حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی کے سانحہٴ ارتحال پر کہی گئی تعزیتی نظم
نتیجہٴ کرب : انصاری عمیر انجم مالیگاوٴں
وہ اکیلا ہی نہیں اک کارواں جاتا رہا
حضرت وستانویکا رازداں جاتا رہا
وہ مخلص وہمدرد وہ غمگساری کا صحن
وہ غریبوں کا چمن اور گلستاں جاتا رہا
کس کو اب چین ہے کس کو میسر ہے سکون
وہ طالبان علم کا راہ نما جاتا رہا
مسند تدریس کو کتنے شجر اس نے دئیے
اب کتنے پودے چھوڑ کر وہ باغباں جاتا رہا
خدمت دین کی ہے اس نے اس کے سب ہیں معترف
دین کی ہر شاخ کا وہ پاسباں جاتا رہا
تھا بڑا وہ خوش سخن اور بڑا شیریں کلام
وہ محفلوں کا حسن اور روح رواں جاتا رہا
اجلاس کا ناظم تھا وہ طاق یکتا منفرد
چھوڑ کر ہم پر وہ یہ بارگراں جاتا رہا
مسابقوں کے نظم میں شب و روز جس نے ضم کیے
مسابقات ہند کا وہ میزباں جاتا رہا
موت تو آنی ہے اک دن اس سے کس کو ہے فرار
پر وہ بڑی عجلت میں اور ناگہاں جاتا رہا
یارب تو اس کی نیکیاں ساری قبول کر
گناہوں کو معاف کردے ہوئے ہوں گے بھول کر
اب اس کو آخرت تک لحد میں سکون دے
جنت کی وادیوں کے خوش رنگ پھول دے
آمین!