بیان الدعاء

حضرت شیخ الحدیث مولاناسید محمد عاقل صاحب نوراللہ مرقدہ کا علمی فیضان اور روحانی ارمغان

 از: مفتی محمد سلمان صاحب مظاہری،وانمباڑی

ناظم: مرکزالاقتصاد الاسلامی،انڈیا


            اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِ الْاَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِینَ، نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِہِ وَصَحْبِہِ اَجْمَعِینَ.

            قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِی کِتَابِہِ الْکَرِیمِ: {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ}

            اَمَّا بَعْدُ:

            علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے آسمان پر بعض ہستیاں ستاروں کی مانند چمکتی ہیں، جن کی روشنی سے آنے والی نسلیں اپنی راہیں متعین کرتی ہیں، اُن کی حیاتِ مبارکہ اُنہی مقدس علوم کی عملی تفسیر ہوتی ہے، جن کی تعلیم و تدریس میں وہ اپنی عمریں صرف کر دیتے ہیں،ایسی ہی ایک آفتابِ علم و عرفان شخصیت، جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے سابق شیخ الحدیث و ناظمِ اعلیٰ، پیکرِ علم و عمل، تقویٰ و طہارت کے کوہِ گراں، اور عاجزی و انکساری کے پیکرِ جمیل، حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب نوراللہ مرقدہ کی تھی۔ آپ کا وجودِ مسعود حدیثِ نبوی کے نور سے اس قدر منور تھا کہ آپ کی ہر ادا سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینہ دار نظر آتی تھی۔

            اس ناچیز کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ حضرت والا کی جوتیوں میں بیٹھ کر علم کے چند حروف سیکھے، اور یہ میری زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے کہ میں اُن کی پُر اثر صحبت کی کیفیت کا گواہ ہوں، وہ صرف حدیث کے استاذ نہیں تھے، بلکہ حدیث اُن کے رگ و پے میں رچ بس گئی تھی، اُن کی پوری زندگی اُنہی نبوی اصولوں کی جیتی جاگتی تصویر تھی، جن کے مطالعہ و تدریس کا مقدس مشغلہ تقریباً چھ دہائیوں پر محیط رہا، ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اُن کا اوڑھنا بچھونا تھے، جو اُن کے ہر عمل اور فکر کو ایک نورانی قالب میں ڈھالتے تھے، خود نمائی اور شور و غل کے اس دور میں وہ اخلاص و للہیت کے ایک پرسکون قلعہ تھے، انہوں نے عالیشان اسٹیجوں یا مزین منبروں کو اپنا میدان نہیں بنایا، بلکہ درسگاہ کے پُر وقار ماحول اور اپنے حجرے کی مبارک تنہائی کو منتخب فرمایا، جہاں انہوں نے ترمذی، ابو داوؤد اور نسائی جیسے حدیث کے عظیم مجموعے پر اپنی علمی تحقیقات اور تشریحات قلمبند کیں،یہی اُن کی دنیا تھی؛ مقدس الفاظ اور گہرے معانی کی دنیا۔

            اُن کی شخصیت ایسی دل آویز تھی کہ جس میں ہم آہنگ خوبیاں ایک ساتھ جمع تھیں، وہ بے پناہ ذہانت و فطانت اور حاضر جوابی کے مالک تھے، پھر بھی خود کو کمالِ سادگی اور بے تکلفی سے پیش فرماتے، اُن کے نورانی چہرے پر تقویٰ کے آثار ہر آن نمایاں رہتے، مگر شفقت و نرم خوئی ایسی کہ ہر کوئی اُن سے قرب محسوس کرتا، وہ کم گو تھے، مگر اُن کی پُر معنی خاموشی اکثر طویل خطابات پر بھاری ہوتی۔ اپنے طلباء کے لیے اُن کی شفقت ایک باپ کی سی تھی، اپنے ہم عصروں کے لیے اُن کا احترام بے مثال تھا، اور وہ شہرت و جاہ و منصب سے کامل بیزار تھے، اُن کی باوقار چال میں ایک ایسی خاموش خوبصورتی تھی جو ایک مطمئن اور ذاکر روح کی عکاسی کرتی تھی۔ بلاشبہ، اُن کے طلباء اور ہم عصر احباب نے اُن کی ذات میں اسلاف کی ایک قیمتی نشانی، ایک حقیقی ’’یادگارِ اسلاف‘‘کا مشاہدہ کیا۔

            یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اِسی شیخِ وقت کے قلمِ مبارک سے ’’بیان الدعاء‘‘ کی شکل میں ایک عظیم علمی و روحانی ارمغان ہم تک پہنچا ہے،یہ کتاب ایک دعائیہ مجموعہ سے کہیں بڑھ کر ہے؛ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صحبت میں گزاری گئی ایک زندگی کا نچوڑ ہے، یہ ایک روحانی دستور العمل، قلوب کے لیے تسکین کا سرچشمہ، اور ایک ایسے مومن کے لیے عملی رہنما ہے، جو دعاء کے عظیم عمل کے ذریعے اپنے خالق سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے۔

            اس مضمون کا مقصد ’’بیان الدعاء‘‘ میں موجود علمی و روحانی خزانوں کو کھولنا، اس کے ہر پہلو کا عقیدت بھرا جائزہ لینا، اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ یہ کس طرح اپنے عظیم مصنف کی گہری روحانیت اور علمی جلالت کا عکس ہے۔

بیان الدعاء کی تصنیف کا پس ِمنظر: خلوص و للہیت سے مزین ایک پیش لفظ:

            حضرت والا اپنی کتاب کا آغاز ایک ایسے پیش لفظ سے فرماتے ہیں جو جتنا منور ہے اتنا ہی عاجزانہ ہے، یہ کتاب کی روح اور اس کی تخلیق کے پیچھے کارفرما خلوص نیت کی ایک حسین جھلک پیش کرتا ہے، حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ ارشاد فرماتے ہیں کہ دعاؤں کا یہ مجموعہ ابتدائی طور پر اشاعت کے ارادے سے ترتیب نہیں دیا گیا تھا، یہ اُن کا ذاتی معمول تھا، حدیثِ پاک سے منتخب کردہ وہ دعائیں جنہیں وہ روزانہ اہتمام سے پڑھا کرتے تھے۔

            ایک نجی مجموعے سے اُمت کے لیے ایک عام نفع کے چشمے تک کا سفر، پدرانہ شفقت کے ایک سادہ عمل سے شروع ہوا،انہوں نے یہ دعائیں لکھ کر اپنے گھر کی مستورات کو عطا فرمائیں اور انہیں باقاعدگی سے پڑھنے کی ترغیب دی، تاہم جلد ہی اُن کے قلبِ صافی پر ایک نورانی خیال وارد ہوا: یہ فائدہ صرف میرے گھر کی چار دیواری تک ہی کیوں محدود رہے؟ اس روحانی تحفے کو دوسروں تک پہنچانے، اس میں مزید منتخب دعائیں شامل کرنے، اور اسے شائع کرنے کی خواہش پیدا ہوئی، تاکہ یہ تمام مسلمانوں کے لیے رہنمائی اور برکت کا ذریعہ بن سکے، وہ اپنی مخصوص انکساری کے ساتھ رقمطراز ہیں کہ جیسے جیسے وہ اضافے کے لیے حدیث کی کتابوں کے بحرِ زخار میں غوطہ زن ہوتے گئے، ان دعاؤں کے لیے ان کا اپنا شوق اور قلبی جذبہ فزوں تر ہوتا گیا۔

            یہ پیش لفظ فی الفور کتاب کے بنیادی اصول: اخلاص، کو قائم کرتا ہے، یہ کسی علمی ناموری کی خواہش سے نہیں، بلکہ ایک ذاتی روحانی مشق اور اُمتِ محمدیہ کو نفع پہنچانے کی سچی تڑپ سے پیدا ہوئی۔

            اس کے بعد حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ نے کمالِ خوبی سے اس اہمیت کو واضح فرمایا ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء کے عمل کو عطا فرمائی ہے، وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حدیث کے گہرے مطالعے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف دعاء کو اپنی حیاتِ مبارکہ کا ایک اہم ستون بنایا بلکہ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس عمل میں نہایت باریک بینی سے رہنمائی بھی فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر بھی نظر رکھتے تھے کہ صحابہ کرام کس طرح دعا مانگ رہے ہیں، حضرت والا ایک نہایت بصیرت افروز مثال دیتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اللہ کی حمد و ثنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے بغیر جلدی میں دعا شروع کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت نرمی سے اس کی اصلاح فرمائی اور ارشاد فرمایا: ’’تو نے جلدی کی‘‘، اس کے برعکس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے شخص کو حمد و صلوٰۃ کے بہترین آداب کے ساتھ دعا مانگتے دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عمل کی تصویب فرمائی اور ارشاد فرمایا: ’’اب مانگ، تیری دعا قبول ہوگی‘‘۔

            آداب پر یہ زور کتاب کے ایک مرکزی موضوع کی نشاندہی کرتا ہے: دعاء کوئی عام درخواست نہیں بلکہ عبادت کا ایک گہرا اور مقدس عمل ہے، جس کا اپنا، خدائی طور پر سکھایا گیا طریقہ کار ہے، پیش لفظ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دیگر ایمان افروز واقعات سے اس نکتے کو مزید تقویت ملتی ہے:

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار ایک ایسے شخص کی دعا سننے کے لیے کھڑے ہو گئے، جو بڑی الحاح و زاری سے دعا کر رہا تھا اور فرمایا کہ اگر یہ شخص اپنی دعا پر ’’مہر‘‘ لگا دے تو وہ ضرور قبول ہوگی، جب ایک صحابی نے دریافت کیا کہ ’’مہر‘‘ سے کیا مراد ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، ’’آمین‘‘۔ وہ صحابی فوراً اس شخص کے پاس دوڑ کر گئے اور اسے یہ عظیم خوشخبری سنائی۔

            ایک اور شخص کی دعا سن کر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص نے اللہ کے ’’اسم اعظم‘‘ کے ساتھ دعا کی ہے، جس کے وسیلے سے مانگی گئی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے والد کو ایک طاقتور دعا سکھانے کی پیشکش کی، بشرطیکہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ ان کے مشرف بہ اسلام ہونے پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ خوبصورت کلمات سکھائے:

            ’’اللّٰہُمَّ اَلْہِمْنِی رُشْدِی، وَاَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی‘‘

            (اے اللہ! میرے دل میں بھلائی کی بات ڈال اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچا)۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ محبت کے ساتھ ایک صحابی کو ہر نماز کے بعد پڑھنے کے لیے ایک خاص دعا تعلیم فرمائی، اور ان سے تاکیداً فرمایا کہ اسے ہرگز نہ چھوڑنا۔ یہ مقدس امانت پھر استاد سے شاگرد تک نسل در نسل منتقل ہوتی رہی، جو کہ ایک نبوی دعا سے جڑی ہوئی محبت کی ایک نورانی زنجیر ہے۔

            ان مثالوں کے ذریعے، حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ یہ ثابت فرماتے ہیں کہ دعاء ابتدائی مسلم معاشرے میں ایک جیتی جاگتی حقیقت تھی، جس کی رہنمائی اور پرورش خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔

حصہ اول: بنیاد – دعا کی فضیلت اور حقیقت

            دعاؤں کو پیش کرنے سے پہلے، حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ ایک مضبوط نظریاتی اور روحانی بنیاد قائم کرنے کے لیے کافی جگہ وقف فرماتے ہیں۔ وہ دعا کی فضیلت اور سب سے اہم، استغفار کی گہری مشق پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔

دعا کی فضیلت:

            یہ حصہ دو ایسی عظیم احادیث سے شروع ہوتا ہے جو اسلام میں دعا کی حیثیت کو متعین کرتی ہیں:

            (۱)’’الدُّعَائُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ‘‘(دعا ہی عبادت ہے)۔

            حضرت والا وضاحت فرماتے ہیں کہ علماء نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ دعا کے عمل میں، بندہ اللہ کے سامنے اپنی مکمل عاجزی، محتاجی اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے، جبکہ اللہ کی کامل طاقت اور عظمت کا اقرار کرتا ہے۔ یہی اظہار عبادت کی اصل اور حقیقت ہے۔

            (۱)’’الدُّعَائُ مُخُ الْعِبَادَۃِ‘‘ (دعا ء عبادت کا مغز ہے)۔

            اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دعا کوئی ضمنی عمل نہیں بلکہ ایک مومن کی زندگی کا مرکزی اور کلیدی جزو ہے۔

            حضرت والا قرآنی احکامات سے اس کی تائید فرماتے ہیں، جیسے اللہ کا براہ راست حکم:

            {ادْعُونِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ} (مجھ سے دعا مانگو، میں قبول کروں گا)۔

            وہ اس حدیث کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ انسان کو قبولیت کے پختہ یقین کے ساتھ دعا کرنی چاہیے، اور خبردار کرتے ہیں کہ اللہ غافل اور لاپرواہ دل سے کی گئی دعا قبول نہیں فرماتا، حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ یہاں ایک نہایت گہری بصیرت کا اضافہ فرماتے ہیں: ایک غفلت سے پڑھی گئی نماز کسی حد تک قبول ہوسکتی ہے کیونکہ اس کی جسمانی ہیئت رکوع، سجدہ خود عاجزی کا ایک اعلیٰ اظہار ہے، تاہم ایک غفلت سے مانگی گئی دعا، جس میں یہ جسمانی ہیئت نہیں ہوتی، اگر دل کی حضوری سے خالی ہو تو اس کی قبولیت مشکل ہے؛لہذادعا مکمل توجہ اور سچے خلوص کا تقاضا کرتی ہے۔

            ایک اہم نکتہ جس پر بات کی گئی ہے وہ ہے’’مومن کا اپنی دعا کی قبولیت میں تاخیر پر ردعمل‘‘، حضرت والا مایوسی کے خلاف نصیحت فرماتے ہیں، اور ابن ماجہ کی ایک نہایت خوبصورت اور ’’نادر‘‘ حدیث بیان کرتے ہیں:

            ’’ہمارا رب اپنے بندوں کی مایوسی پر ہنستا ہے، حالاں کہ اس کی طرف سے عطا قریب ہوتی ہے‘‘۔

            جب ایک صحابی نے تعجب سے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ ہنستا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی، اس پر اس صحابی کا جواب گہری حکمت اور امید سے لبریز تھا: ’’ہم ایسے کریم آقاکی بھلائی سے کبھی محروم نہیں رہ سکتے جو ہنستا ہے!‘‘، حضرت والا وضاحت فرماتے ہیں کہ یہاں اللہ کا ہنسنا اس کی بے پناہ رحمت اور شفقت کی علامت ہے، نہ کہ ناراضگی کی، بندے کی بے صبری پر جب کہ کشادگی بالکل دہلیز پر ہوتی ہے۔

            پھر حضرت والا دعا کی قبولیت کی شرائط پر گفتگو فرماتے ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ انسان کی روزی حلال ذرائع سے ہو، وہ سنجیدگی سے تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ جدید دور میں ایک بہت نازک اور اہم مسئلہ بن گیا ہے، وہ یہ بھی واضح فرماتے ہیں کہ قبولیت کا مطلب ہمیشہ وہی چیز ملنا نہیں جو مانگی گئی ہو، بلکہ اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔

استغفار کی طاقت:

            حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ نے اپنی کتاب کے عملی حصے کا آغاز استغفار کے اس عظیم الشان عمل سے کیا ہے۔ وہ ابوداؤد کی طاقتور حدیث کا حوالہ دے کر شروع فرماتے ہیں:

            ’’جو شخص استغفار کو لازم پکڑے، اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور ہر غم سے نجات عطا فرماتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے، جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا‘‘۔

            وہ اس قرآنی آیت کو اجاگر کرتے ہیں ،جو امت کے لیے اللہ کے عذاب سے ’’امان‘‘ کے دو ذرائع کی نشاندہی کرتی ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی، اور استغفار کا عمل۔

             نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد، استغفار قیامت تک مومنوں کے لیے حفاظت کا ایک دائمی ذریعہ ہے، حضرت والا بتاتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود، معصوم عن الخطا ہونے کے باوجود، دن میں۷۰؍ سے۰۰ ۱؍ مرتبہ اللہ سے مغفرت طلب کرتے تھے، جو ہر مومن کے لیے اس کی بے پناہ اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔

            ایک اہم بحث استغفار کی ’’حقیقت‘‘ کے گرد گھومتی ہے، حضرت والا وضاحت فرماتے ہیں کہ یہ محض ’’استغفراللہ‘‘ کی زبانی تکرار نہیں ہے، سچا استغفار اپنے گناہ کے گہرے احساس اور اللہ کے سامنے سچی ندامت اور شرمندگی سے پیدا ہوتا ہے۔

            یہ باب سورۂ نوح میں مذکور استغفار کے متعدد دنیاوی اور روحانی فوائد کی فہرست دیتا ہے، حضرت والا امام حسن بصری کا مشہور واقعہ بیان فرماتے ہیں، جنہوں نے قحط، غربت، اور بے اولادی جیسی مختلف شکایات لے کر آنے والے لوگوں کو استغفار کا ایک ہی بابرکت نسخہ عطا فرمایا۔

            یہ حصہ استغفار کے لیے حدیث سے ماخوذ پُر اثر کلمات کے مجموعے کے ساتھ ختم ہوتا ہے، جو قاری کو اس اہم عمل کے لیے ایک نبوی نسخہ فراہم کرتا ہے، ان میں سب سے ممتاز سید الاستغفار ہے، حضرت والا صحیح بخاری کی وہ حدیث نقل فرماتے ہیں ،جو اس شخص کے لیے جنت کی عظیم بشارت دیتی ہے جو اسے صبح کے وقت پختہ یقین کے ساتھ پڑھے اور شام سے پہلے وفات پا جائے، یا شام کو پڑھے اور صبح سے پہلے وفات پا جائے۔

حصہ دوم: نبوی دعاوؤں کا نورانی خزانہ:

            ’’بیان الدعاء‘‘کا قلب و روح اس کے دو اہم ابواب میں پوشیدہ ہے، جو ایک مومن کی زندگی کے لیے سب سے طاقتور اور موزوں دعاؤں کا ایک منتخب گلدستہ پیش کرتے ہیں۔

فصل اول: روزانہ پڑھی جانے والی دعائیں:

            یہ باب انسان کے پورے دن کو روحانیت سے معطر کرنے کے لیے ایک کامل رہنما ہے، حضرت مصنف نوراللہ مرقدہ نصیحت فرماتے ہیں کہ دعائیں شروع کرنے سے پہلے، اللہ کی حمد و ثنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا جائے۔

            یہ باب بڑی خوبصورتی اور باریک بینی سے ترتیب دیا گیا ہے:

            صبح و شام کی دعائیں: اس حصے میں بے پناہ فضیلت کی حامل دس دعائیں شامل ہیں۔ ہر دعا کے لیے، حضرت والا عربی متن، سلیس ترجمہ، اور اس کی فضیلت پر مبنی حدیث فراہم کرتے ہیں۔

            نماز کے بعد کی دعائیں: اس حصے میں ان دعاؤں کا مجموعہ ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ فرض نمازوں کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ اس میں وہ مشہور دعا بھی شامل ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ محبت سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تعلیم فرمائی تھی۔

            جامع دعائیں: یہاں حضرت والا کچھ دعائیںجو سب سے زیادہ جامع اور ہمہ گیر ہیں جمع فرماتے ہیں، ایک بہترین مثال وہ دعا ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو سکھائی تھی، اور اسے ’’جوامع الدعاء‘‘ قرار دیا تھا۔

            مخصوص اعمال کی دعائیں: یہ باب ایک مسلمان کی روز مرہ کے ہر اہم عمل، مثلاً گھر میں داخل ہونے اور نکلنے، مسجد جانے، کھانے پینے، اور سونے جاگنے کی دعاوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔

فصل دوم: مخصوص حاجات اور مشکلات کے وقت کی دعائیں:

            یہ باب ایک روحانی شفاخانے کی حیثیت رکھتا ہے، جو انسان کو درپیش مختلف آزمائشوں اور مصیبتوں کے لیے نبوی علاج پیش کرتا ہے۔ یہ بے پناہ تسکین اور امید کا ذریعہ ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ اسلام نے ہر قابلِ تصور صورت حال میں اللہ کی مدد طلب کرنے کے لیے ہماری کامل رہنمائی فرمائی ہے، اس باب میں کسی بھی کام میں آسانی، پریشانی اور بے چینی سے نجات، قرض اور مالی مشکلات کے حل، اور دعائے استخارہ جیسی اہم دعائیں شامل ہیں۔

حصہ سوم: تتمہ -روحانیت کا ایک جامع نقطہ نظر:

            ’’بیان الدعاء‘‘ صرف دعاؤں کے مجموعے پر ختم نہیں ہوتی، حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ، ایک سچے روحانی رہنما کی حیثیت سے، کئی ایسے انمول ضمیمے شامل فرماتے ہیں، جو اس کتاب کو روحانی فلاح و بہبود کے لیے ایک مکمل دستور العمل بنا دیتے ہیں۔

            تنبیہ (اعمال کی حفاظت پر ایک اہم نوٹ): ایک نہایت گہری بصیرت افروز حصے میں، حضرت والا زبان کے گناہوں، خاص طور پر غیبت، بدگمانی، اور حسد کی ہلاکت خیزی کی طرف توجہ دلاتے ہیں، ایک سچے مربی کی یہی شان ہے کہ وہ صرف نیک اعمال کی ترغیب نہیں دیتے، بلکہ ان اعمال کے نور کو بجھانے والے گناہوں سے بچنے کی تدابیر بھی سکھاتے ہیں۔

            فوائد: ’’دوفوائد‘‘شامل کیے گئے ہیں ،جو حضرت والا کی گہری علمی بصیرت اور عملی حکمت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک میں وہ  لا الہ الا اللہ کے افضل الذکر اور الحمدللہ کے افضل الدعا ہونے کی نہایت لطیف علمی وضاحت فرماتے ہیں۔ دوسرے میں نماز میں توجہ کے حصول کے لیے عملی مشورے دیتے ہیں۔

            شفاء اور حفاظت کے لیے اعمال: کتاب میں ایک اور بزرگ عالم سے منقول بابرکت اعمال کا ایک حصہ بھی شامل ہے، جس میں آیاتِ شفاء، آیاتِ سحر، اور دیگر حاجات کے لیے مخصوص اعمال شامل ہیں۔

            منزل شریف: کتاب کا اختتام ’’منزل‘‘ کے مکمل متن کے ساتھ ہوتا ہے، جو قرآن کی ۳۳؍آیات کا مشہور مجموعہ ہے جسے اسلاف نے جادو، نظر بد، اور دیگر روحانی آفات کے خلاف ایک طاقتور تریاق قرار دیا ہے۔

حاصلِ کلام: ایک متواضع شیخ کا لازوال تحفہ:

            ’’بیان الدعاء‘‘ ایک ایسی عظیم تصنیف ہے جو صرف حضرت شیخ الحدیث مولانا سیدمحمد عاقل صاحب نوراللہ مرقدہ جیسے جلیل القدر عالمِ ربانی کے قلم سے ہی وجود میں آسکتی تھی، یہ ایک ایسا حسین امتزاج ہے جہاں گہرا حدیثی علم، عملی روحانیت کے دریا میں ڈھل جاتا ہے، دعاؤں کا انتخاب بے مثال، ترتیب منطقی، اور تشریح بصیرت افروز اور دل نشین ہے، ہر صفحہ حضرت والا کی شخصیت اوران کا اخلاص، ان کی عاجزی، اسناد پر ان کی گہری نظر، اور اُمت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص اور مستند تعلیمات سے جوڑنے کی ان کی سچی تڑپ کا آئینہ دار ہے۔

            یہ کتاب محض بے سمجھے پڑھی جانے والی دعاؤں کی فہرست نہیں، بلکہ یہ ایک باشعور اور خدا مرکز زندگی کی دعوت ہے، جہاں صبح سے شام تک کا ہر لمحہ ذکر اور دعا کے نور سے منور ہو۔ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ دعا مومن کا سب سے طاقتور ہتھیار، اپنے رب سے اس کی سب سے رازدارانہ گفتگو، اور اس کی بندگی کا اصل جوہر ہے۔ کردار کی پاکیزگی اور عبادت میں حضوری کے لیے عملی مشوروں کا شمولیت اسے ایک سادہ دعائیہ کتاب کے مرتبے سے بلند کرکے تزکیۂ نفس کے ایک مکمل دستور العمل تک پہنچا دیتی ہے۔

            اس ناچیز کے لیے، جس نے حضرت والا کی جوتیوں میں بیٹھ کر علم کے چند حروف سیکھے، ’’بیان الدعاء‘‘ کا مطالعہ ایسا ہے جیسے ایک بار پھر ان کی شفیق اور نرم آواز کانوں میں رس گھول رہی ہو، جو ہمیں حکمت اور شفقت سے رہنمائی فراہم کر رہی ہے، اور ان لوگوں کے لیے جو اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم رہے، یہ کتاب ان کا لازوال علمی و روحانی ورثہ ہے، ایک ایسی حیاتِ مبارکہ کا نچوڑ جو خالصتاً علومِ نبوت کے لیے وقف تھی۔ یہ بے پناہ فائدے کا کام، ہدایت کا ایک حقیقی سرچشمہ، اور ہمارے دور کے ایک عظیم شیخ کی جانب سے امتِ مسلمہ کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔

            اللہ رب العزت حضرت والا کی قبر کو نور سے بھر دے، اوران کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے،اور اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے، اور ہمیں ان کے چھوڑے ہوئے علمی و روحانی خزانوں سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

                                                                                         بندۂ ناچیز،یکے از خدام

                                                                                    محمد سلمان مظاہری، وانمباڑی