کرنا چاہئے ۔(کیوں کہ کسی شی کا وقوع محال ہونے کی صورت میں ہی عقلی اِشکال ہو سکتا ہے۔ )۔پس جب عقلاً ممکن اورنقلاً ضروری الوقوع ہے(دوسری طرف عقل کا فیصلہ اِس باب میں یہ ہے کہ جو واقعہ عقلاً ممکن ہو اور نقل صحیح اُس کے وقوع کی خبر دے،تو اُس کے وقوع کا قائل ہو نا ضروری ہے۔دیکھیے:الانتباہات المفیدۃ ص۱۴ کتب خانہ امداد الغربا۱۴۴۰=۲۰۱۹)، تو پھر ایسے عنوان سے ماننا جوکہ موہمِ شک ہے- جیسا کہ عبارت ِمذکورہ کے سیاق سے مترشح ہے -بلاوجہ ہے۔(اصلاح ترجمۂ دہلویہ :ص۲۴،۲۵)

            د:اِلحاد فی الاسماء لباسِ مجاز میں :رکوع ا؍ آیت ’’وکان عرشہ علی الماء‘‘ الخ (سورئہ ہود :ع ۱)۔ترجمہ نذیر :’’اور اس وقت اس کا تخت (کبریائی)پانی پر تھا۔تفسیر نذیر( ف۱):’’مطلب یہ ہے کہ پانی پر جلوہ فرما تھا ۔جلوہ فرما ہونا تومعلوم اور اُس کی کیفیت معلوم نہیں ۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-:’’مترجم صاحب آیت میںمجازکے قائل ہوئے ہیںعرش کے پانی پر ہونے سے خود اپنا پانی پر ہونا مراد ہے ۔اسی لیے ترجمے میںلفظ’’ کبریائی‘‘ بڑھایا گیا ۔اور بضرورت رفع اِشکالِ مشہورہ حاشیہ بڑھانا پڑا جس سے اُس کے مجاز لینے کا پورا یقین ہوگیا ۔حالاںکہ اصول میںمقرر ہوچکا ہے کہ جب تک معنی حقیقی  متعذر نہ ہوں معنی مجاز ی کا ارادہ جائز نہیں ہے۔ اور یہاں معاملہ بالعکس ہے کہ مجازی معنی میں تو یہ عذر ہے جس کا جواب دینے کے لیے حا شیہ لکھنا پڑا کہ’’ جلوہ فرمانا تومعلوم اور کیفیت معلوم نہیں۔‘‘ اورحقیقی معنی میںیہ تعذر نہیںکہ ایک جسم کا فوق ہونادوسرے جسم سے خواہ بالوصل ہو خواہ بالفصل نقلاً و عقلاً مستحیل(ومحال) نہیں۔ ایسی حالت میں حقیقت کوچھوڑکر مجازلینا کیوںکرصحیح ہوگا؟ خصوصاً جہاںذات وصفات میں ایک امر غیر ثابت کااعتقاد لازم آتا ہو ۔کیوںکہ کسی نص سے خود حضرت حق جل وعلیٰ شانہ کا پانی پر جلوہ فرمانامذکورنہیں۔ سو ذات پاک پر اپنی رائے سے ایک حکم لگانا یہ الحاد فی الاسماء ہے جس سے توبہ کرنا واجب ہے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ :ص۱۸)

            ہ:کلام کو مجاز پر محمول کرنا:

            آیت’’ وسخر لکم الشمس والقمر دائبین‘‘ الخ ( ابراہیم:ع۵ )۔ترجمہ نذیر:’’اِس طرح ایک اعتبار سے سورج اور چاند کو تمہارے اختیار میںکردیا ۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’ پس اِس صورت میںکلام مجاز ہوا ،حالاںکہ اِس کی کوئی حاجت نہیں۔حقیقی معنی رکھ کر یوں ترجمہ کر سکتے ہیں اور تمہارے کام میں لگایا سورج چاند کو۔الخ۔ جیساکہ شا ہ عبدالقادر صاحب نے کیاہے مجاز ماننا اور پھر اس میں تکلف کرنا محض امر زائد ہے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ :ص۱۹)

            ۵:مغربی رجحان کی حمایت:

            الف:عمل شرعی سے بھی مقصود تمدنی ترقی:

            آیت ’’فمن تعجل فی یومین‘‘ الخ( بقرہ:۲۵ )۔تفسیر نذیر (ف۲):’’اللہ تعالیٰ نے جمار کو اسلام میں بھی توڑنا نہیں چاہا کہ خرید و فروخت کے دن میں۔‘‘الخ۔

             استدراکِ حکیم الامت:- ’’قیام ِمنیٰ کی اصل غرض اِس مصلحت ِدنیوی کو قرار دینا بلا دلیل، بل کہ خلاف دلیل ہے-ورنہ(اگر تجارت اصل غرض ہوتی ،تو۔ف) رمی ٔجمار(-جو ذکر۱ ﷲ کے ضمن میں مطلوب ہے-ف) اِس میں مشروع نہ ہوتا کہ اِس کو غرض مذکور(تجارت۔ف) میں کوئی دخل نہیں-؛بل کہ اصلی مقصود ذکر اللہ ہے قولاً اور عملًا جس میں رمیٔ جمار بھی داخل ہے جیساکہ آیت قرآنی’’ فاذکرو اللہ کذکر کم ‘‘اور حدیث ابن عباس سے جس کو ابو دائود نے روایت کیا ہے معلوم ہوتا ہے۔ اور اجازت ہو جانا تجارت کی اور بات ہے۔ اِس سے اُس کا غایت ِ اصلی ہونا لازم نہیں آتا۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ :ص۴)

            ب:مغربی قواعدِ تمدن کے سامنے معذرت خواہی :

            آیت’’ قل ان کان آباء کم و ابنا ء کم‘‘ الخ(براء ۃ:۳) ۔تفسیر نذیر (ف۱):’’ اس آیت میں شروع شروع کے مسلمانوں کے لیے بڑی سختی ہے۔ ایک حساب سے اُن کو بالکل علائق دنیا کے ترک کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؛لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مسلمانوں کی جماعت بھی قائم نہ ہوتی۔ الخ۔ ‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’ جس حالت میں غلبۂ حب الٰہی کا وجوب جا بجا نصوص شرعیہ و احادیث نبویہ میں صریح الفاظ سے مامور بہ دائمی ہے ،تو ایک عارضی امر کو اُس کا مبنیٰ بنانا کس طرح ہوسکتا ہے؟ کہ’’ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو مسلمانوں کی جماعت قائم نہ ہوتی‘‘۔ اِس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاںجماعت قائم ہو چکی ہو یا جب ان کی( جماعت۔ف) قائم ہوچکی ہوگی، اُس وقت اِس آیت کا حکم منسوخ کیا جائے گا لرفع المعلول برفع العلۃ۔ حالاںکہ یہ حکم اب بھی باقی ہے جیسا کہ احادیث میں موجود ہے۔ اور خود اس آیت میں بھی اگرغور کیا جائے، تو معلوم ہو سکتا ہے ۔کیوںکہ علائق کو قطع کرنے کے لیے نہیں فرمایا بل کہ احبیت پرملامت کی گئی ہے۔ پس مبنی صحیح اس کا وہی اللہ و رسول کی محبت کاغلبہ ہے۔ پس جب کہ غلبۂ حب الٰہی اب بھی فرض ہے،تواِس میں شروع شروع کے مسلمانوں کی کیا تخصیص ہے؟ کیا یہ حکم اب باقی نہیں اور اس میں سختی کی کیابات ہے؟حکم شرع تو ایک بھی ایسا نہیں جس میں بڑی سختی ہو۔ ایسا خیال خود نصوص شرعیہ کے خلاف ہے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ :ص۱۷)

            ج:اہلِ مغرب کے اعتراض کے سامنے معذرت خواہی:

            آیت’’ اشداء علی الکفار‘‘(فتح:ع۴) ۔ترجمۂ نذیر:’’کافروں کے حق میں (تو اُن کی ایذائوں سے بچنے کے لیے )بڑے سخت ہیں۔ ‘‘

            استدراکِ حکیم الامت:-’’ جب حب فی اللہ اور بغض فی اللہ فرض ہے تو مبغوضین عند اللہ سے بغض رکھنا نہ صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ ایذا پہنچاتے ہیں ؛بل کہ اس لیے کہ وہ حق سے بغض رکھتے ہیں پس یہ قید مذکور بین الہلالین کسی طرح صحیح نہیں۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۰)

            د:ـ کفار سے طبعی تنفر سے گریز :

            آیت’’ عادیتم منھم‘‘ (ممتحنہ:ع۲)ترجمۂ نذیر:’’جس کے ساتھ تمہاری (مذہبی)دشمنی ہے۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’ اِس مقدس لفظ(’’مذہبی‘‘۔ف) کی ضرورت ہی کیا ہے ۔اگر منشاء عداوت کابیان کرنا مقصود ہے توظاہرہی ہے اور اگر یہ مقصود ہے کہ کفار سے طبعی تنفر نہ ہوناچاہئے، تو غلط ہے حب فی اللہ و بغض فی اللہ کی حدیثیں اور جا بجا آیات میں غیظ و غلظت کااثبات کہاں تک تاویل پذیر ہوگا۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۲)

            ہ:مسئلہ غلامی کا اِبطال :

            آیت ’’علٰی ما ملکت ایما نھم‘‘( نحل:ع۱۶) ترجمہ نذیر۔’’ اپنے زیر دستوں یعنی نوکروں اورغلاموں۔ الخ۔ ‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:- ’’اِس ترجمہ کا اور پھر یعنی کے سا تھ جو تفسیر کی ہے اُس کا یہ حاصل نکلا کہ ’’ما ملکت ایمانھم‘‘ کے معنی خاص غلام نہیں ،بل کہ مطلق محکوم کوکہتے ہیں خواہ غلام ہو خواہ نوکر ۔تو جو لوگ اس زمانہ میں مسئلہ غلامی کو شریعت سے خارج کرنا چاہتے ہیں اور اہل حق ان الفاظ سے اُن کی مشروعیت پر استدلال کیا کرتے ہیں وہ اس ترجمہ سے(اہلِ حق کے) اُن دلائل کا جواب دے سکیں گے گو وہ جواب مردود ہوگا۔ اور فی نفسہ بھی ما ملکت شرعاً یا لغۃً عام نہیں ہے؛ بل کہ خاص ہے مملوک کے ساتھ ۔بخلاف نوکر کے کہ وہ آزاد ہوتاہے اور مقابل اور قسیم مملوک کا پس اس ترجمہ میںقسیم کا قسم ہونا لازم آتا ہے جو کہ عقلاً بھی محال ہے۔ اس لیے ترجمے میں صر ف غلام لونڈی لکھنا چاہیے۔‘‘ (اصلاح ترجمۂ دہلویہ :ص۲۱)

            و:امرِ منصوص کے باطل ہونے کا ایہام:

            آیت ’’ما کان محمد ابا احد‘‘(احزاب:رکوع ۵) الخ -تفسیر نذیر (ف۱):’’اور اس وقت دستور تھا اور اب تک بھی ہے کہ بچوں کو زبردستی پکڑ کر لے جاتے ہیں اور غلام بنا لیتے ہیں۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:- ’’یہ تو ظاہر ہے کہ وہ اُس وقت کا دستور محض ظلم تھا اِس کے بعد یہ لکھنا کہ’’ اب تک بھی یہی ہے‘‘ -جس کے معنی یہ ہیں کہ برابر یہ دستور باطل اُس وقت سے اب تک چلا آرہا ہے- موہم اِس امر کا ہے کہ استرقاق ہمیشہ با لباطل جاری رہا جس سے ایک امرمنصوص کا اِبطال لازم آتا ہے ۔اور اگر یہ مقصود نہیں، تو یا تواس عبارت کی ضرورت نہ تھی کہ’’ اب تک یہی ہے‘‘ اور یا اِس کے ساتھ ایسی قید ہونا چاہئے تھی جس سے یہ ایہام نہ ہوتا خصوصاً اِس زمانے میں کہ مبطلینِ استرقاق بکثرت موجود ہیں۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۷)

            ز: تفسیر جس سے بدمذہب لوگوں کو تقویت ہو:

آیت’’ یاایھاالنبی لم تحرم ‘‘ا(تحریم:ع۱)لخ -تفسیر نذیر( ف۱):’’ اُن کے خانہ داری کے معاملات کو دین سے کچھ تعلق نہیں ۔‘‘

            استدراکِ حکیم الامت:-’’ جس چیز کو دین سے تعلق نہ ہو اس کو بے دینی سے تعلق ہوگا ۔خدا جانے اس کلام کے کیا معنی ہیں؟بل کہ(اصل بات یہ ہے کہ ) یہ دین ایسا وسیع اور محیط ہے کہ دنیا میں کسی امتی کاکوئی فعل ایسا نہیں جس کو دین سے کچھ تعلق نہ ہو۔ حلت وحرمت کا تعلق تو عام لفظ ہے اور اگر تعلق سے مراد تعلقِ انطباق ہو، تب بھی نبی کے فعل میں تو اِس (تعلقِ دین )کے عدم کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ جب نبی ہی کو جواز وناجواز سے بحث نہ ہو،پھر اور لوگ کیوں مکلف ہوںگے ؟اس(مذکورہ تفسیر) سے تو بد مذہب لوگوں کو خوب تقویت پہونچے گی جوکہتے ہیں کہ معاملات دنیامیں شریعت کو کوئی دخل نہیں وہ ہماری رائے پر ہے جس طرح چاہیں کیا کریں جس کا غلط ہونا محتاج بیان نہیںجا بجا احکام نکاح وطلاق و بیع و شراکی نصوص میںمذکور ہیں۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۳)

            ۶:نسخ اور اِجماع سے بے اِلتفاتی اور ضروریاتِ دین میں دست اندازی:

            آیت’’ وان تصومواخیرلکم‘‘ الخ( بقرہ :ع۲۳)-تفسیر نذیر( ف۱):’’مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک مسلمان کو فرضی روزہ رکھنا چاہئے ؛مگر بیمار اور مسافر کو رخصت ہے کہ رمضان میں روزہ نہ رکھے ،بعد کو قضا رکھ لے ۔اور مقدور والا ہوتو قضا بھی رکھے ،بل کہ روزے کے پیچھے ایک محتاج کا پیٹ بھر دے ۔ تو نور علی نورکہ روزے کے بدلے روزہ ہوا اور فضیلت جو فوت ہو گئی تھی اُس کی تلافی کے لیے محتاج کا پیٹ بھر دیا ۔اگر چہ مقدور والوں کو قضاکے بدلے فدیہ دینے کا اختیار دیا گیا ہے؛ مگر ان کو بھی روزہ رکھنا چاہئے تا کہ لوگ روزہ سے بچنے کے لیے بہانہ نہ ڈھونڈیں۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:- ’’یہ آیت باجماعِ علماء مجتہدینِ امت یا منسوخ ہے یا مؤول۔ یہ کسی کا مذہب ثابت نہیں کہ ظاہر معنی پر محمول کرکے اِس کا حکم باقی رکھا جائے،جیساکہ مترجم صاحب نے فرمایا ہے۔ چوںکہ اجماع حجت قطعیہ ہے ،اس لیے اس کی مخالفت حرام وبدعت ہے ۔اور ہرگز اس حاشیہ پر عمل کرنا جائز نہیں ۔حالتِ سفر یا مرض میں جوروزہ ناغہ ہوگا، حالتِ قیام و صحت میں اُس کی قضارکھنا فرض ہے۔ بجائے روزہ کے محتاج کا پیٹ بھر دینا ہر گز کافی اور درست نہیں ۔اِس مقام پر ضروریاتِ دین اور مذہبی احکام میں دست اندازی کی گئی ہے جس سے تو بہ کرنا فرض ہے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۴)

            ۷:اِنکارِ اِجماع کے پردہ میں احکام شرع میں کمی، زیادتی کا رجحان:

            آیت’’الا ما ظہرمنہا‘‘(سورہ نور:ع ۴)  تفسیر نذیر (ف۱ ):’’لیکن اصلی بات یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے ’’مـاظـہر‘‘ کا معیار جدا گانہ ہے۔ ہر ایک عورت آپ اپنے لیے تجویز کرلے کہ پاس شرم و حیا کے ساتھ دنیا کے کاروبار کے لیے اس کی کون سی چیز بہ مجبوری کھلی رہنی ضروری ہے۔‘‘

            استدراکِ حکیم الامت:-’’چوںکہ اجماع کااحکام میںحجت ہونا ثابت ہے اور یہ تفویض ہر عورت کی رائے پر اجماع کے خلاف ہے، اس لیے یہ غلط ہے جس سے احکام شرعیہ میںکمی بیشی لازم آتی ہے جو جائز نہیں ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۳)

             آیت’’ ان یضعن ثیابھن‘‘ (سورہ نور:ع ۸)ترجمۂ نذیر:’’ اگر اپنے کپڑے دو پٹے وغیرہ اتار کر رکھا کریں ۔‘‘

            استدراکِ حکیم الامت:- ’’چوںکہ سر کا ڈھانکنا بالاجماع عورت پرو اجب ہے اور ہمارے ملک میں سر کا پردہ دوپٹے ہی سے ہوتا ہے اس لیے اس ترجمہ سے سر برہنگی کے جواز کا شبہہ ؛بل کہ یقین ہوتا ہے؛ بلکہ مراد ثیاب سے اوپر کا کپڑا ہے جو- علاوہ سر بند کے- اوڑھنے کی عادت تھی کہ اُس کے اتارنے سے سر نہیں کھلتا ۔چناںچہ عرب میں اب بھی معمول ہے ۔اور اگر کوئی قول شاذ اِس اجماع کے خلاف پایاجائے وہ قادح ِاجماع نہیں ہوسکتا ،کما ہو مقرر فی الاصول۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۲۳)

            ۸:ترجمہ ہی غلط:

            آیت ’’ولو علم اللہ فیہم خیرا لاسمعہم ولواسمعہم لتولواوہم معرضون‘‘(انفال:ع۳)ترجمۂ نذیر: ’’اور اگر اللہ اُن میں کچھ بھی بہتری پاتا تو اُن کوسننے کی قابلیت بھی دیتا تاہم یہ بدی ہوئی بات ہے کہ یہ لوگ منھ پھیر پھیر کر الٹے بھاگتے  ۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:- ’’یہ مقدمہ عقلیہ مسلمہ بھی ہے کہ لازم کالازم، لازم ہوتا ہے اور ترجمہ مذکور کے اعتبار سے تولی کا ترتب ہے اِسماع پر۔ اور اِسماع مرتب ہے علم خیر پر تو مقدمہ مذکورہ کی بنا پر تولی کاترتب علم خیر پر لازم آیا۔ جس کاحاصل یہ ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ اُن میں بہتری پاتا تو بھی’’ یہ لوگ منھ پھیر پھیر کر الٹے بھاگتے ۔‘‘حالاںکہ یہ بالکل خلاف واقع بل کہ محال ہے۔یہ کب ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جس کے لیے خیر ثابت ہو اور پھر اس سے اتنے بڑے شر کا صدور ہو۔ یہ خرابی جملہ ثانی کے غلط ترجمہ ہونے سے لازم آتی ہے۔ صحیح ترجمہ وہ ہے جو دوسرے محققین نے اختیار کیا ہے ’’اور جو اُن کو اب سنا دے تو الٹے بھاگیں ‘‘جس کا حاصل یہ ہوا کہ اگر عدم علم خیر کی حالت میں سنادے تو اعراض ہی کریں چناںچہ عام مفسرین نے مختلف عبارتوں میں اسی مطلب کو لکھا ہے۔ غرض یہ کہ جملہ اولیٰ میں اِسماع اور ہے اور جملہ ثانیہ میں اور ہے۔ پہلا علم خیر کی حالت میںہے اور دوسرا عدم علم خیر کی صورت میں، اِس(توجیہ) میں کوئی اشکال نہیں۔ اور مترجم صاحب کی عبارت ترجمہ کی اس توجیہ کی متحمل اور محتمل نہیں ہو سکتی ہے جیسا کہ ظاہر ہے ۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ۱۵،۱۶)

            ۹:عقلی قاعدے کی خلاف ورزی:

            آیت’’ قال رب اجعل لی آیۃ (الی)الا تکلم الناس ثلٰثۃایام۔(آل عمران:ع۴) ترجمۂ نذیر:

’’( یعنی روزہ رکھنا )۔‘‘ تفسیر نذیر(و فی ف۱):’’چناںچہ زکر یا علیہ السلام نے پے در پے تین روزے رکھے۔‘‘

ٍ          استدراکِ حکیم الامت:-’’حضرت زکریا علیہ السلام کا اِس واقعہ میں روزے رکھنا کہیں نظر سے نہیں گذرا۔ اور اگر عدم کلام مع الناس سے استدلال کیا جائے تو صحیح نہیں کیوںکہ صوم کوعدم کلام لازم تھا ،عدم کلام کو صوم لازم نہیں۔ اور لازم عام سے وجود ملزوم پر استدلال کرنا غلط ہے۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ۷)

            اِس اصو ل کو اِس طرح سمجھیے کہ مثلاً روشنی ایک لازم عام ہے۔آفتاب،ٹیوب لائٹ،آگ ہر ایک سے روشنی ظاہر ہوتی ہے۔اِن سب کے لیے روشنی لازم ہے۔جب روشی تینوں چیزوں کے لیے مثلاً لازم ہے اور تینوں چیزیں اُس کے لیے ملزوم ہیں،تو ایسی صورت میں اگر کسی جگہ روشنی معلوم ہو،اور یہ نہ معلوم ہو کہ یہ روشنی کس چیز سے پیدا ہوئی ہے،تو یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ آگ ہی سے پیدا ہوئی ہے؛بلکہ ممکن ہے کہ آفتاب کے نکلنے سے ظاہرہوئی ہو۔کیوں کہ آگ کے لیے تو روشنی لازم ہے؛لیکن روشنی کے لیے آگ لازم نہیں۔اب یہ قاعدہ سمجھ میں آگیا کہ لازم عام سے کسی ملزوم خاص کے وجود پر استدلال کرنا درست نہیں۔

            ۱۰:حکمت اور علت کی تلاش میں غلطی:

            آیت ’’اذ تصعدون‘‘ الخ( آل عمران:ع۱۶) -ترجمۂ نذیر (ف۱):’’ابتدائی حالت میںمسلمانوں کا بے دل ہوناآئندہ کامیابیوں میںخلل اندازرہتا۔‘‘

            استدراکِ حکیم الامت:-’’یہ کہنااُس وقت صحیح ہوتا کہ واقع میںمعاف کرنا مرضی کے خلاف تھا؛ مگر اِس ضرورت سے تسلی کرنا مناسب ہوا۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ۷،۸)

            ۱۱:قیاس کے سہارے منصوص میں تصرف :

             آیت ’’یٰایھاالذین اٰمنوالاتحلواشعائراللہ‘‘ (مائدہ:ع ا)حاشیہ ف ۔قول نذیر:-’’حاجیوں کو جو شکار کی ممانعت کی گئی ہے سو مصلحت یہی معلوم ہوتی ہے کہ ملک میں سر سبزی اور آبادی ہو اور ملک عرب کواِس کی سخت ضرورت تھی اور ہے۔‘‘

            استدراکِ حکیم الامت:- ’’اِس مصلحت کا قیاسی ہونا خود مترجم صاحب کے اعتراف سے ثابت ہے چناںچہ لفظ (معلوم ہوتی ہے)اس پر دلالت کرتا ہے ۔اور چوںکہ یہ قیاس نصوص شرعیہ کے خلاف ہے اس لیے غیر صحیح ہے جیسا کہ اصل میں(شریعت کے اصول اربعہ میں سے چوتھی اصل قیاس میں) مقرر ہو چکا ہے(کہ قیاس سے غرض غیر منصوص میں علت کا جاری کرنا ہے ،نہ کہ تصرف کرنا منصوص میں۔ف)۔ اور عقل میں بھی یہ بات آتی ہے کہ جو قیاس اُس نص کے خلاف ہو ،وہ غیر منقول ہوتا ہے۔ کیوںکہ نص حکم شارع کا ہے اور قیاس ایک امتی کی رائے۔ سو ایک امتی کی راے حکم شارع کے مقابلے کب معتبر ہو سکتی ہے۔ وجہ اس کے مخالف ہونے کی یہ ہے کہ یہ نصوص سے ثابت ہے کہ جس طرح حد حرم میں شکار کرنا حرام ہے- گو شکار کرنے والا احرام نہ باندھے ہو-اُسی طرح حالتِ احرام میں بھی شکار کرنا حرام ہے۔- گو حدسے باہر ہی ہو- سو یہ مصلحت اگر قیاسی علت،اُس کی ہوتی،تو چاہیے تھا کہ حالتِ اِحرام میں شکار کرنا- جب کہ حدِ حرم سے باہر ہواور وہ جانور بھی اس حد کا نہ ہو- جائز ہو تا۔ کیوںکہ اس سے حرم کی سر سبزی اور آبادی میں کوئی خلل نہیں پڑتا ۔اسی طرح چاہئے تھا کہ جو شکار حد حرم کے اندر کا رہنے والا ہو اور وہ اتفاق سے باہر آجائے تو اُس کا شکار کرنا غیر مُحرم کو بھی جائز ہوتا۔کیوںکہ اس سے آبادیٔ حرم میں خلل واقع ہوتا ہے۔ حالاںکہ پہلی صورت میں شکار حرام اور دوسری صورت میں حلال ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ مصلحت خلاف نص(ہونے کی وجہ سے ) کے باطل ہے۔ علاوہ اس کے ملک عرب میں سر سبزی اور آبادی کی ضرورت ہے تو(دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔یا تو)آدمیوں کے لیے (ہے)یا جانوروں کے لیے۔ شق ثانی کا تو احتمال(نہیں) ورنہ دلیل قائم کرنا چاہیے۔ اور شق اول پرجب آدمیوں کوان سے منتفع ہونے کی اجازت نہ ہوئی تو پھر آدمیوں کے لیے ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں ۔اور اگر(تیسری صورت تجویز کر کے) یہ احتمال نکالا جائے کہ خودسر سبزی (ہی)مقصود ہو۔ نہ آدمیوں کے لیے(مقصود) اورنہ جانوروںکے واسطے۔ تو مترجم صاحب کا قول (کہ ملک عرب کو اس کی سخت ضرورت تھی اور ہے)اس سے آبی ہے۔ کیوںکہ محض سر سبزی جوز ینت کے لیے ہوضروری (ہو)۔پھر(بھی) سخت ضروری نہیں ۔اس لیے عقلاً بھی اس ِمصلحت کا غلط ہونا ثابت ہوا ۔غرض عقلاً و نقلاً و ہ قیاس نامقبول ہے۔ اول تو احکام منصوصہ میں علت ڈھونڈنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟اور اگر تتمیم فائدہ کی غرض سے معلوم ہی کرناہے، تواُس کی علت تعظیم ِحالت ِاحرام یا(تعظیمِ) مکانِ احرام کہنا چاہیے جس کی تائید ارشادات قرآن وحدیث سے بھی ہوتی ہے،ہر حکم میں ملکی مصلحت نکالنا کیا ضروری ہے؟ کیا احکام دینیہ صرف دنیوی منافع کے حاصل کرنے کو مشروع ہوئے ہیں؟ اور کیا دین سے ثمرات آخرت کامقصودہوناخلاف عقل ہے ؟دوسری کمی اِس میں یہ ہے کہ ممانعت ِشکار میں صرف حاجیوں کی تخصیص کی گئی ہے، حالاں کہ اہل عمرہ کے لیے بھی یہی حکم ہے اور حدحرم میںاور لوگوں کے لیے بھی۔‘‘

(اصلاح ترجمۂ دہلویہ۹،۱۰)