- آئیے! اس کے لیے پہلے ہم بنیادی اصطلاحات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔
- ایمان کی تعریف۔
- ضروریات دین کیا ہیں؟
- اسلام کی تعریف۔
- قرآن کی تعریف۔
- حدیث و سنت کی تعریف۔
- کفر کی تعریف۔
- شرک کی تعریف۔
- نفاق کی تعریف۔
- فسق و فجور کی تعریف ۔
- گناہ کبیرہ و صغیرہ کی تعریف۔
- ضلالت کی تعریف۔
- بدعت کی تعریف ۔
- عصر حاضر میں ایمان کو ڈھا دینے والے نظریات کی تعریفات۔
(الحاد، سیکولرزم، لبرلزم، ہیومینزم، سوشیلزم ،نیشنلزم، میٹریلزم، ڈارونزم، فرائڈزم، ڈیموکرسی، کمیونزم، کیپٹیلزم وغیرہ)
عقائد حقہ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اورآپ کے تمام صحابہ کے جو عقائد تھے وہی سب سے سچے ، سب سے صحیح ، سب سے زیادہ مفید ہیں، ان کو ماننے والے اہلِ سنت والجماعت کہے جاتے ہیں، حضورا کی امت کا بھی ایک فرقہ ناجی ہے باقی بہتر(۷۲) فرقے ناری ہیں۔ اوروہ فرقہٴ ناجیہ بھی جماعتوں سے مل کر بنتا ہے۔
(الف) حضراتِ اصولیین و مجتہدین یعنی وہ علماء جو قرآن و سنت اوراجماعِ امت وقیاس مجتہد کوہرکام میں اپنے پیش ِنظر رکھتے ہیں اوراساسِ دین سمجھتے ہیں۔
(ب) فقہاء ومتکلمین یعنی وہ علماء جو قرآن و سنت اوراجماع ِامت و قیاس ِمجتہد کے ساتھ احکام میں اصول ِصحیحہ سے بھی کام لیتے ہیں؛ جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور بعد میں ابوالحسن اشعری اورابو منصورماتریدی اوران کے بعد امام ابوبکر باقلانی ، امام ابو حامد الغزالی وغیرہم رحمہم الله۔
(ج) صوفیہ یعنی وہ علماء با عمل جو ان چاروں اصول دین (کتاب و سنت، اجماع ِامت و قیاس ِمجتہد) کے ساتھ دین میں اس فراست و بصیرت سے بھی کام لیتے ہیں، جو ان کو حق تعالیٰ کی طرف سے ان کے تقویٰ ، شوق اور محبت کے صلہ میں عطا ہوتی ہے۔
(د) کتاب و سنت پرعمل کرنے یا نہ کرنے سے انسانوں کی آٹھ قسمیں بنتی ہیں ان سب میں باہم بتدریجی ربط بھی ہے۔
(۱) اہلِ ہدیٰ: انہی کوقرآن نے ”یا ایہا الذین آمنوا“سے خطاب کیا یعنی وہ لوگ جو کتاب و سنت کو دل سے مانتے اوران پر بے چوں و چرا عمل کرتے ہیں۔ الله ورسول سے اور کتاب الله و سنت رسول سے محبت کرتے ہیں، (اس سے نکلنے پر آدمی اہل ہوا بنتا ہے )۔
(۲) اہلِ ہویٰ: ان کو قرآن نے ”مَنِ اتَّخَذَ اِلَہَهُ ہَوَاہُ“ فرمایا جو اپنی ہوا وخواہشِ نفس کے پیچھے لگے رہنا چاہتے ہیں، اس لیے کتاب و سنت پرعمل میں سستی کرتے ہیں ، ایسا شخص بہت جلد بدعت اورنفاق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
(۳) اہلِ بدعت: ان کو قرآن نے ”وَمَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُوْلَ“ اور ”وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ“ فرمایا و ہ لوگ جو سنت چھوڑکرنئی باتیں اپنے دل سے دین وثواب سمجھ کراس پر سختی سے پابند ہوتے ہیں اوراہل سنت وجماعت کو برا جانتے ہیں۔
(۴) اہلِ نفاق: ان کو قرآن نے ”منافقین“ فرمایا جن کے دل میں کفر اوراہل کفر کی خوبی اوربرتری بھری ہو اپنے اسلام پرشرم وافسوس ہو، اورنازک موقعوں پراہلِ اسلام کے خلاف اہلِ کفر سے دلی دوستی کرلیں۔
(۵) اہلِ شرک: ان کو قرآن نے ”مشرکین“ کہا یہ ایک اعلیٰ طاقت (الله تعالیٰ) پریقین نہیں رکھ سکتے، خدائی طاقتوں کو کئی افراد میں بانٹ کرسب کے سامنے جھکتے ہیں، حق تعالیٰ کو کمزور اوردوسروں کا محتاج مانتے ہیں۔
(۶) اہلِ کتاب: وہ لوگ جو کسی آسمانی کتاب پراعتقاد رکھنے کا کھوکھلا دعویٰ کرتے ہیں، نہ ان کے پاس وہ کتاب ہی پوری طرح محفوظ ہے نہ سنت ِرسول محفوظ ہے، بل کہ وہ اپنے رسولوں کے مختلف بل کہ مخالف ہوتے ہیں۔
(۷) اہلِ کفر: وہ لوگ نہ الله کو مانیں نہ کتاب الله کو اور نہ رسول کو مانیں نہ سنت ِرسول؛ بل کہ ان سے عناد رکھتے ہیں۔
(۸) اہلِ ارتداد: وہ لوگ جو دین ِحق قبول کرچکنے کے بعد حرص (لالچ) یا جہالت کے سبب اسے چھوڑ کر دوسرا دین ِباطل اختیار کرلیں۔
الله تعالیٰ سب سے بڑے بادشاہ ہیں، جن کی حقیقت عقل میں آہی نہیں سکتی، اس کی ذات وصفات کی باریکی کو کوئی جان نہیں سکتا۔ ہم اسے عقل اوردلیل سے نہیں بل کہ بے دلیل اور سمجھنے کی کوشش کیے بغیر ہی مانتے ہیں، کیوں کہ ہماری روح خود بخودکسی ایک ذات کی طرف عظمت کے اعتراف کے ساتھ جھکتی معلوم ہوتی ہے، جس طرح ایک بچہ پیدا ہونے پر آپ سے آپ ماں کی چھاتی کی طرف جھکتا ہے۔ یا ایک ایسے باپ بیٹے جن میں ایک نے دوسرے کو پہلے نہ دیکھا ہو مدتوں بعد بھی سامنا ہونے پر خون کے رشتے سے ایک دوسرے کی فطری کشش کی طرف از خود کھنچتے ہیں، یہ طبعی احساس بڑا قابل قدر ہے؛ اسی جذبہ کو بار بار سوچتے رہنا اورترقی دینا چاہیے، اسے بار باراور ترقی دینے ہی سے بچہ ماں کو اور بیٹا باپ کو پہچاننے اور ان سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسی فطرت کے کلمہ کو بار بار پڑھنے اور سوچنے سے بندہ بھی الله کو پہچاننے لگتا ہے۔ اس لیے ہم کو بھی الله تعالیٰ سے بِن دیکھے محبت وعظمت وعبدیت تینوں کے مجموعہ کا تعلق رکھنا چاہیے یعنی محبت ایسی کرنی چاہیے؛ جیسی ہم کو ماں باپ سے ہوتی ہے، اورعظمت ایسی جیسی بڑے اور طاقتور بادشاہ سے ہوتی ہے اور غلامی و نیازمندی ایسی جیسے کسی حاجت روائی کرنے والے اور روزی پہنچانے والے سے کی جاتی ہے۔
