بیان القرآن کا مطالعہ

دوسری قسط:۱۸ جون ۲۰۱۹ء=۱۴شوال۱۴۴۰ھ           (حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تفسیر)

                                                                                     مولانا حکیم فخرالاسلام

بعد والوں کے لیے حضرت ؒکی نصیحت:

            ’’حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک عورت مجذومہ(جذام کے مرض میں مبتلا )طواف کر رہی تھی۔حضرت عمر نے اُس سے فرمایا:اُقعدِیْ فی بَیْتِک(اپنے گھر میں بیٹھی رہ)کچھ  مدت کے بعد دیکھا گیا کہ وہ مطاف میں پھر طواف کر رہی ہے۔اُس سے کسی نے کہا:اَبْشِری فاِنّ الرَّجُلَ (عمر)قَدْ مات۔مژدہ ہو کہ وہ شخص (یعنی عمر)وفات پا گئے۔اُس نے کیا عمدہ جواب دیا کہ وہ ایسے نہ تھے کہ :یُطاع ُحَیّاً وَیُعْصیٰ میتا(زندگی میں تو اُن کی اِطاعت کی جائے اور موت کے بعد نا فرمانی)۔میں تو یہ سمجھ کر آئی تھی کہ وہ موجود ہوں گے،پھر ڈانٹ دیں گے۔طواف کو ترک کرکے یہ کہہ کر چلی گئی کہ میں اُن کے حکم کے خلاف نہیں کرتی۔‘‘اِسی ذیل میں فرمایا کہ’’ہمارے اکابر بھی ایسے ہی تھے کہ بعد وفات بھی اُن کی برکات جاری ہیں۔اس لیے اُن کی اِطاعت کرنی چاہیے۔‘‘اور اُن کے اُس ذوق وفہم ا ور معانی کی حفاظت کرنی چاہیے، جو اُنہوں نے اپنے علوم اور تصنیفات میں چھوڑے ہیں۔

 علوم،اصول اور فکر و فہم سے مناسبت رکھنے والے بزرگ سے مشورہ کی اہمیت:

            ’’ایک واقعہ حاکم شہید ؒ کا ہے…اُنہوں نے امام محمد ؒ کی کتابوں میںکچھ مکررات اور تطویلات دیکھیں،اُنہوں نے مکررات کو حذف اور مطولات کی تلخیص کر دی۔پھر امام محمد کو خواب میں دیکھا،فرمایا تم نے میری کتابوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟اُنہوں نے کہا کہ علما کی کم ہمتی دیکھ کرمیں نے ایسا کیا۔امام محمدؒ کو غصہ آیا، فرمایا اﷲ تعالی تجھ کو پارہ پارہ کرے جیسا تو نے میری کتابوںکو پارہ پارہ کیا۔…(آگے حکایت دردناک ہے۔)۔‘‘(۳۰)

بیان القرآن کی تشریح و تفہیم کا طریقہ:

            یہ حکیم الامت حضرت مولانا تھانویؒ کی بیان کردہ حکایت ہے؛ مگرفی الوقت جب کہ حضرتؒ ہی کی تصنیفات پیشِ نظر ہیں،خود اُن کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جانا چاہیے؟ تو اِس سوال کے جوا ب میں راقم السطور کا خیال تویہ ہے کہ- حکیم ا لامت حضرت مولانا تھانویؒ نے اپنے سامنے اور اپنی نگرانی میں جو منہج اختیار کیا ،جو معیارات مقرر کیے اوراپنی تصنیفات کی تلخیص و تسہیل کے باب میں جن اہلِ علم پر اعتماد کیا -ایک طرف تووہ سب کام سامنے رکھ کر لائحۂ عمل طے کیا جائے ،دوسری طرف دور حاضر میں حضرت تھا نویؒ کی ذات کی معرفت اورعلوم سے مناسبت رکھنے والے افراد کی نگرانی اور اعتماد میں کام کیا جا ئے ۔اگر چہ یہ صحیح ہے کہ ایسے افراد تلاشِ بسیار سے ہی مل سکیں گے؛لیکن ،بہر حال مل جائیں گے۔اوریہ بھی مناسب ہے کہ کام کرنے والے افراد کی علمی استعداد پختہ ہونے کے ساتھ وہ فکر تھانوی کے حامل ہوں ،علوم تھانوی پر گہری نظر رکھتے ہوں،ذوقِ تھانوی،اصولِ تھانوی اور استدلال تھانوی سے اُنہیںخاص مناسبت حاصل ہو۔پھر اُن کو چاہیے کہ وہ متذکرہ بالااوصاف کے حامل آحادِ امت کے مشورے سے کوئی طریقۂ کار مقرر کریں۔کیوں کہ محض ذی استعدادوسیع النظرعالم،مصنف،محقق،عبقری کی تحقیقات و تفہیمات یا وسعتِ خیال اور اِختلاطِ افکار سے متہم مرتبین کی کاوشیں (کہ اِس وقت بہ کثرت محقق و مرتب اِسی مذاق پر چل پڑے ہیں)، اِس باب  میں یہ دونوں اعتبار کا درجہ حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں۔اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تفسیر بیان ا لقرآن سے کما حقہ لطف حاصل کرنے اور اُس کے نفع کو عام وتام کر نے کے لیے پانچ امور سے واقفیت از بس ضروری ہے:

            ۱:قواعدِ میزانیہ منطقیہ اور علوم عقلیہ میں درک۔۲:فلسفہ،علم کلام کے متعلق اہلِ حق کے اصولِ صحیحہ کا علم جنہیں حضرت تھانویؒ نے اپنی تفسیر میں جاری کیا ہے ۔اور اُن کی اِطلاقی حیثیتوں کی بصیرت۔۳:اُن مسلمان مفسرین و محققین کی کاوشوں پر نظر جنہوں نے دفاعِ اسلام کے جذبے سے تفسیری خدمات انجام دیں؛لیکن در حقیقت وہ فکری التباسات کی اساس قائم کر گئے اور زیغ و ضلال کی نہ بند ہونے والی راہیںکھول گئے،جس کا باعث اُن کاقوانینِ فطرت کو یورپی عینک سے دیکھنے کی عادت، مغربی افکار اور سائنسی اکتشافات سے رعب و تاثر تھا۔ ۴:سائنسی تحقیقات ،جدید نظریات -جن بنیادوں ، اصولوں مفروضوں اور نظریۂ علم(Epistemology) پر مبنی ہیں-اُن اصولوں اور ذرائع علم پر نظر۔۵:مفسر تھانوی ؒکی دیگرتصنیفات پر نظر۔خصوصاً ’’امدادالفتاوی‘‘چھٹی جلد،ملفوظات و مواعظ میں مندرج متعلقہ حقائق، ’’بوادرالنوادر‘‘،’’الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ‘‘،’’اصلاح الخیال ‘‘[کے صفحات :۳۶تا۴۴(۳۱)]اوراشرف التفاسیر(چار جلدیں) ۔اِن کے علاوہ تفسیری بے اعتدالیوں پر لکھے گئے رسالے:’’التقصیر فی ا لفسیر‘‘،’’اصلاحِ ترجمۂ دہلویہ‘‘،’’اصلاحِ ترجمۂ مرزا حیرت‘‘اوروہ مضامین جوترجمہ و تفسیر کے اصولوں سے اِنحراف یا تفسیری خلجانات کے ازالے کے لیے لکھے گئے ہیں اور اب ’’امداد الفتاوی‘‘ کی دیگر جلدوں مثلاً تیسری چوتھی جلدوں اور ’’البدائع‘‘وغیرہ کا حصہ ہیں۔اِن رسائل و مضامین کا مطالعہ مفسر تھانوی کے ذوقِ فکری اور مراداتِ تفسیری کو سمجھنے کے لیے ضروری سامعلوم ہوتا ہے۔وجہ اِس کی یہ ہے کہ پہلے توبیان القرآن کی خاص اہمیت اہلِ علم کے پیشِ نظر یہ رہی کہ ’’ وہ عظیم الشان اِشکالات جن کا جواب بعض اوقات کئی کئی ضخیم تفسیروں کی مراجعت کے بعد بھی نہیں ملتا حضرت نے قوسین میںچند تشریحی الفاظ بڑھا کر حل فرمادیے ہیں۔‘‘(مفتی محمد تقی عثمانی)لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ ’’آسانی ‘‘کا نعرہ لگانے والوں نے جب اِس شعر کے مضمون کو اپنا فکری شعار قرار دے لیا کہ :

    چمن میں اِختلافِ رنگ و بو سے  بات  بنتی ہے          ہم ہی ہم ہیں،تو کیا ہم ہیں ،تم ہی تم ہو،تو کیا تم ہو

            توفکری التباسات اُن میں سرایت کر نے لگے اور جن تشکیکات سے اُنہیں گریز تھا اور اُن کے ازالے کے لیے وہ سینہ سپر تھے ،اب اُنہیں اختیارو قبول  یا اُن کے ساتھ مصالحت کرنے کی راہ پر چل پڑے۔ اِس ذہنیت کے ساتھ اُنہوں نے ’’آسان تفہیم‘‘’’سریع الفہم تعبیر‘‘کے پروپاگنڈوں اور پُر فریب نعروںکی آڑ لے کرحضرت تھانویؒکے اِس پہلو (ازالۂ تشکیکات)سے پہلو تہی برتنی شروع کر دی۔اور اُن کو اِس طرف توجہ نہیں رہ گئی کہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے اپنی تصانیف میںاِس ضروری علم و تحقیق کے حوالے سے کیا کیا حقائق بیان کیے ہیں۔یہ وجہ ہے جس کی رو سے سے مفسرِ تھانویؒ کی متذکرہ بالا تصانیف پر نظر ضروری ہے۔

                                    باب ۱:ترجمہ و تفسیرلکھنے کا محرک

            حکیم الامت حضرت مولانا تھانویؒ (۱۲۸۰-۱۳۶۲ھ=۱۸۶۳-۱۹۴۳ء)نے تفسیر بیان القرآن کی تمہید میںتفسیر لکھنے کامحرک اور خصوصیات و اِلتزامات کا ذکر فرمایا ہے۔اِن امور کا تذکرہ ہم دو ابواب کے تحت کریں گے۔پہلے باب میں محرک پر گفتگو ہو گی۔دوسرے باب میں خصوصیات و اِلتزامات کا بیان ہو گا۔حضرتؒ نے جب تفسیر لکھنے کا اِرادہ کیا،توسب سے پہلے اُس کی نوعیت ایک فقرے میں یہ بیان فرمائی کہ وقت کا اِقتضا ہے کہ ایک ایسی تفسیر لکھی جائے جو’’ ضروریات کو حاوی ہو اور زوائد سے خالی ہو۔‘‘ اوروضاحت اِس طرح فرمائی: ’’بعض لوگوں نے محض تجارت کی غرض سے نہایت بے احتیاطی سے قرآن کے ترجمے شائع کرنے شروع کیے جن میں بہ کثرت مضامین خلافِ قواعدِ شرعیہ بھر دیے،جن سے عام مسلمانوں کو بہت مضرت پہنچی۔‘‘

             اِس مضرت سے حفاظت کے لیے پہلے تو حضرتؒ نے متعدد رسالے لکھے ؛لیکن ابنائے عصر کی تفسیروں سے پہنچنے والے ہمہ گیر اور متعدی مفاسد سے بچانے کی فکراُن رسالوں سے بلند کسی کاوش کی متقاضی تھی ،اِس کا ذکر حضرت حکیم الامت کے الفاظ میں:’’ ہر چند کہ چھوٹے چھوٹے رسالوں سے اُن کے مفاسد پر اطلاع دے کر اُن مضرتوں کی روک تھا م کرنے کی (عوام کو)اطلاع کی گئی۔‘‘مگر’’چوں کہ کثرت سے ترجمہ بینی کا مذاق پھیل گیا ہے،وہ رسالے اِس غرض کی تکمیل کے لیے کافی ثابت نہ ہوئے،تا وقتے کہ ابنائے زمانہ کو کوئی ترجمہ بھی نہ بتلایا جا وے جس میں (لوگ)مشغول ہو کر اِن تر اجم مبتدعہ مخترعہ سے(جوقواعدِ شرعیہ کے خلاف اپنے گڑھے ہوئے اصولوں پر مبنی تھے) بے اِلتفات ہو جاویں۔‘‘(خطبہ تفسیربیان القرآن:ب)

تراجم و تفاسیر میں مضامین خلافِ قواعدِ شرعیہ :

             تراجم و تفاسیر کے مضامین جو قواعدِ شرعیہ کے خلاف تھے اور تفسیرکی راہ سے گمراہی کا سبب بن رہے تھے،اُنہیں حضرت نے جن رسالوں میں ظاہر فرمایا تھا، مناسب معلوم ہو تا ہے کہ اُن رسالوں کے حوالے سے ایسے امور کی نشاندہی کر دی جائے ۔یہ بات اِس لیے ضروری ہے کہ  ا ِن امورسے آگاہ ہو جانے کے بعد باطل افکار پر مبنی ترجمہ و تفسیر کی فہم و تفہیم کے کلیدی اصول ہاتھ آجا ئیں گے۔حضرتؒ کی تصنیفات کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ اُمور خلافِ قواعدِ شرعیہ کی نشاندہی کے لیے توبعض دیگررسالے،کتابچے ، مکتوبات ،مجالس و مواعظ کی تحقیقات و تقریرات بھی ہیں؛لیکن اصولی حیثیت سے موضوع بنا کر لکھے گئے رسالے چار ہیں۔۱:اصلاحِ ترجمۂ دہلویہ۔۲:اصلاحِ ترجمۂ مرزا حیرت۔۳:التقصیر فی التفسیر۔۴:الانتباہات المفیدۃ عن الاشتباہات الجدیدۃ  میںتفسیر کے باب میں روا رکھے جانے والے اِلتباسات کا اِزالہ اورسائنس کی قرآن کے ساتھ تطبیقات کی کاوش پر تنقیدات۔اِن میں سے ابتدائی دو رسالے بیان القرآن کی تصنیف سے پہلے لکھے گئے؛ جب کہ اخیر کے دو رسالے بیان القرآن کی تصنیف کے بعد وجود میں آئے۔اول الذکردو رسالوں میں قرآنی آیات کے ایسے ترجموں اور تفسیروں کا جائزہ لیا گیا ہے جن کی شہرت بامحاورہ اور آسان ترجمے و ترجمانی کی حیثیت سے تھی۔حکیم الامت حضرت مولانا تھانویؒ نے اِن دونوں رسالوں میں یہ دکھایا ہے کہ ’’آسان‘‘،’’بامحاورہ‘‘اور’’ ترجمانی ‘‘کی پُر کشش سوغات کے پر دے میں کیا کیا زیغ وضلال پوشیدہ ہیں۔ تیسرے رسالے میں تفسیر کی اُس روش کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں موجودہ تمدن و سیاست کو قرآن کریم کی آیات کے ساتھ منطبق کر کے اور اُن کا مدلول بنا کر پیش کیا گیا تھا۔اِس رسالے (التقصیر فی التفسیر)کی وجہِ تالیف یہ ہے کہ بہ کثرت اہلِ علم،علما اور دارالعلوم دیوبند و مظاہر علوم سہارن پورکے نو فارغین بعض فضلاکی یہی روش پسندِ خاطر ہو چلی تھی، جس کی اصلاح کے لیے یہ رسالہ تصنیف کیا گیا۔چوتھے رسالے کے مخاطب وہ عصری علوم وفنون سے بہرہ ورافرادِ امت تھے جوسائنسی تحقیقات اور جدیدیت پر مبنی قواعد واصول سے متاثر ہو نے کی وجہ سے-قرآنی آیات کی تشریح-اُن پر مبنی ٹھہرانے لگے تھے اورآیات کے معانی ومطالب اُنہی جدید اصولوں کے مطابق کرنے کے در پے تھے۔

            یہ وہ رسائلِ اربعہ ہیںجن میںایسے تراجم،تفاسیر و افکارزیرِ بحث لائے گئے ہیں جنہیں حکیم الامتؒ نے’’ خلافِ قواعدِ شرعیہ‘‘ کہا ہے۔اِس وقت ہمارے پیش نظر اصلاً توحضرتؒ کے یہی چاروں رسالے ہیں؛لیکن ضمناً حضرت ؒ کی وہ تحریریں بھی ہیں جوزیرِ بحث موضوع سے تعلق رکھتی ہوں ۔اِن رسالوں اور تحریروں کے تعارف میںچار باتیں پیشِ نظر رکھی جائیں گی:۱:قرآن کی تفسیر میں قرآنی مدلول سے اِنحراف کا جائزہ۲:۱نیسویں اوربیسویںصدی عیسوی میںمذکورہ اِنحراف کے تعدیے کی نشاندہی۔۳: دورِ حاضر(۲۰ویں،۲۱ویں صدی) کی تفسیروں میں اُن گمراہ کن افکار کی نشاندہی جن کی طرف حضرتؒ نے توجہ دلائی ہے۔۴:اِس امر کا جائزہ کہ دورِ حاضر کا تمدن جن افکار پر گامزن ہے اوراُس کی پشت پرکوئی مضبوط علمی اور اصولی ڈھال ہے،تو کہیںمغرب کے ملحدانہ افکار میں اُن کی جڑیں تو قائم نہیں؟عبارتیں معکوس کوما’’‘‘میںحکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ہیں۔ تشریحی وضاحت اور قوسینی توضیحات راقم الحروف کی جانب سے۔ابتدا  ڈپٹی نذیر احمد کے اُس ترجمۂ قرآن سے کریں گے جس پر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تنقیدفرمائی ہے اور اُس کا نام ’’اصلاح ترجمۂ دہلویہ‘‘ ہے۔رسالے کی تمہیدی گفتگو میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:

            ’’اِن دنوں قرآن مجید کا ایک اردوترجمہ ڈپٹی نذیر احمد صاحب کا لکھا ہوا دہلی سے مختلف تقطیعات پر شائع ہوا۔ جن کے با محاورہ ہونے کی عام شہرت سن کر منگا کر دیکھا ۔با محاورہ بے محاورہ ہونے کا فیصلہ کرنا تو اہلِ زبان کا کام ہے اور نہ اس سے کوئی ضروری غرض زیادہ متعلق ہے جس میں گفتگو کی جائے؛ مگر دوچار متفرق مقام پر نظر ڈالنے سے اتنا معلوم ہوا کہ اس میں خود مطالب قرآنیہ بھی کہیں متن سے اورکہیں حاشیہ سے بدل گئے ہیں۔ چوںکہ ایسی حالت میں بجائے منفعت کے عام مسلمانوں کو اِس سے مضرت پہنچنے کا قوی اندیشہ تھا ،اِس لیے اِس کاا ِنسداد ضروری ہوا ۔تا ہم احتیاطاً بعض مقام کے متعلق خود مترجم صاحب سے بذریعہ خط دریافت کیا گیا۔ جب کچھ جواب نہ ملا اور نہ بظاہر امید تھی کہ وہ اپنی تحقیقات سے رجوع فرماتے ۔اسی لیے -باوجود رائے دینے بعض حضرات کے -اس(مراسلت) کازیادہ اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔(بس ایک مرتبہ بذریعہ خط دریافت کر لینے اور جواب نہ ملنے پراُن کے حالات پر نظر کرتے ہوئے کہ وہ اپنے خیالات پر ایسا جزم کیے ہوئے ہیں کہ اُنہیں غلط نہ کہیں گے ۔ف) بہ مجبوریِ عام مسلمانوں کے، حفاظت ِدین کی ضرورت کے- ترجمۂ مذکورہ بالا بالاستیعاب اول سے آخر تک دیکھنا پڑا ۔جن لغزشوں کا گذر عقائد واحکام تک نہیں تھا (یعنی عقائد واحکام جن لغزشوں سے متاثر نہیں ہوئے تھے)اُن سے زیادہ تعرض نہیں کیا گیا؛ مگر جن کا اثر عقائد و احکام تک پہنچتا ہوا دیکھا اور کوئی توجیہ ِقریب بھی نہ بن سکی ،اُن کوضبط کیا گیا جس کا مجموعہ آپ کے ہاتھوں میںہے ۔چوںکہ مقصود اصلی اِس تحریرسے صرف عام مسلمانوں کوغلطی سے بچانا ہے ،اس لیے اِس میں بحث و جدال کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا ۔سیدھی سادی مختصر عبارت میں اصلی مطلب کی تقریر کر دی ۔‘‘

            خیرخواہی: اپنی اِس اصلاحی کوشش کے بعدحضرت حکیم الامتؒ نے یہ نصیحت فرمائی کہ ’’جن صاحبوںکے پاس ترجمۂ مذکورہ موجود ہو، اُن کو ضروری ہے کہ ایک نسخہ اس تحریر(اصلاحِ ترجمۂ دہلویہ) کا اپنے پاس رکھیں؛ بل کہ مناسب ہے کہ اس ترجمہ کے ساتھ ہی اس (اصلاحی تحریر)کو جِلد کرالیں ؛بل کہ ترجمہ کے اُن مقامات پر جانچنے کے طور پر چڑھا لیں۔…‘‘(اصلاحِ ترجمۂ دہلویہ)

            اورراقم السطور کی رائے میں اب زمانے کا یہ بھی اِقتضا ہے کہ ’’آسان ترجمہ‘‘،’’ترجمانی ‘‘، ’’با محاورہ ترجمہ‘‘یا ’آسان تفسیر‘کا نام لے کر ،نیز مغربی افکار سے اثر پذیری اور ’’سائنسی قوانینِ فطرت ‘‘سے گرویدگی کے حوالے سے جوتراجم عصر ِتھانوی میں یا ما بعد ازمنہ میںآ تے چلے گئے ہیں،مثلاًعلامہ ابوالکلام آزاد کا’ ترجمان القرآن‘،علامہ حمیدالدین فراہی کی ’تنظیم القرآن‘علامہ ابوالاعلی مودودی کی’ تفہیم القرآن‘،علامہ عبدالماجد دریا بادی کی’ تفسیر ماجدی‘،جناب امین احسن اصلاحی کی ’تدبرالقرآن‘،جناب وحیدالدین احمد خاںکی’ تذکیرا لقرآن‘ ،جناب سلمان حسینی ندوی کی ’آخری وحی‘جناب خالد سیف اﷲ رحمانی کی ’آسان تفسیر‘وغیرہ۔اِن سب کے ساتھ بھی اِسی ہدایت پر عمل کریں کہ جن صاحبوںکے پاس اِن تراجم میں سے کوئی ترجمہ و تفسیر موجود ہو، اُن کا مطالعہ کرتے وقت اس تحریر(اِصلاحِ ترجمۂ دہلویہ) اور بقیہ تینوںرسالے اپنے پاس مطالعہ کے لیے رکھیں اور بہ وقتِ مطالعہ ہر موقع پر بیان القرآن سے رجوع بھی کرتے جائیں۔

’’ ترجمۂ دہلویہ ‘‘پر  حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تنقیدات

            (ڈپٹی نذیر احمدکے فکر و عقیدے پر مبنی بعض غلطیاں جن کی بنیاد ،گمراہ کن اور اثر، متعدی ہے۔ذیل میں حضرت مولانا تھانویؒ کی نقل کے مطابق پہلے قرآن کریم کی آیت لکھی گئی ہے،پھر ڈپٹی نذیر احمد صاحب کا ترجمہ یا تفسیر یادونوں ذکر کرنے کے بعد حکیم الامتؒکا تبصرہ تحریر کیا گیا ہے۔قوسینی وضاحت،تشریحات اور عنوانات راقم الحروف کی جانب سے ہیں ۔)

            آیۃ’’ قال یا آدم انبئھم‘‘ الخ(بقرہ :ع۳)-تفسیر نذیر( ف۲):’’اور ارواح مجردہ ہیں۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت :-’’فرشتے نہ صرف ارواح ہیں اور نہ مجردہیں، بل کہ اجسام لطیفہ ہیں جس میں روح ملکی بھی ہے اور وہ مادی ہیں، اگر چہ مادہ لطیف ہے تمام قرآن و حدیث ان کی جسمانیت اور مادیت کو بتا رہا ہے۔‘‘( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۳)

قانونِ فطرت کا حصار :

             الف:آیت’’ فلم تقتلوہم و لٰکن اللہ قتلہم و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ۔ الخ (سورہ ٔانفال:ع۲)۔ترجمۂ نذیر:فی الترجمہ۔:’’ اور اے پیغمبر جب تم نے تیر چلائے۔ الخ‘‘۔تفسیر نذیر ( ف ۱):’’ رمی عربی کا ایک لفظِ مشترک ہے تیر چلا نے کو بھی کہتے ہیں اور کنکر پھینکنے کو بھی کہتے ہیں ۔چوںکہ پیغمبر صاحب سے تیر چلانا اور کافروں کی طرف مٹھی خاک کا پھینکنا دونوں باتیں ثابت ہیں ،ہم نے تیر کا چلانا ترجمہ کیا ہے کہ معمولی کو چھوڑ کر غیر معمولی پر کیوں دوڑیں۔ الخ۔‘‘          

             استدراکِ حکیم الامت:’’ جب رمی کو لفظ مشتر ک مان لیا اور یہ مقرر ہوچکا ہے کہ لفظ مشتر ک کے چند معانی میں سے کسی خاص کو ترجیح دینے کے لیے کوئی مستقل قرینہ و دلیل ہونا چا ہئے۔ سو مترجم صاحب نے ایک معنی کا معمولی ہونا موجب ترجیح سمجھا سو ابھی اس کا موجب ترجیح ہونا محل کلام میں ہے۔ اگر خلاف معمول واقعہ کو محال کہا جائے یا اُس کے وقوع کی تکذیب کی جائے؛ جیساکہ اِس وقت فطرت پر سب لوگ دعویٰ کرتے ہیں -گو غلط دعویٰ ہے مگر -اس حالت میں تو معمولی ہونا واقعے کاموجب ترجیح ہوسکتا ہے ۔لیکن جب کہ اس غیر معمولی کو بھی ممکن، بل کہ واقع مان لیا جائے، جیسا کہ مترجم صاحب نے اپنے حاشیہ میں آگے چل کر مان لیا ہے تو اس صورت میں کلام دونوں کو علی السواء متحمل ہوگا ۔اِس کے علاوہ اور کوئی وجہ اِس معنی کے ترجیح کی ہونی چاہئے ،سو وہ محض مفقود ہے۔ اب دوسرے معنی کنکر پھینکنے کے جو عام مفسرین نے اختیار کیے ہیں اس کی وجہ عقلی اور نقلی سننا چاہئے ۔ وجہ تویہ ہے کہ یہ قصہ بدرمیں واقع ہو ااور تیر چلانا بدر میں کہیں ثابت نہیں اور مترجم صاحب نے جو لکھا ہے کہ تیر چلانا خاک پھینکنا دونوں ثابت ہیں دریافت طلب بات یہ ہے کہ اگر بدرمیں تیر چلانا ثابت ہے تو دلیل اس بات کی پیش فرمانا ضروری ہے۔ اور جو کسی دوسرے غزوے میں ثابت ہے ،تو اُس غزوے کا یہاں ذکر نہیں۔ قول اصح یہی ہے کہ یہ سب بدر کا مذکور ہے ۔اور یہ امر خود مترجم صاحب کے اعتراف سے بھی ثابت ہے۔ چناںچہ اِسی فائدہ کے شروع میں کید الکافرین تک قصۂ بدر کے مذکو ر ہونے کی تصریح لکھ دی ہے ۔پس جب بدرمیں تیر چلانا ثابت نہیں ،تو یہ تفسیر نہ صرف مرجوح، بل کہ غلط ہوگی۔ اور جن بعض مفسرین نے تیر چلانا کہا ہے انہوں نے ان آیتوں کا نزول یوم خیبرمیںمانا ہے، جس کا صحیح نہ ہونا باعتراف مترجم صاحب ثابت ہے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ نزول آیات کا بدر میں مانا ہو اور تیر چلانا تفسیر کیا ہو ؛بہر حال وقوع میں مرجح بننے کی زیادہ قابلیت ہے بہ نسبت معمولی ہونے کے ۔او ر وجہِ عقلی، ترجیح کی یہ ہے کہ مقام ،اِمتنان کا ہے اور امتنان مقتضاء تعظیم فعل کا ہے ۔جس قدر کوئی خلاف معمول ہوگا اُسی قدر عظیم ہوگا۔ سو تین سو تیرہ آدمیوں کا ایک ہزار آدمیوں پر مسلط بالقتل ہوجانا اور مشت خاک کا سب پر اثر پہنچنا ،یہ البتہ فعل عظیم ہیں۔ او رکمان میں سے ایک تیر کا نکل جانا یہ کون سا عجیب امر ہے ۔( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۱۴)

            ب:آیت’’ ویسبح الرعد ‘‘الخ (رعد:ع۲)۔تفسیر نذیر (ف۱):’’ہر ایک مخلوق اپنے خالق کی ہستی اور قدرت پر دلالت کرتا ہے یہی اُس کی تسبیح اورتقدیس ہے ۔‘‘        

             استدراکِ حکیم الامت:-’’جب تک حقیقت پر حمل کرنا کلام کا جائز ہو مجازی معنی مراد لینا صحیح نہیں۔ اور(یہاں۔ف)معنی حقیقی کامحال ہونا کسی دلیل سے ثابت نہیںہوا ،پھر اِس تاویل کی کیا ضرورت ہے ۔اور قرآن میںجہاں آسمان وزمین کااقرار اطاعت کرنا اور دائود علیہ السلام کے ساتھ طیور کا ذکر کرنا اور پتھروں کاخدائے تعالیٰ کے خوف سے گر پڑنا وغیرہ وغیرہ مضامین صاف صاف مذکور ہیںوہاںتاویل کیسے چلے گی۔ اور جوکوئی چلائے وہ کیادلیل قائم کرے گا۔ اور اس آیت میں ملائکہ کاعفوفرمانا وہ جوحقیقتاً مسبح ہیں ارادہ معنی حقیقی کا زیادہ مؤکد کرنے والا ہو ا۔اور کسی مصنف کی تقلید مدعیٔ تحقیق کے لیے عذر نہیں ہو سکتی ۔‘‘( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۱۹)

            د:آیت’’ والجان خلقناہ من قبل من نار السموم‘‘ الخ (سورہ ٔحجر:ع۳)۔ترجمہ نذیر ۔:’’اور ہم جنات کو آدم سے بھی پہلے لُو کی گرمی سے پیدا کر چکے تھے۔‘‘     

             استدراکِ حکیم الامت:’’ نـــار‘‘ کے حقیقی معنی آگ کے ہیں ۔اُس کو چھوڑکر گرمی کے معنی لینا حسب قاعدۂ اصولیہ جس کا کئی بار ذکر آچکا ہے جائز نہیں، بل کہ اس مقام پر ایک واقعے کا غلط ہونا لازم آیا ہے یعنی جنوں کا حرارت سے کہ مقولہ عرض سے ہی پیدا ہونا لازم آتا ہے حالاں کہ خود قرآن مجید سے بولنا، چلنا، پھرنا وغیرہ کہ خواص جوہر سے ہیں ثابت ہے اور جو لوگ آج کل وجود جوہر ی جنات کے منکرین اور ان سب چیزوں کو قوائی نشانیہ کہتے ہیں ان کو اس ترجمے سے سند ہاتھ لگنے کا احتمال ہے ان وجوہ سے اس ترجمہ کی ترمیم واجب ہے اس طرح کہ جنات کوآگ سے پیدا کر چکے تھے۔‘‘( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۲۰)

            عرض راقم:’’ حرارت مقولہ عرض سے ہے۔‘‘کی تشریح یہ ہے کہ :حرارت،برودت،رطوبت،یبوست ۔یہ سب حالتیں اورکیفیتیں ہیں جو کسی شی پر طاری ہوتی ہیں۔وہ شی، جوہر(مقولۂ جوہر) کہلاتی ہے اور یہ کیفیتیں عرض۔اسی طرح آگ(نار)جوہر ہے۔گرمی،حرارت،لُووغیرہ چیزیں عرض ہیں۔اگرلُو کی گرمی سے جنات کی پیدائش کوتسلیم کر لیا جائے،تو جنات کا ایک عرضی شی ہونا لازم آتا ہے۔حالاں کہ ’’ خود قرآن مجید سے بولنا، چلنا، پھرنا وغیرہ کہ خواص جوہر سے ہیں ‘‘ جنات کے لیے ثابت ہے،اِس لیے اُن کو جوہری مخلوق ماننا ضروری ہے اور یہ کہنا لازم ہے کہ جنات آگ سے پیداہوئے۔نہ کہ’’لُو کی گرمی سے‘‘۔

            ہ:آیت’’ وما یرسل بالآیات الا تخویفا‘‘(سورہ ٔبنی اسرائیل:ع۶) قولہ: ’’یعنی معجزوں سے اس کے سوا کوئی اورغرض متعلق نہیں الی قولہ معجز ہ کوئی ایسی مستحکم دلیل نہیںہو سکتی جس پر زور دیا جائے۔ ‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’ قرآن مجید میں معجزات موسیٰ کے بارے میں کہیں  ’’تسع اٰیات بینٰت لیمکنن برھانان من ربک‘‘ کہیں’’ شئی مبین‘‘ اور اسی طرح مطلق معجزات کی نسبت اسی قسم کے الفاظ فرمائے گئے ہیں ،جس سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ بہت بڑی دلیل اثبات نبوت کی ہے۔ رہ گئے شکوک سو معاند کو ہر قسم کی دلیل میںہو سکتے ہیں اور منصف کومعجزات میںبھی نہیں ہوتے ۔رہا یہ کہ معجزات کا سب کومعائنہ نہیں ہوتا تونہایت ہی ضعیف شبہ ہے جیسا معائنے سے کسی شئے کا یقین ہوتا ہے تو اتر اخبار سے بھی توہوتا ہے پس ان شبہات سے معجزے کو مستحکم دلیل نہ کہناصریح غلطی ہے۔اصل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام مختلف طبائع والے لوگوں کے طرف مبعوث ہوتے ہیں اس لیے اثبات دعویٰ کے لیے مختلف دلائل کی حاجت ہوتی ہے اور ہر دلیل اپنی ذات میں نہایت محکم ہوتی ہے؛ ورنہ نعوذ باللہ لازم آئے گا کہ انبیاء کمزور دلیلیں لے کر تشریف لاتے ہیں پھر ایسے مضامین سے منکرین معجزات کو بھی سہارا ملے گا جو اُن کوخلافِ فطرت ہونے کی وجہ سے مستحیل کہتے ہیں اور ان کو اثبات ثبوت میں کچھ دخل نہیں دیتے، اگر آیت قرآنی سے شبہ پڑے کہ یہ تو اس باب میں نص قطعی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس آیت میں الآیات سے یاتو مطلق معجزات مراد نہیں؛ بل کہ خاص وہ آیتیں مراد ہیں جن کی براہ عنادفرمائش کی جاتی تھی اور الف لام اس میں عہد کا ہے؛ چناںچہ اس کے قبل کی آیت’’ وما منعنا‘‘ الخ ۔اس تخصیص کا قرینہ ہے اور وہاں فرمائشی معجزات کا مراد ہونا خودمترجم صاحب کے اعتراف سے ثابت ہے تو ان کا خاص تخویف کے لیے ہونا اس کومستلزم نہیں کہ جمیع آیات تخویف ہی کے لیے ہوں اگر مطلق ہی مراد ہوں جب بھی قصداً اثبات رسالت کی نفی لازم نہیں آتی یہ بھی تخویف ہی ہے کہ اگر اس پر بھی رسالت کے قائل نہ ہوںگے تو عذاب کے مستحق ہوںگے۔‘‘( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۲۲)

و:قانونِ فطرت کی پچ:

            آیت ’’یٰجبال اَوِّبی‘‘ (سبا:ع۲ )قولہ فی تفسیر نذیر( ف۱):’’پہاڑ گونج اٹھے۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’یہاں تو فضائل دائودی کا ذکر ہورہا ہے پہاڑ کا گونج جانا تو ہر معمولی آدمی کی آواز سے واقع ہوتا ہے اس میں فضل(فضیلتِ داؤدی) کی کیا بات تھی؟ پھر یہ کہ یہ معنی مجازی ہیں ،جس کی کوئی ضرورت شرعی ،لغوی، عقلی نہیں بل کہ ظاہر الفاظ سے اس کا قائل ہونا واجب ہے کہ پہاڑ اور طیور حقیقۃً تسبیح کرتے تھے اور یہ دائود علیہ السلام کا معجزہ تھا۔‘‘( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۲۸)        

ز:ایضاًقانونِ فطرت کی پچ:

            آیت ’’فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھاالانسان‘‘(احزاب:ع۹) قولہ فی الترجمہ۔:’’ انہوں نے بزبان حال اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور آدمی نے گویا ارادۃً بے تامل اس کو اٹھا لیا۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’ حسب قاعدہ مذکور چند بار(کئی مرتبہ اِس قاعدے کا ذکر کیا جا چکا ہے کہ) جب تک معنی حقیقی کامتعذرہونا ثابت نہ ہو، مجاز لینا جائز نہیں جیسا کہ ترجمہ مذکورہ میںلیا گیا ہے ۔آیت کی تقریر اسی پر مبنی ہے اسی قاعدے سے اس تقریر کا صحیح نہ ہونا بھی معلوم ہو جاوے گا۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ:۲۷)

ح:فطرت پرستوں کی حمایتی تفسیر:

            آیت’’ ان یخسف بکم الارض‘‘(ملک:ع۲) ترجمہ نذیر- ’’زمین (دلدل)بنا کر اس میں تم کودھنسادے ۔‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:-’’ اِس قیدمعکوس کی نہ کوئی دلیل اور نہ کوئی ضرورت، حق سبحانہ و تعالیٰ کو قدرت ہے کہ خشک زمین میں دھنسا دے اس قید سے فطرت پرستوں کی غلطی کی تائید ہونے کا احتمال ہے کہ خلاف فطرت کاوقوع محال کہتے ہیں۔‘‘(اصلاح ترجمۂ دہلویہ ص۳۳)

ط:عقیدۂ فطرت پرستی کے ایہام والی تفسیر ۔

             آیت’’ فقدرہ تقدیرا‘‘(فرقان:ع۱) قولہ تفسیر نذیر (ف۲)’’کل موجودات اور تمام واقعات کے لیے ایک اندازہ باندھ رکھا ہے کوئی چیز اس اندازے سے باہر نہیں جا سکتی۔‘‘

              استدراکِ حکیم الامت:- ’’ظاہر النفی امکان سے تائیدعقیدئہ فطرت پرستی کی ہوتی ہے جو خلاف فطرت کے وقوع کو محال کہتے ہیں ۔اور اسی بنا پر معجزات کے منکر ہوئے ہیں چوںکہ اس زمانہ میں اس عقیدے کے بہت لوگ موجود ہیں اس لیے ایسی موہوم عبارت سے احترازواجب ہے۔‘‘(۱صلاحِ ترجمۂ دہلویہ ص۲۴)

            ی:آیت ’’کان علی ربک وعدا مسئولا‘‘(فرقان:ع۲) ترجمہ نذیر۔:’’ اور باستحقاق اس سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘

             استدراکِ حکیم الامت:- اللہ سبحا نہ وتعالیٰ پر کسی کے استحقاق کا قائل ہونامعتزلہ کا مذہب ہے ،جس کو اہل حق نے دلائل عقلی ونقلی سے رد کیا ہے۔ اگراستحقاق کی جگہ لفظ بنابرو عدہ ہوتا تو مضائقہ نہ تھا ۔‘‘

(۱صلاحِ ترجمۂ دہلویہ ص۲۴)

۲:مغرب کے جبلی فلسفے کی طرف میلان:

             آیت’’ واذ اخذ ربک من بنی آدم الخ‘‘ (اعراف:ع۲۲)۔  تفسیر نذیر (ف۱):’’مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان کے دل کو اس طرح کا بنایا ہے کہ از خود اُس کو معلوم ہوتا ہے کہ خدا ہے اور اکیلا ایک ہے۔ الخ۔ ‘‘         استدراکِ حکیم الامت:-’’ اصول میں ثابت و مقرر ہے کہ جب تک حقیقی معنی بن سکیں مجاز پر محمول کرنا جائز نہیں ۔اور یہاں جب حقیقی معنی ممکن ہیں اور اُ س میں کوئی اِشکال عقلی و نقلی وارد نہیں،تو اُس کو چھوڑ کر اس تشبیہ و تمثیل پر جوکہ من قبیل مجاز ہے محمول کرنا کس طرح صحیح ہوگا؟ بالخصوص جب کہ خود صاحب وحی جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مطابق ظاہر الفاظ ومعنی حقیقی کے تفسیر فرمادی ہو۔ جیساکہ حدیثوں میں وارد ہے صاحب وحی کی تفسیر کو غلط کہنا تو ممکن ہی نہیں اصل میں معنی تشبیہی پر محمول کرنا معتزلہ کا قول ہے جیسی ان کی عادت ہے کہ اپنی رائے اور قیاس کی وجہ سے ہمیشہ نصوص میں کہیں تحریف ردوانکار کیا کرتے ہیں اور معنی حقیقی میں انہوں نے کچھ اشکالات وارد کئے ہیں، جن کے جوابات ہمارے علما دے چکے ہیں؛ چناںچہ تفسیر کبیرمیں وہ سب مذکور ہیں اور خود یہ مضمون صحیح ہے کہ خدانے انسان کے دل کو اسی طرح کا بنا یا ہے۔ الخ۔ مگر کلام اس میں ہے کہ اس مضمون سے تفسیر آیت کی کرنا کیسا ہے؟ جیسا مترجم صاحب نے تصریح کردی ہے اس لفظ سے (مطلب یہ ہے )البتہ تفسیر صحیح پر جو اشکال وارد ہوتا ہے کہ وہ عہد تو یاد نہیں اس کی بنا پر محاجہ او ر مواخذہ کس طرح جائز ہوگا، اس کا ایک جواب اس تقریر میں بھی جو فائدے میں لکھی ہے ممکن ہے مگر اس کا تفسیر بنا نا صحیح نہیں اور دوسرا جواب یہ ہے کہ وقتــاً فوقتــاً  اللہ تعالیٰ ہادیوں کے ذریعہ سے بند وں کو یاد دلاتا ہے مشہور ہے ۔‘‘(۱صلاحِ ترجمۂ دہلویہ ص۱۳)

            مذکورۃ الصدراقتباس میںحضرت مولانا تھانویؒ نے یہ بڑی اہم تنبیہ فرمائی کہ ’’خود یہ مضمون صحیح ہے کہ خدانے انسان کے دل کو اسی طرح کا بنا یا ہے۔‘‘اورپھر مفسر کی غلطی یہ بتلائی کہ انہوں نے تفسیری اور عقلی اصول کی خلاف ورزی کی ہے۔ ازالۂ شبہات کے مجدد اعظم نے اِس موقع پر جس التباس سے آگاہ کیا ہے ،اُسے یہاںایک متن کے طور پر ہی دیکھنا چا ہیے ۔پھراس کی تفصیل -جس کسی کو توفیق ہو -معاصر فکر’’جبلی فلسفہ‘‘میں دیکھے۔اور اُس فلسفے کو سمجھے۔ کچھ حقیقت ذیل میں درج کی جاتی ہے:

            ’’جبلی فلسفہ‘‘ کی حقیقت یہ ہے کہ۱۹ ویں صدی عیسوی میں برطانیہ نزاد مفکر فلسفی اور سائنس داںجان لاک (۱۵۹۶-۱۶۵۰ء)نے ایک آئیڈیا پیش کیاجسے سادہ سلیٹ یا کورا کاغذ کاآئیڈیا (Idea of Tubula Rasa)کہتے ہیں- ۱۹ویں صدی آتے آتے فکری دنیا بہ شمول مسلم دنیا میں ،یہ آئیڈیا معروف و مشہورہوچکا تھا۔اور آج بھی اِس قدر مقبول ہے کہ ۱۲ویں کلاس اور اُس کے بعد کے مقابلہ جاتی امتحانات میںاِس کے متعلق سوالات دریافت کیے جاتے ہیں اور اِسے ایک معرکۃ الآرا بحث تصور کیا جا تا ہے۔جان لاکؔ نے بتایا کہ ایک فلسفہ تو وہ ہے جوقدیم سے چلا آرہا ہے جسے کارٹِیسِیَن فلاسفی کہتے ہیں۔اِس فلاسفی کی شرح کرتے ہوئے وہ بتاتا ہے کہ انسان کو کچھ معلومات اورنالج تاریخ سے حاصل ہو تی ہیں ، جیسے خدا کا تصور،موت کے بعد کی زندگی وغیرہ۔لیکن اِن سب چیزوں کی تصدیق ضروری ہے۔اور تصدیق کے لیے وہ دو اصول مقرر کرتا ہے۔۱:یہ بنیاد قائم کرلینا چاہیے کہ ہم کامل وثوق کے ساتھ کیا جا ن سکتے ہیں۔۲:اُن مفروضات و خیالات کا اِدراک ہونا چاہیے کہ جن کی تحقیق کر کے ہم نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔

             پھر اُس کے بعد وہ یہ معیار مقرر کرتا ہے کہ کسی چیز کے حق ہونے کا اِمکان(probability)اِس بات میں منحصر ہے کہ وہ ہمارے تجربات و مشاہدات سے کتنی مطابقت رکھتی ہے۔اُس کے بعد وہ عقیدۂ ’’برداشت‘‘(Tolerance)پیش کرتا ہے کہ جب مذہبی عقائد حتی کہ خدا کا تصور محض اِمکانی چیزیں ہیں اور دوسری تمام معلومات کی طرح تصدیق و تکذیب کا پہلو رکھتی ہیں،تو اگر بعض عقلیں خدا کی تولید کر سکتی ہیں،تودیگر بعض اُسے فنا اور معدوم بھی کر سکتی ہیں۔لہذا مذہب پر اعتقاد نہ رکھنے والوں اور خدا کا اِنکار کرنے والوں کے تئیں مذہبی لوگوں کو برداشت اور تحمل کا رویہ اپنانا چاہیے ۔لہذا ملحدوں کی اِلحادی صفات سے نفرت و ناگواری کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

            اِس کے بعدوہ اپنے قائم کردہ ’’جبلی فلسفہ‘‘کے تحت انسان کی جبلت پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر انسان کو پیدا کرنے والا کوئی خداموجود بھی ہو،تو بس اِتنا ہوا ہے کہ خدا نے انسان کے ذہن میں ایک ملکہ ودیعت کرکے اُسے آزاد چھوڑ دیا۔ اور اب انسان کو چاہیے کہ کسی صحیفے،کسی وحی اور کسی رسول کی بات اُس وقت تک نہ مانے جب تک کہ وہ اپنی عقل و تجربے کی کسوٹی پر اُسے پرکھ نہ لے۔لاک کے مطابق انسانی عقل (یا قلب)حق بات کو اختیار کرنے میں نہ تووحی اور رسول کی ہدایت کی محتاج ہے؛اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ انسانی ذہن سے وحی کے بالمقابل حق کی دریافت نہ ہو سکے۔ یعنی انسان کا ذہن اِس پرقادر ہے کہ وحی کے مقابلے میں کسی دیگر’’حق‘‘کی دریافت کر لے؛چناں چہ وہ کہتا ہے کہ انسانی حواس بغیر کسی بیرونی دخل -وحی اور صحیفے -کے حق کی تعبیر کر سکتے ہیں۔

            فکری دنیا میںیونانیوں سے لے کر قرونِ وسطی تک خدا کو خدا سمجھنے کا تصور قائم رہاجس کا قوی ترین ذریعہ وحی تھی؛لیکن جان لاک کی علمیت نے وحی کو ایک معتبر ذریعۂ علم ماننے سے انکار کر دیا اور یہ بتلایا کہ گزشتہ تاریخ کے ذریعے یا مذہبی نمائندوں کے ذریعے خدا کی جو بھی تعلیمات ہم کو حاصل ہوئی ہیں،اُس کو قبول نہیں کرنا چا ہیے؛بلکہ اُن تعلیمات کو عقل کے پیمانے پر پرکھنا چا ہیے۔کیوں کہ معلومات تو آپ کے پاس پہلے سے موجود ہیں،اب اگر خدا کا کوئی اِطلاق ہے،تو وہ صرف اِتنا کہ خدا بھی مثل دیگر معلومات کے آپ کے قلب میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔یہ وہ علمیت ہے جس کی بنیادجان لاک نے رکھی اور یہ بنیاد آج تک موجود ہے جسے تجدد پسند پیش کرتے ہیں۔اِسی فلسفے کی رو سے یہ باور کرایا گیا ہے کہ خداعقل کا پیدا کردہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو ہم نے خود تشکیل دیا ہے،لہذا ہم جب چاہیں اُسے ختم بھی کر سکتے ہیں۔یعنی خداجب اپنے دماغ میں ہے ،تواُس کو اگرہم دماغ سے جھٹک دیں،توخدا مر جائے گا(نعوذ باﷲ)۔نطشے کے اِس قول -کہ خدا مرگیا اور ہم نے اُسے مارا ہے -کا یہی مطلب ہے۔

            لاک کے ’’جبلی فلسفہ‘‘کایہ ایک اِجمالی بیان ہے ۔لیکن اِس فلسفے میں اور بھی بہت کچھ سمجھنا باقی ہے اور ساتھ ہی یہ دیکھنا باقی ہے کہ مسلمان مفکرین اِس سے کہاں تک متاثر ہوئے۔

ــــــــــــــــــــــــــ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حواشی:(۳۰)ملفوظات حکیم الامت:جلد۹ص۱۳۹۔(۳۱)یہ کتاب فیض اشرف جلال آباد ۱۴۰۵ھ -سے شائع ہوئی اور اب اِس کا نیا ایڈیشن دیگر مطبع کا شائع کردہ سہارن پور کے کتب خانوں میں دستیاب ہے۔اِس کتاب کے ایسے اہم امورجو بیان القرآن کے بعض مضامین کے لیے دخلِ مقدر(پوشیدہ اعتراض)کا درجہ رکھتے ہیں اور بیان القرآن کی قوسینی عبارتیں اورتفسیری فوائد کی حیثیت اُن کے جواب کی ہے،ایسے امور کی تفہیم وتوضیح راقم الحروف نے اپنی کتاب’’الاما م محمد قاسم النانوتوی کی فکر اور بدلتے حالات میں مدارس کی ترجیحات‘‘میں کر دی ہے۔ملاحظہ ہو:ص۱۲۵تا۱۳۰ ۔