بیان القرآن کا مطالعہ

چھٹی قسط:۲۱ ربیع الثانی۱۴۴۱ھ/۱۹دسمبر۲۰۲۱                     (حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر)

مولانا حکیم فخر الاسلام

             گزشتہ صفحات میں حکیم الامت  کی تنقیدات کے حوالہ سے عصرِ حکیم الامت کے بعض ایسے تراجم و تفاسیرکا جائزہ پیش کیا گیا تھاجو خلافِ قواعدِ شرعیہ تھے اور جو ایک درجہ میں حکیم الامت کی تفسیر کی وجہِ تصنیف بنے تھے۔مذکورہ تنقیدات کا جائزہ لینے پر یہ باتیں کھل کر سامنے آئیں کہ جن تراجم کے با محاورہ ہونے کی شہرت ہے،اُن میں عقیدے میں اِلتباسات اور دیگر چند در چندخرابیاں،خود زبان اور محاوروں کی راہ سے موجود ہیں،اُن میں سے بعض یہ ہیں:

 ۱-عقیدوں میں اِلتباسات اور فکری اِنحرافات

            ۱-فرشتوں کی جسمیت اور اُن کے لطیف مادہ سے بنے ہونے کا اِنکار۔( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۳)

            ۲-جنات کی پیدائش کے باب میں قرآن کی یہ صراحت کہ:جن(یعنی اُس نوع کی اصل ابو الجان کو…آگ سے کہ وہ (غایتِ لطافت کی وجہ سے )ایک گرم ہوا تھی پیدا کر چکے تھے(مطلب یہ کہ چوں کہ اُس آگ میں اجزائے دُخانیہ نہ تھے،اِس لیے وہ مثل ہوا کے نظر نہ آتی تھی۔کیوں کہ آگ کا نظر آنا اجزائے کثیفہ کے اِختلاط سے ہے ۔(بیان القرآن،جلد ۶ ص۲۵تاج پبلشر دہلی ۱۹۰۴ء)۔اِس صراحت کے ہوتے ہوئے،”” نار“ کے حقیقی معنی آگ… چھوڑکر گرمی کے معنی لینا“۔

            ۳- منقول تفسیرسے بے دلیل گریزمثلاً:”آپ نے خاک کی مٹھی (اُن کی طرف )نہیں پھینکی؛لیکن (ہاں اِس (موثریت کے:ف)مرتبہ میں)ا لله تعالی نے (واقعی)وہ پھینکی۔“ کی جگہ تیرچلانا سے ترجمہ کرنا ۔

            ۴- خدا تعالی کی ایک خاص صفت تعمیمِ قدرت کے اِنکار کا رُجحان۔

            مثلاً رعد و ملائکہ کی تسبیح ، تحمید، پہاڑا ور پرندوں کا حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ ذکر کرنے میں یہ تاویل کہ ”ہر ایک مخلوق اپنے خالق کی ہستی اور قدرت پر دلالت کرتا ہے یہی اُس کی تسبیح اورتقدیس ہے ۔“۔

            قرآن کا یہ مضمون کہ:”اے پہاڑو داود کے ساتھ بار بار تسبیح کرو(یعنی جب یہ ذکر میں مشغول ہوں،تم بھی اِن کا ساتھ دو۔(بیان القرآن جلد۹ ص۷۴)،کے معنی ”پہاڑ گونج اٹھے۔ “

            زمین ،آسمان،پہاڑ کا ”امانت“ اٹھانے سے اِنکار کے باب میں قرآن نے صراحت کی ہے کہ:”ہم نے یہ امانت (یعنی احکام جو بہ منزلہٴ امانت کے ہیں)آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی(یعنی اُن میں کچھ شعور پیدا کر کے- جو کہ اب بھی ہے-اُن کے رو بہ رو اپنے احکام اور بہ صورت ماننے کے اُس پر اِنعام و اِکرام اور بہ صورت نہ ماننے کے اُس پر تعذیب و اِیلام پیش کر کے اُن کو لینے نہ لینے کا اختیار دیا اور حاصل اِس پیش کرنے کا یہ تھا کہ اِن احکام کو اپنے ذمہ رکھتے ہو،تو اُن کے موافق عمل کرنے کی صورت میں تم کو ثواب ملے گا اور خلاف کرنے کی صورت میں عذاب ہو گا اور اگرنہیں لیتے،تو مکلف نہ بنائے جا وٴگے اور ثواب و عذاب کے بھی مستحق نہ ہو گے۔تم کو دونوں اِختیار ہیں کہ اِس کو نہ لینے سے نا فرمان نہ ہو گے ۔جس قدر اُن میں شعور تھا وہ اِجمالاًاِس قدر مضمون سمجھ لینے کے لیے کافی تھا۔چوں کہ اُن کو اختیار بھی دیا گیا تھا)،سو اُنہوں نے (خوفِ عذاب کے سبب اِحتمالِ ثواب سے بھی دست برداری کی۔اور )اُس کی ذمہ داری سے انکار کر دیا اور اُس کی (ذمہ داری )سے ڈر گئے۔ “(بیان القرآن جلد۹ ص۷۰)کے اِس صراحت کے ہوتے ہوئے یہ معنی بیان کیے گئے کہ ” انہوں نے بزبانِ حال اس(امانت) کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔“

            جب قرآن کریم میں خدا تعالی کی قدرت کا بیان اِس طرح کیا گیا ہے کہ”کیا تم لوگ اُس(خداسے:ف)بے خوف ہو گئے ہو- جو کہ آسمان میں(بھی اپنا حکم اور تصرف رکھتا )ہے- کہ وہ تم کو(مثل قارون کے)زمین میں دھنسا دے“(ظاہر ہے کہ طبعی میکانیہ کے بغیر ہی وہ اپنی قدرت کا اِظہار کر سکتا ہے۔اُسے دھنسانے کے لیے دلدل بنانے کی بھی ضرورت نہیں۔ف) اِس کے لیے یہ کہنا کہ زمین (دل دل بناکر )اُس میں تم کو دھنسا دے۔

            قوانینِ فطرت سے ما وراء خدا تعالی کی قدرت کے اِظہار کے لے قرآن نے وضاحت کی ہے کہ ”اُس نے (ممکنات میں سے)ہر (موجود)چیز کو پیدا کیا۔پھر سب کا الگ الگ انداز رکھا“۔(بیان القرآن جلد۸ص۳۹)۔لیکن اِس کی جو تفسیر ڈپٹی صاحب نے کی تھی ۔اُس کے متعلق حکیم الامت نے یہ اِستدراک فرمایا تھا کہ ”اِس سے تائیدعقیدہٴ فطرت پرستی کی ہو تی ہے۔“

             عقیدہٴ فطرت پرستی کی یہ وہ تائید ہے جسے ہندوستان میں سب سے پہلے سر سید احمد خاں نے اپنی تفسیر میں اور شبلی نے مضمون”قضا و قدر“ میں قوت و اِصرار کے ساتھ اِستدلالی رنگ میں اختیار کیا تھا۔( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۱۴،۱۹،۲۰،۲۸،۲۷،۳۳،۲۴،۳۵)۔

            ۵- سائنسی مزاحمت کے خوف سے نصوص کودل تنگ ہو کرماننا۔مثلاًقرآن کریم نے یہ صراحت کی ہے کہ:”ہم نے اِس قریب والے آسمان کوستاروں سے زینت دی اور(اِستراقِ شیاطین :(شیاطین کے خبریں چُرا کر بھاگنے:ف )سے)اُس کی حفاظت کی۔“یعنی”اُس (آسمان)کو(اِن ستاروں کے ذریعہ)سے ہر شیطان مردود سے محفوظ فرمایا۔“(بیان القرآن جلد۱۰ص۵۳،جلد۶ ص۲۳، جلد۸ص۳۹) اِس خبر کو” دل تنگ ہو کر ماننا۔“اور”داخل اَسرار الٰہی “بتانا ۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۹) اورکبھی کان دباکر سن لینے کی تلقین و ہدایت کے ساتھ ”عاجزانہ دب کر ماننا“۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۹،۲۰)

            ۶-نبوت کی صاف و بے غبار دلیل معجزہ ہے۔لیکن ڈپٹی صاحب کی تفسیر میں اِس امر کی فضا سازگارکی گئی ہے کہ معجزہ دلیلِ نبوت نہیں:جیسا کہ یہ لکھ دیا گیا کہ”معجز ہ کوئی ایسی مستحکم دلیل نہیں ہو سکتی جس پر زور دیا جائے۔ “( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۲۲)۔

            پیغمبر کا اپنی ذاتی رائے کو وحی قرار دینا اللہ پر بہتان ہے جس کا کسی نبی میں احتمال نہیں۔پھر اِس کو رسالت کی محکم دلیل تسلیم کرنامفسرکے تفسیری مغالطُوں اور تفسیر بالرائے کے نمونوں میں سے ہے ۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۶)

            ۷-تفسیرِ نذیری میں بعض موقعوں پرمعتزلہ کے مذہب کی تائید کی گئی ہے’جس کا اِستدراک کرتے ہوئے فرما یا گیا ہے۔’ ’اللہ سبحا نہ وتعالیٰ پر کسی کے استحقاق کا قائل ہونامعتزلہ کا مذہب ہے ۔“( اصلاح ترجمہ دہلویہ ص۲۴)۔

            ۸- کسی شرعی ،لغوی، عقلی ضرورت کے بغیرالفاظ کے ظاہر ی معنی چھوڑ کرمجازی معنی اختیار کر نا:

            الف- لوح محفوظ سے مراد علم الٰہی بتانا اورظاہرِ معنی” تختی“ کولفظ پرستی کہنا۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۵)

            ب- ”سدرة المنتہی“ کے متعلق ”حدیثوں میں آیا ہے کہ یہ ایک درخت ہے بیری کاساتویں آسمان میں۔عالمِ بالا سے جو احکام و ارزاق(ہدایات اور رزق:ف)‘وغیرہ آتے ہیں،وہ اول ”سدرة المنتہی“تک پہنچتے ہیں،پھر وہاں سے ملائکہ زمین پر لاتے ہیں۔اِسی طرح یہاں سے جو اعمال صعود کرتے(چڑھتے)ہیں وہ بھی ”سدرة المنتہی“تک پہنچتے ہیں،پھر وہاں سے اوپر اُٹھا لیے جاتے ہیں۔“(بیان القرآن جلد۱۱ص۷۴)حدیثوں کی اِس اِطلاع کی روشنی میں، جب قرآن مجید میں ایک چیز کی خبر صاف صاف لفظوں میں دے دی گئی اور اُس میں کسی قسم کا اِشکال نہ ہونے کی وجہ سے کسی تاویل کی ضر ورت بھی نہیں ،پھر” اُس کو داخل اسرار کہنا کس وجہ سے صحیح ہوگا؟“”شہاب“ کی بحث میں جو تحقیق ہے وہی تحقیق یہاں بھی ہے۔(اصلاح ترجمہ دہلویہ:ص ۳۰،۳۱)

            ج-”ہم اُن کے لیے زمین سے ایک(عجیب)جانور نکالیں گے کہ وہ اُن سے باتیں کرے گا کہ(کافر )لوگ ہماری(یعنی ا لله تعالی کی)آیتوں پر(بالخصوص جو آیتیں قیامت کے متعلق ہیں،اُن پر)یقین نہ لاتے تھے(سو اب قیامت قریب آ پہنچی ہے ،چناں چہ ایک علامت اُس کی میرا ظہور ہے۔) “قرآن نے اِس واقعہ کی خبردی ہے۔اورحکیم الامت فرماتے ہیں:” جن چیزوں کے وقوع کی خبروحی سے دی گئی ہے قبل وقوع کے بھی اُس کی تصدیق فرض ہے۔ پس یہ کہنا صحیح نہیں کہ” اس کی تصدیق اس کے و قوع ہی سے ہو سکتی ہے۔“(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ :ص۲۴،۲۵) اِس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ :منصوص واقعہ کا اِظہارموہمِ شک عنوان سے درست نہیں۔

            ۹-علم ہیئت کی فرضیات سے تفسیر کرنا:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۳۴)

            ۱۰-امرِ منصوص کے باطل ہونے کا ایہام پیدا کرنا:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۷)

            ۱۱-نسخ اور اِجماع سے بے اِلتفاتی اور ضروریاتِ دین میں دست اندازی(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۴)

            ۱۲-اِنکارِ اِجماع کے پردہ میں احکام شرع میں کمی، زیادتی کا رجحان(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۳)

            ۱۳-قیاس کے نام پر منصوص میں تصرف (اصلاح ترجمہٴ دہلویہ۹،۱۰)

۲-مغرب کے” فطری مذہب “سے اثر پذیری

            ۱۸ویں صدی عیسوی میں مغرب میں ”فطری مذہب“کے جواصول وضع کیے گئے ،اُن میں یہ طے کیا گیا کہ:

            -عبادات کے یہ معنی قراردئیے جائیں کہ وہ مقصود بالذات نہیں ہیں ؛بلکہ عبادات سے خود نوعِ انسانی کا فائدہ مقصودہے اوریہ کہ عبادات حدِ اعتدال سے متجاوز نہ ہوں۔

            یہ” اعتدال“کیا چیز ہے؟اِس کو اِس ا صول میں واضح کیا گیا ہے کہ:

         دینی اور دنیوی فرائض میں ایک سے دوسرے کو ضررنہ پہنچے؛ بلکہ ایک دوسرے کا دست و بازوبن جائے ۔

            لیکن بات اب بھی مبہم رہی،اس لیے اِس اِبہام کو اگلے اصول میں دور کیا گیا ہے کہ:

            مذہب، تمدن کی اعلیٰ سے اعلیٰ ترقی کا ساتھ دے سکے۔(الکلام از شبلی ص:۲۵،۲۶مع تحشیہ سلیمان،دارالمصنفین پہلا ایڈیشن)

            مغرب کے”فطری مذہب “کے یہ اصول ۱۹ ویں صدی میں ہندوستان پہنچے اور ڈپٹی نذیر احمد کی-سر سید کی شدت روی سے بے زاری کے باوجود -تفسیر کا اصول قرار پائے۔چناں چہ”فطری مذہب“ کی حمایت میں:

            الف” فطری مذہب “سے ہم آہنگی کا رجحان ۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ۳،۲۸،)ب-عمل شرعی سے بھی مقصود تمدنی ترقی:(ملاحظہ ہو:اصلاح ترجمہٴ دہلویہ :ص۴)ج-”فطری مذہب“کے اصولوں کے سامنے معذرت خواہی (ملاحظہ ہو:اصلاح ترجمہٴ دہلویہ :ص۱۷، ص۳۰، ص۳۲،ص۲۱)د- خانہ داری کے معاملات کو دین سے کچھ تعلق نہ ہونا۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۳۳)َہ- مفاہمت بین المذاہب کا رجحان:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۱۰)و:مغرب کی عقلیت پسندی(ریشنالزم) کے اثر سے حکمت اور علت کی تلاش میں شرعی روح یعنی مرضی مولی سے بے نیازی(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ۷،۸) ۔ز:مغرب کے تصورِ مساوات سے ہم آہنگی کی طمع میں تعددِ ازواج کی مطلقاً ممانعت کا رجحان(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۶،۲۷)ز:مغرب کے اِس تصور سے ہم آہنگی کا رجحان کہ مذہبی ضروریات تک کے منکر و کفر کے مرتکب کے لیے یہ ہمدردی کہ اگر وہ لائقِ تحسین نہیں،تو لائقِ تعزیر بھی نہیں ۔“(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۳۰)

            ح:د نیا اور دین دونوں: جب مغرب میں مذہب سے بغاوت کا رُجحان عام ہوا،توایک طبقہ تو یہ کہتا تھا کہ دنیا تو موجود ہے پہلے اِس کی فکر کرو،آخرت کس نے دیکھی ہے۔دوسرا طبقہ وہ تھا جو یہ کہنے لگاکہ دنیا بھی مطلوب ہے اور آخرت بھی۔مذہب سے تعلق رکھنے والے طبقہ میں یہ رجحان بہت مقبول ہوا۔وہیں سے یہ تصور لے کر مسلمان مفکروں نے اپنی تفہیمات وتشریحات میں داخل کیا۔حالاں کہ یہ تصور غلط تھا۔مطلوب و مقصود تو صرف آخرت ہے۔دنیا کی ماہیت جو کچھ حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بیان کی ہے،اُس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا اُسے کہتے ہیں جو مانع عن الآخرت(آخرت سے رکاوٹ بنے)ہو۔وہ لوگ دنیا کی مطلوبیت کے نام پر آخرت سے مانع اموراختیار کرتے گئے اور آخرت اُن سے پھسلتی گئی اور وہ اِس راز کو بالکل سمجھ ہی نہ سکے ۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۳۴)

            ط-احکام شریعت کو امورِ معاد سے سمجھنا ،معاملات میں خود آزاد سمجھنا:اسی کا اثر ہے :نبی پر نازل شدہحکم وحی کو ذاتی رائے قرار دینا۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۷)

۳-ترجمہ اور تفسیر کی عمومی غلطیاں          

            ۱:ترجمہ ہی غلط:آیت ”ولو علم اللہ فیہم خیرا لاسمعہم ولواسمعہم لتولواوہم معرضون“۔(انفال:ع۳)۔،(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ۱۵،۱۶،۳۱،۳۲،۳۴)۔۲:نہ ترجمہ صحیح ،نہ تفسیر:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۶)۔۳:ترجمہ غلط،تفسیر متکلم فیہ:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۸)

۴-لفظی ترجمہ سے گریز جدید اُسلوب اورنیچریت زدہ محاوروں کی دخل اندازی

            غیر مقصود سے بچنے کے لیے ترجمہ لفظی واجب ہے ۔“:(حکیم الامت:اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۳۴)

           محاورہ پر اِصرار کی خرابی:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۱۰)ترجمہ میں اصطلاحِ شرعی کی ترجیح کا اصول ترک کرنا:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۱۰)۔شوقِ محاورہ میں درست معنی سے اِنحراف(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۱۱)۔منقول ترجمے پر مدار نہ ررکھنے کا نتیجہ قاعدہ عربیت سے اِنحراف۔صیغہ امر کا… جو موضوع ہے معنی حال و مستقبل کے لیے …ماضی سے ترجمہ کرنا ۔(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۱۱)طرزِ کہن سے ہٹنے کی خرابی:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۱۲)محاورہ کے نام پرمنقول تفسیر سے اِنحراف:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۱۲)۔ترجمہ محاورے کے اعتبار سے درست نہیں :(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۴)محاورہ سمجھنے میں خطا:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۹)اردو ادب ترجمہ سے مزاحم :(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۲۹)۔ترجمہ ناتمام :(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۳۰)محاورہ کا درست استعمال نہیں ہوا:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ ص۳۱)۔ترجمہ سے لازم آنے والی فکری خرابی:(اصلاح ترجمہٴ دہلویہ۳۱)

            اِن سب مفاسد کے با وصف ایک دیگر موقع پر بے احتیاط ترجمہ سے پیدا ہونے والی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:”قرآن کریم کی آیت ”اِنَّاذَہَبْناَنَسْتَبِقُ“(ہم آپس میں دوڑنے لگے،اس آیت میں)استباق کا ترجمہ ان مترجم (ڈپٹی نذیراحمد) صاحب نے کبڈی کھیلنا کیا ہے۔ یہ ترجمہ نقلاً بھی بالکل غلط ہے اورعقلاً بھیْ۔نقلاً تو اس لیے کہ لغت میں دیکھ لیجئے کہ استباق کے کیا معنی۔کیاخلاف لغت ترجمہ بھی معتبرہوگا۔ استباق کے معنی آپس میں دوڑناہیں کہ دیکھیں کون آگے نکلے۔اورچوں کہ عقل پرستی کا آج کل زورہے اس لئے میں کہتاہوں کہ عقلاً بھی یہ ترجمہ غلط ہے۔ اس لئے کہ کبڈی کھیلنے میں اتنی دورنہیں جایاکرتے کہ جس سے محافظ بچہ کی نسبت بھیڑیے کے کھاجانے کا احتمال ہو،اگر ایسا ہوتاتو حضرت یعقوب علیہ السلام ضرورجرح فرماتے ۔(سورہ یوسف۔اشرف التفاسیر جلد ۲ ص ۳۱۹)پھر یہ کہ ”کبڈی میں مسابقت نہیں ہو تی کہ آگے بڑھنے کے لیے دوڑتے ہوں۔اور اگرصحیح بھی ہو تا، تب بھی اس میں ایک نقص ہو تا ،وہ یہ کہ قرآن پاک کا ترجمہ ایسا ہو نا چاہئے کہ اگر قرآن پاک کا اردو میں نزول ہوتا،تواِنہی الفاظ میں ہوتا۔اُس میں شوکت و عظمت کے الفاظ ہوتے۔سو غور کر لیجیے کہ اگرقرآن پاک کا اردو میں نزول ہوتا،تواُس میں کبھی کبڈی کا لفظ نہ ہوتا۔یہ تو ایک بازاری لفظ ہے۔یہ تو ایک بازاری اور عامی لفظ ہے۔ترجمہ میں شاہی محاورات ہونے چاہئیں۔مگر مصیبت تو یہ ہے کہ آج کل ہر شخص مصنف بنا ہوا ہے اور خبر خاک بھی نہیں۔“(ملفوظات حکیم الامت – الافاضات الیومیہ جلد ۸ ص۳۵۶) ۔ایک اور مفسدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:”اس زمانے میں قرآن شریف کا ترجمہ طبع ہوا ہے اس میں وعلی الذین یطیقونہ فدیة۔ جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے نہ ہوں ان کے ذمہ فدیہ ہے۔ کی تفسیر میں لکھ دیا ہے کہ جو شخص روزہ نہ رکھے وہ فدیہ دے دے۔اس سے لوگوں کی جرات بڑھ گئی اوربجائے روزہ کے فدیہ کو کافی سمجھ لیا۔یاد رکھو یہ تفسیر اس آیت کی بالکل غلط ہے۔اور وجہ یہ کہ یہ تر جمہ کرنے والا ہی علوم سے با لکل جاہل ہے۔“( اشر ف التفاسیر جلد ۱ص ۱۴۷)

             جب حکیم الامت کی یہ تنقیدات شائع ہوئیں اور مترجم موصوف کے پاس پہنچیں،تو اُس کا ذکر اِس طرح کرتے ہیں:”ڈپٹی نذیراحمدکے تر جمہ میں بہت سی غلطیاں تھیں،جن پر ایک رسالہ میں تنبیہ کی تھی۔ڈپٹی صاحب نے میری تنقید کو پسند کیا اور یہ ارادہ کیا تھا کہ اسکے بعد طبع ثا نی میں ان غلاط کو صحیح کر دونگا؛ مگر اُن کو موقع نہ ملا۔“(ملفوظات حکیم الامت – الافاضات الیومیہ جلد ۴ص ۴۹۳)

یہ تو بات ہوئی ڈپٹی نذیر احمد کی ۔جہاں تک مرزا حیرت دہلوی کی بات ہے،توحیرت کے ترجمہ اور تفسیری حواشی بھی خلافِ قواعدِ شرعیہ ہونے کے ساتھ اُس میں بھی زبان و محاورات کی کچھ غلطیاں تو ڈپٹی صاحب جیسی ہی تھیں اورکچھ اُس سے بڑھی ہوئی اور سخت فاحش و منحرف تھیں۔حکیم الامت نے اُن کی جو کچھ اصلاحات فرمائیں وہ گزشتہ صفحات میں ذکر کی جا چکیں۔یہاں اُن کی اصولی نوعیتوں کے نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

۱-لفظ”البتہ“کے موقعِ استعمال کے متعلق فرمایا:’ ’ لفظ البتہ: ہمارے بول چال میں یہ لفظ دفع ِشبہ کے لیے مستعمل ہوتاہے جو اس جگہ خلافِ مقصود ہے۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔“

۲:صیغہ کے استعمال کے متعلق فرمایا:” صیغہ مجہول متعدی کا ترجمہ معروف لازم سے کرنا تبدیل مراد ہے۔ “ترجمہ مطابق صیغہ کے ہونا چا ہیے ۔ ترکیب نحوی کی غلطی بتا کر فرمایا:”اِس میں بھی تبدیل مراد قرآنی ہے اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔“”ترجمہ ترکیب کے مطابق نہیں ، اس لیے صحیح نہیں۔ “،”چوں کہ یہ ترجمہ مطابق صیغہ کے نہیں،اس لیے صحیح نہیں۔ “،”ترجمہ مطابق ترکیب و صیغے کے نہیں۔“”جملہ اسمیہ کا ترجمہ جملہ فعلیہ سے درست نہیں۔ترجمہ لفظ مرادف سے ہونا چاہیے۔ ”قرآن میں یہاں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کا ترجمہ” آگے“ ہو سکے، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں ۔“ ”فرقان ترکیب میں کتب پر معطوف ہے نہ کہ اُس کی صفت، جیساکہ ترجمہ میں قرار دیاہے ، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔“’لو‘زمانہ ماضی میں نفی ”کے لیے ہے ، اس لیے حال یا استقبال کے ساتھ ترجمہ کرنا صحیح نہیں ۔ “

۳-بلاغت کے خلاف ہے :ضمیر وحدان کا ترجمہ جمع کے ساتھ م…(قرآنی بلاغت کو ضائع کرنے والی :ف) ہے۔“

۴-ترجمہ مترادف لفظ سے ہونا ضروری ہے: قرآن کے ساتھ”مفہوم میں اتحاد نہیں، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔“ترجمہ قرآنی لفظ کے مترادف نہ ہو،تو ترجمہ درست نہیں۔-اسی لیے بعض موقعوں پر فرمایا گیا کہ:”مفہوم میں تساوی نہیں،اس لیے ترجمہ درست نہیں۔“

۵-ضمیر کے ترجمہ میں احتیاط ضروری ہے۔

۶-لغوی معنی سے اِنحراف درست نہیں:”متاع: ترجمہ لطف ِزندگی ۔“لغوی معنی سے اِنحراف ہے اس لیے ترجمہ درست نہیں۔بعض جگہوں پر” ترجمہ لغت کے خلاف ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ۔“۔بعض موقعوں پر عام کو خاص کر دیا گیا ہے،حا لاں کہ یہ تخصیص درست نہیں۔ – تخصیص بے وجہ ؛بلکہ مضر ہے اور اُس تخصیص کا شبہہ پیدا کرتی ہے جوممنوع ہے، ”اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ “-ترجمہ میں تساوی مفہوم ضروری ہے اور تفسیر میں ایضاحِ مراد:اس لیے ”وَاسِعٌکاترجمہ: فراخ رحمت والا۔“ درست نہیں۔کیوں کہ مطلق مفہوم میں تخصیص ہو گئی۔بعض مقامات کے ترجمہ کے متعلق حکیم الامت کی تنقید یہ ہے کہ :”یہ باطل فرقوں کا مذہب ہے ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ “معنی ومراد سے متجاوز ترجمہ درست نہیں۔ترجمہ میں مقصود سے تجاوز درست نہیں۔” اضافہ بین الہلالین تفسیر مقصود کے لیے ہوتی ہے،نہ(کہ ) تغییرِ مقصود کے لیے ۔“جوترکیب یا جو جزو مقصود ِنظم قرآنی ہو ، اُسے برباد کرنا درست نہیں۔

۷-موصوف صفت کا ترجمہ مضاف مضاف الیہ کا کر دیا گیا، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔-مفعول مطلق کو مرفوع بنا دیا گیا، اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔

’ ’تنزیل ‘کا ترجمہ’ ڈالنا‘ اور ’علی‘ کا ترجمہ ’میں ‘صحیح نہیں ۔ “-موقعِ شرط میں مضارع کا ترجمہ ماضی سے درست نہیں۔-مفعول بہ کو مفعول فیہ بنا دینا درست نہیں۔-مرجع و مشار الیہ کی تعیین میں غلطی نہ ہونی چا ہیے ۔

۸- قرآن کے مضمون پر اِضافہ :”اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّک ۔ ترجمہ: جو تمہارا رب کہے حق وہی ہے۔ “ درست نہیں۔کیوں کہ” یہاں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کے معنی کہنے کے ہوں۔ یہ زیادة علی الکتاب ہے ۔ اس لیے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ “

۹- ’واو‘اور ’بل‘مرادف نہیں،اس لیے جہاں مرادف کی حیثیت سے ترجمہ ہوا،وہ ترجمہ غلط ہے۔

۱۰-بعض موقعوں کی نسبت: جزا کو شرط کے ساتھ کوئی ربط نہیں، اس حیثیت سے یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ “

۱۱-ترجمہ کا مفہوم قرآنی مفہوم کے مساوی نہیں،اس لیے بعض ترجمے درست نہیں۔،یہی بات اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ۔ میں ہے کہ ترجمہ میں افعل التفضیل کی رعایت نہیں ہوئی۔#۴۷-نیز: غُرْفَة ً ۔میں بھی یہی بات ہے۔

۱۲-بعض موقعوں پر تعلیل کا کوئی حرف نہیں،اِس کے باوجودترجمہ تعلیلی کیا گیا ہے ،اس لیے ترجمہ درست نہیں ۔

۱۳-ترجمہ میں الفاظ کی خصوصیات کا لحاظ ضروری ہے،حاصل معنی کافی نہیں۔“

۱۴-غیر مقلدیت کے ساتھ ترجمہ درست نہیں ۔چناں چہ”بِالّغْوفِیْ اَیْمَانِکُمْ کی تفسیر مذہب حنفیہ کے خلاف کر دی ۔ اُس سے قریب ہی قروء کی تفسیر حنفیہ کے موافق ۔” غیر مقلدی یہ ہی ہے۔ “

 ۱۶-اِجماعِ مرکب کے خلاف اِیہام والا ترجمہ درست نہیں۔دیکھیے: علی الوارث۔

۱۶-ترجمہ چھوڑدینا بہت بڑی غلطی ہے۔“دیکھیے:مَتِّعُوْہُنَّ ۔ (البقرة،ع:۳۱،آیت:۲۳۶)

۱۷-الف لام کی خصوصیت کا ترجمہ میں لحاظ ضروری ہے: ”یہ ترجمہ …(الف لام کی خصوصیت:ف) کے خلاف ہے اس لیے یہ ترجمہ غلط ہے ۔“ملاحظہ ہو:” التابوت ۔

۱۸-بغیر ضرورتِ شدیدہ کلام کو مجاز پر محمول کرنا جائز نہیں۔

 تفسیری حواشی کی اصولی نوعیتیں

۱- اصول ِعقائد اورفروع عقائدکی مبہم تقسیم ، پھرعلم شریعت کا اِن میں انحصار یوں بھی غلط ہے اور اِس میں اہلِ فطرت کے خیالات کی ترجمانی بھی ہے

۲- جلب منفعت کی قوت نہ ہونے سے منفعت کے اِمکان کی نفی کرنا ،یعنی قابلیت کی شرط لگا نا۔اِس سے قدرت باری تعالی کی نفی لازم آتی ہے۔ فلاسفہ قدیم و جدید ، معتزلہ قدیم و جدید اوراہلِ سائنس کے اصولوں پر فریفتہ معتقدین فطرت کا یہ نظریہ ہے” جوصریح خلاف ِقرآن وخلاف ِعقل ہے۔“اِنّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَئْیِِ قَدِیْرِ( الله ہر چیز پر قادر ہے۔:ف) نص قطعی ہے اور یہ مضمون اُس کے خلاف ہے۔

 ۳-فطرت پرستوں کا مسلک اختیار کرنا عقیدہ کا فساد ہے: ”یہ خاص فطرت پرستوں کا مسلک ہے کہ طبیعت ہمیشہ ترقی کرتی ہے۔اوراِسی کی یہ اِطلاقی تعبیر ہے کہ” ہر شریعتِ متاخرہ ہر شریعتِ متقدمہ سے افضل واکمل “ہے ۔”حالاں کہ اِس پر کوئی دلیل عقلی ونقلی قائم نہیں۔ “

 ۴- فطرت پرستوں کے مسلک سے بچنا ضروری ہے :یہ کہنا کہ”صالحات اُن اعمال مستقیمہ کو کہتے ہیں جن کا ثبوت عقلی دلائل اور کتاب وسنت سے ہواہو۔“اِس سے یہ لازم آتا ہے کہ”جوعمل صرف دلیل نقلی سے ثابت ہواہو ،وہ عمل صالح نہیں – حالاں کہ اکثر فروع شرعیہ دلیل نقلی سے ہی ثابت ہوئے ہیں -یہ صاف مسلک فطرت پر ستانِ حال کا ہے۔“اِس قسم کی بات کے لیے” اگر کچھ تاویل کی جاوے تب بھی ایہام باطل کے الزام سے سبکدوشی نہیں ہوسکتی ۔ “

۵-بے احتیاطی کا نتیجہ کلمہ کفر ”خداتعالیٰ کی طرف ہدایت کی نسبت تو بہت جگہ آئی ہے۔( خود قرآن میں موجود ہے :ف)؛ مگر ضلالت کی نسبت کہیں نہیں آئی ۔ضلالت کے معنی گمراہ ہونے کے ہیں۔ “یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ” کلمہٴ کفر تک نوبت پہنچ گئی ہے۔“

۶- محال امرکا خدا کی طرف منسوب کرنا درست نہیں: حق جل وعلاشانہ سے تعجب کاصادر ہونا محال ہے؛ کیوں کہ اِس کا منشاء جہل ہے۔(اس لیے یہ کہنا کہ الله”تعجب کر کے فرما تا ہے“محال بات کا خدا کی طرف منسوب کرنا ہے۔ا لله کی شان اِس سے بہت بہت بلند ہے) ۔ تَعَالی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔اسی طرح:#-کسی غیر صحیح امر کا قرآن کی طرف منسوب کرنادرست نہیں ۔نیز:#-قرآن میں بناء الفاسد علی الفاسد تفسیر سراسر باطل ہے: بھول جانا تو ترک کو لازم نہیں ہوتا؛البتہ ترک بھول جانے کولازم ضرور ہے۔

– جس آیت کا حکم منسوخ ہو،تفسیر کرتے وقت اُس کے منسوخ ہونے کی صراحت ضروری ہے۔(”وصیت کے احکام“ذکر کرتے وقت)صرف اِس قدر لکھ دینا کا فی نہیں کہ اُس وقت تک میراث کی آیت نا زل نہ ہوئی تھی۔کیوں کہ اِس سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کون آیت نازل ہوئی اور بعد میں کون۔لیکن یہ ہر گز نہیں معلوم ہو تا کہ پہلاحکم باقی ہے یا منسوخ ہو گیا؟اسی طرح:- منسوخ حکم باقی رکھنا احکام کی تحریف ہے ۔“

۷- جو چیز حرام ہو،اُس کے لیے”ضروری نہیں“کے الفاظ اختیار کرنا سخت بے احتیاطی ہے۔کیوں کہ” ضرورت کی نفی سے محاورات میں جواز کا شبہہ ہو تا ہے۔“اسی طرح:-حرمت کے لیے تخصیص ضروری تھی؛یعنی” صرف انگور کی شراب “کہناصحیح نہیں ؛بلکہ کچے انگورکی شراب کہنا ضروری ہے۔

۸- اِجتہاد، شرطِ اِجتہاد کے بغیر مقبول نہیں -مسائلِ حنفیہ کے ضمن میں-دیگر امام کی تقلید سے کوئی بات کہنا،امام ابو حنیفہ کی طرف نسبت کا وہم پیدا کرتا ہے،اس لیے کسی طرح درست نہیں۔

۹-احکام شرعیہ میں دست ا ندازی -جو اِس تفسیر میں لازم آگئی ہے-درست نہیں۔اسی طرح:- شریعت کی غلط ترجمانی درست نہیں۔

۱۰- آیت میں منصوص قطعی ہونے کی حیثیت سے مسئلہ موجود ہونے کے باوجود نص کے معارض تراشیدہ حکم لانا درست نہیں۔

۱۱-معطوف کو صفت بنانا درست نہیں۔اسی طرح:-بعض مرتبہ واو‘محض عطف کے لیے ہوتاہے نہ کہ ترتیب کے لیے:جب ’واو‘صرف عطف کے لیے ہو اور اُس میں ترتیب کا لحاظ نہ ہو،تو ترتیب پر مبنی” دلالت کا دعوی محض غلط ہے“ ۔

۱۲-بعض موقعوں پرنقل و عقل دونوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۱۹-بعض موقعوں پر خلطِ مبحث ہے۔

            بہر حال خلافِ قواعدِ شرعیہ لکھے گئے تراجم و تفاسیرپر تنقیدات و اصلاحات کے علاوہ،مفسر تھانوی کی جانب سے ملفو ظات و مواعظ میں بھی اِس قسم کے تراجم کے تعدیہ کی روک تھام جاری رکھی گئی۔اِصلاح ترجمہ دہلویہ کے ۲۵ سال بعد کے ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں:

            ایک ڈپٹی کلکٹرآئے تھے وہ بھی نیچری خیال کے تھے کہنے لگے کہ میں کچھ پوچھ سکتاہوں؟میں سمجھ گیاکہ کوئی اس ہی قسم کا سوال کریں گے، جس خیال کے ہیں ۔… سودکے متعلق آپ کا کیاخیال ہے ؟… میں نے کہا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں”وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا“ کہنے لگے کہ فلاں نظامی دہلوی تو اِس کی یہ تفسیرکرتے ہیں۔ میں نے کہاآپ قانون کی دفعات کی بناپرفیصلے دیاکرتے ہیں، آپ وہ قانون اور دفعات مجھ کو دیجیے، میں اُس کی شرح کروں گا(میں نے عربی اورفارسی بھی پڑھی ہے اس لیے اردو کا سمجھنا میرے لیے کیا مشکل ہے ؟ میں اس کی شرح لکھ کر آپ کو دوں۔ اورمیں یہ وعدہ کرتاہوں کہ اِس شرح کو کتاب کے الفاظ پر منطبق کردوں گا۔آپ اِس شرح کے موافق فیصلے لکھا کریں ۔پھردیکھیے کہ گورنمنٹ سے آپ پرکیسی لتاڑپڑتی ہے اورجواب طلب ہوتاہے !اِس پر آپ گورنمنٹ سے یہ کہہ دیں کہ فلاں شخص نے قانون کی یہ شرح کی اوروہ عربی اورفارسی اردوسب جانتاہے۔ …( ایک ماہرزبان کی) شرح کے مطابق میں نے یہ فیصلے دیے ہیں۔… پھردیکھیے کیا جواب ملے گا؟ یہی کہاجائے گاکہ زبان دانی اورچیزہے ،قانون دانی اورچیز ہے۔ بلکہ یہ تنبیہ ہوگی کہ یہ مانا کہ وہ زبان جانتا ہے فن تو نہیں جانتااس لیے اس کی رائے قانونی امورمیں معتبر نہیں ہوسکتی۔(ملفوظات حکیم الامت جلد ۱۰ ص ۲۲۰) اسی طرح دہلوی شخص کی قرآن شریف کی تفسیربھی ہے جیسی میں قانون کی شرح لکھوں۔

(جاری…)