حضر ت مولانا مفتی عبد اللہ پٹیل مظاہری قدس سرہ
مفتی عبدالرحیم ضیائی قاسمی
مہتمم مدرسة التوحید جامع مسجد تھنہ منڈی ضلع راجوری(جموں وکشمیر)
بین الاقوامی شہرت یافتہ نامور علمی وتحریکی شخصیت فخر گجرات حضرت مولانا مفتی عبد اللہ پٹیل مظاہری بانی جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ گجرات طویل علالت کے بعد ۶۸ برس کی عمر میں موٴرخہ :۱۹/محرم الحرام ۱۴۱۲ھء بمطابق ۸/ستمبر ۲۰۲۰ءء بروز منگل بوقت فجر دنیائے فانی سے عالم آخرت کی جانب رخصت ہوگئے رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت مفتی عبداللہ مظاہری قدس سرہ کو قسام ازل حق جل مجدہ نے لا تعداد خوبیوں اور بے شمار امتیازی اوصاف وکمالات سے نوازا تھا۔
آپ ایک بلند پایہ عالم دین، باکمال مدرس ومحدث، بالغ نظر فقیہ، بے مثال مصنف، بے نظیر منظم اور حد درجہ وسیع القلب صابر وشاکر علمی وتحقیقی مزاج و مذاق کے حامل نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔
رب کریم نے آپ کو صاف وشفاف وفصیح وبلیغ زبان عطاکی تھی، تدریس واہتمام کی باریکیوں پر بصیرت کے ساتھ ساتھ آپ میدان خطابت کے بھی عظیم شہسوار تھے، وعظ وبیان کے دروان اپنے نرالے انداز میں جب آپ انتہائی سنجیدہ ومعلومات سے بھر پور کلام فرماتے تو مجمع ساکت وصامت بیٹھاحیرت واستعجاب کی مجسم صورت بن جاتا، آپ کی ہر ایک ادا منفرد اور نفیس ہوتی، بے حد متواضع ہونے کے باوجود آپ کے چہرے اور شخصیت پر علمی جلالت شان غالب تھی، فن تقریر وخطابت میں کمال کے ساتھ آپ کے قلم میں بھی بے حد مضبوطی اور بلاکی روانی تھی،الفاظ وتعبیرات کا موزوں انتخاب اور بر جستہ استعمال آپ کی تحریر اور تقریرہردو میں مقناطیسی کیفیت پیدا کردیتا جس بنا پر آپ کو دیکھنے سننے اور پڑھنے والا لطف اندوز بھی ہوتا اور مطالعہ کی گہرائی وگیرائی اور قوت استدلال پر حیرت زدہ بھی۔
مولانا مرحوم اخاذ طبیعت کے مالک تھے چھوٹی باتوں اور معمولی واقعات سے بھی آپ بڑے بڑے نتائج کشید کرنے میں ماہر تھے اور سب سے بڑھکر آپ کو معاصر علماء وصلحاء میں حتی کہ اکابر اساتذہ میں بھی بے پناہ مقبولیت واعتباریت حاصل تھی بالخصوص محدث زماں شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری قدس سرہ آپ کی بہت تعریف فرماتے اور قطب زماں قاری صدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ اور محی السنہ شاہ ابرار الحق صاحب جیسے بزرگ آپ پر اعتبار فرمانے کے ساتھ اپنامجازبھی بناچکے تھے۔
آپ کی دل کش شخصیت، خاندانی وجاہت وشرافت، بے پناہ قوت حافظہ، فکری بالیدگی، وسعت مطالعہ، حاضر جوابی، بیدار مغزی ، علمی بصیرت، معاملہ فہمی، خورد نوازی، اصاغر پروری اورتدریس وفہیم کا دل نشیں انداز اور انتہائی بلند اخلاق ہر ایک کو آپ کا گرویدہ بنا لیتا۔
علم دوستی، زمانہ شناسی، افراد سازی، عالی ظرفی، صلاحیت فہمی اور علمی امور سے والہانہ دلچسپی آپ کا وصف خاص تھا، کتب بینی سے عشق کی حدتک لگاوٴ اور خدمت خلق کا قابل رشک جذبہ آپ کی نمایاں خصوصیات تھی، پریشان ومفلوک الحال ضرورت مندوں کی فریاد رسی کی خاطر ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، اور بیماری وکمزوری نیزمتنوع مصروفیات ومشاغل کے باوجود حسب معمول عنایات ونوازشات کا سلسلہ آخری وقت تک جاری وساری رہا۔
اس سلسلہ میں بہت سے واقعات ہزاروں میل دور رہنے کے باوجود ہمیں سننے میں ملتے رہے جنہیں اس موقعہ پر ذکر کرنا طوالت کا باعث ہوگا، الغرض اوصاف وخصوصیات کی فراوانی اور عظمت وشہرت کی بلندی پر فائز ہونے کے باوجود آپ بہت ہی منکسر المزاج فطرت وطبیعت رکھنے والے سادگی پسند شخص تھے۔
مولانا مفتی عبداللہ صاحب کی پوری زندگی حرکت وتحریک سے بھر پور اور جہد مسلسل سے عبارت تھی جامعہ ڈابھیل ومظاہر علوم سہارنپور سے فراغت کے بعد ابتداً فلاح دارین ترکیسر میں تدریسی خدمات سے عملی زندگی کا جب آغاز فرمایا تو اپنے انداز تدریس وتفہیم اور شفقت ومحبت سے طلبہ کے قلوب کو مسخر کردیا اوربعدازاں جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ کے قیام اور اسکی شاہانہ وخسروانہ انوکھی تعمیر وتزئین اور مثالی تعلیم وتربیت کا پرنور ماحول توجگ ظاہر ہے․․․․․ عیاں راچہ بیاں․․․آپ کی شبانہ روز محنتوں سے بفضل خداوندی بڑی قلیل مدت میں مظہر سعادت کا شمار ملک کے ممتاز اور نمایاں اداروں میں ہونے لگا اور ان شاء اللہ اس سلسلے میں آپ کی خدمات عالیہ کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ،فجزاہم اللہ عنا احسن الجزاء
تقریباً چاردہائیوں پر محیط آپ کی دینی، علمی، عملی، تحقیقی، ملکی، ملی، قومی اور تدریسی وتنظیمی خدمات ہم سب کے لئے قابل تقلید بھی ہیں اور قابل رشک بھی اور ان شاء اللہ آنمحروم کے لئے باعث رفع درجات بھی، آپ کی چند نمایاں تصانیف درج ذیل ہیں۔
اسعاد القاری شرح البخاری ۵جلدوں میں، مباحث فی الحدیث وعلومہ، غایة الوصول الی علم الاصول، فتاوی سعادت،اسعد الغایات بالتقدیم علی المشکوةٰ،علاوہ ازیں قریب ایک درجن کتب پر کام جاری ہے جو عنقریب منصہ شہود پر آئیں گی۔
بہر حال آدمی ہمیشہ زندہ نہیں رہتا مگر اس کا کام اسے زندہ رکھتا ہے چنانچہ حضرت مفتی صاحب بھی اپنے گرانقدرکار ناموں کی باعث زندہ وتابندہ ہیں اور رہیں گے، رب کریم غریق رحمت فرمائے، قبر کو منور فرمائے اور اولاد واحفاد کو اپنی حفظ وامان میں رکھ کر دینی خدمات کے لئے قبول فرمائے اور ملت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین