بیان القرآن کا مطالعہ

ساتویں قسط:۱۵ جمادی الاولی۱۴۴۱ھ/۱۱جنوری۲۰۲۰  (حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر)

 

مولانا حکیم فخر الاسلام

            ِٓاِس تفصیل سے قرآنِ کریم کی تفسیر ی کاوشوں کے تناظر میں دورِ حاضر کے بعض فکری التباسات پر خود بہ خود روشنی پڑ جاتی ہے۔مثلاً:

۱- خدا تعالی کی ایک خاص صفت تعمیمِ قدرت کے اِنکارکے فتنہ کا ہمہ گیر ہونا ۔۲-فطرت پرستی -اور اِسی کے فروع میں سے ہے:فطرت کے جمہوری ،معاشی و معاشرتی اصول و نیم ملحدانہ تصورات کی دخل اندازی اور”فطری مذہب“کے اصولوں کے سامنے معذرت خواہی ۔۳-قیاس کے نام پر منصوص میں تصرف ،نسخ واِجماع سے بے اِلتفاتی اور ضروریاتِ دین میں دست اندازی۔۴-احکام شریعت کو امورِ معاد سے متعلق سمجھنا ،معاملات میں خود کوآزاد سمجھنا۔۵- شرعی اصطلاح کی جگہ نیچریت زدہ محاوروں کی دخل اندازی اورمنقول ترجمہ کو نظر انداز کرنا۔

             دو ترجموں کی تنقیدات پر مبنی اِن امور کی نشاندہی تو”بیان القرآن “لکھنے سے پہلے کی گئی۔لیکن”بیان القرآن “کی تصنیف کے بعدبھی اِس قسم کی تحریروں اور رسالوں کا پتہ ملتا ہے۔چناں چہ ”التقصیر فی التفسیر“ نامی ایک رسالہ ہے،اُس کا ایک سرسری جائزہ بھی امور ذیل کی طرف رہنمائی کے لیے کافی ہے:# تفسیر با لرائے پر کلام اور اشتباہات کا ازالہ # قرآن سے استنباط میں’قیاس“، ”اعتبار “کی نوعیت وحیثیت ۔ غلوکی نوعیتیں-مثلاً:الف:-غلو فی العمل: یعنی ہردینی عمل سے بھی مقصود معاشی مصلحتیں۔ ب:غلو فی الاعتقاد:یعنی دلیل کو صرف قرآن میں منحصر سمجھنا ۔#”تمام علوم قرآن میں موجود ہیں“کا تجزیہ اور مغالطُوں کا اِزالہ۔رسالہ کی ابتدا میں تفسیرو توجیہ کے متعلق قرآنی نصوص سے ذیل کے ۶ ملحوظات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے :

            ۱:جس طرح یہ مذموم ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ ہی بدل دیے جا ئیں،اُسی طرح معنی غیر واقعی سے تفسیر کرنا بھی مذموم ہے۔۲:غیر ثابت کو تکلف سے ثابت کرنا بھی مذموم ہے۔۳:بغیر دلیل شرعی کے محض اپنے خیالات کا تابع ہو نا مذموم ہے۔۴: غیر مدلول کو مدلولِ نص قرار دینا -جسے تفسیر با لرائے کہتے ہیں-مذموم ہے۔۵: قرآن میں حدود تفسیر سے تجاوز ،تحریف ہے۔اور قولِ باطل کا اختیار کر نا جس میں تفسیر غیر صحیح بھی آگئی، ادعائے کاذب (جھوٹا دعوی)ہے ۔اور دلیل شرعی کے بغیر تفسیر کر نا، تاویل ِ باطل ہے۔۶:جو لوگ ایسا کریں، وہ مُحَرِّفین و متکلفین اور اہل ہوی و اہل ظنون فاسدہ و اہل غلو و مدعی کا ذب و مخترع و جاہل ہیں۔(التقصیر فی التفسیر:خطبہ کتاب)۔ اِن ملحوظات کا اِستنباط قرآن و حدیث کی درج ذیل نصوص سے کیا گیا ہے:

”قال الله تعالیٰ یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہ وقال الله تعالیٰ قُلْ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَنْ اَجْرِِ وَ مَا اَنَا مِنَ المُتَکَلِّفِیْن۔ قال الله تعالیٰ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبّعَ ہَوَا ہُ بغیْرِ ہُدَََٰی مِنَ الله۔ وقال الله تعالیٰ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلّاا لظَّنَّ۔ وقال الله تعالیٰ وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ۔ وقال رسول الله ﷺ مَنْ قَا لَ فِیْ الْقُرْآنِ بِرایہ فَاَ صَابَ فَقَدْ اَخْطَاَ (مشکٰوة عن ا لترمذی و ابی داؤد)(آیتوں کی تفصیلی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو:بیان القرآن جلد ۱ ص ۴۷۵، ص ۲۴۵۔جلد۳ ص ۲۸۱،ص ۴۷۳۔ جلد ۲ ص ۳۷۴۔ مطبع ملتان)

             رسالہ ”ا لتقصیر فی التفسیر“۱۳۲۷ھ میں لکھا گیا تھا اور اِس کا شانِ تالیف اہلِ علم فضلائے درسیات کی جدید افکار سے اثر پذیری تھی۔اُس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، ملفوظات میں اُن کی طرف اشارات ملتے ہیں۔ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں:

            ”آج کل بعض لوگوں نے قرآن شریف کی آیتوں سے نئی سیاست کو مستنبط کرنا شروع کردیا ہے۔یہ ایک قسم کی تحریف ہے۔ایک صاحب نے اس مضمون کو کہ کافر کی حکومت مسلمانوں پر جائز نہیںآ یت﴿وَلَاتَنْکِحُوْا المُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُوْمِنُوْا ﴾سے مستنبط کیا ہے کہ جب ایک مسلمہ کاکافر کے تحت میں رہنا جائز نہیں تو بہت سے مسلمانوں کا کسی کافرکے ماتحت رہنا کیسے جائز ہوگا۔مگر اس مضمون کا اس آیت سے کوئی تعلق نہیں البتہ دوسری دلیلوں سے ثابت ہے۔اوراگر اسی دلالت کی بناء پر یہ کہاجائے کہ دوسری آیت میں ﴿وَلَاتَنْکِحُوْا المُشْرِکاَتِ حَتّٰی یُوْمِنَّ ﴾جس سے معلوم ہوتاہے کہ مشرکہ کا مسلمان کے تحت میں رہنا جائز نہیں تو بہت مشرکوں کامسلمانوں کی رعابن کر رہنا بھی جائز نہ ہوگا۔تو اس کا کیا جواب دیں گے۔یہ حال ہے استنباطوں کا تعجب ہے کہ طلبہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد جوق درجوق یہ ترجمہ پڑھنے جاتے ہیں۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد۲۵-جمیل الکلام ص۱۶)

            اِس تصنیف کے تین سال بعد ۱۳۳۰ھ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک رسالہ ”الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدہ “لکھا جس کی وجہِ تالیف اُن غلاط وخلجانات کی اصلاح تھی جو عقائد کے باب میں علوم جدیدہ،سائنس اور جدید تہذیب و تمدن کے قواعد کی راہ سے جدید تعلیم یافتوں کے ذہنوں میں پیدا ہوئے تھے۔اُس میں قرآن کے ساتھ سائنس کے اِنطباق کی چارخرابیاں بتائی گئی ہیں:

            ۱-”اِس کو اسلام کی بڑی خیرخواہی اورقرآن کے لیے بڑی فخر کی بات اوراپنی بڑی ذکاوت سمجھتے ہیں۔اور اِس غلطی میں بہت سے اہل علم کو بھی مبتلادیکھاجاتاہے۔“یہ ایک غلطی کا بیان ہے۔دوسری غلطی یہ بتائی گئی ہے کہ مسائل سائنس قرآن کے مقاصد میں سے نہیں ۔اگر ہو سکتے ہیں تومقصودکے مقدمے ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ”ظاہر ہے کہ استدلال میں مقدمات(وذرائع:ف) ایسے ہونا چا ہئیں جو پہلے سے یعنی قبل اِثباتِ مدعا کے مخاطب کے نزدیک مسلم ہوں یا بدیہی ہوں یابہ د لیل مسلم کرادیے جاویں۔ ورنہ اُن سے مدعاپر استدلال ہی نہ ہوگا۔“یہ اہم اصول ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:” جب یہ بات معلوم ہوگئی، تو اب سمجھنا چاہیے کہ اگر یہ جدید تحقیقات اِن آیاتِ قرآنیہ کے مدلولات ومفہومات ہوں-(یعنی قرآن کے معنی اور اُس کی تفسیر جدید تحقیقات کے مطابق ہوں:ف) اور ظاہرہے کہ عرب کے لوگ جو اول مخاطب ہیں قرآن کے، وہ با لکل اِن تحقیقات سے نا آ شنا تھے-تو لازم آتاہے کہ مقدمات غیر مسلَّمہ وغیر بدیہیہ وغیرمُثْبَتَہ سے استدلال کیا گیا ہے(-یعنی خطاب کے وقت جو الفاظ و تعبیرات اختیار کی گئی ہیں،وہ مخاطبوں کے نزدیک نہ تو تسلیم شدہ ہیں ،نہ ایسے بدیہی ہیں کہ وضاحت سے مستغنی ہوں اور نہ ہی دلیل سے مدلل کیے گئے ہیں۔گویا خطاب ایسے طور پر کیا گیا ہے کہ-ف)جن میں استدلال کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ توکلام اللہ کے طرز ِاستدلال پر کتنا بڑا دھبہ لگے گا۔ تیسری خرابی اِس( سائنسی تحقیق کو آیت کا مدلول بنانے:ف)میں یہ ہے کہ یہ تحقیقات کبھی غلط بھی ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ سو اگر اِن کو قرآنی مدلول (یعنی عصری تحقیقات کو قرآنی معنی پر منطبق کر کے،اُس کی تفسیر:ف) بنایاجاوے،تو اگر کسی وقت کسی تحقیق کا غلط ہونا ثابت ہو گیا اور (اِدھر:ف)اہل اسلام کا اِقرار بہ ضمن ایسی تفسیرکے مدوّن ہوگاکہ قرآن کایہ دعوی ہے ،تو اُس وقت ایک ادنیٰ ملحدتکذیب ِقرآن: (قرآن کے انکار) پر نہایت آسانی سے قادر ہوسکے گا کہ قرآن کا یہ مضمون غلط ہے۔ اور جز وکا اِرتفاع مستلزم ہے ارتفاعِ کل کو،پس(ایک جزو پر شبہہ پیدا ہوجانے سے کل پر سے اعتماد جاتا رہا۔اِس طرح ) قرآن صادق نہ رہا۔(خیال کیجیے! کہ:ف) اُس وقت کیسی دشواری ہوگی؟“(۲)چوتھی خرابی اِس( سائنسی تحقیق کے ساتھ کسی آیت کو منطبق کرنے :ف) میں یہ ہے- جوبا لکل ہی غیرت کے خلاف ہے کہ- اِس صورت میں اگر محققان ِیورپ یہ کہیں کہ دیکھو قرآن کو نازل ہوئے اتنا زمانہ ہوا ؛مگر آج تک کسی نے یہا ں تک کہ خود نبی نے بھی نہ سمجھا، ہمارا احسا ن مانو کہ تفسیر ہماری بدولت سمجھ میں آئی ،تو اِس کاکیا جواب ہوگا؟“( ”الانتباہات المفیدة عن الاشتباہات الجدیدہ “ص۴۰ تا ۴۲۔کتب خانہ امدادلاغربی محلہ مفتی سہارنپور۱۴۴۰ھ/۲۰۱۹ء)

            اِن مذکورة الصدررسائل کے علاوہ بھی مفسر تھانوی نے اپنی تحقیقات میں جگہ جگہ بے اصول تفسیر پر تنبیہ فرمائی ہے۔ایک موقع پر فرماتے ہیں:

            ”قرآن کریم میں جس قدر فہم کی ضرورت ہے اس کے لیے کتنے ہی آلات کی ضرورت ہے جیسے صرف ، نحو، منطق ،حدیث ،تفسیر ،اد ب،فقہ ، معانی وغیرہ وغیرہ …اصل تواتنی ہے اگریہ نہ ہوتو مجبوری میں ان سب کے قائم مقام یہ ہے کہ کسی عالم محقق سے پڑھ لیں یہ بھی نہ ہوتو سوائے گمراہی کچھ نہیں …ایک وکیل صاحب کہنے لگے کہ میں نے یہ رائے قائم کی ہے کہ قرآن شریف کے ترجمہ کامطالعہ کیاکریں میں نے کہاکہ میں متفق ہوں اس میں مگر میں آپ کے ساتھ تھوڑا سااختلاف کروں گا۔۔۔چنانچہ میں نے وعظ میں بیان کیا کہ کسی سے ترجمہ نہ پڑھنے اور خود دیکھنے میں بڑی بڑی خرابیاں ہیں۔رہابینات وغیرہ جوالفاظ آئے ہیں قرآن مجید میں سو میں نے کہاکہ اول تووہ مبادی حاصل کرنے والے کی نسبت ہے ۔ دوسرے علوم قرآن کی نصیحت کے دوجز وہیں ایک ترغیب ترہیب دوسراتحقیقات۔سو ترغیب کاجزو تومشکل نہیں۔مثلاًقیامت کے لئے تیاری کرو،دوزخ سے بچنے کی سبیل کرو، جنت حاصل کرنے کی فکر کرو، وغیرہ وغیرہ ۔یہ تودقیق نہیں، اس کے اعتبار سے مطلقاًبینا ت ہے۔ باقی تحقیقات کاجزو سووہ مشکل ہے اور میں نے واقعات سے بھی ثابت کیا تھاکہ صحابہ تک کوغلطی واقع ہوتی تھی توآپ سے پوچھتے تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ سے زیادہ فہیم کون ہوگا؟ خود آپ کے بارے میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَیْناَ بَیاَنَہ‘﴾ کہ ہمارے ذمہ ہے اس کا بیان کرنا ہے ،سوجب آپ کوبھی ضرورت تھی بیان کی تواوروں کی توکیاحقیقت ہے۔ میں نے یہ بھی کہاتھاکہ اس سے معلوم ہواکہ علاوہ قرآن کے کوئی دوسری چیز بھی ہے جس سے اس کی تبیین وتوضیح ہوتی ہے ۔

(ملفوظات جلد۱۹ حسن العزیزجلدسوم ص۲۴۰،۲۴۱ )

            ایک اور موقع پر فرمایا:” تجربہ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن شریف کے مطالعہ میں صرف ایک آیت کادیکھنا اورتدبر کرنا کا فی نہیں جب تک سیاق سباق کونہ دیکھے ۔سیاق وسباق کے د یکھنے سے مدلو ل قرآن کامتعین ہوتاہے بدون اِس کے کلام اللہ حل نہیں ہوسکتا ۔مثلاًایک موقع پرہے﴿ وَلَنْ یَّجْعَلَ ا للّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ سَبِیْلاً﴾ کہ اللہ تعالی کافروں کومسلمانوں پر غلبہ نہیں دیں گے ۔صرف(اِسی آیت کے:ف) دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ کفار کو مسلمانوں پر غلبہ نہیں ہوسکتا، حالاں کہ(یہ:ف) واقعہ کے خلاف ہے۔ تواگر کوئی شخص صرف اسی (آیت:ف)کودیکھے گااُس کوشبہ واقع ہوگا؛ مگر یہ شبہ سیاق میں دیکھنے سے حل ہوتاہے(کیوں کہ:ف) اِس سے پہلے ہے :﴿اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُناَفِقِیْنَ وَالْکاَفِریْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعاً یَّتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ قَالُوْا اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَاِنْ کَانَ لِلْکاَفِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْا اَلَمْ نَسْتَحْوِ ذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ﴾ اس میں منافقین اورکفار کاذکرہے ،اِس کے بعد ہے: ﴿ فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ﴾کہ اللہ قیامت کوتمہار ے درمیان حکم کرے گا،اُس کے بعد ہے : ﴿وَلَنْ یَّجْعَلَ ا للّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ سَبِیْلاً﴾۔اِس سے معلوم ہوگیاکہ یہ (آیت:ف) قیامت کے متعلق ہے دنیا کے متعلق نہیں ۔اب مطلب ظاہرہے ،کوئی اشکا ل بھی نہیں ۔مطلب یہ ہے کہ قیامت میں جواللہ تعالی فیصلہ کرے گا اُس میں کفار کی ڈگر ی نہ ہو گی مسلمان ہی غالب رہیں گے ،انہی کی ڈگر ی ہوگی اورکفار ہاریں گے ۔ واقعی قیامت کوایساہی ہوگا کہ کفار کوکسی صورت سے مسلمانوں پر غلبہ نہ ہوگا ۔اسی طرح قرآن میں سینکڑوں مقامات ہیں کہ بدون(بغیر:ف) سیاق وسباق کے مطلب معین نہیں ہوتا۔“(ملفوظات جلد۱۹ حسن العزیزجلدسوم ص۳۰۱ )

            فہم قرآن:قرآن تبشیرواندازکے لیے آسان ہے:

            پھر اِسی ضمن میں ایک خلجان یہ بھی ہے جو جدید تعلیم یافتوں کے ذہنوں میں پیدا ہو جا یا کرتا ہے کہ جب کلام ِربانی میں خود خدا تعالی نے فرمایا ہے کہ قرآن آسان ہے،تو ہم تعلیم ِجدید حاصل کیے ہوئے لوگ اور عربی پڑھے ہوئے لوگ خود اپنی فہم سے تفسیر کیوں نہیں کر سکتے اور احکام کا اِستنباط کیوں نہیں کر سکتے؟ اِس کا اِزالہ اِس طرح فرمایا گیا ہے کہ:

            ” اب تولوگوں کی جرات یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ فقہاء اورمجتہدین نے جومسائل قرآن وحدیث سے استنباط کئے ہیں ان کوغلط قراردیتے ہیں اورخودقرآن وحدیث سے احکام استنباط کرناچاہتے ہیں اورجب ان کو استنباط کی صعوبت پر متنبہ کیاجاتاہے توآیت ﴿وَلَقَدْیَسَّرْنَاالْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ الاآیة﴾پیش کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جب قرآن آسان ہے توپھر کیا وجہ(ہے کہ) اس کو سمجھنااوراس سے مسائل کا استنباط صرف علماء ہی کے ساتھ مخصوص ہو، ہم نہ کرسکیں؟حالاں کہ ان کا نہ یہ دعوی صحیح ہے اور نہ ان کا اس آیت سے یا اسی قسم کی دوسری آیتوں سے استدلال صحیح ہے ۔کیوں کہ قرآن وحدیث کے متعلق دوچیزیں ہیں ایک تو ان سے استنباط مسائل کا۔ دوسرے تذکروتذکیر یعنی ترغیب وترہیب ۔تو قرآن کو جو آسان فرمایا گیا ہے وہ صرف تذ کروتذکیر کے لیے آسان فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں یَسَّرْناَ کے بعد لِلذِّکْرِ کا لفظ موجود ہے؛ اسی طرح اس مضمون کی ایک دوسری آیت ہے ۔ ﴿فَاِنَّمَایَسَّرْناَہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَبِہِ المُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہ﴾ِ اس میں بھی تصریح ہے کہ قرآن تبشیر وانذار کے لیے آسان کیا گیاہے۔

            قرآن سے ثابت کرتاہوں کہ قرآن وحدیث سے استنباطِ احکام صرف محققین ہی کا کام ہے،ہرشخص اِس کااہل نہیں۔پانچویں پارہ میں ارشاد ہے: ﴿وَاِذاَجاَءَ ہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِالْخَوْفِ اَذاَعُوْابِہِ وَلَوْ رُدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلَی اُولِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُمْ ﴾شان نزول اس آیت کا بالاتفاق یہ ہے کہ حضور کے زمانہ میں جب کوئی جہاد وغیرہ ہوتا تھاتو مواقع قتال سے جو خبریں آتی تھیں بعض لوگ بلاتحقیق ان کو مشہور کردیتے تھے ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔اس آیت میں ارشاد ہے کہ جب ان لوگوں کوکسی امر کی خبرپہونچتی ہے خواہ وہ امن کی ہو یا خوف کی تو اس کو مشہور کردیتے ہیں،اوراگریہ لوگ اس کو رسول کے اورجوان میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے حوالہ پررکھتے تو ان میں جواہل استنباط ہیں اس کو وہ حضرات پہچان لیتے کہ کون قابل اشاعت ہے کون نہیں۔

            دیکھیے! یہاں یَسْتَنْبِطُوْنَہُ فرمایا،اور یہ من تبعیضیہ ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو اہل استنباط ہیں، سب نہیں؛حالاں کہ یہ جنگ کی خبریں کوئی ازقسم احکام شرعیہ نہ تھیں بلکہ واقعاتِ حسیہ تھے جواحکام کے مقابلے میں عسیرالفہم نہیں۔ توجب معمولی واقعاتِ حسیہ کے متعلق قوت ِاستنباط کا اثبات صرف بعض لوگوں کے لیے کیا گیا ہے تو موٹی بات ہے کہ قرآن وحدیث سے احکام کا استنباط تو بدرجہامشکل ہو گا،اس کا اہل ہر شخص کیسے ہوسکتاہے۔ اسی طرح حضور کے زمانہ کا ایک دوسرا واقعہ ہے وہ یہ ہے کہ جب اول بار آیت ﴿ لَا یَسْتَوِیْ الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اُولِی الضَّرَرِوَالْمُجَاہِدُوْن﴾ الآیة۔ نازل ہوئی جس میں مجاہدین کی قاعدین پرتفضیل کابیان ہے تو اس وقت اس میں غیر اولی الضررنہ تھا،اس لیے صحابہ تک نہ سمجھ سکے کہ یہ حکم مخصوص ہے قاعدین غیر اولی الضرر کے ساتھ۔ حالاں کہ حقیقت لغویہ و نصوص، اعتبارعذرکی بناء پر قاعدین سے مراد یہاں وہی لوگ ہوسکتے تھے جو بلا کسی عذرکے جہادمیں شریک نہ ہوسکے ہوں ورنہ قاعدین توفی الحقیقت مقعدین ہیں، قاعدین نہیں۔ مگرباوجود اس کے صحابہ اس کو نہ سمجھ سکے اس لیے اس کے متعلق سوال کیا جس پرغیر اولی الضرر بعد میں نازل ہوا۔ اس سے صاف معلوم ہواکہ محض زبان دانی فہم ِاحکام کے لیے کافی نہیں ۔یہ تو ایک فرع کے متعلق تحقیق تھی۔اس کے متعلق اس سے زیادہ عمیق ایک اصل کی تدقیق ہے وہ یہ کہ ظاہراً اس میں ایک اشکال متوہم ہوتاہے کہ غیر اولی الضررقاعدین کا بیان ہے اورپھر نزول میں اس سے فصل کے ساتھ موخر۔ تواصلی کلام میں بیان ِمراد سے کمی کا احتمال رہتاہے، اس اشکال کے حل کے لیے انہوں نے فہم ِخداداد سے ایک اصل کلی کا استنباط کیاکہ بیان کے اقسام اوران کے جد اجدا احکام سمجھ کر ایسی عجیب تفصیل کی کہ حیرت ہوتی ہے۔ اس تفصیل کی بناء پر غیر اولی الضررکو بیانِ تغیر نہیں قراردیا بلکہ تفسیر فرمایا ہے اور یہ حکم فرمایا ہے کہ اگر بیانِ تغیر ہوتاتو اس کے اندر فصل نہ ہوتا بخلاف بیان تفسیر کے کہ اس کے اندر فصل جائز ہے۔ دیکھئے کیا ایسے اصول ہم جیسے موٴسس کرسکتے ہیں اس تقریر سے جواب کا خلاصہ یہ نکلاکہ تذکرو تذکیر کے لیے تو قرآن آسان ہے۔ باقی رہا استنباط فروع کا یا اصول کا یہ ایسا مشکل ہے جوہمارے بس کا نہیں۔ اس ایک ہی مسئلہ کو دیکھ لیجئے فرع کو بھی، اورا س کی بناء بیان تغیر وبیان تفسیر کوبھی،اگرفقہاء ان مسائل کو استنباط نہ کرجاتے تو آج کل کے معترضین میں سے کیا کوئی شخص اس پرقادر تھاکہ ان مسائل کا ایسا استنباط کرسکے۔“(ملفوظات حکیم الامت جلد ۱۰ ص۳۵۶تا۳۵۸)

قرآن سے نصیحت حاصل ہونا اور چیز ہے، استنباط اور اجتہاد اور چیز ہے:

            ”قرآن واحادیث کے متعلق دو چیزیں ہیں۔ ایک تو ان سے مسائل کا استنباط کر نا ہے، دوسراتذکر وتذکیر یعنی ترغیب وترہیب، تو قرآن کو جو آسان فرمایا گیاہے، وہ صرف تذکر وتذکیر کے لئے آسان فرمایا گیاہے، باقی رہا استنباط مسائل کا اس کے متعلق کہیں ارشاد نہیں کہ وہ آسان ہے۔ قرآن وحدیث سے استنباط احکام صرف محققین ہی کا کام ہے، ہر شخص اس کا اہل نہیں۔ پانچویں پارہ میں ارشادہے﴿وَاِذاَجاَءَ ہُمْ اَمْرٌ مِنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذاَ عُوْا بِہ وَلَوْ رُدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلی اُوْلیِ الْاَمْرِلَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَ مِنْہُمْ﴾(اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے خواہ امن کی ہو یاخوف ،تو اُس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر یہ لوگ رسول کے اور جوان میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں، ان کے اوپر حوالہ رکھتے تو ان کو وہ حضرات پہچان ہی لیتے جوان میں اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں) فرمایاہے اور یہ من تبعیضیہ ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ بعض لوگ جو اہل استنباط ہیں، سب نہیں۔(” جب معمو لی خبروں کی حقیقت سمجھ نے میں قوتِ استنباط شرط ہے تو امور علمیہ تو جدا رہے۔ “اشرف ا لتفاسیر جلد ۳ ص۳۵، ۳۶) پھر فرمایا کہ عوام ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا القُرْآنَ ﴾ (اور ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے) پیش کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ اس کے ساتھا للذکر آیا ہے۔ للا ستنباط والتحقیق نہیں آیا ہے۔ احکام کا سمجھنا اور بات ہے اور ذکر وتلاوت اور بات ہے۔“ (م:ج۱۵ فیوض الرحمن ص ۱۹۴)

            اِس ضمن میں خلافِ اصول تفسیر کو ایک مثال پر منطبق کرتے ہوئے دل چسپ لطیفہ بیان فرمایاکہ:”ایسی تفسیراورشرح کی ایک مثال بڑے کام کی یادآگئی ایک سرحدی ایک اسٹیشن پراترا اورایک کشمش کابورا جس میں قریب دومن کے وزن ہوگابغل میں تھا۔ بابو کو اپنا ٹکٹ دیا،بابونے دریافت کیا کہ خان صاحب اس بورے کا ٹکٹ یعنی بلٹی کہاں ہے؟ خان صاحب نے کہا کہ اس کاٹکٹ بھی یہی ہے بابونے کہا کہ پندرہ سیرسے زائداسباب بدون بلٹی لے جانا قانون کے خلاف ہے، تو خان صاحب کہتے ہیں گویاکہ قانون کی تفسیر بیان کررہے ہیں کہ پندرہ سیرکاقانون ہندوستانی کے لیے ہے وہ اتناہی بوجھ اٹھاسکتاہے ،ہمارایہی پندرہ سیرہے۔ دیکھوکیسی آسانی سے ہم اس کوبغل میں لیے کھڑاہے ،یہ آپ نے قانون کی شرح اورتفسیرکی ۔ توحاصل یہ ہواکہ کچھ قانون میں پندرہ سیرکا وزن مرادنہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ مسافرجتناآسانی سے لے جا سکے ۔تو کیا اس کو قانون کی تفسیرکہاجاسکتاہے ؟اورکیا یہ تفسیرقانون دان کے نزدیک مقبول ہے؟اسی طرح غیراہل فن کی قرآنی تفسیر ایسی ہے؛ جیسے اس ولایتی خان نے قانون کی تفسیر کی تھی ۔اوراگرکوئی قانون دان اس کو حقیقت سمجھائے تو بہت مشکل ہے۔ جب مخاطب کوفن سے مناسبت ہی نہیں تو اتناکہہ دیناکافی ہوگاکہ تواحمق ہے کیاجانے قانون کیا چیزہے؟اس کے بعدوہ ڈپٹی کلکٹر صاحب کہنے لگے کہ سود نہ لینے کی وجہ سے مسلمان تباہ وبربادہورہے ہیں ،اورترقی نہیں کرسکتے ہیں۔میں نے کہا کہ اگر ترقی ایسی ہی ضرورت ہے ،تو حرام سمجھ کربھی تولے سکتے ہیں۔اس سے بھی ویسی ہی ترقی ہوگی،ترقی تو لینے پر موقوف ہے نہ کہ اعتقادحلت پر؛ کیوں کہ ترقی کو کیا خبرکہ اس کا عقیدہ کیا ہے؟اس لئے اگرحرام سمجھ کرلیں تب بھی ترقی ہوسکتی ہے۔اس صورت میں یہ ہوگاکہ جرم میں کسی قدرتخفیف ہوجائے گی۔ فرق یہ ہوگا کہ اگر حرام سمجھ کر لے گاتوچورڈاکوسمجھاجائے گاسزا میں جیل خانہ یعنی محدودمدت کے لیے دوزخ میں جائے گااوراگرحلال سمجھ کرلیا یہ بغاوت ہوگی اس پر پھانسی کاحکم ہوگا یعنی غیرمحدودمدت کے لیے دوزخ میں جائے گایا دائم الحبس کیا جائے گا۔“(ملفوظات حکیم الامت جلد ۴ -الافاضات الیومیہ جلد ۴ ص۲۹۴)

             یہی وجہ ہے کہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بے اصول ترجمہ اور تفسیر کے متعلق حکم جاری کرنے کے ساتھ فی زمانہ تر جمہ کے شرائط بھی بیان فرمائے ہیں۔

 فتویٰ جامع شرائط مترجم

            ”مترجم کے لیے کم از کم ان چند اوصاف کا جامع ہونا واجب ہے۔ اول :عربی زبان خوب سمجھتا ہو کہ عربی سے ترجمہ کر سکے کیوں کہ ترجمے سے ترجمہ کرنے میں اصل سے بُعد ہو جاتا ہے۔ دوم :فنون عربیت (صرف و نحوو بلاغت و لغت)میں ماہر ہونا کہ ترجمے میں صیغہ و ترکیب و اسالیب کلام و دقائق وضع کی رعایت کرسکے کیوں کہ ان کے اہمال سے ترجمے میں سخت غلطیاں واقع ہو جاتی ہیں۔ سوم: اصطلاحات ِشرعیہ سے واقف ہو کیوں کہ مصطلحات کا ترجمہ معانی لغویہ سے کرنے میں مراد ِمتکلم کی بدل جاتی ہے۔ چہارم: حدیث کو شیوخ سے حاصل کیا ہو؛ تاکہ فقہیات کی تفسیر کرنے میں مخالفت ِصاحب وحی باثبات نزول کی لازم نہ آئے۔ پنجم: مذاہب مجتہدین پر نظر ہوتا کہ فقہیات کی تفسیر میں اجماع کی مخالفت نہ کرے۔ ششم: علم کلام وتفصیل عقائد اہل سنت جانتا ہو تاکہ اعتقادیات کی تفسیر میں بدعت سے بچ سکے۔ ہفتم: مفسرین ومحققین کے اقوال پیش ِنظرہوں تا کہ ناسخ و منسوخ ، زیادت و حذف وغیرہ پر اطلاع ہو جن میں نقل کی احتیاج ہے۔ ہشتم: اصول و معقول بقدر ضرورت (عبور:ف)کیا ہو،تا کہ عقلیات و شرعیات کی تفسیر میں تقریر استدلال پر قادر ہو ۔نہم: مواضع مغلقہ و مجملہ میں تاویل مشترک یا رفع تعارض یا بیان نسخ یا تفسیر مبہم یا تفصیل مجمل وغیرہ کے اظہار کے لیے صرف ترجمے پر اکتفا نہ کرے؛ بل کہ بطور شرح یا حاشیے کے امور مذکور ہ کی توضیح کر دے ۔دھم: جس زبان میں ترجمہ کرنا ہے اس میں پورا مذاق ہو۔ صرف استعدادِ کتابی پر قناعت نہ کرے، تا کہ مطالب قرآنیہ کو کافی عبارت میں ادا کر سکے ۔یازدہم: صحیح العقیدہ اورصالح الاعمال ہوتا کہ تفسیر میں تائید بدعت و ہوائے نفسانی، خیانتِ تبدیلی سے امن رہے۔ دوازدہم: علمائے محققین ومعاصرین کی ایک معتدبہ جماعت کی نظر میں مقبول و مسلم و معتبر ہو۔ سیزدہم: ذہین و ذکی ہوبلیدو غبی نہ ہو تا کہ اقوال ِمختلفہ میں سے مناسب قول کو ترجیح دے سکے، دقائق کلام کو سمجھ سکے، مخالفین کے شبہات کو شایستگی سے رفع کر سکے۔ چہاردہم: ترجمہ حامل متن ہو(کیوں کہ:ف)صرف تراجم کے شائع ہونے سے آئندہ اصل کے ضائع ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ پانزدہم: خود رائے (خود رائی کا خوگر:ف)ا ور متکبر نہ ہو، تا کہ جس مقام پر شرح صدر نہ ہو علمائے وقت کی خدمت میں رجوع کرنے سے عار و ننگ محسوس نہ کرے ۔اگر کوئی اُس کی لغزش پر اطلاع دے، اُس کو قبول کر کے اصلاح کر دے۔

             جو شخص شرائط مذکورہ کا جامع نہ ہوگا ،وہ ترجمے پر مبادرت کرنے سے عاصی وخاطی اور بانیٴ ضلالت و جہالت ہوگا۔ اور کئی ایسے شخصوں کا جمع کر لینا جن میں ایک ایک وصف ہوکافی نہیں ہے جیسا کہ اب تک انگریز ی اور بعض اردو ترجموں میں ہوا۔“

 قرآن شریف کا ترجمہ خوددیکھنا ،کیا گمراہی کا سبب ہوجاتاہے؟

            یہ بات تھی بے اصول ترجمہ اور تفسیر کرنے کی۔رہی بات ترجمہ قرآن کے مطالعہ کی،تو اِس حوالہ سے بھی حکیم الامت کی تحقیق نہایت اہمیت کی حامل ہے ”ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ جب کوئی کام بے قاعدہ اوربے اصول کیا جائے گاتو اُس کا انجام بجائے کسی منفعت اورنفع کے ضررہی ہوگا۔آج کل اسی کی ایک فرع یہ بھی ہے کہ عوام بھی قرآن کاترجمہ خوددیکھتے ہیں کسی استاذسے نہیں پڑھتے،پھراس میں فن نہ جاننے کی وجہ سے اگر شبہات پیداہوتے ہیں تو ان کوکسی جاننے والے سے پوچھتے بھی نہیں اس سے وہ شبہات ذہن نشیں ہوجاتے ہیں اوراچھے خاصے ملحدہوجاتے ہیں ان سے کوئی پوچھے کہ انگریزی جاننے کے واسطے کیوں استاذتلاش کرتے ہواورکیوں برسوں وقت ضائع کرتے ہو۔ زبان میں مناسبت پیدا کرنے کے لیے توصرف چھ ماہ کافی ہیں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال رکھ لو ۔یہ دس دس برس کیوں کالجوں اوراسکولوں میں دماغ مارتے ہو،توپھرقرآن شریف کے واسطے استاذاوروقت کی ضرورت کیوں نہیں؟ اس میں اوراس میں فرق کی کیاوجہ ہے مشاہدہ شاہد ہے کہ قرآن شریف کا ترجمہ گواردوہی میں ہوخوددیکھنا اورکسی استاد سے سبقاً سبقاً نہ پڑھنابجائے ہدایت کے سبب گمراہی کا ہوجاتاہے۔ دیکھئے اردو میں تواقلیدس بھی ہے،اس کی شکلوں وغیرہ کو بدون اس کے ماہر استاذ کے کیوں نہیں سمجھ لیا جاتا۔یقینی بات ہے کہ بدون استاذاورماہرفن کے توہمیشہ غلطیاں ہی کرے گا،جیسے ایک شخص نے اس شعرکا لفظی ترجمہ دیکھ کر اجتہاد بگھاراتھا           

دوست آں باشد کہ گیرد د ست دوست   درپریشان حالی ودرماندگی

(دوست وہ ہے جو دوست کی پریشان حالی او رعاجز ہونے کے وقت مددکرے)

            اس شخص کو ایک دوست کسی دوسرے دوست شخص سے لڑتا ہواملا جوبقدرقدرت انتقام بھی لے رہاتھا۔ یہ جوپہنچے انہوں نے جاکردوست کے دونوں ہاتھ پکڑلئے۔ بس احمق کی بدولت اس غریب کی خوب کافی مرمت ہو ئی اورخوب زدو کوب کیاگیا…آج کل کے نیچری بھی قرآن شریف کی ایسی ہی تفسیرکرتے ہیں، جیسے ایک شخص نے شیخ سعدی علیہ الرحمة کے شعر کی تفسیر کی تھی(جو اوپرمذکورہوئی) …بس یہی حالت آج کل کے مدعیوں کی ہے جو قرآن مجید کا ترجمہ دیکھ کر خوداجتہاد کرتے ہیں،وہ اجتہاد اس شعر کے سمجھنے والے سے کم نہیں ایسوں ہی کی بدولت یہ دین کی گت بنی ہے۔ ان کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے ایک بڑھیا کے گھرمیں شاہی بازجاگرا،لمبی چونچ خم کھائے ہوئے اوربڑے بڑے پنجے دیکھ کر کہنے لگی، ہائے!یہ کس طرح کھاتا ہوگا؟کیسے چلتا ہوگا؟ چونچ اورپنجے کاٹ ڈالے ،بیچارہ اپاہچ ہوکررہ گیا ۔تو جس طرح اس بڑھیا بدفہم، بدعقل نے اس باز کے ساتھ خیرخواہی اور ہمدردی کی تھی ایسی ہی ان لوگوں کی خیرخواہی اورہمدردی اسلام کے ساتھ ہے، اگرایسے ہی مجتہد اور عقلاء ہوں گے تو بس دین کا اللہ ہی حافظ ہے، ان کے متعلق کسی نے خوب کہا ہے۔                 

گربہ میروسگ وزیروموش رادیوان کنند         ان چنییں ارکان دولت ملک راویران کنند۔

(بلی کوصدرسلطنت اورکتّے کو وزیراعظم اورچوہے کو وزیرمملکت بنادیں توایسے ارکان دولت ملک کو ویران کردیں گے۔)(ملفوظات حکیم الامت جلد۵ص۱۱۶تا۱۱۸)

            مطالعہ ترجمہ کے باب میں حکیم الامت کا ایک فتوی ہے جسے یہاں ذکر کیا جاتاہے۔

فتوی متعلق خریداری ومطالعہ ٴتراجم وتفاسیر مخالفہ ٴ قواعد اہل حق

سوال -کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آج کل قرآن مجید کے بہت سے ترجمہ اور تفسیر شائع ہورہی ہیں جن میں کثرت سے غلطیاں اور مضامین خلاف شرع ہوتے ہیں ،ایسے ترجموں اور تفسیروں کا دیکھنا …اور ان پر اعتماد کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب- کچھ بھی جائز نہیں۔ دارمی میں حضرت عمر فاروقکا قصہ مذکورہے کہ ایک نسخہ توریت کا کہیں سے لاکر رسول مقبولﷺ کے حضور میں پڑھنا شروع کیا۔ آپ نہایت ناخوش ہوئے اور حضرت عمر نے عفو تقصیر کرائی۔ دیکھو حضرت عمر باوجود کہ خودنہایت فہیم اور بہت بڑے عالم تھے پھر رسول اللہ ﷺ کے رو بہ روپڑھنے میں توکسی قسم کا احتمال خرابی کا تھا ہی نہیں ۔ جہاں غلطی ہوتی آپ ضرور تنبیہ فرمادیتے، مگر پھر بھی- احتیاطاً کہ شاید اِس کے دیکھنے کے عادی ہوجاویں اور کسی جگہ لغزش ہوجاوے یا ان کو دیکھ کر اور(دیگر) ضعفاء کم علم، خرابی میں پڑجاویں ۔یا اورکچھ نہیں تو کم ازکم اضاعتِ اوقات تو ضروری اور یقینی ہے- آپ نے سختی کے ساتھ روکا (جب حضرت عمر کے ساتھ حضور ﷺ نے یہ برتاوٴ کیا،) تو اِس وقت ترجمہ اور تفسیر یں دیکھنے والے- کہ نہ ان کو کا فی علم (و)استعداد حاصل ہے، نہ اپنے عقائد او ر اعمال میں علی وجہ الکمال مستقیم ہیں- ان کے حق میں تو یقینا ایسی چیزوں کا مطالعہ مضرت محض وموجب مفاسد بیشمار ہوگا؛ پس ایسی حالت میں یقینا ایسی چیزوں کا مطالعہ کرنا ایسوں کے لیے ناجائز ہے ۔

            رہی خریداری، سو اول تو بڑامقصود اس سے مطالعہ ہے اور مطالعہ ناجائز ٹھہرا۔ اور پھر خریداری -کہ اس کا (یعنی مطالعہ کا:ف)سبب اور ذریعہ ہے- ناجائز ہوگا۔ دوسرے اکثر ایسے ترجمے شائع رسانی دین کے لیے نہیں کی جاتی ؛ بلکہ محض تجارت کی غرض سے(ہوتی ہے،لہذا،) اگر خریداری بند ہوجاوے تو یقیناایسے ترجموں کا سلسلہ منقطع ہوجاوے ۔تو خریداری حقیقت میں اس کی اس عمل ِناجائز کی اعانت ہے۔ اور حرام کی اعانت حرام: قال اللہ تعالیٰ ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔ پس خلاصہ یہ ٹھہرا کہ جس طرح ایسے ترجموں کا تصنیف کرنا گناہ ہے اسی طرح خرید نا اور دیکھنا سب ناجائز ہے ۔ اگر اِن کے مضامین پر اعتماد بھی نہ ہو، تب بھی بوجوہ ِمذکور ہ ایسے لوگوں کو جو علم دین میں کامل نہ ہو یہ امور ( غلطیوں اور خلاف شرع مضامین پرمشتمل ترجموں اور تفسیروں کا دیکھنا …اور ان پر اعتماد کرنا :ف)ناجائز ہیں اور اگر اعتماد بھی ہو تب توظلمت بعضہا فوق بعض کا مصداق اور معصیت ہونے میں زیادہ شدید ہے ۔ کتبہ محمد اشرف علی تھانوی عفی عنہ۔“

(جاری…)