آٹھویں قسط:
۱۱ جمادی الاخریٰ۱۴۴۲ھ/۲۵جنوری۲۰۲۱ء (حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانویکی تفسیر)
مولانا حکیم فخر الاسلام مظاہری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابتدائی صفحات میں یہ تذکرہ آچکا ہے کہ جب بعض ایسے تراجم و تفاسیر شائع ہونے لگے جن میں بکثرت مضامین قواعدِ شرعیہ کے خلاف تھے ،تو حکیم الامتکی جانب سے چھوٹے چھوٹے رسالوں کی اشاعت کی گئی،تاکہ عام مسلمانوں کو پہنچنے والی مضرتوں کو روکا جا سکے ۔اور اِس ضمن میں چندرسالوں کا بھی ذکر آ جا چکا ہے، مثلاً :”اصلاحِ ترجمہٴ دہلویہ“ ،”اصلاحِ ترجمہٴ مرزا حیرت“ ،”فتویٰ جامعِ شرائطِ مترجم“،”فتوی متعلق خریداری و مطالعہٴ تراجم وتفاسیر مخالفہ قواعدِ اہلِ حق“وغیرہ۔یہ سب تحریریں بیان القرآن کی تصنیف سے پہلے وجود میں آئیں۔ تفسیر بیان القرآن لکھنے کے بعد بھی ضرورت کے تحت متعلقہ موضوع کے حوالہ سے اصولی اِنحراف اور تفسیری بے اعتدالیوں کو روکنے کے لیے مزید تحریریں بھی منصہ شہود پر آتی رہیں۔مثلاً :”التقصیر فی التفسیر“(اِس کا بھی تعارف ماقبل میں آچکا ہے)،”حکمت شرائطِ تعلیم ترجمہ قرآن بہ عوام“،”لَنْ تَجِدَ لَسُنّةِاللهِ تَبْدِیلاً“،(۱)
”الہادی للحیران فی وادی تفصیل البیان “،(۲)
”تنزیہ علم الرحمٰن فی سِمَةِ النقصان“،(۳)
”ملاحة البیان فی فصاحة القرآن“۔اِن کے علاوہ امدادالفتاوی،مواعظ وملفوظات وغیرہ میں قرآن کریم کا ترجمہ بے احتیاطی سے کرنے ،بے علمی ،بے فہمی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی مضرتوں کو بیان کیا گیا ہے۔یہی نہیں؛بل کہ’ ’فہرست مضامینِ کتاب البرہان علی تجہیلِ من قال بغیر علم فی القرآن“کے عنوان سے باطل تفسیری مضامین کی ایک فہرست مرتب فرمائی گئی ہے۔(۴)
آئندہ صفحات میں اِن مضامین کا بھی تعارف پیش کیا جاتا ہے.
”حکمت شرائطِ تعلیم ترجمہ قرآن بہ عوام“
(ایک شخص مثلاً زید نے اسکولوں کے اندر بچوں کو اردو زبان سیکھ لینے کے بعداسکول کے استاذ کے ذریعہ قرآن کا ترجمہ پڑھنے کی سفارش کرتے ہوئے اپنے موقف کو متعدد دلائل سے مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی۔اسے ایک تحریری سوال کی شکل میں فکرمندوں کی ایک جماعت نے حکیم الامت حضرت تھانوی کی خدمت میں ارسال کر دیا۔سوال اور حکیم الامتکا جواب دونوں پیشِ خدمت ہے۔اصل مضمون میں قرآنی آیات اور احادیث ترجمہ کے بغیر مندرج تھے ،اب احادیث کا ترجمہ کر دیا گیا ہے اور آیات کا ترجمہ بیان القرآن سے لکھ دیا گیا ہے 🙂
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ عوام مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو -خاص کر اُن بچوں کو جو تجارت پیشہ اور نوکر پیشہ ہیں،تفہیم تعلیم کے زمانے میں فن معاش کی طرف رجوع لاکر قرآن مجید کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے تمام بچوں کومدرسوں میں زیرِ اہتمام علمائے اہلِ سنت (خاص بزرگوں مثلاً)مولانا مولوی رفیع الدین صاحب دہلوی یا مولانا مولوی شاہ عبدا لقادر صاحب محدث دہلوی یا مولانا مولوی شاہ اشرف علی صاحب سلمہ‘اِن تینوں تراجم میں سے کسی ایک ترجمہ کویا اُس کے سواجس کو ہمارے علماء اہلِ سنت پسند کریں- بغیر تعلیم صرف ونحو کے مدرسوں میں استاذ کے ذریعے الفاظ الفاظ(کذا) قرآن مجید اور مختصر اردو کے رسالہ پڑھنے کے بعد یا اردو زبان تکلف جاننے کے بعدضرور بہ ضرور پڑھانااور سکھاناچاہیے اورا ِس کے لیے ذیل کے دلائل پیش کرتا ہے:
قرآن مجید کی آیات: اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ(۵)
اِس آیت سے تعمیلِ احکام قرآن مجید فرض ہوا تو قرآن مجید کا سیکھنافرض کیوں کر نہ ہو؟
اِناَّاَنْزَلْنٰہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۶)
جب قرآن مجید کے نزول سے سمجھنے کا حکم ہو اتو سیکھنا کیوں کر ضروری نہ ہو ؟
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا(۷)
قرآن مجید غور کے ساتھ سمجھناہو ا،تو بغیر سیکھنے کے یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے ؟
کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہوَلِیَتَذَکَّرَ اُولُو االْاَلْبَابِ(۸)
(آیت)کے ذیل میں تفسیر فتح البیان میں ہے :یہ آیتِ کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ پاک نے قرآن شریف کو اسی واسطے نازل کیا ہے کہ اس کے معنی میں تفکر و تدبر کریں، نہ اس لیے کہ بدون تدبر کے فقط اس کی تلاوت کریں۔
وَاِنَّہ لَذِکْرٌ لَکَ َولِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَُ (۹)کے ذیل میں تفسیر ابنِ کثیر میں ہے تم سے اس قرآن کی پوچھ ہوگی اور تم اس پر عمل کرنے میں کیسے تھے اور اُس کے ماننے میں کیوں کر تھے؟
وَلَقَدْ ذَرَاْٴنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًامِنَ الْجِنِّ وَالانْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لاَ یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ أَعْیُنٌ لاَ یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ آذَانٌ لاَ یَسْمَعُوْنَ بِھَا أُولٓئِکَ کَالاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أضَلّ اُٴولٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ ۔(۱۰)کے ذیل میں تفسیر موضح القرآن میں ہے خدا اور رسول کو پہچاننا اور ان کے حکم سیکھنے ہر کسی پر فرض ہیں نہ کرے تو دوزخ میں جاوے۔
وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنّ قَوْمِی اتَّخَذُو الْقُرْآنَ مَھْجُوْراً(۱۱)کے ذیل تفسیر ابن کثیر میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول کریم ﷺکی طرف سے خبر دیتا ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب میری قوم نے قرآن مجید کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور یہ اِس لیے کہ مشرک قرآن مجید کی طرف کان نہیں رکھتے اور اُس کو نہ سنتے اور یہ ہجراں میں سے (یعنی ترک کردینے کے مترادف)ہے اور اُس کے ساتھ ایمان نہ لانا ور اُس کو سچا نہ جاننا اور اُس میں تدبیر نہ کرنا اور اُس کو نہ سمجھنااور اُس پر عمل نہ کرنا اور اُس کے امروں کو نہ ماننا اور اُس کے زواجر سے پرہیز نہ کرنا اور اُس سے پھر کور شعروں اور قصوں اور کہانیوں سرود وغیرہ کی طرف جانابھی اُس کے ہجراں میں سے ہے اور ایسے طریق کی طرف جانا جو رسول سے ماخوذ نہیں ہے یہ بھی قرآن کے ہجراں میں سے(یعنی ترک کردینے کے مترادف) ہے۔
(۸)(پ۲۳ع۱۲)ترجمہ:یہ(قرآن)ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اِس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اُس کی آیتوں میں غور کریں(یعنی اُن کے اعجاز میں بھی اُن کے مضامین کثیر النفع میں بھی جو حاصل ہے برکت کا)اور تاکہ(غور سے اُس کی حقیقت معلوم کرکے اُس سے)اہلِ فہم نصیحت حاصل کریں۔(ایضاً ج۱۰ ص۷)
احادیث شریف:
عَنْ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہ(رواہ البخاری)ترجمہ:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :”تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو تعلیماتِ قرآن سیکھے اور اُسے سکھائے۔اِس حدیث میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین شخص قرآن مجید سیکھنے اورسکھانے والوں کو ارشاد فرمایا ہے۔
عَنْ عُبَیْدَةَالْمُلَیْکِی وَکَانَتْ لَہ صُحْبَةٌ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ ”یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ!لاَ تَتَوَسَّدُوْ الْقُرْآنَ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلاَوَتِہمِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ وَالنّھَارِ وَ أفْشُوْہُ وتَغَنُّوْہُ وَ تََدَبَّرُوْا مَا فِیْہلَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ وَلاَ تَعْجَلُوْا ثَوَابَہ فَاِنَّ لَہُ ثَوَابًا(رواہ البیھقی)ترجمہ:حضرت عبیدہ ملیکی رضی اللہ عنہ- جنہیں صحبتِ رسول حاصل ہے-فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مقدس کو تکیہ بناکر نہ رکھواوردن اور رات کی گھڑیوں میں اُس کی تلاوت کرو جیسے اُس کی تلاوت کا حق ہے ، اُسے پھیلاوٴ اورخوش الحانی سے پڑھو اور اُس کے مضامین میں غورو فکر کرو ،تاکہ تم کامیاب ہو جاوٴ اُس کے ثواب میں جلدی مت کرو کیوں کہ اُس کا ثواب تو ملناہی ہے۔
اِس حدیث میں جناب ِنبی پاک ﷺ نے قرآن کو غور سے سمجھنے کا ارشاد فرمایا ہے بغیر سیکھنے کے غور ممکن نہیں ہے ۔
عَنْ حَارِثٍ الْاَعْوَرِ قَالَ: مَرَرْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَاِذَاالنَّاسُ یَخُوْضُوْنَ فِی الْاَٴحَادِیْثِ فَدَخَلْتُ عَلیٰ عَلیٍّ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہ فَاَٴخْبَرْتُہ فَقَالَ أَوَ قَدْ فَعَلُوْھَا ؟قُلْتُ :نَعَمْ،قَالَ: أمَا اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺیَقُوْلُ:اَٴلاَ اإِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَةٌ ،قُلْتُ: مَاالْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ؟قَالَ: کِتَابُ اللّٰہِ فِیْہِ نَبَأُ مَاقَبْلَکُمْ وَخَیْرُ مَابَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَابَیْنَکُمْ ھُوَالْفَصْلُ لَیْسَ بِالْھَزْلِ مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللّٰہُ وَمَنِ ابْتَغیٰ الْھُدیٰ فِی غَیْرِہأَضَلَّہُ اللّٰہُ وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ وَھُوَ الذِّکْرُ الْحَکِیْمُ وَالصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ ھُوَ الَّذِیْ لَا تَزِیْغُ بِہالْأھْوَاءُ وَلاَ تَلْتَبِسُ بِہ الأ لْسِنَةُ یَشْبَعُ بہالْعُلَمَاءُ وَلاَ یَخْلَقُ مِنْ کَثْرَةِ الرَّدِّ وَلاَ تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہ وَہُوَالَّذِیْ لَمْ تَنْتَہِ الْجِنُّ إِذَا سَمِعَتْہُ حَتّٰی قَالُوْا إِنَّاسَمِعْنَا قُرْآناً عَجَباً․یَہْدِیْ إِلَی الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہ مَنْ قَالَ بِہصَدَقَ وَمَنْ عَمِلَ بِہأُجِرَ وَمَنْ حَکَمَ بِہعَدَلِ وَمَنْ دَعَا إِلَیْہِ ھُدًی إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ (رواہ الترمذی والدارمی)
ترجمہ:حضرت حارث اعور سے مَروی ہے فرماتے ہیں کہ میرا گذر مسجد کے پاس سے ہو اتو دیکھتا ہوں کہ لوگ باتوں میں مشغول ہیں ۔چناں چہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس آکر انہیں (اس معاملے کی)اطلاع دی (جس پر )انہوں نے ارشاد فرمایا کہ کیا واقعی وہ لوگ ایسا کررہے ہیں؟میں نے (جواباً)کہا :ہاں!تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب ایک فتنہ بَپا ہوگا ۔تو میں نے پوچھا کہ ؛اے اللہ کے رسول !اُس سے نکلنے کی کیا شکل ہوگی؟ فرمایا: قرآن اللہ کی کتاب ہے اُس میں تم سے پہلے کے واقعات ،تم سے بعد کی خبریں اور تمہارے درمیان (امور موجودہ) کا فیصلہ ہے ،وہ فیصلہ کن کتاب ہے مذاق نہیں ہے۔جس کو کوئی متکبر مسترد کردے تو خدا اُسے ہلاک ونابود (ذلیل وخوار )کردے گااور جو کوئی اُس (قرآن )کے علاوہ میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ رب العزت اُسے ہدایتِ حق سے گا،اور وہ (قرآن)اللہ کی مضبوط رسی ہے اور وہی پُر ازحکمت نصیحت اور سیدھا راستہ ہے ۔ یہی وہ قرآن ہے جس کی وجہ سے خواہشات نہیں بھٹکتے ہیں اور جس میں زبانوں کا التباس نہیں ہوتا اور جس سے علما کا جی نہیں اُکتاتا۔اور بار بار پڑھنے سے یہ فرسودہ نہیں ہوتی،اُس کے نکتہائے یگانہ بے پایہ ہیں۔یہ وہ کتاب ہے جسے سُن کر جن یوں بول اُٹھے :ہم نے ایک تعجب خیز قرآن سُناجو ہدایت کی رہنمائی کرتا ہے چناں چہ ہم ایمان لائے ۔(یہ وہ کتاب ہے کہ) جو اُس کی رو سے بات کرے گا، سچ بولے گا۔جو اس پر عمل کرے گا، اُسے ثواب ملے گا۔جو اُس کے مطابق فیصلہ سنائے گا ،عدل و انصاف کرے گا۔جس نے لوگوں کو اُس کی طرف دعوت دی تو اُس نے سیدھے راستے کی طرف بلایا۔
اِس حدیث میں قابل غور یہ ہے کہ خاص کر فتنوں کے زمانے میں جناب رسالت مآب رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو قرآن مجید پکڑنے کا حکم تاکید شدید سے ارشاد فرمایا ہے تو ظاہر ہے کہ ہمارے زمانے میں خود اسلام میں نئے نئے گمراہ فرقے پیداہوکر فتنہ وفساد مچاتے پھرتے ہیں پھر اہلِ سنت کے لڑکے و لڑکیوں کو ترجمہٴ تعلیم ،قرآن مجید کی کیوں کر ضروری نہ ہو؟ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ (ہر مسلم مرد وعورت پر حصولِ علم فرض ہے) اس حدیث سے علمِ دین کا جاننا ہر ایک پرفرض ہوا تو علم دین میں تعلیم ِترجمہ ٴ قرآن مجید سب سے مقدم ہے ،پھر احادیث و تفاسیر و فقہ و عقائد سکھلانا بھی لا زمات سے ہے (لیکن تعلیم ِترجمہ ٴ قرآن مجید کے بعد۔ف)۔
ہندوستان کے مشہور و مستند علمائے کرام کے اقوال:شیخ الاسلام مولانا مولوی شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویاپنی کتاب ”فتح الرحمن“ کے دیباچہ میں فرماتے ہیں:”و مرتبہ ایں کتاب بعد خواندن متن قرآن و رسائل مختصر فارسی است یا فہم لسان فارسی بے تکلف دست دہد ۔و تخصیص صبیان اہل حرف (جمع حرفہ)وسپاہیان کہ توقع استیفاء علوم عربیہ ندارند۔ در اول سن تمیز ایں کتاب را بایں شان تعلیم باید کرد تاا ول چیزے کہ در جوف عالیشان افتند معنی کتاب اللہ باشد وسلامت فطرت از دست نہ رود و سخن ملاحدہ کہ بمرقع صوفیہ صافیہ مستتر شدہ عالم را گمراہی ساز ند فریفتہ نہ کند،ا را جیف (چیزہائے دروغ)معقولیان خام و سخن ہنود ان بے انتظام لوح سینہ را ملوث نہ سازد و نیز آنا نکہ بعد انقضاء شطر عمر (نیمہ جیزے) توفیق توبہ بایند وتحصیل علوم آلیہ (مثل نحو وصرف)نتوانند۔ایں کتاب ایشا نرا باید آموخت تا درتلاو ت حلاوت یا بند ومنفعت آں در حق جمہور مسلمانان متوقع است ان شاء اللہ العظیم اما درحق صبیان ومبتدیان خود ظاہر است چناں کہ گفتہ آمد ۔“
ترجمہ:قرآن پاک ناظرہ پڑھنے اور فارسی کے ابتدائی رسائل پڑھنے کے بعد جب فارسی زبان بے تکلف سمجھی جا سکے اُس وقت اِس کتاب کو پڑھنا چاہیے ۔خاص طور پر اہلِ حرفہ اور سپاہیوں کی اولاد جن کو زیادہ علوم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتااُن کو ابتداء سن تمیز میں ہی اِس کتاب کی تعلیم دے دینی چاہیے تاکہ پہلی چیز جو ان کے دلوں میں پڑے وہ کتاب اللہ کے معانی ہوں تاکہ اصل انسانی فطرت جس پر اُس کو پیدا کیا گیاہے وہ باقی رہے ۔ملحدوں اور بے دینوں کی فکری مو شگافیوں جو تصوف کالبادہ اوڑھ کرایک عالم کو گمراہ کر چکی ہیں وہ اُس کو اپنی طرف مائل نہ کر لیں ۔نیز کم سواد عقلیت پسند وں کی ٹامک ٹوئیاں اور ہندوٴوں کے افکار اُس کے دل ودماغ پر قبضہ نہ کر لیں۔وہ لوگ جن کو عمر کی ایک مدت گذارنے کے بعد توبہ کی توفیق ہوتی ہے اور وہ علوم کی تحصیل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یہ کتاب اُن کو بھی پڑھائی جائے تاکہ وہ بھی تلا وتِ کلام پاک کی حلا وت سے مستفید ہوں۔ویسے یہ کتاب جمہور مسلمانوں کے حق میں بھی ان شائاللہ مفید ثابت ہوگی۔بچوں اور مبتدیوں کے لیے اِس کی افادیت ظاہر ہے جس کا بیان اوپر آچکاہے۔
اس مضمون میں شاہ صاحب نے خصوصیت کے ساتھ پیشہ ور تمام مسلمانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کو بغیر تعلیم صرف ونحو کے ترجمہ قرآن مجید سکھلانے کے لیے صاف لفظوں میں ہدایت کی ہے ۔عیاں را چہ بیاں۔اور شیخ الاسلام مولانا مولوی شاہ عبد القادر صاحب دہلوی اپنی کتاب” موضح القرآن“ کے دیباچہ میں فرماتے ہیں: ”سننا چاہیے کہ مسلمانوں کو لازم ہے کہ اپنے رب کو پہچانیں اور اُس کی صفات جانیں اور اُس کے حکم معلوم کریں اور خدا کی مرضی و نامرضی تحقیق کریں کہ بغیر اِس کے بندگی نہیں اور جو بندگی نہ بجا لائے وہ بندہ نہیں ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پہچان آوے بتانے سے۔ آدمی محض تاوان پیدا ہوتا ہے ،سب چیز سیکھتاہے سکھانے سے۔ اور بتانے سکھانے والے ہر چند تقریریں کریں پر اُس کے برابر نہیں جو آپ کو اللہ نے بتایا۔اللہ کے کلام میں جو ہدایت ہے وہ دوسرے میں نہیں ؛پر کلامِ پاک اُس کا عربی ہے اور ہندستانی کو اِدراک اُس کا محال۔اِ س واسطے اِس بندہٴ عاجز عبد القادر کو خیال آیاکہ اب ہندی(یعنی اردو) زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کرے۔ اب کئی باتیں معلوم رکھئے :
ترجمہ کے متعلق تین باتیں:اول یہ کہ اس جگہ ترجمہ لفظ بہ لفظ ضرور(ی) نہیں۔ کیوں کہ ترکیب ہندی عربی سے بہت بعید ہے اگر بعینہوہ ترکیب رہے تو معنیٰ و مفہوم نہ ہوں۔دوسرے یہ کہ اس میں زبان ریختہ نہیں ہے ؛بل کہ ہندی متعارف(ہے) تاکہ عوام کو بے تکلف دریافت ہو ۔تیسرے ہر چند معنی قرآن اس سے آسان ہوئے لیکن اب استاذ سے سند کرنالازم ہے۔اول معنی قرآن بغیر سند معتبر نہیں ۔دوسرے ربطِ کلام ماقبل ومابعدسے پہچاننا اور قطعِ کلام سے بچنا بغیر استاذ کے نہیں آتا چناں چہ قرآن زبان عربی ہے پر عرب بھی محتاجِ استاذ تھے۔
مولانا مولوی نواب صدیق حسن خان صاحب اپنی کتاب ”ترجمة القرآن“ کے دیباچہ میں فرماتے ہیں: سب امت پر یہ بات لازم ہے کہ جس طرح سے اول اپنے بچوں کو الفاظ قرآن پڑھاتے ہیں اُسی طرح اس بات کا بھی اہتمام رکھیں کہ جو بچہ حرف شناس ہو کر اردو زبان پڑھنے سمجھنے لگے اُس کو اول” موضح القرآن“ کا سبق دیں، تاکہ وہ قرآن شریف کے لفظی معنی سمجھ لے۔پھر صفحہ ۱۴ میں فرماتے ہیں :معلوم ہو کہ قرآن کا نازل ہونا نِرے پڑھنے ہی کے لیے نہیں ہے؛ بل کہ اس لیے ہے کہ اس کو پڑھ کر اس کا مطلب سمجھیں۔ یہ بات ہر پڑھے اور ان پڑھے پر واجب ہے۔ پھر صفحہ ۱۹ میں فرماتے ہیں :بڑے شرم کی بات ہے کہ سارا قرآن تو حفظ ہو، نوکِ زبان پر ہو، طوطے کی طرح رات دن اس کو رٹے؛ مگر معنی اُس کے معلوم نہ ہوں۔(انتہیٰ)
ان تمام علما کے اقوال سے بغیر صرف ونحو کے عوام مسلمان لڑکوں کو ترجمہ قرآن مجید سکھلانا صاف لفظوں میں واضح ہے ۔بڑے تعجب کی بات ہے کہ ترجمہ قرآن واحادیث وتفاسیر کے ترجمے جو عالموں نے تالیف کیے ہیں اُس کو بطورِ خود بغیر استاذ کے پڑھنے میں کسی کو ضرر کاا حتمال نہیں ہوتا؛مگر وہی چیز استاذ کے ذریعے پڑھنے میں ضرر کا اندیشہ کرنا نہایت تعجب انگیز ہے ۔
(یہ زید کے دلائل تھے)بر خلاف اِس کے،عمر کا یہ قول ہے کہ ترجمہ قرآن شریف بغیر صرف ونحو کے مدرسوں میں استاذ کے ذریعے سیکھنے والے دین اسلام سے گمراہ ہو جائیں گے، گو وہ علمائے اہل سنت کے اہتمام سے بھی کیوں نہ سکھلائی جائیں ۔
اِس لیے اب ہم موٴدبانہ علمائے کرام سے گذارش کرتے ہیں کہ ان ہر دو کے اقوال پر نظر غائر ڈال کر مدلل طور سے بیان فرمائیں۔بینوا وتوجروا۔
الملتمس:۱-اظہر ما شمس الدین (صاحبِ رئیس وانمباڑی)۔۲-ٹی امین الدین (صاحب مٹھ وار رئیس وانمباڑی)۔۳-ملیالم حاجی ابراہیم(صاحب رئیس وانمباڑی)۔۴-فخرالدین لعل باشاہ (صاحب رئیس وانمباڑی)۔
جواب: ومنہ الصدق والصواب۔تعلیم قرآن مجید کا سب کے لیے- صغار(چھوٹے) ہوں یا کبار(بڑے) ،عوام ہوں یا خواص- مطلوب ومامور بہ ہونا ظاہر ہے اور اس میں تعلیم ِترجمہ(قرآم کریم کے ترجمہ کی تعلیم) بھی داخل ہے اس لیے کہ عجم کا ترجمہ سے وہی تعلق ہے جو عرب کاا صل سے اور عوام عرب کو کہیں اس کی تعلیم سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا ۔ اس لیے عوامِ عجم کو بھی تعلیم ترجمہ سے مستثنیٰ نہ کیا جاوے گا۔اور روایت لا تعلموھن سورہٴ یوسف کی صحت ثابت نہیں ہوئی؛ البتہ اگر کہیں متعلم کی کج فہمی سے اُس میں مفاسد پیدا ہونے لگیں، تو خود اُن مفاسد کاا نسدادکیا جاوے گا۔اور اِس انسداد کی تدابیر امورِ اجتہاد ہیں جو مبنی ہیں تجارب (تجربوں ) پر کہ اُن میں مصلحین کی آراء مختلف بھی ہو سکتی ہیں۔ سو اِس کے اصول احقر اپنے تجربہ کے موافق لکھتا ہے:
تعلیم ترجمہ قرآن مجید کے اصول:۱-تعلیم کنندہ عالم ،کا مل وحکیم عاقل ہو کہ ترجمہ کی تقریر اور مضامین تفسیر کے انتخاب میں مخاطب کے فہم کی رعایت رکھے۔
۲-متعلم خوش فہم و منقاد ہو ،معجب بالرائے و خود پسند نہ ہو ،کہ تفسیر سمجھنے میں غلطی نہ کرے اور تفسیر بالرائے کی جرأت نہ کرے۔
اگر مضمون متعلم کی سمجھ سے باہر ہو:۳-اگر کوئی مضمون متعلم کے تحمل فہم سے بالا تر ہو اُس میں معلم اُس کووصیت کرے کہ اِس مقام کا ترجمہ محض تبرکاً پڑھ لو۔ یا اجمالاًاِس قدر سمجھ لو اور آگے تفصیل میں فکر مت کرو۔
اگر معلم میں مذکورہ خوبیاں نہ ہوں: اسی طرح اگر معلم اوصافِ مذکورہ (نمبر)۱- کا جامع میسر نہ ہو تو وہ بھی ایسے مقامات کی بالکل تقریر نہ کرے، صرف ترجمہ کی عبارت پڑھاوے۔ چناں چہ ہمارے قصبات میں اکثر لڑکیاں قرآن مجیدکا ترجمہ پڑھتی ہیں؛ مگر اِس طرح کہ صرف عبارت پڑھ لی، نہ معلمہ تفسیر کی تقریر کرتی ہے ،نہ متعلمہ اُس کی تحقیق ۔محض برکت حاصل کرنا اور بے تکلف جتنا اِجمالاً سمجھ میں آجاوے اُس کا سمجھ لینامقصود ہوتا ہے۔اِس کے بعد جب یہ مبتدی قابل تفسیر سمجھنے کے ہو جاویں، خواہ کچھ کتابیں پڑھنے سے ،خواہ معلومات کی وسعت سے، خواہ علماء کی صحبت سے، اُس وقت مکرر کسی عالم محقق سے ترجمہ مع حل کے پڑھ لیں،ابتدائی پڑھنے پر کفایت نہ کریں۔
سوال میں مذکور دلائل کا اِجمالی جائزہ:اور سوال میں جتنے دلائل اِس تعلیم کی مطلوبیت کے لکھے ہیں ،قواعدِ شرعیہ سے مقید ہیں اُن ہی شرائط کے ساتھ(جو مفاسد کے اِ نسداد کے حوالے سے مذکورہ بالا نمبروں میں ذکر کی گئیں ہیں)۔چناں چہ:
۱- شاہ عبدالقادر صاحب کے کلام میں بعض شرائط کی باختلافِ عنوان تصریح بھی ہے (جو”ترجمہ کے متعلق تین باتیں“کے تحت تیسرے نمبر میں درج ہے)۔
اسی طرح بے استاذ جو تراجم وتفاسیر مطالعہ کرتے ہیں اُن کے لیے بھی بعض محققین انہی شرائط کو ضروری کہتے ہیں۔ اور جہاں ایسا استاذ نہ ملے ،وہاں یہ رائے دیتے ہیں کہ:
۱- اول معلوماتِ دینیہ ضروریہ کو حاصل کر لو تاکہ علومِ قرآن سے مناسبت ہو جاوے ۔
۲-پھر مطالعہ کے وقت جہاں ذرا بھی شبہہ رہے، وہاں فکر سے کام نہ لیں؛ بل کہ نشان بنا کر جب کوئی محقق عالم ملا کرے ،اُس سے حل کر لیا کریں۔
اور جو حضرات مانعین ہیں(ترجمہ قرآن کی تعلیم سے روکتے ہیں) اُن کا منع فرمانا بنابر اُن کے مفاسد کے ہیں جو اُس میں مشاہد ہیں، جس کا سبب اُن شرائط کی رعایت نہ کیا جانا ہے(جن کا انسداد مفاسد کی تدابیرِ ثلاثہ میں ذکر ہو۔نیز شرائط کے فقدان کے وقت مذکورة الصدر دو باتوں کا لحاظ نہ کیا جانا ہے ۔(۱۲)
پس اُن سے بھی (جوترجمہ قرآن کی تعلیم سے روکتے ہیں)حسنِ ظن رکھنا واجب ہے۔ اور اُن کا اِ ختلاف محض صوری(یعنی ظاہری) اختلاف ہے۔ اور اِس اختلافِ موضوع کے سبب فی الواقع دونوں قولوں میں تناقض (اور ٹکراوٴ)نہیں۔البتہ قاعدہ شرعیہ یہ ہے کہ:
فوائد اور مفاسد کے اِجتماع کے وقت شرعی قاعدہ: جس عمل میں مفاسد غالب ہوں، اگر وہ غیر مطلوب ہو تو نفسِ عمل سے منع کردیا جاتا ہے۔اور اگر مطلوب ہو،توعمل سے منع نہیں کیا جاتا ہے؛ بل کہ اُن مفاسد کا انسداد کردیا جاتا ہے۔ اِس لیے مانعین کی خدمت میں یہ قاعدہ پیش کر کے مشورةًیہ عرض ہے کہ تعلیم کی تواجازت دی جاوے اور مفاسد کا انسداد کر دیا جاوے ۔اور اگر طریقِ مذکور انسداد کا کافی نہ ہو تو دوسرا طریق مناسب تجویز فرما دیا جاوے۔واللہ اعلم۔۲۵/صفر ۱۳۳۹ھ۔ (۱۳)
رسالہ الہادی للحیران فی وادی تفصیل البیان
اِس رسالہ کا تعارف وپس منظر خود حکیم الامتکی درج ذیل تحریر سے واضح ہو جائے گا:
”بعدا لحمد والصلوة، اما بعد:ایک کتاب تفصیل البیان فی مقاصد القرآن کی(جس میں مضامین مختلفہ کے اعتبار سے قرآن مجید کی تبویب کی ہے)ناتمام جلدیں اظہار رائے -بصورت تقریظ -کی غرض سے آئیں ۔اُس پر میں نے بھی کچھ لکھا اورمیرے ایک دوست نے بھی لکھا اور مصنف صاحب کے پاس بھیج دیا۔ مفید ہونے کی وجہ سے اِس مجموعہ کی- مع خط مصنف صاحب -نقل بھی رکھ لی اور اُس کا ایک لقب بھی رکھ دیا یعنی ”الہادی للحیران فی وادی تفصیل البیان“۔ آگے اس کو ملا حظہ فرمایئے۔ اشرف علی ۲۱/رجب ۱۳۵۰ھ۔
خط مصنف صاحب:مکرمی معظمی جناب مولانا صاحب دامت برکاتہم۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘۔اِس عریضہ کے ساتھ ایک جلد تفصیل البیان فی مقاصد القرآن ہر چہار حصہ خدمت والا میں اِرسال کر رہا ہوں۔ قرآن کریم کی کوئی آیات مطلوبہ نکالنے کے لیے عربی میں متعدد کتابیں موجود ہیں؛ لیکن جہاں تک مجھے علم ہے کلامِ الٰہی کے مطالب ومعانی کے اعتبار سے کوئی ایسی جامع کتاب اب تک تیار نہیں کی گئی جس سے علماء و واعظین اور عام قارئین کو بلا دقت ہر مسئلہ کے متعلق قرآن کریم کی جملہ آیات ایک جگہ مل جائیں ۔ اور ورق گردانی اور دیدہ ریزی کی ضرورت نہ رہے ۔مدت گذری مجھے اِس قسم کی خدمت کا خیال پیدا ہوا؛ مگر کام کی عظمت اور محنت طلبی بار بار ہمت توڑ دیتی تھی۔ آخر اللہ کا نام لے کر میں نے اِس کام کو- جس کی تکمیل کسی تنہا انسان سے بے حد دشوار تھی، اَلسَّعْیُ مِنّا وَالاِْ تْمَامُ مِنَ اللہِ کے بھروسہ پر- شروع کردیا۔ خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اُس نے مجھے اپنے کلامِ مقدس کی خدمت کی توفیق دی۔ اِس کہن سالی اور ضعیفی کے عالم میں اپنے فضل سے مجھے جوانوں کی سی ہمت عطا فرمائی اور میں نے اپنے بساط اور قابلیت کے مطابق اِس کام کو انجام تک پہنچا دیا۔ فالحمد علی ذالک۔
آپ کتاب کو ملاحظہ فرمائیں گے تو آپ پر روشن ہوجائے گا کہ استدلالات اور امر ونواہی،قصص و حکایات،بصائر وعِبَر، غرض کلام الٰہی کے ہر پہلو کے متعلق آیات ایک ایک جمع کردی گئی ہیں۔اور مطالب کی فہرست میں حتی الوُسع جامعیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں یہ عرض کردوں کہ جو کتاب آپ کی خدمت میں ارسال کی جارہی ہے، آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ دو جلدیں ابھی زیرِ طبع ہیں اور دو زیرِ تحریر ہیں۔ اِس لیے جو مطالب آپ کو اِس طبع شدہ جلدوں میں نظر نہ آئیں اُن کی مجھے اطلاع دیجیے ،یقین رکھیے وہ ان شاء اللہ بقیہ جلدوں میں فراہم کر دیئے جائیں گے۔اِس مختصر سے عریضہ میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اِس کتاب کی افادی حیثیت کو بیان کرنا مشکل بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ کتاب آپ کے سامنے ہے آپ جیسے اربابِ علم وبصیرت خود اُن(اِفادی حیثیتوں) کے حسن و قبح کا اندازہ فرماسکتے ہیں۔ اِس عریضہ کے اِرسال سے مدعا یہ ہے کہ آپ ازراہِ عنایت جلد سے جلد اپنی پہلی فرصت میں اِس مخلصانہ دینی خدمت پر ایک تقریظ لکھ کر مجھ پر احسان فرمائیں۔مجھے اِس کتاب سے جلبِ منفعت کا خیال نہیں؛ بل کہ صرف کلامِ الٰہی کی خدمت اور اپنی مغفرت کا خیال اِس کی ترتیب و اشاعت کا محرک ہوا ہے۔
غرض نقشے است کزمایا دماند
کہ ہستی را نمی بینم بقائے
مگر صاحب دلے روز بہ ہمت
کند درکار ایں مسکیں دعائے(۱۴)
مجھے امید ہے کہ آپ اِس کو ملاحظہ فرماکر اس کی رسید ہی میں مختصر اپنی رائے بھیجیں گے تاکہ مسلمانوں کو اس سے خریدنے کی ترغیب ہواورقرآن حکیم کے پڑھنے اور سمجھنے کا فرق عام ہوجائے۔۱۷ نومبر۱۹۳۱ء۔
جواب احقرازاشرف علی عفی عنہ :بخدمت مکرمی محترمی دامت الطافہم۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔
نامہ نامی وہدیہ گرامی بصورت” تفصیل البیان“ باعثِ منتِ متضاعفہ ہوا ۔میں کئی وجہ سے خجل (شرمندہ)ہوں۔
اول :اِس لیے کہ جو خدمت میرے سپرد فرمائی گئی ،میں اُس کا اہل نہیں ۔اِسی لیے اِس زمانہ میں ہزاروں تصانیف ِ جدیدہ شائع ہورہی ہیں ، میں نے کبھی ابتداء ًکسی کے متعلق اظہارِ رائے کی جرأت نہیں کی ؛لیکن بعد امر کے ،اِمتثا ل نہ کرنا اُس سے زیادہ خجلت (شرمندگی) کا موجب تھا، اِس لیے اِس خجلت کو گوارا کیا۔
دوسرے :اِس لیے کہ اِس خدمت کی بجاآوری میں دیر ہوئی جس کا سبب علاوہ عدمِ اہلیت کے، فرصت کا فقدان ہے جس کا تعلق مشاہدے سے ہے۔
تیسرے :اِس لیے (اور یہ سب خجلتوں سے اشد ہے)کہ وہ خدمت حسبِ مرضی ِعالی نہ کرسکا؛ مگر میں دینی حیثیت سے ا س میں معذور ہوں جو اِس حیثیت سے ظاہر ہے:”یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوا کُوْنُوا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلیٰ اَٴنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیّاً اَوْ فَقِیْراً فَاللّٰہُ اَوْلیٰ بِھِمَا فَلَاتَتَّبِعُوا الْھَوَیٰ اَنْ تَعْدِلُوا(الایة )(۱۵)
یہ سب خجلتیں جمع ہوکر حافظ کا یہ شعر یاد دلاتی ہے۔
زدست کوتہ خود زیر بارم کہ از بالا بلند ان شرمسارم(۱۶)
(اِس تمہید کے بعد” تفصیل البیان“ پر تبصرہ فرماتے ہیں:)دیباچہ میں:
۱-مقصود بالبقاء قومیت کو بتایا ہے۔
۲-فقہ کو بیکار بتایا ہے۔
۳-حدیث کو صرف قرآن کی تفسیر قرار دیا ہے جس سے متبادر ہوتاہے کہ اس سے مستقلاً احکام ثابت نہیں ہوتے۔
۴-قرآن کا حاصل قومی انحطاط کے بواعث اور ترقی کے وسائل کی طرف توجہ دلانا کہا ہے۔
۵-اہلِ سیاست بلا کسی شرط وقید کے مسائلِ سیاسیہ کو قرآن سے سمجھنے کی اجازت دی ہے اور اسی غرض سے قرآن مجید کی یہ تبویب کی گئی ہے۔
۶-آگے کچھ کتابوں کے نام لکھے ہیں جن سے اپنی اس کتاب میں مدد لی ہے جس میں یہ اقرار ہے کہ ان کتابوں میں جو کام کیا گیا ہے وہ اور نوع کا ہے اور اس کتاب میں اور نوع کا اتنا خود اقرار ہے۔ باقی اس سے زیادہ تفصیلی فرق اُس وقت معلوم ہو سکتا ہے جب اُن کتابوں کو دیکھا جائے۔ اتنا اس وقت بھی کہا جا سکتا ہے کہ جن کی یہ کتابیں ہیں بعض تو اُن میں قابلِ اقتداء ہی نہیں۔ اور” جواہر القرآن“ کی نسبت بعض دیکھنے والے ثقات سے سنا ہے کہ اُس میں صرف حمد وثنا کی آیات بطورِ ورد کے جمع کی ہیں۔ نہ تمام قرآن کا اِستیعاب مقصود ہے ،نہ ترتیب ِ ابواب، نہ اثباتِ احکام۔ اور اگر کسی قابل اقتداسے ایسا کرنا ثابت ہو، تو اُس زمانے میں کسی مفسدہ کا احتمال نہ ہوگابخلاف اِس زمانے کے ،کہ جس میں بعضے یہاں تک خیال ظاہرکررہے ہیں کہ بجائے ترتیبِ حاضر کے ترتیبِ نزولی پر قرآن کو مرتب کرنا چاہیے۔سواِس تبویب میں ایسے خیالات کی تقویت ہے، اس لیے ایک کا قیاس دوسرے پر صحیح نہیں ۔ بہرحال ! اس کتاب میں اُن کتابوں کی اِقتدا کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔
۷-آگے موضوعات کی فہرست میں حب الوطنی کی ترغیب اور سرمایہ داری کی مذمت کو مثال کے طور پر لیا ہے، حالاں کہ اِن الفاظ کا جو اِس وقت مفہوم ہے قرآن مجید کو اس سے مس بھی نہیں، تو غیر مدلول قرآنی کو اس کا مدلول بنانا ایک نوع کی تحریف ہے۔
۸-آگے عوام کے نفع کے لیے ترجمہ کرنے کو منا سب بتلایا گیا اور نفع وہی تھا جس کا ذکر ۵-میں ہوا ہے تو اِس میں عوام کو قرآن مجید سے اخذِ مسائل کی اجازت دی گئی ہے جس کے مفاسد مشاہد ہیں۔
یہ مختصر و مجمل کلام ہے دیباچہ کے بعض اجزاء پر اس کے بعد خط کے اجزاء کے متعلق کچھ معروض ہے۔
۹-خط میں اس تدوین کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک مضمون کی آیتیں ایک جگہ مل جائیں گی۔ سو،اول تو اِس غرض کے لیے وہ کتابیں بھی کافی ہیں جن میں مضامینِ قرآن کی فہرست مع نشانِ مقام لکھی ہے۔ صرف جامع کو تھوڑی سی مشقت جو زیادہ دشوار نہیں برداشت کرنے کی ضرورت ہوگی ۔دوسرے اگر مصلحت کے ساتھ کوئی مفسدہ بھی ہو تو سمعاًوعقلاً(نقلی و عقلی دلائل کی رو سے)مفسدہ کو موٴثر قرار دے کر اُس سے تحرز(بچنے) کا حکم دیا جائے گا اور مصلحت کا اہتمام نہ کیا جائے گا۔ خصوص جب کہ وہ مصلحت دوسرے سالم طریق سے بھی حاصل ہو سکے۔
۱۰-آگے تحریر فرمایا گیا ہے کہ جو مطالب اِن جلدوں میں نظر نہ آئیں ،اطلاع دیں، بقیہ جلدوں میں فراہم کردیے جائیں گے۔ اِس کی نسبت یہ عرض ہے کہ ایسے مطالب کی فہرست طویل ہے آسانی سے ضبط نہیں ہوسکتی۔ اِس پر اِطلاع کا صرف یہی طریقہ تھا کہ کل جلدیں اور اُن کی فہرستیں سامنے ہو ں۔(چوں کہ وہ سامنے نہیں) جس(کی وجہ اُن مطالب پر نظر کرنے) سے اِس وقت معذوری ہے۔ اوربدون اِس (نظر کرنے)کے یہ رائے قائم کرنا -کہ انتخاب مکمل ہے یا غیر مکمل ہے- دشوار اور سخت دشوار ہے۔ البتہ موجودہ فہرستوں میں ”حب الوطنی“ و”سرمایہ داری“ وغیرہما کے موضوعات دیکھ کر شبہہ ہوتا ہے کہ شاید اِس مذاق کا دوسرے خاص مسائل میں بھی اثرہواہوجیسے ہدایت بالجہاد لمحض الدین(جہاد خالص دین کے لیے ہونے کے بجائے حب وطن کے لیے) یا اِسترقاق یا صدورِمعجزات و کرامات (وغیرہ اِس جلد کی طرح)اور بقیہ(دیگر) جلدوں میں بھی یہ موضوعات نہ ہوں۔
اور بہت سے مسائل اِس قسم کے ہیں جن میں عقلائے زمان، علما ادیان سے اختلاف رکھتے ہیں اگر اُن(دیگرجلدوں) میں بھی نہیں ہیں، تو انتخاب نہ جامع ہے، (کیوں)کہ یہ اجزاء خارج رہ گئے۔ اورنہ مانع ہے،(کیوں) کہ ”حب الوطنی“ و” سرمایہ داری“ وغیرہما داخل ہوگئے۔
۱۱-آگے حسنِ نیت کا ذکر فرمایا ہے۔ اُس میں کلام کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ البتہ اِس قدر عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ قانونِ الٰہی میں اجر مطلق نیت پر موعود نہیں؛ بل کہ عمل کا ماذون فیہ ہونا بھی شرط ہے۔ اور ابھی تک اِس کا ماذون فیہ ہونا سمجھ میں نہیں آیا، جیسا کہ مفصلاًمعروض ہوا۔
۱۲-اِس کے بعد تقریظ کے لیے فرمایا گیا ہے۔ اِس میں وہی عذر ہے جو اِس عریضہ کے ابتدائی حصہ میں معروض ہوا۔ یعنی تقریظ شہادت ہے اور شہادت میں میرا معذور ہونا اوپر کی تفصیل سے ظاہر ہے۔
آخر میں درخواست ہے کہ چاروں جلدیں امانت رکھی ہیں اگر محصول کے ٹکٹ بھیج کر مجھ کو بھیجنے کی اجازت دی جاوے، تو کسی مستحق کے پاس پہنچ جائیں گی۔ میں نے احتیاطاًاپنے ایک دوست کو بھی اُن کا خیال حاصل کرنے کے لیے یہ جلدیں دکھلائی تھیں۔اُن کی رائے بھی ملاحظہ(سے) گذرے گی جو جدا ورق پر مرقوم ہے۔ گو لہجہ اُس کا میری تحریر کے لہجہ سے زیادہ صاف ہے؛ لیکن نفسِ مقصود کے اعتبار سے بالکل پُر ازانصاف ہے۔ اب متکلم ومخاطب و غائب سب کی نیت سے اِس دعا پر اِس معروضہ کو ختم کرتا ہوں۔اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حقّاًوَّارْزُقنَا اِتِّبَاعَہ وَالْبَاطِلَ بَاطِلاًوَّارْزُقْنَا اِجْتِنَابَہ۔ والسلام از تھانہ بھون اول عشرہ اخیر ۵ رجب ۱۳۵۰ھ(۱۷)
تحریر بعض احباب(۱۸):تفصیل البیان پر تنقید
حامداًومصلیاًومسلماً!اما بعد:
میں نے کتاب” تفصیل البیان فی مقاصد القرآن“ کا دیباچہ اور مصنف صاحب کا وہ خط- جو کتاب کے ہمراہ تھا- مطالعہ کیا۔اور اُس غرض وغایت پر مطلع ہوا جو مصنف صاحب نے اِس کتاب کی تصنیف میں مد نظر رکھی ہے،نیزمیں نے کتاب کے بعض مقامات کو بھی دیکھا۔ اُن سب کے دیکھنے سے میں یہ سمجھاہوں (اور اِس سمجھنے میں معذور ہوں)کہ مصنف صاحب اِس کتاب کی تصنیف میں صرف وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاً۔(۱۹)
کے مصداق ہیں۔ اور فی نفسہ نہ اُن کا مقصد صحیح ہے اور نہ جو کام انہوں نے کیا ہے وہی درست ہے۔ہم یہ مان سکتے ہیں کہ مصنف صاحب نے جو کچھ کیا وہ نیک نیتی سے کیا ؛لیکن یہ ضرور(ی) نہیں کہ جو کام نیک نیتی سے کیا جاوے وہ درست بھی ہو یا کم از کم (یہ ہوکہ)اُس کے کرنے والے کو معذور سمجھاجاوے(یہ دونوں باتیں ضروری نہیں )کیوں کہ وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاً،اِس پرشاہد ہے کہ اشخاص معہودین (جو آیت کے مورد ہیں )اپنے کام کو اچھا سمجھ کرکرتے تھے ؛مگر اِس کے ساتھ ہی اُن کو معذورقرار نہیں دیا گیا ؛بل کہ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیوٰةِالدُّنْیا(۲۰)
فرمایاگیا پس ثابت ہواکہ محض نیک نیتی ہر حالت میں عذر نہیں ہوسکتی ۔
اب رہی یہ بات کہ مصنف صاحب کا مقصد فی نفسہصحیح نہیں ،سو، اِس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں تک میں مصنف صاحب کے بیان سے سمجھ سکا ہوں ،اُن کا مقصد یہ ہے کہ:
۱- وہ اس طریق سے قوم کے لیے ایک مجموعہ آداب ملی مرتب کرناچاہتے ہیں؛ لیکن نہ اِس غرض سے کہ مسلمان تصحیحِ عقائد و اصلاحِ اعمال، اخلاق سے حق تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کرسکیں؛(بل کہ)محض اس لیے کہ اُن میں قومی اتحاد پیداہواور اِس سے اُن کو سیاسیات میں نفع پہنچے۔ اور اِس بنا پر ،میں نہایت بجا طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے اس دنیاوی مقصود میں بیِّن طور پرضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیوٰةِالدُّنْیا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاًکے مصداق ہیں۔اب رہی یہ بات کہ جو کام انہوں نے کیاہے وہ بھی درست نہیں ،سو،اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے کلام بلیغ اور معجز کو پارہ پارہ کرکے لوگوں کے سامنے ایسی شکل میں پیش کیاہے جس سے بجائے اِس کے کہ لوگوں کو اُس کی طرف رغبت ہو ،اُلٹی وحشت ہوگی۔ کیوں کہ جب وہ ناتمام فقرے اور غیر مربوط جملے دیکھیں گے توظاہر ہے کہ اُن کو کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔ آپ اِس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شاعر کا اعلیٰ درجہ کا شعر لے لیجیے،پھر اُس کے مختلف اور غیر مرتب فقرے بناکر اُس کو پڑھیے ،پھر دیکھیے کہ اُس کے ہر فقرے اور ہر ٹکڑے میں کیاو ہ لطافت اور دل کشی باقی ہے جو اُس شعر میں تھی۔ہر مذاقِ صحیح یہ ہی بتلاوے گا کہ ُان میں ہر گز وہ لطافت اور پاکیزگی نہیں ہے۔ پس ایسی حالت میں ایک کلام ِمعجزاور بلیغ کو ایسے ٹکڑوں میں تقسیم کرناکیوں کر جائز ہو سکتا ہے؟
۲-دوسرے کلامِ الٰہی کے اس طرح پارہ پارہ کرنے میں -علاوہ اُس کی بلاغت ولطافت اور اعجاز کو صدمہ پہنچانے کے-تحریف معنوی بھی ہے۔کیوں کہ اُس کا ایک فقرہ جب اپنے محل پر تھا تو وہ علاوہ لغوی معنی کے، ایک دوسرے معنی بھی ادا کرتا تھا جس کو ترکیبی معنی کہاجاسکتا ہے۔اور جب کہ اس کو اُس کی جگہ سے ہٹادیا جائے گا ،توصرف لغوی معنی رہ جائیں گے اور ترکیبی معنی فوت ہو جائیں گے۔
مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ حق تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاقول نقل کرتے ہیں:
اِنْ تُعَذِّ بْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکْ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم ُ۔اب اگراِس میں اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم ُکاٹ کر الگ جملہ بنادیاجائے،تو اُس کے وہ معنی ہرگز نہیں رہ سکتے جو اِس جگہ مقصود ہیں۔کیوں کہ اِس کے معنی ہیں: َاِنْ تَغْفِرْلَھُم فَلامانِعَ لک لِاَ نَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُولا اعتراضَ علیک لانَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم ُاور یہ معنی مستقل جملہ سے مفہوم نہیں ہوسکتے ۔اس لیے یہ فعل مسخ کلام الہی اور اُس کی تحریف ہوگا جو کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہوسکتا۔
۳-تیسرے اِس طرز عمل پر خطرہ ہے کہ کہیں جاہل اور نادان مسلمان اِس سے دھوکہ کھاکر قرآن منظم و مرتب کو ہاتھ سے نہ کھوبیٹھیں ۔اور اِس غیر مرتب اور محرف کتاب کو کافی سمجھ کر اِس پر قناعت نہ کر بیٹھیں۔ یا اُس میں اور رد وبدل کرکے قرآن کو توریت وانجیل کی طرح بالکل مسخ اور محرف کردیں ۔اس لیے یہ طرز عمل اپنے نتیجہ کے لحاظ سے نہایت خطرناک ہے۔
۴-چوتھے اس طرز عمل میں گویا حق تعالیٰ کو اصلاح دینا ہے کہ ُاس نے جس صورت میں قرآن کو نازل فرمایا ہے وہ ہماری ضرورت کے لیے ناکافی ہے اور اُس میں ردوبدل کی ضرورت ہے۔
۵-پانچویں مضامین قرآن کی جو سرخیاں قائم کی گئی ہیں اُن میں تحریف معنوی کا پہلو نمایاں ہے۔ مثلاً سرخی قائم کی گئی ہے:”اعضائے انسانی کی نسبت باری تعالیٰ کی طرف “اور اُس کے تحت میں آیاتِ وجہ ، دید وغیرہ درج کی گئی ہیں ۔پس سرخی پر نظر کرکے اُس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آیات میں منہ سے مراد انسانی منہ اور ہاتھ سے مراد انسانی ہاتھ ہے وغیرہ وغیرہ۔اور اِس کا تحریف ہونا ظاہر ہے۔ نیز ایک عنوان قائم کیا گیا ہے: ”جنت میں لذائذ روحانی“اور اِس کے تحت میں وہ آیتیں درج کی گئی ہیں جن میں نہروں اور کھانوں وغیرہ کا ذکر ہے۔اِس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ چیزیں حسی نہیں بل کہ معنوی ہیں اور یہ تحریف ہے۔
نیز مصنف صاحب کہتے ہیں کہ :”جن آیات میں لوگوں کو جہاد کے لیے اُبھاراگیا ہے،وہاں انہیں اس بات کی غیرت دلائی ہے کہ تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے تمہیں تمہارے ملک اور تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔اس قسم کی آیات کے لیے میں نے جہاد کے علاوہ حُب وطن کا عنوان بھی تجویز کیا ہے۔“آہ ۔لیکن یہ حب وطن کا عنوان کسی طرح آیات کا مدلول نہیں اس لیے یہ سراسر تحریف ہے۔
نیز وہ کہتے ہیں کہ:” جن آیات میں سیم وزر کے جمع کرنے اور اُسے سینت سینت کررکھنے کی مذمت بیان کی گئی ہے میں نے اُن آیات کو سرمایہ داری کے تحت میں بھی لیا ہے۔“ لیکن یہ کھلی ہوئی تحریف ہے۔سرمایہ داری متعارف جس کوبالشویک خیال کے لوگ برا سمجھتے ہیں اُس کو آیات مذکورہ سے کوئی لگاؤ نہیں۔
اسی طرح اُنہوں نے ایک عنوان قائم کیا کہ ”جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دے سکتے ہیں۔“ ان میں مالدار لوگوں کو روزہ سے سبکدوش کردینا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔
اِن وجوہ سے مسلمانوں کے لیے یہ کتاب نہایت خطرناک اور گمراہ کن ہے۔ مصنف صاحب کا فرض ہے کہ وہ اِس کی اشاعت کو بند کریں ،ورنہ جس قدر گمراہی اِس سے پھیلے گی اور جو مفاسد اِس پر مرتب ہوں گے، خدا کے ہاں وہ اُن کے ذمہ د ارہوں گے۔مصنف صاحب عنقریب خدا کے پاس جانے والے ہیں۔ اُن کو اِس کا ضرور خیال کرنا چاہیے ۔بالخصوص ایسی حالت میں،(کہ) مصنف صاحب کا جو اِس سے مقصود ہے یعنی مسلمانوں میں قومی اتحاد پیدا کرنا اور اُن کو سیاسی نفع پہنچانا ،وہ بھی اِس سے حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ کتاب اُن مناشی کے دور کرنے کے لیے کافی نہیں ہے جو اِس تشتت اور افتراق(بکھرتاوٴ اور باہمی مخالفت) کا منشا ہیں ۔پھر اِس درد سری اور کوششِ لایعنی کا بجز ناکامیِ دنیا و آخرت کے کیا نتیجہ۔وما علینا الا البلاغ۔
رہا مصنف کایہ خیال کہ :”جو کام میں نے انجام دیا ہے وہ ایسا نہ تھا جس کی ضرورت سب سے پہلے مجھے ہی محسوس ہوئی ہو ۔نہیں ،مجھ سے پہلے کئی بزرگ خادمانِ دین نے اِس راہ میں قدم رکھا۔“ سو ،اِس کا جواب خود مصنف صاحب ہی کے کلام میں موجود ہے۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں:” گو مجھے معلوم نہیں کہ کسی نے بالکل اسی نوع کی خدمت قرآن کی کی ہو جیسے میں نے کی ہے؛ لیکن یہ بزرگ کچھ نہ کچھ ضرور کر گئے ہیں۔ مصنف صاحب کا یہ اقرار خود بتلا رہا ہے کہ بزرگانِ پیشیین اور مصنف صاحب کے کام میں بہت فرق ہے ، اس لیے اُن کا فعل مصنف صاحب کے لیے حجت نہیں ہو سکتا ۔افسوس ہے کہ جن کتابوں کا مصنف نے ذکر کیا ہے جیسے” جواہر القرآن“ ،”غزالی“ وغیرہ ۔ اِس وقت ہمارے سامنے نہیں ہے ،ورنہ ہم دونوں کے طرزوں کا فرق واضح طور پر دکھلادیتے؛ لیکن جب کہ مصنف صاحب کو فرق خود تسلیم ہے تو اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ واللہ اعلم۔
تمام شد رسالہ الہادی للحیران (النور ص ۷ صفر المظفر۱۳۵۱ھ،امدادالفتاویٰ ج۵، ص ۵۱تا۵۴)
(۱)امداد الفتاوی جلد ۶ ص۱۴۲۔(۲)امداد الفتاوی جلد ۶ ص۲۲۳۔(۳)امداد الفتاوی جلد ۶ ص۱۴۲۔(۴)امدادالفتاوی جلد ۶ ص۲۸۸-۳۲۶۔(۵)(پ۲۰ع۱۲)ترجمہ:(اور آپ کے اُن مخالفین نے جو آپ کو پریشان کر کے ترکِ وطن پر مجبور کیا ہے جس کی اضطراری مفارقت کا آپ کو صدمہ ہے تو آپ تسلی رکھیں)جس خدا نے آپ پر قرآن (کے احکام پر عمل اور اُس کی تبلیغ)کو فرض کیا ہے(جو مجموعاًدلیل ہے آپ کے نبوت کی)وہ آپ کو (آپ کے)اصلی وطن(مکہ مکرمہ)میں پھر پہنچادے گا۔(بیان القرآن ج۸ص۱۲۳) (۶)(پ۱۲ع۱۱)ترجمہ:ہم نے اِس کو اُتارا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم(بوجہِ اہلِ لسان ہونے کے اولاً)سمجھو۔( ایضاًج ۵ ص۶۹)(۷)(پ۲۶ع۷)ترجمہ:تو کیا یہ لوگ قرآن (کے اعجاز و مضامین)میں غور نہیں کرتے(اِس لیے اُن کو انکشاف نہیں ہوتا)یا(غور کرتے ہیں مگر )دلوں پر(غیبی)قفل لگ رہی ہے۔ (ایضاًج ۱۱ ص۲۱)(۹)پ۲۵ ع ۱۰۔ترجمہ:اور یہ قرآن (جس کے ساتھ تمسک کرنے کو ہم کہتے ہیں )آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے بڑے شرف کی چیز ہے (آپ کے لیے تو اس لیے کہ آپ مخاطب بلا واسطہ ہیں اور قوم کے لیے اس واسطے کی مخاطب بواسطہ ہیں،ملوک کا مخاطب ہونا ظاہر کہ موجبِ شرف ہے چہ جائے ملک الملوک کا مخاطب بنناخواہ قوم سے مراد قریش ہوں یا عرب ہوں یا تمام امت ہوں کہ تدریجاًو تعاقباًقرآنی خطاب سب کو ہے،غرض یہ کہ موجبِ شرف ہونے کی وجہ سے یہ بڑی نعمت ہے)اور عنقریب(قیامت کے روز)تم سب(اپنے اپنے ذمہ کے واجب حقوق سے)پوچھے جاوٴگے۔ ( ایضاًجلد ۱۰ ص۸۸)حاشیہ(۱۰)پ۹ ع۱۲۔ترجمہ:ہم نے بہت سے جن وانسان دوزخ (ہی میں رہنے )کے لیے پیدا کیے ہیں جن کے (نام کو تو )دل (ہیں مگر)ایسے ہیں جن سے(حق بات کو)نہیں سمجھتے(چوں کہ اُس کا رادہ ہی نہیں کرتے)اور جن کے(نام کو تو)آنکھیں (ہیں مگر)ایسے ہیں جن سے(نظرِ استدلال کے طور پر کسی چیز کو )نہیں دیکھتے اور جن کے(نام کوتو)کان (ہیں مگر)ایسے ہیں جن سے(متوجہ ہوکر حق بات کو)نہیں سنتے(غرض)یہ لوگ(آخرت کی طرف سے بے توجہ ہونے میں)چوپایوں کی طرح ہیں بل کہ(اس حیثیت سے کہ چوپایوں کو آخرت کی طرف متوجہ ہونے کا مکلف نہیں بنایا گیا سو اُن کا متوجہ نہ ہونا مذموم نہیں اور اُن کو تو اِ س کا حکم ہے پھر بھی بے توجہی کرتے ہیں سو اِس اعتبار سے )یہ لوگ (اُن چوپایوں سے بھی)زیادہ بے راہ ہیں (کیوں کہ)یہ لوگ باوجود توجہ دلانے کے آخرت سے )غافل ہیں۔( ایضاً ج ۴ ص۵۳)حاشیہ:(۱۱)پ۱۹ع۱،ترجمہ:اور( اُس دن)رسول( ﷺ حق تعالیٰ سے کافروں کی شکایت کے طور پر )کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری (اِس قوم )نے اس قرآن کو(جو کہ واجب العمل تھا)بالکل نظر انداز کررکھاتھا۔( ایضاً ج ۸ ص۴۷)۔حاشیہ:(۱۲)دیکھیے:چار سطر پیشتر نمبر ۱ ، ۲۔حاشیہ:(۱۳)بوادر النوادرص۳۲۹ تا۳۳۴۔حاشیہ(۱۴)ترجمہ:غرض کہ ایک نقش ہے جس سے ہماری یادباقی رہے گی اس لیے کہ مجھے زندگی کا دوام نظر نہیں آتا۔ شایدکوئی الله والا کسی دن توجہ کر کے اِس مسکین کے کام میں دعاء کر دے۔حاشیہ(۱۵)(اے ایمان والو(تمام معاملات میں ادا کے وقت بھی اور فیصلہ کے وقت بھی) انصاف پر خوب قائم رہنے والے (اور اقرار یا شہادت کی نوبت آوت،تو)الله کے لیے (سچی)گواہی (اور اِظہار)دینے والے رہو،اگرچہ(وہ گواہی اور اِظہار) اپنی ہی ذات پر ہو(جس کو اِقرار کہتے ہیں)یا کہ والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے مقابلہ میں ہو۔(اور گواہی کے وقت یہ خیال نہ کرو کہ جس کے مقابلہ میں ہم گواہی دے رہے ہیں یہ امیر اِس کو نفع پہنچانا چا ہیے،تاکہ اِس سے بے مروتی نہ ہو،یا یہ کہ یہ غریب ہے اِس کا کیسے نقصان کر دیں۔تم کسی کی امیری غریبی کو نہ دیکھو،کیوں کہ )وہ شخص(جس کے خلاف گواہی دینی پڑے گی)اگر امیر ہے،تو اور غریب ہے،تو دونوں کے ساتھ الله تعالی کو زیادہ تعلق ہے(اِتنا تعلق تم کو نہیں،کیوں کہ تمہارا تعلق جس قدر ہے وہ بھی اُنہی کا دیا ہوا ہے،اور الله تعالی کا جو تعلق ہے،وہ تمہارا دیا ہوا نہیں۔پھرجب باوجود تعلقِ قوی کے الله تعالی نے اُن کی مصلحت اُسی میں رکھی کہ اِظہارِ حق کیا جاوے،تو تم تعلق تعلقِ ضعیف پر اُن کی ایک عارضی مصلحت کا کیوں خیال کرتے ہو)سو،تم (اِس شہادت میں)خواہشِ نفس کا اِتباع مت کرنا،کبھی تم حق سے ہٹ جاوٴ۔(بیان القرآن جلد۲ ص۱۶۴) )(۱۶)ترجمہ:اپنی محرومی کے بوجھ تلے دبا ہوں،اِسی وجہ سے بلند مرتبہ و منصب رکھنے والوں کے سامنے شرم سار ہوں اب المامور معذور کی بنا پر دیباچہ اور فہرست مضامین اور خط کو پیش نظر رکھ کر اس خدمت کی تفصیلِ مجمل پیش کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ معافی چاہتا ہوں۔حاشیہ(۱۷): النور محرم ۱۳۵۱ھ ص۱۴،امدادا لفتاویٰ ج۶،ص۲۲۳ تا۲۲۷۔حاشیہ:(۱۸)بعض احباب کا مصداق غالباً حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی ہیں۔حاشیہ(۱۹)اور وہ(بہ وجہِ جہل کے)اِسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔(بیان القرآن جلد ۶ ص۱۳۷)۔حاشیہ(۲۰)(اِن لوگوں کی )دنیا میں کری کرائی محنت (جو اعمالِ حسنہ میں کی تھی،آخرت میں)سب گئی گز ری ہوئی۔(ایضاً حوالہ بالا)