باری تعالیٰ کی معرفت اور اہل ایمان کے مختلف مراتب

            خدا کی معرفت اور اس کے حصول کے مختلف درجے ہیں۔ حق پرست چاہیں تو ذاتی مجاہدے اور محنت سے ان مراحل کو طے کر کے کمال کے مرتبے کو پہنچ سکتے ہیں، نیز یہ امر بھی واضح ہے کہ جس قدر معرفت الٰہی نصیب ہو گی اسی درجہ کا تقویٰ اور تقرب، خوف و خشیت، عقیدت و محبت اور جذ بہٴ بندگی بندے کے دل میں پیدا ہو گا۔

پہلا درجہ:

            جدید سائنس اور اس کے مختلف علوم جیسے: طبیعیات، علم حیات اور کیمیا کے ماہرین جن کے سامنے کائنات کھلی کتاب کے مانند ہوتی ہے اور جو مختلف اشیاء اور ان کے حقائق پر طویل ریسرچ میں عمریں کھپا دیتے ہیں۔ مختلف تجربات اور کافی غور و خوض کے بعد ان میں سے بعض خوش نصیب ہستیوں کو یہ توفیق ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے وجود اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس کی صناعی، اس کی قدرت اور اس کی حکمت و تدبیر کا زبان و دل سے اقرار کر لیتے ہیں، لیکن چوں کہ اللہ کی کتاب یعنی قرآن ِکریم اور اس کے پیغمبر یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کی تعلیمات کی کوئی خبر یا اس سے ادنیٰ واقفیت بھی انہیں میسر نہیں ہوتی، اس لئے انہیں کامل ایمان نصیب نہیں ہوتا، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی معرفت کا ادنی درجہ حاصل ہونے کے باوجود وہ ایک طرح سے اندھیرے میں رہتے ہیں۔ اس لئے کہ کتاب و سنت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں باری تعالیٰ کے اسما اور اس کی صفات کی واقفیت نہیں ہوتی نہ ان کے دلوں میں اس کی محبت، عقیدت اور اس سے خوف و خشیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، جس سے دلوں میں نیکی کی رغبت اور بدی سے نفرت پیدا ہوتی ہے، اور بندہ خدا کی بندگی اور اس کی عبادت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ تب جاکر کہیں صحیح معرفت ِالٰہی اور یقین میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔

            چوں کہ ان لوگوں کے دلوں میں خدا پر کسی درجہ کا ایمان و یقین پایا جاتا ہے، اور اس کی وجہ سے ان کے اندر خدا کی کسی قدر عظمت اور محبت پیدا ہو جاتی ہے، اس لئے اس ایمان کے صلے میں دنیا میں اُنہیں دلی راحت و سکون میسر ہوتا ہے اور خدا نے چاہا تو آخرت میں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔

دوسرا درجہ:

            خدا کی معرفت کے دوسرے درجے میں وہ روایتی اور خاندانی مسلمان شامل ہیں جن کے کان بچپن ہی سے خدا کے وجود اور اس کے اسماء و صفات سے آشنا ہوتے ہیں، اور جن کے تحت الشعور میں خدا اور اس کے نبیوں پر ایمان سرایت کئے ہوتا ہے، لیکن چوں کہ یہ ایمان انہیں بلا کسی محنت اور تلاش و جستجو کے حاصل ہوتا ہے، اس لئے اس طبقہ کا ایمان بھی متوسط اور خدا کی معرفت بھی انہیں کم نصیب ہوتی ہے اور اسی لحاظ سے ان کے اندر خدا کا خوف، محبت، ذوق عبادت، تقوی اور اس سے نزدیکی پیدا ہوتی ہے۔

تیسرا درجہ:

            اس زمرہ میں وہ مومنین صادقین اور علماء امت شامل ہیں، جنہیں شریعت ِمطہرہ اور دستورِ الٰہی کا علم اور اس کا فہم نصیب ہوتا ہے، جس کا سرچشمہ براہِ راست خدا کی کتاب اور اس کے نبیوں کی تعلیمات ہوتی ہیں۔ نیز ذات باری کے وجود اور اس کی معرفت کا یقین مختلف عقل و نقلی دلائل سے انہیں حاصل ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ خدا کی معرفت کے اونچے درجے پر فائز ہوتا ہے، اور عام مسلمانوں کے مقابلے میں علماء کا یہ گروہ محبت و بندگی اور خشیت الٰہی کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے؛ چناں چہ اس گروہ کے متعلق باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            ”إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓوٴُ“۔(فاطر ۲۸)

            ترجمہ:”اور خدا سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت کا) علم رکھتے ہیں“۔

چوتھا درجہ:

            یہ نورانی اور مقدس ترین گروہ انبیاء و مرسلین کا گروہ ہے، جو اہم امتیاز اور زبردست معجزات کے حامل ہوتے ہیں۔ یہی وہ بابرکت گروہ ہے جو معرفت کے سب سے اونچے اور بلند مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ جن کی ہمسری اور برابری کا کوئی شخص دعوی نہیں کر سکتا؛ چناں چہ فضل و کمال کے جملہ اوصاف جیسے خدا پر ایمان اس کی محبت اس کا خوف اس کی بندگی، اس کی راہ میں استقامت اور مصائب پر صبر، غرض جملہ مکارم ِاخلاق علی وجہ الکمال ان کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ مقامِ بلند انہیں اس لئے حاصل ہوتا ہے کہ رسالت و نبوت کے نازک اور بلند ترین منصب پر فائز ہونے سے پہلے اور بعد میں زندگی کے کسی اسٹیج پر ان سے کوئی چھوٹا بڑا گناہ یا قصور سرزد نہیں ہوتا۔ نیز یہ وہ مقدس ہستیاں ہوتی ہیں جن کے منہ میں حق تعالیٰ اپنا پاک کلام ڈالتا ہے۔ بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے انہیں منتخب کرتا ہے۔ اپنی معرفت، اس پر کامل یقین اور اس پر مستزاد فہم و فراست اور بالغ نظری اپنے دست ِخاص سے انہیں عطا فرماتا ہے، اپنے اسما و صفات اور تمام اشیاء کا علم انہیں عطا فرماتا ہے، جس کی وجہ سے ان کا ایمان کامل اور یقین راسخ ہوتا ہے۔ اور اس سب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی محبت اس کی طاعت و بندگی کا جذبہ سب سے زیادہ ان کے ولوں میں موجزن ہوتا ہے؛ چناں چہ نبیوں کے پیشوا اور خاتم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء ورسل کے بعد سب سے مقدس گروہ یعنی جماعت صحابہ (رضوان اللہ علیہم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

            ”خدا کی قسم! میں تم سے زیادہ خدا کو پہچانتا ہوں، اور اس سے ڈرتا ہوں“۔

 (اللؤلؤ والمرجان فیما اتفق علیہ الشیخان (۳/۱۱) (بخاری و مسلم)