محمد سلیمان اخترفاروقی
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
سورہٴ عبس میں اللہ تعالی نے قیامت میں لوگوں کی بے بسی کا منظر کھینچتے ہوئے کہاہے کہ یہاں کسی کی طاقت و قوت، مال و زر اور رشتہ داری کام نہیں آئے گی، یہاں طاقت و قوت کے تمام سرچشموں کی نفی ایک خاص ترتیب سے کی ہے، یہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن نے جس ترتیب سے جو بات کہی ہے ،اس میں بھی اعلیٰ درجے کی حکمت ہے، چناں چہ فرمایا ہے:
﴿یوم یفرالمرء من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنیہ﴾
ترجمہ:” جس دن انسان اپنے، بھائی، ماں، باپ، بیوی اور بیٹے سے بھاگے گا۔“
ا س آیت کریمہ میں انسان کے اپنے بھائی، ماں، باپ، بیوی اور بیٹے سے راہ ِفرار اختیار کرنے کی بات کہی گئی ہے، یہ سب باوجودیکہ بالترتیب دنیا میں باہم ایک دوسرے کے معاون ہوا کرتے تھے، لیکن آخرت میں ان کی بے وفائی اور مدد سے بے اعتنائی قابل ِعبرت ہوگی، یہ سب کسی کو بھی تعاون فراہم کرنے سے قاصر اور درماندہ ہوں گے۔قربان جائیے قرآن کی ترتیب پر! قرآن نے سب سے پہلے بھائی کا ذکر کیا ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسان مدد کے لیے سب سے پہلے بھائی کو approach کرتاہے، پریشانی میں بھائی اپنے بھائی کی پناہ لیتا ہے، آپ کو اپنے بچپن کا زمانہ یاد ہوگا، آپ لامحالہ اپنی پریشانی اپنے بھائی سے بیان کرتے، پھر جب یہاں مسئلہ حل نہ ہوتا، تو آپ ماں سے فریاد کرتے، وہ خود کرتی یا پھرآپ کے ابا سے manage کراتی، یہ سلسلہ تو آپ کا بچپن سے لے کر جوانی تک چلتا رہا، آپ بھائی سے، پھرماں سے، پھرباپ سے، اپنی مشکلات کا حل تلاش کرتے تھے، لیکن جب شادی ہوئی تو بیوی سے اپنی زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے مدد کی درخواست کرتے، کبھی بھی اس کی مدد کے بغیرآپ اپنی اولاد کو نہ پال سکتے تھے، اور نہ ہی کچھ اور کرسکتے تھے، زندگی بھرآپ کو اپنی بیوی کا تعاون ضروری تھا؛ ورنہ کہیں کے نہ رہتے۔
پھرایک وقت آیا، جب آپ بوڑھے ہو گئے، تب آپ کو اپنے بیٹوں کی مدد کی ضرورت پڑی ۔ پوری زندگی انسان کے باہمی تعاون کی یہی ترتیب ہے، انسان اسی ترتیب سے مدد اور تعاون کی اپیل کرتا ہے، ہر ایک کے تعاون کا ایک وقت ہے، بچپن میں بھائی اور والدین سے، شادی کے بعد بیوی سے، اور بڑھاپے میں بیٹوں سے؛البتہ بھائی سدا بہار ہوتا ہے، بچپن سے لے کر جوانی بل کہ بڑھاپے میں بھی اس سے ایک امید اور آس ہوتی ہے۔ اس طرح قرآن نے طاقت و قوت اور مدد و تعاون کے تمام سرچشموں کوکالعدم قرار دے دیا اور کہا کہ یہ سارے لوگ جو تم کوزندگی کے تمام مراحل میں مدد کرتے تھے، آج بے بس و مجبور ہیں، آج یہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے۔ قرآن کی الہامی ترتیب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ طاقت و قوت اور تعاون میں جو ذات سب سے پرتھم اور پہلے نمبر پر ہے، وہ بھائی کی ذات ہے، جو ہمیشہ طاقت و تعاون کاsymbolic icon ہوتا ہے، اس سے بھی انسان بروز قیامت تعاون اور مدد حاصل کرنے کے بجائے، راہ ِفرار اختیارکرے گأ۔ معلوم ہواکہ بھائی دنیا میں تعاون ہی کے لیے پیدا ہواہے، یہ نہ صرف اسلامی نظریہ ہے، جیساکہ قرآن جب بھی مسلمانوں کے درمیان باہم رشتے داری اور تعلق کو بیان کرتا ہے، تو یہ نہیں کہتا کہ تمام مسلمان باہم دوست ہیں، یا باپ اور بیٹا ہیں، بل کہ ان تمام کے بجائے یہ کہتاہے کہ تمام مسلمان باہم بھائی بھائی ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:
﴿انما المومنون اخوة، فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون﴾ (سورہ حجرات)
ترجمہ: حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناوٴ،اور اللہ سے ڈرو؛ تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیاجائے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھائیوں کے بہتر اور صلح و آشتی پر مبنی تعلقات رحمت خداوندی کے ضامن ہیں، اور باہم ناچاقی اور عدم تعاون تباہی کا ذریعہ ہیں۔
البتہ اگر باہم تعاون علی البر کی بات کرتا ہے، تو مومنین کو باہم مددگار اور رفیق کہتا ہے، چناں چہ ارشاد باری ہے:
﴿و المومنون و المومنات بعضہم اولیاء بعض، یامرون بالمعروف و ینہوں عن المنکر و یقیمون الصلاة و یوتون الزکاة و یطیعون اللہ و رسولہ اولئک سیرحمہم اللہ۔﴾ (9:71)
مومن مرد اور مومن عورتیں باہم ایک دوسرے کے مددگار ہیں، وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں، اور زکوة ادا کرتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، اور یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ کی رحمت سے نوازا جائے گا۔
اس آیت ِکریمہ میں مومن مردوں اور عورتوں کی خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ان کی رفاقت اور دوستی تعاون علی البر سے عبارت ہے؛ لیکن جب وہ معاشرے اور سماج کا حصہ ہوتے ہیں تو وہ باہم بھائی بھائی ہوتے ہیں، چناں چہ ایک حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ کہا جارہاہے کہ بھائی بھائی بن جاوٴ! یہ نہیں کہا جارہا کہ باہم دوست بن جاوٴ؛ کیوں کہ بھائی ہونا ہی ایک ایسا وصف ہے جو، خلوص و محبت اور باہمی تعاون وغیرہ امور سے عبارت ہے،یہی وہ رشتہ ہے جو زندگی کے ہرموڑپرکسی بھی پریشانی کے عالم میں سہارا بنتا ہے، یہ رشتہ انسان کو کہیں اور کبھی بھی تنہا و بے یار و مددگارنہیں چھوڑتا ہے، اسی رشتے سے معاشرتی اقدار قائم رہتی ہیں۔
عَنْ اَنَسٍ، اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَقَاطَعُوا، وَکُونُوا عِبَادَ اللہِ إِخْوَانًا“
(مسلم: ۹۵۵۲)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور اللہ کے بندے، (ایک دوسرے کے) بھائی بن کررہو۔“
در اصل ایک دوسرے سے بغض نہ رکھنا، باہم تعاون کرنا اور قطع تعلق سے باز رہنا ہی وہ خوبیاں ہیں جو ایک بھائی میں فطری طور پرہوتی ہیں، اسلام چاہتا ہے کہ یہ خوبیاں جو سگے بھائیوں میں تو واجبی طور پرہوتی ہیں، یا ہونی چاہیے، کہ ان کے بغیربھائی ہونے کا تصور ہی نہیں ہوسکتا ہے، یہ عام مسلمانوں میں بھی پیدا ہوجائے اور وہ بھی باہم بھائی بھائی بن جائیں، جو ایک دوسرے کے لیے کھلی کتاب ہوں، نہ ان میں، حسد ہو، نہ بغض ہو، نہ کینہ ہو، نہ وہ ایک دوسرے سے الگ ہوکر رہیں، نہ حسی طور پر، اور نہ ہی ذہنی طور پر۔
عَنْ اَبِی ہُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم الْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہُ، وَلَا یَخْذُلُہُ، وَلَا یَحْقِرُہُ، التَّقْوَی ہَاہُنَا، وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، بِحَسْبِ امْرِءٍ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یَحْقِرَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ، حَرَامٌ دَمُہُ، وَمَالُہُ، وَعِرْضُہُ ”(صحیح مسلم،کتاب البر والصلة،باب تحریم ظلم المسلم (2564)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمان مسلمان کابھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کوذلیل کرے، نہ اس کوحقیرجانے، تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے۔ اور اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار (یعنی ظاہرمیں عمدہ اعمال کرنے سے آدمی متقی نہیں ہوتا جب تک سینہ اس کا صاف نہ ہو) ”کافی ہے آدمی کو یہ برائی کہ اپنے مسلمان بھائی کوحقیرسمجھے، مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، مال، عزت اور آبرو۔“
ایک حدیث میں بڑے بھائی کی عظمت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الاکبر من الإخوة بمنزلة الاب”. (المعجم الکبیر للطبرانی: ۳۱/۲۹۳۴، رقم:۰۶۴، ط: مکتبة الاصالة والتراث)
اس حدیث کی تشریح میں علماء نے لکھا ہے کہ بڑے بھائی کا مقام باپ جیسا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ باپ کے مرنے یا اقتصادی طور پر کمزور یا ناکارہ ہونے کی صورت میں وہ باپ کا کردار ادا کرتا ہے، بھائیوں کا تعاون کرتا ہے، ان کی تجارت، معیشت، گھر، بار ؛حتیٰ کہ زندگی کے تمام شعبوں میں ان کا تعاون کرتا ہے اور رہنمائی کرتا ہے، اس لیے وہ باپ کی مانند ہوتا ہے، اس کا مقام باپ جیسا ہوتا ہے، لیکن اگر وہ اپنی ان ذمہ داریوں سے راہ ِفرار اختیار کرتا ہو، تو پھر اسے یہ مقام نہیں دیا جاسکتا ہے، البتہ وہ کبر سنی کی وجہ سے محض احترام و توقیر کا حق دار بہر حال ہوگا۔
بہرکیف، قرآن و حدیث کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ امن و آشتی، محبت اور باہمی تعاون کے ساتھ رہنا بھائیوں کی فطرت ہے، اس کے خلاف رہنا فطرت سے بغاوت ہے، اور جو اپنی فطرت سے بغاوت کرتے ہیں، وہ یا تو ہلاک و برباد ہوجاتے ہیں، یاپھر تاریخ میں ان کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ہے۔ لہذا، اگرحقیقی بھائی لوگ بھی باہم دست و گریباں رہے اور بھائیوں کی بجائے اجنبیوں کی طرح رہیں اور ایک دوسرے کوپس پشت ڈال کر باہم ایک دوسرے کے اخلاقی حقوق، جو بحیثیت بھائی کے حقیقی مفہوم کے واجبی حقوق ہیں، پامال کرتے رہے۔ باہم ایک کھلی کتاب کے بجائے، بغض و کینہ سے اپنے سی نیکی آگ کو دو آتشہ کرتے رہے، باہمی تعاون کے بجائے، بھائیوں کی اقتصادی و سماجی حالت سے بے خبر رہے، یا انھیں ان کے حال پر چھوڑ دے، نہ مالی تعاون کیا، اور نہ ہی ان کی قولا و مشورة خیر خواہی کی، تو ہلاکت ان کا مقدر بن جائیگی، اور عزت و شہرت ان سے روٹھ کرہمیشہ کے لیے انھیں بے نام نشان کردیگی۔
بھائی باہمی مدد و تعاون کا وہ ستون ہوتا ہے، جس کی نظیرکسی رشتے اور تعلق میں نہیں ملتی، چناں چہ ابھی ابھی میں نے اس کی نشان دہی قرآن اور حدیث دونوں سے کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ بھائی ہی ایک ایسی فطرت اور جبلت کا حامل ہوتا ہے، جو تعاون و نصرت سے عبارت ہوتی ہے، اس کی پیدائش اور شناخت ہی اپنے بھائی کے ساتھ تعاون کے وصف کے ساتھ ہوتی ہے، قرآن و حدیث کے علاوہ خود انسانی سماج بھی بھائی کو مدد اور تعاون کا symbol سمجھتا ہے؛ چناں چہ عربی زبان میں یہ کہاوت مشہورہے کہ:
کثرة الاخوان تدل علی کثرة الاعوان”
بھائیوں کی کثرت مددگاروں کی کثرت پردلالت کرتی ہے۔ یعنی آپ کے جتنے زیادہ بھائی ہوں گے، اتنے ہی زیادہ مددگارہوں گے۔ عربی زبان وادب کی تاریخ کے مطابق اس کہاوت کے پس منظر کے متعلق ایک واقعہ ذکر کیا جاتا ہے، چناں چہ کہاجاتا ہے کہ مذکورہ بالا جملہ اس وقت کاہے ،جب حضرت عبد المطلب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نے چاہا کہ زمزم کے کوئیں کوکھود کردوبارہ حاجیوں کے لیے جاری کردیں، تو قریش نے تلواریں سونت لیں، اور کہا کہ یہ بابرکت کام آپ انجام نہیں دے سکتے، بالآخر وہ یہ کارِخیرنہ کرسکے؛ البتہ انھوں نے یہ منت مانی کہ ”اے خدا! اگر تو مجھے دس بیٹے دے، تو میں ان کی مدد سے تیرے مقدس گھر کا یہ کنواں دوبارہ جاری کردوں گا اور ان میں سے ایک کوتیری راہ میں قربان بھی کردوں گا۔” اللہ پاک نے انھیں دس بیٹے دئیے، پھرکیا تھا، جب بیٹے ذرا بڑے ہوئے تو سبھی کو لیکر حرم ِکعبہ میں آئے اور چاہ ِزم زم کھودکر اسے حجاج کے لیے دوبارہ جاری کردیا۔ اس بار دس جوان بھائیوں کودیکھ کرکوئی بھی سامنے نہیں آیا، اور پھر یہیں سے یہ کہاوت بھی مکہ مکرمہ میں زبان زد خاص و عام ہوگئی کہ:
”کثرة الاخوان تدل علی کثرة الاعوان“ یعنی بھائیوں کی کثرت مددگاروں کی کثرت پردلالت کرتی ہے، یعنی آپ کے جتنے زیادہ بھائی ہوں گے، اتنے ہی زیادہ مددگارہوں گے۔
اخوت (بھائی ہونا) ایک ایسا وصف اور خوبی (characteristic) ہے جو ہر اعتبار سے باہمی تعاون، مدد اور خیرخواہی سے عبارت ہوتا ہے، یہ ایسا وصف ہے جو اپنی تاثیرمیں زمان و مکان کی قید سے آزادہوتا ہے، زندگی کے ہرموڑپربھائی اپنے بھائی کا ہمدم و ہمساز اور غم خوار ہوتا ہے، اگروہ ان اوصاف سے خالی ہے تو پھر خدا تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ اخوت کے معیار پر وہ بھائی نہیں ہے، بلکہ صرف اور صرف شریک وراثت و جائداد (property sharer) ہے، اور اس کی اپنے بھائی کے ساتھ رفاقت اور دل چسپی بس اسی وقت تک کے لیے ہوتی ہے ؛جب تک ان کا باپ مر نہ جائے، اور وراثت میں حصہ نہ مل جائے، باپ کے مرتے ہی ایسا بھائی، بھائی کے تمام اوصاف سے عاری ہوکر محض شریک ِجائداد رہ جاتا ہے، وہ نہ اس کے ساتھ کھلے پن کا مظاہرہ کرتا ہے، نہ اس کی مدد کرتا ہے، نہ اس کی خوشی، اپنی خوشی سمجھتا ہے، نہ اس کا غم، اپنا غم سمجھتا ہے، اپنے کردار و گفتار، اخلاق و اعمال سے اپنے بھائی کے ساتھ ذرا بھی دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔
خاندان کا سب سے بڑا ستون اور زندگی کی گاڑی کو منزل تک پہنچانے میں بھائی کے کلیدی کردار اور بنیادی رول کے تعلق سے بعض واقعہ نگاروں نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت کا بیٹا، بھائی اور شوہرتینوں گرفتارہوگئے، اور تینوں کوپھانسی کی سزا ملنی طے پائی، بادشاہ بڑا رحم دل تھا، اس نے سوچا کہ عورت کی زندگی کہیں برباد نہ ہوجائے، اس لیے ان میں سے کسی ایک کی جان بخش دی جائے، چناں چہ اس نے عورت کواختیاردیاکہ بھائی، شوہر اور بیٹا میں سے کسی ایک کواختیارکرلے، اس پر اس نے اپنے بھائی کواختیارکیا، بادشاہ کوحیرت ہوئی کہ بیٹے اور شوہرکے ہوتے ہوئے بھائی کوکیوں اختیارکیا، عورت نے کہاکہ بیٹا اور شوہر تو مل سکتے ہیں، اگر دوسری شادی کر لی جائے تو شوہر مل جائے گا، اور پھر جب توالد و تناسل کا سلسہ چلے گا، تو بیٹا بھی مل جائے گا، لیکن بھائی کا ملنا ناممکن ہے، اس لیے میں نے بھائی کواختیارکیا۔
مختصر یہ کہ بھائی ہی وہ عظیم ہستی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پرانسان کے کام آتا ہے، زندگی کی مایوسیوں میں حوصلوں کی روح پھونکتا ہے۔ جب کوئی بھائی، بھائی کی عظمت سے واقف ہو جاتا ہے، تو اپنے ان بھائیوں سے بھی، جن سے وہ لا تعلقی اختیار کیے رہتا ہے، یا ان سے پہلو تہی کیے رہتا ہے، ان کے کاموں، پیشوں اور تمام سماجی، معاشرتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں روڑے اٹکاتا ہے، یا اس کی معاشرتی ترقی و تنزلی، کی طرف ایک نگاہ غلط بھی ڈالنا گوارہ نہیں کرتا، بل کہ اسے یوں چھوڑ دیتا ہے؛ جیسے کہ وہ ایک اجنبی ہے، اور اس کے پڑوس میں آکر بس گیا ہے، اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ وہاں محل تعمیر کرتا ہے، یا جھونپڑا بناتا ہے، موسم گرما میں گرمی کی تمازت سے جھلستے ، یا جاڑے کی یخ بستہ ہواوٴں سے ٹھٹھرتے ہوئے بھائیوں پر نگاہ ڈالنے یا ان پر سوچنے کی اسے فرصت نہیں ہوتی۔ وہ ان کی دامے، درمے،قدمے، سخنے مدد اور تعاون تو دور کی بات ہے، اس کے ترقی کرنے کی شکل میں نہ حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور نہ ہی پریشانی کی صورت میں ڈھارس بندھاتا ہے، وہ مرض و تکلیف، خوشی و شادی اور دوسرے مراسم سے بھائیوں کو آگاہ کرکے نہ پریشانیوں کو دور کرتا ہے، اور نہ ہی خوشیوں کو دوبالا کرتا ہے، بل کہ وہ بھائیوں کے تعلق سے گاڑی کا ایک نیوٹل گیر بن جاتا ہے۔ہاں دوستوں کے ساتھ ضرور ٹچ میں رہتا ہے؛ لیکن ان تمام کے باوجود وہ بھائی کی عظمت اور خاندان میں اس کے عظیم کردار سے واقف ہوتا ہے، وہ اسے اپنی طاقت و قوت کا مظہرسمجھتا ہے، وہ اچھی طرح یہ سمجھتا ہے کہ انھیں بھائیوں سے اس کی شان اور آن بان قائم ہے۔ اوروں کے سامنے انھیں سے اس کی واہ واہی ہوتی ہے، اور عزت و شہرت قائم رہتی ہے، اسی سے اس کے اعلی خاندان کا وقار اور بھرم برقراررہتا ہے، اور اس کی ایک بہترین شناخت اور پہچان قائم ہوتی ہے، چناں چہ وہ حسب ِموقعہ بھائیوں کو اپنے بڑے خاندان کے حصے کے طور پر پیش کرتا ہے، شادی بیاہ اور اس جیسے مواقع پر جہاں حسب و نسب کا مسئلہ پیش آتا ہے، وہ اپنا رشتہ ضرور جوڑتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ بھائی کی بہر حال ایک عظمت ہے، اس کی عظمت کو تاراج ہونے سے بچانا خاندان کے ہر فرد کی اولین ذمہ داری ہے۔
تاریخ اسلامی میں مواخات کا واقعہ ناقابل ِفراموش ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تھا، تو اس وقت تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا تھا کہ ایک انصاری اپنے مہاجربھائی کو جو دراصل حقیقی بھائی نہیں تھا، بلکہ اسے حقیقی بھائی کی مانند مان لیا گیا تھا، اپنی دولت، پراپرٹی، گھر بار حتی کہ ایک سے زائد بیویوں کو طلاق دے کراس سے نکاح کرادیا تھا۔ انسانی تاریخ میں اس طرح کی کوئی ایک مثال بھی ملنی بہت مشکل ہے۔دراصل بھائی ہونے کا یہی وہ معیار، parameter اور کسوٹی ہے، جس پر کسی کے بھی وصف ِاخوت کو پرکھا جاسکتا ہے، اگر وہ ان اصولوں اور کسوٹیوں پر پورا اترتا ہے تو وہ بھائی ہے، ورنہ پھر وہ ایک پڑوسی اور شریک ِجائداد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیں، خود اپنے آپ، اپنے گھر اور خاندان پر ان اصولوں کو منطبق کر کے دیکھنا ہے کہ آیا ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں یا کچھ اور!
افسوس کہ آج ہمارا سماج بھائی پن کے ان تمام جذبات اور اقدار سے خالی ہوگیا ہے ،جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرمائے تھے، اور جن اقدار ہی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں بھی باہمی محبت و تعاون کے ساتھ رہنے کی بات کی ہے ،وہاں بھائی بن کررہنے کی، کی ہے۔ آج ہم میں بے اعتنائی کی وہ خصلت پیداہوگئی ہے کہ ہم بھائیوں کے مسائل سے دل چسپی لینا تو دور کی بات ہے، ان سے بات تک نہیں کرتے، اگر کبھی کچھ بات کرتے بھی ہیں تو محض موسم کے احوال، کرونا کے احوال کے متعلق چند رسمی باتوں کے سوا کچھ نہیں کرتے، ان کی مالی، اقتصادی، عائلی اور بچوں کے تعلیمی مسائل، گھر گرہستی سے جڑی ہوئی مشکلات کی بو تک نہیں سونگھتے، مبادا کہیں خود نہ پھنس جائیں، حالاں کہ اخوت کی گاڑی انہیں راستوں سے ہوکر آتی ہے، آج ہم اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں، دوست آئے تو کئی دن سے اس کے استقبال کی تیاری کرتے ہیں، لیکن کبھی بھائی اگر آجائے، تو اس کا خاطر خواہ استقبال نہیں کرتے، نہ ہی اسے وقت دیتے ہیں۔ آج کے سماج نے ایک ماں کے شکم میں پلنے والے بھائیوں کوباہم خود غرض اور انٹرورڈ بنا دیاہے۔
ایک وقت تھا جب کم از کم باپ کی حیات میں بھائی اپنے باپ اور ماں کی رعایت میں اپنی پراپرٹی اور عیش و عشرت کے سامان الگ نہیں کرتاتھا، وہ والدین کی حیات تک اپنی کمائی کی ایک ایک پائی باپ کے قدموں میں ڈال کر اس کے سائے تلے اپنے بھائیوں کے لیے زندگی کے مراحل آسان کردیتا تھا، وہ باپ کی موروثی جائداد کوبڑھاتا تھا، تاکہ تمام بھائی جس طرح ایک ماں کے شکم سے ایک ہی جگہ سے خوراک لے کر آئے ہیں، اور ایک باپ کی تربیت اور پسینے کی کمائی سے پلے اور بڑھے ہیں، آئندہ بھی کم ازکم ایک نسل تو آسودگی کے ساتھ زندگی بسر کر لے۔ چاہے اس کاتعلق گھر بار اور عمارت سے ہو، یا زراعت سے ہو، زرعی یا تجارتی زمینوں کی بڑھوتری سے ہو، ہر جگہ وہ مشترکہ طور پر بڑھاوا دے کر زندگی کی ڈگر کو آسان کر دیتا تھا؛ حالاں کہ اس طرح کبھی کبھی اس کے ساتھ مسائل بھی پیدا ہوجاتے تھے، مگروہ ان کی پروا ہ کیے بغیرباپ کی حیات تک کم از کم اپنے لیے نہیں، اپنوں کے لیے جیتا تھا۔
آئیے ہم اپنا اور اپنے خاندان کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ ہم اخوت و بھائی چارگی کے بحران میں کہاں stand کرتے ہیں، تاکہ اس کی تلافی کی کوشش کریں۔ کیوں کہ بھائی چوں کہ باپ اور بیٹے کے بعد خونی رشتے میں سب سے پہلا مقام رکھتا ہے، اس لیے اس کے ساتھ تعلقات اور محبت رکھنا، نہ صرف فطرت کا تقاضا ہے، بلکہ شرعی مجبوری بھی ہے، جس کی سخت باز پرس ہوگی، اور چوں کہ صلہ رحمی اور بقائے تعلق و محبت کے جو راستے اور شکلیں ہیں، وہ انصار و مہاجرین کی برادرانہ زندگی کے گلیاروں سے ہوکر ہی آتی ہیں، اس لیے اگر بھائی بن کر دنیا و آخرت کی سرخروئی حاصل کرنی ہے، تو صحابہ رضی اللہ عنہم ہی کی برادرانہ اخلاقی اقدار اختیار کیے اور انھیں اپنی زندگی میں نافذ کیے بغیر چارہ نہیں۔