بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ

تعزیتی خطاب: جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل

از : حضرت اقدس مفتی احمد صاحب خانپوری ادام اللہ فیوضہ علینا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین ، سیدنا وحبیبنا وشفیعنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین ، أما بعد !

فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                {مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوْا اللّٰہَ عَلِیْہِ ، فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَّنْتَظِرْ،وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً}

تواضع وانکساری :

                حضرت اقدس مولانا عبد اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کے متعلق کیا عرض کروں ؟ مجھے عموماً باتیں یاد نہیں رہتیں ، بھول جاتا ہوں ۔پہلے تو میں تصحیح کرلوں ، مولانا عبد القیوم صاحب نے شروع میں حضرت سے اپنے تعلق کے قائم ہونے کی بات کہی ، اس سال حضرت رمضان گزارنے کی نیت سے یہاں (ڈابھیل ) تشریف لائے تھے ، یہ آپ کی بڑی تواضع اور انکساری کی بات تھی کہ ایک ایسے آدمی کے پاس سے استفادہ کی غرض سے آنا جو آپ کے شاگردوں اور تلامذہ کے طبقہ سے تعلق رکھتا ہے ، اِس دور میں کوئی معمولی چیز نہیں ہے ۔ اور اُس سال میں عمرہ میں نہیں گیا تھا ، بل کہ دورانِ رمضان دوسرے عشرے میں حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی ؒ کی خدمت میں دیوبند گیا تھا ۔ اس وقت میں نے حضرت سے درخواست کی تھی کہ آپ اس سلسلہ کو یہاں جاری رکھیں ۔

انتظامی صلاحیت ؛ عظیم خوبی :

                بہر حال ! حضرت مولانا نوراللہ مرقدہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑی عظیم صفات سے نوازا تھا ۔ سب سے بڑی خوبی آپ کی انتظامی صلاحیتیں تھیں ۔ حضرت جب یہاں (ڈابھیل) سے ترکیسر تشریف لے گئے اور وہاں آپ کا تقرر ہوا تو اس وقت ترکیسر میں مسند اہتمام پر حضرت مولانا غلام محمد صاحب تھے ۔

                حضرت کوبہ بحیثیت مدرس کے وہاں دعوت دی گئی تھی ۔کچھ مدت کے بعد وہاں کے ذمہ داروں نے یہ محسوس کیا کہ اگر ہم اہتمام اور نظامت کی ذمہ داری حضرت کے حوالہ کریں تو فائدہ ہوگا۔ ادھر حضرت مولانا غلام محمد صاحب ؒ کے مزاج میں کچھ سختی بھی تھی ؛لہٰذا ذمہ داروں نے حضرت کو وہاں کا مہتمم بنایا اور اس وقت فلاح دارین کا جو درجہ اور مقام تھا ، وہاں سے حضرت نے اس کو اپنی انتظامی صلاحیت سے اس مقام تک پہنچایا ، جہاں آج ہم دیکھ رہے ہیں ؛بلا شبہ یہ سب حضرت کی انتظامی صلاحیتوں کا صدقہ ہے ۔ حضرت نے اپنے خون سے اس دارالعلوم کو سینچا ہے ،مدرسین کے انتخاب کے لیے بھی بڑے بڑے سفر کیے ، حضرت مولانا سید ذو الفقار صاحب نور اللہ مرقدہ کے تقرر کے سلسلہ میں مجھے خوب یاد ہے کہ دارالعلوم دیوبندمیں میرا پہلا سال تھا ، حضرت مولانا عبد اللہ صاحب ؒتشریف لائے تھے اور ہمارے ہی کمرہ (کمرہ نمبر ۶۶)میں حضرت نے حضرت مولانا ذوالفقار صاحب ؒ کو بلایا اور وہیں ان کا تقرر ہوا تھا ۔ اسی طرح اوربھی حضراتِ مدرسین کے انتخاب کے لیے باقاعدہ دور دور کے اسفار کرنا اور مدرسہ کے نظم و انتظام کو بحسن وخوبی سنبھالنا حضرت کا ایک امتیازی وصف تھا ۔

پورے ملک کا نظام چلا سکتے ہیں :

                حضرت کے ہاںہر چیز میں خاص اصول پر عمل کیا جاتا تھا ۔ تعلیم کے معاملہ میں تو تھا ہی ، اسی طرح طلبہ کی رہائش، ان کے کمروں کی نظافت اور صفائی کے سلسلے میں ، آج بھی حضرت کے قائم کردہ بہت سارے اصول دارالعلوم فلاح دارین میں برتے جارہے ہیں۔ اور ان ہی اصول پر آج بھی وہ مدرسہ اپنی شان قائم کیے ہوئے ہے۔ حضرت کی اس انتظامی صلاحیت سے متعلق حضرت مولانا سید صدیق احمد صاحب باندوی نور اللہ مرقدہ کی زبانی میں نے دو مرتبہ یہ بات سنی کہ ’’ مولانا کو اللہ نے ایسی انتظامی صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ وہ پورے ملک کا نظام بہتر سے بہتر طریقہ سے چلا سکتے ہیں ، ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں ۔ ‘‘ حضرت قاری صاحب ؒ حضرت مولانا ؒ کی اس انتظامی صلاحیت کے بہت زیادہ قائل تھے اور اسی لیے حضرت ان سے بڑی محبت بھی فرمایا کرتے تھے ۔ اِس زمانہ میں اس طرح اداروں کے نظم وانتظام کو سنبھالنا اور اس کو ترقی کی معراج تک پہنچانا معمولی چیزنہیں ، بہت بڑے دل گردے کا کام ہے،اس کے لیے آدمی کو اپنا خون جلانا پڑتااور بڑی محنت کرنی پڑتی ہے ، اس کے بعد یہ چیز حاصل ہوتی ہے۔ حضرت مولانا نے واقعۃً بڑی قربانیاں دی ہیں اور ایسا نہیں کہ وہاں بیٹھے بٹھائے یہ سب چیزیں حاصل ہوگئیں؛حضرت نے بڑی تکالیف اور مشقتیں برداشت کی ہیں۔ اس راستہ میں حضراتِ منتظمین کو جو مسائل در پیش ہوتے اور جو مخالفتیں ہوتی ہیں وہ تمام حضرتؒ کو برداشت کرنی پڑیںہیں۔

اور مولانا مان گئے :

                ایک موقعہ پر ہمارے حضرت مفتی محمود حسن صاحب نور اللہ مرقدہ کا ڈابھیل میں آٹھ – دس روز کاقیام تھا اور اسی قیام کے دوران جیسا کہ حضرت کا معمول تھا دیگر مدارس (راندیر ، ترکیسر بھروچ وغیرہ)میں تشریف لے گئے ؛اسی زمانہ میں ترکیسر میں کچھ ایسے حالات پیش آئے تھے کہ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب ؒ نے استعفا دے دیا تھا۔ وہ استعفا قبول نہیں کیا گیا ، لیکن مولانا نے یہ طے کیا کہ میں یہاں سے نکل جاؤںگا ؛چناں چہ ہم ترکیسر گئے اور وہاں حضرت نے مولانا کو تنہائی میں بلاکر حالات سنے اور ایک جملہ کہا۔ حضرت مولانا عبد اللہ صاحب ؒ اپنے خاص لوگوں کے سامنے باربار اس جملے کو دہرایا کرتے تھے، بڑا عجیب جملہ تھا فرمایا کہ ’’ مولوی صاحب ! ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیوں سے اور بڑی تکلیفیں اٹھاکر یہ ادارے قائم کیے ہیں۔کیا ہماری قسمت میں ان کا اجاڑنا ہی تھا؟ ‘‘ اس جملے کے بعد حضرت مولانا نے سارے حالات کے باوجود اپنا ارادہ ختم کردیا ۔

                اس واقعہ کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حضرات ایسی قربانیاں دے کر ان اداروں کو باب علو تک پہنچاتے ہیں،ان کے متعلق لوگ غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ مسند پر بیٹھے بیٹھے انہوں نے آرام سے کام کیا ہوگا؛نہیں ! وہ کیسی کیسی قربانیاں دیتے ہیں ان کا دل جانتا ہے ۔ بہر حال حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ کو اللہ تعالیٰ نے جو خوبیاں عطا فرمائی تھیں، ان میں سب سے نمایاں خوبی اعلیٰ درجے کی انتظامی صلاحیت تھی۔اس سلسلہ میں حضرت اہل مدارس کو مشورہ بھی دیا کرتے تھے اور اسی درد کا نتیجہ تھا کہ فلاح دارین سے براہِ راست تعلق ختم ہونے کو آج سالہاسال ہو جانے کے باوجود حضرت کا مزاج یہ تھا کہ از راہِ خیر خواہی تمام مدارس کے اہلِ علم کے روبہ رو مختلف مواقع پر اپنے دردِ دل کو بڑے سوز کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے ،آج ایسا شخص ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت کے جانے سے اس نوع (مدارس کے حالات کا درد اور کڑھن )کا بھی ایک بڑا خلا واقع ہوا ہے ، ایسے افراد دنیا میں بہت کم ہوا کرتے ہیں ۔

آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے :

                حضرت کے دل میں عجیب و غریب کڑھن تھی ۔ آج سے ایک سال یا دو سال قبل کھروڈ میں سب کو بلایا تھا ، میں سوچتا تھاکہ حضرت نے کیوں بلایا ہے ؟ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ حضرت کو صرف اہل علم کا غم تھا ، حضرت کی عادت شریفہ تھی کہ جب بھی کوئی نئی کتاب آتی تو اہل علم کو اس سے آگاہ کرتے؛ اگر اس کے نسخے زیادہ ہوتے تو اہل علم کی خدمت میں بھجوا تے کہ آپ اس کا مطالعہ کیجیے ؛لیکن آج ہمارے مدارس اور اہل علم کے طبقے پر جو سرد مہری چھائی ہوئی ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ حضرت کی اتنی عنایتوں اور شفقتوں کے باوجود ؛جن کے پاس کتابیں بھیجی جاتی تھیں ، وہ پڑھتے تو کیا ؟ یہ اطلاع بھی نہیں دیتے تھے کہ آپ کی فلاں کتاب ملی ۔حضرت کو اس کا بڑا درد تھا ، چناںچہ اسی درد کے اظہار کے لیے حضرت نے کھروڈ میں گجرات کے تمام مدارس کے علما کو جمع کیا اور ان کے سامنے اپنے درد کا اظہار کیا ۔

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے :

                واقعہ یہ ہے کہ اس علمی انحطاط کے زمانہ میں انحطاط کے اسباب کو پرکھنا اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرنا، معمولی بات نہیں ہے ۔ ورنہ ایسے مواقع پرآدمی ناامید اور مایوس ہوکر کہہ دیتا ہے کہ جاویں جہنم میں مجھے کیا ہے؟لیکن نہیں ! صاحبزادہ مولانا اسماعیل صاحب اور ان کے بھائی حافظ قاسم سنارہے تھے کہ ایسی بیماری اور سخت تکلیف جو اُن کے لیے ناقابل برداشت تھی ، اس کے باوجود اخیر تک یہ فکر تھا کہ فلاں مدرسہ میںفون کرکے پوچھو کہ تعلیم شروع ہوئی یا نہیں ؟ فلاں جگہ فون کر کے پوچھو کہ تعلیم شروع ہوئی یا نہیں ؟ ایسی بیماری میں جو تکلیف ہوتی ہے ، وہ تصور سے باہر ہے ۔ حضرت ایسی تکلیف میں بھی کبھی یہاں اور کبھی وہاں بے چینی میں وقت گزارتے اور گھر والوں سے کہتے تھے کہ یہاں لے جاؤ، وہاں لے جاؤ! بہر حال میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایسی حالت میں بھی مدارس پر نگاہ رکھنا اور ان کا خیال رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ یہ اسی آدمی کا کام ہوسکتا ہے جس کے دل میں یہ چیز سمائی ہوئی ہو۔ آج ہم لوگوں کی ایک ایسے سرپرست ، محسن اور مشفق سے محرومی ہوئی ہے جو ان صفات کا مالک تھا۔ پتہ نہیں آئندہ ایسے لوگ میسر ہوتے ہیں یا نہیں ………؟؟

مع المحبرۃ إلی المقبرۃ :

                بہر حال حضرت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی کتاب کا شوق ہے ۔ بعض حضرات انتظامی امور میں اعلیٰ درجے پر ہوتے ہیں ، لیکن ان کا علمی وکتابی مطالعہ کا ذوق اتنا بلند نہیں ہوتا؛لیکن حضرت کے اندر علمی ذوق بھی بڑا عجیب وغریب تھا ،آپ کے پاس کوئی کتاب آئے اور آپ اس کا مطالعہ نہ کریں ، یہ ہوہی نہیں سکتا ۔ اور مطالعہ کرنے کے بعد اس میں کوئی خوبی کی چیز نظر آتی ، تو جو بھی اہل علم آپ کی ملاقات کے لیے جاتے ، ان کے سامنے اس کتاب کی خوبی ، اس میں فلاں مضمون اور فلاں موضوع پر بہت بہترین بات ، ان تمام چیزوں کا تذکرہ فرماتے ؛گویا اس طرح ان کی رہ نمائی کرتے تھے ۔ یہ آپ کا خاص مزاج تھا ، بل کہ اخیر زمانے میں تو بہت سی کتابیں آپ نے اپنی جیب ِخاص سے منگواکر اہل علم کی خدمت میں پیش کی اور اس سے بڑی کیا بات ہوگی کہ اپنا پورا کتب خانہ وقف کردیا ۔

                کسی بھی بڑے اوربالخصوص وہ عالم جس کا مزاج علمی ہو، اس کو اپنے کتب خانہ اور کتابوں سے جو محبت ہوتی ہے وہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا ۔ وہ تو اس کتاب کا ایک ورق بھی کہیں جائے اس کو گوارا نہیں کرسکتا ، لیکن آپ نے اپنے پورے کتب خانہ کو اہل علم کے لیے وقف کردیا کہ سب لوگ آکر اس سے فائدہ اٹھائیں ۔ کھروڈ میں مستقل عمارت بنوائی اور اپنی ساری کتابیں وہاں بھجوائیں ، یہ بھی آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہے ۔

کم یاب خوبی :

                آپ کی ایک خوبی ہر ایک کی خبر گیری کرنا تھی ،کسی کے متعلق معلوم ہوتا کہ وہ بیمار ہے یا اس کو کچھ حالات پیش آئے ہیں تو جب تک اس کے متعلق اطمینان نہ ہوجائے اور وہ بیماری سے شفایاب نہ ہوجائے ، تب تک برابر اس کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ پوچھا کرتے تھے کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور اس سلسلے میں اپنی طرف سے جو تعاون کرسکتے ، اس میں ذرہ برابر آپ کی طرف سے کمی اور کوتاہی نہیں ہوا کرتی تھی ۔ یہ بھی آپ کی ایک ایسی خوبی تھی جو آج کل بہت کم پائی جاتی ہے۔

سب ہی میرے ہیں:

                اس زمانے کے اعتبار سے سب سے بڑی خوبی ’’عدم تعصب ‘‘ تھی۔ یہ تعصب کا زمانہ ہے ، لوگ اس کو اپنی خوبی سمجھتے ہیں ۔ میں اگر یہاں جامعہ ڈابھیل کی مسجد میں بیٹھ کر کسی دوسرے مدرسہ کی خوبی بیان کروں تو یہاں بیٹھنے والا بڑا طبقہ اس کو گوارا نہیں کرے گا،لوگ کہیںگے کہ تجھے یہاں جامعہ ڈابھیل کی مسجد میں بیٹھ کر اس مدرسہ کی تعریف کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ ایک ایسا مزاج بنتا جارہا ہے ، مدارس میں آپس میں تعصب اور تصوف کے سلسلوں میں آپس میں تعصب ، ایک سلسلہ کے شیخ کے مختلف مجازین اور خلفامیں آپس میں تعصب ہے ، بل کہ ہر چیز میں تعصب اور جو جتنا زیادہ اس تعصب کا اظہار کرے وہ بعض لوگوں کے نزدیک اتناہی زیادہ اچھااورمعتبر سمجھا جاتا ہے اور جو اپنے آپ کو اس سے دور رکھے ، وہ سب کی نگاہوں میں معیوب رہتا ہے ۔

توہی ناداں…:

                ہمارے حضرت ؒ کے مزاج کو میں نے دیکھا۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ اختلافات تو ہوتے ہی رہتے ہیں، لیکن اختلافات کے موقع پر ؛جس سے اختلاف ہو اس کی خوبی کا اقرار اور تصدیق ہونی چاہیے کہ فلاں کے اندر یہ خوبی ہے اور فلاں کے اندر یہ خوبی ہے ۔ ہمارے مفتی صاحب ؒ ہمیشہ شکایت کرتے تھے کہ آج یہ زمانہ آگیا کہ آپس کے اختلافات کی وجہ سے سامنے والے کی خوبیوں کا انکار کیا جاتا ہے ، بل کہ اس پر الزامات اورتہمتیں لگائی جاتی ہیں اور حضرت ایسی چیزوں کو پسند نہیں کرتے تھے اور ایسے تعصب کو کسی حال میں روا نہیں رکھتے تھے ۔ دارالعلوم میں اختلاف ہوا تودارالعلوم کے دو حصے ہوئے ، مظاہر علوم کے دو حصے ہوئے۔میں جب حضرت کی خدمت میں دیوبند جاتا تھا تو میری عادت تھی کہ وہاں کے قیام کے دوران کہیںبھی جانا ہو تو حضرت کی اجازت لے کر جایا کرتا تھا ۔ مجھے قبرستان قاسمی جانا ہوتا ، تو حضرت سے اجازت لے لیتا تھا کہ حضرت آج میں قبرستان جاؤں گا ،پھر میرے اساتذہ اور وہاں کے بڑوں کی ملاقات کرنی ہوتی تو اجازت لے لیتا کہ میں آج وہاں جاؤںگا ،تو حضرت مجھے تاکید فرماتے تھے کہ مولانا سالم صاحب ؒ کی ملاقات کرلینا اورواپس آنے پرپوچھتے بھی تھے کہ ملاقات کی یا نہیں ؟ اگر دیوبند میں پانچ چھ روز کا قیام ہوتا تو ایک دن کے لیے سہارن پور جاتا تھا ، جب سہارن پور سے واپس آتا تو حضرت مجھ سے پوچھتے کہ حضرت مفتی مظفر حسین صاحب نور اللہ مرقدہ سے ملاقات کی یا نہیں ؟ تو میں کہتا کہ جی کرکے آیا ، تو خوش ہوتے تھے۔ بہر حال ! یہ ہمارے حضرت کا خاص مزاج تھا۔ آج کل یہ عصبیت جو اہل علم کے طبقے میں جڑپکڑ چکی ہے اور جس نے ان کے افادات کے سلسلہ کو متاثر کردیا ہے ، بہت خطرناک چیز ہے ۔ الحمدللہ ! حضرت مولانا ؒ کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ کے مزاج میں ذرہ برا بر بھی تعصب نہیں تھا ،ہر ایک کے ساتھ بڑی فراخ دلی اوروسعت ظرفی کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ کسی بھی ادارے سے تعلق رکھنے والا ہو، ڈابھیل ، راندیر، کنتھاریہ ، کہیں کا بھی ہو ، آپ کے وہاں کوئی تفریق نہیں تھی ؛ہر ایک کے ساتھ بڑی گرم جوشی اور محبت وشفقت سے پیش آتے تھے اور یہ وہ چیز ہے جو علم اور اہل علم کو آپس میں جوڑتی ہے۔

  علم ایک وحدت ہے :

                بھائی ! علم تو ایک وحدت ہے۔ ایک یونٹ (Unit ) ہے ۔ ہم ڈابھیل میں ہیں ، کوئی راندیر میں ، کوئی ترکیسر میں ، کوئی کنتھاریہ میں ، تو اس کی وجہ سے یہ وحدت ختم نہیںہوتی۔چیز ایک ہی ہے ، جیسے نور ہوتا ہے ، چار چراغ جلاؤ ، دس چراغ جلاؤ ، تو آپ کو فضا میں ان چار یا دس چراغوں کی روشنی میں کوئی فرق نہیں نظرنہیںآئے گا ، پوری فضا روشن ہوگی۔ کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ روشنی خاص فلاں چراغ کی وجہ سے ہے ، نہیں ! ہمارے اہل علم کا معاملہ بھی اسی طرح ہونا چاہیے۔

کلمات تعزیت اوردعاؤں کی سوغات :

                بہر حال ! آپ کی خوبیاں ، آپ پر لکھنے والے ان شاء اللہ لکھیںگے۔میں نے تو وقتی طور پر ذہن میں جو دوچار باتیں آئیں، وہ عرض کی ہیں ۔ ان سب کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بھی ان سب خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کو شش کریں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت کی وفات سے ہمارے گجرات اور پورے ہندوستان؛ بل کہ پورے عالم میں جو خلا پیدا ہوا ہے ، اپـنے فضل سے اس کو پر فرمائے اور حضرت نے اپنی زندگی میں اہل علم اور اہل مدارس کے ساتھ جو محبت اور شفقت کے معاملات کیے ، اللہ تبارک وتعالیٰ اس کا بہترین بدلہ آخرت میں عطا فرمائے ۔ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور آپ کی حقیقی خوبیاں تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور وہی آپ ؒ کے خاندان کے جو افراد یہاں موجود ہیں ، آپ کے صاحبزادے ، پوتے ، ہم ان کے پورے خاندان تک تسلی کے الفاظ پہنچاتے ہیں ۔ واقعتہً اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خوبیاںبہ درجہ اتم عطا فرمائی تھیں ۔ آپ لوگ بڑے سعادت مند ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا باپ اور دادا نصیب فرمایا ۔اور آپ کے جانے سے جو کچھ بھی کمی آئی ، اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس کو پوری فرمائے ۔ دل سے دعا کریں اور آج جو کچھ ابھی پڑھاہے اس کا ثواب بھی حضرت ؒ کی روح کو پہنچا دیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسی راہ پر پورے اخلاص اوراستقامت کے ساتھ چلنے کی توفیق عطافرمائے ۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔