بدلتے منظر نامے، اور تعلیمی تقاضے

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد:

خطاب: سعادت اللہ حسنی صاحب ضبط وکمپوژ: مولانا عبد المتین

تمہید:

محترم علمائے کرام!اور دیگر ماہرین ِتعلیم!

            یہ میرے لیے بہت خوشی کا موقع ہے،کہ اس انتہائی اہم اور باوقار محفل میں،مجھے شرکت کا موقع مل رہا ہے۔ آپ سب علمائے کرام کا میں مرکز میں استقبال کرتاہوں۔ اور ا مید کرتا ہوں کہ یہ محفل ان شاء اللہ دینی تعلیم کے مستقبل کے حوالہ سے کچھ انتہائی کارآمد اور(GREAT IDEAS)انوال کرنے میں کامیاب ہوگی۔ مجھ سے کہا گیا ہے کہ بدلتے منظر نامے، اور اس میں تعلیم کے کیا تقاضے ہیں اس پرچند گزارشات آپ کی خدمت میں رکھوں۔

             خاص طور پر دینی تعلیم کے حوالہ سے علمائے کرام سے بڑا اہم رول متوقع ہوگا اوران کے رول پر ہمارے مستقبل کا انحصار ہوگا۔ یہ رول صرف مسلم امت تک محدود نہیں رہے گا؛اس لیے کہ بدلتے زمانے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ( GLOBAL VILLAGE) بن چکی ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے کہ ہمارے (ADDRESSEE)مخاطبین، ہمارے محلہ ہمارے بستی کے لوگ ہم جو بھی بات بولتے ہیں ساری دنیا اس کو سنتی ہے۔

            اور دنیا کے احوال ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔تو صرف مسلمانوں کی حد تک نہیں بل کہ ساری دنیا سے ان کا (INTERACTION)کیسے ہوتاہے؟ اور کس طرح وہ دنیا سے بات کرتے ہیں؟ اس پر ا مت مسلمہ کا انحصار ہے۔

            تو ہم کو علماء کی ایک ایسی نسل جو انتہائی بیدار مغز ہو، دنیا سے واقف ہو، دین کے مصادرسے بھی اچھی طرح واقف ہو، اور اس پر غیر معمولی عبور رکھتی ہو۔ اور دنیوی غیر معمولی سمجھ رکھتی ہو، ایسی نسل ہم کو تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب سے بڑا تقاضہ ہے۔

            تو اگر اس سے ہم اتفاق کرتے ہیں، تو پھر یہ دیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے، کہ دنیاکس رخ پر جا رہی ہے، اور آئندہ کیا (CHALLENGES)در پیش ہونے والے ہیں؟ اور اس کے حوالہ سے ہمارے تعلیمی نظام میں کیا تبدیلیاں در کار ہیں؟

            تو میں سمجھتا ہوں کہ دو تین باتیں بڑی اہم ہیں۔ خاص طور سے جب تعلیم کے حوالہ سے دنیا کی تبدیلیوں پر غور کیا جاتاہے، تو دو تین باتیں بہت ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ پہلی بات تو وہ ہے جسے ماہرین تعلیم

 KNOWLEDGE ORIENTED EDUCATION VERSES SKILL ORIENTED EDUCATION

            کہ تعلیم کا ایک انداز تو یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں۔ تعلیمی ادارے کا اصل کردار یہ ہو کہ طلباء کو علم و معلومات سے آراستہ کرے۔لیکن ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ اب یہ کردار بہت ہی کم ہوگیا ہے، اس کی ضرورت بہت کم ہوگئی ہے؛ اس لیے کہ یہ زمانہ معلومات کے سیلاب کا زمانہ ہے۔ سوشل انفارمیشن کا زمانہ ہے، معلومات کے دھماکہ کا زمانہ ہے۔ ہر طالب علم کے (FINGER TIPS )پر معلومات ہیں۔ مصادر کے بار ے میں دیکھتے ہیں کہ ساری چیزیں اب فنگر ٹپس پر آسانی سے(AVAILABLE (ہیں۔

            ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ علامہ شبلی نعمانی رحمة اللہ علیہ، علامہ سلمان ندوی، سر سید ان حضرات نے ایک ایک بات کی تحقیق کے لیے ایک ایک کتاب پڑھنے کے لیے کئی کئی ہزار کلو میٹر کا سفر کیا۔ دنیا بھر کی لائبریریوں میں تلاش کرتے رہیں، اور پہنچے مصر،رشیا اور وہاں کتابیں حاصل کیں۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ شبلی نعمانی کو جن کتابوں کو تلاش کرنے کے لیے دنیا بھر کا سفر کرنا پڑا، معمولی طالب علم کے لیے فنگر ٹپس پر دستیاب ہیں۔ وہ انگلیوں کو جنبش دیتاہے، کتاب موجود ہوتی ہے۔ تو اس لیے کہا جارہا ہے کہ ایسے زمانے میں معلومات سے زیادہ ATTITUDE اور SKILLS تعلیم کا مقصد ہونا چاہیے۔

            تو اگر ہم دینی تعلیم کے حوالہ سے اس اصول پر غور کریں، تو ہم کہ سکتے ہیں کہ کردار اور صحیح اور غلط میں تمیز آئندہ بھی جو معلومات آئے گی، اس میں کونسی چیز اسلام کے مطابق ہے، کونسی چیز اسلام کے مطابق نہیں ہے، یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت،دنیا کے مختلف نظریات میں سے کونسی چیز رد کرنے کے لائق ہے، اور کونسی چیز قبول کرنے کے لائق ہے،یہ شناخت کرنے کی صلاحیت ہے، جسے آپ SKILLS کے تابع رکھ سکتے ہیں۔ تو تعلیم میں کوشش ایسی ہونی چاہیے جو طلبامیں یہ صلاحیتیں پیدا کرے۔

LIFE LONG LEARNING

            معلومات کے ا نتقال سے زیادہ اور نالج کے ٹرانسفر سے زیادہ یہ ATTITUDE یہ لیاقت یہ صلاحیت اس کی افزائش ہو، یہ اسلامی تعلیم کا محور ومرکز ہونا چاہیے۔اس میں بہت سی تبدیلیاں در کار ہوں گی۔

            اسی طرح ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ یہ زمانہ ایک بار علم حاصل کرکے بیٹھنے کا نہیں ہے؛ بل کہ زندگی بھر(LIFE LONG LEARNING)کا زمانہ ہے۔زندگی بھر سیکھتے رہنا ہے۔

            آپ حضرات یقیناً واقف ہیں کہ اس وقت دنیا میں جو ترقی یافتہ ممالک ہیں، انہوں نے جو ترقی کے پیمانے بنائے ہیں، عام طور پر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ شرح ِخواندگی کیا ہے؟ GRADUTION RATESسے ناپتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے؟ یوروپی ممالک نے اس سے آگے بڑھ کر ایک اشاریہ ایجاد کیا ہے، وہ کہتے ہیں LIFE LONG LEARNING INDEX تو اس کا مطلب وہ کہتے ہیں کہ پوری آبادی کے اندر زندگی بھر زندگی کی آخری سانس تک نئی چیزیں سیکھتے رہنے کی کتنی صلاحیت ہے؟ کہتے ہیں ترقی کا پیمانہ یہ ہے۔ آپ نے ایم، اے کر لیا۔ بی، ایس، سی کرلیا۔ پی، ایچ، ڈی کر لیا۔ عالم، فاضل ہوگئے اور اس کے بعد پڑھنا چھوڑ دیا، اس کے بعد علم کا حصول چھوڑ دیا، نئی صلاحیتوں کا حصول چھوڑ دیا،اگر آپ زیادہ سے زیادہ آبادی میں سے ہیں، تو وہ آبادی پس ماندہ ہے۔چاہے اس میں کتنے ہی لوگ کالی فائی ہوں کتنی ہی ڈگریاں ان کے پاس ہوں۔

             لیکن اگر لرننگ کا پروسیس رک گیا ہے، نئی چیزیں نیا علم حاصل کرنے کا پروسیس رک گیا ہے، تو وہ آبادی پس ماندہ ہے۔

            اس کی کئی وجوہات ہیں، ایک وجہ یہ ہے کہ نالج بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کہا جاتاہے کہ آج سے سو سال پہلے 1900 میں دنیا میں جتنا علم ہے، اس علم کو اگر دگنا ہونا ہے تو اس کے لیے سو برس لگتے ہیں۔ ایک سو برس میں دنیا کا ٹوٹل نالج ہر سبجیکٹ کا ڈبل ہوتاہے؛ لیکن اب نالج پروڈکشن کی رفتار یہ ہے کہ ماہرین اندازہ لگاکر بتلاتے ہیں، کہ ہر آٹھ مہینے میں دنیا میں نالج ڈبل ہو رہا ہے۔سو سال پہلے جو نالج سو سال میں ڈبل ہوتا تھا، وہ ہر آٹھ مہینہ میں نالج ڈبل ہورہا ہے۔

            یعنی کسی بچے نے اسکول میں تعلیمی سال شروع کیا، اس کا تعلیمی سال مکمل ہوتے ہوتے دنیا کا نالج ڈبل ہوگیا ہے۔ آدھا نالج اس کا غیر متعلق ہوگیا ہے، تو اس رفتار سے دنیا میں علم کی ترقی ہورہی ہے۔

            تو علمائے کرام کے لیے دنیا میں اسی رفتار سے نئے چیلنجز آرہے ہیں،نئے نظریات آرہے ہیں۔ آپ مدرسہ میں کمیونزم کے رد کی پڑھائی پڑھیں گے((CAPITALISMکے رد کی پڑھائی پڑھیں گے۔مختلف مسلم فرقے جو صدیوں سے گمراہ فرقے ہیں، ان کے بارے میں تفصیل پڑھیں گے؛ لیکن پڑھ کر نکلنے تک اور دس فرقے وجود میں آئیں گے۔اور دس نئے نظریات اور دس نئے فلسفے دنیا میں ابھریں گے،تو ایسے زمانے میں تعلیم کا یہ اپروچ کہ آپ کچھ پڑھاکر مطمئن ہو جائیں، یہ کافی نہیں ہے؛ بل کہ طالب علم کے اندر زندگی بھر پڑھتے رہنے کی صلاحیت پیدا کرنا یہ انتہائی ضروری ہے۔

            میں اس موقع پر صرف ایک چھوٹا سا حوالہ دوں گا، کہ سن 2000میں اقوام ِمتحدہ کا جو ادارہ ہے”یونیسکو“اس نے اسی مقصد کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا، جسے کہتے ہیں:

COMMISSION FOR EDUCATION FOR TWENTY FIRST CENTURY

 کہ اکیسویں صدی میں تعلیم کیسی ہونی چاہیے؟ اس پر سفارشات مرتب کرنے کا کمیشن۔ دنیا کے بہترین ماہرین تعلیم کے کمیشن پر مشتمل تھا۔ فرنچ کے ایک بڑے ماہر تعلیم کی قیادت میں کمیشن بنایا گیا تھا۔انہوں نے اپنی ایک رپورٹ شائع کی ہے، یہ رپورٹ انٹرنیٹ پر آسانی سے دستیاب ہے، اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

            اس میں بہت سی چشم کشاں باتیں ہیں۔بہت تفصیل سے انہوں نے آنے والے حالات کا جائزہ بھی لیا ہے کہ ٹیکنالوجی کس روپ میں آگے بڑھ رہی ہے، اس کی وجہ سے آگے کیا چیلنجز پیش آنے والے ہیں؟ ظاہرہے عصری تعلیم کے حوالہ سے ہیں؛ لیکن ہمارے لیے بھی اس میں بہت ساری کارآمد باتیں مل جاتی ہیں۔ اس میں خاص طور پر ”جیکس ڈیلرس“ نے جو تصور دیا تعلیم کا وہ کہتے ہیں کہ تعلیم ”چار پلر“ پر کھڑی ہونی چاہیے۔

            پوری باتیں ہم سے متعلق نہیں ہوگی، لیکن بعض باتیں یقینا ہم سے متعلق ہیں۔پہلی چیز وہ کہتے ہیں:

LEARNING TO LEARN

            تعلیم کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ طلباء کو سیکھنا سکھایا جائے،کوئی چیز ان کو سکھا دینا یہ ممکن نہیں ہے، آج کے نظام تعلیم کے لیے،اس لیے کہ مسلسل نئے تقاضے پیش آرہے ہیں، ان کو مسلسل سیکھتے رہنے کے لائق بنانا، یہ نظام تعلیم کا مقصد ہونا چاہیے۔

            اس کا مطلب یہ ہے کہ گہرائی سے چیزوں کو پڑھنے کی صلاحیت علم کے سر چشموں سے واقفیت،علم کے سر چشموں تک رسائی، اور چیزوں کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت، یہ ساری صلاحیتیں ہمارے نظام ِتعلیم کے ذریعہ پید ا ہونی چاہیے۔یہ ضرورت جتنی عصری تعلیم کے لیے ہے،اتنی ہی دینی تعلیم کے لیے بھی ہے؛ بل کہ اور زیادہ ۔    اس لیے کہ ہم اہل اسلام پر تو چو طرف باطل طاقتوں کی یورش ہے۔ اور ان کا ہمیں ہر قدم پر مقابلہ کرنا ہے۔ باقی جو عصری فنون کے ماہرین ہوں گے وہ ایک میدان، دو میدان میں کام کریں گے؛ لیکن علمائے کرام کو تو دسیوں میدان میں کام کرنا ہے۔ اور دسیوں میدانوں میں طرح طرح کے نئے تقاضوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے،تو ہم سے تقاضہ ہے کہ” لرننگ ٹو لرن“ زندگی بھر سیکھتے رہنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ ہماری ایک ایسی نسل تیار ہو، جو پڑھنے کے بعد جو کچھ پڑھا اس پر مکتفی اور اس پر مطمئن نہ ہوجائے، بل کہ زندگی کی آخری سانس تک نئی چیزیں سیکھتی رہے۔

LEARNING TO DO

            دوسری چیز اس نے کہا ہے:LEARNING TO DO (جو ان کی ذمہ داریاں ہیں ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی صلاحیت۔

            اب یہ بہت تفصیلی چیز ہے، کہ ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور نئے حالات کس قسم کے ہیں؟ ٹیکنالوجی کو آپ لے لیجیے۔گذشتہ چند برسوں میں ہماری زندگی میں جو بڑی بڑی انقلابی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، وہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے، سوشل میڈیا ٹیکنالوجی نے کس طرح حالات کو بدل دیا۔ اس سے آگے بڑھ کر بڑا چیلنج آرہا ہے، وہ جنریٹیک ٹیکنالوجی، لوگ کہتے ہیں کہ انسان کے اعصابی نظام پر قدرت حاصل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

             بیسویں صدی یہ کائنات کے وسائل پر قدرت کی صدی تھی۔ اور اکیسویں صدی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ انسان کے اندرون،انسانی اعصاب پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش کی صدی ہے،اس میں لوگوں کے ذہن، ان کے افکار، ان کے اعصاب سب چیزوں کو کنٹرول میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے،یہ سب مشاہدات ہم دیکھ رہے ہیں۔ ظاہری بات ہے یہ ہمارے لیے بھی بہت بڑا چیلنج ہے،تو اس حوالہ سے ہمارے آئندہ کیا رول ہوں گے، جن کے لیے ہم تیار ہوتے رہے ہیں، وہ نہیں رہیں گے۔ اب جو نسل ہم تیار کر رہے ہیں اس کے سامنے کچھ اور رول رہیں گے۔بہت کردار ہوں گے، ان کرداروں کو بھی ہم کو سمجھنا ہوگا۔ لرننگ ٹو ڈو یعنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لائق ان کو بنانا ہوگا۔

LEARNING TO LIVE TOGETHER

            اور وہ کہتے ہیں کہ LEARNING TO LIVE TOGETHER اس کا فلسفہ ان کے ہاں کچھ اور ہے۔ اس کا فلسفہ ان کے یہاں یہ ہے کہ دنیا میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ملٹی کلچرل سوسائٹی وجودمیں آرہی ہیں۔ تو مختلف کلچر سے ایٹیوشیڈ کرنے ان کے ذہن سے چیزوں کو سمجھنے ان سب چیزوں کی صلاحیت طلباکے اندر ہونی چاہیے۔اسی صورت میں وہ اہم رول پلے (PLAY)کر سکتے ہیں۔

            آپ دیکھ رہے ہیں کوئی آئی، ٹی کا انجینئر ہے، تو وہ صبح کسی جرمن کلائڈ سے بات کررہا ہے، دوپہر میں کسی جارٹس کلائڈ کو اپنی چیز سیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ رات میں اس کا ایکسپورٹ کہیں فرانس سے ہورہا ہے۔ تو ان سب کے احوال کے لحاظ سے بات کرنے کی پوزیشن میں وہ ہو۔ یہ LEARNING TO LIVE TOGETHER ہمارے لیے اس کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ہم کو دنیا کے سارے میدانوں تک اسلام کو پہونچاناہے۔ہم صرف اپنی گلی تک محدود نہیں ہیں؛ بل کہ ہم چاہے نہ چاہے، دنیا سے بات کرنے کے لیے مجبور ہیں۔

            دنیا اب خود آپ کے سامنے سوالات لے کر آرہی ہے۔ آپ سوالات سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن دنیا آپ کے پاس سوالات لے کر آرہی ہیں۔ اور آئندہ بھی یہی صورت ِحال رہے گی کہ دنیا آپ سے بات کرے گی،آپ بات کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔اور ہر ایک کو آپ کو بتانا ہوگا یہودیوں کو بتانا ہوگا، عیسائیوں کو بتانا ہوگا،ہندو تنظیموں کے لوگوں سے بات کرنی ہوگی، ہر ایک سے بات کرنی ہوگی۔اور سب تک اسلام کا پیغام عام کرنا ہوگا، سب کے ذہنوں کو صاف کرنے کی کوشش کرنی ہوگی؛ہم چاہیں یا نہ چاہیں یہ ذمہ داری ہمارے سر آرہی ہیں، آئندہ نسلوں کو اور زیادہ آنے والی ہیتو ہمارے علماء اس کے لیے تیار ہوں۔ اس کو آپ یو کہیں کہ ٹاکننگ ٹو ایوری ون۔ ٹو ڈفرینٹ کلچر یہ ایک بڑی اہم صلاحیت ہے۔ جو ہمارے علمائے کرام کے درمیان پیدا ہونا ضروری ہے۔

            لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم انگریزی زبان سکھا دیں گے، انگریزی بولنے لگیں گے، ساری دنیا سے بات کرنے لگیں گے، یہ بہت چھوٹی بات ہے۔ لینگویج کو زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ لینگویج سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ سامنے والے کو سمجھتے ہیں یا نہیں، اس کے نظریات سے واقف ہیں یا نہیں، وہ کس بیک گراؤنڈ میں کن احوال میں بات کر رہا ہے، ان احوال سے آپ کو واقفیت ہے یا نہیں ؟ یہ زیادہ اہم ہے۔

             یہ واقفیت ہماری ہوگی، شعور ہوگا، دنیا کے احوال ومسائل ہم سب سمجھیں گے، تو بغیر لینگویج کے بھی بات کریں گے۔اردو میں بھی بولیں گے تو COMMUNICATE کریں گے۔لیکن ان ا حوال سے واقف نہ ہوں تو انگریزی کتنی اچھی ہو، بولنے میں COMMUNICATE نہیں ہوگا۔

 LEARNING TO BE

            چوتھی چیز: وہ کہتا ہے: LEARNING TO BEماسک مینو فیکچرنگ کی کمپنی نہیں ہے۔ کہ آئی فون کی کمپنی ہے تو آپ ایک لاکھ آئی فون ایک ہی ماڈل اورڈیزائن کے آپ کو بنانا ہے اور بیچناہے۔ تو نظام تعلیم اس طرح آئی فون کی کمپنی نہیں ہے۔ کہ مخصوص ڈیزائن کے لوگ اس میں تیار ہوجائیں؛ بل کہ نظام تعلیم لوگوں کی صلاحیتوں کو کمال تک پہنچانے کا نام ہے۔

             طالب علم کے ا ندر یہ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ وہ کیاہے؟ مقصد زندگی کیا ہے؟ وہ دنیا میں کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس رول کے تقاضے کیا ہیں؟ اور وہ تقاضے کیسے پور ے ہوسکتے ہیں؟ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ کلاسوں میں 20طلباء کو ہم مخاطب نہیں کر سکتے، اور ان کو ایک ہی پروڈکٹ میں کنورٹ نہیں کر سکتے؛بل کہ وہ بیس طلباء ہم کو الک الگ ٹائپ کے بنانے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ صلاحیتیں ہیں، الگ الگ پوٹینشنس ہیں، ہر پوٹیشنشن کو کمال تک پہونچاناہے۔تعلیمی بحث میں، کمہاری اور باغبانی کی مثال ہمیشہ دی جاتی ہے۔ کہ تعلیم کا ایک طریقہ کمہاری کا طریقہ ہے کہ جس طرح کمہار کام کرتاہے، کہ اس کے ذہن میں گھڑا پاٹ بنانے کا ایک ڈیزائن ہے، اور اس ڈیزائن کے مطابق وہ دس گھڑے دن میں بنا رہا ہے، یہ کمہاری کا کام ہے۔ پہلے سے ڈیزائن اس کے ذہن میں موجود ہے،اس ڈیزائن کے مطابق اس نے گھڑا تیار کردیا۔ تو آج کل ہمارا نظام ِتعلیم اور شاید دینی نظام ِتعلیم بھی اسی ڈگر پر ہے۔ کہ ایک مخصوص سیلبس اور ایک مخصوص نصاب،مخصوص کتابیں اور ان مخصوص کتابوں کے ذریعہ ہم ایک مخصوص قسم کی نسل پروڈیوس کرنا چاہتے ہیں۔

            اس کے مقابلے میں دوسرا ایپروچ کہتے ہیں باغبانی کا ایپروچ، باغبان جب باغ میں جاتاہے، تو اس کے ذہن میں کوئی ڈیزائن نہیں ہوتا، بل کہ اس کے ذہن میں یہ ہوتاہے کہ یہ آم کا بیج ہے تو آم کے PROTENTION کمال تک پہونچے۔بہترین آم اس سے نکلے، یہ گیہو کا بیج ہے تو بہترین گیہو اس سے نکلے۔ یہ گویا باغبانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم کمہاری سے باغبانی کی طرف بڑھنا چاہیے۔

            اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے کلاس روم میں دس طلبا پڑھ رہے ہیں، تو اس میں سے ایک بہترین ڈبیٹر بن کر نکلے،جو ساری دنیا سے اسلام کے حوالہ سے ڈبیٹ کرے، اسلام کا موقف پیش کرے۔ایک بہترین مصنف بن کر نکلے، ایک بہترین ادارے کی قیادت کرنے والا بن کر نکلے،ایک بہترین مخلتف زبانوں میں ترجمان بن کر نکلے۔تو دس طلباء کی جو انپڈ اسکلس ہیں، وہ کمال کو پہونچے۔وہ ترقی کریں، یہ تعلیم کا اصل مقصد ہے۔

            یہ لرننگ ٹو بی ہے، اس وقت جو عصری تعلیمی ادارے ہیں، اس میں اس کے متعلق بہت سے تجربات کیے جارہے ہیں۔

            کہ سب طلبا کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنے کے بجائے، کیسے ہم ہر ایک کو اس طرح تیار کریں کہ وہ اپنے میدان میں اتھارٹی اور ماہر فن بن کر نکلے،تو اس وجہ سے بہت سے تجربات کیے جارہے ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ ان تجربات سے ہمیں فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں کارپوریٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

            تو اگر دینی تعلیم کا ہمارا نظام اگر عصری تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، اس کا مطلب بنیادوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، بنیادیں وہی رہیں گی۔ ہمارے اصول وہی رہیں گے، جو کچھ ہم کمیونیکیٹ کرنا چاہتے ہیں، جن بنیادوں پر ٹکنا چاہتے ہیں بنیادیں وہی رہیں گی؛لیکن طریقے، کنٹین وہ اس طرح ہوں کہ جو ہمارے جدید تقاضوں کو بھی ایڈریس کریں، اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو ان شاء اللہ ایک ایسی نسل تیار ہوگی، جو صحیح معنوں میں جدید زمانے میں اہل ِاسلام کے مسلمانوں کی قیادت کر سکے گی۔ اور اسی پر آنے والے مستقبل کا انحصار ہے۔

            تو اس موقع پر یہی چند گزارشات مجھے آپ کی خدمت میں پیش کرنا تھی، میں نے ان باتوں کو آپ کو یاد دلایا، آپ ان باتوں سے اچھی طرح واقف ہیں، میں جانتاہوں۔ یہاں جو علمائے کرام جمع ہیں،وہ مختلف تجربات کررہے ہیں۔ اور جدید تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش جو آپ حضرات فرمارہے ہیں، ان کوششوں کا میں قدر دان ہوں۔ بس تصدیق کے لیے اور آپ سب کو یاد دلانے کے لیے چاہتا ہوں کہ ہم سب مل کر یہ سوچیں۔

            اللہ تعالی ہم سب کی راہوں کو روشن فرمائے۔ اور صحیح ڈائریکشن کی طرف اللہ تعالی ہماری رہنمائی فرمائے۔