افتخار احمد قاسمی بستوی اکل کوا
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے” کل نفس ذآئقة الموت“ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے #
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نندر بار مہاراشٹر کے نائب رئیس حضرت حافظ اسحاق صاحب وستانوی، صبح سواسات بجے،جمعہ کے دن۔ 7/ شعبان المعظم 1443ہجری، مطابق 11/ مارچ 2022 ء اکل کوا میں اپنی عافیت گاہ پر،قدرے طویل علالت کے بعد،ہزاروں سوگواروں کو رنجور ونمناک چھوڑ کر،اللہ کو پیارے ہو گئے۔” انا للہ وانا الیہ راجعون۔“
رحلت کی خبر پاتے ہی،صبح سے جمعہ کی نماز تک آخری دیدار کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہا،دور نزدیک سبھی علاقوں سے چاہنے والوں کی ایک بھیڑ امڈآئی۔
اکلکوا،نندربار،شہادہ،جلگاؤں،مالیگاؤں،ناسک،رنجنی،کنجکھیڑا،انوا،سلوڈ،اورنگ آباد،ویجاپور،بیجاپور،عنبڑ،نوابپور،وستان،کوساڑی،انکلییشور،بھروچ،سورت،بارڈولی،ہانٹ، بھاوٴنگر، سیندھوا، کھنڈوا اور نہ جانے کہاں کہاں سے چاہنے والوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ،جنازے کی نماز میں شرکت اور تعزیت ِمسنونہ کے لیے آموجود تھا،سارا مجمع اور جم ِغفیر کا خدو خال زبان حال سے گواہی دے رہا تھا کہ جانے والا بندہ مقبولِ بارگاہِ ایزدی ہے۔
جامعہ کالج کا میدان جمعہ کی نماز کے بعد جنازے کی نماز اور تدفین میں شرکت کے لیے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،صفیں بندھ رہی تھیں،شعبہٴ تحفیظ القرآن،شعبہٴ عا لمیت،شعبہٴ دینیات کے تمام چھوٹے بڑے طلبہ سفید سفید لباس میں ملبوس معصوم فرشتوں کی مانند،قطار اند قطار، آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر اور دامن میں آنسوؤں کا جنازہ لیے ہوئے اپنے ہر دلعزیز مربی کے حقیقی جنازے کی چارپائی کے پیچھے،دور تک صفوں میں لرزاں و ترساں کھڑے سراپا انتظار تھے۔
جنازے کے پاس مرحوم کے فرزند مولانا حنیف وستانوی#،مولانا فاروق وستانوی#،حافظ عبید وستانوی#، بھائی جابر وستانوی# اور خانوادہ وستانوی کے ذروں کے آفتاب اور آفتاب کے ذرے سراپا غم بنے موجود تھے، وہیں پاس ہی سے حافظ مرحوم کے منجھلے بھتیجے مولانا حذیفہ وستانوی# ازدحام کو قابو میں کرنے کے لیے مائک پر مسلسل اعلان کرتے جارہے تھے،آیات واحادیث کی مدد سے مجمع کو صبر و استقلال کی تلقین کررہے تھے، میدان میں انسانوں کا سمندر چیونٹیوں کی مانند،خدا معلوم کہاں کہاں سے آیا ہوا، نماز جنازہ کے لیے بالکل تیار محو انتظار تھا۔
اتنے میں مائک سے آواز آئی 3 بجنے میں صرف 3 منٹ باقی ہیں، وقت پر نماز شروع کردی جائے گی۔یہ سننا تھا کہ سڑک پر موجود،جنازے کی طرف بڑھنے والا مجمع تیزی سے دوڑ کر جنازہ گاہ میں آنے لگا۔ نہ چپل جوتوں کی پرواہ نہ سر پر دھوپ کی تمازت کا خیال،ادھرآس پاس چھتوں پر چڑھ کراورکھڑکیوں سے دیکھنے والی خانہ نشین خواتین اور ننھے منے بچوں کے سسکنے کی آوازیں مجمع کو آبدیدہ کرنے لگیں۔3 بج گئے اعلان ہوا مرحوم کے بڑے بیٹے مولانا حنیف وستانوی# شیخ الحدیث بھاوٴنگر جنازے کی نماز پڑھائیں گے،صفیں بندھ چکی تھیں،طاق صفیں میت کی مغفرت کا پروانہ ہوتی ہیں،صفیں شمار میں طاق تھیں،شیخ حنیف نے نماز کے لیے جیسے ہی اللہ اکبر! کہا اجلے کپڑے زیب تن کیے ہوئے طالبان ِعلوم نبوت، شیدائیان دبستان قرآن اور گلستان وستانوی# کے معصوم غنچوں کی سسکیوں کی آواز تیز ہوگئی ،دوسری تکبیر میں تو بیٹے کی ہچکیاں بندھ گئیں ،بڑی مشکل سے بھرائی ہوئی آواز میں تیسری تکبیر مائک میں سنی گئی، چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر کر جنازہ اٹھایا گیا۔
اب کاندھا دینے والوں کامنظر بھی دیدنی تھا،آنکھیں اشک برسا رہی تھیں اور دل یہ کہہ رہا تھا کہ#
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والا تو ہمیں یاد بہت آئے گا
تمام تر حسن ِانتظام اور طلبہٴ جامعہ کے تعاون کے باوجود جنازے کی بھیڑ بے قابو ہو تی دکھائی دے رہی تھی، لوگ مرحوم کو کاندھا دینے کے لیے پروانے کی طرح جنازے کی طرف چھپٹتے اور قطار میں نہ ہونے کے باعث نامراد لوٹ آتے،پھر ہمت کرتے تو بعض کی امید برآتی اور بعض پھر بھی کامیاب نہ ہوتے،راقم سطور نے بھی کوشش کی اور جنازے کی چارپائی تک رسائی پاہی گیا۔
حضرت رئیس ِجامعہ مولانا غلام محمد وستانوی# کااپنے بڑے بھائی کے فراق میں روتے روتے برا حال ہوگیا تھا کہ جنازے کے لیے تکبیر کہہ پانا بھی مشکل تھا، چھوٹے بھائی حافظ سلیمان وستانوی# سے مل کر تعزیت مسنونہ کے کلمات بھی بندے نے کہے۔
جنازہ اکل کوا مکرانی کے قدیم قبرستان میں کاندھوں پر لے جایا گیا،کم و بیش پچاس ہزار سوگواروں کا جمِ غفیر جنازے کے پیچھے پیچھے قبرستان پہنچا، مولانا سعید وستانوی مرحوم اور ان کی پھوپھی کے پہلو میں قبر بنائی گئی تھی، قبر میں جنازہ اتارا گیابڑے بھائی کی قبر کو دیکھ اور سوچ کر صرف۲/ سال چھوٹے بھائی مولانا غلام محمد وستانوی بار بار اشک ریز ہو جاتے۔خود کو قابو میں رکھ کر تدفین کے بعد دعا کرائی اور مجمع زبان حال وقال سے یہ کہتا رخصت ہوا کہ ” العین تدمع،والقلب یحزن،ولانقول الا مایرضی الرب وانا لفراقک یااسحاق لمحزونون”
اگر تلاش کروں کوئی مل ہی جائے گا
مگر تمہاری طرح کون مجھ کو چاہے گا
تو ایسا لگا کہ قبر کی مٹی بول رہی ہے:
جھاڑنے والے غباروں کو مرے کپڑے سے
آج مٹی کے بچھونے پہ سلاتے کیوں ہو
اتنا مجمع جوہے آیا ہوا میری خاطر
ڈال مٹی کو مرے رخ پہ رلاتے کیوں ہو
چھوٹے بچے بھی اپنی اداؤں کے ساتھ تدفین کے لیے پہنچ ہی گئے تھے ایک بچے نے پوچھ ہی لیا، ابو! حافظ صاحب کو کیوں مٹی میں ڈال دیا۔ باپ نے جواب دیا بیٹا! حافظ صاحب اور ہم سب لوگوں کو اللہ نے مٹی سے بنایا ہے،اسی میں جانا ہے اور اسی مٹی سے زندہ ہوکر اٹھناہے۔ ارشاد ربانی ہے” منہا خلقناکم،وفیہا نعیدکم،ومنہا نخرجکم تارة أخریٰ“
یہی دعا پڑھ کر مٹی دے کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے ،جانے چلا گیا اب کبھی نہیں آئے گا ہاں اس کی یاد ضرور آئیگی، گلشن کی فضا اسے یاد کرے گی۔ #
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ ٴنورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے