بندوں کو عذاب کیوں، اگر خدا رحیم ہے!

( حضرت مولانا) حکیم فخر الاسلام الٰہ آبادی (حفظہ اللہ)

کسی صاحبِ علم سے کالج کے کسی گریجویٹ نے یہ سوال کیا:

            ”اللہ جب اپنے بندوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور ماں سے ستر گناہ زیادہ رحمدل ہیں، تو پھر وہ گنہگار مسلمان یا کافر کو جہنم میں کیوں ڈالیں گے؟“

ایک صاحبِ علم کی طرف سے یہ جواب دیا گیا :

            ”اس کا عقلی جواب کیا ہوگا فی الحال وہ میرے ذہن میں نہیں ہے ،تحقیق کرکے کچھ عرض کیا جا سکتا ہے، سیدھا اور سادا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی معبود ہیں اور معبود وہ ذات ہوتی ہے، جو تمام صفاتِ کمالیہ سے متصف ہواور صفات کمالیہ میں صفات جمالیہ و جلالیہ دونوں شامل ہیں اور یہ چیز جب تک کہ جمال وجلال دونوں کا امتزاج نہ ہو ،اس وقت تک انتظام و تدبیر جو اللہ کی خاص شان ہے وہ نہیں ہوسکتی ،تو جیسے اللہ تعالی ارحم الراحمین ہے اور خیر الغافرین ہے، ایسے ہی ألِیم العذاب شدید العقاب بھی ہے، یہ سب اللہ تعالی کی صفات کے مظاہر ہیں، یعنی دوزخ اللہ تعالی کی صفاتِ جلالیہ کا مظہر ہے اور جنت صفاتِ جمالیہ کا مظہر ،دونوں ہی صفات اپنی اپنی شان کے ساتھ ظاہر ہوں گی ،جو اس کا مستحق ہوگا اس کے ساتھ کمالِ رحمت کا اور جو اس کا مستحق ہوگا اس کے ساتھ غضب کا عقاب کا اور عذاب کا معاملہ کیا جائے گا ،یعنی کمال ِعذاب ہوگا انتہا کو پہنچا ہوا اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۔

             (ترجمہ: فرعون والوں کو(مع فرعون کے )نہایت سخت عذاب میں داخل کرو)۔

(بیان القرآن : ج ۱۰ص ۲۴ تاج پبلیکیشنز دہلی)

آں موصوف کادوسرا جواب :

            اللہ تعالی جیسے رحیم ہے، رحمن ہے، کریم ہے ایسے ہی حاکم ہے، حکیم ہے، حاکم ان کی جو صفت ہے تو حاکم کی جو شان ہوتی ہے کہ کوئی حکومت ایسی نہیں ہوگی کہ اس میں جیل خانہ نہ ہو ،جیسے حکومت کے انتظامات میں ساری راحت کے اسباب ہوتے ہیں ایسے ہی مجرموں کے لیے، باغیوں کے لیے، سرکشوں کے لیے عقوبت خانے بھی ہوتے ہیں، تو دونوں چیزیں ہونا اس کی حکومت کا تقاضا ہے اور اس کا اہم ترین حصہ ہے ۔

            بندہ نے فی الحال یہ جواب پیش کر دیا ہے؛فان کان صواباً فمن الله وان کان خطاً فمن نفسی و من الشیطان ونسأل الله ا لعفو والغفران“

            اس جواب کے ساتھ ہی جب یہ سوال ہنوز قائم ہے کہ”اس کا عقلی جواب کیا ہوگا“تو فہمِ نارساں میں جو کچھ مستحضر ہے عرض کیا جاتا ہے:

            جواب ازراقم فخرالاسلام

            السلام علیکم!

            جواب تو دونوں درست ہیں۔ دوسرے جواب کی ابتدا میں یہ بات بتا دی جائے کہ:

            انسان کو سب سے زیادہ خود اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے،اس کے ساتھ ہی یہ ہوتا ہے کہ ظاہرِ جسم میں یا اندرونِ بدن کوئی عضو یا کوئی جزء جب فاسد ہوتا ہے، تو پورے بدن کی حفاظت پیشِ نظر رکھ کرفاسد حصہ کی علیحدگی کی سبیل کی جاتی ہے۔اور علیحدگی کے بعد اس کی جگہ گلشن نہیں ہوتی؛ بلکہ گلخن ہوتی ہے۔

            دور کیوں جائیے، روزانہ بول و براز کی شکل میں فضلات کا خارج ہونابھی اس کی ایک مثال ہے، جب تک وہ خارج نہیں ہوا بدن ہی کا ایک جزء ہے اورانسان جو بشاش دکھائی دیتا ہے، اس کی بشاشت میں اس کی موجود گی کو بھی دخل ہے، چناں چہ استفراغ غیر ضروری ہونے لگے، تو اسے روکے رکھنے سے محبت اور نکلنے کا غم ہوتا ہے؛مگر عام حالات میں اس فضلہ کا آنتوں کے اندر باقی رہنا، یعنی احتباسِ غیر ضروری بدن کے لیے مضر ہے، لہذا کل جسم کی تربیت و مصلحت کی خاطر اسے نکالنے کی فکر ہوتی ہے، اِخراج کے جتن کیے جاتے ہیں اور اس طرح وہ قابلِ نفرت اور لائقِ اخراج ٹھہرتا ہے۔

            اصل اس امرمیں کل جسم کی تربیت ہے، اس اصول کو تمام عالم پر جاری کیجیے، تو کُل عالم کی تربیت کے لیے جو مصلحت ہو تی خدا کی طرف سے وہ کیا جا تا ہے۔

            اس باب میں طبعی قاعدہ یہ ہے کہ چیزوں سے مفید مطلب کام لے لینے کے بعد اپنے اپنے معدن میں پہنچا دی جاتی ہیں۔ نظامِ خداوندی میں نیکی کا ثمرہ ثواب و راحت ہے اور بدی کا ثمرہ رنج و عذاب،نیکی کامعدن جنت ہے ،جہاں راحت ہی راحت ہے اور بدی کا ثمرہ جہنم جو رنج کا معدن ہے،گناہ و ثواب کے کام مع اپنے مرتکب کے انجام کار اپنے اپنے معدن میں پہنچائے جاتے ہیں۔

             درمیان میں جو مراحل اور عفو، عذاب و استثناآت پیش آتے ہیں،وہ سب داخل تربیت ہوتے ہیں۔

            یہاں جو کچھ راقم نے عرض کیا اس میں کافی انتشار ہے، جب کہ مسئلہ میں خاصی تفصیلات ہیں؛ مگرمکمل مسئلہ کو عقلی طور پر اجسام کی تربیت اور اشیاء کے معدن کے اصول پر سمجھا جاسکتا ہے۔ اس تعلق سے الامام محمد قاسم نانوتوی  کی دو کتابیں ذکر کی جاتی ہیں،ان میں مسئلہ کی تنقیح مل جائے گی:۱-انتصارالاسلام ۲-تقریر دل پذیر۔

            یہ تحریر لکھ چکا تھا کہ ایک مدت کے بعد امداد الفتاوی میں مسئلہ کی تحقیق نظر سے گذری از راہِ افادہ اسے بھی درج کیا جاتا ہے :

            ”سوال :ایک صاحب فرماتے ہیں کہ : مجھ کو تعجب ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں کو ماں باپ سے بڑھ کر چاہتا ہے ، پھر کافروں کو خلود دائمی دوزخ میں کیوں فرمائے گا، اولاد چاہے کیسی ہی بری سے بری ہو ؛لیکن باپ اس کی تکلیف ہر گز گوارا نہیں کرتا اور اس کو مصیبت میں نہیں دیکھ سکتا۔

            الجواب:یہ سوال خود جناب رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت نے کیا تھا:

            حَیْثُ قَالَتْ:ألَیْسَ اللّٰہُ أرْحَمُ بِعِبِادِہِ بِوَلَدِہَا، قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: بَلٰی ، قَالَتْ: إنَّ الْأمَّ لَا تُلْقِيْ وَلَدَہَا فِيْ النَّارِ، فَأکَبَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْکِيْ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: إنَّ اللّٰہَ لَا یُعَذِّبُ مِنْ عِبَادِہِ إلَّا المَارِدَ الْمُتَمَرِّدَ الَّذِيْ یَتَمَرَّدُ عَلٰی أمِّہِ وَأبٰی أنْ یَّقُوْلَ: لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ۔

( رواہ ابن ماجة عن عبد اللہ بن عمر، کذا في المشکٰوة)“

            (ترجمہ : جس طرح کہ ایک عورت نے کہا :کیا اللہ رب العزت اپنے بندوں پر ان کی ماں سے زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے؟

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : کیوں نہیں ۔

             اُس عورت نے کہا :ایک ماں اپنے بیٹے کو ہرگز آگ میں نہیں ڈالے گی۔

             تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم رونے لگے، پھر سر اٹھا یااور ارشاد فرمایا : اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے اُسی کو مبتلائے عذاب کرے گا جو سرکش ، ہٹ دھرم ، اپنی ماں کی نافرمانی کرنے والا ہوگا اور لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کرے گا۔ )

            یہ جواب ذکر کرنے کے بعد حکیم الامت فرماتے ہیں:

            حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جواب ارشاد فرمایا ، اُس کا حاصل اصطلاحی الفاظ میں یہ ہے کہ : عباد گو عام ہے ؛مگر دوسرے دلائل نے اُس میں سے بعض کو خاص کردیا ہے ، جو ملعون ہوکر دائرہٴ ر حمت سے خود نکل گئے ہیں، پس عباد دو قسم کے ہوئے :

            ۱-ایک مرحومین اور ان پر اس قدر رحمت ہے کہ والدہ کو ولد پر نہیں ۔

            ۲-دوسرے غیر مرحومین ، سو اُن پر آخرت میں رحمت ہی نہ ہوگی ۔

             پھر زیادتی و کمی کا کیا ذکریا یوں کہوکہ عباد عام نہیں ہے ،خود اضافت تخصیص کو مفید ہے،یعنی بندگانِ خاص، جیسے قرآن مجید میں عباد الرحمن کو خاص کیا ہے موصوف بصفات خاصہ (خاص صفات کے حامل بندے)سے ۔

            رہا یہ کہ والدہ کو تو سب اولاد پر رحمت ہوتی ہے اللہ تعالی کو سب عباد پر کیوں نہیں؟

            اِس کا جواب یہ ہے کہ رحمت والدہ کی اضطراری ہے مشیت پر موقوف نہیں ، اِس لیے عام ہے اور اللہ تعالی کی رحمت اختیاری ہے اور(وہاں اضطرار،اِنفعال نہیں،فعل ہے جو) مشیت پر موقوف ہے ، جس کا سبب ِ ظاہر ی اعمال ِ صالحہ ہیں ، اس لیے آخر ت میں خاص ہے ؛البتہ دنیا میں عام ہے۔

            رہا مرحومین کو تکلیف ہو ، سو، وہ تہذیب ہے تعذیب نہیں(یعنی وہ بطور عذاب نہیں،بطور تربیت ہے)۔ فقط واللہ اعلم !“

(حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی،امداد الفتاوی، جلد۵ص۷۳)

والسلام               

 فخرالاسلام                     

۱/فروری ۲۰۲۴ء             

نظر ثانی و اضافہ:۱/نومبر۲۰۲۴ء=۲۵/ربیع الثانی۱۴۴۶ھ