بیان القرآن کا مطالعہ

دسویں قسط:         ۹/ربیع الثانی ۱۴۴۳ھ/۱۵/اکتوبر۲۰۲۱ء                    (حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر)

مولانا حکیم فخر الاسلام مظاہری#

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تَنْزِیْہُ عِلْمِ الرَّحْمٰن عَنْ سِمَةِ النُّقْصَان

            سوال:”(تمہید از اشرف علی)ایک مہمان نے ایک کتاب ”بُلْغَةُ الْحَیْرَان“ میرے سامنے پیش کی، اُس میں ایک مضمون نظرسے گذراجس پر میں نے کلام کیا اُس مہمان نے اُس کتاب کو جلا دیا جس کی اطلاع مجھ کو بعد میں ہوئی۔اُس کی نا تمام خبر کسی ذریعہ (سے)موٴلف صاحب کو ہو گئی۔اُن کا خط آیا۔ میں نے جواب دینے سے ایک عذر لکھ دیا۔اُنہوں نے وہ عذررفع کرنے کے لیے کتاب بھیج دی۔اُس پر میں نے قدرے مفصل جواب دیااور اسی دوران میں مسئلہ کے دوسرے پہلو کے متعلق کسی جبری کا اشکال اور بعض اکابرِ اہلِ حق کا حل ایک کتاب میں مل گیا۔ طلبہ کے حفظ کے لیے اُس کو بھی تحریرِ ھٰذا کے ساتھ ملحق کر دیا۔چناں چہ ذیل میں سب تحریرات منقول ہیں۔اور چوں کہ وہ ایک خاص قسم کا مضمون ہے اِس لیے اُس کا ایک نام بھی تجویز کردیا جو پیشانی پر لکھا ہوا ملے گا۔

            (اجزاء المضمون)۱-اصل المکتوب بقصد الصواب ۲-العذر عن الجواب۳-رفع العذر بارسال الکتاب ۴-تحقیق المقام بفصل الکتاب ۵-حل بعض الاشکال بشع عجاب۔

            ۱-اصل الکتاب (اصل مکتوب):بخدمت شریف اعلیٰ حضرت مولانا محمد اشرف علی صاحب مدظلہ العالی۔السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘۔ من جانب محمد نذر شاہ عباسی عرض ہے کہ تفسیر ”بُلْغَةُ الْحَیْرَان“ میری اور غلام خاندان کی تصنیف ہے،چناں چہ دیباچہ سے ظاہر ہے۔مولانا حسین علی صاحب مدظلہ سے ترجمہ پڑھا اور اُن کی تقریریں لکھی اور بعض بعض مقام پر کچھ اپنی تقریر بھی لکھ دی ہے۔

            اصل عبارت سورہ ہود میں یہ ہے کُلٌّ فِیْ کِتَابِِ مُّبِیْنِِ، یہ علحٰدہ جملہ نہیں،ما قبل کے ساتھ متعلق ہے تاکہ یہ لازم آجائے کہ تمام باتیں اولاًکتاب میں لکھی ہیں جیساکہ اہلِ سنت والجماعت کا مذہب ہے یاکہ اُس کا معنیٰ یہ ہے کہ:”تمہارے تمام اعمال لکھ رہے ہیں فرشتے۔“معتزلہ کو اہلِ حق اس مسئلے کے واسطے کافر نہیں کہتے؛ مگر نووی اور بعض احادیث کے الفاظ اس پر منطبق ہیں۔ اصل عبارت منقول عنہ کی یہ ہے۔ اور مطبوعہ میں یوں عبارت ہے: کُلٌّ فیْ کِتابٍ مُّبیْنٍ یہ علیحدہ جملہ ہے ما قبل کے ساتھ متعلق نہیں تاکہ یہ لازم آئے کہ اولاًتمام باتیں کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جیسا کہ اہلِ سنت والجماعت کا مذہب ہے اس کا معنیٰ یہ ہے-الخ-اور احادیث کے الفاظ بھی اس مذہب پر منطبق ہیں -الخ-اور یہ غلط ہے۔ فی النووی ص۳۳۳ فیْ ھٰذِہِ الأَحَادیْثِ دلالاتٌ ظاھرةٌ اِنَّ جمیْعَ الْوَاقِعاتِ بِقَضَاءِ اللّٰہِ والمُلکُ لِلّٰہِ، لَااعتراضَ عَلٰی المَالکِ فیْ مُلکِہ وَقَدْ طَوَ ی اللّٰہُ تعالیٰ علمَ القدرِ عَنِ الْعَالَمِ فَلم یعلمْہ نبیٌّ مُرسَلٌ وملکٌ مُقربٌ۔وفیْ النووی ج ۲ ص۳۳۴ القدرُ من اسرارِ اللّٰہِ تعالیٰ الَّتیْ ضربت من دونہ الاستار۔اختصَّ اللّٰہُ تعالٰی بہ حجبَہ عنْ عُقولِ الْخَلقِ وَمعارفِھمْ وَقدْ طویٰ علم القدر عنِ العَالمِ فلمْ یعلِّمْہ نبیٌ مرسلٌ ولا ملکٌ مقربٌ -آہ-فی النووی ج۱،ص۲۷۔اعلمْ اَنَّ مذھبَ أہْلِ الحقِّ اثباتُ القدرِ ومعناہ ان اللّٰہ تعالٰی قدَّرَ الاشْیاءَ وعلَّمہ سُبْحَانَہ انَّہَا سَتَقَعُ فیْ اَوقاتٍ معلومةٍ فھیَ تقعُ علٰی حسبِ ماقدرھا سُبْحانہ وانکرتِ القدریةُ ھٰذا وزعمتْ أَنہ سُبحانہ یقدرُھاَ ولم یتقدَّمْ عِلمُہ واَنہ مُسْتانِفَةٌ اِلیْکمْ -آہ-فی التفسیر الکبیر ج۱ ص ۲۶۵۔وقدْ کَانَ السّلفُ وَالْخلفُ مِنَ الْمُحَقِّقِیْنَ مُعولینَ علَی الْکلامِ الہادمِ لاصولِ المُعتزِلة ِفما أتوا بشییءٍ مقنع۔وفی الکبیرج۱ ص ۴۹۹ إذا قضیٰ أمراًفانمایقول لہ کن فیکون۔الایة- تلک القضاء لا بد ان یکون محدثا لانہ دخل علیہ حرف اذا-آہ-قال اللہ تعالی: انما قولنا لشیء اذا اردناہ۔الایة-کل فی کتاب مبین(۱)

کل شی کا الیٰ ابد الآباد ہونامحال ہے کیوں کہ اشیاء غیر متناہی ہیں۔ ملا علی قاری  نے شرحِ،شکوة میں یہ لکھ کر بحوالہ حدیث در منثور لکھا ہے کہ مراد الیٰ یوم القیامہ ہے۔ترمذی شریف کا حاشیہ اسی حدیث پر دیکھو۔اور مثنوی دفتر ۵ص۸۴ہمچنیں قَد جَفّ الْقَلَمُ أَنْ لا یَسْتَوِی الطَّاعَةُ وَالْمَعْصِیَةُ وَلا یَسْتَوِی الْأَمَانَةُ وَالسَّرْقَةُ،جَفَّ الْقَلَمُ أَنْ لا یَسْتَوِی الشُّکْرُ وَالْکُفْرَانُ جَفَّ الْقَلَمُ أَنَّ اللّٰہَ لا یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ۔(۲)

پس قلم بنوشت کہ ہر کاررا

لائق آن ہست ہر تاثیر را

ظلم آری مدبری جف القلم

عدل آری برخوری جف القلم

تو رواداری روا باشد کی حق

ہم چو معزول آید از حکم سبق

کہ زدست من برون رفت ست کار

پیش من چندیں میا چندیں مزار

بل کہ معنی آں بود جف القلم

نیست یکساں ہیش من جف القلم

پس جفا گویند شہ را پیش ما

کہ بر جف القلم کم کن وفا(۳)

            قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ کُلٌّ فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ،ھٰکَذَا فِی سُوْرَةِ ھُوْدٍ۔ وَفِیْ سُوْرَةِ النَّمْلِ وَمَامِنْ غَائِبَةٍ فِی السَّمَاءِ وَالأَرْضِ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔وَفِی سُوْرَةِ إِبْرَاھِیْمَ،مَایَخْفیٰ عَلَی اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ فِی الأرْضِ وَلافِی السَّمَاءِ۔وَفِی التَّفْسِیْرِالْکَبِیْرِ ص۳۱۰ یَمْحُواللّٰہُ مَایَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہ أُمُّ الْکِتَابِ۔مِنَ النَّبِی ﷺ إنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہ وَتَعَالیٰ فِی ثَلٰثِ سَاعَاتٍ بَقِیْنَ مِنَ اللَّیْلِ یَنْظُرُ فِی کِتَابِ الَّذِیْ لا یَنْظُرُ فِیْہِ أَحَدٌ غَیْرَہ فَیَمْحُواللّٰہُ مَایَشَاءُ وَیُثْبِتُ -آہ-کُلٌّ فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔اورمَامِنْ غَائِبَةٍ فِی السَّمَاءِ وَالأرْضِ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔میں یا مراد علم اللہ ہے یا قید الیٰ یوم القیامة مراد ہوگی یا مراد کتاب اعمال نامہ ہوگی۔وَفِیْ سُوْرَةِ الْقَمَرِ:کُلُّ شَیْءٍ فَعَلُوْہُ فِیْ الزُّبُرِ وَکُلُّ صَغِیْرٍ وَّکَبِیْرٍمُّسْتَطَرٍ ۔ وَفِی سُوْرَةِ یٰسٓ، وَنَکْتُبُ مَاقَدَّمُوْا وَآثَارَھُمْ وَکُلَّ شَیْءٍ أَحْصَیْنَاہُ فِیْ إِمَامٍ مُّبِیْنٍ۔ وَفِیْ سُوْرَةٍ، عَالِمُ الْغَیْبِ لاَ یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِی الْأَرْضِ وَلاَ أَصْغَرُ مِنْ ذٰلِکَ وَلَا أَکْبَرُ إِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا۔الایة۔فِیْ سُوْرَةِ یُوْنُسَ،وَلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا إِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ -الاٰیة-(۴)

            خلاصہ یہ ہے کہ ہماری اس تفسیر کے اس مقام پر کس بات پر آپ کا عتراض ہے؟ اور جیساکہ سنا گیا ہے کہ تفسیر جلائی گئی،کون امر باعث ہوا ہے؟ اگر کتاب کے الفاظ پر اعتراض ہے تو وہ طبع کی غلطی ہے جس کا صحت نامہ عن قریب شائع کر دیا جائے گا۔اگرمذہب پر اعتراض ہے تو معتزلہ کا مذہب ہے ہم نے فقط نقل کردیا ہے جیساکہ اور کتابوں میں بھی منقول ہے اگر آپ کے پاس کتاب نہ ہو،تو ہم خود کتاب بھیج دیں تاکہ آپ ہم کو ہمارے سب اغلاط سے متنبہ فرماویں، جزاکم اللہ خیراً۔

۲-(عذر)جب تک کتاب کی عبارت سامنے نہ ہو میں کچھ عرض نہیں کر سکتا۔

۳-(رفع عذر)تفسیر خدمتِ عالیہ میں ہدیةً روانہ ہے۔

۴-(تحقیق المقام)الجواب ومنہ الصدق والصواب

            مولانا بارک اللہ تعالیٰ فی کمالاتہم۔السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ ارسالِ خط و ارسالِ کتاب سے ممنون ہوا۔ چوں کہ خط میں بہت باتیں عدیم التعلق یا بعید التعلق لکھ دی گئی ہیں اس لیے جواب میں اس سے تعرض کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ نیز میرے پاس اتنا وقت بھی نہیں نیز ضعف عمر و ضعف مرض بھی مانع ہوئے اس لئے صرف ضرورت پر اکتفا کیا گیا، امید کہ اس اختصار کو معاف فرمادیں گے۔

            سو عرض کرتاہوں کہ جس کتاب میںآ پ نے طبع کی غلطی بتلائی ہے، میں نے اُس کو پہلے دیکھا،نہ اب دیکھنے کی ضرورت سمجھی۔ جو مضمون میں نے دیکھا تھا،کتاب پیش کرنے والے کے سامنے اُس پر کلام کیا تھا؛ مگر میں نے جلانے کا مشورہ نہیں دیا،نہ صراحةً،نہ اشارة؛ًالبتہ اُ س مضمون سے میں نے تحاشی تام کی(بالکل برات کا اِظہار کیا) جیسا کہ وہ اِس کا مستحق ہے۔ ممکن ہے کہ اِس سے اُن پر یہ اثر ہوا ہو کہ اُس کو جلا دیا اور اُس کے بعد بھی مجھ کو اطلاع نہیں۔ ایک بار میں نے مکرر دیکھنے کے لیے کتاب مانگی،تب اُس کی اطلاع(ہوئی) ورنہ اگر مجھ سے مشورہ کرتے تو میں اِس مقام پر حاشیہ تنبیہی لکھو ادیتا۔ اب وہ کلام عرض کرتا ہوں کہ؛

            ”اہل باطل کاکوئی قول نقل کرنے کے بعد ناقل کے ذمہ ہے کہ اُس کا اِبطال اولاً تقبیح کے ساتھ کرے،جیسا کہ نووی نے کیا ہے فی قولہ الآتی (نووی کا قول آگے آ رہا ہے)یااگریہ نہ ہو، تو تصریح کے ساتھ کرے، جیساکہ صاحبِ کبیرنے کیا ہے۔فی قولہ الآتی(یہ قول بھی آگے آ رہا ہے) اور وہ دونوں قول یہ ہیں۔

            قَالَ النَّوَوَیُّ بَعْدَ نَقْلِ قَوْلِھِمُ الْمَذْکُوْرِ فِی السُّوَالِ:اِنَّمَا یَعْلَمُہَا- سُبْحَانَہ وَتَعَالیٰ- بَعْدَ وُقُوْعِہَا وَکَذَبُوْا عَلَی اللّٰہِ سُبْحَانَہ وَتَعالیٰ وَجَلَّ عَنْ اَقْوَالِہِمُ الْبَاطِلَةِ عُلُوًّا کَبِیْرًا وَسُمِّیَتْ ہٰذِہِ الْفِرْقَةُ قَدْرِیَّةً لِاِنْکَارِہِمُ الْقَدْرَ، قَالَ اَصْحَابُ الْمَقَالَاتِ مِنَ الْمُتَکَلِّمِیْنَ وَقَدِ انْقَرَضَتِ الْقَدْرِیَّةُ الْقَائِلُوْنَ بَہٰذَا الْقَوْلِ الشَّنِیْعِ الْبَاطِلِ وَلَمْ یَبْقَ اَحَدٌ مِنْ اَہْلِ الْقِبْلَةِ عَلَیْہ وَصَارَتِ الْقَدْرِیَّةُ فِی الْاَزْمَانِ الْمُتَأَخِّرَةِ مُعْتَقِدَةً اِثْبَاتَ الْقَدْرِ وَلٰکِنْ یَقُوْلُوْنَ: الخَیْرُ مِنَ اللّٰہِ وَالشَّرُّمِنْ غَیْرِہ تَعَالیٰ عَنْ قَوْلِہِمْ (۵) وَقَالَ صَاحِبُ الْکَبِیْرِ تَحْتَ آیَةِ ”وَإذِا ابْتَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہ“الٰایَة۔ وَقَالَ ہِشَامُ بْنُ اْلحَکَمِ: اِنَّہ تَعَالیٰ کَانَ فَی الْاَزَلِ عَالِماً بِحَقَائِقِ الْاَشْیَاءِ وَمَاہِیَاتِہَافَقط۔ْ وَأَمَّا حُدُوْثُ تِلْکَ الْمَاہِیَّاتِ وَدُخُوْلُہَا فِی الْوُجُوْدِ فَہُوَ تَعَالیٰ لَا یَعْلَمُہَا اِلَّا عِنْدَوُقُوْعِہَا -اِلیٰ قَوْلِہ -وَاعْلَمْ أَنَّ ہِشَاماً کَانَ رَئِیْسَ الرَّافِضَةِ فَلِذَالِکَ ذَہَبَ قُدَمَاءَُ الرَّوَافِضِ ِالیٰ الْقَوْلِ بالْبدَاءِ۔ أَمَّاالْجُمْہُوْرُ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَاِنَّہُمُ اتَّفَقُوْا أَنَّہ سُبْحَانَہ وَتَعَالیٰ یَعْلَمُ جَمِیْعَ الْجُزْئِیَّاتِ قَبْلَ وُقُوْعِہَا اھ۔(۶)

            مگر اس کتاب ”بلغہ“ میں اس مقام پر ایسا نہیں کیا گیا۔چناں چہ یہ قولِ باطل اِس عبارت پر ختم ہوا ہے:”اُن کے کرنے کے بعد معلوم ہو گا۔آلخ۔“سو،اس کے بعدا خیر تک اُس کا ابطال صریح عبارت میں بھی نہیں فضلاً عن التقبیح(مذمت کے ساتھ ابطال کی بات تو دور رہی)۔بلکہ وہاں ایسی عبارت ہے جس سے کسی قدر اِس باطل کی تائید متبادرہوتی ہے۔ فی قَولِہ ”اور آیاتِ قرآنیہ اِلیٰ قَوْلہاُن کا معنی صحیح کرتے ہیں۔“اور اُس کے بعد اہل سنت والجماعت کی تفسیر بہت معمولی طورپرایک مختصر جملہ میں نقل کردی اورنہ اُس کی فی ذاتہ تصحیح کی، نہ اُس کوقولِ مقابل پر ترجیح دی۔پس دونوں مذہب کو نقل کرکے چھوڑدیا،جس سے یہ بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ موٴلف کا عقیدہ کیا ہے؟کیاایسااحتمال بلکہ اِہمال(اہل سنت والجماعت کی تفسیر کوقولِ مقابل پر ترجیح نہ دینا) تدیُّن کے خلاف اورنکیر شدید کے قابل نہیں۔پس یہ حاصل ہے میرے کلام کا۔اب ایک التماس پر معروضہ ختم کرتاہوں وہ یہ ہے کہ میں ایسی کتاب کوجس میں ایسی خطرناک عبارت ہو بعد حاشہٴ تنبیہی کے بھی نہ اپنی مِلک میں رکھنا چاہتاہوں نہ اپنے تعلق کے مدرسہ میں۔۲۰رمضان ۱۳۵۷ھ“۔(۷)

(۱)ترجمہ:ان احادیث میں اس بات پر ظاہری دلالت ہے کہ تمام واقعات اللہ کے فیصلے سے ہوا کرتے ہیں اور ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے اور مالک پر اس کی ملکیت کے سلسلے میں احتراز کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔اللہ تعالی نے تقدیر کے علم کو عالَم سے پوشیدہ رکھا ہے۔لہذا نہ تو کوئی نبیٴ مُرسَل تقدیر کا علم رکھتا ہے نہ ہی کوئی مقرب فرشتہ۔نووی ج۲،ص۳۳۳۔

             تقدیراُن خدائی رازوں میں سے ہے جن کے سامنے پردے ڈال دئے گئے۔اللہ تعالی نے اس مسئلے کو اپنے ساتھ مخصوص فرماکر مخلوقات کی عقلوں اور ذرائع دانست کو ان تک رسائی سے روک دیا ہے۔اللہ تعالی نے تقدیر کے علم کو عالَم سے مخفی رکھا ہے۔چناں چہ تقدیر کا علم نہ تو کسی نبیٴ مُرسَل کے پاس ہے نہ ہی کسی برگزیدہ فرشتہ کے پاس۔

            یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اہلِ حق کا مذہب تقدیر کا اِثبات ہے۔اِ س کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اشیا کا اندازہ مقرر کردیا پھر اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم ہے کہ یہ چیزیں متعین اوقات میں پیش آئیں گی۔لہٰذا اُن (چیزوں)کا وقوع اللہ تعالی کے مقرر کردہ اندازے کے مطابق ہوا۔قدریہ نے اس بات کا انکار کیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ اشیا کا اندازہ مقرر تو فرماتے ہیں لیکن اس تقدیر کا علم اللہ تعالیٰ کو پہلے سے نہیں ہوتا اور یہ کہ تقدیر از سرِ نو بندوں سے متعلق ہوتی ہے۔تفسیرِ کبیرج۱،ص۲۶۵۔

            متقدم ومتاخرمحققین، معتزلہ کے اصول کی بیخ کَنی کرنے والے علمِ کلام پر اعتماد کرتے تھے؛ لیکن انہوں نے (اس حوالے سے)کوئی اطمینان بخش چیز پیش نہیں کی۔تفسیرِ کبیرج۱،ص۴۹۹۔

            جب کسی کام کا پورا کرنا چاہتے ہیں تو بس اُس کو فرمادیتے ہیں کہ ہو جا،بس وہ ہوجاتاہے۔چوں کہ اُس (قضیٰ)پر ”اذا“داخل ہے اس لیے اُس کاحادث ہونا ضروری ہے۔بیان القرآن ج۱،ص۶۳۔اللہ تعالی کا قول”ہم جس چیز کو چاہتے ہیں بس اُس سے ہمارااتنا ہی کہنا ہوتا ہے“آہ۔بیان القرآن ج۶،ص۴۳۔سب چیزیں کتابِ مبین (یعنی لوحِ محفوظ )میں(بھی منضبط ومندرج) ہیں۔بیان القرآن ج۵،ص۳۵۔

(۲)ترجمہ:قلم یہ لکھ کر خشک ہوگیا(مقدر میں لکھا جاچکا)کہ اطاعت ومعصیت (فرماں برداری اور نافرمانی)برابر نہیں ہوتے اور نہ امانت وسرقہ یکساں ہوتے ہیں،قلم یہ لکھ کر خشک ہوگیا(مقدر میں لکھا جاچکا)کہ شکر اور ناشکری مساوی نہیں،قلم یہ لکھ کر خشک ہوگیا(مقدر میں لکھا جاچکا)کہ اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔

(۳)ترجمہ:]پس قلم نے وہ لکھا کہ ہر کام کے لائق اُس کہ تاثیر ہے اور اُسی کے لائق اُس کا بدلہ #اگر ظلم کرے گا تو مدبر جف القلم کا ہے اور عدل کرے گا فائدہ پائے گا یہ بھی جف القلم ہے #اب اِس بات کو روا رکھتاہے اور تیرے نزدیک یہ روا ہے کہ حق تعالی اس اگلے حکم کے سبب سے مثل معزول و بیکار کے ہوگیا# کہ معاملہ میرے قابو سے باہر ہوگیا،میرے سامنے اتنا نہ آ،اتنی عاجزی نہ کر#بل کہ معنی یہ ہیں کہ قلم (لکھ کر) خشک ہو گیا ہے میرے سامنے انصاف اور ظلم یکساں نہیں ہے #اور ہمارے سامنے بادشاہ کی برائی کر کے کہتے ہیں کہ؛ جا۔قلم خشک ہو گیا،وفاداری نہ کر۔ [

(۴)ترجمہ:سب چیزیں کتابِ مبین (یعنی لوحِ محفوظ )میں(بھی منضبط ومندرج )ہیں۔اس طرح سورہٴ ھود میں ہے۔اور سورہٴ نمل میں ہے کہ آسمان و زمین میں ایسی کوئی مخفی چیز نہیں جو لوحِ محفوظ میں نہ ہو۔

            اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔بیان القرآن ج۶،ص۱۴۔اور تفسیرِ کبیر ص ۳۱۰میں ہے:خدا تعالیٰ جس حکم کو چاہیں موقوف کردیتے ہیں اور جس حکم کو چاہیں قائم رکھتے ہیں اور اصل کتاب انہی کے پاس ہے۔بیان القرآن ج۵،ص۱۱۶۔

            نبی ﷺ سے منقول ہے کہ جب رات کا ایک ثلث باقی رہ جاتا ہے تو اللہ سبحانہ وتعالی اُس کتاب(لوحِ محفوظ) میں نظر فرماتے ہیں جس کو اُس (اللہ)کے علاوہ کوئی نہیں دیکھ سکتا پھر جس حکم کو چاہیں موقوف کردیتے ہیں اور جس حکم کو چاہیں قائم رکھتے ہیں۔آہ۔:سب چیزیں کتابِ مبین (یعنی لوحِ محفوظ )میں(بھی منضبط ومندرج )ہیں۔ آسمان و زمین میں ایسی کوئی مخفی چیز نہیں جو لوحِ محفوظ میں نہ ہو۔اور سورہٴ قمر میں ہے: جو کچھ بھی یہ لوگ کرتے ہیں سب اعمال ناموں میں ہے اورہر چھوٹی و بڑی بات لکھی ہوئی ہے۔بیان القرآن ج۱۱،ص۸۶۔ اور سورہٴ یٰسین میں ہے:ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے جاتے ہیں اور اُن کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کردیا تھا۔بیان القرآن ج۹،ص۱۰۴۔اور ایک سورة(سبا) میں ہے:قسم ہے عالم الغیب کی،اُس سے کوئی ذرّہ برابر بھی غافل نہیں نہ آسمانوں میں اورنہ زمین میں اور نہ کوئی چیز اُس سے چھَوٹی ہے اورنہ کوئی چیز اُس سے بڑی ہے مگر یہ سب کتابِ مبین میں ہے، تاکہ اُن لوگوں کو صلہ دے جو ایمان لائے تھے۔بیان القرآن ج۹،ص۷۲۔اور تم جو کام بھی کرتے ہو ہم کو سب کی خبر رہتی ہے جب تم اُس کام کو کرنا شروع کرتے ہو۔بیان القرآن ج۵،ص۲۰۔

(۵)کتاب الایمان باب معرفة الایمان والاسلام۔(۶)”سوال میں مذکور ان (روافض)کے قول کو نقل کرنے کے بعد امام نووی نے فرمایا:”یقینا ان کے وقوع کو اللہ تعالی جانتے تھے؛لیکن انہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا-اللہ تعالی ان کے باطل اقوال سے پاک اوربہت بلند و برتر ہیں- اورتقدیر کے منکر ہونے کی وجہ سے اس فرقہ کا نام”قدریہ“ رکھا گیا ہے۔ متکلمین میں سے بعض محققین کا یہ قول ہے کہ:وہ قدریہ جو اِس برے اور باطل قول کے قائل تھے، اب نہیں رہے اور اہل قبلہ میں سے کوئی بھی اس مذہب پر نہیں ہے،اور بعد کے زمانوں میں جو قدریہ تھے وہ تقدیر کے ثابت ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے؛ لیکن یہ کہتے تھے کہ خیر اللہ کی طرف سے ہے اور شر غیر اللہ کی طرف سے-اللہ پاک ان کے قول سے بلند و برتر ہیں-“(کتاب الایمان باب معرفة الایمان والاسلام۔)

 اور صاحب تفسیر کبیر آیت ”وَإذِا ابْتَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہ“ کے تحت فرماتے ہیں:”اور ہشام بن حکم نے کہاکہ اللہ تعالی کو ازل میں محض حقائق اشیاء اور ان کی ماہیتوں کا علم تھا۔ رہا اُن ماہیات کا حادث ہونا اور اُن کا وجود پذیر ہونا تو اُس کا علم اللہ تعالی کو ان کے وقوع کے بعد ہی ہوتاہے․․․․․اور جاننا چاہیے کہ ہشام روافض کا سربراہ تھا۔اِسی وجہ سے قدیم رافضیین بداء(اللہ تعالی کوئی فیصلہ کرتے ہیں پھر اُس کے خلاف کا علم ہوتا ہے تو اُس فیصلہ کو منسوخ کردیتے ہیں۔نعوذ باللہ) کے قائل تھے۔اور جمہور اہل اسلام کامتفقہ مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو قبل از وقوع تمام جزئیات کا علم رہتا ہے“۔(۷)حکیم الامت:”امداد الفتاویٰ جلد ششم“ ص۱۲۰،۱۲۱۔(جاری……)