بیان القرآن کا مطالعہ

نویں قسط:۱۱ جمادی الاخریٰ۱۴۴۲ھ/۲۵جنوری۲۰۲۱                                                                                                                                                                          (حکیم الا مت مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر)

مولانا حکیم فخر الاسلام مظاہری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

             مضمون کے ابتدائی صفحات میں یہ ذکر آچکا ہے کہ ابنائے زمانہ کی جانب سے کیے گئے بعض تراجم و تفاسیر میں عام مسلمانوں کو مضرّت پہنچانے والے بکثرت مضامین خلافِ قواعدِ شرعیہ شائع ہونے لگے ،تو حکیم الامت کی جانب سے چھوٹے چھوٹے رسالوں سے اُن کے مفاسد پراطلاع دے کر اُن مضرتوں کی روک تھام کرنے کی کوشش کی گئی ۔اور اِس ضمن میں اُن چندرسالوں کا بھی ذکر کیا جا چکا۔ مثلاً :”اصلاحِ ترجمہٴ دہلویہ“ ،”اصلاحِ ترجمہٴ مرزا حیرت“ ،”فتویٰ جامعِ شرائطِ مترجم“،”فتوی متعلق خریداری و مطالعہٴ تراجم وتفاسیر مخالفہ قواعدِ اہلِ حق“وغیرہ۔یہ سب تحریریں بیان القرآن کی تصنیف سے پہلے وجود میں آئیں۔ تفسیر بیان القرآن لکھنے کے بعد بھی ضرورت کے تحت متعلقہ موضوع کے حوالہ سے اصولی اِنحراف اور تفسیری بے اعتدالی کو روکنے کی غرضسے متعدد تحریریں منصہ شہود پر آئیں۔مثلاً :”التقصیر فی تفسیر“(اِس کا بھی تعارف ماقبل میں آچکا ہے)،”لَنْ تَجِدَ لَسُنّةِاللهِ تَبْدِیلاً“،(۱)”الہادی للحیران فی وادی تفصیل البیان “،(۲)”تنزیہ علم الرحمٰن فی سِمَةِ النقصان“،(۳)”ملاحة البیان فی فصاحة القرآن“۔اِن کے علاوہ امدادالفتاوی،مواعظ وملفوظات وغیرہ میں قرآن کریم کا ترجمہ بے احتیاطی سے کرنے ،بے علمی ،بے فہمی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی مضرتوں کو بیان کیا گیا ہے۔نیز ”فہرست مضامینِ کتاب البرہان علی تجہیلِ من قال بغیر علم فی القرآن“کے عنوان سے باطل تفسیری مضامین کی ایک فہرست مرتب فرمائی گئی ہے۔(۴)

            آئند صفحات میں اِن مضامین کا بھی تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

رسالہ الہادی للحیران فی وادی تفصیل البیان

            اِس رسالہ کا تعارف وپس منظر خود حکیم الامت کی درج ذیل تحریر سے واضح ہو جائے گا:

(۱)امداد الفتاوی جلد ۶ ص۱۴۲۔ (۲)امداد الفتاوی جلد ۶ ص۲۲۳۔

(۳)امداد الفتاوی جلد ۶ ص۱۴۲۔(۴)امدادالفتاوی جلد ۶ ص۲۸۸-۳۲۶۔

            ”بعدا لحمد والصلوة، اما بعد:ایک کتاب تفصیل البیان فی مقاصد القرآن کی(جس میں مضامین مختلفہ کے اعتبار سے قرآن مجید کی تبویب کی ہے)ناتمام جلدیں اظہار رائے -بصورت تقریظ -کی غرض سے آئیں ۔اُس پر میں نے بھی کچھ لکھا اورمیرے ایک دوست نے بھی لکھا اور مصنف صاحب کے پاس بھیج دیا۔ مفید ہونے کی وجہ سے اِس مجموعہ کی- مع خط مصنف صاحب -نقل بھی رکھ لی اور اُس کا ایک لقب بھی رکھ دیا یعنی ”الہادی للحیران فی وادی تفصیل البیان“۔ آگے اس کو ملا حظہ فرمایئے۔ اشرف علی ۲۱/رجب ۱۳۵۰ئھ

خط مصنف صاحب:مکرمی معظمی جناب مولانا صاحب دامت برکاتہم۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ‘۔اِس عریضہ کے ساتھ ایک جلد تفصیل البیان فی مقاصد القرآن ہر چہار حصہ خدمت والا میں اِرسال کر رہا ہوں۔ قرآن کریم کی کوئی آیات مطلوبہ نکالنے کے لیے عربی میں متعدد کتابیں موجود ہیں؛ لیکن جہاں تک مجھے علم ہے کلامِ الٰہی کے مطالب ومعانی کے اعتبار سے کوئی ایسی جامع کتاب اب تک تیار نہیں کی گئی جس سے علماء و واعظین اور عام قارئین کو بلا دقت ہر مسئلہ کے متعلق قرآن کریم کی جملہ آیات ایک جگہ مل جائیں ۔اور ورق گردانی اور دیدہ ریزی کی ضرورت نہ رہے ۔مدت گذری مجھے اِس قسم کی خدمت کا خیال پیدا ہوا؛ مگر کام کی عظمت اور محنت طلبی بار بار ہمت توڑ دیتی تھی۔ آخر اللہ کا نام لے کر میں نے اِس کام کو- جس کی تکمیل کسی تنہا انسان سے بے حد دشوار تھی، اَلسَّعْیُ مِنّا وَالاِْ تْمَامُ مِنَ اللہِ کے بھروسہ پر- شروع کردیا۔ خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اُس نے مجھے اپنے کلامِ مقدس کی خدمت کی توفیق دی۔ اِس کہن سالی اور ضعیفی کے عالم میں اپنے فضل سے مجھے جوانوں کی سی ہمت عطا فرمائی اور میں نے اپنے بساط اور قابلیت کے مطابق اِس کام کو انجام تک پہنچا دیا۔ فالحمد علی ذالک۔

            آپ کتاب کو ملاحظہ فرمائیں گے ،تو آپ پر روشن ہوجائے گا کہ استدلالات اور امر ونواہی،قصص و حکایات،بصائر وعِبَر، غرض کلام الٰہی کے ہر پہلو کے متعلق آیات ایک ایک جمع کردی گئی ہیں۔اور مطالب کی فہرست میں حتی الوُسع جامعیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں یہ عرض کردوں کہ جو کتاب آپ کی خدمت میں ارسال کی جارہی ہے، آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ دو جلدیں ابھی زیرِ طبع ہیں اور دو زیرِ تحریر ہیں، اِس لیے جو مطالب آپ کو اِس طبع شدہ جلدوں میں نظر نہ آئیں اُن کی مجھے اطلاع دیجیے ،یقین رکھیے وہ ان شاء اللہ بقیہ جلدوں میں فراہم کر دیئے جائیں گے۔

            اِس مختصر سے عریضہ میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اِس کتاب کی افادی حیثیت کو بیان کرنا مشکل بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ کتاب آپ کے سامنے ہے آپ جیسے اربابِ علم وبصیرت خود اُن(اِفادی حیثیتوں) کے حسن و قبح کا اندازہ فرماسکتے ہیں۔ اِس عریضہ کے اِرسال سے مدعا یہ ہے کہ آپ ازراہِ عنایت جلد سے جلد اپنی پہلی فرصت میں اِس مخلصانہ دینی خدمت پر ایک تقریظ لکھ کر مجھ پر احسان فرمائیں۔مجھے اِس کتاب سے جلبِ منفعت کا خیال نہیں؛ بل کہ صرف کلامِ الٰہی کی خدمت اور اپنی مغفرت کا خیال اِس کی ترتیب و اشاعت کا محرک ہوا ہے۔

غرض نقشے است کزمایا دماند                     کہ ہستی را نمی بینم بقائے

مگر صاحب دلے روز بہ ہمت          کند درکار ایں مسکیں دعائے(۵)

                        مجھے امید ہے کہ آپ اِس کو ملاحظہ فرماکر اس کی رسید ہی میں مختصر اپنی رائے بھیجیں گے تاکہ مسلمانوں کو اس سے خریدنے کی ترغیب ہواورقرآن حکیم کے پڑھنے اور سمجھنے کا فرق عام ہوجائے۔۱۷ نومبر۱۹۳۱ء۔

جواب احقرازاشرف علی عفی عنہ :بخدمت مکرمی محترمی دامت الطافہم۔ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ۔

            نامہ نامی وہدیہ گرامی بصورت” تفصیل البیان“ باعثِ منتِ متضاعفہ ہوا ۔میں کئی وجہ سے خجل (شرمندہ)ہوں۔

            اول :اِس لیے کہ جو خدمت میرے سپرد فرمائی گئی ،میں اُس کا اہل نہیں ۔اِسی لیے اِس زمانہ میں ہزاروں تصانیف ِ جدیدہ شائع ہورہی ہیں ، میں نے کبھی ابتداء ًکسی کے متعلق اظہارِ رائے کی جرأت نہیں کی ؛لیکن بعد امر کے ،اِمتثا ل نہ کرنا اُس سے زیادہ خجلت (شرمندگی) کا موجب تھا، اِس لیے اِس خجلت کو گوارا کیا۔

 دوسرے :اِس لیے کہ اِس خدمت کی بجاآوری میں دیر ہوئی جس کا سبب علاوہ عدمِ اہلیت کے، فرصت کا فقدان ہے جس کا تعلق مشاہدے سے ہے۔

(۵)ترجمہ:غرض کہ ایک نقش ہے جس سے ہماری یادباقی رہے گی اس لیے کہ مجھے زندگی کا دوام نظر نہیں آتا۔ شایدکوئی الله والا کسی دن توجہ کر کے اِس مسکین کے کام میں دعاء کر دے۔

                        تیسرے :اِس لیے (اور یہ سب خجلتوں سے اشد ہے)کہ وہ خدمت حسبِ مرضی ِعالی نہ کرسکا؛ مگر میں دینی حیثیت سے ا س میں معذور ہوں جو اِس حیثیت سے ظاہر ہے:”یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوا کُوْنُوا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلیٰ اَٴنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیّاً اَوْ فَقِیْراً فَاللّٰہُ اَوْلیٰ بِھِمَا فَلَاتَتَّبِعُوا الْھَوَیٰ اَنْ تَعْدِلُوا(الا ٰ یة)(۶)

یہ سب خجلتیں جمع ہوکر حافظ کا یہ شعر یاد دلاتی ہے۔

زدست کوتہ خود زیر بارم   کہ از بالا بلند ان شرمسارم(۷)

            (اِس تمہید کے بعد” تفصیل البیان“ پر تبصرہ فرماتے ہیں:)دیباچہ میں:

 ۱-مقصود بالبقاء قومیت کو بتایا ہے۔

۲-فقہ کو بیکار بتایا ہے۔

۳-حدیث کو صرف قرآن کی تفسیر قرار دیا ہے جس سے متبادر ہوتاہے کہ اس سے مستقلاً احکام ثابت نہیں ہوتے۔

۴-قرآن کا حاصل قومی انحطاط کے بواعث اور ترقی کے وسائل کی طرف توجہ دلانا کہا ہے۔

۵-اہلِ سیاست بلا کسی شرط وقید کے مسائلِ سیاسیہ کو قرآن سے سمجھنے کی اجازت دی ہے اور اسی غرض سے قرآن مجید کی یہ تبویب کی گئی ہے۔

(۶)(اے ایمان والو(تمام معاملات میں ادا کے وقت بھی اور فیصلہ کے وقت بھی) انصاف پر خوب قائم رہنے والے (اور اقرار یا شہادت کی نوبت آوت،تو)الله کے لیے (سچی)گواہی (اور اِظہار)دینے والے رہو،اگرچہ(وہ گواہی اور اِظہار) اپنی ہی ذات پر ہو(جس کو اِقرار کہتے ہیں)یا کہ والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے مقابلہ میں ہو۔(اور گواہی کے وقت یہ خیال نہ کرو کہ جس کے مقابلہ میں ہم گواہی دے رہے ہیں یہ امیر اِس کو نفع پہنچانا چا ہیے،تاکہ اِس سے بے مروتی نہ ہو،یا یہ کہ یہ غریب ہے اِس کا کیسے نقصان کر دیں۔تم کسی کی امیری غریبی کو نہ دیکھو،کیوں کہ )وہ شخص(جس کے خلاف گواہی دینی پڑے گی)اگر امیر ہے،تو اور غریب ہے،تو دونوں کے ساتھ الله تعالی کو زیادہ تعلق ہے(اِتنا تعلق تم کو نہیں،کیوں کہ تمہارا تعلق جس قدر ہے وہ بھی اُنہی کا دیا ہوا ہے،اور الله تعالی کا جو تعلق ہے،وہ تمہارا دیا ہوا نہیں۔پھرجب باوجود تعلقِ قوی کے الله تعالی نے اُن کی مصلحت اُسی میں رکھی کہ اِظہارِ حق کیا جاوے،تو تم تعلق تعلقِ ضعیف پر اُن کی ایک عارضی مصلحت کا کیوں خیال کرتے ہو)سو،تم (اِس شہادت میں)خواہشِ نفس کا اِتباع مت کرنا،کبھی تم حق سے ہٹ جاوٴ۔

(بیان القرآن جلد۲ ص۱۶۴) )

(۷)ترجمہ:اپنی محرومی کے بوجھ تلے دبا ہوں،اِسی وجہ سے بلند مرتبہ و منصب رکھنے والوں کے سامنے شرم سار ہوں

 اب المامور معذور کی بنا پر دیباچہ اور فہرست مضامین اور خط کو پیش نظر رکھ کر اس خدمت کی تفصیلِ مجمل پیش کرتا ہوں اور ساتھ ساتھ معافی چاہتا ہوں۔

۶-آگے کچھ کتابوں کے نام لکھے ہیں جن سے اپنی اس کتاب میں مدد لی ہے جس میں یہ اقرار ہے کہ ان کتابوں میں جو کام کیا گیا ہے وہ اور نوع کا ہے اور اس کتاب میں اور نوع کا اتنا خود اقرار ہے۔ باقی اس سے زیادہ تفصیلی فرق اُس وقت معلوم ہو سکتا ہے جب اُن کتابوں کو دیکھا جائے۔ اتنا اس وقت بھی کہا جا سکتا ہے کہ جن کی یہ کتابیں ہیں بعض تو اُن میں قابلِ اقتداء ہی نہیں۔ اور” جواہر القرآن“ کی نسبت بعض دیکھنے والے ثقات سے سنا ہے کہ اُس میں صرف حمد وثنا کی آیات بطورِ ورد کے جمع کی ہیں۔ نہ تمام قرآن کا اِستیعاب مقصود ہے ،نہ ترتیب ِ ابواب، نہ اثباتِ احکام۔ اور اگر کسی قابل اقتداء سے ایسا کرنا ثابت ہو، تو اُس زمانے میں کسی مفسدہ کا احتمال نہ ہوگابخلاف اِس زمانے کے ،کہ جس میں بعضے یہاں تک خیال ظاہرکررہے ہیں کہ بجائے ترتیبِ حاضر کے ترتیبِ نزولی پر قرآن کو مرتب کرنا چاہیے۔سو، اِس تبویب میں ایسے خیالات کی تقویت ہے، اس لیے ایک کا قیاس دوسرے پر صحیح نہیں ۔ بہرحال ، اس کتاب میں اُن کتابوں کی اِقتدا کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔

۷-آگے موضوعات کی فہرست میں حب الوطنی کی ترغیب اور سرمایہ داری کی مذمت کو مثال کے طور پر لیا ہے، حالاں کہ اِن الفاظ کا جو اِس وقت مفہوم ہے قرآن مجید کو اس سے مس بھی نہیں، تو غیر مدلول قرآنی کو اس کا مدلول بنانا ایک نوع کی تحریف ہے۔

۸-آگے عوام کے نفع کے لیے ترجمہ کرنے کو منا سب بتلایا گیا اور نفع وہی تھا جس کا ذکر ۵-میں ہوا ہے تو اِس میں عوام کو قرآن مجید سے اخذِ مسائل کی اجازت دی گئی ہے جس کے مفاسد مشاہد ہیں۔

             یہ مختصر و مجمل کلام ہے دیباچہ کے بعض اجزاء پر اس کے بعد خط کے اجزاء کے متعلق کچھ معروض ہے۔

            ۹-خط میں اس تدوین کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک مضمون کی آیتیں ایک جگہ مل جائیں گی۔ سو،اول تو اِس غرض کے لیے وہ کتابیں بھی کافی ہیں جن میں مضامینِ قرآن کی فہرست مع نشانِ مقام لکھی ہے۔ صرف جامع کو تھوڑی سی مشقت جو زیادہ دشوار نہیں برداشت کرنے کی ضرورت ہوگی ۔دوسرے اگر مصلحت کے ساتھ کوئی مفسدہ بھی ہو تو سمعاًوعقلاً(نقلی و عقلی دلائل کی رو سے)مفسدہ کو موٴثر قرار دے کر اُس سے تحرز(بچنے) کا حکم دیا جائے گا اور مصلحت کا اہتمام نہ کیا جائے گا۔ خصوص جب کہ وہ مصلحت دوسرے سالم طریق سے بھی حاصل ہو سکے۔

۱۰-آگے تحریر فرمایا گیا ہے کہ جو مطالب اِن جلدوں میں نظر نہ آئیں ،اطلاع دیں، بقیہ جلدوں میں فراہم کردئے جائیں گے۔ اِس کی نسبت یہ عرض ہے کہ ایسے مطالب کی فہرست طویل ہے آسانی سے ضبط نہیں ہوسکتی۔ اِس پر اِطلاع کا صرف یہی طریقہ تھا کہ کل جلدیں اور اُن کی فہرستیں سامنے ہو ں۔(چوں کہ وہ سامنے نہیں) جس(کی وجہ اُن مطالب پر نظر کرنے) سے اِس وقت معذوری ہے۔ اوربدون اِس (نظر کرنے)کے یہ رائے قائم کرنا -کہ انتخاب مکمل ہے یا غیر مکمل ہے- دشوار اور سخت دشوار ہے۔ البتہ موجودہ فہرستوں میں ”حب الوطنی“ و”سرمایہ داری“ وغیرہما کے موضوعات دیکھ کر شبہہ ہوتا ہے کہ شاید اِس مذاق کا دوسرے خاص مسائل میں بھی اثر ہواہوجیسے ہدایت بالجہاد لمحض الدین(جہاد خالص دین کے لیے ہونے کے بجائے حب وطن کے لیے) یااِ سترقاق یا صدورِمعجزات و کرامات (وغیرہ اِس جلد کی طرح)اور بقیہ(دیگر) جلدوں میں بھی یہ موضوعات نہ ہوں۔

             اور بہت سے مسائل اِس قسم کے ہیں جن میں عقلائے زمان، علماء ادیان سے اختلاف رکھتے ہیں اگر اُن(دیگرجلدوں) میں بھی نہیں ہیں، تو انتخاب نہ جامع ہے، (کیوں)کہ یہ اجزاء خارج رہ گئے۔ اورنہ مانع ہے،(کیوں) کہ ”حب الوطنی“ و” سرمایہ داری“ وغیرہما داخل ہوگئے۔

۱۱-آگے حسنِ نیت کا ذکر فرمایا ہے۔ اُس میں کلام کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ البتہ اِس قدر عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کہ قانونِ الٰہی میں اجر مطلق نیت پر موعود نہیں؛ بل کہ عمل کا ماذون فیہ ہونا بھی شرط ہے۔ اور ابھی تک اِس کا ماذون فیہ ہونا سمجھ میں نہیں آیا، جیسا کہ مفصلاًمعروض ہوا۔

۱۲-اِس کے بعد تقریظ کے لیے فرمایا گیا ہے۔ اِس میں وہی عذر ہے جو اِس عریضہ کے ابتدائی حصہ میں معروض ہوا۔ یعنی تقریظ شہادت ہے اور شہادت میں میرا معذور ہونا اوپر کی تفصیل سے ظاہر ہے۔

             آخر میں درخواست ہے کہ چاروں جلدیں امانت رکھی ہیں اگر محصول کے ٹکٹ بھیج کر مجھ کو بھیجنے کی اجازت دی جاوے، تو کسی مستحق کے پاس پہنچ جائیں گی۔ میں نے احتیاطاًاپنے ایک دوست کو بھی اُن کا خیال حاصل کرنے کے لیے یہ جلدیں دکھلائی تھیں ،اُن کی رائے بھی ملاحظہ(سے) گذرے گی جو جدا ورق پر مرقوم ہے۔ گو لہجہ اُس کا میری تحریر کے لہجہ سے زیادہ صاف ہے؛ لیکن نفسِ مقصود کے اعتبار سے بالکل پُر ازانصاف ہے۔ اب متکلم ومخاطب و غائب سب کی نیت سے اِس دعا پر اِس معروضہ کو ختم کرتا ہوں۔اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حقّاًوَّارْزُقنَا اِتِّبَاعَہ وَالْبَاطِلَ بَاطِلاًوَّارْزُقْنَا اِجْتِنَابَہ۔ والسلام از تھانہ بھون اول عشرہ اخیر ۵ رجب ۱۳۵۰ھ۔( النور محرم ۱۳۵۱ھ ص۱۴،امدادا لفتاویٰ ج۶،ص۲۲۳ تا۲۲۷۔)

تحریر بعض احباب(۹):تفصیل البیان پر تنقید

            حامداًومصلیاًومسلماً!اما بعد:

            میں نے کتاب” تفصیل البیان فی مقاصد القرآن“ کا دیباچہ اور مصنف صاحب کا وہ خط- جو کتاب کے ہمراہ تھا- مطالعہ کیا۔اور اُس غرض وغایت پر مطلع ہوا جو مصنف صاحب نے اِس کتاب کی تصنیف میں مد نظر رکھی ہے،نیزمیں نے کتاب کے بعض مقامات کو بھی دیکھا۔

             اُن سب کے دیکھنے سے میں یہ سمجھاہوں (اور اِس سمجھنے میں معذور ہوں)کہ مصنف صاحب اِس کتاب کی تصنیف میں صرف وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاً۔(۱۰)

                        کے مصداق ہیں۔ اور فی نفسہ نہ اُن کا مقصد صحیح ہے اور نہ جو کام انہوں نے کیا ہے وہی درست ہے۔ہم یہ مان سکتے ہیں کہ مصنف صاحب نے جو کچھ کیا وہ نیک نیتی سے کیا ؛لیکن یہ ضرور(ی) نہیں کہ جو کام نیک نیتی سے کیاجاوے وہ درست بھی ہو یا کم از کم (یہ ہوکہ)اُس کے کرنے والے کو معذور سمجھاجاوے۔

            (یہ دونوں باتیں ضروری نہیں )، کیوں کہ وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاً،اِس پرشاہد ہے کہ اشخاص معہودین (جو آیت کے مورد ہیں )اپنے کام کو اچھا سمجھ کرکرتے تھے ؛مگر اِس کے ساتھ ہی اُن کو معذورقرار نہیں دیا گیا ؛بل کہ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیوٰةِالدُّنْیا(۱۱)

 فرمایاگیا پس ثابت ہواکہ محض نیک نیتی ہر حالت میں عذر نہیں ہوسکتی ۔

            اب رہی یہ بات کہ مصنف صاحب کا مقصد فی نفسہ صحیح نہیں ،سو، اِس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں تک میں مصنف صاحب کے بیان سے سمجھ سکا ہوں ،اُن کا مقصد یہ ہے کہ:

(۹)بعض احباب کا مصداق غالباً حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی ہیں۔

(۱۰)اور وہ(بہ وجہِ جہل کے)اِسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔

(بیان القرآن جلد ۶ ص۱۳۷)۔

(۱۱)(اِن لوگوں کی )دنیا میں کری کرائی محنت (جو اعمالِ حسنہ میں کی تھی،آخرت میں)سب گئی گز ری ہوئی۔(ایضاً حوالہ بالا)

            ۱- وہ اس طریق سے قوم کے لیے ایک مجموعہ آداب ملی مرتب کرناچاہتے ہیں؛ لیکن نہ اِس غرض سے کہ مسلمان تصحیحِ عقائد و اصلاحِ اعمال، اخلاق سے حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرسکیں؛(بل کہ)محض اس لیے کہ اُن میں قومی اتحاد پیداہواور اِس سے اُن کو سیاسیات میں نفع پہنچے۔

             اور اِس بنا پر ،میں نہایت بجاطور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنے اس دنیاوی مقصود میں بیِّن طور پرضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیوٰةِالدُّنْیا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاًکے مصداق ہیں۔

            اب رہی یہ بات کہ جو کام انہوں نے کیاہے وہ بھی درست نہیں ،سو،اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے کلام بلیغ اور معجز کو پارہ پارہ کرکے لوگوں کے سامنے ایسی شکل میں پیش کیاہے جس سے بجائے اِس کے کہ لوگوں کو اُس کی طرف رغبت ہو ،اُلٹی وحشت ہوگی۔ کیوں کہ جب وہ ناتمام فقرے اور غیر مربوط جملے دیکھیں گے توظاہر ہے کہ اُن کو کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔

             آپ اِس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک شاعر کا اعلیٰ درجہ کا شعر لے لیجیے،پھر اُس کے مختلف اور غیر مرتب فقرے بناکر اُس کو پڑھیے ،پھر دیکھیے کہ اُس کے ہر فقرے اور ہر ٹکڑے میں کیاو ہ لطافت اور دل کشی باقی ہے جو اُس شعر میں تھی۔

            ہر مذاقِ صحیح یہ ہی بتلاوے گا کہ ُان میں ہر گز وہ لطافت اور پاکیزگی نہیں ہے۔ پس ایسی حالت میں ایک کلام ِمعجزاور بلیغ کو ایسے ٹکڑوں میں تقسیم کرناکیوں کر جائز ہو سکتا ہے؟

            ۲-دوسرے کلامِ الٰہی کے اس طرح پارہ پارہ کرنے میں -علاوہ اُس کی بلاغت ولطافت اور اعجاز کو صدمہ پہنچانے کے-تحریف معنوی بھی ہے۔کیوں کہ اُس کا ایک فقرہ جب اپنے محل پر تھا تو وہ علاوہ لغوی معنی کے، ایک دوسرے معنی بھی ادا کرتا تھا جس کو ترکیبی معنی کہاجاسکتا ہے۔اور جب کہ اس کو اُس کی جگہ سے ہٹادیا جائے گا ،توصرف لغوی معنی رہ جائیں گے اور ترکیبی معنی فوت ہو جائیں گے۔

            مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ حق تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاقول نقل کرتے ہیں:

 اِنْ تُعَذِّ بْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکْ وَاِنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم ُ۔اب اگراِس میں اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم ُکاٹ کر الگ جملہ بنادیاجائے،تو اُس کے وہ معنی ہرگز نہیں رہ سکتے جو اِس جگہ مقصود ہیں۔

کیوں کہ اِس کے معنی ہیں: َاِنْ تَغْفِرْلَھُم فَلامانِعَ لک لِاَ نَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُولا اعتراضَ علیک لانَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم ُاور یہ معنی مستقل جملہ سے مفہوم نہیں ہوسکتے ۔اس لیے یہ فعل مسخ کلام الہی اور اُس کی تحریف ہوگا جو کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہوسکتا۔

            ۳-تیسرے اِس طرز عمل پر خطرہ ہے،کہ کہیں جاہل اور نادان مسلمان اِس سے دھوکہ کھاکر قرآن منظم و مرتب کو ہاتھ سے نہ کھوبیٹھیں ۔اور اِس غیر مرتب اور محرف کتاب کو کافی سمجھ کر اِس پر قناعت نہ کربیٹھیں۔ یا اُس میں اور رد وبدل کرکے قرآن کو توریت وانجیل کی طرح بالکل مسخ اور محرف کردیں ۔اس لیے یہ طرز عمل اپنے نتیجہ کے لحاظ سے نہایت خطرناک ہے۔

            ۴-چوتھے اس طرز عمل میں گویا حق تعالیٰ کو اصلاح دینا ہے کہ ُاس نے جس صورت میں قرآن کونازل فرمایا ہے وہ ہماری ضرورت کے لیے ناکافی ہے اور اُس میں ردوبدل کی ضرورت ہے۔

            ۵-پانچویں مضامین قرآن کی جو سرخیاں قائم کی گئی ہیں اُن میں تحریف معنوی کا پہلو نمایاں ہے۔ مثلاً سرخی قائم کی گئی ہے:”اعضائے انسانی کی نسبت باری تعالیٰ کی طرف “اور اُس کے تحت میں آیاتِ وجہ ،دید وغیرہ درج کی گئی ہیں ۔پس سرخی پر نظر کرکے اُس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آیات میں منہ سے مراد انسانی منہ اور ہاتھ سے مراد انسانی ہاتھ ہے وغیرہ وغیرہ۔

            اور اِس کا تحریف ہونا ظاہر ہے۔ نیز ایک عنوان قائم کیا گیا ہے: ”جنت میں لذائذ روحانی“اور اِس کے تحت میں وہ آیتیں درج کی گئی ہیں جن میں نہروں اور کھانوں وغیرہ کا ذکر ہے۔اِس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ چیزیں حسی نہیں بل کہ معنوی ہیں اور یہ تحریف ہے۔

            نیز مصنف صاحب کہتے ہیں کہ :”جن آیات میں لوگوں کو جہاد کے لیے اُبھاراگیا ہے،وہاں انہیں اس بات کی غیرت دلائی ہے کہ تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے تمہیں تمہارے ملک اور تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔

            اس قسم کی آیات کے لیے میں نے جہاد کے علاوہ حُب وطن کا عنوان بھی تجویز کیا ہے ۔“آہ ۔لیکن یہ حب وطن کا عنوان کسی طرح آیات کا مدلول نہیں اس لیے یہ سراسر تحریف ہے۔

             نیز وہ کہتے ہیں کہ:” جن آیات میں سیم وز کے جمع کرنے اور اُسے سینت سینت کررکھنے کی مذمت بیان کی گئی ہے میں نے اُن آیات کو سرمایہ داری کے تحت میں بھی لیا ہے۔“ لیکن یہ کھلی ہوئی تحریف ہے۔سرمایہ داری متعارف جس کوبالشویک خیال کے لوگ برا سمجھتے ہیں اُس کو آیات مذکورہ سے کوئی لگاؤ نہیں۔

             اسی طرح اُنہوں نے ایک عنوان قائم کیا کہ ”جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دے سکتے ہیں۔“ ان میں مالدار لوگوں کو روزہ سے سبکدوش کردینا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔

             اِن وجوہ سے مسلمانوں کے لیے یہ کتاب نہایت خطرناک اور گمراہ کن ہے۔ مصنف صاحب کا فرض ہے کہ وہ اِس کی اشاعت کو بند کریں ،ورنہ جس قدر گمراہی اِس سے پھیلے گی اور جو مفاسد اِس پر مرتب ہوں گے، خدا کے ہاں وہ اُن کے ذمہ د ارہوں گے۔مصنف صاحب عنقریب خدا کے پاس جانے والے ہیں۔ اُن کو اِس کا ضرور خیال کرنا چاہیے ۔بالخصوص ایسی حالت میں،(کہ) مصنف صاحب کا جو اِس سے مقصود ہے یعنی مسلمانوں میں قومی اتحاد پیدا کرنا اور اُن کو سیاسی نفع پہنچانا ،وہ بھی اِس سے حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہ کتاب اُن مناشی کے دور کرنے کے لیے کافی نہیں ہے جو اِس تشتت اور افتراق(بکھرتاوٴ اور باہمی مخالفت) کامنشا ہیں ۔پھر اِس درد سری اور کوششِ لایعنی کا بجز ناکامیِ دنیا و آخرت کے کیا نتیجہ۔وما علینا الا البلاغ۔

            رہا مصنف کایہ خیال کہ :”جو کام میں نے انجام دیا ہے وہ ایسا نہ تھا جس کی ضرورت سب سے پہلے مجھے ہی محسوس ہوئی ہو ۔نہیں ،مجھ سے پہلے کئی بزرگ خادمانِ دین نے اِس راہ میں قدم رکھا۔“ سو ،اِس کا جواب خود مصنف صاحب ہی کے کلام میں موجود ہے۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں:” گو مجھے معلوم نہیں کہ کسی نے بالکل اسی نوع کی خدمت قرآن کی کی ہو جیسے میں نے کی ہے؛ لیکن یہ بزرگ کچھ نہ کچھ ضرور کر گئے ہیں۔ مصنف صاحب کا یہ اقرار خود بتلا رہا ہے کہ بزرگانِ پیشیین اور مصنف صاحب کے کام میں بہت فرق ہے ،اس لیے اُن کا فعل مصنف صاحب کے لیے حجت نہیں ہو سکتا ۔افسوس ہے کہ جن کتابوں کا مصنف نے ذکر کیا ہے جیسے” جواہر القرآن“ ،”غزالی“ وغیرہ ۔ اِس وقت ہمارے سامنے نہیں ہے ،ورنہ ہم دونوں کے طرزوں کا فرق واضح طور پر دکھلادیتے؛ لیکن جب کہ مصنف صاحب کو فرق خود تسلیم ہے تو اس کی ضرورت نہیں رہتی۔ واللہ اعلم۔تمام شد رسالہ الہادی للحیران

 (النور ص ۷ صفر المظفر۱۳۵۱ھ،امدادالفتاویٰ ج۵، ص ۵۱تا۵۴)