بہ قلم : مفتی عبدالقیوم صاحب مالیگانوی
استاذجامعہ اکل کوا
سب سے بہترکون ہے؟:
میںآج کی اس تحریرمیںقارئین کوایک بات بتلاناچاہتاہوں۔وہ بات یہ ہے کہ ساری انسانیت اللہ کا کنبہ اورقبیلہ ہے اورسب کی بنیادایک ہے ۔جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:{ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ }اورحدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :’’کلکم من بنی آدم وآدمُ من تراب‘‘اورخالقِ انس وجان کواپنی تمام مخلوقات ؛ خصوصاً انسانوںسے محبت اورحددرجہ پیار ہے،اِسی وجہ سے انبیاورسل کوہدایتِ انسانی کے لیے مبعوث فرمایا۔اورایک آفاقی اورپیغامِ ہدایت بہ شکلِ قرآن مجیدنازل کیاتاکہ سارے بندے کفروشرک کی تاریکیوںسے اپنے آپ کونکال کرایمان وہدایت کی روشنی سے اپنے کو منور کریں۔ اور مخلوقِ خداسے محبت کرنے والابھی اللہ کومحبوب وپسندیدہ ؛بل کہ ساری مخلوق میںسب سے بہتر اور حسین ہے ؛ جیسا کہ ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم اِس بات پر مشیرہے’’ألخلق عیال اللہ فأحسن الخلق إلی اللہ من أحسن إلیٰ عیالہ‘‘وجہ اِس کی یہ ہے کہ اُ س نے اللہ کے محبوب بندوںکے ساتھ اُنھیںراہِ ہدایت دکھلاکرمحبت والفت کا برتاؤ کیا۔ اور مخلوقِ خداکے ساتھ سب سے اہم خیرخواہی حسنِ سلوک ،نیکی،رب سے بچھڑوںکورب سے، بل کہ سب کے بجائے رب سے ملادینااوراَن دیکھی حقیقتوںپربغیردیکھے ایمان ویقین پیداکردینا،تاکہ آخرت کی ابدی رسوائی اورسزاسے محفوظ ہوجائے ۔
اخوت کی قسمیں:
قرآن کریم میںدوقسم کی اخوتوںکاتذکرہ ہے ۔
(۱)اخوتِ نسبی: جیساکہ قرآن میں {لقدکان فی یوسف وإخوتہ }۔
(۲)اخوتِ قومی: جس کاذکربہ کثرت قرآن کریم میںموجودہے {وإلیٰ ثمودأخاہم صالحاً۔ وإلیٰ عادأخاہم ہوداً۔وإلیٰ مدین أخاہم شعیباً۔}۔وغیرہ…
اِس سے معلوم ہوتاہے کہ غیرمسلمین بھی ہمارے بھائی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اُن کے ساتھ نسبی رشتہ نہیں،جس کی بناپرنہ اُن سے شادی بیاہ ہوسکتی ہے ،نہ ہی میراث میں اُنھیں شریک کیاجائے گا؛جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{ولاتنکحواالمشرکٰت حتیٰ یومن}اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد’’لایرث المسلم کافرا ولاالکافرمسلما‘‘ سے ثابت ہے ۔
قرآن صرف ہمارے لیے نہیں:
لیکن اسلام اورقرآن اُن کے لیے بھی ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے:{شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ}اِس میں لفظ ’’ناس‘‘ تمام انسانوںکے لیے ہے ،جس میںغیرمسلم بھی شامل ہیں۔ یہ ہماری غلطی اورکھلی غلط فہمی ہے کہ ہم نے اسلام کواپنامذہب اورقرآنِ کریم کواپنی کتاب سمجھ لیاہے کہ جس پرصرف ہماری ہی اجارہ داری رہے گی اورکوئی اس سے مستفیدہونے کاحق دارنہیںہے ۔اِ س غلط فہمی کاشکارہوکریااپنی غفلت کی وجہ سے اسلام کی محبت آمیزاورپیاربھری تعلیمات اورقرآن کے عظیم پیغامات ہم نے ان تک نہیں پہنچایا، اسلامی تعلیمات اُن کونہیںسنایا۔ اور وہ اب تک ہدایت،ایمان اورراہِ مستقیم سے محروم رہے، جس کے نتیجہ میں دوریاںبڑھتی گئیں،نفرتیںپروان چڑھیں،بھائی چارگی کاجنازہ نکلتارہااوراخوتوںکاخاتمہ ہوتارہا۔پھرایک دوسرے کو ذلیل وخوارکرنا،عزت وآبرو کو ٹھیس پہنچانا،بل کہ بلاقصورکسی بھی طرح کے الزام کی گٹھری سرپرلادکرسرِ راہ کسی کی جان لے لینابھی آسان ہی نہیں ہوگیا،بل کہ اِس وقت کامحبوب ترین مشغلہ بن گیا۔جس کوآج کی زبان میں (Mob Linching) یعنی ہجومی تشددکے ذریعے کسی کوختم کردینا اورمٹادیناکہا جاتا ہے۔ ماضی قریب کے بہت سارے واقعات مثلاً پہلوخان،اکبرخان اوراُس سے قبل اخلاق احمدوغیرہم کا مارا جانااِ س پر شاہدہے ۔اورتقریباً اس طرح کے واقعات روزانہ ہی اخبارات کی سرخی اوراس کے صفحات کی زینت بنتے ہیں۔ہم سب پڑھتے،سنتے اورپھربالکل ہی بھول جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پورے ملک اورسماج پرایک قسم کاخوف وہراس اوربے اطمینانی کی کیفیت اور فضاچھائی ہوئی ہے ۔ جس پرسنہراپردہ ڈالنے کے لیے اربابِ اقتدارغیرمنطقی اور احمقانہ دلائل کے انبار پیش کرنے سے بھی گریز نہیںکرتے ،بل کہ کچھ انسانیت دشمن انجام وعاقبت سے بے خبر کرسی وطاقت کے نشے میں چورومخمور، اقتدار پر غروراورتہذیب وتمدن سے کوسوں دور ہو کر اِس طرح کے واقعات پرمزیدکرنے والوںکی حوصلہ افزائی ، تعاون اور مددبھی کرتے ہیں۔اسلام اورقرآن کی تعلیم اِ س ظلم وبربریت اورسفاکیت کے بالکل خلاف ہے۔بل کہ قرآن پاک نے اِس کی جس نرالے اوراچھوتے انداز میںمذمت بیان کی ہے ،وہ قرآن ہی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ دیگرکسی آسمانی ومذہبی کتاب اورصحائف کے حصے میںیہ حصہ آیانہیںہے۔دیکھ لیجیے کہ قرآن کریم اس بارے میںکیاکہتاہے اب خودہی فیصلہ کرلیجیے کہ کیاکسی کتاب نے اِس قدراعلیٰ تعلیم دی ہے؟{من قتل نفسا بغیرنفس فکأنماقتل الناس جمیعا ومن أحیاہا فکأنمااحیا الناس جمیعا}کہ کسی ایک جان کو ناحق مارنے والا ساری انسانیت کاقاتل ہے ۔ اور کسی ایک جان کو بچانا اور اُسے ایک نئی زندگی دیناساری انسانیت کوزندگی دینے کے برابرہے ۔
اجازت نہیںہے:
معلوم ہواکہ جان ومال اورعزت وآبرو سب کی محفوظ ہوناچاہیے۔ اورعدل وانصاف ہرکسی کابنیادی حق ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کی روسے کسی کافرکوکافرہونے کی وجہ سے عدل ومساوات سے محروم نہیںکیاجاسکتاہے ، چاہے وہ ہمارا دشمن ہی کیوںنہ ہو۔قرآن پاک کہتاہے:{ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی }کہ کسی قوم کے ساتھ دشمنی تمھیں اُن کے ساتھ بے انصافی کرکے مجرم نہ بنادے ۔ یعنی محض دشمنی کی وجہ سے تم بے انصافی نہ کرو۔ورنہ اسلام کی نظرمیںتم ایک مجرم اورعدالتی کٹہرے میںکھڑے کیے جانے کے قابل بن جاؤ گے ۔بل کہ اِس سے بھی آگے اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیںکہ اگرانھوںنے دین کے معاملے میںتمھارے ساتھ زیادتی کی ہوتب بھی تمھیںاُن کے ساتھ بے انصافی کی اجازت نہیںہے۔فرمانِ الٰہی ہے:{ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْاوَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ }بل کہ آیت پاک کااگلاجزتوبالکل صاف بتلارہاہے کہ ایسے اموراور معاملات ؛ جو ہمارے اوراُن کے درمیان مشترک ہیںاوراُن کے کرنے سے اصولِ شریعت مانع نہ ہوں، راہِ شریعت میںکسی قسم کی رکاوٹ پیدانہ کرے توہم ان امورمیں اُن کا تعاون اوران کی مدد کرسکتے ہیں۔ہاں!جن امور میں شریعت کی مخالفت لازم آئے ایسے معصیت اورغیرشرعی معاملات میں تعاون کی اجازت ہرگزنہیںہے ۔ کیوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:’’لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق‘‘کہ مخلوق کوخوش کرنے کے لیے خالق کی ناراضگی کسی قیمت پرمول نہیںلی جاسکتی۔بل کہ ’’ساراجہاںناراض ہوپروا،نہ چاہیے‘‘کے مصداق ہمارا ہرقول وعمل ہو۔
دوسراکوئی راستہ نہیںہے:
الغرض اسلام اورقرآن نے توعدل وانصاف ،امن واخوت اورانسانیت نوازی کی بھرپورتعلیم دی ہے لیکن ان برادرانِ وطن کوہمارے عدل پر،ہماری انسانیت نوازی پریقین آئے،وہ ہماری دوستی سے مطمئن ہوں اور ہماری ذات سے وہ بے خطر رہیں۔اس کے لیے ہمیںاُن کوقریب کرناہوگااوریہ قربت ہمارے نیک سلوک ،حسنِ اخلاق نیزمعاشرت ومعاملات میںامانت ودیانت سے پیداہوگی نہ کہ عبادت اورچندسجدوں سے ۔کیوںکہ دعوتی زمین کو ہموار کرنے اوربرادران وطن کے دلوںمیںایمان ویقین کابیج بونے کے لیے اِس کے علاوہ کوئی راستہ اور دوسرا طریقۂ کارنہیںہے ۔اوریہ یادرہے کہ ابتدائے اسلام میںعرب کی سنگلاخ اوربنجرزمین پربھی یہی نسخۂ کیمیا استعمال کیا گیا تھا۔اُس کے بعدکیا ہوایہ ساری دنیاآج تک دیکھ رہی ہے ۔
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی
کیسے لوگوںسے دوستی کرناچاہیے:
اس لیے ارشادباری تعالیٰ ہے:
{لاینہٰکم اللہ عن الذین لم یقاتلونکم فی الدین ولم یخرجوکم عن دیارکم ان تبروہم}کہ اللہ تمھیں ان لوگوںکے ساتھ حسنِ سلوک اورنیکی کرنے سے نہیں روکتا،جنھوںنے تم سے دین کے بارے میںقتال نہیںکیااورنہ ہی تمھیںملک بدرکیا۔ہاں!اُن لوگوںکے ساتھ دوستی اورتعلقات سے روکاہے ،جنھوںنے ہم سے قتال کیااورملک بدربھی کیا۔یاہمارے نکالنے میںدوسروںکی مددکی ایسے لوگوںسے دوستی کرنے والے ظالم ہیں۔جیساکہ ارشادہے:
{إنماینہٰکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین وأخرجوکم من دیارکم وظاہروا علیٰ إخراجکم أن تولوہم ومن یتولہم فأولٰئک ہم الظالمون}یہ دونوںآیات سورہ ممتحنہ کی ہیں۔جس کی ابتداہی ایسے سخت اندازسے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںکہ تم میرے اوراپنے دشمن کودوست نہ بناؤ،جنھوںنے حق کاانکارکیااوررسول اورتم کونکالا۔
فاصلے مٹ جائیںگے:
اس سختی کے باوجوداللہ رب العزت معتدل مزاج،سنجیدہ طبیعت اورغیرمجرم کافروںسے نیکی اورحسن سلوک کی تلقین فرمارہے ہیں۔معلوم ہواکہ بے ایمانوںکوایمان سے سرفرازکرنے اوراُنھیںراہ اسلام پرلاکراُن کی دنیا وآخرت کوسنوارنے کایہی ایک راستہ ہے ۔کیوںکہ ہماری نیکی ،حسن سلوک،امانت ودیانت اورعدل کا اثر جوقرآن کریم بیان کرتاہے ،یہ ہو گا کہ دشمنی دوستی سے تبدیل ہوجائے گی۔عداوتیں الفتوںسے بدل جائیں گی، دوریاں سمٹ کرنزدیکیاںبن جائیں گی،دلوںکے فاصلے ختم ہوجائیں گے اوربغض وحسدکاجنازہ نکل جائے گا ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کااندازِ دعوت:
جس طرح سے سیدنایوسف علیہ السلام نے جیل اورقیدوبندکی صعوبت میںبھی پیغامِ توحیدپہنچانے میں موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیا۔ساتھ ہی ایمان وتوحیدکی شمع جلانے اورروشن کرنے سے قبل ماحول کو سازگار اور قلب کی بنجرزمین کواپنی خدمت،رفاقت اورخدادادلیاقت سے ہموارکرنے کی کوشش کی اور یوںفرمایا:{قَالَ لَا یَاْتِیْکُمَا طَعَام’‘ تُرْزَقٰنِہٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُکُمَا بِتَاْوِیْلِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّاْتِیَکُمَا ذٰلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ }اللہ کی عطاکردہ صلاحیت اور لیاقت جوکھاناآنے سے پہلے اس کی قسم کوبتلادیناہے؛ سے دونوں جیل کے ساتھیوںکے دلوں کو مانوس اور قریب کیا۔پھرپیغام توحیدسناتے ہوئے کہا:{ ٰیصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَاب’‘ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْر’‘ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ} اِس میںسب سے اہم بات دل سوزی،تڑپ اورکڑھن کے علاوہ ایک دوسری چیزاپنی استعداد کے مطابق فضاکوہمواراورماحول کوسازگار بناناہے ۔اللہ کرے کہ ہم اِن صفات اورحکمتوںسے متصف ہو کراپنے کام کوانجام دینے والے بنیں۔
ہمارے پاس تھرمامیٹرہے:
اتنی باتیںجان لینے کے بعدکسی کے ذہن میںسوال پیداہوسکتاہے کہ قرآن کریم اوراسلام نے ہمیں ان کے ساتھ نیکی کابرتاؤ،حسن اخلاق اورحسن معاشرت و معاملات کی تعلیم کیوںدی؟وہ اس لیے کہ ہمارے پاس قرآنی ہدایات، ایمان کی روشنی ، اسلامی تعلیما ت کی رہبری،حق وباطل کے درمیان امتیازاورحلال وحرام کی تمیزاور اسے ناپنے کاایسا تھرما میٹر موجود ہے،جوکسی کے پاس بھی نہیںہے ۔بل کہ اِس سے کائنات کی ساری اقوام تہی دامن اورمحروم ہیں ۔
ہمارے پاس کوئی جواب نہیںہوگا:
لہٰذاملک میںبڑھتے ہوئے نفرت کے ماحول،پھیلتی ہوئی تعصب کی فضا،مذہب کی آڑ میںجاری بدتمیزی اورظلم وزیادتی کے اِ س طوفان بلاخیزمیںقرآن کریم کے اس دعوتی نسخۂ کیمیا،مؤثرعلاج اوربے ضررتدبیرکو اپناناہمارے لیے نہ صرف ضروری ہے،بل کہ صاحبِ ایمان اورمسلمان ہونے کی وجہ سے وقت کافریضہ اورنیابتِ خداوند ی کے اعتبارسے اہم ترین ذمہ داری اورڈیوٹی بھی ہے ۔جس کاسوال روزِ حشرہم سے ضرورہوگاکہ میرے بے شمار بندے ؛جن سے مجھے پیاراورمحبت تھی،بے ایمان دنیاسے گئے ،تم نے انھیں ایمان سے کیوں نہیں جوڑا؟ وہ شیطانی پٹری پرچلتے رہے ،تم نے رحمانی پٹری پرچلانے کی کوشش کیوںنہیںکیا؟تم نے اُن کو۳۳؍ کروڑکے آگے اپنی مقدس پیشانی کیوںجھکانے دیا؟ اور آخرت کی ابدی ناکامی سے کیوںدوچارہونے دیا؟تم نے میری محبت ، خلافت اورنیابت کاکیاحق اداکیا؟ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب ہمارے پاس کچھ بھی نہیںہوگا۔بل کہ اپنے فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی اورغفلت کی وجہ سے خدا نخواستہ ہم خودہی ناکام اور نامرادنہ ہو جائیں۔ العیاذ والحفیظ! کیوںکہ ہمارے فریضہ میں{ کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ }کے خطاب اورسندِ عالی کی وجہ سے یہ بھی شامل ہے ۔
ہماری بہتری اِسی میںہے:
چناںچہ حالات کی نزاکت اورتقاضائے وقت کے لحاظ سے ہمیںمندرجہ ذیل امورکابھی خیال رکھنااور انجام دیناضروری معلوم ہوتاہے ۔(۱)اپنے آپ کواسلام اوراس کی تعلیمات سے جوڑے رکھنا۔ (۲) خلافِ شریعت اوربدعات ومنکرات سے دوری تاکہ ہمارے عمل سے اُن کاجزئِ اسلام ہونانہ سمجھاجائے ،کیوںکہ یہ بھی ایک دعوت ہے ۔(۳)برادرانِ وطن کے ساتھ رواداری ؛یعنی ان کی خوشیوںاورغموںمیںاصول شریعت کی پاسداری اورممنوعات کے ارتکاب بغیرشرکت ۔(۴)انھیںاپنے دینی،ملی اورسماجی ورفاہی کاموںسے آگاہ کرنا، جوبلاتفریق مذہب سب کے لیے ہیں۔(۵)اپنی دینی مجالس،مکتب ومدرسہ کے پروگرام اورسالانہ تقریبات میں ان کودعوت دینااوران کااکرام کرنا۔تاکہ اسلام اوردین کی معتدل باتیںوہ سن سکیںاوران کی غلط فہمیوںکاازالہ اور بنددروازہ ہو۔
اللہ رب العزت ہمیںتوفیقِ عمل عطاکرے اوراس نازک اوراہم ذمہ داری کے لیے مؤفق بنادے ۔ آمین یارب العالمین!